اوہائیو: کرونا وائرس اب انسانوں سے جانوروں میں بھی منتقل ہونے لگا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر میں کووِڈ 19 کی اب وبا جنگلی حیوانات میں بھی پھیلنا شروع ہو گئی ہے، انسان سے حیوانات میں پھیلنے والی یہ وبا خاص طور پر ہِرنوں میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہرنوں میں کرونا وائرس کا پھیلنا انسانوں کے لیے پریشانی کا سبب بن سکتا ہے، امریکا میں کی گئی تحقیق کے مطابق کم از کم 6 کیسز میں انسانوں سے ہرنوں میں کووِڈ 19 کی منتقلی کی تصدیق ہوئی ہے۔
اس سلسلے میں اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے شمال مشرقی اوہائیو کے 9 مختلف علاقوں میں 360 جنگلی سفید دم والے ہرنوں کی ناک سے نمونے لیے تھے، 6 مقامات پر 35 فی صد سے زیادہ ہرنوں میں وائرس کی کم از کم تین مختلف قسموں کا جینیاتی مواد پایا گیا۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ہرنوں سے انسانوں کو وائرس کی منتقلی کا فی الوقت کوئی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن ایسا ہونا ناممکن بھی نہیں ہے۔
اگرچہ کرونا وائرس کے ہرن سے انسانوں میں پھیلنے کے کوئی کیسز رپورٹ نہیں ہوئے ہیں، تاہم محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگر جانور وائرس کا ذریعہ بن جاتے ہیں تو ہرن میں وائرس کی گردش ممکنہ طور پر انسانوں کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
پینسلوانیا یونیورسٹی سے ماہرِ سمیات سریش کُچیپودی نے کہا ہے کہ وائرس کا جنگلی حیوانات میں موجود ہونا اور انسانوں کا اس سے بے خبر ہونا پریشان کن بات ہے، ایسے حالات میں ہم اچانک کسی نئے وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل اوہائیو اور پینسلوانیا یونیورسٹیز کی تحقیقات نے ثابت کیا تھا کہ کووِڈ 19 وائرس انسانوں سے حیوانات کو منتقل ہو سکتا ہے۔
آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔
اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، زمین کے ایک کرے پر سال کے سب سے طویل دن اور دوسرے کرے پر طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔
زرافے کو جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانوروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔
آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 68 ہزار رہ گئی ہے۔ گزشتہ برس صرف نائجیریا میں 600 زرافے ہلاک ہوئے۔
کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔
رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔
علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔
جانوروں سے محبت ہونے کے باوجود پاکستانی چڑیا گھروں کی سیر کرنا مجھے ہرگز پسند نہیں جس کی وجہ وہاں رکھے گئے جانوروں کی حالت زار ہے، لیکن بیرون ملک سفر کے دوران میری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ جس شہر میں بھی جاؤں وہاں کے چڑیا گھر ضرور جاؤں اور وہاں کے مقامی جانور اور انہیں چڑیا گھر میں رکھے جانے کا انداز دیکھوں۔
سنہ 2019 میں ایک فیلو شپ کے سلسلے میں امریکا جانا ہوا تو میں نے پہلے ہی گوگل پر سرچ کرلیا کہ جن شہروں میں ہم جائیں گے وہاں کے چڑیا گھروں میں کون کون سے جانور موجود ہیں۔ ایک چڑیا گھر میں دنیا کے نایاب ترین جاندار پینگوئن کی موجودگی نے مجھے پرجوش کردیا اور میں نے طے کرلیا کہ زندگی کبھی کسی برفانی خطے میں جا کر پینگوئن سے ملاقات کا موقع تو شاید نہ دے، لہٰذا امریکا کے چڑیا گھر میں ہی اسے دیکھ لیا جائے۔
سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک
پاکستانی صحافیوں کے لیے منعقدہ اس فیلو شپ میں مجھ سمیت ملک بھر سے تقریباً 10 صحافیوں کو منتخب کیا گیا تھا۔ ہمارے دورے میں واشنگٹن ڈی سی سمیت امریکا کے 3 شہر شامل تھے۔ نومبر کی ایک صبح جب ہم ریاست میزوری کے شہر سینٹ لوئیس میں اترے تو درجہ حرارت منفی 1 تک گر چکا تھا۔ اس سے قبل ہم ریاست اوکلوہاما میں تھے جہاں درمیان کے تین دن موسلا دھار بارش رہی اور شروع اور آخر کے 2 دن میں تیز دھوپ نے ہمیں جھلسا دیا تھا۔
اس کے بعد سینٹ لوئیس کا منفی ڈگری سینٹی گریڈ ہم سب کو ٹھٹھرا دینے کے لیے کافی تھا۔ سردی اس قدر شدید تھی کہ پنجاب اور بالائی علاقوں کی سخت سردیوں کے عادی صحافی دوست بھی ٹھٹھر رہے تھے، ہم کراچی والوں کا تو حال ہی برا تھا جنہیں سردیاں کم ہی نصیب ہوتی تھیں۔
ایک روز جب ہمارے طے شدہ پروگرام میں سینٹ لوئیس کے تاریخی گیٹ وے آرچ اور بوٹینکل گارڈن کی سیر شامل تھی، منتظمین نے ہماری ٹھٹھرتی حالت پر ترس کھاتے ہوئے گارڈن کا دورہ منسوخ کردیا اور ہمیں واپس ہوٹل جا کر آرام کرنے کا مشورہ دیا۔
سینٹ لوئیس کا تاریخی گیٹ وے آرچ
آرام کس کافر کو کرنا تھا۔ ہوٹل کے قریب ایک ریستوران میں لنچ کرتے ہوئے سب نے پروگرام بنایا کہ وقت مل گیا ہے تو وال مارٹ جا کر تحفے تحائف کی ادھوری شاپنگ مکمل کی جائے۔ میں نے صاف انکار کردیا کہ ایسے موسم میں مجھے ہوٹل کا گرم کمرا اور بستر زیادہ پرکشش لگ رہا ہے۔ اس دوران سینٹ لوئیس زو ذہن میں تھا۔
میں نے دبے لفظوں میں کہا کہ کیوں نا چڑیا گھر چلا جائے لیکن شاپنگ کی زور و شور سے ہونے والی بحث میں میری آواز دب گئی چانچہ میں کان لپیٹ کر کھانے میں مصروف ہوگئی۔ تاحال میرا ارادہ اکیلے کہیں نہ جانے اور ہوٹل واپس جا کر سونے کا ہی تھا۔
ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر سردی سے جما ہوا دماغ کچھ بحال ہوا تو چڑیا گھر کی ویب سائٹ اور تصاویر کھول کر دیکھیں۔ تصاویر دیکھ کر یاد آگیا کہ مجھے پینگوئن دیکھنا تھا۔ استقبالیہ پر کال کر کے راستے کی معلومات لینی چاہیں تو ریسیپشن پر بیٹھی خاتون نے جاں فزا خبر سنائی کہ ہوٹل کی مفت شٹل سروس مجھے چڑیا گھر تک چھوڑ اور واپس لے سکتی ہے۔
بس پھر کیا تھا، میں نے سونے کا ارادہ واپس کراچی جانے تک مؤخر کیا، موٹی جیکٹ چڑھائی، اپنے پاس موجود تمام ڈالرز بیگ میں ڈالے کہ کہیں پینگوئن پر لگے مہنگے ٹکٹ کی وجہ سے مجھے نامراد نہ لوٹنا پڑے اور نیچے آگئی۔
شٹل کے لمبے چوڑے سیاہ فام ڈرائیور نے بتایا کہ مجھ سے پہلے اسے ایک گروپ نے وال مارٹ کے لیے بک کرلیا ہے، وہ مجھے چڑیا گھر چھوڑ تو آئے گا لیکن واپسی میں پہلے اس گروپ کو ہوٹل پہنچائے گا اور پھر مجھے لینے آئے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ میرے ہی دوست ہیں اور انہیں ہرگز اعتراض نہ ہوگا اگر وہ انہیں وال مارٹ سے لینے کے بعد چڑیا گھر پہنچے اور پھر مجھے وہاں سے لے کر سب کو ایک ساتھ ہوٹل پر اتارے، وہ مان گیا۔
کم آن لیڈی کہہ کر وہ وین میں بیٹھ گیا اور میں بھی اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی، اگلے دو منٹ کے اندر جب گاڑی ہوٹل چھوڑ کر خزاں رسیدہ درختوں سے بھرے نہایت سنسان راستوں سے گزرنے لگی تو مجھے ایک لمحے کو خوف بھی محسوس ہوا۔ راستہ نہایت خوبصورت تھا، دو رویہ درختوں سے ڈھکا ہوا، خزاں نے ان درختوں کو بے رنگ کر کے گویا عجب خوبصورتی عطا کردی تھی۔ 10 منٹ طویل راستہ اختتام پذیر ہوا اور چڑیا گھر کے سائن بورڈز نظر آئے تو میں خوش ہوگئی۔
نیک طنیت شٹل ڈرائیور نے چڑیا گھر کے مرکزی دروازے پر چھوڑا اور مسکراتے ہوئے ’انجوائے یور وزٹ‘ کہہ کر ہاتھ ہلا کر واپس چلا گیا۔
چڑیا گھر کے استقبالیہ پر مجھے زو کا نقشہ تھمایا گیا اور بتایا گیا کہ زو 4 بجے بند ہوجائے گا یعنی میرے پاس صرف 1 گھنٹہ تھا۔ انٹری اور پورے چڑیا گھر کی سیر بالکل مفت تھی۔ مجھے کراچی کے تفریحی مقامات یاد آئے جہاں داخلے کی فیس الگ لی جاتی ہے جبکہ اندر موجود تفریحی سہولیات پر الگ ٹکٹ ہیں۔ تقشہ تھام کر چڑیا گھر کے اندر چلنا شروع کیا۔
چڑیا گھر کی گزرگاہیں دیکھ کر اردو شاعروں کی حزنیہ شاعری یاد آگئی جنہیں خزاں میں درختوں کے گرتے پتے اور سنسان راستے دیکھ کر محبوب کی یاد آجاتی تھی۔
سینٹ لوئیس زو جس کا مکمل نام سینٹ لوئیس زولوجیکل پارک ہے سنہ 1910 میں قائم کیا گیا۔ اس کے پہلے ڈائریکٹر جارج ولہرل تھے جو کہا کرتے تھے، ایک زندہ دل شہر کو 2 چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اچھا چڑیا گھر، اور ایک اچھی بیس بال ٹیم۔
سینٹ لوئیس کے چڑیا گھر میں موجود کئی جانوروں کو عالمی شہرت حاصل ہے۔ جیسے فل نامی گوریلا کو لائف میگزین کے سرورق پر جگہ ملی۔ چڑیا گھر کا پہلا ہاتھی سنہ 1992 میں پیدا ہوا جس کے والدین ایشیائی تھے اور اس کا نام راجہ رکھا گیا۔
اس چڑیا گھر کا شمار اینیمل مینجمنٹ، ریسرچ اور تحفظ جنگلی حیات کے اقدامات کے حوالے سے دنیا کے اہم اداروں میں کیا جاتا ہے اور یہاں موجود جانوروں، پرندوں اور حشرات الارض کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو دنیا کے مختلف خطوں سے لائی اور نہایت حفاظت و خیال سے رکھی گئی ہیں۔
میں نے جب اس چڑیا گھر کی سیر کی تب سخت سردی تھی اور زو کے بند ہونے کا ٹائم قریب تھا لہٰذا وہاں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ میرا اصل مقصد پینگوئن دیکھنا تھا چنانچہ میں راستے میں مختلف جانوروں کو سرسری نظر سے دیکھتی ہوئی گزری۔
تمام جانداروں کے انکلوژز بڑے اور کھلے ہوئے تھے اور شیشے کی دیواروں سے ان کی حد بندی کی گئی تھی۔ گو کہ یہ کھلے انکلوژر بھی ان جانوروں اور پرندوں کے لیے ناکافی تھے کہ وہ جنگلوں اور فضاؤں کی وسعتوں کے لیے پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی حالت پاکستانی چڑیا گھروں سے خاصی مختلف اور بہتر تھی۔
مختلف راستوں سے گزر کر میں اس انکلوژر میں پہنچی جہاں پینگوئن موجود تھے۔ یہاں ان کی مختلف اقسام موجود تھیں، ان کے لیے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جس کے سرد پانی میں ڈبکیاں لگاتے پینگوئن نہال تھے۔
دنیا بھر میں پینگوئن کی 18 اقسام پائی جاتی ہیں جو زمین کے سرد ترین علاقوں میں رہتی ہیں۔ سنہ 1959 میں 12 ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت برفانی خطوں میں موجود جانداروں کو محفوظ رکھنے کے لیے انہیں نقصان پہنچانے یا کسی بھی طرح ان کے قریب جانے کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے۔
معاہدے کے تحت پینگوئن کے شکار یا اس کے انڈے جمع کرنے پر بھی پابندی عائد ہے، یہی وجہ ہے کہ زمین کا نایاب ترین جانور ہونے کے باوجود اسے معدومی کا کوئی خطرہ نہیں اور اس کی نسل مستحکم ہے۔
اچھلتے کودتے پینگوئنز کی تصاویر اور ان کے ساتھ سیلفیاں بنا کر میں واپس ہوئی تو نقشے میں ایک جگہ جانے پہچانے زرافے دکھائی دیے۔ اپنے صحافتی سفر میں وائلڈ لائف کو کور کرتے کرتے ان جانوروں سے بھی واقفیت ہوگئی تھی جن کا پاکستان میں نام و نشان بھی نہ تھا اور سوچتی تھی کہ کیا کبھی ان جانوروں کو دیکھنے، انہیں چھونے اور پیار کرنے کا موقع ملے گا؟ اب زرافے کا پتہ چلا تو دل دھڑک اٹھا کہ یہاں تک آ ہی گئے تو یہ خواہش بھی پوری کرلی جائے۔
گھڑی دیکھی تو وقت کم تھا اور راستہ طویل۔ لیکن سوچا کہ زرافہ نہ دیکھنے کے پچھتاوے سے بہتر ہے ایک رات کے لیے چڑیا گھر میں بند ہوجانا۔ سو باہر نکل کر زرافے کے انکلوژر کی جانب چلنے لگی۔
اونچے نیچے بل کھاتے راستے، دونوں طرف سرخ اور زرد پتوں سے لدے درخت، زمین پر گرے زرد پتے اور انسان کا نام و نشان نہیں۔ یہ وہ راستے تھے جن پر کھو جانے کی آرزو کی جاتی ہے۔ صرف راستے ہی نہیں جانوروں کے لیے مخصوص کردہ احاطے بھی خالی تھے جس کی وجہ بعد میں پتہ چلی۔
میں چونکہ راستوں اور سمتوں کے معاملے میں خاصی بھلکڑ واقع ہوئی ہوں سو رک رک کر ایک ایک موڑ کی نشانی ذہن نشین کرتی ہوئی آگے بڑھتی گئی۔ جب دائیں یا بائیں مڑنا ہوتا تو پلٹ کر دیکھتی اور سوچتی کہ واپسی کے وقت دایاں بائیں میں تبدیل ہوچکا ہوگا، راستہ بتانے والا آس پاس کوئی نہیں ہے لہٰذا خود ہی یاد رکھ کر واپس آنا ہوگا۔
خاصا فاصلہ طے کرنے کے بعد جب اس جگہ پہنچی جہاں زرافوں کا سائن بورڈ لگا تھا تو لکڑی کی باڑھ سے ارد گرد سبز قطعہ، جہاں زرافوں کو ہونا چاہیئے تھا، خالی تھا۔ آس پاس کچھ اجنبی قسم کے بندر اپنے محدود کردہ حصے میں اچھلتے دکھائی دیے لیکن زرافہ غائب تھا۔ میں مایوس ہو کر پلٹنے کو تھی کہ اندر سبز قطعے کے ساتھ موجود بند جگہ سے ایک شخص باہر آتا دکھائی دیا۔
میں نے اس سے زرافوں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ ویسے تو چڑیا گھر کے بند ہونے کا وقت 4 بجے ہے جس کے بعد جانوروں کو کھلے حصے سے اندر بند جگہ لے جایا جاتا ہے، لیکن آج چونکہ سردی بہت زیادہ ہے لہٰذا مقررہ وقت سے پہلے ہی جانوروں کو اندر بند کیا جاچکا ہے۔ میرے چہرے پر مایوسی دیکھ کر اس نے کہا کہ چونکہ میں ٹورسٹ لگتی ہوں تو وہ خصوصی طور پر مجھے اندر لے جا کر زرافے دکھا سکتا ہے۔
میں اس کے پیچھے ایک تاریک کمرے کی طرف چل پڑی۔ اندر ہیٹر کے درجہ حرارت سے گرم ایک طویل کمرہ تھا جس کے دونوں طرف پنجرے تھے جن کی سلاخیں چھت تک جارہی تھیں۔ ان پنجروں میں زرافے، شتر مرغ، ایک قسم کا ہرن اور دیگر کئی جانور تھے۔
بقیہ جانور تو آرام سے ان پنجروں میں بند تھے لیکن زرافوں کی طویل گردنیں چھت سے ٹکرا رہی تھی۔ وہ بیچارے اپنی گردن جھکاتے تو وہ سلاخوں سے لگتیں۔ غرض وہ نہایت غیر آرام دہ حالت میں پنجرے میں موجود تھے اور ان کو دیکھ کر میری خوشی ماند پڑ گئی۔ قریب سے دیکھنے پر ان کے چہرے کا نرم فر نہایت بھلا محسوس ہوا۔
زرافہ جسے افریقی ممالیہ کہا جاتا ہے، زمین پر پایا جانے والا طویل ترین جانور ہے۔ 21 جون کو جب زمین کے ایک حصے پر سال کا طویل ترین دن، اور دوسرے حصے پر سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے، اس طویل القامت جانور کا دن بھی منایا جاتا ہے۔
زرافے کو عالمی اداروں نے معدومی کے خطرے سے دو چار جانداروں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ افریقہ میں ہونے والی خانہ جنگیاں اور ان کے باعث جنگلات کا اجڑ جانا شامل ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موجود زرافوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے اور ماہرین تحفظ جنگلی حیات اس کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں۔
سینٹ لوئیس زو میں انکلوژر کے نگران نے زرافوں کے ساتھ خوشدلی سے میری تصاویر کھینچیں۔ تمام جانوروں کو دیکھتے ہوئے میں باہر نکل آئی اور اس بھلے آدمی کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ واپسی میں درختوں سے گھرے وہی سنسان راستے اور سناٹا تھا۔ ہیلووین کی مناسبت سے زو میں جگہ جگہ جنوں بھوتوں کی ڈیکوریشن کی گئی تھی اور چمکتا ہوا دن اب جب آہستہ آہستہ اندھیرے میں ڈھل رہا تھا تو یہ ڈیکوریشنز خوفناک ثابت ہوسکتی تھیں۔
واپسی میں ایک تالاب میں پانی کی بلیوں (سیل) کو کھانا کھلایا جارہا تھا جہاں رکنا لازم تھا۔
اس کے بعد میں تقریباً بھاگتی ہوئی واپس مرکزی دروازے تک پہنچی۔ ڈرائیور میرے دوستوں کو وال مارٹ سے لے کر راستے میں تھا۔ سووینیئر شاپ سے میں نے یادگار کے طور پر چند منی ایچر جانور خریدے جنہیں آج تک کامیابی سے گھر کے بچوں سے چھپا رکھا ہے۔
تھوڑی دیر بعد واپسی کے لیے وین موجود تھی۔ میں وین میں داخل ہوئی تو خفا دوستوں نے پوچھا، اکیلے ہی پروگرام بنا لیا؟ میں نے جواب دیا کہ پوچھا تو تھا، تم سب نے دلچسپی ہی نہ دکھائی۔ ہوٹل واپس پہنچ کر ہم سب نے ڈرائیور کا ٹپ جار ایک اور دو ڈالرز کے نوٹوں اور سکوں سے بھردیا اور اس کا شکریہ ادا کر کے گاڑی سے اتر گئے۔ سیاہ فام ڈرائیور کی آنکھیں بھرا ہوا ٹپ جار دیکھ کر چمک رہی تھیں۔
لندن: ملکہ برطانیہ کے شوہر ڈیوک آف ایڈنبرا شہزادہ فلپ گزشتہ روز 99 برس کی عمر میں چل بسے، شہزادہ فلپ نے ساری عمر ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے دیوانہ وار کام کیا۔
گزشتہ روز شاہی خاندان کو سوگوار چھوڑ جانے والے شہزادہ فلپ فطرت سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور انہیں اس کی حفاظت کا جنون تھا۔
انہوں نے تحفظ ماحولیات اور جنگلی حیات کے لیے اس وقت بات کی جب کسی کا دھیان اس طرف نہیں تھا، شہزادے نے دنیا بھر کے دورے کیے جن کا مقصد دنیا کو وہاں ہونے والی ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی کٹائی اور شکار کی وجہ سے جانوروں کو لاحق خطرات کی طرف متوجہ کرنا تھا۔
شہزادے نے ہمیشہ دنیا بھر میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنسز میں شرکت کی اور اپنے خطاب میں تحفظ ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کی افریقہ میں ہاتھیوں کو کھانا کھلاتی، چین میں پانڈا کے ساتھ وقت گزارتی اور انٹارکٹیکا میں پانی کی بلی کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی تصاویر جنگلی حیات سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
سنہ 1961 میں جب ماحولیات کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) قائم کی گئی تو شہزادہ فلپ کو اس کا پہلا صدر بنایا گیا۔ اس تنظیم کے ساتھ انہوں نے دنیا بھر میں دورے کیے اور جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کیا۔
لیکن اسی سال ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا، شہزادہ فلپ نے ملکہ برطانیہ کے ساتھ نیپال کا دورہ کیا جہاں دونوں نے ہاتھیوں پر بیٹھ کر گینڈے اور شیر کے شکار میں حصہ لیا۔
اسی سال موسم گرما میں شاہی جوڑے نے بھارت کا دورہ بھی کیا جہاں شہزادہ فلپ نے ایک ٹائیگر کا شکار کیا، ٹائیگر کے مردہ جسم کے ساتھ فخریہ کھڑے ان کی تصویر نے دنیا بھر میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔
دنیا جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں ان کے قول و فعل کے تضاد پر چیخ اٹھی، لیکن اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس کی وضاحت یوں کی کہ ان کے خیال میں جانوروں کا شکار کرنا دراصل اس جانور کا وجود قائم رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ کسی جانور کا شکار کرتے ہیں تو آپ چاہتے ہیں کہ اگلے سال ان کی تعداد میں اضافہ ہو، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کسان اپنی فصل کو کاٹ ڈالے تاکہ وہ اگلے سال دوبارہ اگے، ہاں لیکن وہ اس فصل کو مکمل طور پر تباہ نہیں کرے گا جو کہ خود اس کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
ان کی یہ توجیہہ کسی حد تک اس لیے بھی قابل قبول خیال کی گئی کیونکہ اس وقت ٹائیگر آج کی طرح معدومی کے خطرے کا شکار نہیں تھا، اور اس کی تعداد مستحکم تھی۔
بعد ازاں برطانیہ میں لومڑی کے شکار پر پابندی کی بحث چلی تو شہزادے نے شکار کرنے والوں کا دفاع کیا، اس پر بھی تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد اور ادارے ان سے خاصے ناراض ہوئے۔
شہزادہ فلپ 1982 میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے، لیکن وہ ذاتی طور پر طویل عرصے تک ادارے کی کئی مہمات کا حصہ بنے رہے۔ وہ پانڈا کو بچانے کے لیے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مہم میں ایک سرگرم رکن کے طور پر کام کرتے رہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے سمندری آلودگی اور ضرورت سے زیادہ ماہی گیری کے خلاف مہمات کی بھی بھرپور حمایت کی اور مختلف مواقع پر اس پر بات کرتے نظر آئے۔
اپنے ایک انٹرویو میں آنجہانی شہزادے نے کہا تھا، ’یہ ایک بہت خوبصورت بات ہے کہ ہماری زمین پر مختلف نوع کی حیات موجود ہے اور سب ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر ہم انسانوں کے پاس دوسری حیات کو زندگی بخشنے یا ان کی جان لینے، انہیں معدوم کرنے یا انہیں بچا لینے کی طاقت ہے، تو ہمیں کوئی بھی کام کرنے سے قبل اخلاقی حس کو کام میں لانا چاہیئے‘۔
مڈغاسکر: مشرقی افریقا کے ملک میں سائنس دانوں نے دنیا کا سب سے چھوٹا گرگٹ دریافت کر لیا ہے جس کی لمبائی صرف 0.7 انچ ہے۔
تفصیلات کے مطابق افریقی ملک مڈغاسکر کے شمالی حصے کے جنگلات میں دنیا کا یہ سب سے چھوٹا گرگٹ مڈغاسکر اور جرمنی کے سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے۔
اس گرگٹ کو ’بروکیشیا نانا‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ گرگٹ اتنا چھوٹا ہے کہ انسانی ناخن پر آرام سے بیٹھ سکتا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مڈغاسکر کے جنگلات سے اس گرگٹ کے صرف ایک مادہ اور ایک نر ہی ملے ہیں، ان جنگلات میں مزید بھی ہو سکتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس نینو گرگٹ کے نر اور مادہ دونوں ہی بالغ ہیں جن میں مادہ کی لمبائی، نر کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
ماہرین کے مطابق نینو گرگٹ میں نر کی جسمانی لمبائی 13.5 ملی میٹر، جب کہ دُم سمیت لمبائی 21.6 ملی میٹر ہے، جب کہ مادہ نینو گرگٹ کی جسمانی لمبائی 19.2 ملی میٹر اور دُم سمیت لمبائی 28.9 ملی میٹر ہے۔
ریسرچ کے مصنفین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ گرگٹ کی یہ دریافت شدہ قسم شاید پہلے ہی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے کیوں کہ مڈغاسکر کے اس حصے میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری رہی ہے جس کی وجہ سے یہاں کا قدرتی حیاتی ماحول بڑی شدت سے متاثر ہوا ہے۔
واضح رہے کہ حال ہی میں اس علاقے کو شکار اور جنگلات کی کٹائی سے محفوظ علاقہ قرار دے کر پابندی عائد کر دی گئی ہے، جس کے بعد امید پیدا ہو گئی ہے کہ یہاں اس جییس دوسری جاندار انواع مکمل معدومی سے بچ جائیں گے۔
پشاور: محکمہ جنگلی حیات خیبر پختون خوا نے پنجرے میں بند سیکڑوں پرندوں کے ساتھ 2 شکاریوں کو گرفتار کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا کے محکمہ جنگلی حیات نے بدھ کی صبح پنجروں میں پرندے بیچنے کے غیر قانونی کاروبار پر پنجاب سے صوبائی دارالحکومت پشاور لائے جانے والے سیکڑوں پرندوں کو ضبط کر لیا۔
وائلڈ لائف حکام کے مطابق کے پی وائلڈ لائف اینڈ بائیو ڈائیورسٹی ایکٹ 2015 کے تحت 2 شکاریوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، یہ کارروائی پشاور میں کیجڈ پرندوں کی فروخت سے متعلق موصول شدہ شکایت پر چیف کنزرویٹر وائلڈ لائف کے پی ڈاکٹر محسن فاروق کی ہدایت پر کی گئی۔
ضبط شدہ پرندوں میں 700 سے زیادہ جنگلی مینا (ایکریڈو ٹریسٹس) اور 10 وائلڈ اسٹارلنگ شامل تھے، سب ڈویژن وائلڈ لائف آفیسر کی نگرانی میں اسٹاف نے پشاور کے حاجی کیمپ اور لاہور اڈہ بس اسٹینڈ کے مختلف ممکنہ مقامات پر چھاپے مارے۔
سرگودھا سے آنے والے 2 مسافر کوچ جس میں لکڑی کے خانے بنائے گئے تھے، اور جو پرندوں سے بھرے تھے، حکام نے پکڑ کر پرندے برآمد کیے، عملے نے پرندوں کو پنجرے سے آزاد کر کے کھلے آسمان میں چھوڑ دیا، جب کہ بعض پرندوں کو پشاور چڑیا گھر منتقل کر دیا گیا۔
وائلڈ لائف حکام کے مطابق گرفتار شکاریوں کی شناخت امتیاز ولد وزیر محمد اور محمد عمران ولد نور قادر کے نام سے ہوئی ہے جو مردان کے رہائشی ہیں۔
ایڈورڈ مائیکل گرلز کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ وہ 1974ء کو پیدا ہوا۔ اسے شروع ہی سے مہم جوئی اور جسمانی طاقت کے مظاہروں کا شوق تھا جس کا ایک سبب شاید یہ تھا کہ وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوا جو کھیلوں کا شائق تھا۔ اس کے دادا اور ان کے بزرگ بھی کرکٹر تھے۔ گھر میں اس کے والد جسمانی تن درستی برقرار رکھنے کے لیے ورزش اور دوڑ وغیرہ کو اہمیت دیتے تھے۔
وہ بڑا ہوا تو والد نے اسے بلندی پر چڑھنا، چھلانگ لگانا سکھایا، اس کا خوف دور کیا اور پھر اسے کراٹے سیکھنے کے لیے بھیجا جہاں اس نے بلیک بیلٹ حاصل کی۔ تیراکی اور غوطہ خوری میں مہارت اس کے شوق اور دل چسپی کا نتیجہ تھی۔
اب فطرت اور جنگلی حیات میں اس کا تجسس بڑھا۔ وہ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سَر کرنا چاہتا تھا۔ یہ خواب اس نے کم عمری میں دیکھا تھا۔
اسکول سے فراغت کے بعد اس نے کوہ پیمائی کا شوق پورا کیا۔ اس نے چند سال برطانوی فوج کے رضا کار کی حیثیت سے بھی کام کیا اور پھر اسے 1996ء میں ایک حادثہ پیش آیا جس کا شکار کوئی عام انسان ہوتا تو شاید زندگی کی طرف اس کا لوٹنا آسان نہ ہوتا۔
وہ زمیبیا میں فری فال پیرا شوٹنگ کر رہا تھا اور سطحِ سمندر سے 16000 فٹ کی بلندی پر تھا جب پیرا شوٹ پھٹ گیا۔ وہ بلندی سے نیچے کی طرف آرہا تھا تو پیرا شوٹ اس کے گرد لپٹ گیا۔ زمین پر گرنے والے اس نوجوان کی ریڑھ کی ہڈّی تین جگہ سے شکستہ ہوچکی تھی۔ اس کے سرجن کے بقول لگتا تھا کہ وہ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوجائے گا۔ وہ تقریباً ایک سال تک بستر پر اپنا علاج کرواتا پڑا رہا۔
یہ حادثہ اسے نہ تو توڑ سکا، نہ ہی اسے کم زور بنا سکا بلکہ اس نے محض 18 ماہ بعد ہمّت اور حوصلے کی ایک مثال قائم کی۔ 16 مئی 1998ء کو اس نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سَر کی۔ وہ 23 برس کا تھا جب یہ کارنامہ انجام دیا۔
یہ عالی ہمّت کون ہے؟ دنیا اسے بیئر گرلز کے نام سے جانتی ہے۔ جی ہاں، یہ کہانی تھی ڈسکوری چینل کے پروگرام ’مین وورسز وائلڈ‘ کے مقبول میزبان اور مشہورِ زمانہ مہم جُو کی۔
ہم انسان جب کرونا کی وبا اور وائرس کے خوف سے گھروں تک محدود ہوئے تو جنگلوں اور مرغزاروں سے کچھ جانور شہروں تک آگئے اور گلی کوچوں، سڑکوں پر گھومتے پھرتے نظر آئے۔
مختلف ممالک کے شہروں اور قصبات کی طرف نکل آنے والے ان جانوروں کے سیر سپاٹے اور پرسکون انداز میں گھومنے پھرنے کی تصاویر اور ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں۔ تاہم لاک ڈاؤن سے پہلے اور عام حالات میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔
اکثر ممالک میں جنگل اور چراگاہوں کے نزدیک آبادیوں میں مختلف جانور سڑکوں اور دیگر راستوں سے گزرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایسی ہی چند خوب صورت تصاویر دیکھیے۔ انھیں آپ بن بلائے مہمان کہہ سکتے ہیں۔
اردو زبان میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی زندہ ہو تو لاکھ کا، مرا ہوا ہو تو سوا لاکھ کا۔ یہ جملہ عموماً کسی انسان، مقام یا شے کی قدر و قیمت کو ظاہر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
لیکن خود ہاتھی بھی کوئی کم قیمتی نہیں اور اسے یہ خصوصیت اس کے لمبے دانتوں کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ ہاتھی دانت جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے دنیا کی بیش قیمت ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
یہی قدر و قیمت ہاتھی کی جان کی دشمن بن گئی اور دنیا بھر میں ہاتھی کا بے دریغ شکار کیا جانے لگا، ہاتھیوں کی حفاظت کے بارے میں آگاہی کے لیے ہر سال 12 اگست کو ہاتھی کا دن منایا جاتا ہے جس کا آغاز سنہ 2011 سے تھائی لینڈ میں کیا گیا تھا۔
ہاتھی دانت کو زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے یہ نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل تک چین اور امریکا ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے دنیا کی 2 بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی تھیں، دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا تھا۔
ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ بن گئی تھی اور یہ نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی تھی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی تھی۔
ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔
سنہ 2016 میں عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوئی۔
صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے سنہ 2016 تک یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی۔
ماہرین کے مطابق افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھیوں کا شکار کیا جاتا رہا۔
تاہم ہاتھی کی نسل کو لاحق خطرات دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، اس حوالے سے افریقی ممالک کی کوششیں قابل ذکر ہیں جن کی سیاحت جنگلی حیات پر مشتمل ہے اور ہاتھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔
سنہ 2015 میں افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کے پہلے ہی اجلاس میں افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔
خود افریقی ممالک میں بھی ہاتھی سمیت دیگر جنگلی حیات کے شکار پر سخت سزائیں متعارف کروا دی گئیں، کینیا نے ایک قدم آگے بڑھ کر جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا۔
سنہ 2017 میں چین نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ملک میں چلنے والی ہاتھی دانت کی تمام مارکیٹس بند کرنے کا اعلان کردیا۔
سنگا پور اور ہانگ کانگ نے بھی ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی لگا دی تاہم امریکا، برطانیہ، جاپان اور تھائی لینڈ میں اب بھی قانونی طور پر سفید سونے کی تجارت جاری ہے۔
خشکی اور پانی میں رہنے والے مختلف حیوانات اپنی جسامت، جثے یا جسمانی ضرورت اور پسند کے مطابق غذا اور خوراک استعمال کرتے ہیں، لیکن ان میں سے بعض کی یومیہ خوراک بہت زیادہ ہوتی ہے۔
آپ چاہیں تو ان حیوانات کو پیٹو بھی کہہ سکتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران ٹڈی دل کے حملوں میں فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ماہرینِ حیوانات کے مطابق ٹڈیوں کی مختلف نسلیں یا اقسام جو دنیا میں پائی جاتی ہیں، ان کی غذا اور خوراک میں بھی فرق ہوسکتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق فصلوں کو برباد کردینے والی ٹڈیاں بہت زیادہ کھاتی ہیں۔
ٹڈیوں کے بعد ان چند حیوانات کے بارے میں پڑھیے جنھیں دنیا میں سب سے زیادہ کھانے والوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ماہرینِ حیوانات کے مطابق جانداروں میں سب سے زیادہ خوراک بلیو وہیل کی ہوتی ہے۔ یہ یومیہ تقریباً چار ٹن خوراک کی عادی ہوتی ہے۔ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ یہ آبی مخلوق روزانہ کرل نامی چار کروڑ سمندری حیات کو اپنی غذا بناتی ہے۔
اسی طرح بہت زیادہ کھانے کے لیے افریقی نسل کے ہاتھی بھی مشہور ہیں۔ ماہرین کے مطابق ان کی خوراک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک افریقی ہاتھی روزانہ تقریباً 60 کلو گرام خشک چارہ کھاتے ہیں۔
"ہمنگ برڈ” کو دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ کہا جاتا ہے جو بہت زیادہ غذا کھانے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ سائنس دانوں نے تحقیق سے معلوم کیا کہ یہ پرندہ ہر 15 منٹ میں پھلوں کا جوس چوستے ہیں۔ اس پرندے کی تین سو اقسام میں سے چھوٹے سائز والے ہمنگ برڈ بڑے کے مقابلے میں زیادہ کھاتے ہیں۔