Tag: جنگلی حیات

  • سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    سفید شیر نئی زبان سیکھنے پر مجبور

    نئی دہلی: انسانوں کے لیے زبانوں کا مسئلہ ہونا تو عام بات ہے۔ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو انہیں نئی زبان سیکھنے میں کچھ وقت لگتا ہے اور اگر زبان مشکل ہو تو انہیں دقت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

    لیکن بھارت میں ایک جانور کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال پیش آگئی جب اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو اسے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے ایک دوسرے کی ’زبان‘ کو سمجھنا کافی مشکل ہوگیا۔

    tiger-3

    یہ عجیب صورتحال چنائی کے ارنگر انا زولوجیکل پارک میں پیش آئی جہاں سے ایک سفید شیر کو راجھستان کے شہر ادے پور کے سجن گڑھ بائیولوجیکل گارڈن منتقل کیا گیا۔ جنگلی حیات کے تبادلے کے پروگرام کے تحت راجھستان کے دو شہروں جودھ پور اور جے پور سے دو بھیڑیوں کو بھی چنائی بھیجا گیا۔

    لیکن اس تبادلے کے بعد انکشاف ہوا کہ چنائی سے آنے والا سفید شیر صرف تامل زبان سمجھتا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت زبانوں کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے اور اس کی مختلف ریاستوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ریاست بنگال میں تامل جبکہ راجھستان میں میواڑی زبان بولی جاتی ہے۔

    چنائی میں پیدا ہونے والا یہ 5 سالہ شیر راما بچپن سے اپنے نگرانوں کی تامل زبان میں احکامات سننے اور انہیں ماننے کا عادی ہے۔ لیکن ادے پور پہنچ کر جب اس کے نگرانوں نے میواڑی زبان میں بات کی تو شیر اور نگران دونوں ہی مخمصہ میں پھنس گئے۔

    غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ *

    نگران اپنی بات دہرا دہرا کر تھک گیا لیکن صرف تامل زبان سے آشنا راما ٹس سے مس نہ ہوا کیونکہ اسے سمجھ ہی نہیں آئی کہ اسے کیا کہا جارہا ہے۔

    دونوں کی مشکل حل ہونے کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو راما میواڑی زبان سیکھ لے یا پھر اس کی نگہبانی پر معمور نگران تامل زبان سیکھ لیں۔

    ادے پور کے آفیسر برائے تحفظ جنگلات راہول بھٹنا گر کا کہنا ہے کہ ادے پور کے گارڈن میں ایک سفید شیرنی پہلے سے موجود ہے جو پونا سے لائی گئی ہے۔ اب ایک اور شیر کو یہاں لانے کا مقصد ان کی نسل کی تحفظ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے تحت ان کی آبادی میں اضافہ کرنا ہے۔

    tiger-2

    واضح رہے کہ سفید شیر جسے بنگال ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے ایک خطرناک جانور ہے اور یہ اکثر جنگلوں سے دیہاتوں میں داخل ہوجاتا ہے جہاں یہ انسانوں اور جانوروں پر حملہ کر کے انہیں زخمی یا ہلاک کرنے کا سبب بن چکا ہے۔

    اس کی وحشیانہ فطرت کے باعث گاؤں والوں کو اپنی حفاظت کی خاطر مجبوراً اسے ہلاک کرنا پڑتا ہے جس کے باعث اس کی آبادی میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں سفید شیروں کی تعداد صرف 200 کے قریب رہ گئی ہے۔

  • جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جنگلات کی کٹائی کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ

    جوہانسبرگ: مختلف ممالک کی حکومتوں نے دنیا کے سب سے زیادہ غیر قانونی تجارت کے شکار جانور پینگولین اور دنیا سے تیزی سے ختم ہوتے روز ووڈ درخت کے کاٹنے پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ جنوبی افریقہ میں غیر قانونی تجارت سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں کیا گیا۔

    واضح رہے پینگولین دنیا میں سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر شکار کیا جانے ممالیہ ہے۔ یہ افریقہ اور ایشیا کے گرم حصوں میں پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسمگلنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے میں 10 لاکھ سے زائد پینگولین موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

    پینگولین کا گوشت چین اور تائیوان میں کھانے کے لیے جبکہ اس کی کھال دواؤں میں استعمال کی جاتی ہے۔ پینگولین کی اسمگلنگ میں تیزی سے ہوتے اضافے کے باعث بر اعظم ایشیا میں اس کی معدومی کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

    summit-3

    اجلاس میں 182 ممالک نے اس جانور کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

    اسی اجلاس میں عالمی برادری نے روز ووڈ کی لکڑی کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا بھی فیصلہ کیا۔ دنیا بھر کے مختلف گرم حصوں میں پائی جانے والی روز ووڈ دنیا کی سب سے زیادہ اسمگل کی جانے والی لکڑی ہے جو قیمتی و پرآسائش فرنیچر بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔

    چمکدار، خوشبو دار سرخ رنگ کی اس لکڑی کی قیمت ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ، اور شیروں یا چیتوں کی کھال کی مجموعی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی پائیداری کی وجہ سے دنیا بھر کی فرنیچر سازی مارکیٹ میں اس کی بے تحاشہ مانگ ہے۔ اس لکڑی سے تیار شدہ ایک بیڈ 1 ملین ڈالر تک میں فروخت کیا جاچکا ہے۔

    summit-1

    روز ووڈ کی لکڑی کا سالانہ 2.2 بلین تک کاروبار ہوتا ہے۔

    اس کی بے تحاشہ قانونی تجارت و اسمگلنگ کے باعث ایشیا میں اس کے جنگلات کا خاتمہ ہونے جارہا ہے لہٰذا اس کی تلاش کے لیے ٹمبر مافیا نے وسطی امریکہ اور افریقہ سمیت ان حصوں کا رخ کرلیا ہے جہاں اس کی افزائش ہوتی ہے۔

    سنہ 2016 کے صرف ابتدائی 6 ماہ میں افریقہ سے 216 ملین کی لکڑی اسمگل کی جاچکی ہے۔

    summit-5

    اس سے قبل کانفرنس میں ماہرین نے ہاتھیوں کی معدومی سے متعلق بھی ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں بتایا گیا کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    یاد رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔ یہ کانفرنس اسی معاہدے کے مرکزی خیال پر منعقد کی جارہی ہے۔

  • افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    جوہانسبرگ: ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    elephant3

    آئی یو سی این کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ کئی افریقی ممالک میں ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں اضافہ کا رجحان ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ ہے۔ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کاروبار میں بھی پچھلی ایک دہائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہاتھیوں کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقعہ ہونا ہے۔

    آئی یو سی این نے یہ رپورٹ جنگلی حیات کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں پیش کی جو جوہانسبرگ میں جاری ہے۔

    elephants

    واضح رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس رواں برس مئی میں منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں متعدد افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی جنہوں نے متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

  • بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    اگر آپ سے کہا جائے کہ چند دن کے لیے آپ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت اختیار کریں اور سب کچھ ویسے ہی کریں جیسے وہ کرتا ہے تو یقیناً آپ پریشانی کا شکار ہوجائیں گے۔

    یہ کام یقیناً آپ کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت کو اپنانا چاہے وہ کتنا ہی دولت مند اور مشہور شخص کیوں نہ ہو ایک مشکل کام ہے کیونکہ آپ اپنی فطرت سے ہٹ جائیں گے۔

    ہر انسان کی فطرت، عادات، مزاج دوسرے شخص سے مختلف ہوتا ہے اور وہ کام کرنا جو ہمارے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے۔

    تو پھر اس برطانوی شخص کی داد دیں جو اپنی شخصیت کو مکمل طور پر چھوڑ کر کسی اور کے روپ میں ڈھل گیا، اور وہ نیا روپ بھی کسی انسان کا نہیں بلکہ جانور کا، یعنی بکری کا تھا۔

    gm-4

    یقیناً یہ شخص نوبل انعام کا ہی مستحق تھا جو اسے دیا بھی گیا۔

    لندن سے تعلق رکھنے والا تھامس تھویٹس دراصل ایک سائنسدان ہے۔ اس نے یہ کام نہ صرف تحقیقی مقصد کے لیے انجام دیا بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اس سے اسے ایک روحانی مسرت حاصل ہوئی۔

    goatman-3

    وہ بتاتا ہے، ’میں اپنے انسان ہونے کی پہچان سے باہر نکلا اور ایک نئے زاویے سے دنیا کو دیکھنا شروع کیا‘۔

    تھامس نے مکمل طور پر بکرا بننے کے لیے بکرے جیسا ایک مصنوعی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جس میں سینگوں کی جگہ ایک ہیلمٹ، ہاتھ اور پاؤں کے لیے بکروں جیسی ساخت کے اعضا اور نرم کھال سے بنا ایک کوٹ شامل تھا اور اسے پہن کر یورپ کی الپس پہاڑیوں میں نکل گیا۔

    gm-6

    یہ کام تھامس نے تین دن تک انجام دیا اور صرف یہی نہیں 3 دن تک اس نے پتے بھی کھائے۔

    gm-5

    تھامس کی اس کاوش پر اسے آئی جی نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ 1991 سے آغاز کیے جانے والے یہ نوبل انعام ان کارناموں کے لیے دیے جاتے ہیں جو بظاہر تو عجیب و غریب یا کسی حد تک مزاحیہ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے اندر ایک پیغام چھپا ہوتا ہے۔

    تھامس نے یہ انعام ہارڈورڈ یونیورسٹی میں نوبل انعام یافتہ ماہرین و سائنسدانوں سے وصول کیا۔

    gm-7

    تھامس نے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے، ’کس طرح میں نے انسان بننے کے کام سے چھٹی لی‘۔

  • برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    لندن: برطانیہ کی ہر 10 میں سے 1 جنگلی حیات کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ سنہ 1970 سے برطانیہ کی خطرے کا شکار جنگلی حیات کا بھی ایک تہائی خاتمہ ہوچکا ہے۔

    ایک برطانوی ادارے اسٹیٹ آف نیچر کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں جنگلی حیات کی اقسام کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ہر 6 میں سے ایک جانور، پرندے، مچھلی یا پودے کی نسل غائب ہوچکی ہے۔

    uk-2

    ماہرین کے مطابق اس کی وجہ زراعت میں اضافہ اور اس میں جدید تکنیکوں کا استعمال، ترقی پذیر علاقوں سے ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہجرت (اربنائزیشن)، اور موسمی تغیرات یا کلائمٹ چینج کے شدید اثرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان عناصر کے ساتھ بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی اور تیزی سے ہوتی صنعتی ترقی نے برطانیہ کو ان ممالک میں شامل کردیا ہے جہاں فطرت کو تیزی سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

    رپورٹ کے سربراہ مارک ایٹن کا کہنا ہے، ’گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم نے اپنی زراعت میں جدید تکنیکوں کا استعمال شروع کردیا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ جدت ہمارے قدرتی حسن کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے‘۔

    hog
    ایک مردہ خار پشت ۔ فصلوں کو جانوروں سے بچانے کے لیے اکثر برقی باڑھ لگادی جاتی ہے جن میں چھوٹے جانور پھنس کر مرجاتے ہیں

    انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں جنگلی حیات اور ان کے مساکن (رہنے کی جگہ) کی بحالی کے کئی پروجیکٹ جاری ہیں، مگر جس تیزی سے انہیں نقصان پہنچ رہا ہے اس کے مقابلے میں یہ اقدامات بہت کم ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 1970 سے 2013 کے دوران جنگلی حیات کی نسل میں 56 فیصد کمی ہوئی جبکہ صرف 2002 سے 2013 کے درمیان یہ تناسب 53 فیصد رہا۔

    واضح رہے کہ دنیا کے تیزی سے بدلتے موسم اور اس کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے جہاں نسل انسانی کو شدید خطرات لاحق ہیں، وہیں زمین پر موجود جنگلی حیات کے معدوم ہونے کا خدشہ بھی ہے۔

    uk-3

    ماہرین کے مطابق سنہ 2050 تک ایک چوتھائی جنگلی حیات معدوم ہوسکتی ہے۔

    اس سے قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں ماہرین نے بتایا کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسلیں معدوم ہونے لگے گی۔

    دوسری جانب امریکا میں درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے بھی وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔

    panda-2

    ان جنگلی حیات کو بچانے کے لیے حفاظتی اقدامات بھی کیے جارہے ہیں اور ان اقدامات کے باعث حال ہی میں چین کا مقامی پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے۔ اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

  • فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    فرانس کا پلاسٹک سے بنے برتنوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ

    پیرس: یورپی ملک فرانس نے ملک بھر میں پلاسٹک سے بنے برتنوں جیسے کپ، پلیٹ اور کانٹوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    یہ فیصلہ ملک بھر میں پلاسٹک کی پیداوار، اس کے استعمال کو روکنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    france-2

    یہ اقدام فرانس کے انرجی ٹرانزیشن فار گرین گروتھ نامی بل کا حصہ ہے جو 2015 میں پیش کیا گیا۔ یہ قانون باقاعدہ طور پر 2020 سے ملک بھر میں لاگو کردیا جائے گا۔ اس وقت تک پلاسٹک کے کاروبار سے وابستہ افراد کو کسی اور شے سے ڈسپوز ایبل برتن بنانے کا وقت مل جائے گا۔

    فرانسیسی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 4.73 بلین پلاسٹک کپ استعمال کیے جاتے ہیں جو استعمال کے بعد پھینک دیے جاتے ہیں اور ان کا صرف 1 فیصد حصہ ری سائیکل یا دوبارہ استعمال ہو پاتا ہے۔

    یہ اقدام فرانس کے ماحول اور ماحول دوست افراد کے لیے تو خوش آئند ہے تاہم فرانس کا کاروباری و تجارتی طبقہ اس سے ناخوش نظر آتا ہے۔

    ایک تاجر کے مطابق فرانس کا یہ قانون یورپی یونین کے تجارتی اشیا کی آزادانہ نقل و حمل کے قوانین سے متصادم ہے۔

    یورپ کی فوڈ پیکنگ ایسوسی ایشن پیک ٹو گو کی سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی پر فرانس کے خلاف قانونی اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔

    france-3

    فرانس کی وزارت ماحولیات نے تاحال اس معاملے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تاہم آثار یہی ہیں کہ یہ قانون جلد نافذ العمل ہوجائے گا کیونکہ فرانس اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست قوانین متعارف کروا چکا ہے۔

    فرانس رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکا ہے جبکہ ایک قانون کے تحت سپر مارکیٹس کی انتظامیہ اس بات پر مجبور ہیں کہ وہ نہ فروخت ہونے والی غذائی اشیا کو عطیہ کردیں۔

    گزشتہ برس برطانیہ میں بھی ماحولیاتی تحفظ کے لیے سپر مارکیٹس میں استعمال ہونے والے پلاسٹک بیگز پر بھاری قیمت وصول کی جانے لگی تھی جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

  • عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے سمندر بیمار

    ہونو لولو: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کا عمل یعنی گلوبل وارمنگ سمندروں کو ’بیمار‘ بنا رہا ہے جس سے سمندری جاندار اور سمندر کے قریب رہنے والے انسان بھی بیمار ہو رہے ہیں۔

    یہ تحقیق امریکی ریاست ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس میں پیش کی گئی۔ ورلڈ کنزرویشن کانگریس جانداروں کے تحفظ پر غور و فکر کرنے کے لیے بلایا جانے والا اجلاس ہے جس کا میزبان عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این ہے۔

    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    ہوائی میں جاری آئی یو سی این ورلڈ کنزرویشن کانگریس ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    اجلاس میں دنیا بھر سے 9 ہزار لیڈرز اور ماہرین ماحولیات نے شرکت کی۔

    ایونٹ میں شرکا کی آگاہی کے لیے رکھی گئی سمندری حیات کی ایک قسم ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج
    شرکا کو کچھوے کی لمبائی، وزن اور عمر ناپنے کی تکنیک بتائی گئی ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ *

    آئی یو سی این کے ڈائریکٹر جنرل انگر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ سمندر ہماری کائنات کی طویل المعری اور پائیداری کا سبب ہیں۔ سمندروں کو پہنچنے والے نقصان سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔

    پاکستان سے سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم ایونٹ میں شریک ہیں ۔ تصویر بشکریہ آئی یو سی این فیس بک پیج

    مذکورہ تحقیق کے سربراہ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق سمندروں پر کی جانے والی اب تک کی تمام تحقیقی رپورٹس سے سب سے زیادہ منظم اور جامع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 1970 سے اب تک دنیا بھر کے سمندر 93 فیصد زائد درجہ حرارت برداشت کر چکے ہیں جس کی وجہ سے سمندری جانداروں کی کئی اقسام کا لائف سائیکل تبدیل ہوچکا ہے۔

    seas-2

    ماہرین کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت کچھوؤں کی پوری ایک جنس کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ مادہ کچھوؤں کی زیادہ تر افزائش گرم مقامات، اور گرم درجہ حرارت میں ہوتی ہے جبکہ نر کچھوؤں کو افزائش کے لیے نسبتاً ٹھنڈے درجہ حرارت کی ضرورت ہے۔

    کچھوے اور انسان کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟ *

    رپورٹ میں شواہد پیش کیے گئے ہیں کہ کس طرح گرم سمندر جانوروں اور پودوں کو بیمار کر رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گلوبل وارمنگ کا عمل، تیزی سے بدلتے دنیا کے موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے، دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی، جبکہ کئی زرعی فصلوں کی پیداوار میں کمی ہوجائے گی جس سے دنیا کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج کے خطرے میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے گذشتہ برس پیرس میں ہونے والی کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ چین کا پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے اور اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانڈا کی نسل کو اب مکمل معدومی کا خطرہ نہیں ہے البتہ اسے خطرے سے دو چار یا غیر محفوظ جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

    panda-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-2

    جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہ ایک حوصلہ افزا صورتحال ہے۔ ان کے مطابق اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں اور مقامی آبادیوں کی کاوشیں بھی شامل ہیں۔

    panda-4

    آئی یو سی این کے مطابق کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث پانڈا کے رہائشی جنگلات میں ایک تہائی کمی ہوسکتی ہے۔ پانڈا اپنی رہائش مخصوص درختوں کے جنگلات میں رکھتا ہے جنہیں بمبو فاریسٹ کہا جاتا ہے۔

    panda-5

    اس سے قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم بھی معدومی کے خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔ ان لومڑیوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کو اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے شدید خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

  • سائیکل سوار پر دوران ریس ہرن آ گرا

    سائیکل سوار پر دوران ریس ہرن آ گرا

    ڈبلن: آئرلینڈ میں جاری ایک سائیکل ریس کے دوران ایک کھلاڑی کو اس وقت غیر متوقع صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب دوران ریس درختوں سے اچانک ایک ہرن نے اس کے اوپر چھلانگ لگائی جس کے نتیجہ میں وہ زمین پر گر پڑا۔

    یہ غیر معمولی واقعہ آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں جاری ایک سائیکل ریس کے دوران پیش آیا۔ ریس میں شریک سائیکل سوار جب ڈبلن کے فونیکس پارک میں سے گزر رہے تھے تو اچانک درختوں کے درمیان سے ایک ہرن نے غیر متوقع طور پر ایک سائیکل سوار کے اوپر سے کودنے کی کوشش کی۔

    deer-2

    کودنے کے دوران ہرن سائیکل سوار سے ٹکرا گیا جس کے نتیجہ میں دونوں ہی زمین پر گر پڑے۔ ہرن تو فوراً ہی فرار ہوگیا تاہم سائیکل سوار کو تاخیر کے سبب ریس میں شکست کا سامنا کرنا پڑگیا۔

    شین او نامی سائیکل سوار واقعہ میں محفوظ رہا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے ہیلمٹ نے اسے کسی گہری چوٹ سے بچالیا تاہم زوردار دھکے کے باعث اسے کندھے اور سر میں ہلکا سا درد محسوس ہوتا رہا۔

    مزید پڑھیں: آسمانی بجلی گرنے سے 300 بارہ سنگھے ہلاک

    اس غیر معمولی ’ایکسڈنٹ‘ کے باوجود شین نے اپنے اوسان بحال رکھے اور ریس کو مکمل کیا۔

    واقعہ کی تصویر کشی کرنے والے فوٹو گرافر ایرک کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ’میں نے دیکھا کہ ٹکرانے کے فوراً بعد ہرن گھبرا کر اٹھا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ اسے کوئی چوٹ نہیں لگی تھی‘۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہاں ایک اور ہرن موجود ہے جو اس گڑبڑ کو دیکھ کر خود بھی پریشان ہوگیا اور وہاں سے بھاگ اٹھا۔


  • آسمانی بجلی گرنے سے 300 بارہ سنگھے ہلاک

    آسمانی بجلی گرنے سے 300 بارہ سنگھے ہلاک

    اوسلو: ناروے میں ایک پارک میں آسمانی بجلی گرنے سے 300 سے زائد بارہ سنگھے ہلاک ہوگئے۔

    واقعہ ناروے کے جنوبی علاقہ میں واقعہ جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے بنائے گئے پارک میں پیش آیا۔ انتظامیہ کے مطابق علاقہ میں کئی دن سے طوفان جاری تھا اور شدید آسمانی بجلی کڑکنے کے باعث یہ حادثہ پیش آیا۔

    rd-3

    ناروے کے انسپکٹر برائے تحفط قدرت کا کہنا ہے کہ بارہ سنگھے خراب موسم میں ڈر کر ایک ساتھ جمع ہوجاتے ہیں اور یہی عادت ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔

    rd-2

    ان کا کہنا تھا کہ آسمانی بجلی گرنے کے باعث جانوروں کی ہلاکت کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں تاہم اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا یہ پہلا واقعہ ہے، ’یہ ایک بہت ہی افسوسناک بات ہے‘۔

    rd-1

    ماہرین جنگلی حیات نے اس حادثے کو ایک غیر معمولی قدرتی آفت قرار دیا ہے۔

    اس سے چند دن قبل بھارت میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے 38 بھیڑوں کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آچکا ہے۔