Tag: جنوری وفیات

  • نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز مصوّر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل شاکر علی 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے فنِ خطّاطی میں‌ تجرید کے لیے بھی شہرت پائی۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلستان سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس کیا۔ شاکر علی نے مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آنے کے بعد لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، انھوں نے اپنایا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر کے فن اور اس حوالے سے ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا اور 1971ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان کے ممتاز طبلہ نواز استاد شوکت حسین کی برسی

    پاکستان کے ممتاز طبلہ نواز استاد شوکت حسین کی برسی

    25 جنوری 1996ء کو پاکستان کے مشہور طبلہ نواز استاد شوکت حسین وفات پاگئے۔ انھوں نے اس فن میں‌ اپنے کمال و مہارت کے سبب اپنے دور کے تمام نام وَر گویّوں اور مشہور و معروف گائیکوں اور سازندوں کی سنگت میں اپنی جگہ بنائی اور خوب داد وصول کی۔ کلاسیکی موسیقی کے ان عظیم ناموں میں رسولن بائی، استاد عاشق علی خان، بڑے غلام علی خان، استاد امید علی خان، استاد عبدالوحید خان، استاد بھائی لعل محمد سنگیت ساگر، استاد بندو خان، روشن آرا بیگم شامل ہیں۔

    1928ء میں پھگواڑہ، ضلع جالندھر میں پیدا ہونے والے استاد شوکت حسین کو وفات کے بعد لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    استاد شوکت حسین کے والد استاد مولا بخش دھرپد گایا کرتے تھے۔ استاد شوکت حسین نے ان سے پکھاوج بجانے کی ابتدائی تربیت حاصل کی۔ بعد میں اپنے بڑے بھائی سے طبلہ بجانے کی تربیت لی۔

    1945ء میں وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں ملازم ہوگئے جہاں ان کی ملاقات استاد گامی خان کے شاگرد ہیرا لال سے ہوئی اور ان سے بھی استفادہ کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آگئے جہاں انہوں نے اپنے زمانے کے ایک نام ور استاد قادر بخش پکھاوجی سے طبلہ بجانے کی تربیت لی۔ ان کے فن کی قدر کی گئی اور بہت نام ہوا۔ یوں وہ اپنے وقت کے بڑے گویّوں کے ساتھ محافل میں شریک ہونے لگے۔ نام ور کلاسیکی گلوکار انھیں‌ ملک اور بیرونِ ملک دوروں پر سنگت کے لیے لے جانا پسند کرتے تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ اس فن میں استاد شوکت حسین کے شاگردوں میں عبدالستار تاری، پیٹرک انتھونی، اظہر فاروق، بشیر احمد کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

  • معروف صدا کار، باکمال اداکار غزالہ رفیق کی برسی

    معروف صدا کار، باکمال اداکار غزالہ رفیق کی برسی

    غزالہ رفیق پاکستان کی معروف فن کارہ تھیں جو 24 جنوری 1977ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئیں‌۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ غزالہ رفیق خداداد صلاحیتوں‌ کی مالک تھیں جنھوں نے گلوکاری اور صدا کاری کے علاوہ اداکارہ کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    غزالہ رفیق کا اصل نام بلقیس انصاری تھا۔ وہ 1939ء میں قنبر علی خان میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھیں گھر میں علمی و ادبی ماحول میسر آیا جس کے باعث وہ ابتدا ہی سے لکھنے لکھانے اور گلوکاری کی طرف مائل ہوگئیں۔ 1957ء میں انھوں نے اپنے زمانے کے نام ور براڈ کاسٹر زیڈ اے بخاری کی فرمائش پر ریڈیو پاکستان کے کراچی سینٹر کے لیے گانے ریکارڈ کروائے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے انھوں نے کئی اردو پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں صبح دم دروازہ خاور کھلا، سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ اسی دوران کئی ڈراموں میں صداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    غزالہ رفیق نے امرائو بندوخاں اور ماسٹر محمد ابراہیم سے موسیقی کی تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں‌ نے ایک سندھی فلم میں بھی کام کیا جب کہ کراچی ٹیلی وژن کے لیے ہدایت کار عبدالکریم بلوچ کے پہلے سندھی سیریل زینت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ متعدد اردو ڈراموں میں بھی کام کیا۔ ان کے یادگار ڈراموں میں گڑیا گھر، پت جھڑ کے بعد، میں کون ہوں اے ہم نفسو، آخری موم بتی اور مرزا غالب سرفہرست ہیں۔ غزالہ رفیق نے سندھی ڈراموں عمر ماروی، سسی پنوں، نوری جام تماچی میں بھی اداکاری کی۔

  • موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    موسیقار لوک گلوکار استاد جمن کا یومِ وفات

    محمد جمن پاکستان کے نام وَر لوک فن کار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ 24 جنوری 1990ء کو کراچی میں‌ انتقال کرجانے والے اس لوک گلوکار اور موسیقار کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

    محمد جمن 10 اکتوبر 1935ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد زمین دار تھے، مگر شعر و موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔ محمد جمن کے نانا بھی مقامی ساز طنبورہ بجانے پر دسترس رکھتے تھے۔ یوں محمد جمن کو ایسا ماحول ملا تھا جس میں فطری طور پر ان کی طبیعت موسیقی پر مائل ہوئی اور بعد میں انھوں نے گلوکاری کے فن میں‌ نام و مقام بنایا۔

    ابتدائی زمانے میں‌ محمد جمن نے طنبورہ بجایا اور ساتھ ہی گلوکاری بھی کرنے لگے۔ ان کی آواز اور انداز ان کی وجہِ شہرت بنا اور اس میدان میں ان کے کمال اور فن میں مہارت نے انھیں‌ استاد جمن کہلوایا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھیں ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور یوں ان کی پہچان کا سفر بھی شروع ہوا۔ محمد جمن پہلے کراچی اور پھر حیدرآباد اسٹیشن سے اپنی آواز کا جادو جگانے لگے۔

    ریڈیو پاکستان، حیدرآباد سے وابستگی کے دوران انھیں‌ موسیقی ترتیب دینے کا بھی موقع ملا۔ محمد جمن کے شاگردوں میں روبینہ قریشی، زیب النسا، زرینہ بلوچ اور محمد یوسف کے نام سرفہرست ہیں۔

    محمد جمن کے گائے ہوئے کئی لوک گیت اور صوفیانہ کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان کی آواز میں‌ صوفیانہ کلام سننے والوں پر خاص رقّت اور جذب و وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

    حکومت پاکستان نے 1980ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ محمد جمن کراچی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    آج عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، مؤرخ، محقق اور ڈراما نویس پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ وفات ہے۔ 22 جنوری 1981ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان تھے۔ تعلیم و تدریس اور مختلف موضوعات پر ان کی کتب پاکستان سمیت دنیا کی مشہور جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 20 نومبر، 1903ء کو ضلع اٹاوہ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے بی اے، تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ بعدازاں اسی ادارے کے شعبہ تاریخ میں لیکچرار ہوگئے، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا اور برطانیہ چلے گئے۔ انھوں نے سلطنتِ دہلی کا نظمِ حکومت کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ہندوستان واپسی پر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور پھر ڈین بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں کراچی آگئے۔ انھیں جامعہ کراچی کے علاوہ مہاجرین و آبادکاری کے وزیرِ مملکت اور بعد ازاں مرکزی حکومت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔

    1955ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر ہوئے جہاں وہ 1960ء تک خدمات انجام دیں اور اسی دوران برِصغیر کی تایخ پر شہرۂ آفاق کتاب برعظیم پاک و ہند کی ملّتِ اسلامیہ تصنیف کی۔ ان کی اردو اور انگریزی کتب میں سے دو اہم کتب The Struggle for Pakistan اور The Administration of Mughal Empire بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اشتیاق حسین قریشی نے تین اہم تصانیف تعلیم اور تاریخ و سیاست کے موضوع پر سپردِ قلم کیں۔

    1979ء انھیں مقتدرہ قومی زبان کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انھیں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو ستارۂ پاکستان سے نوازا۔ وہ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی

    آج اردو زبان کے نام وَر شاعر رضی اختر شوق کی برسی ہے۔ وہ 22 جنوری 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    رضی اختر شوق کا اصل نام خواجہ رضی الحسن انصاری تھا۔ 23 اپریل 1933ء کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدر آباد دکن سے حاصل کی اور اردو زبان میں‌ تعلیم و تدریس کے لیے دنیا بھر میں‌ مشہور جامعہ عثمانیہ سے گریجویشن کیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد رضی اختر شوق کراچی آگئے جہاں جامعہ کراچی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ یہاں انھوں نے ادبی حلقوں میں اپنے جدید اور منفرد لب و لہجے کے سبب پہچان بنائی۔ وہ ایک اچّھے ڈراما نگار بھی تھے اور ان کے ڈرامے ریڈیو پر پسند کیے گئے۔

    رضی اختر شوق کے شعری مجموعوں میں مرے موسم، مرے خواب اور جست شامل ہیں۔ ان کے متعدد اشعار میں سے چند یہ ہیں۔

    ہم روحِ سفر ہیں ہمیں ناموں سے نہ پہچان
    کل اور کسی نام سے آ جائیں گے ہم لوگ

    ایک پتھر، اِدھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں
    میری اس شہر میں کس کس سے شناسائی ہے

  • شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

    آج شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ آزاد اردو زبان کے نام ور انشا پرداز، نقّاد، شاعر، مؤرخ اور اخبار نویس تھے۔ ان کی کتاب آبِ حیات کلاسیکی دور کے ادب اور شخصیات کا منفرد تذکرہ اور تنقید ہے جس کا خوب شہرہ ہوا۔ اسی طرح نیرنگِ خیال بھی آزاد کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے۔

    دہلی، آزاد کا وطن تھا جہاں انھوں‌ نے 1830ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑا کام کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران انھیں‌‌ گولی مار دی گئی۔ والد کی موت آزاد کو مشکلات پیش آئیں‌ اور وہ ہجرت کے بعد لاہور چلے آئے تھے۔

    محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پہنچنے والے آزاد نے محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انھیں سرکار نے شمسُ العلما کا خطاب عطا کیا۔

    آزاد نے اردو ادب میں‌ جدید تذکرہ نگاری کے ساتھ مختلف اصناف میں‌ اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو متعارف کروایا۔ انھوں نے لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع بھی روشن کی اور شعرا کو نظم کی طرف مائل کیا۔ آزاد کو جہاں ان کی ادبی خدمات کے سبب بہت پذیرائی ملی، وہیں‌ بعد میں آنے والوں نے ان کی تنقید اور تذکرہ نگاری کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ تاہم آزاد نے کئی اہم اور قابل ذکر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی ادبی خدمات اور مقام و مرتبے کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانیِ تحریکِ جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہرِ تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلٰی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامیِ اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔“

    زندگی کی مشکلات کے ساتھ انھیں کئی صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ان کی بیٹی کی موت کا المیّہ بھی شامل تھا اور اس کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ یہ حالت وفات تک برقرار رہی۔

    آزاد نے 22 جنوری 1910ء کو وفات پائی۔ انھیں‌ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سخن دانِ فارس، دربارِ اکبری، سیرِ ایران، جامع القواعد، نگارستان فارس، قصصِ ہند اور نگارستان شامل ہیں۔

  • یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    یومِ وفات: قلی قطب شاہ اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر تھے

    21 جنوری 1611ء کو اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ وفات پاگئے تھے۔ وہ جنوبی ہند کے گولکنڈہ کے قطب شاہی خاندان کے پانچویں حکم راں تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 1565ء بتایا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ ہی وہ حکم راں تھے جنھوں نے حیدرآباد (دکن) شہر بسایا اور وہاں شہرہ آفاق یادگار چار مینار تعمیر کروائی۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ محمد قلی قطب شاہ کو فنِ تعمیر سے خاص دل چسپی تھی جس کا ثبوت چار مینار، مشہور مکہ مسجد اور حیدرآباد شہر کی کئی دوسری عمارتیں ہیں۔

    اس باذوق حکم راں کو شعروادب سے خاص علاقہ تھا اور وہ فارسی، دکنی ، تلنگی اور اردو زبان میں شاعری کرتے تھے۔ ادب کے مؤرخین و تذکرہ نگاروں نے انھیں اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر لکھا ہے۔ ان کا دیوان ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین سلطان محمد قطب شاہ نے مرتب کیا تھا جسے 1941ء میں ڈاکٹر محی الدین زور نے جدید ترتیب کے ساتھ شایع کیا۔

    قلی قطب شاہ نے پچاس ہزار سے زائد شعر کہے، سادگی اور شیرینی اس کے کلام کا جوہر ہے۔ تصوف اور عاشقانہ رنگ میں اشعار کہتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرقع نگاری اور مناظرِ فطرت کے بیان کی بنیاد اسی نے رکھی جسے بعد میں آنے والے شعرا نے بھی اپنایا۔

    محمد قلی قطب شاہ نے اس زمانے کی ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزلیں خاص طور سے قابلِ توجہ ہیں۔

  • بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    بابائے ظرافت دلاور فگار کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر دلاور فگار کی برسی ہے۔ 21 جنوری 1998ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلاور فگار کو بابائے ظرافت بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے شعر سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا تھا، لیکن بعد میں مزاح گوئی کی طرف مائل ہوئے اور یہی کلام ان کی وجہِ شہرت بنا اور دلاور فگار اردو کے اہم مزاح گو شعرا میں شمار کیے گئے۔

    ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے اور 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں بڑا نام و مرتبہ پایا۔ دلاور فگار نے جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی اور ‌مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ شہر کے باذوق اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو سمجھنے والوں نے انھیں‌ بہت پسند سراہا اور پذیرائی دی۔

    اردو کے اس مزاح گو شاعر کے مجموعہ ہائے کلام انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامتِ اعمال، مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کہا سنا معاف کے نام سے شایع ہوئے۔ دلاور فگار نے امریکی جمی کارٹر کی ایک تصنیف کا اردو ترجمہ بھی خوب تَر کہاں کے نام سے کیا تھا۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ ان کے کئی مزاحیہ قطعات اور اشعار مشہور ہوئے اور اکثر تحریر و تقریر میں اپنے دل کی بات کہنے اور مدعا بیان کرنے کے لیے ان کے کلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کا وہ مشہور قطعہ نقل کررہے ہیں جس میں انھوں‌ نے ہمارے سماج میں جرم کے پھلنے پھولنے اور مجرم کے آزاد گھومنے کا سبب بیان کیا ہے۔

    حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
    کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
    میں بتائوں تجھ کو، تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ لے
    لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

    انھو‌ں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کا اسلوب اور موضوع کی تہ داری انھیں جدید دور کے مزاح گو شعرا میں منفرد اور ممتاز بناتا ہے اور ہمیں تبسم و لطافت کے ساتھ سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔

    اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔

    نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
    زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری

  • علم و ادب میں ممتاز سیّد عابد علی عابد کی برسی

    علم و ادب میں ممتاز سیّد عابد علی عابد کی برسی

    20 جنوری1971ء کو وفات پانے والے سیّد عابد علی عابد علم و ادب کی دنیا میں شاعر، ادیب، نقّاد، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔ سیّد عابد علی عابد نے ادب کی مختلف اصناف میں‌ طبع آزمائی کی اور اپنے زورِ قلم کو منوایا۔ ان کی تخلیقات میں تنقیدی مضامین کے علاوہ ڈرامے، افسانے، ناول، شاعری اور تراجم سبھی کچھ شامل ہیں۔

    سیّد عابد علی عابد 17 ستمبر 1906ء کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں پیدا ہوئے تھے۔ حکیم احمد شجاع کے رسالے ’’ہزار داستاں‘‘ سے انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ وہ دیال سنگھ کالج سے تقریباً 25 برس وابستہ رہے اور اس کالج کے پرنسپل کا عہدہ بھی سنبھالا۔

    کالج سے ریٹائرمنٹ کے بعد مجلسِ ترقیِ ادب سے وابستہ ہوئے جس کے سہ ماہی علمی جریدے ’’صحیفہ‘‘ کی ادارت بھی کی۔ عابد علی عابد اردو ہی نہیں فارسی اور انگریزی زبان و ادبیات کا علم رکھتے تھے۔

    ان کی چند تصانیف کے نام یہ ہیں۔ اصولِ انتقاد، ادب کے اسلوب، شمع، یدِبیضا، سہاگ، تلمیحاتِ اقبال، طلسمات، میں کبھی غزل نہ کہتا۔