Tag: جنگلات

  • گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    گرین ڈے: وزیراعظم نے ساڑھے تین کروڑ پودے لگانے کی مہم کا آغازکردیا

    اسلام آباد: آج ملک بھر میں ماحول کو سرسبز و شاداب بنانے اور آلودگی کے خاتمے کے لیے قومی سرسبز دن (گرین ڈے) منایا جارہا ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے پودا لگا کر ’سر سبز پاکستان‘ مہم کا آغاز کیا۔

    ملک بھر میں بڑے پیمانے پر شجر کاری کے لیے سر سبز پاکستان مہم کا آغاز وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت و نگرانی میں کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ملک بھر میں 10 کروڑ مقامی پودے لگائے جائیں گے۔

    tree-2

    منصوبے کے لیے ساڑھے 3 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 50 کروڑ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خرچ کیے جائیں گے جبکہ بقیہ رقم صوبوں کو دی جائے گی۔

    حکومتی ترجمان کے مطابق قومی سر سبز دن کے موقع پر چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں بھی تقریبات کا انعقاد کیا گیا اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بیک وقت مہم کا آغاز کیا۔

    ملک کے پہلے گرین ڈے کے موقع پر ملکی تاریخ میں پہلی بار وفاق اور صوبوں میں بیک وقت شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا جبکہ آج ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ درخت بھی لگائے جائیں گے۔

    وزیر اعظم نے اسلام آباد میں خصوصی بچوں کے ہمراہ پودا لگا کر اس مہم کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو سرسبز بنانا بہت ضروری ہے۔ خوشی ہے کہ گرین پاکستان مہم میں ہر صوبہ حصہ لے رہا ہے۔

    tree-1

    وزیر اعظم نے واضح کیا کہ اس مہم میں پاکستان میں پائے جانے والے درختوں کی مقامی اقسام لگائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی و غیر ملکی اقسام نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ صوبہ سندھ کا شہر کراچی غیر ملکی پودوں کی قسم کونو کارپس کی بڑے پیمانے پر شجر کاری کر کے اس کے بدترین نقصانات اٹھا رہا ہے۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔

    یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

    وزیر اعظم نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ملک بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہو رہی ہے۔

    tree-3

    انہوں نے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر کے سنگین عوامل کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ درختوں اور جنگلات کی کٹائی کلائمٹ چینج کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ پروگرام کلائمٹ چینج کے نقصانات سے نمٹنے، ملک کو سرسبز بنانے اور آلودگی ختم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم کی خصوصی دلچسپی و ہدایت کے تحت شروع کیا جانے والا گرین پاکستان پروگرام چین کے گریٹ گرین ڈے کے پروگرام کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے۔ اس پروگرام کا آغاز گزشتہ برس کیا گیا۔

    اس سے قبل بھی وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی تھی۔

  • فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    فطرت کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    کیا آپ جانتے ہیں کہ فطرت اور فطری مناظر ہماری صحت پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زندگی اور صحت کا بنیادی جزو فطرت ہے اور فطرت سے قریب رہنا ہمیں بہت سے مسائل سے بچا سکتا ہے۔

    nature-2

    ماہرین کے مطابق جب ہم کسی قدرتی مقام جیسے جنگل یا سمندر کے قریب جاتے ہیں تو ہمارے دماغ کا ایک حصہ اتنا پرسکون محسوس کرتا ہے جیسے وہ اپنے گھر میں ہے۔

    بڑے شہروں میں رہنے والے افراد خصوصاً فطرت سے دور ہوتے ہیں لہٰذا وہ بے شمار بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے لیے وہ مہنگی مہنگی دواؤں یا تھراپیز کے لیے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ان کے مسائل کا علاج فطرت کے قریب رہنے میں چھپا ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ خاموشی کے فوائد جانتے ہیں؟

    آئیے دیکھتے ہیں فطرت کے قریب وقت گزارنا ہمیں کیا فوائد پہنچاتا ہے۔

    ذہنی تناؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔

    nature-4

    کسی آپریشن، سرجری یا بیماری کے بعد فطرت کے قریب وقت گزارنا ہمارے صحت یاب ہونے کی شرح میں اضافہ کرتا ہے۔

    خون کی روانی میں اضافہ ہوتا ہے جس سے مختلف ٹیومرز اور کینسر سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔

    نیند بہتر ہوتی ہے۔

    بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر میں کمی آتی ہے۔

    فطرت کے ساتھ وقت گزارنا ہماری تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتا ہے۔

    پرہجوم شہروں میں رہنے والے افراد اگر کچھ وقت کسی پرسکون قدرتی مقام پر گزاریں تو ان کی دماغی صحت میں بہتری آتی ہے۔

    nature-3

    فطرت کے ساتھ وقت گزارنا تھکے ہوئے ذہن کو پرسکون کر کے اسے نئی توانائی بخشتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ہمارا دماغ بہت زیادہ کام کرتا ہے اور اسے اس کا مطلوبہ آرام نہیں مل پاتا۔ دماغ کو پرسکون کرنے کے لیے سب سے بہترین علاج کسی جنگل میں، درختوں کے درمیان، پہاڑی مقام پر یا کسی سمندر کے قریب وقت گزارنا ہے۔

  • تصویر میں چھپے جانور کو ڈھونڈیں، ذہانت آزمائیں

    تصویر میں چھپے جانور کو ڈھونڈیں، ذہانت آزمائیں

    فنون لطیفہ تخلیقی علم میں وہ شاہکار ایجاد کرتا ہے جسے دیکھ کر عقل انسانی حیران رہ جاتی ہے، آپ نے کئی مصوروں کی پینٹنگ دیکھی ہوں گی جن میں چھپے تاثرات تک پہنچنا ناممکن ہوا کرتا ہے تو کہیں کسی شاعر کا کلام سنا ہو گا جو آپ کو اپنی آپ بیتی محسوس ہو گی۔

    حیران کردینے والے ایسے جواہر جا بجا پھیلے ہوئے ہیں ایسے ہی ایک معروف فوٹو گرافر نے جنگلات میں کھینچی ایسی تصاویر شائع کی ہیں جن میں جانور کہیں منظر میں موجود تو ہوتا ہے لیکن آنکھ سے اوجھل رہتا ہے، فوٹو گرافر نے ان تصاویر کے ذریعے ثابت کیا کہ قدرت نے جانوروں کو اپنے ماحول سے اتنا ہم آہنگ رکھا ہے کہ وہ ماحول سے مشابہت کے باعث پہچانے بھی نہیں جاتے۔

    وائلڈ لائف فوٹو گرافر کی یہ محنت جہاں قدرت کی ثنائی بیان کرنے پر مجبور کردے گی بلکہ آپ کی ذہانت کو بھی امتحان میں ڈال دے گی، بس آپ کو کرنا یہ ہے کہ دی گئی تصاویر میں چھپے جانور کو تلاش کرنا ہے جس کے لیے آپ کے پاس محض 30 سیکنڈ کا وقت ہے۔

     اگر آپ جانور کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو پوسٹ کے نیچے دیئے گئے کمنٹ کے خانے میں جواب لکھ دیجیئے اور اپنے دوستوں کو یہ پوسٹ شیئر کر کے دل چسپ جوابات پائیں اور ذہانت کا امتحان لیں۔

    ہمیں یقین ہے آپ کی ذہانت جانچنے کا یہ امتحان آپ کی بچپن کی یادیں تازہ کردے گا جب کسی اخبار یا میگزین میں پوچھے گئے ایسے سوالات کا جواب دینا آپ کا پسندیدہ مشغلہ ہوا کرتا تھا۔

    wolf-post

    اگر آپ کو یہ تصویر پسند آئی ہے تو اس اسٹوری کو اپنے دوستوں کے ساتھ بھی شیئر کریں اور ان کی ذہانت کو چیلنج کریں۔

  • بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    کوئٹہ: جنگلات کسی بھی مقام کے ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ یہ فضائی آلودگی اور موسموں کی شدت میں کمی کرتے ہیں جبکہ یہ کسی علاقے کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جنگلات کی لکڑی توانائی کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں، خصوصاً ایسے سرد علاقے جو گیس سے محروم ہیں، میں ایندھن اور توانائی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ جنگلات ہی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں موجود کئی قیمتی اور قدیم جنگلات تیزی سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    بلوچستان کے ضلع ژوب اور شیرانی میں بھی لاکھوں ایکڑ اراضی پر پائے جانے والے زیتون کے قدرتی قیمتی جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔

    olive-2

    یہ جنگلات بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، روزگار کے ذرائع اور ایندھن کے متبادل ذرائع نہ ہونے کے باعث تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور مقامی افراد ان درختوں کو کاٹ کر اپنی ایندھن کی اور دیگر ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں کل 0.2 فیصد رقبے پر زیتون کے جنگلات پائے جاتے ہیں جن میں سے 80 فیصد مقامی آبادی اور 20 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    مقامی آبادی زیتون کی لکڑی کا استعمال ایندھن، گھروں کی تعمیر اور مویشیوں کے چارے کے لیے کرتی ہے۔ اس کا بیج مفید اور کھانے کے قابل بھی ہوتا ہے جس کا مقامی طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

    مقامی افراد ان جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایندھن کے حصول اور روزگار کے لیے اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ ان درختوں کو کاٹ کر نہ صرف اپنے آتش دانوں کو آگ فراہم کرتے ہیں بلکہ، درختوں کو کاٹ کر ان کی لکڑیوں کو بازاروں میں لے جا کر بھی فروخت کیا جاتا ہے۔

    اگرچہ فطری طور پر زیتون کے درختوں کی افزائش کی رفتار غیر معمولی ہے اور یہ بہت جلد نشونما پانے لگتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان جنگلات کے بڑے پیمانے پر مویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این بلوچستان شاخ میں کام کرنے والے ماہرین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگرحکومت اور مقامی افراد کی کمیٹیاں ان جنگلات کا خیال نہیں رکھتیں تو ہم شدید نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھیں گے۔

    اس کی تصدیق ژوب کے رہائشیوں نے بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے نہ صرف علاقے کی آلودگی میں اضافہ ہوگیا ہے، بلکہ موسمی تغیرات کا اثر بھی واضح ہوتا نظر آرہا ہے اور موسم زیادہ شدت سے محسوس کیے جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    آئی یو سی این کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں موسم گرما میں سخت حدت اور موسم سرما میں سردی کی شدت کا مشاہدہ کیا گیا جو مقامی طور پر موجود حیاتیاتی اور نباتاتی انواع کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    olive-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کو نگرانی کے زیادہ بہتر آلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کو چولہے جلانے کے لیے متبادل ایندھن جیسے میتھین گیس وغیرہ فراہم کی جائے جبکہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

    دوسری جانب محکمہ جنگلات کے ڈویژنل افسر محمد سلطان نے زیتون کے جنگلات کی کٹائی کی خبروں کو سراسر غلط قرار دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جنگلات کو پراجیکٹ ایریا قرار دیا جائے تاکہ یہاں کی عوام کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

    مزید پڑھیں: تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں یہاں بھی آئیں اور مقامی آبادی کے ساتھ مل کر ان درختوں کے تحفظ کے لیے کام کریں۔

    واضح رہے کہ بلوچستان ایک میدانی علاقہ ہونے کے باوجود اپنے دامن میں جنگلات کے نہایت قیمتی ذخائر رکھتا ہے۔ بلوچستان کے ضلع زیارت میں صنوبر کے تاریخی جنگلات واقع ہیں جنہیں یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔

    تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے اور بے شمار نادر جانداروں کا مسکن ہے، تاہم یہ قیمتی جنگل بھی ایندھن کے حصول کے لیے لکڑی کاٹے جانے کے باعث تباہی سے دو چار ہے۔

  • امریکہ ریاست  ٹینیسی میں آتشزدگی،10افرادہلاک

    امریکہ ریاست ٹینیسی میں آتشزدگی،10افرادہلاک

    واشنگٹن :امریکی ریاست ٹینیسی کے جنگل میں لگنے والی آگ کے نتیجےمیں11افراد اوردرجنوں افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق امریکی ریاست ٹینیسی کے مختلف علاقوں میں جنگل میں آگ لگنے کے باعث 11افراد مارے گئے جبکہ ریاست کے شہرگٹلینبرگ اور پیجن فورج سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔

    post-1

    امریکی حکام کےمطابق آگ پیر کو ایک شخص کی وجہ سے لگی اور اس کے نتیجے میں سیاحی شہر گٹلینبرگ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں سے 14 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔

    post-2

    فائر بریگیڈ چیف گریگ ملر کا کہناہے کہ آگ کےباعث جگہ جگہ درخت اور بجلی کی تاریں گر رہی تھیں اور ہمیں چند منٹ کے اندر اندر 20 مقامات پر آگ بجھانے کے لیے جانا پڑا جہاں آگ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

    post-3

    ریسکیو حکام کا کہناہے کہ آتشزدگی کےنتیجے میں 45 افرادزخمی ہوئے جبکہ 700عمارتیں آگ کی وجہ سے متاثر ہوئی ہیں۔

    post-4

    واضح رہے کہ ٹینیسی کے محکمہ زراعت کے مطابق 26 مقامات پر لگنے والی آگ کے نتیجے میں 12 ہزار ایکٹر رقبہ متاثر ہوا۔

    post-5

  • چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال: جنگلی حیات کے واچرز اور مقامی لوگوں کے لیے وائلڈ لائف رولز ریگولیشن اینڈ حیاتیاتی تنوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ کامیاب شرکا میں اسناد تقسیم کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات چترال کی جانب سے ضلع بھر میں کام کرنے والے جنگلی حیات کے واچرز (محافظ) اور مقامی افراد کے لیے جنگلی حیات کی قانونی اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے استعداد کار بڑھانے کے موضوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں 50 شرکا نے حصہ لیا۔ اس پروگرام میں 3 روزہ ورکشاپ اور 3 روزہ فیلڈ وزٹ شامل تھا۔

    ورکشاپ کے احتتام پر کامیاب شرکا میں اسناد بھی تقسیم کیے گئے۔ اس سلسلے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر برائے جنگلی حیات (ڈی ایف او وائلڈ لائف)کے دفتر میں تقسیم اسناد کی ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایف او چترال ڈویژن امتیاز حسین لال نے کہا کہ چترال واحد خطہ ہے جہاں قومی جانور مارخور، قومی پھول چنبیلی، قومی پرندہ چکور اور قومی درخت دیار یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگلی حیات کو فروغ دیا جائے تو ماحولیات اور سیاحت کو خود بخود ترقی ملے گی اور دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رخ کریں گے جس سے یقینی طور پر چترال کی معیشت پر مثبت اثرات پڑے گی۔

    ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے تمام واچرز (محافظین جنگلی حیات) پر زور دیا کہ اپنے فرض منصبی کو عبادت سمجھ کر کریں۔ اگر وہ بے زبان جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرے تو اس سے نہ صرف جنگلی حیات کو ترقی ملے گی بلکہ اس سے معاشی فائدے بھی لیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مار خور کے ہنٹنگ ٹرافی کے لیے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ان جنگلی حیات کی حفاظت میں کسی کا بھی لحاظ نہ کریں اور جو بھی ان قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ان کے خلاف بلا امتیاز قانونی کاروائی کریں۔

    انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وائلڈ لائف اینڈ حیاتیاتی تنوع ایکٹ 2015 نافذ کیا ہے اس سے ان کے کام میں مزید بہتری آئے گی اور جنگلی حیات کو بھی تحفظ ملے گا۔

    ڈی ایف او جنگلی حیات امتیاز حسین، ڈی ایف او محکمہ جنگلات سلیم خان مروت اور چند واچروں نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہو ئے بتایا کہ اس تربیت سے جنگلات کو بھی تحفظ ملے گا کیونکہ زیادہ تر جنگلی حیات جنگلوں میں رہتے ہیں اور ان جانوروں کی حفاظت پر مامور واچر یقینی طور پر جنگلات کی بھی حفاظت کریں گے اور ان کو غیر قانونی طور پر کٹائی سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

    chitral-2

    chitral-1

    chitral-3

    chitral-4

    آخر میں کامیاب شرکاء میں اسناد تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب میں محکمہ جنگلی حیات کے واچروں کے علاوہ مقامی لوگوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سماجی کارکنان نے بھی بھر پور شرکت کی۔

  • سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    نئی دہلی: انسانوں کے لیے زبانوں کا مسئلہ ہونا تو عام بات ہے۔ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو انہیں نئی زبان سیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور اگر زبان مشکل ہو تو انہیں دقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    لیکن بھارت میں ایک جانور کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی جب اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو اسے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے کی ’زبان‘ کو سمجھنا کافی مشکل ہوگیا۔

    tiger-3

    یہ عجیب صورتحال چنائی کے ارنگر انا زولوجیکل پارک میں پیش آئی جہاں سے ایک سفید شیر کو راجھستان کے شہر ادے پور کے سجن گڑھ بائیولوجیکل گارڈن منتقل کیا گیا۔ جنگلی حیات کے تبادلے کے پروگرام کے تحت راجھستان کے دو شہروں جودھ پور اور جے پور سے دو بھیڑیوں کو بھی چنائی بھیجا گیا۔

    لیکن اس تبادلے کے بعد انکشاف ہوا کہ چنائی سے آنے والا سفید شیر صرف تامل زبان سمجھتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت زبانوں کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ریاست بنگال میں تامل جبکہ راجھستان میں میواڑی زبان بولی جاتی ہے۔

    چنائی میں پیدا ہونے والا یہ 5 سالہ شیر راما بچپن سے اپنے نگرانوں کی تامل زبان میں احکامات سننے اور انہیں ماننے کا عادی ہے۔ لیکن ادے پور پہنچ کر جب اس کے نگرانوں نے میواڑی زبان میں بات کی تو شیر اور نگران دونوں ہی مخمصہ میں پھنس گئے۔

    غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ *

    نگران اپنی بات دہرا دہرا کر تھک گیا لیکن صرف تامل زبان سے آشنا راما ٹس سے مس نہ ہوا کیونکہ اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اسے کیا کہا جارہا ہے۔

    دونوں کی مشکل حل ہونے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو راما میواڑی زبان سیکھ لے یا پھر اس کی نگہبانی پر معمور نگران تامل زبان سیکھ لیں۔

    ادے پور کے آفیسر برائے تحفظ جنگلات راہول بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ ادے پور کے گارڈن میں ایک سفید شیرنی پہلے سے موجود ہے جو پونا سے لائی گئی ہے۔ اب ایک اور شیر کو یہاں لانے کا مقصد ان کی نسل کی تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت ان کی آبادی میں اضافہ کرنا ہے۔

    tiger-2

    واضح رہے کہ سفید شیر جسے بنگال ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے ایک خطرناک جانور ہے اور یہ اکثر جنگلوں سے دیہاتوں میں داخل ہوجاتا ہے جہاں یہ انسانوں اور جانوروں پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا ہلاک کرنے کا سبب بن چکا ہے۔

    اس کی وحشیانہ فطرت کے باعث گاؤں والوں کو اپنی حفاظت کی خاطر مجبوراً اسے ہلاک کرنا پڑتا ہے جس کے باعث اس کی آبادی میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں سفید شیروں کی تعداد صرف 200 کے قریب رہ گئی ہے۔

  • جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جوہانسبرگ: مختلف ممالک کی حکومتوں نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ جنوبی افریقہ میں غیر قانونی تجارت سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں کیا گیا۔

    واضح رہے پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جانے ممالیہ ہے۔ یہ افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پینگولین کا گوشت چین اور تائیوان میں کھانے کے لیے جبکہ اس کی کھال دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ پینگولین کی اسمگلنگ میں تیزی سے ہوتے اضافے کے باعث بر اعظم ایشیا میں اس کی معدومی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

    summit-3

    اجلاس میں 182 ممالک نے اس جانور کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    اسی اجلاس میں عالمی برادری نے روز ووڈ کی لکڑی کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا۔ دنیا بھر کے مختلف گرم حصوں میں پائی جانے والی روز ووڈ دنیا کی سب سے زیادہ اسمگل کی جانے والی لکڑی ہے جو قیمتی و پرآسائش فرنیچر بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔

    چمکدار، خوشبو دار سرخ رنگ کی اس لکڑی کی قیمت ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ، اور شیروں یا چیتوں کی کھال کی مجموعی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کی فرنیچر سازی مارکیٹ میں اس کی بے تحاشہ مانگ ہے۔ اس لکڑی سے تیار شدہ ایک بیڈ 1 ملین ڈالر تک میں فروخت کیا جاچکا ہے۔

    summit-1

    روز ووڈ کی لکڑی کا سالانہ 2.2 بلین تک کاروبار ہوتا ہے۔

    اس کی بے تحاشہ قانونی تجارت و اسمگلنگ کے باعث ایشیا میں اس کے جنگلات کا خاتمہ ہونے جارہا ہے لہٰذا اس کی تلاش کے لیے ٹمبر مافیا نے وسطی امریکہ اور افریقہ سمیت ان حصوں کا رخ کرلیا ہے جہاں اس کی افزائش ہوتی ہے۔

    سنہ 2016 کے صرف ابتدائی 6 ماہ میں افریقہ سے 216 ملین کی لکڑی اسمگل کی جاچکی ہے۔

    summit-5

    اس سے قبل کانفرنس میں ماہرین نے ہاتھیوں کی معدومی سے متعلق بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    یاد رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ کانفرنس اسی معاہدے کے مرکزی خیال پر منعقد کی جارہی ہے۔

  • حشیش کی جگہ کافی اگانے والا کسان

    حشیش کی جگہ کافی اگانے والا کسان

    کیا آپ جانتے ہیں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں حشیش اگائی جاتی ہے اور یہ ہزاروں لوگوں کا ذریعہ معاش ہے؟

    حشیش یا افیون کی فصل اگانے کے لیے کھلی جگہ چاہیئے اور اس کے لیے شہروں سے دور واقع جنگلات کو عموماً کاٹ دیا جاتا ہے۔

    تھائی لینڈ بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں حشیش اگائی جاتی ہے۔

    لیکن تھائی لینڈ کے ایک شہری سومسک سرپم تھونگ نے اپنے گاؤں میں واقع جنگلات کی بحالی کے لیے حشیش کی فصل کو ختم کردیا اور اس کی جگہ کافی اگانی شروع کردی۔

    c9

    c6

    تھائی صوبے چانگ مائی کا رہائشی سومسک ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور وہ صرف 13 سال کی عمر میں کمانے کے لیے شہر چلا گیا۔ کافی عرصہ بعد جب وہ اپنے آبائی علاقہ میں واپس آیا تو اس کے گاؤں سے جنگلات تقریباً ختم ہوچکے تھے۔

    جنگلات ختم ہونے کے باعث زمینی کٹاؤ کا عمل جاری تھا اور بارش کے موسم میں مٹی پانی کو جذب نہیں کرسکتی تھی جس کے باعث پانی جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار کرلیتا تھا۔

    یہ صورتحال ہر سال پیش آتی تھی اور گاؤں والوں کو سیلاب کے ہاتھوں شدید مالی نقصانات اٹھانے پڑتے تھے۔

    سومسک نے اپنے گاؤں کے جنگلات کی بحالی کا بیڑا ٹھایا اور اس کے لیے سب سے پہلے حشیش کی فصل کو ختم کیا۔ اس کے بعد اس نے نامیاتی کافی اگانی شروع کردی۔

    coffee-1

    c5

    واضح رہے کہ آرگینک یا نامیاتی فصل وہ ہوتی ہے جو مصنوعی کھاد اور کیمیائی مواد کے بغیر اگائی جاتی ہے۔

    کافی کے ساتھ سومسک نے دیگر پودے بھی اگانے شروع کر دیے اور آہستہ آہستہ گاؤں میں پھر سے جنگلات کا رقبہ بڑھنے لگا۔ چونکہ کافی کی فصل درختوں کے ساتھ بھی اگ سکتی ہے لہٰذا اس نے باآسانی کافی کے ساتھ دیگر درخت اگانا شروع کردیے۔

    c4

    سومسک نے بتایا کہ اس کی کافی خالص نامیاتی ہے اور اس کی پیداوار کے لیے وہ مصنوعی کھاد یا کیڑے مار ادویات کا استعمال نہیں کرتا۔

    اس کے مطابق فصل سے کیڑے ختم کرنے کے لیے وہ مخصوص طریقہ سے تربیت دیے گئے پرندوں کو فصل میں چھوڑ دیتا ہے جس کے بعد وہ پرندے صرف کیڑوں کو کھاتے ہیں اور کافی کے پتوں کو چھوتے بھی نہیں۔

    c3

    c2

    c7

    سومسک کا یہ قدم اس کے گاؤں کے لیے خوشحالی لایا ہے اور گاؤں کے کئی خاندان اب اس روزگار سے وابستہ ہوچکے ہیں۔ یہی نہیں وہ آس پاس کے دیگر گاؤں دیہاتوں کو بھی اس سلسلے میں معاونت دے رہے ہیں جس کے باعث اس علاقہ کی سیاحت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوارک و زراعت ایف اے او کے مطابق مختلف کاموں میں استعمال اور مختلف تعمیرات کے لیے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے باعث 1990 سے 2010 کے درمیان تھائی لینڈ کے جنگلات کے کل رقبہ میں 3 فیصد کمی ہوچکی ہے۔

  • جنگلات کو جلانا حرام قرار،انڈونیشین علمائےکرام نے فتویٰ جاری کردیا

    جنگلات کو جلانا حرام قرار،انڈونیشین علمائےکرام نے فتویٰ جاری کردیا

    جکارتا: انڈونیشیا میں علمائے دین کے ممتاز حلقے نے جنگل میں شعوری طور پر لگائی جانے والی آگ کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے ’حرام‘ قرار دےدیا۔

    تفصیلات کےمطابق انڈونیشیا کی مرکزی علما کونسل نے اپنے فتوے میں جنگلات اور قابلِ کاشت رقبے کو جلانا ’حرام‘ قرار دیا ہے۔

    علما فتویٰ کونسل کے سربراہ حزیمہ توحیدو یانگو نے کہا ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے ہمیں ماحول کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں، جنگلات جلانے سے نہ صرف ماحول،عوامی صحت بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    انڈونیشیا میں قیمتی جنگلات ایک بڑے رقبے پر موجود ہیں اور آئے دن زمین کے حصول کے لیے ان جنگلات کو جلایا جاتا ہے۔اس سے ملک اور خطے کے کئی علاقے گہرے دھویں اور دھند کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔

    ماحولیات و جنگلات کے وزیر نے اس فتوے کا خیر مقدم کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ مذہبی طبقہ معاشرے میں اسے عام کرنے کی کوشش کرے گا۔

    انہوں نے کہا کہ مقامی افراد تک یہ معلومات پہنچانا بہت ضروری ہےتاہم یہ بات واضح نہیں ہوسکی ہے کہ اس فتوے کو کس طرح انڈونیشیا کے 17 ہزار جزائر تک لاگو کیا جائے گا جہاں 25 کروڑ سے زائد افراد بستےہیں۔

    واضح رہے کہ علما تنظیم اس سے قبل ماحول کے تحفظ، قیمتی جانوروں کی غیرقانونی فروخت اور شکار کے خلاف بھی فتویٰ جاری کرچکی ہے۔