Tag: جنوری وفیات

  • پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    پاکستانی فلمی صنعت کے پہلے "کامیڈین ہیرو” نذر کی برسی

    اداکار نذر کو پاکستانی فلموں کا پہلا ‘کامیڈین ہیرو’ کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں بننے والی فلموں میں کام کیا اور سنیما بینوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ 20 جنوری 1992ء کو اس مزاحیہ اداکار کا انتقال ہو گیا۔

    نذر کا پورا نام سید محمد نذر حسین شاہ تھا۔ وہ 1920ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے فلمی کیریئر کا آغاز قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی ایک فلم نیک دل سے ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد نذر نے یہاں فلم ‘تیری یاد’ میں ایک مزاحیہ کردار ادا کرکے پہلے فلمی کامیڈین کا اعزاز اپنے نام کیا۔ ان کی اداکاری کا یہ سلسلہ غلط فہمی، پھیرے، لارے، انوکھی داستان، ہماری بستی، جہاد، امانت، اکیلی، بھیگی پلکیں، کنواری بیوہ اور دوسری کئی فلموں تک کام یابی سے جاری رہا۔

    نذر نے مجموعی طور پر 171 فلموں میں کام کیا جن میں 117 فلمیں اردو، 51 پنجابی زبان میں تھیں۔ کوئل وہ فلم تھی جس میں نذر نے ولن کا کردار ادا کرکے خود کو کام یاب ‘کامیڈین ولن’ بھی ثابت کیا۔

  • مدھر آواز میں گیتوں کی بہار مہناز بیگم کو زندہ رکھے گی

    مدھر آواز میں گیتوں کی بہار مہناز بیگم کو زندہ رکھے گی

    پاکستان کی معروف گلوکار مہناز بیگم کو مداحوں سے بچھڑے سات برس بیت گئے۔ 19 جنوری 2013ء کو جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والی مہناز بیگم کی آواز آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے اور وہ اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

    مہناز بیگم پاکستان کی وہ باصلاحیت گلوکارہ تھیں جن کی آواز میں گیتوں نے فلمی پردے کے شائقین، ریڈیو کے سامعین اور ٹیلی ویژن کے ناظرین کو گویا اپنے سحر میں جکڑ لیا۔

    مہناز 1958ء کو کراچی میں مشہور مغنیہ کجن بیگم کے ہاں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام کنیز فاطمہ تھا۔

    مہناز بیگم نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور طربیہ و المیہ ہر قسم کے گیت گائے اور غزل کے علاوہ سلام و مرثیہ بھی اپنے مخصوص انداز سے پڑھا اور مقبول ہوئیں۔ ان کے استاد امراؤ بندو خان کے بھتیجے نذیر تھے جنھوں نے انھیں مہناز کا نام دیا۔ گلوکارہ نے موسیقی کی تربیت مہدی حسن خان کے بڑے بھائی پنڈت غلام قادر سے حاصل کی۔

    مہناز بیگم نے ساڑھے فلموں کے لیے ڈھائی ہزار سے زیادہ نغمات ریکارڈ کروائے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • حبیبُ الرّحمٰن جن کے روشن مستقبل کی پیش گوئی دھیان سنگھ نے کی تھی

    حبیبُ الرّحمٰن جن کے روشن مستقبل کی پیش گوئی دھیان سنگھ نے کی تھی

    19 جنوری 1984ء کو ہاکی کے مشہور کھلاڑی حبیب الرّحمٰن کراچی میں وفات پاگئے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے اور حبیب الرّحمٰن اس دور کے کھلاڑی ہیں‌ جب اس کھیل میں پاکستان کا ڈنکا بجتا تھا۔ ماضی میں پاکستان کی ہاکی ٹیم اولمپک گولڈ میڈل، عالمی کپ، چمپئنز ٹرافی جیسے اعزازات سمیٹ چکی ہے۔

    حبیبُ الرّحمٰن ہاکی کے وہ مشہور کھلاڑی ہیں جنھوں نے کم عمری میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس زمانے کے عظیم کھلاڑی دھیان سنگھ کی توجہ حاصل کی تھی اور دھیان سنگھ نے اس وقت ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی تھی۔

    حبیبُ الرّحمٰن نے قیامِ پاکستان کے بعد 1952ء کے ہیلسنکی، 1956ء میلبرن اولمپکس اور 1958ء کے ٹوکیو کے ایشیائی کھیلوں میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔

    ملک کے قومی کھیل ہاکی کے اس مایہ ناز کھلاڑی کو انٹرنیشنل امپائر اور پاکستانی ہاکی ٹیم کا کوچ بھی بنایا گیا۔

  • پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کا یومِ وفات

    پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو لالہ سدھیر کا یومِ وفات

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لالہ سدھیر تاریخ کے مشہور جنگجو اور لڑاکا کرداروں کو نبھانے میں اپنے دور کے ہر اداکار سے آگے نکل گئے اور دہائیوں تک فلم انڈسٹری پر چھائے رہے۔ بلاشبہ انھوں نے سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    لالہ سدھیر کو خاص طور پر میدانِ جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھنے والے ایسے متأثر ہوئے کہ انھیں ‘جنگجو’ کہنا شروع کردیا۔ آج اس مشہور و معروف اداکار کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا۔ سنیما نے انھیں سدھیر کا نام دیا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے اس باکمال اداکار کو عزت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارا جانے لگا جب کہ شائقین نے انھیں جنگجو ہیرو مان لیا۔ مشہور ہے کہ سدھیر ایک نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں بہت پسند کیا۔

    سن آف اَن داتا، کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔

    فلموں میں شان دار اداکاری کے لیے نگار ایوارڈز حاصل کرنے والے سدھیر کو ان کی 30 سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

    19 جنوری 1997ء کو لالہ سدھیر اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • صوفی دانش وَر، شاعر اور ادیب واصف علی واصف کی برسی

    صوفی دانش وَر، شاعر اور ادیب واصف علی واصف کی برسی

    معروف شاعر، مصنف، کالم نویس اور دانش وَر واصف علی واصف 18 جنوری 1993ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھیں ایک صوفی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    واصف علی واصف 15 جنوری 1929ء کو شاہ پور خوشاب میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خوشاب سے حاصل کی اور بعد میں جھنگ سے میٹرک اور بی اے اور بعد ازاں ایم اے انگریزی (ادب) میں داخلہ لیا۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ شان دار رہا جب کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں ہاکی کے بہت اچّھے کھلاڑی رہے۔ زمانہ طالب علمی میں‌ مختلف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے اور متعدد اعزازات اور انعامات بھی جیتے۔

    واصف علی واصف نے عملی زندگی میں تعلیم اور تدریس کا شعبہ چنا اور ساتھ ہی اپنی فکر اور وعظ کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ایک درویش صفت انسان، صوفی اور روحانیت کے ماہر کے طور پر شہرت حاصل کی۔

    قطرہ قطرہ قلزم، حرف حرف حقیقت، دل دریا سمندر، گمنام ادیب، ذکرِ حبیب، دریچے ان کی تصانیف ہیں جنھیں‌ ان کے طرزِ فکر، اسلوب اور صوفیانہ مضامین کے سبب قارئین نے بے حد پسند کیا۔ انھوں نے شاعری بھی کی اور پنجابی زبان میں‌ بھی ان کا ایک شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا۔

    آپ کی تحریروں میں صوفیانہ رنگ نمایاں ہے اور ایک معلم کی حیثیت سے اپنی بات یوں‌ پیش کرتے کہ کوئی ان پڑھ یا عام آدمی بھی اسے آسانی سے سمجھ لے اور علم سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس صوفی دانش وَر کی مجالس میں نہ صرف عوام بلکہ مشہور و معروف شخصیات بھی شریک ہوتی تھیں اور لوگ دانائی اور حکمت سے بھرپور باتیں عقیدت اور نہایت شوق سے سنتے تھے۔ آج بھی ان کی کتابیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔

  • نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    نام وَر نقّاد اور افسانہ نگار محمد حسن عسکری کی وفات

    18 جنوری 1978ء اردو کے نام ور نقّاد محمد حسن عسکری کا یومِ وفات ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آئے اور کچھ عرصے بعد کراچی میں سکونت اختیار کرلی جہاں ایک مقامی کالج میں انگریزی ادب کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور کراچی میں علمی و ادبی کاموں اور سرگرمیوں میں مصروف رہے۔

    محمد حسن عسکری 5 نومبر 1919ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا جہاں انھوں نے فراق گورکھپوری اور پروفیسر کرار حسین جیسے اساتذہ سے استفادہ کیا۔

    محمد حسن عسکری نے بطور ادیب ماہ نامہ ساقی دہلی سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس رسالے میں عسکری صاحب کی پہلی تحریر انگریزی سے ایک ترجمہ تھا جو 1939ء میں شائع ہوا۔ اس کے بعد کرشن چندر اور عظیم بیگ چغتائی پر ان کے دو طویل مضامین شایع ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے یہ کالم لکھنے کا آغاز کیا جس کا عنوان جھلکیاں تھا۔

    ان کا شمار اردو کے اہم افسانہ نگاروں میں بھی کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے‘‘ 1943ء میں شائع ہوا تھا۔ 1946ء میں دوسرا مجموعہ ’’قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے‘‘ شایع ہوا جب کہ تنقیدی مضامین ’’انسان اور آدمی‘‘ اور ’’ستارہ اور بادبان‘‘ کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی دیگر کتب میں ’’جھلکیاں‘‘ ، ’’وقت کی راگنی‘‘ اور ’’جدیدیت اور مغربی گمراہیوں کی تاریخ کا خاکہ‘‘ شامل ہیں۔

    بحیثیت نقّاد اردو ادب کے علاوہ عالمی افسانوی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے فرانسیسی ادب سے اردو تراجم کیے جو ان کی زبان و بیان پر گرفت کا ثبوت ہیں۔ ایّامِ زیست کے اواخر میں انھوں نے مفتی محمد شفیع‌ صاحب کی قرآن مجید کی تفسیر کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا جس کی ایک جلد ہی مکمل ہوسکی۔

    محمد حسن عسکری کراچی میں دارالعلوم کورنگی میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ یاسمین اسماعیل کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن اور اسٹیج کی معروف فن کار یاسمین اسماعیل 18 جنوری 2002ء کو وفات پاگئیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں ٹی وی اور اسٹیج کی اداکار اور کام یاب ہدایت کار کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔

    یاسمین اسماعیل نے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین کی توجہ حاصل کی۔ راولپنڈی میں 1949ء میں پیدا ہونے والی یاسمین اسماعیل کے والد فوج میں تھے جن کی وفات کے بعد انھو‌ں نے کراچی میں رہائش اختیار کر لی تھی۔

    یاسمین اسماعیل 1960ء کی دہائی کے آخر میں پی ٹی وی سے وابستہ ہوئی تھیں اور تھیٹر کے ڈراموں کے لیے ہدایت کار کے طور پر بھی کام کرتی رہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بطور اداکارہ انا، راشد منہاس، تنہائیاں اور تپش میں کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے ثابت ہوئے۔

    انھوں نے غیرملکی زبانوں کے ڈرامے اردو میں منتقل کرکے اسٹیج پر پیش کیے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔

  • نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ہم عصروں میں کئی نام وَر ہوئے، نہایت قابل اور باصلاحیت، تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب و شاعر منٹو کے رفیق اور ہم کار بھی رہے، مگر منٹو نے اپنی الگ راہ نکالی اور اپنی تخلیقات کے سبب پہچانے گئے۔

    منٹو کے افسانے، مضامین، ان کے خاکے صرف پڑھے نہیں جاتے بلکہ آج بھی ان کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ منٹو نے حقیقتوں، سچائیوں اور تلخیوں کو بیان کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی۔ سماج کے ہر روپ کو قارئین کے سامنے لانے سے گریز نہیں‌ کیا۔

    آج اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا یوم وفات ہے۔ منٹو 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی اور قلمی سفر کا آغاز لاہور کے رسائل سے وابستہ ہوکر کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں ڈرامے اور فیچر لکھے جو کام یاب ہوئے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسائل کی ادارت کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھنے کا آغاز کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے جہاں 18 جنوری 1955ء کو جگر کے عارضے کے باعث انتقال کیا۔

    منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھیں جنس نگاری اور تقسیم کے وقت کے فسادات کو اپنے افسانوں میں‌ ڈھالنے کی وجہ سے خوب شہرت ملی اور جہاں ان کی کہانیاں پسند کی گئیں، وہیں فحش نگاری کا الزام بھی لگا۔ لیکن منٹو کی حقیقت پسندی، جرأت و بے باکی ادیبوں کے لیے مثال بھی بنی۔

    منٹو کی چند تصاویر دیکھیے۔افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر سمندر خان سمندر کا یومِ وفات

    پشتو زبان کے نام وَر ادیب اور شاعر سمندر خان سمندر کا یومِ وفات

    پاکستان کے عظیم شعرا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے یادگاری ڈاک ٹکٹوں کی سیریز کا سلسلہ شروع ہوا تو 2002ء میں سمندر خان سمندر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ وہ پشتو زبان کے ادیب، محقق، شاعر اور مترجم کی حیثیت سے نام و مقام رکھتے ہیں۔

    یکم جنوری 1901ء کو پیدا ہونے والے سمندر خان سمندر 17 جنوری 1990ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    سمندر خان سمندر بدرشی، نوشہرہ کینٹ کے رہائشی تھے۔ وہ ایک زمانے میں خاکسار تحریک سے وابستہ رہے اور بعد میں مسلم لیگ سے جڑ گئے۔ ان کی زندگی اور فن سے نئی نسل کو روشناس کرانے کے لیے پشتو کے ادیب اور شعرا اور جامعات کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سمندر خان سمندر کے یادگاری ڈاک ٹکٹ پر ان کا خوب صورت پورٹریٹ شایع کیا گیا تھا جس کی مالیت دو روپیہ تھی۔

    ان کی تصانیف میں ژور سمندر، دادب منارہ، میرمنے، کاروان روان دے، لیت ولار، خوگہ شپیلئی، پختنے، قافیہ، دایلم سوکہ، دقرآن ژڑا اور بلے ڈیوے شامل ہیں۔

    انھوں نے علّامہ اقبال کی مثنوی اسرارِ خودی اور رموزِ بے خودی کا بھی منظوم پشتو ترجمہ کیا تھا۔

  • نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    نام وَر شاعر، نظمانے کے موجد محسن بھوپالی کی برسی

    معروف شاعر محسن بھوپالی 17 جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا اصل نام عبدالرّحمٰن تھا جن کا خاندان تقسیمِ ہند کے بعد بھوپال سے ہجرت کرکے پاکستان کے شہر لاڑکانہ میں سکونت پذیر ہوا۔

    29 ستمبر 1932ء میں پیدا ہونے والے محسن بھوپالی نے کراچی کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج سے سول انجینئرنگ میں ڈپلوما کورس کے بعد حکومتِ‌ سندھ کے محکمہ تعمیرات میں‌ ملازمت حاصل کی۔ اسی دوران جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    محسن بھوپالی نے 1948ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ہم عصر شعرا میں اپنی فکر اور شعری اسلوب کے سبب پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے اردو ادب کو اپنی تخلیقات کے علاوہ ایک صنفِ سخن نظمانے بھی دی۔ ان کے شعری مجموعوں میں‌ شکستِ شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گردِ مسافت شامل ہیں‌جب کہ قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، جاپان کے چار عظیم شاعر بھی ان کی تصانیف ہیں۔

    محسن بھوپالی کے اوّلین شعری مجموعے کی تقریبِ رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے جن کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ان کا یہ شعر آج بھی تحریر سے تقریر تک خیالاتِ پریشاں کو سمیٹنے اور حالاتِ سیاست پر تبصرہ کرنے کے لیے لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔

    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    محسن بھوپالی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔