Tag: جنگلی جانور

  • طیارے سے جنگلی جانور ٹکرا گیا، پائلٹ نے حاضر دماغی سے ایمرجنسی بریک لگا دیے

    طیارے سے جنگلی جانور ٹکرا گیا، پائلٹ نے حاضر دماغی سے ایمرجنسی بریک لگا دیے

    اسلام آباد: سول ایوی ایشن اتھارٹی کے عملے کی مبینہ غفلت کے باعث اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈنگ کے دوران ایک جنگلی جانور طیارے سے ٹکرا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ایئرپورٹ پر سی اے اے کے عملے کی مبینہ غفلت کی وجہ سے رن وے پر جنگلی جانور داخل ہو گیا، ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ دوران لینڈنگ جنگلی جانور طیارے سے ٹکرا گیا تاہم پائلٹ نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے ایمرجنسی بریک لگا دیے۔

    نجی ایئر لائن کی پرواز ای آر 702 دبئی سے اسلام آباد پہنچی تھی، لینڈنگ کے دوران اچانک جنگلی جانور رن وے پر آ گیا، کپتان کے ایمرجنسی بریک لگانے کے دوران جانور طیارے سے ٹکرا گیا، حادثے کے بعد کپتان نے واقعے سے متعلق سول ایوی ایشن اتھارٹی کو اطلاع دے دی، جس پر انجنیئرنگ عملے نے جہاز کا معائنہ کیا۔

    سول ایوی ایشن کے ترجمان کے مطابق لینڈنگ کے بعد پائلٹ نے رن وے پر لینڈنگ رول کے دوران نوز وہیل پر جانور ٹکرانے کی اطلاع دی، رن وے کا معائنہ پر ٹیکسی وے سی اور ایف کے درمیان مردہ جانور کی باقیات بھی پائی گئیں، تاہم متعلقہ ایئر لائن کے انجینئرنگ شعبے نے ہوائی جہاز کو کوئی نقصان نہ پہنچنے کی اطلاع دی۔

    ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد ایئر پورٹ پر پیش آئے واقعے کو جہاز کو حادثہ کہنا قطعی درست نہیں، وائلڈ لائف کو ایئر پورٹس سے دور رکھنے کے ہر ممکن انتظامات کیے جاتے ہیں، متعلقہ حکام واقعے کے محرکات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

  • ویڈیو: جنگلی جانور پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل  ہوگیا

    ویڈیو: جنگلی جانور پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوگیا

    اسلام آباد: جنگلی جانور پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوگیا جس نے سب کو پریشان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق جنگلی جانور کے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہونے سے عملہ پریشان ہوگیا جس کے بعد پولیس اہکاروں نے پکڑ لیا۔

    اس حوالے سے وہاں موجود عملے کا کہنا ہے کہ جنگلی جانور نے گزشتہ روز بھی کئی دفاترمیں داخل ہوکرتوڑپھوڑکی تھی آج ایک بار پھر پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوا اور کئی دفاتر کو نقصان پہنچایاہے۔

  • بیٹی کو بچانے کے لئے ماں’ جنگلی جانور’ سے لڑگئی

    بیٹی کو بچانے کے لئے ماں’ جنگلی جانور’ سے لڑگئی

    بلاشبہ ماں بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے، جس کا مظاہرہ ایک بہادر ماں نے اپنی 11 سالہ بیٹی کی جان جنگلی جانور سے بچاکر کیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے کوربا ضلع کی رہائشی پینتالیس سالہ دواسیا بائی اپنی گیارہ سالہ بیٹی سنیتا کے ساتھ قریبی گاؤں گئیں جہاں مٹی کھودنے کے دوران ماں بیٹی پر جنگلی خنزیر نے حملہ کردیا۔

    خنزیر کے اچانک حملے پر دواسیا نے بیٹی کو بچانے کے لئے جنگلی خنزیز کے سامنے ڈٹ گئی، جنگلی جانور اور دواسیا کے درمیان کم وبیش آدھے گھنٹے تک مقابلہ ہوتا رہا، مگر ماں کی ممتا نے اپنی بیٹی کو جنگلی جانور کا نوالہ نہ بننے دیا۔

    دواسیا نے کدال ( مٹی کھودنے والہ آلہ) سے جنگلی جانور پر پے در پے وار کئے جبکہ جنگلی جانور بھی مسلسل دواسیا پر حملے کرتا رہا، اس دل دہلا دینے والے واقعے میں دواسیا جان سے گئی جبکہ خنزیر بھی کدال کے حملے برداشت نہ کرسکا اور وہ بھی مرگیا۔

    یہ بھی پڑھیں: ویڈیو: ماں نے خون خوار جانور سے اپنی بیٹی کی جان کیسے بچائی ؟

    دلخراش واقعے کی اطلاع ملنے پر محکمہ جنگلار کی ٹیم موقع پر پہنچی اور ضروری کارروائی کے بعد جنگلی خنزیر کی لاش کو تحویل میں لیا جبکہ خاتون کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لئے اسپتال منتقل کیا گیا۔

    پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق خاتون کے جسم پر کئی جگہ زخموں کے نشانات پائے گئے ہیں دونوں کی موقع پر ہی موت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ان دونوں کے درمیان کیسی گھمسان کی لڑائی ہوئی۔

    جنگلی خنزیر کی ہلاکت کے بعد محکمہ جنگلات نے گاؤں والوں کو مزید چوکنا رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ زخمی لڑکی کے علاج معالجے کے لئے رقم بھی دینے کا اعلان کیا ہے۔

  • براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ براعظم افریقہ میں جنگلی جانور معدوم ہو رہے ہیں، تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث سنہ 2100 کے اواخر تک افریقی ممالیہ جانوروں اور پرندوں کی نصف نسلیں معدوم ہوسکتی ہیں۔

    دنیا بھر سے 550 ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتی نظام کے تنوع میں کمی سے انسانی کا معیار زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں یورپ اور وسطی ایشیا میں زمین پر بسنے والے جانوروں اور پودوں میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔

    یہ اعداد و شمار دنیا کے آخری نر شمالی سفید گینڈے کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان انکشافات کے باوجود تحقیق میں کئی جنگلی حیات میں کامیاب اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آف بائیو ڈائیورسٹی ایںڈ ایکوسسٹم سروسز (آئی پی بی ای ایس) کے مطابق چین اور شمال مشرقی ایشیا میں سنہ 1990 اور 2015 کے درمیان برساتی جنگلوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ماضی میں معدومی کا شکار ہونے والے آمور تیندوے کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    کولمبیا میں بائیو ڈائیورسٹی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی سائنس دان سر رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور قدرت کے غیرمستحکم استعمال سے پلٹنا ہوگا ورنہ پھر ہم جو مستقبل چاہتے ہیں اس کو خطرے کا سامنا ہوگا۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور اسے سنہ 2005 کے بعد حیاتی نظام پر سب سے جامع تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    خوراک اور پانی کے حوالے سے لاحق خطرات میں آلودگی، موسمی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ سر فہرست ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے حکومتیں، کاروبار اور انفرادی طور پر افراد جب کھیتی باڑی، ماہی گیری، جنگلات، کان کنی یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلے کریں تو وہ ان کے حیاتی نظام پر اثرات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔

  • دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    دریائی گھوڑا: وہ جانور جس سے‌ کوئی درندہ نہیں‌ الجھنا‌ چاہتا

    Hippo (ہیپو) کو ہم دریائی گھوڑا کہتے ہیں۔ اس جانور کا پورا نام hippopotamus ہے جو یونانی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے دریا میں رہنے والا گھوڑا۔ یہ برّاعظم افریقا میں‌ پایا جاتا ہے جہاں دریا، ندی، نالے، تالاب اور جوہڑ اس کا مسکن ہیں۔

    اس جانور کی بڑی تعداد برّاعظم افریقا کے ملک زیمبیا میں (40 ہزار) اور دوسرے نمبر پر تنزانیہ (20 ہزار) رہتی ہے۔ یہ افریقا کے علاوہ کسی اور برّاعظم میں نہیں پائے جاتے۔

    کسی دریائی گھوڑے کا وزن 1500 سے 4500 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ نر کی بہ نسبت مادہ کا وزن چند سو کلو کم ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھاری بھرکم وجود انھیں پانی کے اندر تیز لہروں میں اپنی جگہ جمے رہنے میں‌ مدد دیتا ہے۔ یہ تیرتے نہیں ہیں بلکہ پانی میں اچھل کود کرتے اور چھلانگیں لگاتے ہیں۔ وزنی اور بھاری بھرکم ہونے کے باوجود یہ انسان سے تیز دوڑ سکتے ہیں۔

    قدرت نے ان کا جسم پانی میں رہنے کے لیے خاص طرح ڈیزائن کیا ہے۔ یہ پانی سے باہر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے، ان کی کھال خشک ہو کر پھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ ان کے جسم سے سرخ رنگ کا مادّہ نکلتا ہے۔ یہ ان میں قدرتی طور پر پایا جانے والا Sun Screen Lotion ہے جو انھیں دھوپ سے بچاتا ہے اور جراثیم کُش کے طور پر کام کرتا ہے۔

    اگر آپ غور کریں تو اس کی ناک، آنکھیں اور کان ایک سیدھ میں نظر آئیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہیپو پانی میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنا پورا منہ بھی باہر کم ہی نکالتا ہے اور صرف سَر کا اوپری حصّہ باہر رکھتا ہے اس کا باقی دھڑ پانی کے اندر ہوتا ہے اور یوں اس کی جلد دھوپ وغیرہ سے بچی رہتی ہے۔ پانی کے اندر یہ اپنے ناک کے نتھنے اور کان بند کر لیتا ہے۔ اس کی آنکھ میں اضافی حفاظتی جھلّی ہوتی ہے جو اسے پانی میں دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔

    ہیپو کے منہ میں 38 سے 44 دانت ہوتے ہیں۔ اس کے دانتوں کی بناوٹ بھی خاص ہوتی ہے جیساکہ آپ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں۔ سامنے والے سیدھے دانت کسی بھی چیز کو توڑنے میں‌ مددگار ہیں جب کہ جبڑوں کے کناروں پر سینگ جیسے دوسرے لمبے دانت (Canine) چیر پھاڑ کرنے کے کام آتے ہیں۔ منہ کی پچھلی جانب ڈاڑھیں ہوتی ہیں۔ یہ اپنے ہونٹوں سے گھاس توڑتے ہیں اور اسے ڈاڑھوں سے پیستے ہیں۔

    افریقا کے گرم ممالک کا یہ جانور سارا دن پانی میں گزارتا ہے اور رات کے وقت گھاس چرنے کے لیے باہر نکلتا ہے۔ ان کی آنکھوں میں ریٹینا کے پیچھے ایک Tapetum Lucidum نامی ایک تہ ہوتی ہے جس کی مدد سے یہ رات کے وقت بھی آسانی سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے کتّے، بلّی وغیرہ کی آنکھوں کو رات میں چمکتے ہوئے دیکھا ہو گا، یہ اسی تہ کی وجہ سے ہے۔

    ہیپو خطرناک اور انتہائی غصیلا جانور ہے۔ افریقا کے جنگلات میں شیر، تیندوے، چیتے بھی ہیں، ہاتھی گینڈے اور مگرمچھ جیسی مخلوق بھی، لیکن افریقا میں سب سے زیادہ انسانی جانیں اسی جانور کے حملے میں‌ ضایع ہوتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال افریقا میں پانچ سو سے زائد انسان ہیپو کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں جو مچھر اور سانپ کو چھوڑ کر کسی بھی ایسے جانور کے حملے میں ہونے والی ہلاکتوں سے زیادہ تعداد ہے۔ افریقا میں لوگ دریائوں ندیوں پر مچھلیوں کے شکار کی غرض سے جاتے ہیں اور یہیں یہ جانور ان کو اپنا شکار کرلیتا ہے۔

    ہیپو سات منٹ تک پانی کے اندر رہ سکتے ہیں۔ یہ اکثر خطرہ محسوس کرنے پر کشتیوں پر بھی حملہ کر دیتے ہیں۔ دوسرے جانور بھی ان سے دور ہی رہتے ہیں، کیوں‌ کہ یہ کسی بھی وقت کسی پر بھی حملہ کر دیتے ہیں اور زیادہ تر اکٹّھے رہتے ہیں۔ ان کے دانت دو فٹ تک لمبے ہوسکتے ہیں جن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو دبوچ کر اپنا بڑا سا جبڑا کھول کر یکبارگی میں زندگی سے محروم کرسکتے ہیں۔ ان کے جبڑے میں اتنی طاقت ہوتی ہے جو دس فٹ کے کسی مگر مچھ کو دو لخت کرنے کے لیے کافی ہے۔

    یہ آپس میں‌ بھی بھڑ جاتے ہیں‌ اور خاص طور پر افزائشِ نسل کے لیے مادہ ہیپو کو رجھانے اور ملاپ کے لیے ان میں زبردست لڑائیاں ہوتی ہیں۔ مشہور ہے کہ نر ہیپو اکثر نومولود ہیپو کو مار ڈالتا ہے۔ مادہ ہیپو دو سال میں ایک بچہ پیدا کرتی ہے۔

    قدرت کے کارخانے میں‌ کوئی چیز نکّمی اور ناکارہ نہیں‌ بلکہ ہر جانور کوئی نہ کوئی ایسا کام یا افعال انجام دیتا ہے جن سے دوسری مخلوق بلواسطہ یا بلاواسطہ فائدہ اٹھاتی ہے۔ دریائی گھوڑا بھی ایک ایسی ہی مخلوق ہے جو قدرت کے اس نظام کا توازن برقرار رکھنے میں‌ اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ وہ اس طرح کہ دریائوں میں حرکت کرتے ہوئے یہ جانور اپنے بھاری پیروں سے لمبی نالیاں یا ایسے راستے بناتا چلا جاتا ہے جس سے گزر کر پانی قریبی زمین کو سیراب کرنے لگتا ہے اور وہاں طرح طرح کا سبزہ اور گھاس اگتی ہے۔ اس طرح دوسرے جانوروں اور پرندوں کے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا ہے۔

    دریائی گھوڑے کا دوسرا اہم کام نباتات کو پھلنے پھولنے میں‌ مدد دینا ہے اور زرخیزی پھیلانا ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ جانور روزانہ تقریباً پچاس کلو گھاس کھاتے ہیں اور بڑی مقدار میں گوبر مختلف پودوں، جھاڑیوں اور پانی میں پھینکتے ہیں۔ وہ یہ عمل اس طرح انجام دیتے ہیں جیسے فصل پر اسپرے کیا جاتا ہے اور یوں نباتات کی افزائش اور نشوونما ہوتی ہے۔

    دریائی گھوڑے کا سامنا ہونے پر آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک طرف کھڑا ہوکر آپ کو اپنا قد کاٹھ دکھا کر ڈرانے کی کوشش کرے گا، اگر آپ اس سے دور نہ ہوئے تو اپنا منہ پورا کھول دے گا جو ایک سخت تنبیہ ہے کہ مجھ سے دور ہوجائو اور زیادہ خطرہ محسوس کرنے پر اگلے لمحے حملہ آور بھی ہوسکتا ہے۔

    یاد رکھیں یہ انسان سے تیز تقریباً 45 کلومیٹر کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے۔ اگر آپ پانی میں ہیں تو مخالف سمت بھاگیں، کیوں کہ عام طور پر دریائی گھوڑا پانی میں اپنے ٹھکانوں سے 5 کلومیٹر سے زیادہ دور نہیں‌ جاتا اور اگر خشکی پر اس جانور سے سامنا ہوگیا ہے تو جھاڑیوں، پتھروں کے پیچھے چھپتے ہوئے زگ زیگ بھاگیں اور اس سے فاصلہ بڑھاتے چلے جائیں۔

    اس جانور کی اوسط عمر 50 برس ہوسکتی ہے۔

  • کروناوائرس کی وجہ بننے والے جانوروں کی فروخت تاحال جاری

    کروناوائرس کی وجہ بننے والے جانوروں کی فروخت تاحال جاری

    بیجنگ: کروناوائرس کے خطرے کے پیش نظر چینی حکومت کی جانب احکامات اور پابندیوں کی جانور فروشوں نے دھجیاں اڑا ڈیں، بازاروں میں تاحال جنگلی جانور فروخت کیے جارہے ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کروناوائرس کے مزید پھیلاؤ سے بچنے کے لیے چینی حکومت نے ملک میں جنگی جانوروں کی فروخت پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ حالیہ دنوں ماہرین نے انکشاف کیا تھا کہ چمگادڑ، خنزیر اور دیگر جنگلی جانوروں سے کروناوائرس کا آغاز ہوسکتا ہے۔

    چین میں لوگ چوہے، چمگاڈر، لال بیگ اور سانپ سمیت دیگر جنگلی جانوروں کو شوق سے کھاتے ہیں، تاہم کروناوائرس کے پیش نظر چینی حکومت نے ایسے تمام مارکیٹوں پر پابندی عائد کی تھی جو اس طرح کے جانور فروخت کررہے ہیں۔

    حکومت کی پابندیوں کا کوئی اثر نہ ہوا اور مارکیٹوں میں تاحال جنگلی جانور فروخت کیے جارہے ہیں۔ غیرملکی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ چینی صوبے ہوبائی گوانگڈونگ میں دھڑلے سے زندہ جنگلی جانور فروخت کیے جارہے ہیں۔

    ’کرونا وائرس چمگادڑ کی وجہ سے پھیلتا ہے‘: انکشاف

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ایکو ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر پیٹرڈسزاک نے انکشاف کیا تھا کہ چمگادڑ کی وجہ سے سالانہ ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور دنیا بھر میں کرونا وائرس پھیلنے کی وجہ بھی یہی ممالیہ ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈاکٹرپیٹر کا کہنا تھا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا، اور اس بات کو وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں میں وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ چمگادڑ ہی ہے۔

  • جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    بعض جانور آپس میں جانی دشمن ہوتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دیگر جانوروں میں محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جو جذبہ ہوتا ہے وہ انسانوں کو بھی دنگ کردیتا ہے۔

    ایسا ہی ایک منظر افریقہ کے جنگلات میں دیکھنے میں آیا جہاں ہاتھی نے ایک خونخوار شیرنی کی مدد کر کے انوکھی مثال قائم کردی۔

    ہوا کچھ یوں کہ تپتی دوپہر میں ایک شیرنی اپنے ننھے سے بچے کے ساتھ کسی سایہ دار جگہ پر جانا چاہتی تھی مگر ننھا شیر کچھ بیمار بھی تھا اور گرم زمین پر چل نہیں پارہا تھا۔

    ایسے میں ہاتھی نے انہیں دیکھا تو ننھے شیر کو اٹھا کر اپنی سونڈ پر رکھ لیا اور شیرنی کے ساتھ چلتا ہوا سایہ دار مقام پر پہنچ گیا۔

    گو کہ شیرنی شکار کے معاملے میں ہاتھی کو بھی نہیں بخشتی اور اس پر حملہ کردیتی ہے لیکن ہاتھی کے اس ہمدردانہ جذبے کے بعد یقیناً وہ ساری زندگی کسی ہاتھی پر حملہ کرنے سے گریز کرے گی۔

    یہی نہیں وہ اپنے بچے کو بھی یہ بتائے گی کہ کس طرح اس کے بچپن میں ایک ہاتھی نے اس کی مدد کی لہٰذا وہ کبھی ہاتھیوں پر حملہ نہ کرے۔

    مدد اور ہمدردی کا یہ جذبہ دیکھ کر کیا آپ اب بھی ان کو جنگلی جانور کہیں گے؟