Tag: جنوری وفیات

  • مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    مصوّرِ مشرق عبدالرّحمٰن چغتائی کا یومِ وفات

    17 جنوری 1975ء کو پاکستان کے ممتاز مصور عبدالرّحمٰن چغتائی وفات پا گئے۔ انھیں مصورِ مشرق بھی کہا جاتا ہے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی 21 ستمبر 1897ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق شاہجہاں کے دور کے مشہور معمار خاندان سے تھا۔ 1914ء میں میو اسکول آف آرٹس لاہور سے امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے استاد میراں بخش سے فنِ مصوری میں استفادہ کیا۔ پھر میو اسکول ہی میں تدریس کے پیشے سے منسلک ہوگئے۔

    1919ء میں لاہور میں ہندوستانی مصوّری کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس نے عبدالرحمن چغتائی کو اپنا باقاعدہ فنی سفر شروع کرنے پر آمادہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اپنی تصاویر کلکتہ کے رسالے ماڈرن ریویو میں اشاعت کے لیے بھیجیں۔ ان کی یہ تصاویر شایع ہوئیں اور چغتائی صاحب کا فن شائقین اور ناقدین کے سامنے آیا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔

    عبدالرّحمن چغتائی نے اسی زمانے میں فنِ مصوّری میں اپنے اس جداگانہ اسلوب کو اپنایا جو بعد میں‌ چغتائی آرٹ کے نام سے مشہور ہوا اور ان کی پہچان و شناخت بنا۔

    1928ء میں مرقعِ چغتائی شایع ہوا جس میں عبدالرّحمٰن چغتائی نے غالب کے کلام کی مصوری میں تشریح کی تھی۔ گویا انھوں نے شاعری کو رنگوں سے آراستہ کردیا۔ یہ اردو میں اپنے طرز کی پہلی کتاب تھی جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

    1935ء میں غالب کے کلام پر مبنی ان کی دوسری کتاب نقشِ چغتائی شایع ہوئی۔ یہ کتاب بھی بے حد مقبول ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان اور ہندوستان سے باہر عبدالرّحمٰن چغتائی کے فن پاروں کی متعدد نمائشیں منعقد ہوئیں اور وہ صاحبِ اسلوب آرٹسٹ کے طور پر پہچان بناتے چلے گئے۔ فن کے قدر دانوں اور آرٹ کے ناقدین نے ان کی پزیرائی کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد عبدالرّحمٰن چغتائی نے نہ صرف پاکستان کے ابتدائی چار ڈاک ٹکٹوں میں سے ایک ڈاک ٹکٹ ڈیزائن کیا بلکہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے مونوگرام بھی انہی کے تیار کردہ تھے جو آج بھی ان کے فن کی زندہ یادگار ہیں۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی موقلم ہی نہیں‌ قلم بھی تھامے رہے اور افسانہ نگاری کی۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے لگان اور کاجل شایع ہوئے۔

    عبدالرّحمٰن چغتائی نے مغل دور اور پنجاب کو اپنے فن پاروں میں‌ پیش کیا اور ان کی بنائی ہوئی تصویریں دنیا کی مختلف آرٹ گیلریوں میں سجائی گئیں۔

  • گلی گلی پھرتی ہوا محسن نقوی کا نوحہ بھی سنارہی ہے

    گلی گلی پھرتی ہوا محسن نقوی کا نوحہ بھی سنارہی ہے

    سید غلام عباس نقوی نے محسن تخلص کیا اور دنیائے سخن میں‌ محسن نقوی کے نام سے پہچانے گئے۔

    آج اردو زبان کے اس ممتاز شاعر کی برسی ہے۔ 15 جنوری 1996ء کو محسن نقوی لاہور میں نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور زندگی سے محروم ہوگئے۔ محسن نقوی 5 مئی 1947ء کو محلہ سادات، ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے تھے۔

    بہاءُ الدین زکرّیا یونیورسٹی ملتان سے اردو میں ایم اے کیا۔ ان کا شمار اردو کے مقبول ترین رومانوی شعرا میں ہوتا ہے جن کے کلام میں‌ ہجر و فراق کے مضامین، بے ثباتی دنیا، آلامِ روزگار کے موضوعات جا بجا ملتے ہیں۔
    وہ نظم اور غزل دونوں اصنافِ سخن پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں بندِ قبا، ردائے خواب، برگِ صحرا، موج ادراک، عذابِ دید اور میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی شامل ہیں۔ 1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    محسن نقوی ڈیرہ غازی خان میں آسودۂ خاک ہیں۔ خوب صورت اور لطیف جذبات کے اظہار کے لیے انھوں نے استعاروں اور نادر تشبیہات سے اپنی غزلوں اور نظموں کو کچھ اس طرح‌ سجایاکہ سبھی کی توجہ حاصل کر لی۔وہ ہر خاص و عام میں مقبول ہوئے۔

    ان کے چند اشعار اور مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
    تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

    محسن نے کہا تھا:
    میرا ماتم اسی چپ چاپ فضا میں ہو گا
    میرا نوحہ انہی گلیوں کی ہوا لکھے گی

    مشہور گلوکار غلام علی کی آواز میں‌ ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہو گی۔

    یہ دل، یہ پاگل دل میرا کیوں بجھ گیا آوارگی
    اس دشت میں اک شہر تھا، وہ کیا ہوا؟ آوارگی

    کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
    میں نے کہا تُو کون ہے؟ اُس نے کہا آوارگی

    یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
    ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا! آوارگی

    کل رات تنہا چاند کو، دیکھا تھا میں نے خواب میں
    محسن مجھے راس آئے گی، شاید سدا آوارگی

  • ممتاز ادیب، نقّاد اور معلّم رشید احمد صدیقی کی برسی

    ممتاز ادیب، نقّاد اور معلّم رشید احمد صدیقی کی برسی

    اردو ادب میں باکمال مزاح نگار، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے رشید احمد صدیقی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج اردو کے اس ممتاز ادیب کا یومِ وفات ہے۔ وہ 15 جنوری 1977ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ طنز و مزاح پر مبنی مضامین کے علاوہ رشید احمد صدیقی نے نقد و نظر کے حوالے سے بھی یادگار کتب چھوڑی ہیں۔

    رشید احمد صدیقی 24 دسمبر 1892ء کو جون پور کے قصبہ مڑیاہو میں پیدا ہوئے۔ فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم گھر حاصل کی اور بعد میں جون پور کے ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے بعد 1915ء میں علی گڑھ چلے گئے جہاں زمانۂ طالب علمی میں مختلف ادبی اور علمی سرگرمیوں میں حصّہ لیتے رہے۔ وہ علی گڑھ کے میگزین کے ایڈیٹر رہے۔

    1921 میں اردو کے لیکچرار اور 1943ء میں صدرِ شعبۂ اردو ہوئے۔ بعد ازاں مرکزی وزارتِ تعلیمات کی ایک اسکیم کے ڈائریکٹر ہوئے۔

    رشید احمد صدیقی کی زندگی کا بیش تر حصہ علی گڑھ ہی میں گزرا۔ آپ علی گڑھ میں درس و تدریس سے جڑے رہے۔

    ڈاکٹر جعفر احراری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
    رشید صاحب کے طنز میں تلخی اور زہرناکی کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ چھوٹے چھوٹے فقروں سے بہت کام لیتے ہیں۔ ان کے فن میں عامیانہ پن نہیں بلکہ گہرائی اور گیرائی کا بول بالا ہے۔ شعر و ادب سے قطع نظر سیاست، تاریخ اور دیگر علوم و فنون کو بھی اپنے موضوع میں شامل کرلیا ہے جس کے سبب ان کے طنز و مزاح سے لطف اٹھانا آسان کام نہیں بلکہ خاصا باشعور اور بے حد شائستہ مذاق کا حامل ہونا ضروری ہے۔

    رشید احمد صدیقی کی زندگی شرافت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا بہترین نمونہ تھی۔ انھوں نے طنز و مزاح، خاکے، علمی و ادبی موضوعات پر مضامین کے علاوہ تنقید نگاری بھی کی، ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔

    مضامینِ رشید، گنج ہائے گراں مایہ، اردو طنز و مزاح کی تنقیدی تاریخ، ہم نفسانِ رفتہ، علی گڑھ ۔ ماضی و حال اور ان کے خطوط بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے جو ادبی دستاویز اور مستند حوالہ ہیں۔

  • انگریزی اور اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور دانشور احمد علی کی برسی

    انگریزی اور اردو کے ممتاز ادیب، نقّاد اور دانشور احمد علی کی برسی

    آج انگریزی اور اردو زبانوں کے ممتاز ادیب، نقّاد اور دانشور پروفیسر احمد علی کی برسی ہے۔ وہ 14 جنوری 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    پروفیسر احمد علی کا تعلق دہلی سے تھا جہاں انھوں نے 1910ء میں آنکھ کھولی۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا۔ ان کا ایک افسانہ افسانوں کے مشہور اور متنازع مجموعے انگارے میں بھی شامل تھا۔ اس افسانوی مجموعے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

    پروفیسر احمد علی کی تصانیف میں ہماری گلی، شعلے اور قید خانہ کے علاوہ انگریزی زبان میں لکھی گئیں Muslim China، Ocean of Night، The Golden Tradition، Twilight in Delhi اور Of Rats and Diplomats کے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر احمد علی نے قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ بھی کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ستارۂ قائداعظم کا اعزاز عطا کیا تھا۔

  • فنِ موسیقی کے استاد امید علی خان کا یومِ وفات

    فنِ موسیقی کے استاد امید علی خان کا یومِ وفات

    آج پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور گائیکی میں ممتاز استاد امید علی خان کی برسی ہے۔ وہ 14 جنوری 1979ء کو وفات پاگئے تھے۔

    استاد امید علی خان 1914ء میں امرتسر کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق موسیقی میں مشہور گوالیار گھرانے سے تھا۔ امید علی خان کے والد استاد پیارے خان اور دادا استاد میران بخش اپنے زمانے کے مشہور گلوکار تھے۔

    موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے استاد امید علی خان کی تعلیم و تربیت میں ماحول کا بڑا اثر تھا۔ انھوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھر پٹیالہ گھرانے کے استاد عاشق علی خان کی شاگردی اختیار کر لی۔ یوں امید علی خان نے گائیکی میں گوالیار اور پٹیالہ گھرانوں کے رنگ اور خصوصیات کو اپنایا اور اس فن میں مہارت حاصل کرتے چلے گئے۔

    استاد پیارے خان ایک زمانے میں ریاست خیرپور سے وابستہ ہوگئے تھے اور استاد امید علی خان کی عمر کا خاصا حصّہ سندھ دھرتی پر گزرا۔

    امید علی خاں سے فنِ موسیقی اور گائیکی میں اکتساب کرنے والوں میں منظور حسین، فتح علی خاں اور حمید علی خان نمایاں ہوئے۔

    استاد امید علی خان لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار اور سارنگی نواز استاد بندو خان کا یومِ وفات

    13 جنوری 1955ء کو نام ور موسیقار اور مشہور سارنگی نواز استاد بندو خان وفات پاگئے۔ 1959ء میں بعد از مرگ حکومت کی جانب سے ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا گیا۔ آج استاد بندو خان کا یومِ وفات ہے۔

    موسیقی اور سارنگی کا ابتدائی درس اور سازوں کی تربیت اپنے والد علی جان خان سے جب کہ اپنے ماموں اُستاد مَمَن سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ استاد بندو خان آل انڈیا ریڈیو، دہلی اسٹیشن کے قیام کے فوراََ بعد ہی اس سے منسلک ہو گئے تھے۔ انھوں نے ریاست رام پور اور اندور کے دربار میں اپنے فن کی بدولت عزت پائی۔

    ہندوستان کی قدیم کلاسیکی موسیقی کو سمجھنے اور اس کا حق ادا کرنے کی غرض سے استاد بندو خان نے سنسکرت بھی سیکھی۔ یہ ان کے اپنے فن سے لگاؤ اور جنون کی ایک مثال ہے۔

    1880ء میں دہلی میں پیدا ہونے والے بندو خان کے والد علی جان خان بھی سارنگی بجاتے تھے۔ سُر ساگر کے موجد ممّن خان ان کے ماموں تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد بندو خان کراچی چلے آئے اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ استاد بندو خان نے کراچی ہی میں‌ مختصر علالت کے بعد دارِ فانی سے کوچ کیا۔

  • "یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟”

    "یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟”

    نئے سال کے آغاز پر نصیر ترابی نے دنیا چھوڑ دی، حیدرآباد دکن کے نصیر ترابی علم و ادب کی دنیا میں ممتاز تھے شاعر، نقّاد اور ماہرِ لسانیات کی حیثیت سے نام وَر تھے۔

    انھوں نے معروف خطیب اور عالمِ دین علامہ رشید ترابی کے گھر 15 جون 1945ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان کراچی آگیا جہاں نصیر ترابی تعلیم و روزگار کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔

    گزشتہ روز انتقال کرجانے والے نصیر ترابی 60 کی دہائی میں جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوئے۔ علمی و دینی گھرانے سے تعلق تھا۔ گھر پر علم و ادب کے رسیا و نام ور، سیاست و سماج کے قد آوروں کی آمد و رفت رہتی تھی اور اسی ماحول میں‌ انھوں نے تربیت پائی اور بعد میں علم و ادب ہی کو اپنی پہچان اور حوالہ بنایا۔ نصیر ترابی کا شعری مجموعہ ’عکسِ فریادی’ ، نعتیہ مجموعہ ’لاریب’، لسانیات سے متعلق کتابیں ‘شعریات’ اور ‘لغت العوام’ شایع ہوچکی ہیں۔

    معروف خاکہ نگار ممتاز رفیق کو نصیر ترابی کی رفاقت نصیب ہوئی تو انھوں نے ‘بانکے ٹانکے’ کے عنوان سے ان کا خاکہ لکھا جس سے چند پارے ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ نصیر ترابی کے فن اور ان کی زندگی کی جھلکیاں ہیں۔

    یہ نصیر ترابی آخر ہے کون؟ اپنی تنہائی میں مست الست ایک آدمی، جس کا بڑا پن بونوں کے اس ہجوم میں کہیں ادھر اُدھر ہو گیا ہے۔

    ایک تازہ کار شاعر جسے اپنے ڈھب سے زندگی کرنے کی للک گھیر گھار کر ایک ایسے گوشے میں لے آئی ہے جہاں اُسے اپنی بازگشت کے سوا کچھ اور ذرا کم سنائی دیتا ہے۔ ایسے میں کیا عجب اگر کوئی نامانوس دستک، اُس کی فراخ پیشانی پر ناگوار سلوٹوں کا جال سا بُن دیتی ہے۔ ماضی کے دریچوں سے جھانکتی پرچھائیاں اور خوش سواد سودائیوں کا انبوہ اُسے بے کل رکھتا ہے۔ اس مردِ عجیب کی خود اختیاری تنہائی، اُس میں زندہ رہنے کی ترنگ کو تازہ دَم رکھے ہوئے ہے۔

    نصیر ترابی ایک نفیس اور کم یاب چیز ہے۔ ایک مشکل آدمی، جس کی توجہ حاصل کرنے کے بعد اُسے متواتر متوجہ رکھنا ایک الگ طرح کا قرینہ چاہتا ہے۔ پرائے لفظ یا لہجے کی معمولی سی اونچ نیچ اس ترازو کے اوزان بدل سکتی ہے، پھر نہیں معلوم کہ کیا پیش آجائے۔

    نصیر کی زندگی ایک جاگتے ہوئے آدمی کا خوا ب ہے۔ ایک خوش قامت وجیہہ آدمی جس کی اُور ادھیڑ عمری لپکی چلی آتی ہے، لیکن اس گھمسان میں بھی میرا یار شخصی کشش کو قابو میں رکھے ہوئے ہے۔ آج بھی اُس کی ذات میں وہ گم شدہ مہک زندہ ہے جب ایک سنگین دل کشی ہر دَم اُس کے ہم قدم رہا کرتی تھی۔

    یہ آدمی اپنی اٹھان کے دنوں میں کیسا دکھائی پڑتا تھا؟ سر پر ڈیرہ ڈالے گہرے گھنے اندھیر ے میں ایک آڑی پگڈنڈی جو اُس کی کشادہ پیشانی پر دمکتے اُجالے کو مزید اُجال دیتی۔ اس خیرگی پر خطِ اختتام کھینچتی ہوئی دو سیاہ بھنویں اور اُن سے ذرا نیچے کو دوکٹاری آنکھیں، جن کی ہیرا پھیری کا کوئی توڑ نہ تھا اور چوکس کھڑی ناک کے نسبتاًچوڑے نتھنے، جنھیں دور سے سونگھ لینے کا وصف حاصل تھا، ترشے ہوئے ہونٹوں پر ایک بھید بھری مسکراہٹ، جس پر اس مسکراہٹ کا بھید کھلا وہ اپنے آپ سے جاتا رہا، گال جیسے موسم کا پہلا سرخ سیب، جسے دو برابر حصوں میں بانٹ لیا گیا ہو، نصیر ترابی کے اڑیل مزاج کی چغلی کھاتی ہوئی ٹھوڑی، جس پر ہلکا سا چاہِ زخنداں جو اپنا ایک الگ حسن رکھتا تھا، رنگت جیسے صحرا کی چاندنی جنگلی گلاب سے لپٹ کر چلی آ رہی ہو، کسی کھلاڑی کا سا چست بدن اور اس پر میرے یار کا ملبوساتی انتخاب کا ڈھنگ، جس کے لیے داخلی جمال کا رچاؤ ازبس لازمی ہوا کرتا ہے اور اُس پر سوا نصیر خیز کی جامہ زیبی جس نے جناح کالج کی راہداریوں سے کرکٹ کے میدان تک یکساں اُودھم مچا رکھا تھا۔

    شاعری اُس کے لہو کی تال پر رقص کرتی ہے اور لفظ تو میرے یار نے جیسے اپنے کر چھوڑے ہیں۔ جب جس لفظ کو چاہتا ہے، ایک نئی معنوی چھوٹ کے ساتھ جلوہ کر دکھاتا ہے اور شاعری ہی کا کیا مذکور نصیر کی نثر بھی اپنا ایک الگ تیور رکھتی ہے۔ جن حرف شناسوں نے نصیر کے شخصی مضامین پڑھ، سن رکھے ہیں وہ جان چکے ہیں کہ اگر کسی کو لفظ پر تصرف حاصل ہو جائے تو فقروں کا جادو کیسے سر چڑھ کے بولتا ہے۔

    نصیر کے ابتدائی دنوں نے جس رچاؤ کے ساتھ جو ترتیب و تہذیب پائی اُس میں اس چوکھٹ کی حاضری بھرنے والوں کا بھی اہم حصہ تھا۔ علامہ رشید ترابی کے وسیع دسترخوان پر منتخب اکابر مجتمع ہوتے۔ نوعمر نصیر اپنے بابا کے احباب کی چاکری پر چوکس رہتا۔ طعام سے قبل سلفچی میں ہاتھ دھلوانا اور بعد از طعام اُن کی جوتیاں سیدھی کرنا نصیر کی ذمہ داری ہوتی۔

    علامہ کے دستر خوان پر ہمیشہ ایک مکالمہ گرم رہتا۔ نصیر کے لیے ان مکالماتی معرکوں میں سیکھنے اور سمجھنے کے لاکھ پہلو تھے۔

    نصیر ترابی کے جن دیرینہ دوستوں سے میں واقف ہوں، اُن میں عبیداللہ علیم ،اطہر نفیس، نگار صہبائی، احمد عمر شریف اور نیر سوز شامل ہیں۔ اُن میں سے نیر سوز اور احمد عمر شریف، نصیر کے جناح کالج کے ساتھی ہیں۔

    نصیر ایک ذہین، حسین اور فطین آدمی تھا۔ جناح کالج سے الحسن تک وہ جہاں بیٹھتا، مجلس کا سرخیل ہو جاتا۔ یہ نصیر کے بابا کی سرفرازی اور اس کی سرسبزی کا زمانہ تھا۔

    میرے یار سے لوگوں کی مرعوبیت کے کتنے ہی جواز تھے، کچھ اُس کی خاندانی وجاہت، بعض ذاتی جاذبیت اور اکثر اس کے زورِ کلام اور سخن کاری کے اسیر تھے، لیکن نصیر ترابی ریوڑ میں بھٹک جانے والا آدمی نہیں ہے۔ اس میں اتنا دماغ کہاں کہ ہر ایرے غیر ے کا بوجھ ڈھوتا پھرے۔

    وہ سنجیدہ رکھ رکھاؤ کا ایک لیے دیے رہنے والا آدمی ہے جسے بدسلیقگی کو چھوتا ہوا جملہ گوارا نہ ہو وہ ایک پورے بد مذاق کو کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ اس حوالے سے نصیر کی ترشی بلکہ درشتی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ نصیر کے بعض لوگوں سے روا رکھے جانے والے کھردرے رویے سے یہ تأثّر عام ہو گیا کہ وہ ایک گھمنڈی ہے، حالاں کہ یہ محض ایک ایسے تخلیق کار کا طمطراق تھا جس کے تئیں عدم تخلیقیت اور بے روح ہونا تقریباً ایک جیسی بات تھی۔ وہ اپنی محفل اور سنگیتوں کو اس آزار سے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔

    یہ میرے یار کی خوش نصیبی سے بڑھ کے اہل مندی تھی کہ اُسے جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، زیڈ اے بخاری، مصطفیٰ زیدی، سبطِ حسن اور عزیز حامد مدنی ایسے نام وروں نے اپنی محفلوں میں قبول و مقبول کیا۔

    میرا یار کلاسیکی ادب کا گہرا مطالعہ اور صحبت یافتہ ذوق رکھتا ہے، جب وہ اپنی چوپال یا کسی چائے خانے میں ایک انہماک کے ساتھ اپنی دائیں بھوؤں کو انگشتِ شہادت سے کاڑھتے سنوارتے ہوئے سرگرمِ کلام ہو تو غیبت کے چٹخارے کے ساتھ اُس کی گفتگو میں گُھلی علم و آگہی کی آنچ، جملوں میں بہتی گرماہٹ اور معنوی گیرائی کی مہکار، سماعتوں کو ایک نئے قسم کی سمعی فضا سے مشک بار کرتی ہے۔

    نصیر اب ادھیڑ عمری کو آ لگا ہے لیکن اب بھی وہ پوری توانائی اور آسودگی سے زندگی کرتا ہے، اندر کی بے کلی اس سے بالکل الگ نوعیت کا قصہ ہے۔ اب میر ا یار خاموش اور سب سے الگ تھلگ اپنی تخلیق کی ہوئی دنیا میں اس طور صبح کو شام کرتا ہے جس کا اُس نے زندگی کے ابتدائی دور میں سوچ رکھا تھا، اس مہکتی بہکتی تنہائی میں نصیر کو اپنی پسند کا ماحول میسر ہے۔

    نصیر کی شخصی بُنت میں ایسے بانکے ٹانکے استعمال ہوئے ہیں کہ ہر چلتی پھرتی آنکھ اس تانے بانے کی اُدھیڑبن کا آسانی سے احاطہ نہیں کر سکتی۔ نصیر ایسے زندہ آدمی کا آغاز لکھنا آسان سہی لیکن اختتام کرنا مشکل ہوتا ہے اور سرِدست مجھے یہی مشکل درپیش ہے۔

  • فلمی صنعت کے ’’دادا‘‘ نذرُ الاسلام کا یومِ وفات

    فلمی صنعت کے ’’دادا‘‘ نذرُ الاسلام کا یومِ وفات

    11 جنوری 1994ء کو پاکستان کے نام ور فلمی ہدایت کار نذرُ الاسلام وفات پاگئے تھے۔ نذرالاسلام فلمی صنعت میں ’’دادا‘‘ کے لقب سے معروف تھے۔

    نذرُ الاسلام 19 اگست 1939ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ نیوتھیٹرز کلکتہ کے دبستان کے نمائندہ ہدایت کار تھے۔ فنی زندگی کا آغاز ڈھاکا سے بطور تدوین کار کیا۔ پھر ہدایت کار ظہیر ریحان کے معاون بن گئے۔ چند بنگالی فلموں کے بعد ایک اردو فلم کاجل بنائی جو بے حد مقبول ہوئی۔ انھوں نے بعد میں ایک بنگالی فلم اور ایک اور اردو فلم پیاسا کی ہدایات دیں۔ 1971ء میں سقوطِ ڈھاکا کے بعد ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔

    یہاں نذرالاسلام نے فلم ساز الیاس رشیدی کے ساتھ اپنے نئے فلمی سفر کا آغاز کیا۔ ان کی فلموں میں حقیقت، شرافت، آئینہ، امبر، زندگی، بندش، نہیں ابھی نہیں، آنگن، دیوانے دو، لو اسٹوری، میڈم باوری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ تمام فلمیں باکس آفس پر بے حد کام یاب رہیں۔

    بطور ہدایات کار نذرالاسلام کی آخری فلم لیلیٰ تھی، جو ان کی وفات کے بعد نمائش پذیر ہوئی۔

  • ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    آج نام وَر ادیب، شاعر اور مترجم ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔ مزاح نگاری ان کی پہچان تھی۔ قارئین میں ان کے فکاہیہ کالم بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ انشا نے سفر نامے بھی لکھے جن میں اپنے اسلوب کے سبب الگ پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔ نظم کے میدان میں بھی ابنِ انشا نے خود کو منوایا اور ان کی تخلیقات آج بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں۔

    ابنِ انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    1960ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کراچی میں قلمی نام سے کالم لکھنے کا آغاز کیا اور بعد میں مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور سفارت کار بھی رہے۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعہ ٔ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا اور بعد میں’’اس بستی کے ایک کوچے میں‘‘ اور ’’دلِ وحشی‘‘ بھی شایع ہوئی۔ ان کے سفر ناموں کو بہت شہرت ملی جس میں ان کے اسلوب نے قارئین کو متاثر کیا۔ ان کی ایک غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا بہت مشہور ہوئی جب کہ ان کے مزاح پاروں اور سفر ناموں پر مشتمل کتب آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر کو قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    طنز و مزاح اور فکاہیہ کالموں کے مجموعوں میں‌ اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی شامل ہیں جب کہ ان کا ترجمہ قصہ ایک کنوارے کا بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    ابنِ انشا 11 جنوری 1978ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔ وہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔

  • استاد عبدالقادر پیا رنگ کا یومِ وفات

    استاد عبدالقادر پیا رنگ کا یومِ وفات

    استاد عبدالقادر پیا رنگ 8 جنوری 1979ء کو وفات پاگئے تھے۔ پاکستان کے ممتاز موسیقار اور اس فن میں استاد کا درجہ رکھنے والے عبدالقادر پیا رنگ کو اس لیے بھی اہمیت دی جاتی ہے کہ اس فن میں انھوں نے فقط اپنے شوق اور لگن سے کمال حاصل کیا تھا اور ان کا کسی موسیقی کے گھرانے سے تعلق نہ تھا۔

    استاد عبدالقادر پیارنگ 1906ء میں پنجاب کے ضلع فیروز پور کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے خاندان اور سرپرستوں کی موت کے بعد ان کی زندگی بڑی کس مپرسی میں بسر ہوئی۔

    عبدالقادر پیا رنگ نے شہروں شہروں خاک چھانی اور گزر بسر بہت دشوار رہی۔ اسی زمانے میں مدراس میں استاد حافظ ولایت علی خان کی شاگردی اختیار کی اور موسیقی کے اسرار و رموز سیکھنے لگے۔ بعد میں بمبئی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو اور پھر فلم کی موسیقی دینے کا موقع ملا۔ یوں ان کے فن اور صلاحیتوں کے اظہار کا آغاز ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ چلے آئے۔ حیدرآباد اور بعد میں کراچی میں اقامت پذیر ہوئے جہاں دینا لیلیٰ اور رونا لیلیٰ کو موسیقی کی تربیت دی۔ 1965ء میں کراچی سے راولپنڈی منتقل ہوگئے جہاں اپنے میوزک اسکول کی بنیاد رکھی اور اس کے فروغ اور تربیت کا سلسلہ شروع کیا۔

    اپنے وقت کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اس سے وابستہ فن کار ان کے قدر دانوں میں شامل رہے۔ وہ راولپنڈی میں موفون ہیں۔