Tag: جنگلی حیات

  • ہانگ کانگ میں خرگوشوں کا کیفے

    ہانگ کانگ میں خرگوشوں کا کیفے

    ہانگ کانگ: ہانگ کانگ میں ایک ایسا کیفے کھولا گیا ہے جہاں آنے والے گاہکوں کی تفریح طبع اور معلومات میں اضافہ کے لیے خرگوشوں کو رکھا گیا ہے۔

    ریبٹ لینڈ نامی اس ریستوران میں 12 خرگوش موجود ہیں جو گھاس سے سجی ہوئی صاف ستھری جگہوں پر رہتے ہیں اور انہیں پلاسٹک کے جنگلے بنا کر الگ کیا گیا ہے۔

    bunny-2

    شہر کے مرکزی علاقہ میں ایک مصروف عمارت کی پانچویں منزل پر قائم اس ریستوران میں خرگوش پالنے کے شوقین افراد آتے ہیں اور گھنٹوں وہاں بیٹھ کر انہیں کھانا کھلاتے اور پیار کرتے ہیں۔

    bunny-4

    اس ریستوران کی 29 سالہ مالکہ ٹیڈی چوئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ ریستوران اس لیے کھولا ہے کہ ایسے افراد جو جانور پالنا چاہتے ہیں لیکن گھروں میں کم جگہ کے باعث نہیں پال سکتے وہ یہاں آ کر ان جانوروں کو کھلا پلا اور پیار کر کے اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں۔

    bunny-5

    انہوں نے بتایا کہ یہاں آنے والے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو جانور پالنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے وہ ان کی پرورش اور خوراک کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے یہاں وقت گزارتے ہیں۔

    bunny-3

    ریستوران میں آنے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی 11 سالہ بیٹی نے گھر میں خرگوش پالنے کا ارادہ کیا تو وہ اسے یہاں لے آئیں۔ ’میں چاہتی ہوں کہ اسے پتہ چلے کہ جانور پالنا آسان نہیں، انہیں بہت وقت اور محبت دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کا بہت خیال رکھنا پڑتا ہے‘۔

    bunny-6

    یہاں آنے والے کئی افراد ان پلے پلائے خرگوشوں کو خریدنا چاہتے ہیں تاہم یہاں موجود خرگوش برائے فروخت نہیں ہیں۔

    ویڈیو بشکریہ: اے ایف پی

    واضح رہے کہ اس سے قبل ہانگ کانگ ہی میں ایک کیٹ کیفے بھی کھل چکا ہے جہاں موجود بلیاں آنے والوں کی شفقت و توجہ کا مرکز بن جاتی ہیں۔

  • کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس ۔ کچھوا شکست کھا رہا ہے؟

    ہم سب ہی نے بچپن میں خرگوش اور کچھوے کی کہانی سنی ہے جس میں کچھوا اپنی مستقل مزاجی کے باعث خرگوش سے ریس جیت جاتا ہے اور خرگوش پیچھے رہ جاتا ہے۔ مگر یہ کہانی اب پرانی ہوچکی ہے۔ اس کہانی کو اگر آج کے دور میں ڈھالا جائے تو اس بار کچھوا لازماً یہ ریس ہار جائے گا، کیونکہ اس بار اس کا مقابلہ اپنے جیسے کسی جنگلی جانور سے نہیں بلکہ چالاک و عیار انسان سے ہوگا، جو پیسوں کی خاطر اسے دنیا سے ختم کرنے پر تلے ہیں۔

    شاید کبھی کچھوا یہ ریس جیت جائے، کیونکہ بقا کا مقصد بہرحال سب سے عظیم ہوتا ہے اور جان بچانے کا مقصد کسی کو بھی اس کی استعداد سے بڑھ کر جدوجہد کرنے پر مجبور کرتا ہے، لیکن فی الحال جو منظر نامہ ہے اس میں کچھوے کو شکست کا سامنا ہے، اور اس کے مقابل انسان فتح یاب ہورہا ہے۔

    پاکستان ایک زرخیز ملک؟

    پاکستان جغرافیہ کے لحاظ سے ایک متنوع ملک ہے۔ اپنے جغرافیہ اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان 11 جغرافیائی، 10 زرعی ماحولیاتی اور 9 بڑے ماحولیاتی زونز میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

    اس کے ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام میں جانداروں کی وسیع انواع موجود ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174 انواع، پرندوں کی 666 انواع، 177 رینگنے والے جانداروں کی اقسام اور جل تھلیوں (یا ایمفی بینس) کی 22 ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے خزانے کی صحیح سے حفاطت نہیں کر پارہے۔ جانداروں کی کچھ اقسام معدوم ہوچکی ہیں، کچھ خطرے کا شکار بین الاقوامی جانداروں کی فہرست میں شامل ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دو چار ہیں۔

    گذشتہ 4 سو سال میں پاکستان (برصغیر) کے علاقے سے کم سے کم 4 ممالیہ اقسام کے بارے میں تصدیق کی جا چکی ہے کہ وہ معدوم ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر)، دلدلی ہرن اور شیر شامل ہیں۔ چیتا سندھ کے علاقوں سےمعدوم ہوچکا ہے۔ مزید 2 اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہو رہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا اور کالی بطخ کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ ایشیاٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔

    ہمارے ملک میں معدومی کے خطرے کا شکار ایسا ہی ایک جاندار کچھوا بھی ہے، اور شاید لوگوں کو علم نہیں کہ یہ جاندار ہمارے لیے کس قدر فائدہ مند ہیں۔

    معدومی کے خطرے سے دو چار ۔ کچھوا

    پاکستان میں کچھوے کی میٹھے پانی کی 8 انواع ہیں جبکہ 3 سمندری (نمکین) پانی میں پائی جاتی ہیں۔ جس طرح گدھ کو فطرت کا خاکروب کہا جاتا ہے جو زمین سے مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے، اسی طرح کچھوا یہی کام پانی میں سرانجام دیتا ہے۔

    کچھوے پانی میں موجود مردہ اجسام کو کھاتے ہیں اور پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اب کچھوؤں کی آبادی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے 10 سے 15 سال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    اس بارے میں سندھ وائلڈ لائف کے کچھوؤں کے حفاظتی یونٹ کے انچارج عدنان حمید خان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق یہ بات اب تصدیق شدہ ہے کہ کراچی میں اچانک پیدا ہونے والا نیگلریا وائرس کچھوؤں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہوا۔ نیگلیریا وائرس میٹھے پانی جیسے دریاؤں، جھیل اور پینے کے پانی کے ذخائر میں پیدا ہوتا ہے اور یہاں کا محافظ یعنی میٹھے پانی کا کچھوا اپنی بقا کے مسئلہ سے دو چار ہے۔

    کچھوے اکثر ان فصلوں میں بھی پائے جاتے ہیں، یا لا کر چھوڑے جاتے ہیں جہاں پانی زیادہ ہوتا ہے جیسے چاول کی فصل۔ وہاں بھی کچھوے پانی کو صاف رکھتے ہیں اور فصل کو آبی خطرات سے بچاتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق اصل خطرہ ۔ اسمگلنگ

    پاکستان میں کچھوؤں کی اسمگلنگ ایک عام بات بن چکی ہے۔ اس حوالے سے کئی قوانین منظور کیے جاچکے ہیں اور اب ان پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے چنانچہ کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے کئی واقعات منظر عام پر آئے۔

    عدنان حمید کے مطابق اسمگل کیے جانے والے کچھوؤں کی پہلی کھیپ 1998 میں کراچی ائیرپورٹ سے پکڑی گئی۔ وہ اس وقت کراچی ائیر پورٹ پر کام کرتے تھے۔

    سنہ 2005 میں کراچی کی بندرگاہ پر 3650 کلو گرام کچھوے کا گوشت ضبط گیا جو ملزمان کے مطابق بھینسوں کا گوشت تھا۔ یہ گوشت ویتنام اسمگل کیا جارہا تھا۔

    سنہ 2007 میں جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پر کچھوے کے جسم کے خشک کیے ہوئے 700 کلو گرام حصے چین لے جاتے ہوئے ضبط کیے گئے۔ اسے مچھلی کی خشک جلد بتائی جارہی تھی۔ 2007 ہی میں پشاور سے اسی طرح 300 کلو گرام کچھوے کے جسم کا خشک کیا ہوا حصہ پکڑا گیا۔

    اس کے بعد 2008 میں بھی اتنی ہی مقدار سے لاہور سے بھی کچھوے کا گوشت اسمگل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔سنہ 2015 میں 5 کھیپوں سے 1,345 زندہ کچھوے پکڑے گئے جو مختلف مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب اسمگل کیے جارہے تھے جبکہ 1.9 ٹن ان کے جسم کے مختلف حصے جیسے گوشت ہڈیاں وغیرہ پکڑی گئیں۔

    اپریل 2015 میں 200 سے زائد میٹھے پانی کے زندہ کچھوے چین کی سرحد پر اسمگل ہوتے ہوئے پکڑے گئے، جنہیں بعد ازاں چین نے ایک خصوصی تقریب میں پاکستان کے حوالے کیا تھا۔

    اس کے چند روز بعد ہی انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمنل پر 4,243 مردہ کچھوے پکڑے گئے۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اسمگلروں کے پاس میرین فشریز ڈپارٹمنٹ کا سرٹیفکیٹ موجود تھا کہ یہ کچھوے نہیں مچھلی ہیں۔ ان پکڑے جانے والے 4 ہزار سے زائد کچھوؤں کی بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں قیمت 61 کروڑ بنتی ہے۔

    فروری 2016 میں کراچی ایئرپورٹ کے کسٹم حکام نے میٹھے پانی کے کالے دھبے والے 220 کچھوؤں کی غیر قانونی اسمگلنگ ناکام بنائی اور یہ کچھوے سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے حوالے کردیے۔

    مارچ میں کراچی کرائم برانچ پولیس نے ڈالمیا شانتی نگر میں ایک گھر پر چھاپہ مار کر اسمگل کے لیے جانے والے نایاب نسل کے کچھوے برآمد کرلیے۔ واقعے میں ملزمان فرار ہوگئے۔

    اسمگلنگ کی وجہ کیا ہے؟

    کچھوے کے گوشت کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت مانگ ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کے مطابق اس کے گوشت کو کھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے انڈوں کے خول سے زیورات اور آرائشی اشیا بنائی جاتی ہیں۔ اس کے جسم کے مختلف حصے شہوت بڑھانے والی دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک کچھوے کی قیمت 1500 ڈالر ہے۔ مقامی طور پر جب خرید و فروخت کی جاتی ہے تو ایک کچھوا 15 ڈالر میں بکتا ہے۔ 15 ڈالر کی خریداری، اور تمام شامل حکام کو ان کا ’حصہ‘ دینے میں 20 سے 25 ہزار روپے لگتے ہیں۔ یہ قیمت آگے جا کر کئی گنا اضافے سے وصول ہوجاتی ہے چنانچہ شارٹ کٹ کے متلاشی افراد کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    انہوں نے بتایا کہ کچھوے کے گوشت کی بیرون ملک 340 ڈالر فی کلو میں خرید و فروخت ہوتی ہے۔ جو لوگ اس میں حصے دار ہیں وہ چند سالوں میں بڑی بڑی لینڈ کروزرز اور وسیع و عریض بنگلوں کے مالک بن گئے۔

    ان کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت میں نیپال، ہانگ کانگ، چین، انڈونیشیا، سنگاپور، جنوبی کوریا، ویتنام وغیرہ سرفہرست ہیں۔

    عدنان حمید کے مطابق پنجاب میں وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ اتنا با اثر نہیں چنانچہ اکثر پنجاب خاص طور پر تونسہ سے کچھؤے بآسانی پورے ملک میں اور بیرون ملک اسمگل ہوتے ہیں۔

    قوانین کیا ہیں؟

    پاکستان میں 1972 سے 1974 کے دوران ایکٹ برائے تحفظ جنگلی حیات سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نافذ کیے گئے جس کے تحت جنگلی حیات کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈیننس 1972 کے سیکشن (2) 12 کے مطابق کچھووں یا دیگر جنگلی جانوروں کی تجارت پر مکمل پابندی ہے۔ خلاف ورزی پر ایک یا دو سال کی سزا بمعہ جرمانہ ہے۔

    پاکستان نے خطرے میں مبتلا انواع کی بین الاقوامی تجارت کے کنونشن ’سائٹس‘ پر 1975 میں دستخط کیے تھے جس کے تحت ان کچھوؤں یا ان سے متعلق پیداواری اشیا کی تجارت اور برآمد پر پابندی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق اسمگلنگ کے دوران ضبط کی گئی جنگلی اور آبی حیات کو ان کے اپنے ہی علاقوں میں چھوڑنا لازمی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق غیر قانونی طور پر کچھوؤں کو رکھنے کا جرمانہ 80 ہزار روپے ہے۔ اگر 200 کچھوے پکڑے گئے تو ہر کچھوے کا الگ 80 ہزار ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔

    دوسری جانب اپریل 2015 میں سندھ ہائیکورٹ نے بھی جنگلی حیات اور کچھوؤں کی اسمگلنگ کے حوالے سے انتہائی اہم فیصلہ دیا اور واضح طور پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو ذمے دار ٹہرا کر کچھوؤں کی اسمگلنگ میں ملوث ملزمان کے خلاف قرار واقعی اقدامات کا حکم دیا۔

    سندھ ہائیکورٹ نے اس فیصلے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل 9 کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ صاف ستھرے ماحول میں زندگی گزارنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک مکمل ماحول انسان، جنگلات اور جنگلی حیات کے بقائے باہم سے وجود میں آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    فاضل بینچ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ کچھووں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کسٹم ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جائے۔ ان ملزمان کے خلاف چاہے وہ عام فرد ہوں یا سرکاری اہلکار و افسران، تحقیقات کر کے فوجداری مقدمات چلائے جائیں اور سائٹس معاہدے پر مکمل عملدر آمد کیا جائے۔

    اس سلسلے میں سندھ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے کچھوؤں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے پہلی بار کچھوؤں کے تحفظ کے قوانین برائے 2014 نہ صرف تیار کیے بلکہ انہیں صوبے میں نافذ کر کے دیگر صوبوں سے سبقت حاصل کرلی۔

    اگرچہ اب بھی پاکستان میں سائٹس معاہدے پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا تاہم اس پابندی سے خطرے سے دو چار انواع کی برآمد پر تھوڑا بہت اثر ضرور پڑا ہے اور ملک میں حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے مثبت تبدیلی رونما ہورہی ہے۔

    عدنان حمید نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وائلڈ لائف سے متعلق کیسوں کی سماعت میں جنگلی حیات کے فوائد، اس کی معدومی سے ہونے والے خطرات، اور اس کے متعلق قوانین کے بارے میں ججوں کو سمجھانا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے جج سرمد عثمان جلالی خود بھی شکاری تھے اور جنگلی حیات کے اہمیت کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں چنانچہ وہ مؤثر فیصلے دیا کرتے تھے۔

    عدنان حمید کے مطابق سخت قوانین کے باعث اب کسٹم حکام نے بھی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے جنگلی حیات کی اسمگلنگ کے واقعات کی اطلاع دینی شروع کی ہے تاہم اب بھی کسٹم حکام اس کام میں ملوث ہیں۔

    اسمگلنگ کے علاوہ مزید کیا خطرات درپیش ہیں؟

    اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی 1200 کلو میٹر ہے جس میں سے بمشکل 50 سے 60 کلومیٹر کچھوؤں کی افزائش کے لیے موزوں ہے۔ یعنی ایک صوبے کی 300 کلو میٹر ساحلی پٹی میں سے صرف 15 سے 16 کلومیٹر میں کچھوے افزائش نسل کر سکتے ہیں۔

    مگر اب ساحل پر ہونے والی تعمیرات کے باعث کچھوے اس سے بھی محروم ہو رہے ہیں۔ عدنان حمید کے مطابق ہاکس بے پر ایک ہٹ بننے سے 200 مادہ کچھوے انڈے دینے سے محروم ہوجاتی ہیں۔ تیزی سے ہوتی تعمیرات کے باعث کچھوؤں کی افزائش کی جگہ یعنی نیسٹنگ سائٹس کم ہو رہی ہیں۔ مناسب نیسٹنگ سائٹس نہ ہونے کی وجہ سے مادہ کچھوے غیر محفوط جگہوں پر انڈے دیتی ہیں جہاں وہ عموماً کتے بلیوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ بعض دفعہ انسان بھی اس عمل میں خلل پیدا کردیتے ہیں۔

    عدنان حمید نے بتایا کہ جولائی سے دسمبر کچھوؤں کے انڈوں دینے اور ان انڈوں سے بچے نکلنے کا موسم ہے۔ کلائمٹ چینج کی وجہ سے مون سون کے سیزن میں تبدیلی آئی ہے تو کچھووں کے نیسٹنگ سیزن میں بھی تبدیلی آئی۔

    بعض اوقات سمندر میں موجود کچھوے کشتیوں سے بھی ٹکرا جاتے ہیں جس کے باعث وہ مر جاتے ہیں۔ کچھوے سمندر میں بچھائے جال میں بھی پھنس جاتے ہیں۔ یہ کچھوے جب سطح سمندر پر آتے ہیں تو بعض دفعہ مچھیرے انہیں جال سے چھڑا کر واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ بعض دفعہ یہ گاؤں والوں کی تفریح کا باعث بن جاتے ہیں اور یوں سمندر میں جانے سے قبل مر جاتے ہیں۔

    اس بارے میں عدنان حمید نے بتایا کہ سمندر میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بڑے بڑے جال بچھا دیے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو سطح سمندر پر کچھ دیر بعد آ کر سانس لینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جال کی وجہ سے وہ اوپر نہیں آ پاتے اور یوں زیر آب موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    بچاؤ کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟

    سندھ کا محکمہ جنگلی حیات 1979 سے جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں ڈبلیو ڈبلیو ایف اور آئی یو سی این کے ساتھ مل کر کچھوؤں کے تحفظ کے لیے مختلف پروجیکٹس پر کام کرہا ہے۔ ان پروجیکٹس کے تحت اب تک 4 لاکھ کچھوؤں کے بچوں کو سمندر میں چھوڑا جاچکا ہے۔ ایک اور پروجیکٹ کے تحت کچھوؤں کے انڈوں کو لیبارٹری میں لے جایا جاتا ہے اور وہاں بحفاظت ان کی سکائی کی جاتی ہے۔

    عدنان حمید کے مطابق 2014 سے اب تک 700 سے 800 زندہ کچھوؤں کو اسمگل ہونے سے روکا جا چکا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف اس ضمن میں ماہی گیروں اور مچھیروں کو تربیت اور کچھوؤں، ڈولفن اور دیگر سمندری حیات کی اہمیت کے بارے میں آگاہی دے رہی ہے تاکہ ان کے جال میں پھنسنے کی صورت میں وہ ان جانداروں کو آزاد کردیں۔

    عدنان حمید کے مطابق قانون پر عملدرآمد اور میڈیا کی بدولت آگہی کے سبب کچھوؤں کے لیے اب صورتحال خاصی بہتر ہے تاہم ان کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

  • ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گوبل وارمنگ جہاں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں وہیں جنگلی حیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلی حیات کی کئی نسلوں کو ان عوامل کے باعث معدومی کا خدشہ ہے، تاہم امریکا میں ایک معدومی کے خطرے کا شکار لومڑی خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔

    اس بات کا اعلان امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے کیا۔ حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی اس قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    حکام کے مطابق یہ بحالی امریکا کے ’خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت کے ایکٹ‘ کی 43 سالہ تاریخ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنی تیزی سے کوئی اور ممالیہ جانور خود کو خطرے کی زد سے باہر نہیں نکال پایا۔

    واضح رہے یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے کہ ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

  • چڑیا گھر سے فرار سرخ پانڈا کی واپسی

    چڑیا گھر سے فرار سرخ پانڈا کی واپسی

    بیجنگ: چین میں ایک سرخ پانڈا چڑیا گھر سے بھاگنے کے 8 ماہ بعد واپس لوٹ آیا۔ یہ پانڈا گزشتہ برس سردیوں میں برفباری کے دنوں میں چڑیا گھر سے بھاگا تھا۔

    سرخ پانڈا، پانڈا کی ایک نایاب نسل ہے جو مغربی چین کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق اس جاندار کو اپنی پناہ گاہوں یا رہائشی مقامات میں کمی کے باعث بقا کا خطرہ لاحق ہے۔ دنیا بھر میں اس پانڈا کی تعداد صرف 10 ہزار ہے۔

    چین میں چڑیا گھر سے فرار ہونے والے پانڈا کی تعداد 3 تھی۔ گذشتہ برس برف باری کے دوران برف کے بوجھ سے ان کے پنجرے ٹوٹ گئے تھے جس کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور چڑیا گھر سے بھاگ نکلے۔

    بھاگنے والے 2 پانڈا کچھ عرصہ بعد واپس آگئے تاہم تیسرا پانڈا لمبی ’تعطیلات‘ کے لیے نکل گیا لیکن بالآخر 8 ماہ بعد واپس لوٹ آیا۔

    red-panda-2

    چڑیا گھر کی انتظامیہ نے اس پانڈا کو چڑیا گھر کے قریب ایک درخت پر دیکھا جس کے بعد انہوں نے اسے وہاں سے نکالنے کے لیے بے ہوش کرنے والی گن کا استعمال کیا اور درخت کے نیچے جال لگادیے۔

    بعد ازاں پانڈا کو اس کے پنجرے میں منتقل کردیا گیا اور اس کی دیکھ بھال شروع ہوگئی۔

    red-panda-3

    واضح رہے کہ سرخ پانڈا کو پناہ گاہوں کی کمی کے علاوہ شکار کے باعث بھی بقا کا خطرہ ہے۔ اسے سرخ بھالو بلی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی خوراک میں بانس کے علاوہ انڈے، پرندے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    واشنگٹن: ایک نئی تحقیق کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ سے برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن شدید متاثر ہوگا۔

    امریکی ریاست ڈیلاویئر کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹارکٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    penguins-2

    انٹارکٹیکا کا مغربی حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے پگھل رہا ہے اور اس کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب انٹارکٹیکا کے دیگر حصوں میں گلوبل وارمنگ کا اثر اتنا زیادہ واضح نہیں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ انٹارکٹیکا کے وہ پانی جو گرم ہو رہے ہیں وہاں سے پینگوئنز کی آبادی ختم ہو رہی ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ اس کی بہ نسبت وہ جگہیں جہاں انٹارکٹیکا کا درجہ حرارت معمول کے مطابق ٹھنڈا ہے وہاں پینگوئنز کی آبادی مستحکم ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

    penguins-3

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

    penguins-4

    واضح رہے کہ اس سے قبل ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل کی معدومی کی بھی تصدیق کی جاچکی ہے۔

  • بطخ نے چیتے سے کیسے جان بچائی؟

    بطخ نے چیتے سے کیسے جان بچائی؟

    اگر آپ دریا میں تیراکی کر رہے ہوں اور وہاں چیتا آجائے تو آپ کیا کریں گے؟

    اگر وہ چیتا دریا سے پانی پی کر چلا گیا، جو کہ ایک ناممکن بات ہے، تب تو ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ کو دیکھ کر اسے شکار کرنے کا خیال آجائے اور وہ آپ کے پیچھے دریا میں کود پڑے، جو 100 فیصد ممکن ہے، تب صورتحال بہت ہی خوفناک ہوجائے گی۔

    لیکن ایک بطخ ایسی صورتحال میں کیا کرتی ہے؟

    duck-7

    شاید آپ سوچیں کہ ایک معمولی سی بطخ چیتے کے لیے بہت آسان ہدف ہے۔ اپنی تیز رفتاری کے باعث مشہور چیتا ایک چھلانگ لگا کر بطخ کو پکڑ سکتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔

    بطخ کے پاؤں میں انگلیوں کے درمیان موجود جھلی اسے تیرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے پاؤں میں کوئی شریان یا رگ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کے پاؤں کسی بھی چیز کو محسوس کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ یوں بطخ برفیلے یا تیز گرم پانی میں بھی باآسانی تیر سکتی ہے۔

    duck-2

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بطخ کے پر واٹر پروف ہوتے ہیں۔ اس کی دم میں ایک ’پرین‘ نامی غدود پایا جاتا ہے جو دوران تیراکی اس کے جسم میں چکنائی کا اخراج کرتا ہے۔ یہ چکنائی بطخ کے پروں کو بھیگنے سے محفوط رکھتی ہے اور وہ سارا دن تیر کر بھی خشک رہتے ہیں۔

    duck-3

    بطخ پانی میں بھی کافی دیر رہ سکتی ہے اور یہ ہی وہ سبب ہے جس نے اسے اپنے پیچھے پڑے دو چیتوں سے بچایا۔ (ویڈیو دیکھنے کے لیے نیچے جائیں)۔

    چیتوں نے جب بطخ کو شکار کرنے کا سوچ کر پانی میں چھلانگ لگائی تو بطخیں چیتوں کو چکمہ دے کر پانی کے اندر اس طرح غائب ہوگئیں کہ حیران پریشان چیتا انہیں ڈھونڈتا رہ گیا۔

  • چیتوں کا عالمی دن: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    چیتوں کا عالمی دن: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    جنیوا: سوئٹزرلینڈ میں چیتوں کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والی تقریب میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے ایشیائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ چیتوں کے فارمز کو بند کروائیں جو چیتوں کی بقا کے لیے سخت خطرہ ہیں۔

    چیتوں کی تعداد دنیا بھر میں کم ہو رہی ہے اور ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ان کی نسل بہت جلد معدوم ہوجائے گی۔

    t4

    جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے 100 سالوں میں چیتوں کی آبادی میں 97 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔ اس سے قبل دنیا بھر میں تقریباً 1 لاکھ کے قریب چیتے موجود تھے جو اب گھٹ کر 4 ہزار سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ چیتوں کی کئی اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں۔

    ایشیائی ممالک میں چیتوں کے فارمز موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔

    لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ یاد رہے کہ چیتوں کے جسمانی اعضا دوائیں بنانے میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    t3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ ان فارمز کی بندش دنیا بھر میں چیتوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بار آور کرے گی۔

    کچھ عرصہ قبل تھائی لینڈ میں ایک خانقاہ سے چیتے کے 40 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ یہ بچے جمی ہوئی حالت میں تھے اور حکام کے مطابق خانقاہ کی انتطامیہ انہیں غیر قانونی طور پر اسمگل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

    بظاہر اس خانقاہ میں چیتوں کے تحفظ کی غرض سے انہیں رکھا جاتا تھا اور اسی وجہ سے یہ ایک سیاحتی مقام تھا۔

    t6

    اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا، ’اس قسم کے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ناک کے نیچے درحقیقت چیتوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے‘۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    t2

    واضح رہے کہ اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    فطرت کے تحفظ کا عالمی دن: آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔ زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جسے اگر ہزاروں سال بھی زمین میں دفن رکھا جائے تب بھی یہ کبھی زمین کا حصہ نہیں بنتی۔ یہ ہمیشہ جوں کی توں حالت میں رہتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔

  • دنیا کا ’تنہا اور اداس ترین‘ بھالو

    دنیا کا ’تنہا اور اداس ترین‘ بھالو

    چین کے ایک شاپنگ مال میں ایک برفانی ریچھ کو رکھا گیا ہے جسے دنیا کے ’تنہا اور اداس ترین‘ جانور کا نام دیا گیا ہے۔

    یہ ریچھ جس کا نام ’پزا‘ ہے چین کے مشرقی صوبے گونگ ژو کے ایک شاپنگ مال میں رکھا گیا ہے۔ جس جگہ اسے رکھا گیا ہے اسے گرینڈ ویو ایکوریم کا نام دیا گیا ہے اور اس جگہ کا رقبہ 40 اسکوائر میٹر ہے۔ پزا اس شیشے کے بنے ایکوریم میں اکیلا رہتا ہے اور اس کا زیادہ تر وقت اداسی سے چہل قدمی کرتے ہوئے گزرتا ہے۔

    bear-7

    ایکوریم کی انتظامیہ کے مطابق اس بھالو کی پیدائش مصنوعی طریقہ سے عمل میں لائی گئی ہے۔ اسے جس جگہ رکھا جاتا ہے وہاں کا درجہ حرارت 18 ڈگری سیلسیئس رکھا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: انسانوں کی صحبت میں خوش رہنے والا بھالو

    یہاں آنے والے افراد شوق سے پزا کو دیکھتے اور اس کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں۔

    تاہم جنگلی حیات کے ماہرین پزا کے رہائشی مقام پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایک ایسی جگہ پر جو نسبتاً گرم ہے ایک برفانی ریچھ کو رکھنا درست ہے یا نہیں۔

    bear-6

    ایکوریم کا دورہ کرنے والے افراد بھی انہی خیالات کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک شخص کے مطابق پزا کے لیے یہ جگہ نہایت چھوٹی ہے۔ وہ پریشان اور اداس نظر آتا ہے اور یہاں سے آزادی چاہتا ہے۔

    اس بارے میں ایکوریم انتظامیہ کا کہنا ہے کہ چونکہ پزا مصنوعی طریقہ سے پیدا ہوا ہے، اور اس نے کبھی کسی حقیقی برفانی جگہ کا دورہ نہیں کیا، لہٰذا اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ حقیقی برفانی مقام پر ہے یا مصنوعی۔

    bear-5

    ان کے مطابق پزا کا ہر ماہ باقاعدگی سے طبی معائنہ کیا جاتا ہے اور اس کی خوراک پر سالانہ 1 لاکھ 20 ہزار یان (چینی کرنسی) خرچ کیے جاتے ہیں۔

    تاہم ماہرین نے اس توجیہہ کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ورلڈ اینیمل پروٹیکشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق بے شک اسے مصنوعی طریقہ سے اس دنیا میں لایا گیا لیکن اسے اس کے فطری ماحول اور ہم نسل جانداروں کے ساتھ ہی رکھا جانا چاہیئے۔

    bear-4

    ان کے مطابق ایک پرسکون جگہ پر رہنے والے جانور کو اس طرح لوگوں کے ہجوم میں رکھنا اس کی صحت و نفسیات پر منفی اثر ڈالے گا اور اس کی طبعی عمر کو کم کردے گا۔

    ہانگ کانگ کے ایک فلاحی ادارے، اینیملز ایشیا نے اس سلسلے میں ایک دستخطی مہم کا آغاز کیا ہے تاکہ انتظامیہ پر اس ایکوریم کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ اب تک 5 لاکھ لوگ اس پر دستخط کر چکے ہیں۔

    bear-3

    مہم کے سربراہ ڈیو نیل نے اس سلسلے میں لوگوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اس بھالو کو دیکھنے نہ جائیں تاکہ انتظامیہ اسے آزاد کرنے پر مجبور ہوجائے۔ ان کے مطابق برفانی بھالو کو قیدی بنا کر رکھنا سب سے مشکل کام ہے۔

    ایکوریم کی انتظامیہ اس تمام مخالفت سے بے نیاز پزا کے لیے ایک آؤٹ ڈور جگہ بنانے کا ارادہ کر رہی ہے جبکہ وہ مستقبل قریب میں پزا کو ایک ساتھی مہیا کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔

    bear-2

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس بھالو کو یہاں رکھنے کے لیے انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں اور تمام مطلوبہ پرمٹس حاصل کرلیے ہیں۔

    دوسری جانب اس تمام جھگڑے سے بے پرواہ پزا اپنا زیادہ تر وقت لیٹ کر یا لوگوں کو اداس نگاہوں سے دیکھ کر گزارتا ہے۔

  • گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

    حال ہی میں ماہرین کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک پیشن گوئی میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور اس کے باعث غذائی معمولات میں تبدیلی جانوروں کو ان کے آبائی مسکن چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہے اور وہ ہجرت کر رہے ہیں۔

    birds

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ جاندار دوسری جگہوں پر ہجرت کریں گے تو یہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس میں کچھ جاندار کامیاب رہیں گے، کچھ ناکام ہوجائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کی نسل معدوم ہونے لگے گی۔

    انہوں نے واضح کیا کہ اگر درجہ حرارت میں اضافے کا رجحان ایسے ہی جاری رہا تو 2050 تک دنیا سے ایک چوتھائی جنگلی حیات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    wildlife-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث جہاں دنیا کو قدرتی آفات میں اضافے کا خطرہ لاحق ہے وہیں جانور بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    اس سے قبل کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث 1999 میں سینٹرل امریکا کا آخری سنہری مینڈک بھی مرچکا ہے جسے کلائمٹ چینج کے باعث پہلی معدومیت قرار دی گئی ہے۔

    polar-bear

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث قطب شمالی کی برف بھی پگھل رہی ہے جس سے برفانی ریچھوں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔

    درجہ حرارت میں اضافے کے باعث کئی امریکی ریاستوں میں پائے جانے والے پرندے وہاں سے ہجرت کرچکے ہیں۔ یہ وہ پرندے تھے جو ان ریاستوں کی پہچان تھے مگر اب وہ یہاں نہیں ہیں۔