Tag: جنگلی حیات کا عالمی دن

  • جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے، اس وقت جب دنیا بھر میں جان لیوا کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی اور امید کی کرن بھی ثابت ہوا ہے۔

    جنگلی حیات کا عالمی دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’زمین پر ہر نوع کی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش‘ کے تحت منایا جارہا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    کرونا وائرس ۔ امید کی کرن

    گزشتہ برس کے اختتام پر سامنے آنے والے جان لیوا کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب تک اس وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 90 ہزار جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وائرس چینی شہریوں کے ہر قسم کے گوشت کے بے تحاشہ غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث سامنے آیا ہے اور یہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔

    چین میں گوشت کی اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اور پھر چین میں ان کی تجارت کی جاتی ہے کیونکہ چین اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

    تاہم اب کرونا وائرس کے زبردست جھٹکے کے بعد چین اب جنگلی حیات کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس سے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت اور شکار میں کمی آئے گی۔

    چین میں کرونا وائرس سے سب سے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔

    یہیں سے سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی، پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا بالآخر اب سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ پینگولین بنا۔

    چین میں اس وقت پینگولین کے علاوہ، چیتے اور رائنو سارس کی غیر قانونی تجارت عروج پر ہے، ان جانوروں کی کھالیں اور مختلف اعضا فر، ملبوسات، اور چینی دوائیں بنانے کے کام آتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین جنگلی حیات اور ماہرین ماحولیات پرامید ہیں کہ چین کی جانب سے جنگلی حیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی ان جانوروں کی بقا میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • جنگلی حیات کا عالمی دن: ’بڑی بلیاں‘ خطرے کا شکار

    جنگلی حیات کا عالمی دن: ’بڑی بلیاں‘ خطرے کا شکار

    آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا بلی شیر کی خالہ ہے۔ لیکن کیا واقعی بلی اور شیر کا آپس میں کوئی رشتہ ہے؟

    بلی یوں تو جسامت میں چھوٹی ہے لیکن بڑے بڑے ببر شیر، چیتے، تیندوے وغیرہ بلی کی نسل سے ہی ہیں جنہیں بڑی بلیاں کہا جاتا ہے۔ آج جنگلی حیات کے عالمی دن کا موضوع انہی بڑی بلیوں کے تحفظ اور بچاؤ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    یہ دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی۔ رواں سال کا موضوع بڑی بلیوں کو بچانا ہے جس میں شیر کی 5 اقسام شیر، ببر شیر، چیتے، تیندوے اور جیگوار شامل ہیں۔ اس فہرست میں برفانی چیتا بھی شامل ہے اگرچہ کہ یہ دھاڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

    بڑی بلیوں کی بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقع ہونا ہے۔ بڑی بلیاں گھنے جنگلات میں رہتی ہیں لیکن دنیا بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہورہی ہے جس سے شیروں کی بڑی تعداد چھدرے جنگلات یا میدانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

    کھلی جگہوں پر رہنے سے ان کے باآسانی شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑی بلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑی بلیوں کی صرف 13 فیصد تعداد محفوظ مقامات پر رہائش پذیر ہے۔ بقیہ تعداد نہایت غیر محفوظ علاقوں میں ہے جہاں باآسانی ان کا شکار کیا جاسکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت صرف 3 ہزار 8 سو 90 چیتے موجود ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات اور جنگلی حیات کی بہبود کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کا کہنا ہے کہ اگر بڑی بلیوں کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو بہت جلد یہ ہماری زمین سے معدوم ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔