Tag: جنگلی حیات

  • جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    جنگلی حیات سے محبت کرنے والے چلتن مارخور کی حفاظت کے لیے کوشاں

    کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں کوہ چلتن نامی پہاڑ بھی شامل ہے جو دلکش مناظر کے ساتھ پہاڑی بکروں کی ایک نایاب نسل کا خوبصورت مسکن ہے۔

    وادی کوئٹہ کے جنوب مغرب میں واقع کوہ چلتن میں 100 سے زائد اقسام کے نایاب جنگلی جانور اور پرندے پائے جاتے ہیں جن کے تحفظ کے لیے 27 ہزار سے زائد ایکڑ پر محیط اس پہاڑی سلسلے کو سنہ 1980 میں ہزار گنجی چلتن نیشنل پارک کا درجہ دیا گیا ہے۔

    اس پہاڑی سلسلے میں مارخور کی ایک نایاب نسل بھی موجود ہے جو پاکستان کے قومی جانور سلیمان مارخور اور بلوچستان کے جنگلی بکرے کے اختلاط (کراس بریڈ) سے وجود میں آیا ہے۔

    چلتن مارخور

    مقامی افراد اسے چلتن مار خور کے نام سے جانتے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق چلتن مارخور دنیا بھر میں معدومی کے خطرے کا شکار ہے تاہم پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے سرکاری و انفرادی دونوں سطحوں پر کام کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ دونوں اقسام کے مارخوروں میں سینگوں کا فرق ہے۔ قومی جانور سلیمان مارخور کے سینگ بل کھاتے ہوئے ہیں جبکہ چلتن مارخور کے سینگ سیدھے ہیں۔

    پاکستان کا قومی جانور ۔ سلیمان مارخور

    کوہ چلتن ۔ قدرت کا شاہکار

    کوہ چلتن کی خوبصورتی چاروں موسموں میں بے مثال ہے۔

    یہاں بسنے والے لومڑی، بھیڑیے، خرگوش اور پہاڑی بکرے اس مقام کو ایک خوبصورت مقام میں تبدیل کردیتے ہیں جہاں فطرت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔

    یہاں موجود جنگلی انجیر، دیگر پھلوں کے درخت اور مختلف اقسام کی جڑی بوٹیاں اس مقام کے حسن کو مزید دوبالا اور ماحول کو معطر کیے رکھتی ہیں جبکہ جنگلی پرندوں کی چہچاہٹ دلوں کو خوشی سے بھردیتی ہے۔

    کوہ چلتن کا شمار بلوچستان کے بلند پہاڑوں میں ہوتا ہے جو کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بھی ہے۔

    بلوچستان کے لوک گیتوں میں بہادری اورخوبصورتی کے لیے چلتن کے نام کو بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس پہاڑ سے مختلف کہانیاں بھی منسوب ہیں۔ یہ ایک حسین تحفہ ہے جو قدرت نے اس سرزمین کو نوازا ہے۔

    خصوصی رپورٹ: منظور احمد رپورٹر کوئٹہ


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    جدید ٹیکنالوجی سے جانوروں پر ظلم کے نئے طریقے دریافت

    ذرا اس تصویر کو غور سے دیکھیئے۔

    یہ آپ کو کون سا جانور لگتا ہے؟ شاید اسے کوئی بیماری ہے، بیمار سا لگ رہا ہے، آنکھوں میں بھی بے بسی کے تاثرات ہیں۔

    یہ جانور برفانی لومڑی یا آرکٹک فاکس کہلاتا ہے۔ کیا آپ اس کی اصل تصاویر دیکھنا چاہیں گے؟ ذرا دیکھیئے۔

    اور اب اس بیمار لومڑی کی مکمل حالت ملاحظہ فرمائیں۔

    کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس معصوم اور بے ضرر جانور کی یہ حالت کس نے اور کیوں کی؟ یقیناً جاننا چاہیں گے۔

    دعا دیجیئے ہماری جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کو، جس نے حضرت انسان کو اپنے فائدے کے لیے جانوروں پر ظلم کے ایسے ایسے طریقے دریافت کروا دیے، کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

    دراصل اس لومڑی میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے جینیاتی تبدیلیاں کردی گئی ہیں، چنانچہ اس کے جسم پر موجود فر میں اضافہ ہوگیا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید جاری ہے۔

    اس اضافی فر نے ایک طرف تو اس جانور کو بد ہیئت بنا دیا، دوسری جانب اسے بے انتہا جسمانی تکلیف میں بھی مبتلا کردیا۔ غیر فطری تبدیلیوں سے گزرنے والی حیات یقیناً کسی صورت صحت مند نہیں رہ سکتی۔

    یہ کام یورپی ملک فن لینڈ میں سر انجام دیا گیا جہاں اس نرم فر کی خرید و فروخت نہایت منافع بخش صنعت ہے اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    جانوروں کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے چھپ کر ان کی ویڈیو بنائی جس کے بعد یہ لرزہ خیز ظلم سامنے آیا۔

    فن لینڈ یورپ میں فر کا سب سے بڑا پیداوار کنندہ ہے اور سنہ 2014 میں اس فر کے حصول کے لیے 18 لاکھ سے زائد لومڑیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

    گو کہ مختلف ممالک میں مختلف تنظیمیں فر کی مصنوعات خصوصاً لباسوں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان خوبصورت لومڑیوں کا قتل عام رکوانے کی کوششیں کر رہی ہیں، تاہم یورپ کے کئی ممالک میں یہ کام قانونی یا غیر قانونی طور پر جاری ہے۔

    برطانیہ میں سنہ 2010 میں ان لومڑیوں کی اس ظالمانہ فارمنگ پر پابندی عائد کردی گئی، تاہم بیرون ملک سے فر کی درآمد تاحال جاری ہے۔

    تنظیم کے مطابق ایک عام آرکٹک لومڑی جو 3 سے 4 کلو وزنی ہوتی ہے، جینیاتی تبدیلی کے بعد اضافی فر کی وجہ سے 20 کلو وزنی ہوجاتی ہے۔

    یہ لومڑی اس قدر وزن اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی، چنانچہ اسے سانس لینے اور دیکھنے میں تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے نازک پاؤں بھی اس کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوجاتے ہیں جس کے باعث یہ بہت کم اپنی جگہ سے حرکت کر پاتی ہے۔

    جینیاتی تبدیلیوں کرنے کے بعد لومڑی کی 3 سال تک اذیت ناک پرورش کرنے کے بعد بجلی کے کرنٹ کے ذریعے اس کے منہ یا بڑی آنت کے نچلے حصے (جہاں سے فضلے کا اخراج ہوتا ہے) سے ایک ہی جھٹکے میں سارا فر کھینچ لیا جاتا ہے تاکہ فر بے داغ رہے اور اس پر کوئی خراش نہ آئے۔

    اس لرزہ خیز اور درد ناک ظلم کی داستان سننے کے بعد کیا آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرمندگی تو محسوس نہیں ہو رہی؟

    تصاویر بشکریہ: ڈیلی میل

  • ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ایمازون کے جنگلات میں جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت

    ساؤ پاؤلو: برازیل میں ایمازون کے جنگلات میں سائنس دانوں نے مختلف جنگلی حیات کی 381 نئی اقسام دریافت کی ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ نے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ نو دریافت شدہ تمام اقسام ان علاقوں میں ہیں جو انسانی مداخلت کی وجہ سے خطرے کا شکار ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اور برازیل میمروا انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق ان نو دریافت شدہ جنگلی حیات میں 216 نباتات، 93 مچھلیاں، 32 دیگر سمندری حیات، 19 رینگنے والے جانور (حشرات الارض)، ایک پرندہ جبکہ 20 ممالیہ جانور شامل ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ایمازون میں گزشتہ 17 سالوں میں اب تک جنگلی انواع کی 2 ہزار سے زائد اقسام دریافت کی جاچکی ہیں، تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ اب ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

    ادارے کےمطابق حال ہی میں دریافت کی جانے والی 381 اقسام ایمازون جنگل کے ان حصوں میں ہیں جہاں انسانی عمل دخل بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف برازیل کے پروگرام کو آرڈینیٹر رکارڈو میلو کا کہنا ہے کہ یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ جنگلی حیات کی وہ اقسام معدوم ہوجائیں جو ابھی دنیا کے سامنے بھی نہیں آںے پائیں۔

    یاد رہے کہ ایمازون کے جنگلات رین فاریسٹ کی خاصیت رکھتے ہیں یعنی جہاں سب سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔

    ایمازون کے جنگلات دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں اور ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق اگلے 100 سال میں رین فاریسٹ مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

    کچھوا بظاہر ایک سست مگر ہمارے ماحول کے لیے نہایت فائدہ مند جانور ہے۔ اس کی حیثیت پانی میں ویسی ہی ہے، جیسے خشکی میں گدھ کی ہے، جسے فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے۔

    گدھ دراصل جابجا پھینکے جانے والے مردہ اجسام (جانور، انسان) کو کھا جاتا ہے جس کے باعث ان اجسام سے تغفن پھیلنے یا خطرناک بیماریاں پھوٹنے کا خدشہ نہیں رہتا۔

    یہی کام کچھوا پانی کے اندر کرتا ہے۔ یہ پانی کے اندر مضر اشیا اور جراثیم کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریاں پیدا کرنے کا باعث نہیں بنتا۔

    سندھ وائلڈ لائف میں کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان کے مطابق کراچی میں کچھ عرصہ قبل عفریت کی طرح پھیلنے والا نیگلیریا وائرس دراصل ان کچھوؤں کی عدم موجودگی کے باعث ہی پھیل سکا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوے کی اسمگلنگ پر تفصیلی رپورٹ

    ان کے مطابق کچھ عرصہ قبل تک کچھوؤں کی تعداد میں بے تحاشہ کمی واقع ہوگئی تھی اور یہ وہی وقت تھا جب پانی میں نیگلیریا وائرس کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ تاہم کچھوؤں کی حفاظت کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد ان کی آبادی مستحکم ہوگئی۔

    کچھوے کی اسی خصویت کے باعث اسے چاول کی کھڑی فصلوں میں بھی چھوڑا جاتا ہے جب فصلوں میں کئی فٹ تک پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں پانی کے مختلف کیڑے یا جراثیم فصل کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، تاہم کچھوے کی موجودگی ان کیڑوں یا جراثیموں کو طاقتور ہونے سے باز رکھتی ہے۔

    کچھوا ہمارے لیے فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت حیران کن جانور بھی ہے۔ آج ہم آپ کو اس کی زندگی کے متعلق ایسے ہی کچھ حقائق بتانے جارہے ہیں جو آپ کے لیے معلوماتی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلچسپ بھی ہیں۔

    زمین کے قدیم جانوروں میں سے ایک

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    طویل العمر جاندار

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے ٹونگا جزیرے میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔

    پیٹ پر خول

    کچھوا اپنی پشت پر سخت خول کی وجہ سے مشہور اور منفرد سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید آپ کے علم میں نہ ہو کہ ایک خول کچھوے کے پیٹ پر بھی موجود ہوتا ہے جو پلاسٹرون کہلاتا ہے۔

    کچھوے کے دونوں خول بے شمار ہڈیوں سے مل کر بنتے ہیں۔

    تمام براعظموں پر پایا جانے والا جانور

    کچھوے دنیا کے تمام براعظموں پر پائے جاتے ہیں سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    گو کہ کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

    انڈے دینے کا عمل

    تمام کچھوے بشمول سمندری کچھوے خشکی پر انڈے دیتے ہیں۔

    انڈے دینے کے لیے مادہ کچھوا جب ریت پر آتی ہے تو سب سے پہلے ریت میں گڑھا کھودتی ہے۔ اس عمل میں اسے لگ بھگ 1 گھنٹہ لگتا ہے۔ گڑھا کھودنے کے بعد وہ اندر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔

    مادہ کچھوا ایک وقت میں سے 60 سے 100 کے درمیان انڈے دیتی ہے۔ انڈے دینے کے بعد وہ گڑھے کو ریت یا دوسری اشیا سے ڈھانپ کر غیر نمایاں کردیتی ہے تاکہ انڈے انسانوں یا جانوروں کی دست برد سے محفوظ رہ سکیں۔

    انڈے دینے کے بعد مادہ کچھوا اس جگہ سے دور چلی جاتی ہے اور واپس پلٹ کر نہیں آتی۔ بچے خود ہی انڈوں سے نکلتے اور اپنی زندگی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

    سمندری کچھوے چونکہ انڈے سے نکلتے ہی سمندر کی طرف جاتے ہیں لہٰذا اس سفر کے دوران زیادہ تر کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اندازاً 100 میں سے 1 یا 2 سمندری کچھوے ہی بلوغت کی عمر تک پہنچ پاتے ہیں۔

    اس کے برعکس خشکی پر رہنے والے کچھوؤں میں زندگی کا امکان اور زندہ رہنے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

    جائے پیدائش کی طرف واپسی

    یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مادہ کچھوا جس ساحل پر پیدا ہوتی ہے، انڈے دینے کے لیے اسی ساحل پر لوٹ کر آتی ہے۔

    آپ کو ایک اور دلچسپ بات سے آگاہ کرتے چلیں۔ کراچی کے ساحل پر سندھ وائلڈ لائف اور ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف، جو کچھوؤں کے تحفظ کے لیے قابل تعریف اقدامات کر رہے ہیں، ننھے کچھوؤں کے سمندر میں جانے کے دوران علاقے کو روشنیوں سے نہلا دیتے ہیں۔

    یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ رات کے وقت سمندر میں جانے والے ننھے کچھوے تیز روشنی میں اس علاقے کو اچھی طرح دیکھ لیں اور وہ ان کے ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ بعد میں مادہ کچھوؤں کو انڈے دینے کے لیے اپنی جائے پیدائش کی طرف لوٹتے ہوئے بھٹکنے، یا بھولنے کا خطرہ نہ رہے۔

    افزائش نسل کی انوکھی خصوصیت

    مادہ کچھوا نر کچھوے سے ملاپ کے کافی عرصے بعد بھی انڈے دے سکتی ہے۔ یہ اسپرمز کو اپنے جسم کے مخصوص حصوں میں کئی سالوں تک محفوظ رکھ سکتی ہے اور حالات موافق ہونے کے بعد انڈے دے سکتی ہے۔

    موسم جنس کی تعین کا ذمہ دار

    کچھوے کی جنس کا تعین اس موسم پر ہوتا ہے جو انڈوں سے بچے نکلنے کے دوران ہوتا ہے۔

    اس عمل کے دوران اگر موسم گرم ہوگا یا درجہ حرارت بڑھتا جائے گا تو تمام انڈوں میں موجود کچھوے، مادہ کچھوے بن جائیں گے۔ معتدل موسم نر کچھوؤں کی پیدائش میں مددگار ہوتا ہے۔

    یہ انوکھی خصوصیت کچھوؤں کے علاوہ کسی اور جاندار میں نہیں پائی جاتی۔

    ننھے کچھوؤں پر پروٹین کا خول

    کیا آپ جانتے ہیں، ماں کی جانب سے چھوڑ دیے جانے کے بعد ننھے کچھوے اپنی غذائی ضروریات کیسے پوری کرتے ہیں؟ قدرت نے ان معصوموں کے لیے غذا کا نہایت بہترین انتظام کر رکھا ہے۔

    پیدائش کے وقت ننھے کچھوؤں کی پیٹھ پر جو خول موجود ہوتا ہے وہ پروٹین سمیت مختلف غذائی اجزا پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسے پروٹین اسپاٹ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کچھوؤں کو غذا فراہم کرتا ہے۔

    جیسے جیسے کچھوے بڑے ہوتے جاتے ہیں ویسے ویسے خول کی ساخت مختلف ہوتی جاتی ہے۔ کچھوؤں کے اپنی غذا خود تلاش کرنے کی عمر تک پہنچنے کے بعد یہ خول صرف حفاظتی ڈھال کا کام انجام دینے لگتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرمی سے ننھے کچھوے انڈے کے اندر جل کر بھسم

    میٹھے پانی کے شوقین

    کچھوے اپنے پیئے جانے والے پانی کو قدرتی طریقے سے میٹھا بنا دیتے ہیں۔

    دراصل سمندری کچھوؤں کے گلے میں خصوصی قسم کے غدود موجود ہوتے ہیں جو اس پانی سے نمک کو علیحدہ کردیتے ہیں، جو کچھوے پیتے ہیں۔

    حساس ترین جانور

    کچھوؤں کی دیکھنے اور سونگھنے کی صلاحیت نہایت تیز ہوتی ہے۔ ان کی لمس کو محسوس کرنے اور سننے کی صلاحیت بھی اول الذکر دونوں صلاحیتوں سے کم، تاہم بہترین ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ گہرے رنگوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا تحقیقاتی مقاصد یا تحفظ کے اقدامات کے سلسلے میں کچھوؤں پر گہرے رنگوں سے نشانات لگائے جاتے ہیں۔

    بقا کی جدوجہد میں مصروف

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

  • چین میں پانڈا کے ساتھ برے سلوک پر تنازعہ

    چین میں پانڈا کے ساتھ برے سلوک پر تنازعہ

    بیجنگ: چین میں ایک پانڈا بریڈنگ سینٹر میں انتظامیہ کے افراد کی جانب سے 2 پانڈا کے ساتھ جارحانہ رویہ اپنانے پر ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔

    مغربی چین کے علاقے چنگ ڈو میں واقع اس بریڈنگ سینٹر سے سامنے آںے والی یہ متنازعہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: وائلڈ لائف نگہبان ۔ پانڈا ڈیڈی

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ 2 معصوم پانڈا اپنے مخصوص حصے کے دورازے سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں روکنے کے لیے ان کے نگران ان سے نہایت برا سلوک کر رہے ہیں۔

    دونوں نگران ان پانڈوں کو گھسیٹتے اور اٹھا کر پھینکتے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہوجانے کے بعد لوگ ان نگرانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

    ایک شخص نے تبصرہ کیا، ’اگر آپ میں صبر اور برداشت نہیں ہے تو آپ کو پانڈا کا نگران نہیں بننا چاہیئے‘۔

    یاد رہے کہ پانڈا چین کا قومی جانور ہے اور عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این نے اس جانور کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا۔

    تاہم چین نے پانڈا کے تحفظ اور نسل میں اضافے کے لیے مؤثر ہنگامی اقدامات اٹھائے جس کے بعد یہ معصوم جانور اب معدومی کے خطرے سے باہر نکل آیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔ 

  • گاؤں والوں نے 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے شیر کے بچے کو بچا لیا

    گاؤں والوں نے 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے شیر کے بچے کو بچا لیا

    نئی دہلی: بھارتی ریاست مہاراشٹر میں 80 فٹ گہرے کنویں میں گرنے والے ایک شیر کو بچے کو بچا لیا گیا۔

    یہ واقعہ مہاراشٹر کے گاؤں سومناتھ میں پیش آیا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ شیر کا یہ 2 سالہ بچہ کئی ماہ سے گاؤں میں دیکھا جارہا تھا اور گاؤں والے اسے پکڑنے کی کوششوں میں تھے تاکہ وہ ان کے جانوروں کو نقصان نہ پہنچا سکے۔

    ایسی ہی ایک صبح گاؤں میں گھومتے ہوئے یہ شیر گہرے کنویں میں جا گرا۔

    مزید پڑھیں: سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    ایک شخص نے شیر کو کنویں میں گرتے ہوئے دیکھ لیا جس کے بعد اس نے دیگر افراد کو اس سے مطلع کیا۔ اس کے مطابق شیر کے بچے کو کنویں کے اندر زندگی کے لیے جدوجہد کرتے دیکھنا نہایت دکھ بھرا لمحہ تھا۔

    گاؤں والوں نے محکمہ جنگلی حیات کو مدد کے لیے طلب کیا جس کے بعد وائلڈ لائف اہلکار لوہے کا پنجرہ لیے آن پہنچے۔ ایک اہلکار کو کنویں میں اتارا گیا جہاں اس نے شیر سے کچھ فاصلے پر رہتے ہوئے اسے کمند پہنائی۔

    بعد ازاں اسی کمند کو اوپر کھینچا گیا اور جیسے ہی شیر کنارے پر پہنچا اسے فوری طور پر لوہے کے پنجرے میں منتقل کردیا گیا۔

    یہ تمام عمل 2 گھنٹے کے عرصے میں انجام پایا۔

    وائلڈ لائف کے مطابق یہ شیر اس نایاب نسل سے تعلق رکھتا ہے جسے ایشیاٹک لائن کہا جاتا ہے اور یہ صرف بھارت میں پائے جاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پورے بھارت میں ان کی تعداد 500 کے قریب ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت میں شیروں اور چیتوں کی موجودگی کی وجہ سے یہ اکثر گاؤں دیہاتوں میں آنکلتے ہیں جس کے بعد یہ مویشیوں کو کھا جاتے ہیں۔

    اکثر شیر کنوؤں میں گر کر ہلاک بھی ہوجاتے ہیں تاہم جس طرح ان گاؤں والوں نے اس شیر کو بچانے کی کوششیں کیں وہ قابل تعریف ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    کیا زمین پر چھٹی عظیم معدومی رونما ہورہی ہے؟

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی عظیم معدومی کا ذمہ دار حضرت انسان

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب زمین چھٹی معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے، لیکن یہ عمل جس تیزی سے واقع ہورہا ہے وہ ہمارے وہم و گمان سے کہیں آگے ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک جامع تحقیق کے نتائج کے مطابق زمین کی 30 فیصد ریڑھ کی ہڈی والے جاندار جن میں مچھلیاں، پرندے، دیگر آبی حیات، رینگنے والے جانور اور کچھ ممالیہ جاندار شامل ہیں، کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں پیش کی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ دہائی تک کہا جارہا تھا کہ زمین پر جانوروں کے خاتمے کا عمل رونما ہونے والا ہے۔ اب خیال کیا جارہا ہے کہ یہ عمل شروع ہوچکا ہے اور حالیہ تحقیق سے علم ہورہا ہے کہ اس عمل میں تیزی آچکی ہے اور اسے کسی طرح نہیں روکا جاسکتا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    تحقیق میں بتایا گیا کہ معدومی کے خطرے کی طرف بڑھتے ان جانداروں میں گوریلا، چیتے، بندر اور گینڈے وغیرہ شامل ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ معدومی کا یہ عمل شروع ہوچکا ہے تو ایک اوسط اندازے کے مطابق ہر سال ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے 2 جانداروں کی اقسام معدوم ہوجاتی ہے۔

    پناہ گاہوں کی تباہی

    ماہرین نے اس عظیم معدومی کی سب سے بڑی وجہ جانداروں کی پناہ گاہوں یا ان کے گھروں کی تباہی کو قرار دیا ہے۔

    تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں جاری کلائمٹ چینج کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت گرم علاقے کے جانداروں کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ صدیوں سے اپنی رہائش کو چھوڑ کر نئی رہائش اختیار کریں۔

    ہجرت کا یہ عمل جانوروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور نئے ماحول سے مطابقت نہ ہونے کے باعث تیزی سے ان کی اموات واقع ہوتی ہیں۔

    پناہ گاہوں کی تباہی کی ایک اور وجہ دنیا بھر میں تیزی سے ہونے والی جنگلات کی کٹائی بھی ہے جس سے جنگلوں میں رہنے والے جانور بے گھر ہوتے جارہے ہیں۔

    گوریلا سمیت دیگر افریقی جانور مختلف افریقی ممالک میں جاری خانہ جنگیوں کی وجہ سے بھی خطرات کا شکار ہیں جس کے باعث ان کے غذائی ذخائر میں بھی کمی آرہی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ہاتھیوں کا جوڑا بچے کو بچانے کے لیے جان پر کھیل گیا

    ہاتھیوں کا جوڑا بچے کو بچانے کے لیے جان پر کھیل گیا

    والدین اور بچوں کا رشتہ نہایت انوکھا اور بے لوث ہوتا ہے۔ جب بچوں پر کوئی مصیبت آتی ہے تو والدین اسے اس مصیبت سے بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیں حتیٰ کہ اپنی جان پر کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    یہ خصوصیت صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ ہر جاندار میں پائی جاتی ہے چاہے وہ کوئی جنگلی جانور ہی کیوں نہ ہو۔

    اپنے بچے کو مشکل سے بچانے کے لیے ہر ذی روح بلا خوف و خطر اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے اور ایسا کام کر جاتا ہے جس کا عام حالات مین تصور بھی نا ممکن ہے۔

    والدین کی محبت پر مبنی ایسی ہی ایک اور ویڈیو آج کل انٹرنیٹ پر بہت مقبول ہورہی ہے جس میں ہاتھیوں کا ایک جوڑا اپنے ڈوبتے ہوئے بچے کو بچانے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے۔

    جنوبی کوریا کے شہر سیئول میں واقع ایک گرینڈ پارک کی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہاتھی کا ایک بچہ سوئمنگ پول کے قریب اپنی ماں کے ساتھ کھڑا ہے۔

    اچانک ہی اس کا پاؤں پھسلتا ہے اور وہ پانی میں جا گرتا ہے۔

    بچے کے پانی میں گرتے ہی قریب کھڑا ایک اور ہاتھی بھاگتا ہوا وہاں آتا ہے اور دونوں ہاتھی مل کر بچے کو بچانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

    جب وہ کسی طرح ان کے ہاتھ نہیں آتا تو بالآخر دونوں پانی میں کود جاتے ہیں اور بچے کو گھسیٹ کر دوسرے کنارے پر لے آتے ہیں۔

    ویڈیو میں پس منظر میں ایک اور ہاتھی بھی دکھائی دے رہا ہے جو اس پورے واقعہ کے دوران نہایت بے چین نظر آرہا ہے اور اس کا بس نہیں چل رہا کہ کسی طرح وہ بھی وہاں پہنچ جائے۔ لیکن اس کے راستے میں حد بندی موجود ہے جن کے باعث وہ اپنی جگہ سے باہر نہیں نکل پارہا۔

    انٹرنیٹ پر اس مقبول ویڈیو کو اب تک 2 لاکھ سے زائد افراد دیکھ چکے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • شیر نے اپنے نگہبان کو حملہ کر کے مار ڈالا

    شیر نے اپنے نگہبان کو حملہ کر کے مار ڈالا

    لندن: برطانیہ کے ایک قصبے ہمرٹن میں واقع چڑیا گھر میں شیر نے اپنی خاتون نگہبان کو حملہ کر کے ہلاک کردیا۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب شیر اس حصے میں جا پہنچا جہاں خاتون نگہبان اپنے کام میں مصروف تھی۔

    شیر اپنی عادت کے مطابق دبے قدموں چلتا ہو آیا اور اچانک اس نے خاتون پر حملہ کردیا۔

    اس دوران دیگر ملازمین نے بھی شیر کو دیکھ لیا اور وہ خاتون کو بچانے کے لیے گوشت کے ٹکڑے پھینک کر شیر کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق خاتون ملازمہ کی موت اسی وقت واقع ہوگئی تھی جب انہوں نے خود کو ایک شیر کے ساتھ پنجرے میں بند پایا۔

    واقعے کے بعد چڑیا گھر کو بند کردیا گیا جبکہ انتظامیہ کی ذہنی حالت کے پیش نظر میڈیا کے نمائندگان سے گفتگو کرنے سے بھی معذرت کرلی گئی۔

    واقعے کی مزید تحقیقات جاری ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بگلا ایک ٹانگ پر کیوں کھڑا رہتا ہے؟

    بگلا ایک ٹانگ پر کیوں کھڑا رہتا ہے؟

    آپ نے اکثر بگلے کے بارے میں سنا، پڑھا یا دیکھا ہوگا کہ وہ اپنی ایک ٹانگ پروں میں چھپائے رکھتا ہے جبکہ صرف ایک ٹانگ کے توازن پر گھنٹوں کھڑا رہتا ہے۔

    کیا آپ جانتے ہیں بگلوں میں یہ عادت کیوں پائی جاتی ہے؟

    تصور کریں کہ اگر آپ کو کچھ دیر کے لیے ایک ٹانگ پر کھڑا ہونا پڑے تو کیا ہوگا؟ یقیناً آپ کچھ دیر بعد تھک جائیں گے اور یا تو دونوں ٹانگوں کا استعمال کرنا چاہیں گے، یا بیٹھ کر آرام کریں گے، یا پھر ٹانگ بدل کر دوسری ٹانگ پر کھڑے ہوجائیں گے۔

    لیکن بگلے اس تھکن سے مستثنیٰ ہوتے ہیں۔

    دراصل بگلے ایک ٹانگ پر کھڑے ہی اس وقت ہوتے ہیں جب وہ آرام کر رہے ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: مسلسل 10 ماہ تک اڑنے والا پرندہ

    ایک امریکی تحقیق کے مطابق ایک ٹانگ پر کھڑے ہونے کی پوزیشن میں بگلے کے خلیات آرام دہ حالت میں آجاتے ہیں اور وہ بالکل غیر فعال ہوجاتے ہیں۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک طویل مشقت بھرا دن گزارنے کے بعد ہمیں نیند کی ضروت ہوتی ہے تاکہ ہمارے تھکے ہوئے جسمانی و دماغی خلیات کو آرام ملے اور اگلی صبح وہ پھر سے تازہ دم ہوجائیں۔

    تحقیق کے مطابق بگلے جس وقت تھکن کا شکار ہوتے ہیں اس وقت وہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر آرام کرتے ہیں۔

    اٹلانٹا میں جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر یونگ ہوئی چانگ کی تحقیق کے مطابق ان پرندوں کی ٹانگوں کی ساخت ہی اس قسم کی ہوتی ہے کہ یہ باآسانی ایک ٹانگ پر اپنا توازن برقرار رکھ سکتے ہیں۔

    انہوں نے اس تحقیق کے لیے بے شمار زندہ اور مردہ بگلوں کا معائنہ کیا۔

    ان کا کہنا ہے کہ جس وقت بگلا ایک ٹانگ کے بل پر کھڑا ہو، اس وقت اگر آپ اسے بالکل سامنے سے دیکھیں تو یوں محسوس ہوگا کہ اس کی یہ ایک ٹانگ اس کے جسم کے بالکل مرکز یعنی درمیان میں ہے جس پر اس کے پورے جسم کا توازن قائم ہے۔

    گویا اگر کبھی آپ کا ایک ٹانگ پر معلق کسی بگلے سے ٹکراؤ کا اتفاق ہو تو جان جائیں کہ وہ آرام کر رہا ہے اور ہرگز اس کے آرام میں خلل ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔


    نوٹ: مضمون میں فلیمنگو نامی پرندے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ماہر ماحولیات رفیع الحق کے مطابق چونکہ یہ مقامی پرندہ نہیں اس لیے اس کا اردو میں کوئی خاص نام موجود نہیں، البتہ اسے عام زبان میں بگلا یا سارس کہا جاتا ہے جو فلیمنگو کی نسل سے کچھ مختلف نسل کے پرندے ہیں۔

    رفیع الحق کے مطابق ماہرین جنگلی حیات اس پرندے کی شناخت کے لیے ’لم ڈھینگ‘ کا نام بھی استعمال کرتے ہیں جو اس کی لمبی ٹانگوں کی وجہ سے اسے دیا گیا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔