Tag: جنگلی حیات

  • مگر مچھ کی ہتھکڑیوں میں جکڑ کر گرفتاری

    مگر مچھ کی ہتھکڑیوں میں جکڑ کر گرفتاری

    واشنگٹن: امریکی ریاست لوزیانا میں مگر مچھ سے بری طرح خوفزدہ وائلڈ لائف اہلکاروں نے ہتھکڑیوں میں جکڑ کر مگر مچھ کو قابو کیا اور ’گرفتار‘ کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔

    لوزیانا میں اس وقت ایک گھر کے مکین نہایت خوفزدہ ہوگئے جب انہوں نے اپنے گھر کے لان میں ایک قوی الجثہ مگر مچھ کو گھومتا ہوا پایا۔ انہوں نے محکمہ جنگلی حیات کو فون کیا کہ وہ آکر اس مگر مچھ کو لے جائیں۔

    جب وائلڈ لائف اہلکار موقع پر پہنچے تو ان کے لیے اس مگر مچھ کو پکڑنا سخت مشکل مرحلہ تھا۔ بالآخر کسی طرح مگر مچھ کو جھانسا دے کر انہوں نے اس کے منہ کو ٹیپ سے بند کردیا تاکہ وہ انہیں کھا نہ جائے۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں ٹرمپ مگر مچھ

    اس دوران مگر مچھ مسلسل اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتا رہا مگر بہادر افسران مضبوطی سے اسے پکڑے رہے۔

    منہ بند کرنے کے بعد اہلکاروں نے مگر مچھ کے پاؤں میں بھی ہتھکڑیاں ڈال دیں تاکہ وہ فرار ہونے کی کوشش نہ کرے۔

    اس طرح سے ’گرفتار‘ کرنے کے بعد وائلڈ لائف اہلکار اسے گاڑی میں ڈال کر لے گئے اور (مگر مچھوں کے لیے) محفوظ مقام پر چھوڑ دیا۔

    اس تمام منظر کی ویڈیو محکمہ وائلڈ لائف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تو لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے۔

    کچھ لوگوں اسے دیکھ کر لطف اندوز ہوئے اور کچھ نے ان اہلکاروں کی تعریف بھی کی کہ کس طرح یہ اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کی زندگیاں محفوظ بناتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ساتھی سے جدائی کا صدمہ برفانی بھالو کی جان لے گیا

    ساتھی سے جدائی کا صدمہ برفانی بھالو کی جان لے گیا

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ایک برفانی بھالو اپنے ساتھی سے جدائی کا صدمہ نہ سہہ سکا اور یہ صدمہ اس کی جان لے گیا۔

    سان ڈیاگو کے سی ورلڈ نامی اس اینیمل تھیم پارک میں دو مادہ برفانی بھالوؤں کو جرمنی سے لا کر رکھا گیا تھا۔ یہ دونوں مادائیں گزشتہ 20 برس سے ساتھ رہ رہی تھیں۔

    تاہم ایک ماہ قبل پارک انتظامیہ نے ایک مادہ کو افزائش نسل کے لیے دوسرے شہر پیٹرز برگ کے چڑیا گھر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

    جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم پیٹا نے فوراً ہی اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی اور متنبہ کیا کہ ان دنوں دوستوں کو الگ کرنا ان کے لیے نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔

    تاہم حکام نے پیٹا کی تشویش کو نظر انداز کردیا اور فروری کے اواخر میں ایک مادہ کو دوسرے چڑیا گھر بجھوا دیا گیا۔

    ایک مادہ کے جانے کے فوراً بعد ہی پارک کی انتظامیہ نے دیکھا کہ وہاں رہ جانے والی مادہ بھالو زنجا نہایت اداس ہوگئی۔ اس کی بھوک بہت کم ہوگئی جبکہ اس کا زیادہ تر وقت ایک کونے میں دل گرفتہ بیٹھ کر گزرنے لگا۔

    اپنے دوست سے جدائی کے بعد زنجا بہت زیادہ سست دکھائی دینے لگی تھی۔

    زنجا کو فوری طور پر طبی امداد اور دوائیں دی گئیں تاہم وہ اس صدمے سے جانبر نہ ہوسکی اور 2 دن قبل موت کے منہ چلی گئی۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم برفانی بھالوؤں کو کھو دیں گے؟

    اس کی موت کے بعد پیٹا اہلکار چیخ اٹھے۔ انہوں نے بھالو کے دل ٹوٹنے کو اس کی موت کی وجہ قرار دیتے ہوئے پارک انتظامیہ کو اس کا ذمہ دار ٹہرا دیا۔

    تاہم انتظامیہ نے اس کی نفی کرتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ماہرین کی مدد سے بھالو کی موت کی وجہ جاننے کی کوشش کریں گے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔

  • کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر تیندوے نے ہلچل مچا دی

    کھٹمنڈو ایئرپورٹ پر تیندوے نے ہلچل مچا دی

    کھٹمنڈو: نیپال کے واحد بین الاقوامی ایئر پورٹ کو اس وقت ہنگامی طور پر بند کرنا پڑا جب ایئر پورٹ کے رن وے کے قریب ایک تیندوا پایا گیا۔

    ایئرپورٹ ترجمان کے مطابق تیندوے کو ایک پائلٹ نے دیکھا تھا، جس کے بعد اب جنگلی حیات اور سیکیورٹی پر معمور اہلکار اسے ڈھونڈ رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ تیندوے کی تلاشی کے دوران ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا اور اس دوران تمام فلائٹ آپریشنز لگ بھگ آدھے گھنٹے کے لیے معطل کردیے گئے، تاہم تیندوے کو ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔

    ایئرپورٹ آپریشن معطل ہونے کی وجہ سے ایک پرواز تاخیر کا شکار ہوئی۔

    خیال رہے کہ کھٹمنڈو جنگلاتی پہاڑوں سے گھرا ہوا شہر ہے اور اکثر اوقات تیندوے سمیت جنگلوں میں رہنے والے جانور نیچے اتر کر شہر میں داخل ہوجاتے ہیں۔

    کھٹمنڈو ایئرپورٹ کو بھی پہاڑوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے دنیا کے خطرناک ایئر پورٹس میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہاں اکثر پرندے اور دیگر جنگلی حیات خطروں کی صورت طیاروں کے راستے میں آجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: جہاز کے حادثے کی صورت میں اپنائے جانے والے اقدامات

    سنہ 2012 میں بھی ایک پرندہ اس وقت ایک طیارے سے ٹکرا گیا جب وہ ٹیک آف کر رہا تھا جس کی وجہ سے ٹیک آف کرتے ہی طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔ حادثے میں 19 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

  • سیسہ کا زہر امریکا کے قومی پرندے کی موت کا سبب

    سیسہ کا زہر امریکا کے قومی پرندے کی موت کا سبب

    واشنگٹن: امریکا کا قومی پرندہ اپنے ہم وطنوں کی صنعتی ترقی کے باعث سخت خطرے کا شکار ہوگیا۔ امریکا میں عقاب سیسے کے خطرناک زہر کا شکار ہو کر نہایت درد ناک موت مرنے لگے۔

    امریکی ریاست اورگن میں موجود بلیو ماؤنٹین وائلڈ لائف سینٹر میں رواں برس یہ تیسرا عقاب ہے جو اپنی طبعی عمر سے قبل موت کا شکار ہوا۔ یہ عقاب سیسے کے زہر کا شکار ہوا تھا۔

    eagle-2

    سینٹر کی انتظامیہ کے مطابق گزشتہ کچھ عرصے میں عقابوں کے جسم میں سیسے کی مقدار میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    یہ سیسہ اس وقت ان کے جسم میں داخل ہوتا ہے جب یہ گولی سے شکار کیے ہوئے جانور جیسے ہرن، بیل یا بارہ سنگھوں کی باقیات کو کھاتے ہیں۔

    eagle-3

    ان شکار کیے ہوئے جانوروں کے جسم میں موجود بارود کے ذرات عقابوں کے جسم میں بھی داخل ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ گولی کی تیاری میں سیسے کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    سیسہ کس طرح متاثر کرتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سیسے کے زہر کا شکار ہونے والے عقاب موت سے قبل نہایت اذیت ناک حالت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ لگ بھگ مفلوج ہوجاتے ہیں اور بہت مشکل سے چل پھر پاتے ہیں۔

    سیسے کا زہر ممالیہ جانداروں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے اور ان میں نابینا پن، دماغی خلیات کو تباہ کرنے اور جسمانی اعضا کو ناکارہ بنانے کا سبب بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سنہ 2020 تک جنگلی حیات کی ایک تہائی آبادی ختم؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی جاندار کے خون میں اگر 45 مائیکرو گرام سے زیادہ سیسے کی مقدار پائی جائے تو اس کے اثرات سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا علاج کیا جانا ضروری ہے۔

    دوسری جانب سینٹر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مرنے والے عقابوں کے خون میں 500 مائیکرو گرام سے زیادہ سیسہ پایا گیا۔

    قومی پرندے کا بچاؤ

    سنہ 1972 میں امریکا میں جب مختلف زہریلی کیڑے مار ادویات پر پابندی لگائی گئی اس کے بعد سے عقابوں کی آبادی اور ان کی مجموعی صحت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا تھا، تاہم اسی سال میں عقابوں کی کل آبادی کا 10 سے 15 فیصد سیسے کے زہر کی وجہ سے ہلاک ہوگیا تھا۔

    eagle-5

    وجہ وہی تھی، مردار جانوروں میں پھنسے باردو کے ذرات جو عقاب کے جسم میں داخل ہوجاتے تھے۔

    سنہ 2014 میں کیے جانے والے ایک جائزے کے مطابق گزشتہ 30 برسوں میں امریکا میں 3 ہزار عقاب سیسے کی وجہ سے موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے 30 سے زائد امریکی ڈاکٹرز اور سائنسدانوں نے ٹرمپ انتظامیہ کو ایک خط روانہ کیا ہے جس میں اوباما دور کے ایک قانون پر عملدر آمد کروانے کی استدعا کی گئی ہے۔

    اس قانون کے تحت ملک بھر میں جنگلی حیات کے مراکز کے 150 میٹر ایکڑ کے اندر اسلحہ باردو کے استعمال پر پابندی عائد تھی۔

    eagle-4

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ معاشی و صنعتی ترقی کے لیے قومی پرندے کی نسل کو داؤ پر لگانا، نہایت احمقانہ فعل ہے۔

    سیسہ ۔ خطرناک زہر

    گولہ بارود کے علاوہ سیسے کو مندرجہ ذیل اشیا کی تیاری میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

    دیواروں پر کیا جانے والا روغن یا پینٹ
    زیورات
    جدید برقی آلات بشمول موبائل فون
    مختلف اقسام کے برتن
    پانی کے نلکے یا مختلف پائپس
    بعض کھلونوں میں
    ٹھوس پلاسٹک کی اشیا

    اقوام متحدہ کے ادارہ ماحولیات یو این ای پی کے مطابق سیسہ کا انسانی جسم میں جانا دل کے امراض اور فالج کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔

    اس کا زہر دماغ، جگر اور گردوں میں جا کر انہیں ناکارہ بنا دیتا ہے جبکہ یہ ہڈیوں کے گودے اور دانتوں میں بھی ذخیرہ ہو کر مستقل نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتا ہے۔

    سیسہ خاص طور پر دماغ اور اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر تولیدی اعضا، ہڈیوں اور قوت مدافعت کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ یہ چھوٹے بچوں کی دماغی نشونما کو متاثر کر کے انہیں کند ذہن اور کم عقل بھی بنا دیتا ہے۔

  • کچھوے کے معدے میں سینکڑوں سکے

    کچھوے کے معدے میں سینکڑوں سکے

    بنکاک: تھائی ڈاکٹرز نے ایک 25 سالہ کچھوے کے معدے سے سینکڑوں سکے نکال لیے۔ ان سکوں کی وجہ سے کچھوا تیرنے سے قاصر ہوچکا تھا۔

    یہ کچھوا بنکاک کے ایک کنزرویشن سینٹر میں واقع ایک سوئمنگ پول میں رہتا تھا جہاں آنے والے افراد نیگ شگونی کے لیے سکے پھینکا کرتے تھے۔ کچھوے نے دیگر اشیا کے ساتھ ان سکوں کو بھی نگل لیا تھا جن کی تعداد 915 بتائی جارہی ہے۔

    2

    ان سکوں کو نگلنے کے بعد کچھوے کے وزن میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ تیرنے سے قاصر ہوگیا۔

    سینٹر کے ملازمین نے جب کچھوے کو غیر معمولی طور پر سست دیکھا تو اسے باہر نکال کر اس کا ٹیسٹ کیا گیا جس کے بعد اس کے اندر سکوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

    5

    3

    ڈاکٹرز کو کچھوے کا آپریشن کر کے اس کے معدے سے سکے نکالنے میں 7 گھنٹے کا وقت لگا۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ کچھوے کو صحت یاب ہونے میں ایک ماہ کا وقت لگے گا جبکہ اس کے بعد مزید 6 ماہ تک اسے زیر نگہداشت رکھا جائے گا۔

    6

    4

    7

    8

    10

    واضح رہے کہ کچھوؤں کے معدے میں مختلف اشیا پھنس جانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ کھلے سمندر اور خشکی میں رہنے والے بے شمار کچھوے وہاں پھینکی گئی پلاسٹک کی اشیا کو خوراک سمجھ کر نگل جاتے ہیں جو ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس پلاسٹک کی وجہ سے کچھوے نہایت تکلیف دہ دن گزار کر اذیت ناک موت مرتے ہیں جس سے پہلے وہ کچھ کھانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔

    ساحل سمندر پر پھینکا جانے والا کچرا نہ صرف وہاں کی آلودگی میں اضافہ کرتا ہے بلکہ وہاں موجود جنگلی و آبی حیات کے لیے بھی خطرے کا باعث ہے۔

  • صحرائے چولستان میں 500 تلور فضا میں آزاد کردیے گئے

    صحرائے چولستان میں 500 تلور فضا میں آزاد کردیے گئے

    بہاولپور: صوبہ پنجاب کے صحرائے چولستان میں 500 تلوروں کو پنجروں سے نکال کر آزاد فضا میں چھوڑ دیا گیا۔

    معدومی کے خطرے کا شکار نایاب 500 تلوروں کو انٹرنیشنل فنڈ برائے ہوبارہ کنزرویشن اور ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے باہمی اشتراک سے چولستان میں سلو والی کے مقام پر آزاد کیا گیا۔

    یہ تلور نسلی اور علاقائی طور پر پاکستان کی فضاؤں میں آنے والے پرندوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور انہیں پاکستان میں تلور کی موجودہ نسل کو بڑھانے کے لیے آزاد کیا گیا ہے۔

    houbara-2

    جنگلی آباد کاری کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی تلوروں کو آزاد کیا جارہا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے تقریباً 1 لاکھ 37 ہزار 8 سو 31 پرندے جنگلی ماحول میں آزاد کیے گئے ہیں۔

    کچھ منتخب پرندوں کے ساتھ سیٹلائٹ ٹرانسمیٹرز بھی لگائے گئے ہیں تاکہ آزاد کیے جانے والے پرندوں کی نقل و حرکت، رہائش کے بارے میں ان کی ترجیحات، بقا اور افزائش نسل کے لیے صلاحیت کی نگرانی کرسکیں۔

    آزاد کیے جانے کے بعد یہ ڈیٹا ہر پندرہ دن بعد چیک کیا جائے گا اور پرندوں کی اڑان بھرنے اور بسیرا کرنے کے مقامات کی ارضی اطلاع ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کو دی جاتی رہے گی جو مزید تحقیق کے لیے معاون ثابت ہوگی۔

    houbara

    عالمی ادارہ تحفظ برائے فطرت آئی یو سی این کے مطابق تلور معدومی کے خطرے کا شکار حیاتیات کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں ہر سال 30 سے 40 ہزار تلور ہجرت کر کے آتے ہیں جن کا اندھا دھند شکار کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنہ 2012 میں 19 اگست کو ملک میں جاری تلور کے شکار پر پابندی عائد کردی تھی جسے بعد ازاں گزشتہ سال کے آغاز پر وفاقی حکومت، صوبوں اور تاجروں کی جانب سے دائر کردہ اپیل کے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا تھا۔

  • جنگلی حیات کے بغیر انسانوں کا وجود ناممکن

    جنگلی حیات کے بغیر انسانوں کا وجود ناممکن

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو منانے کی قرارداد منظور کی۔ رواں برس یہ دن ’نوجوانوں کی آواز سنو‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ اس کا مقصد نئی نسل اور نوجوانوں کو جنگلی حیات کے تحفظ کی کوششوں میں شامل کرنا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    مزید پڑھیں: زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

  • زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    زمین پر آباد جانور کب سے یہاں موجود ہیں؟

    ہماری ماں، زمین جس پر ہم رہتے ہیں اس کی عمر ساڑھے 4 ارب سال ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران لاکھوں کروڑوں سال پر مبنی کئی ادوار آئے اور مٹ گئے۔

    زمین پر زندگی کی موجودگی سے لے کر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ ان معدومیوں میں زمین کی 70 فیصد (جنگلی و آبی) حیات ختم ہوجاتی۔ کچھ عرصے (ہزاروں یا لاکھوں سال بعد) ایک بار پھر زندگی وجود میں آتی اور حیات کا یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    مزید پڑھیں: معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    زمین پر بسنے والے انسانوں کی عمر تو کچھ زیادہ نہیں، البتہ ہماری دنیا میں بے شمار ایسے جانور موجود ہیں جو لاکھوں کروڑوں سال سے زمین پر ہیں۔ ان کی نسل کا ارتقا جاری رہا، شکل اور جسامت بدلتی رہی، لیکن ان کی نسل کئی صدیوں سے یہاں موجود ہے۔

    آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سا جانور کتنے عرصے سے زمین پر موجود ہے۔

    اس وقت زمین پر موجود سب سے قدیم جانور جیلی فش ہے۔ زمین پر آخری معدومی اب سے 6.6 کروڑ سال پہلے رونما ہوئی تھی اور جیلی فش اس سے بھی قدیم تقریباً 55 کروڑ سال قدیم ہے۔

    شارک کی ایک نایاب نسل گوبلن شارک 11.8 کروڑ سال قدیم ہے۔

    ہاتھی: ماہرین نے ہاتھی کے سب سے قدیم دریافت کیے جانے والے رکازیات کی عمر 5.5 کروڑ سال بتائی ہے۔ ہاتھی اس وقت زمین پر موجود تمام جانوروں میں سب سے قوی الجثہ جانور ہے۔

    معلومات بشکریہ: ارتھ لائف ڈاٹ نیٹ

    گوریلا: ماہرین کی ایک دریافت کے مطابق گوریلا 1 کروڑ سال قبل بھی زمین پر موجود تھا۔

    چیتا: 20 لاکھ سال قدیم ۔ چیتے کے قدیم ترین رکاز جو ماہرین نے دریافت کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ چیتوں کی ابتدائی نسل آج کے چیتوں سے جسامت میں نہایت چھوٹی تھی۔

    معلومات بشکریہ: ٹائیگرز ورلڈ

    پانڈا: پانڈا کے سب سے قدیم رکاز (فوسلز) 20 لاکھ سال قدیم ہیں۔

    معلومات بشکریہ: سائنس ڈیلی

    زرافہ: زمین پر موجود لمبا ترین جانور جس کے قدیم ترین رکاز 15 لاکھ سال پرانے ہیں۔

    معلومات بشکریہ: اینیمل کارنر

    کتا: کتے کے سب سے قدیم آثار 31 ہزار 7 سو سال قدیم ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نہایت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں ایک بار پھر زمین پر آباد 70 فیصد سے زائد جانوروں کے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔

    لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس بار یہ عمل قدرتی نہیں ہوگا، بلکہ انسان کا اپنا پیدا کردہ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    ان کے مطابق جانوروں کے بے دریغ شکار، ان کے گھروں (جنگلات) کی کٹائی، ہماری صنعتی ترقی کی وجہ سے زہریلے دھوئیں کا اخراج، اس کی وجہ سے ہونے والی فضائی و آبی آلودگی، اور مجموعی طور پر پوری دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ایسے عوامل ہیں جو نہ صرف جانوروں بلکہ نسل انسانی کو بھی ختم کرسکتے ہیں۔

  • وائلڈ لائف نگہبان ’پانڈا ڈیڈی‘ کے نام سے مشہور

    وائلڈ لائف نگہبان ’پانڈا ڈیڈی‘ کے نام سے مشہور

    ہم میں سے بہت سے افراد جانوروں سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد اس محبت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنی زندگی انہی کے لیے صرف کردیتے ہیں۔

    چین کا زانگ یو بھی پانڈا سے محبت کرنے والا ایک ایسا ہی شخص ہے جسے انٹرنیٹ پر پانڈا ڈیڈی کا نام دیا جاچکا ہے۔

    panda-2

    چین کے صوبے سیچون میں پانڈا کی حفاظت اور اس کی افزائش نسل میں اضافے کے لیے بنائے گئے بریڈنگ سینٹر میں ملازم زانگ یو کے دن رات پانڈا کے ساتھ گزرتے ہیں۔

    panda-4

    پانڈا بھی اپنے اس نگران سے بے حد مانوس ہیں اور وہ اس کے ساتھ خوشی خوشی کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔

    panda-6

    زانگ یو پانڈاز کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔

    panda-5

    یہ صرف اس کی ملازمت نہیں بلکہ اس کا شوق بھی ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ انہیں اپنے بچوں ہی کی طرح چاہتا اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

    panda-3

    اور صرف ایک زانگ یو ہی نہیں بلکہ ان سینٹرز میں ملازمت کرنے والے اکثر افراد ان معصوم پانڈاز کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

  • خطرناک جینز کی موجودگی کے انکشاف کے بعد بندروں کا قتل

    خطرناک جینز کی موجودگی کے انکشاف کے بعد بندروں کا قتل

    شمالی جاپان کے ایک چڑیا گھر میں 57 بندروں میں غیر معمولی حملہ آور جنیز کی موجودگی کے انکشاف کے بعد انہیں زہر آلود انجکشن دے کر ہلاک کردیا گیا۔

    جاپان کے شہر چیبا میں واقع اس چڑیا گھر میں ان بندروں کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا جس میں انکشاف ہوا کہ یہ بندر دوغلی نسل کے ہیں اور ان میں پائے جانے والے جینز ان جینزوں سے مختلف ہیں جو ان جیسے دیگر بندروں کے ہیں۔

    monkey-2

    مکاک نامی یہ بندر جنہیں اسنو منکی بھی کہا جاتا ہے، صدیوں سے جاپان کی سرزمین پر موجود ہیں اور یہ جاپان کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے۔

    مزید پڑھیں: پرندوں کو کھانے والی جنگلی بلیوں کے ’قتل‘ کا فیصلہ

    دوسری جانب جاپان میں ان بندروں سمیت دیگر مقامی و منفرد حیاتیاتی اقسام کی حفاظت کے لیے دوغلی نسل کے جانوروں کی افزائش پر پابندی عائد ہے۔ دوغلی نسل کے کئی جانوروں کو اس سے قبل بھی ہلاک کیا جاچکا ہے۔

    جاپانی ماہرین حیاتیات کے مطابق دوغلی نسل کے جانور مقامی جنگلی حیات کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ یہ اکثر اوقات تشدد پسند نکل آتے ہیں جن سے خاص طور پر کمیاب جانوروں کی نسل کے خاتمے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    monkey-3

    چڑیا گھر کی انتظامیہ نے ان بندروں کو ہلاک کرنے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا اور ان کی باقاعدہ آخری رسومات بھی منعقد کی گئیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مختلف جینز کے جانوروں کو ختم کرنا ضروری ہے تاکہ دیگر جنگلی حیات محفوظ رہے۔