کیا آپ نے کبھی آسمان سے درختوں کو برستے ہوئے دیکھا یا سنا ہے؟ شاید یہ سننے میں آپ کو عجیب لگے لیکن سری لنکا میں ایسا ہو رہا ہے جہاں آسمان سے درخت ’برستے‘ ہیں۔
سری لنکا میں مختلف خالی مقامات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ کھاد کے ایسے گولے برسائے جارہے ہیں جو کچھ عرصے بعد اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔ سری لنکا کو یہ ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ صرف گذشتہ چند عشروں میں اس ملک کے آدھے جنگلات کو مختلف مقاصد کے لیے کاٹا جاچکا ہے۔
اب سری لنکا کا ارادہ ہے کہ سنہ 2017 تک وہ اپنے اس کھوئے ہوئے اثاثے کو کسی حد تک واپس حاصل کرلے۔
آسمان سے برسائے جانے والے یہ گولے چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے ہیں جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آتے ہیں۔
یہ طریقہ کار جاپانی کسانوں کا ایجاد کردہ ہے جنہوں نے کاشت کاری میں انسانی محنت کم کرنے کے لیے اسے ایجاد کیا۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
ہیم برگر ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکا ہے اور اگر ہم گھر سے باہر ہوں اور کھانے کا وقت ہوجائے تو بھوک مٹانے کے لیے ذہن میں پہلا خیال برگر ہی کا آتا ہے۔
دنیا بھر میں برگر کے شوقین افراد کے لذت کام و دہن کے لیے مختلف ریستوران برگر کے نئے نئے ذائقے متعارف کروا رہے ہیں اور اب برگر لاتعداد ذائقوں میں دستیاب ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا پسندیدہ یہ برگر ہماری زمین کو کن خطرات سے دو چار کر رہا ہے؟
اس بارے میں جاننے سے پہلے ہم ذرا برگر کے سفر پر نظر ڈالتے ہیں کہ یہ کس طرح اور کن کن مراحل سے گزر کر ہماری پلیٹ تک پہنچتا ہے۔
ہیم برگر کا سفر برازیل میں ایمازون کے جنگلات سے شروع ہوتا ہے۔
رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔
عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعتایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایمازون کو سب سے بڑا خطرہ دنیا بھر کو نقصان پہنچنانے والے موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج سے نہیں، بلکہ اس کے اپنے ہی ہم وطنوں سے ہے۔
ایمازون کے خاتمے کی وجہ
جنوبی امریکی ملک برازیل اس وقت دنیا کا گوشت برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اپنی اس تجارتی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے برازیل اب زیادہ سے زیادہ مویشی پال رہا ہے۔
ملک بھر میں لاتعداد فارمز قائم کیے جاچکے ہیں جہاں مختلف جانوروں کی پرورش کی جاتی ہے، اس کے بعد انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت دیگر ممالک کو فروخت کردیا جاتا ہے۔
یہ کاروبار پورے برازیل میں اس قدر وسیع ہوچکا ہے کہ ملک میں قابل رہائش زمینیں کم پڑچکی ہیں اور اب مویشیوں کو رکھنے کے ایمازون کے قیمتی جنگلات کو کاٹا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ اس وقت گوشت کا سب سے بڑا خریدار امریکا ہے اور یہ برازیل اور دیگر جنوبی امریکی ممالک سے ہر سال 20 کروڑ پاؤنڈز کا گوشت درآمد کرتا ہے۔
مویشیوں کی ضروریات
دنیا بھر کے درجہ حرارت میں شدید اضافے کا ذمہ دار یہ منافع بخش کاروبار صرف جنگلات کے خاتمے کا ہی سبب نہیں۔ روز افزوں اضافہ ہوتی مویشیوں کی اس آبادی کی دیگر ضروریات بھی ہیں۔
رہائش کے ساتھ ان مویشیوں کو پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔
گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔
یعنی ایک برگر میں شامل گوشت کی پیداوار کے لیے جتنا پانی استعمال ہوا، وہ کسی انسان کے پورے سال کے غسل کے پانی کے برابر ہے۔
مویشیوں کی خوراک
مویشیوں کی خوراک میں کئی قسم کے اناج شامل ہیں جنہیں اگانے کے لیے ہر سال 17 ارب پاؤنڈز کی مصنوعی کھاد اور کیڑے مار ادویات استعمال کی جاتی ہیں اور یہ دونوں ہی ماحول اور زراعت کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہیں۔
اس وقت ہماری زمین کا 30 فیصد حصہ مویشیوں کے زیر استعمال ہے جبکہ امریکا کی 80 فیصد زراعت مویشیوں کے چارے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
اب ان مویشیوں کا سب سے بدترین نقصان بھی جان لیں۔ ان مویشیوں کے فضلے سے میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے جو ہمارے ماحول اور زمین کے لیے نقصان دہ ترین گیس ہے۔
ہماری فضا کو گرم اور زہریلا بنانے والی گرین ہاؤس گیسوں کا 18 فیصد حصہ انہی میتھین گیسوں پر مشتمل ہے۔
یعنی ہم جو کاربن اخراج کا رونا روتے ہیں، تو مویشیوں سے خارج ہونے والی گیس کاربن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اور مقدار میں بھی کاربن سے کہیں زیادہ ہے۔
ماحول دوست کیسے بنا جاسکتا ہے؟
ان مویشیوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی تباہ کاری کو کم کرنے کا ایک حل یہ ہے کہ اپنی خوراک میں گوشت کا استعمال بے حد کم کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ پھل اور سبزیاں کھائی جائیں۔
قدرتی طریقوں سے اگائی گئیں سبزیاں اور پھل نہ صرف ہماری صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہیں اور یہ ہماری فضا سے زہریلی گیسوں کی کمی میں معاون ثابت ہوں گی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔
رواں برس یہ دن جنگلات اور پائیدار شہر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات کو کاٹ کر رہائشی علاقوں میں تبدیل کیا جارہا ہے لہٰذا جنگلات کا تناسب برقرار رکھنے کے لیے شہروں میں شجر کاری کی جائے تاکہ موسمیاتی تغیرات کے نقصانات سے نمٹا جاسکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی شہر میں جنگلات کی موجودگی اس شہر کی خوشحالی، خوبصورتی اور باشندوں کی صحت و تندرستی میں اضافہ کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔
پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔
صنوبر کے جنگلات
بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کویونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔
یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔
اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔
تیمر کے جنگلات
کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔
پاکستان میں درختوں کی کٹائی
وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔
ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔
وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔
اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟
اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے اوکے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
کیا آپ جانتے ہیں ہائیکنگ کرنا آپ کی صحت پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے؟
شہروں کی بھیڑ بھاڑ اور شور شرابہ سے دور کسی پرسکون قدرتی مقام پر پیدل چلنا اور گھومنا پھرنا آپ کے جسم، دماغ اور روح پر نہایت خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔
معروف امریکی ماہر ماحولیات جان میئر، جسے پہاڑوں والا جان بھی کہا جاتا تھا، اپنی کتاب ’اور نیشنل پارکس‘ میں رقم طراز ہے، ’فطرت کا سکون آپ کے اندر ایسے سرائیت کرے گا جیسے سورج کی روشنی درختوں میں سرائیت کرتی ہے۔ ہوا کی تازگی آپ کے اندر تازگی بھر دے گی، اور طوفانوں کی قوت آپ کے اندر آجائے گی‘۔
جنگل یا درختوں کے درمیان چہل قدمی، درختوں کی خوشبو سونگھنا، اور جنگل میں بہنے والی پانیوں کا شور اور پرندوں کی چہکار سننا آپ کے دماغ کو تازہ دم کرتا ہے اور اس بات کی تصدیق طبی ماہرین بھی کرتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہائیکنگ آپ کو کیا کیا فوائد پہنچا سکتی ہے۔
منفی خیالات میں کمی
منفی خیالات رکھنا اور ان پر مسلسل توجہ مرکوز کیے رہنا بے چینی، ڈپریشن اور عدم اطمینان کو جنم دیتا ہے۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک ریسرچ کے مطابق فطرت کے ساتھ وقت گزارنا دماغ میں منفی خیالات میں کمی کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پیدل چلنا بھی ایک بہترین ورزش ہے جو غصہ، حسد اور دیگر منفی خیالات کا خاتمہ کرتی ہے لہٰذا اگر ہائیکنگ کی جائے یعنی کسی قدرتی مقام پر پیدل چلا جائے تو یہ آپ کے اندر سے تمام منفی خیالات کو ختم کردیتی ہے۔
جدید ٹیکنالوجی سے دوری
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی جیسے کمپیوٹر، ٹی وی، اسمارٹ فونز وغیرہ نے ہمیں ساری دنیا سے جوڑ تو دیا ہے لیکن یہ ہماری جسمانی و نفسیاتی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ دور دراز علاقوں میں جانا جہاں آپ کے اسمارٹ فونز کام نہ کر سکیں، آپ کو فطرت سے جڑنے میں مدد دیتے ہیں۔
آج کل کے دور میں ہم اپنے تمام مسائل کا حل گوگل سے تلاش کرنے کے عادی ہوچکے ہیں، تو ماہرین کے مطابق ایسی صورتحال میں جب آپ کا اسمارٹ فون آپ کے پاس نہ ہو، اور آپ کسی مشکل کا شکار ہوجائیں، تو آپ کی سوئی ہوئی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں جو آپ کو مشکلات کا حل ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہیں۔
بچوں پر مفید اثرات
ہائیکنگ کے لیے جاتے ہوئے اپنے بچوں کو بھی ساتھ رکھیں۔ فطرت کے قریب وقت گزارنا ان بچوں کے لیے نہایت مفید ہے جن میں شدت پسندی کا رجحان پایا جاتا ہے اور وہ سخت مزاج یا غصیلے ہوتے ہیں۔
فطرت کے قریب رہنا ایسے بچوں کے مزاج میں ٹہراؤ اور نرمی پیدا کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہائیکنگ کے لیے جانا ان بچوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے جو چیزوں پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتے اور باآسانی ان کی توجہ بھٹک جاتی ہے۔ قدرتی مناظر ان کی تخلیقی اور توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
دماغی کارکردگی میں اضافہ
ماہرین کے مطابق ہائیکنگ آپ کے دماغ کے افعال و کارکردگی میں بھی اضافہ کرتی ہے اور آپ کی فیصلہ سازی، چیزوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور یادداشت میں بہتری آتی ہے۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔
دبئی : دبئی میونسپلٹی عوام کو قدرت کے قریب تفریح مہیا کرنے کے لیے 12 دسمبر کو دبئی سفاری پارک کا افتتاح کرنے جا رہی ہے جہاں ڈھائی سو انواع و اقسام پر مشتمل 2500 جانوروں کو قدرتی ماحول فراہم کیاگیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق منگل 12 دسمبر 2017 کو دبئی سفاری پارک کو عوام کے لیے کھولاجارہا ہے جہاں لوگوں کو قدرتی ماحول اور مناظر کے درمیان اپنے اہل خانہ خانہ کے ساتھ تفریح کے موقع فراہم کیے جائیں گے اور جس کے لیے انہیں 50 سے 85 درہم کا ٹکٹ خریدنا ہوگا جس سے حاصل رقوم سفاری پارک کی دیکھ بحال میں استعمال ہوگئی۔
خالد السعویدی کا کہنا تھا کہ سفاری پارک صبح 9 بجے بسے شام 5 بجے تک عوام کے لیے کھلا رہے گا جہاں عوام 2500 جانوروں کی 250 انواع و اقسام کو بہت قریب سے دیکھ پائیں گے جو دنیا بھر سے دبئی سفاری پارک لائے گئے ہیں اور ان کے ضروری قدرتی حسن اور ماحول بھی فراہم کیا گیا تاکہ وہ آزادانہ نقل و حرکت کرسکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک بلین درہم سے مکمل ہونے والے اس پروجیکٹ میں ایشیائی، افریقی اور عرب کے ریگ زاروں میں پائے جانے والے جانوروں کو سفاری پارک میں چہل قدمی کرتے دیکھ پائیں گے جس کے لیے فطرت سے قریب تر چار بڑے مصنوعی جنگل تعمیر کیئے گئے ہیں جب کہ بچوں کے لیے ایک فارم ہاؤس بھی ہے۔
السعویدی نے مزید بتایا کہ اس سفاری پارک میں بہ یک وقت دس ہزار افراد بآسانی سیر و تفریح کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں جس کے لیئے یہاں روشنی کا انتظام سولر انرجی سے حاصل کیا گیا ہے اور یہ ایک ماحول دوست پروجیکٹ ہے جو کہ متحدہ امارات کی تاریخ کا سب سے انوکھا اور منفرد پروجیکٹ ہے۔
میڈرڈ: شمالی اور وسطی پرتگال اور اسپین کے جنگلات میں آتشزدگی کے نتیجے میں کم ازکم 31 افراد ہلاک جبکہ متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق پرتگال اور اسپین کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے، آگ جنگلات میں 20 مقامات پر لگی ہے جسے بجھانے کے لیے 4 ہزار سے زائد فائرفائٹرزکوشش کررہے ہیں۔
پرتگال کے وزیراعظم آنتونیو کوسٹا نے ایمرجنسی نافذ کردی ہے جبکہ پرتگال کی نیشنل سول پروٹیکشن ایجنسی نے آتشزدگی میں 28 افرا کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔
دوسری جانب پرتگال کی سرحد کے ساتھ اسپین کے شمال مغربی ریجن گالیسیا میں آگ لگائےجانے کے واقعات میں 3 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اسپین کے وزیراعظم نے آتشزدگی میں ہلاک ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ دکھ کی گھڑی میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
خیال رہے کہ رواں سال 17 جون کو پرتگال کی تاریخ کی سب سے خوفناک آتشزدگی میں 64 افراد ہلاک جبکہ 250 سے زائدا فراد زخمی ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں تیزی سے پھیلتی ہوئے آگ کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 40 تک جا پہنچی ہے جبکہ 2000 گھر تباہ ہوگئے ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں
اسلام آباد: نئے وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تغیرات مشاہد اللہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافہ کر کے پاکستان کو درپیش موسمیاتی تغیرات کے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے حکومت تمام تر اقدامات اٹھا رہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جنگلات کی کٹائی اور تحفظ کے حوالے سے قائم فورم (آر ای ای ڈی پلس) کا مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں نو منتخب وزیر برائے کلائمٹ چینج مشاہد اللہ نے بھی شرکت کی۔
یہ ان کی حلف برداری کے بعد ماحولیاتی تحفظ سے متعلق کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مشاہد اللہ نے کہا کہ جنگلات کی کٹائی ہوتے ہوئے پاکستان کو کلائمٹ چینج کے خطرات سے بچانا ناممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج کے خطرات کے مقابلے میں جنگلات ایک بہترین ڈھال ہیں جو ان خطرات کی شدت بے حد کم کرسکتے ہیں۔
مشاہد اللہ نے پاکستان پر کلائمٹ چینج کے اثرات کے حوالے سے مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے ملک میں جنگلات کے رقبے میں کمی آئی جو اب ایک شدید مسئلے کے طور پر سامنے آرہا ہے۔
انہوں نے جنگلات کی کٹائی کے ایک اور سبب توانائی کے حصول کے لیے لکڑی کے استعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی میں کمی لانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر ایک کے لیے متبادل اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو قابل رسائی بنایا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوامی شعور و آگاہی کی مہمات پر بھی زور دیا جس کے تحت لوگوں کو جنگلات کی اہمیت اور ان کی ضرورت کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
لزبن : پرتگال کے جنگلات میں لگنے والی آتشزدگی میں کم ازکم 62افراد ہلاک جبکہ متعددافراد زخمی ہیں۔
تفصیلات کےمطابق پرتگالی حکام نے دار الحکومت لزبن سے 200 کلومیٹر شمال میں واقع پیدرو گاؤکرینج نامی علاقے میں لگی اس آگ کو پرتگال کی تاریخ کی سب سے بھیانک آگ قرار دیا۔
پرتگال کے وزیرِ اعظم اینٹونیو کوسٹا کا کہنا ہے کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کےباعث 62 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔
پرتگالی حکام کےمطابق فرانس نے 3 طیارے بھیجنے کی پیش کش کی ہے جبکہ ہمسایہ ملک اسپین پہلے ہی 2 طیارے بھیج چکا ہے۔
دوسری جانب فرانس کےصدر ایمانویل میکرون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ وہ پرتگال کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں جبکہ فرانسیسی عوام کی ہمدردیاں متاثرہ افراد کے ساتھ ہیں۔
Solidarité avec le Portugal touché par un terrible incendie. Pensées pour les victimes. La France met son aide à la disposition du Portugal.
خیال رہےکہ اس سے قبل سیکریٹری آف سٹیٹ فار انٹیرئیر جارج گومز نے کہا تھا کہ تین افراد پھیپڑوں میں دھواں بھرنے جبکہ 16 اپنی گاڑیوں میں ہلاک ہوئے۔
پرتگالی حکومت کے مطابق آگ کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر افراد وہ تھے جو پیڈروگاؤ گرینڈ کے علاقے کوئیمبرا کے جنوب مشرقی سے 50 کلو میٹر دور اپنے گاڑیوں کے ذریعے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔
امریکی ریاست ٹینیسی میں آتشزدگی‘ 10افراد ہلاک
یاد رہےکہ گزشتہ سال دسمبر میں امریکی ریاست ٹینیسی کے مختلف علاقوں میں جنگل میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 10افراد ہلاک جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوگئے تھے۔
واضح رہےکہ آتشزدگی کےنتیجے میں زخمی ہونے والے 20 افراد میں سے متعدد فائر فائیٹرز ہیں تاہم ابھی تک آگ لگنے کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکی ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج جنگلات کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ کسی ملک میں صحت مند ماحول اور مستحکم معیشت کے لیے اس کے 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے۔
رواں برس یہ دن جنگلات اور توانائی کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔ جب ہم جنگلات اور توانائی کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں پہلا خیال درختوں کی لکڑی کا آتا ہے جسے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگلات کی موجودگی کسی ملک کے ماحول، معیشت، شہری ترقی اور وہاں رہنے والے انسانوں کو مختلف جہتوں سے توانائی فراہم کرتی ہے۔
جنگلات ماحول کی آلودگی میں کمی کرتے ہیں جبکہ درختوں پر لگے پھلوں کی تجارت کسی ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بڑے اور پرہجوم شہروں میں درختوں کا ہونا ضروری ہے تاکہ وہاں موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور ماحول کی آلودگی میں کمی آئے۔
کراچی میں جنگلات اور درختوں کی کمی کی وجہ سے سنہ 2015 میں قیامت خیز گرمی کی لہر (ہیٹ ویو) آئی جس نے ایک ہزار سے زائد افراد کی جانیں لے لیں۔
وزیر اعظم کا پیغام
جنگلات کے عالمی دن پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ درخت موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہیں۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے آئندہ نسل پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حکومت آئندہ نسلوں کو سر سبز مستقبل دینے کے لیے کوشاں ہے۔
واضح رہے کہ وزیر اعظم کی ذاتی دلچسپی کے باعث ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا جاچکا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔
پاکستان کے 2 نایاب جنگلات
پاکستان میں جنگلات کی 2 ایسی نایاب اقسام موجود ہیں جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔
صنوبر کے جنگلات
بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کویونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔
یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل
یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔
اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔
تیمر کے جنگلات
کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوط رہا۔
کراچی میں تیمر کے جنگلات
لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔
پاکستان میں درختوں کی کٹائی
وفاقی ادارہ شماریات کا کہنا ہے کہ سنہ 2000 سے 2005 تک پاکستان کے جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کی گئی۔ اس بے دریغ کٹائی کی وجہ شہروں کا تیز رفتار اور بے ہنگم پھیلاؤ، زراعت کے لیے درختوں کو کاٹ دینا، اور گلوبل وارمنگ (درجہ حرارت میں اضافہ) ہے۔
ماہرین کے مطابق جب کسی مقام پر موجود جنگلات کی کٹائی کی جاتی ہے تو اس مقام سمیت کئی مقامات شدید سیلابوں کے خطرے کی زد میں آجاتے ہیں۔
وہاں پر صحرا زدگی کا عمل شروع ہوجاتا ہے یعنی وہ مقام بنجر ہونے لگتا ہے، جبکہ وہاں موجود تمام جنگلی حیات کی آبادی تیزی سے کم ہونے لگتی ہے۔
اگلے 100 سال میں جنگلات کا خاتمہ؟
اس وقت ہماری زمین کے 30 فیصد حصے پر جنگلات موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 1.8 کروڑ رقبے پر موجود جنگلات کو کاٹ دیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔
جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔
اسلام آباد: چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹمبر مافیا کے باعث جنگلات ختم ہورہے ہیں تاہم خیبر پختونخوا نے چھانگا مانگا جیسے دس جنگل اگا کر قابل تقلید عمل کیا۔
وہ اسلام آباد میں جنگلات سے متعلق ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کے آنے سے پہلے کے پی کے میں ٹمبر مافیا متحرک اور فعال تھی جسے لگام دی گئی۔
سربراہ تحریک انصاف نے بتایا کہ ٹمبرمافیا نے تقریباً 100ارب روپے کے جنگلات کاٹ لیے ہیں جس کے باعث پاکستان سے جنگلات میں خاتمہ ہو رہا ہے اور ماحول ، موسم اور درجہ حرارت میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب پاکستان میں چھانگا مانگا جیسے جنگلات ہوا کرتے تھے لیکن حکومتی نا اہلی اور ٹمبر مافیا کے گٹھ جوڑ نے اسے تہس نہس کیا تاہم کے پی کے حکومت نے چھانگا مانگا جیسے 10 جنگلات اگا کر ملک کو گلوبل وارمنگ سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔
سربراہ تحریک انصاف نے کہا کہ ہم نے سیم والے علاقے میں درخت لگائے گئے ہیں کیوں کہ 10سال بعد سیم سے متاثرہ زمین کاشت کے قابل ہوجاتی ہے۔
عمران خان نے خیبر پختونخواہ حکومت کی کارکردگی کا زکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میں میریٹ پر سلیکشن ہوتی ہے اور دیگر صوبوں کی نسبت کے پی کے پولیس میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہے اس لیے عمدہ کارکردگی دکھا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تعلیم اور اسپتال کا نظام بھی دیگر صوبوں سے بہتر ہے اور کے پی کے حکومت کی کارکردگی دیگر صوبوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
عمران خان نے پاناما کیس کے حوالے سے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پاناما کیس میں پھنسے والوں کی ساری ترقیاں صرف اخبار کے اشتہاروں تک محدود ہیں اگر درست احتساب ہو یہ لوگ جیل میں ہوتے لیکن بدقسمتی سے جس طرح کااحتساب ہونا تھا اس طرح نہیں کیاجاسکا۔