Tag: جنگلی حیات

  • افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    دنیا میں بدلتے موسموں کی وجہ سے تقریباً تمام جانداروں کو خطرات لاحق ہیں اور انہی میں سے ایک جانور گوریلا بھی ہے جس کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    gorilla-3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گوریلا کی ایک نسل گروئر گوریلا کی آبادی میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے اور سنہ 1995 سے اب تک ان کی تعداد 7 ہزار سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ہوگئی ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جن کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    اور صرف ایک گوریلا ہی نہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پچھلے 14 سالوں میں افریقی جانوروں کی آبادی میں 24 فیصد کمی آچکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے دریغ شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    دوسری جانب گوریلا کی ایک اور قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف افریقی ممالک میں پہاڑی گوریلاؤں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 880 ہوگئی ہے۔

    نارویجیئن سیاستدان اور یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہیئم کا کہنا ہے کہ گوریلا انسانوں سے بے حد مماثلت رکھتے ہیں اور ان کا ڈی این اے 99 فیصد انسانوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ’انسانوں سے اس قدر مشابہت بندر سمیت کسی اور جانور میں نہیں‘۔

    gorilla-2

    افریقی حکام کا کہنا ہے کہ ان گوریلاؤں کا تحفظ افریقہ کی سیاحت میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے فطری حسن اور متنوع جنگلی حیات کی وجہ سے ہی مشہور ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنگلی حیات کی خوبصورت تصاویر

    جنگلی حیات کی خوبصورت تصاویر

    جنگلی حیات ہماری زمین کا توازن برقرار رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین پر موجود جانور، پرندے، پودے اور ایک ایک چیز آپس میں منسلک ہیں اور اگر کسی ایک شے کو بھی نقصان پہنچا تو اس سے پورے کرہ ارض کی زندگی متاثر ہوگی۔

    تاہم موسمیاتی تغیرات اور شکار میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے جنگلی حیات کی کئی اقسام تیزی سے معدومی کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سنہ 2020 تک ہماری زمین سے ایک تہائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا جس سے زمین کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    آج ہم نے مختلف جنگلی حیات کی کچھ منفرد تصاویر جمع کی ہیں۔ وائلڈ لائف فوٹو گرافرز کی جانب سے کھینچی گئی ان تصاویر میں جانوروں کی زندگی کو مختلف انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ آئیے آپ بھی ان تصاویر سے لطف اندوز ہوں۔


    ایک شہد کی مکھی ایک پھول سے پولن اکٹھے کر رہی ہے۔


    ایک بگلا گھونسلا بنانے کے لیے جھاڑیاں لے کر جارہا ہے۔


    آسٹریلیا میں ایک زخمی پینگوئن کو علاج کے بعد بحفاظت ساحل پر چھوڑ دیا گیا۔


    ایک روبن چڑیا درختوں پر اگ آنے والی فنگس پر بیٹھی ہے۔


    کچھوے کا نومولود بچہ سمندر کی طرف جاتے ہوئے۔


    ارجنٹینا میں ایک وہیل 2 سگ ماہیوں کا پیچھا کرتے ہوئے۔


    آسٹریلیا میں ایک 4.7 میٹر لمبے مگر مچھ کو بندرگاہ پر گھومتے دیکھا گیا جس کے بعد وائلڈ لائف اہلکاروں نے اسے پکڑ لیا۔


    شام کے وقت فلیمنگوز کی گھر واپسی کا سفر۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انسانوں کو لوٹنے والے بندروں کے ساتھ تفریح کیجیئے

    انسانوں کو لوٹنے والے بندروں کے ساتھ تفریح کیجیئے

    فطرت کے قریب مقامات جیسے سمندر، پہاڑ، جنگلات وغیرہ میں جاتے ہوئے سیاحوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیئے کہ وہ جہاں جا رہے ہیں وہ کوئی خالی جگہ نہیں بلکہ ’ کسی‘ کی ملکیت ہے، اور وہاں مختلف اقسام کی سمندری و جنگلی حیات رہائش پذیر ہوگی۔

    اکثر جانور انسانوں کو اپنے گھر میں دیکھ کر سیخ پا ہوجاتے ہیں اور ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ لیکن تھائی لینڈ کا یہ ساحل اس حوالے سے منفرد ہے کہ یہاں کے رہائشی نہایت کھلے دل سے انسانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

    monkey-2

    یہ رہائشی یہاں رہنے والے بندر ہیں۔ بندروں کی انسان سے دوستی تو ویسے بھی مشہور ہے کیونکہ وہ انہیں مزیدار کھانے پینے اور کھیلنے کے لیے چیزیں دیتے ہیں۔

    monkey-4

    تھائی لینڈ کا کو فیفی ڈون نامی ساحل بے شمار بندروں کی آماجگاہ ہے۔ یہ بندر ساحل سے قریب واقع پہاڑوں میں رہتے ہیں اور اکثر ساحل پر سیر و تفریح یا کھانے پینے کی اشیا کی تلاش میں گھومتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

    monkey-3

    یہ یہاں آنے والے سیاحوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچاتے مگر ان کے پاس موجود کھانے پینے کا سامان اور دیگر اشیا لے اڑتے ہیں۔

    ایک بار جب وہ سیاحوں کو لوٹ لیتے ہیں تو اس کے بعد انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ وہ سیاح وہاں کیا کر رہے ہیں۔

    monkey-5

    گویا اس خوبصورت ساحل پر گھومنے پھرنے کی قیمت اپنے پاس موجود تمام سامان ان بندروں کے حوالے کردینا ہے۔

    کیا آپ اس قیمت پر اس ساحل پر جانے کو تیار ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جنگلی حیات کا عالمی دن: ’بڑی بلیاں‘ خطرے کا شکار

    جنگلی حیات کا عالمی دن: ’بڑی بلیاں‘ خطرے کا شکار

    آپ نے بچپن میں پڑھا ہوگا بلی شیر کی خالہ ہے۔ لیکن کیا واقعی بلی اور شیر کا آپس میں کوئی رشتہ ہے؟

    بلی یوں تو جسامت میں چھوٹی ہے لیکن بڑے بڑے ببر شیر، چیتے، تیندوے وغیرہ بلی کی نسل سے ہی ہیں جنہیں بڑی بلیاں کہا جاتا ہے۔ آج جنگلی حیات کے عالمی دن کا موضوع انہی بڑی بلیوں کے تحفظ اور بچاؤ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    یہ دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی۔ رواں سال کا موضوع بڑی بلیوں کو بچانا ہے جس میں شیر کی 5 اقسام شیر، ببر شیر، چیتے، تیندوے اور جیگوار شامل ہیں۔ اس فہرست میں برفانی چیتا بھی شامل ہے اگرچہ کہ یہ دھاڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

    بڑی بلیوں کی بقا کو لاحق سب سے بڑا خطرہ ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقع ہونا ہے۔ بڑی بلیاں گھنے جنگلات میں رہتی ہیں لیکن دنیا بھر میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی ہورہی ہے جس سے شیروں کی بڑی تعداد چھدرے جنگلات یا میدانوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

    کھلی جگہوں پر رہنے سے ان کے باآسانی شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے بڑی بلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی بڑی بلیوں کی صرف 13 فیصد تعداد محفوظ مقامات پر رہائش پذیر ہے۔ بقیہ تعداد نہایت غیر محفوظ علاقوں میں ہے جہاں باآسانی ان کا شکار کیا جاسکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت صرف 3 ہزار 8 سو 90 چیتے موجود ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات اور جنگلی حیات کی بہبود کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کا کہنا ہے کہ اگر بڑی بلیوں کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو بہت جلد یہ ہماری زمین سے معدوم ہوسکتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    دنیا میں انسانوں کی آمد سے قبل اور ان کی آمد کے ابتدائی کچھ عرصے تک دنیا میں بے شمار قوی الجثہ جانور بھی موجود تھے جو آہستہ آہستہ معدوم ہوتے چلے گئے۔

    ایک عام خیال ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی وجہ بدلتا موسم یعنی کلائمٹ چینج تھا۔ یہ جانور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کی وجہ سے رونما ہوتی خشک سالیوں سے مطابقت نہیں کر سکے اور ختم ہوگئے۔

    لیکن حال ہی میں ایک تحقیق نے اس خیال کی نفی کرتے ہوئے انسانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا۔

    جرنل نیچر کمیونیکشنز نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق انسانوں کی اس دنیا پر آمد کے مختصر عرصہ بعد آسٹریلیا کے 80 فیصد بڑے ممالیہ، پرندے اور رینگنے والے جانور معدوم ہوگئے تھے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    اس سے قبل سنہ 2013 میں نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں ایک تحقیق پیش کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ جس وقت انسان اس دنیا پر آیا، اس وقت وہاں موجود قوی الجثہ جانور پہلے ہی معدومی کی طرف گامزن تھے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس وقت انسانوں نے کسی ایک جانور کو بھی شکار نہیں کیا۔ اس وقت موجود زیادہ تر انسان سبزی خور تھے۔

    لیکن اس کے برعکس حالیہ تحقیق میں کہا گیا کہ انسانوں نے اپنی آمد کے بعد بے دریغ شکار کیا جس کی وجہ سے ایک ’عظیم معدومی‘ رونما ہوئی۔

    ماہرین نے اس تحقیق کے لیے کم از کم ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر موجود نباتات اور خوردبینی جانداروں کے رکاز کا بغور جائزہ لیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ سال قبل زمین پر مختلف اقسام کی جنگلی حیات اور نباتات موجود تھی، تاہم صرف کچھ ہی عرصے بعد یکایک ان کا نام و نشان تک مٹ گیا۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس عرصے میں صرف انسان کی آمد ہی ایسا واقعہ تھی جو زمین پر کسی بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتی تھی۔ یعنی اس دوران ماحولیاتی تبدیلی یا موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے ایسا کوئی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا جو جانوروں کی عظیم معدومی کا سبب بن سکے۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    یاد رہے کہ انسان کی اس زمین پر عمر 2 لاکھ سال ہے یعنی 2 لاکھ سال قبل زمین پر انسانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔

    تحقیق میں واضح کیا گیا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ کسی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی نباتات معدوم ہوئی ہو یا کسی علاقے میں خشک سالی کی وجہ سے وہاں کے جانور آہستہ آہستہ موت کا شکار ہوگئے ہوں۔

    گویا اس تحقیق نے واضح طور انسانوں کو جانوروں کی معدومی کی سب سے بڑی وجہ قرار دے دیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • انناس کے پتوں سے بنا لیدر

    انناس کے پتوں سے بنا لیدر

    آپ کو لیدر سے بنے ہینڈ بیگز اور جوتے وغیرہ بہت پسند ہوں گے۔ فلپائن میں انناس کے پتوں سے ایسا لیدر بنایا جارہا ہے جو دیکھنے میں بالکل اصل لیدر جیسا لگتا ہے۔

    جب بھی آپ لیدر استعمال کریں تو یاد رکھیں کہ اسے جانوروں کی جلد سے بنایا جاتا ہے اور اس کے لیے جانوروں کو بہت اذیت ناک عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ مختلف مشینوں کے ذریعہ زندہ جانوروں کے جسم سے ان کی جلد کھینچی جاتی ہے جس سے کچھ جانور تو ویسے ہی تکلیف کے باعث مر جاتے ہیں۔

    چونکہ جانوروں کی جلد انہیں سردی اور گرمی سے بچاتی ہے تو بچ جانے والے جانور بعد میں موسموں کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے مرجاتے ہیں۔

    pine-4

    تصور کریں یہ عمل اگر آپ کی جلد کے ساتھ کیا جائے؟

    فلپائن میں جانوروں کی اسی اذیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پائن ایپل کے پتوں سے لیدر تیار کیا جارہا ہے جسے پائناٹیکس کا نام دیا گیا ہے۔

    pine-2

    جب انناس کی فصل کٹنے کا وقت آتا ہے تو اس کے پتے کسانوں کے لیے بے کار ہوتے ہیں اور وہ اسے ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ اسے لیدر کی شکل میں ڈھالنے کے لیے مختلف کیمیائی عوامل سے گزارا جاتا ہے۔ یہ کاٹنے اور سینے میں آسان ہوتا ہے اور اس پر ہر طرح کی پرنٹنگ باآسانی کی جاسکتی ہے۔

    جوتوں کی معروف کمپنی پیوما سمیت کئی کمپنیاں اسے اپنی مصنوعات بنانے میں استعمال کر رہی ہیں۔

    pine-3

    اس لیدر کو کاشت کرنے کے لیے اضافی زمین، پانی یا فرٹیلائزر کی ضرورت نہیں بلکہ یہ کسانوں کو اضافی آمدنی فراہم کر رہی ہے۔ یہی نہیں انناس کی کاشت کرنے والے ممالک میں یہ ایک منافع بخش صںعت کے طور پر ابھر رہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات ایک تصویر میں قید

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے ہماری زمین پر غیر فطری عوامل جیسے کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے کرہ ارض پر رہنے والے ہر جاندار کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔

    اسی صورتحال کی طرف توجہ دلانے کے لیے ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک آرٹسٹ اینڈریاس لی نے جنگلی حیات کی دہری عکسی تصاویر تخلیق کی ہیں۔ جنگلی حیات کی تصاویر کی نمائش کا مرکزی خیال گلوبل وارمنگ تھا۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    ان کا کہنا تھا کہ کلائمٹ چینج کے باعث جنگلی حیات کی کئی اقسام کو معدومی کا خطرہ لاحق ہے اور انہوں نے اسی خطرے کو اجاگر کرنے کا سوچا۔

    انہوں نے اپنی نمائش میں 5 ایسے جانوروں کی دہرے عکس میں تصاویر پیش کیں جنہیں ماہرین خطرے کا شکار قرار دے چکے ہیں۔ ان جانوروں کو بدلتے موسموں کے باعث معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    art-5

    بارہ سنگھا۔

    art-1

    برفانی ریچھ۔

    art-2

    چیتا۔

    اینڈریاس نے ان جانوروں کی شبیہہ میں انہیں لاحق خطرات کو ایک اور عکس کی صورت میں پیش کیا۔

    art-3

    ہاتھی۔

    art-4

    برفانی چیتا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شکاری شیرنی کو لینے کے دینے پڑ گئے

    شکاری شیرنی کو لینے کے دینے پڑ گئے

    آپ نے یہ کہاوت یقیناً سنی ہوگی کہ اتنا ہی کھانا چاہیئے جتنا ہضم کیا جاسکے، اس کہاوت پر عمل کرنا یقیناً کسی بھی انسان کو بہت سی پریشانیوں اور شرمندگی سے بچا سکتا ہے۔

    تاہم یہ شیرنی اس محاورے سے ناواقف نظر آتی ہے تب ہی یہ اپنے سے دوگنے دریائی گھوڑے پر حملہ کر بیٹھی۔

    گوکہ شیر کا مختلف جانوروں پر حملہ کر کے انہیں شکار کرلینا عام بات ہے مگر یہ دریائی گھوڑ نہایت چالاک معلوم ہوتا ہے، تب ہی شیرنی کے حملے سے قبل ہی وہ اچانک پلٹا اور اس نے شیرنی پر حملہ کردیا۔

    ہپو نے شیرنی کی گردن پکڑ لی مگر شیرنی نے بھرپور دفاع کر کے اس کے حملے کو ناکام بنایا اور اس کے بعد اپنی زندگی بچا کر بھاگ گئی۔

    دریائی گھوڑے پر اس ناکام حملے کے بعد یقیناً یہ شیرنی آئندہ دیکھ بھال کر شکار کرے گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    غیر محفوظ برفانی ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ

    دنیا میں تیزی سے بڑھتا درجہ حرات کئی زندگیوں کے لیے بے شمار خطرات کھڑے کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    معدومی کے خطرے کا شکار حیات کی فہرست میں ایک نام برفانی ریچھ کا بھی ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کی براہ راست زد میں ہے۔ تیزی سے بڑھتا درجہ حرارت دنیا کے برفانی علاقوں کی برف کو پگھلا رہا ہے جس کے باعث برف میں رہنے کے عادی ریچھوں کی قدرتی پناہ گاہیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    bear-3

    حال ہی میں ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کےمطابق گلوبل وارمنگ کے ساتھ ساتھ ان ریچھوں کے لیے ایک اور خطرہ تیزی سے ان کے قریب آرہا ہے۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین نے وضاحت کی کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی۔

    bear-1

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خونخوار شارک مچھلیاں ان ریچھوں کے ساتھ ساتھ سگ ماہی (سمندری سیل) کو بھی اپنا شکار بنا سکتی ہیں۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    bear-4

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں آرکٹک سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔

    اس سے قبل عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق گزشتہ برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں بھی خطرناک اضافہ ہوگیا ہے اور یہاں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • نیند سے متعلق جانوروں میں انسانوں جیسی حیران کن عادات

    نیند سے متعلق جانوروں میں انسانوں جیسی حیران کن عادات

    انسانوں اور جانوروں کا رشتہ ایک اٹوٹ رشتہ ہے جو زمین پر ہماری بقا کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اگر انسان نہ ہوں تو جانور زمین پر رہ سکتے ہیں، لیکن اگر جانور اور جنگلی حیات نہ ہو تو انسان کا وجود خطرے میں پڑجائے گا۔

    انسان اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بالواسطہ یا بلا واسطہ جانوروں کا محتاج ہے۔ یہی نہیں انسانوں کی جان بچانے اور نئی دواؤں کے تجربات کرنے کے لیے پہلے جانوروں کو ہی استعمال کیا جاتا ہے اس کے بعد اسے انسانوں پر آزمایا جاتا ہے۔

    اسی لیے آج ہم آپ کو جانوروں کی نیند سے متعلق کچھ انوکھے اور حیرت انگیز حقائق بتانے جارہے ہیں جو انسانوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ جانور پالتو بھی ہیں جو ہم میں سے اکثر افراد کے گھر موجود ہوتے ہیں۔


    جانوروں میں نیم خوابی

    نیم خوابی وہ حالت ہے جس میں نہ آپ مکمل طور پر سو سکتے ہیں اور نہ مکمل طور پر جاگے ہوئے ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق نیم خوابی کے مرض کا شکار افراد کئی طبی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کی نیند پوری نہیں ہوتی اور وہ صبح اٹھنے کے بعد بھی خود کو سست اور تھکا ہوا محسوس کرتے ہیں۔

    جرنل سلیپ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صرف انسان ہی نہیں بلکہ کتے اور چوہے بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    تو اگر کسی روز آپ کو اپنا پالتو کتا سست سا نظر آئے تو جان لیں کہ وہ رات میں ٹھیک طرح سے سو نہیں پایا۔


    بطخوں کو نئی جگہ پر سونے میں مشکل

    ہم میں سے بعض افراد کسی نئی جگہ یا نئے ماحول میں ٹھیک سے سو نہیں پاتے۔

    ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ نئی جگہ پر سوتے ہوئے ہمارے دماغ کا ایک حصہ غیر ارادی طور پر کسی بھی خطرے سے نمٹنے کے لیے تمام رات چاک و چوبند رہتا ہے لہٰذا ہم رات میں بھرپور نیند نہیں لے پاتے، اور ذرا سی آہٹ پر چونک کر اٹھ جاتے ہیں۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ نیند میں اس خلل کا شکار معصوم بطخیں بھی ہوتی ہیں۔ انہیں بھی نئی جگہ اور نئے ماحول سے مطابقت کرنے خصوصاً خود کو سونے کے لیے تیار کرنے میں کچھ وقت درکار ہوتا ہے۔


    پرندوں کو قیلولہ کی ضرورت

    جس طرح ہمیں آدھا دن بھرپور کام کرنے کے بعد تھکن کا احساس ہوتا ہے اور قیلولے کی ضرورت پڑتی ہے اسی طرح پرندوں کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے۔

    قیلولہ صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ دیگر ممالیہ جانوروں کو بھی درکار ہوتا ہے۔


    محو خواب ممالیہ جانور

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف انسان ہی واحد ممالیہ جاندار نہیں جو خواب دیکھتا ہے۔ دیگر کئی ممالیہ جانور بھی خواب دیکھتے ہیں جن میں وہ زیادہ تر اپنی پسندیدہ کھانے کی اشیا دیکھتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کتے خواب میں کیا دیکھتے ہیں؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔