Tag: جنگلی حیات

  • زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    زمین کے طویل قامت جانور کا دن آج ہی کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے طویل دن اور طویل رات یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • پہاڑی شیر 2 دن مزے سے شہر کی سڑکوں پر گھومتا رہا

    پہاڑی شیر 2 دن مزے سے شہر کی سڑکوں پر گھومتا رہا

    سان فرانسسکو: امریکی ریاست شمالی کیلی فورنیا کے شہر میں ایک پہاڑی شیر 2 دن تک سڑکوں پر مزے سے آزادانہ گھومتا رہا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سان فرانسسکو میں اوریکل پارک کے قریب ایک پولیس افسر نے پہاڑی شیر کو ایک عمارت کے باہر پودوں کے ایک بڑے باکس میں مزے سے لیٹے دیکھا تو حیران رہ گیا۔

    معلوم ہوا کہ اپنا راستہ کھونے والا پہاڑی شیر دو دن سے سڑکوں پر گھوم رہا تھا، جب پولیس افسر آدم لوبسنگر نے اسے دیکھا تو فوری طور پر محکمہ جنگلی حیات کو مطلع کر دیا، جنھوں نے آ کر اسے بہ آسانی پکڑ لیا۔

    انیمل کنٹرول کیئر کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پچاس پونڈ وزن کا یہ شیر ایک اپارٹمنٹ کے سامنے گرین ایریا میں لیٹا ہوا تھا، اسے پکڑنے کے لیے بے ہوشی کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ ترجمان ڈیب کیمبل کا کہنا تھا کہ شیر نے چوبیس گھنٹوں کے دوران صرف چند ہی بلاکس کا سفر کیا، اسے شاید سچ میں مدد کی ضرورت تھی۔

    ترجمان نے بتایا کہ سال میں ایک بار جنگلی حیات کے حکام کو پہاڑی شیر کی آمد کی اطلاع ملتی ہے، یہ شیر سان فرانسسکو کے جنوب میں واقع پہاڑیوں سے اتر کر آتے ہیں لیکن پھر اپنے راستے پر واپس بھی چلے جاتے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پہاڑی شیر سان فرانسسکو شہر کے بیچ میں نکل آیا ہو۔

    رپورٹس کے مطابق حکام اس شیر کی نقل و حرکت منگل سے نوٹ کر رہے تھے جب ایک موٹرسٹ نے اسے رشین ہلز کے پاس دیکھا تھا، پھر اسے ایک ٹی وی اسٹیشن کے پارکنگ لاٹ میں سی سی ٹی وی کے ذریعے دیکھا گیا، اور آخر میں اسے اوریکل پارک کے قریب دیکھا گیا، جسے جمعرات کو آخرکار پکڑ لیا گیا۔

    واضح رہے کہ اس علاقے میں جب کوئی پہاڑی شیر نکل آتا ہے تو حکام اسے فوری پکڑنے کی بجائے اس کی نقل و حرکت نوٹ کرتے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں کہ وہ خود اپنے راستے پر لوٹ جائے، مذکورہ شیر سے متعلق بھی حکام نے انتظار کیا اور لوگوں سے درخواست کی تھی کہ وہ تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے شیر کی نقل و حرکت نوٹ کر کے حکام کو مطلع کرتے رہیں۔

    علاقے کی پولیس نے ٹویٹر پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ ایک پہاڑی شیر علاقے میں نکل آیا ہے اس لیے اپنی حفاظت کریں، ایسا لگتا ہے کہ شیر راستہ بھول گیا ہے، تاہم وہ جلد جنوب میں اپنا راستہ ڈھونڈ لے گا۔

    حکام کا کہنا تھا کہ یہ پہاڑی شیر (cougar) دو سال کی عمر تک پہنچنے کے بعد خاندان چھوڑ دیتے ہیں، تاہم مذکورہ شیر ابھی چھوٹا تھا اور معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ اس نے اپنا خاندان کیوں چھوڑا۔ بعد ازاں، آکلینڈ زو میں شیر کا معائنہ کیے جانے کے بعد وائلڈ لائف نے اسے پہاڑیوں میں چھوڑ دیا۔

  • تیندوے کا کھویا بچہ واپس ملا تو ماں نے کیا کیا؟ ویڈیو دیکھیں

    تیندوے کا کھویا بچہ واپس ملا تو ماں نے کیا کیا؟ ویڈیو دیکھیں

    مہاراشٹر: بھارتی ریاست مہاراشٹر کے ایک گاؤں میں تیندوے کا بچہ انسانوں کے علاقے میں نکل آیا، جس سے کسان اس کی ماں کی آمد کے خوف میں مبتلا ہو گئے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہو گئی ہے جس میں تیندوے کا ایک معصوم بچہ جنگل سے نکل پر کھیتوں میں آ گیا ہے اور راستہ کھو بیٹھا ہے۔

    چار دن قبل ضلع نندید میں بھوسی گاؤں کے کسانوں نے جوار کی کٹائی کے دوران دیکھا کہ تیندوے (لیپرڈ) کا ایک بچہ ایک کھیت میں کیلے کے خشک پتوں کے درمیان اکیلا بیٹھا ہوا ہے، کسانوں نے تیندوے کے بچے کی موجودگی کی اطلاع فوراً فاریسٹ ڈپارٹمنٹ کو دے دی۔

    تیندوے کے ننھے بچوں کی سڑک پار کرنے کی خوبصورت ویڈیو

    محکمہ جنگلی حیات کے اہل کاروں نے گاؤں کا وہ حصہ خالی کرا لیا جہاں تیندوے کا بچہ موجود تھا، اور بچے کو ایک ٹوکری میں بند کر دیا تاکہ وہ مزید نہ بھٹکے، اہل کاروں نے آس پاس کیمرے بھی لگا دیے، تاکہ اگر اس کی ماں آئے تو اس کی حرکات نوٹ ہو سکیں۔

    دو دن انتظار کے بعد مادہ تیندوا اپنے بچے کی تلاش میں وہاں آئی اور اس نے اپنے بچے کو ٹوکری میں پایا، پہلے تو وہ ہکچکائی، اور پھر آگے بڑھ کر اس ٹوکری کو کھولا، جس سے بچہ نکل آیا۔

    محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے جاری ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بچے سے پھر ملنے پر تیندوا ماں کس طرح بے قرار ہو کر اسے چاٹنے لگی ہے، اور پھر تیزی کے ساتھ وہاں سے دونوں چلے گئے۔ محکمے کے اہل کاروں کا کہنا تھا کہ انسانوں کی سرگرمی کی وجہ سے جانور اپنی رہایش گاہوں سے بے گھر ہوتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مقامی کسان تیندوے کے بچے کی موجودگی سے ڈر گئے تھے اور انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اسے گاؤں سے دور لے جایا جائے۔

    اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر بہت لوگوں نے پسند کیا اور اس سے انسانوں اور جانوروں کے آپسی تنازعے کی ایک بحث بھی چھڑ گئی۔ خیال رہے کہ کئی ممالک میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن لگایا جا چکا ہے جس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر جانوروں کی انسانی آبادیوں میں نکلنے کی متعدد ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جانور سیاحوں کی غیر موجودگی کا لطف اٹھانے لگے ہیں۔

  • درون نیشنل پارک میں دیکھنے کے لیے کیا کچھ ہے؟

    درون نیشنل پارک میں دیکھنے کے لیے کیا کچھ ہے؟

    بلوچستان فطری حُسن اور دل فریب مناظر کے ساتھ کئی تاریخی مقامات کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے۔

    بلوچستان میں متعدد تفریح گاہیں ہیں جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ ان میں مشہور علاقہ زیارت، درون نیشنل پارک، ہزار گنجی، چلتن نیشنل پارک، قدرتی حُسن سے مالا مال ہر بوئی جنگلات، ہنگول نیشنل پارک وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    ہم درون نیشنل پارک کی بات کریں تو یہ لسبیلہ سے مغرب میں 115 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نیشنل پارک کی سب سے اونچی چوٹی کا نام ”سرکوہ“ ہے، جس کی بلندی 5185 فٹ ہے۔

    اسی چوٹی پر کسی زمانے میں ایک اونچا ٹاور بنایا گیا تھا جس پر کھڑے ہو کر لسبیلہ اور کراچی کا کچھ علاقہ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    یہ ٹاور اب خستہ ہو چکا ہے۔ 1988 میں حکومتِ بلوچستان نے اس مقام کو نیشنل پارک کی حیثیت دے دی تھی۔ یہاں حیوانات اور نباتات کی مختلف اقسام کو قدرتی ماحول میں پروان چڑھنے کا موقع دیا گیا اور ان کی افزائشِ نسل کی گئی۔

    درون نیشنل پارک میں عام جانور جیسے پہاڑی بکرے، خرگوش، جنگلی بلیاں وغیرہ دیکھی جاسکتی ہیں، اسی طرح چنکارہ ہرن، مور، چیتے، بھڑیے، چیتا بلی، لومڑی، گیڈر، اڑیال بھی پھرتے نظر آتے ہیں۔

    درختوں پر خوب صورت کبوتر، چڑیا، توتے کے علاوہ تیتر، سیسی، کوہی جیسے پرندے بھی نظر آجاتے ہیں۔ اسی طرح اژدھے، زہریلے سانپ اور دیگر موذی حشرات بھی اس پارک میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں مختلف چشموں میں آبی نباتات کے علاوہ مچھلی و دیگر جاندار بھی پائے جاتے ہیں۔

    درون نیشنل پارک سے دل چسپ قصے اور مختلف پُراسرار واقعات بھی منسوب ہیں جسے مقامی لوگ یہاں آنے والے سیاحوں کو سناتے ہیں اور یوں ان کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرتے ہیں۔

  • "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    "چیتے دراصل گدھے ہیں”

    کسی جنگل میں خرگوش کی ایک اسامی نکلی، لیکن کئی ماہ تک کسی خرگوش نے اس نوکری کے لیے درخواست نہیں دی۔

    ایک بے روزگار اور حالات کے ستائے ہوئے ریچھ نے اس اسامی پر اپنی درخواست جمع کرا دی۔

    اس ریچھ کو خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دے دی گئی۔

    نوکری کے دوران کہیں سے ریچھ کو معلوم ہوا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر اسی کی طرح ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور وہ مشاہرہ اور مراعات لے رہا ہے جو کہ ریچھ جیسے بڑے اور طاقت ور جانور کا حق ہیں۔ اسے کسی نے بتایا کہ خرگوش خود کو دھڑلے سے ریچھ کہتا ہے۔

    ریچھ نے اسے ناانصافی تصور کیا۔ اسے بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جب کہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ بن کر مزے کر رہا ہے۔

    ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے رابطہ کیا اور مشورہ مانگا۔ انھوں نے ریچھ کو کہا کہ یہ تو بڑا ظلم اور اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہی خواہوں کا مشورہ تھا کہ ریچھ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔

    خرگوش کی اسامی پر کام کرنے والے ریچھ نے جنگل کے منتظمِ اعلیٰ کو تحریری شکایت کی اور مؤقف اپنایا کہ یہ غیرقانونی اور اس جیسے جانور کی حق تلفی کے مترادف ہے۔

    جنگل کا منتظمِ اعلیٰ ریچھ کو کوئی جواب نہ دے سکا اور اس کی شکایت انتظامیہ اراکین کو بھیج دی۔ انھوں نے چند سینئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی جو اس مسئلے پر سر جوڑ کر بیٹھے۔

    کمیٹی اراکین نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں حاضر ہو کر اس حوالے سے اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    مقررہ تاریخ پر خرگوش کمیٹی کے سامنے پیش ہوا اور اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں رکھ دیں اور کسی طرح یہ ثابت کر دیا کہ وہ ایک ریچھ ہے۔

    اب کمیٹی نے ریچھ کو ہدایت کی کہ پہلے تو وہ اپنی موجودہ ملازمت کے حوالے سے یہ ثابت کرے کہ وہ ایک خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ نے ضروری کاغذات اور دستاویز پیش کر کے خود کو خرگوش ثابت کیا۔

    کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ دراصل خرگوش ہے۔ اس لیے فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال رہ کر اپنے اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے۔ ریچھ نے کوئی اعتراض کیے بغیر کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور اپنی راہ لی۔

    مایوس اور پریشان ریچھ کے دوستوں نے اسے بہت برا بھلا کہا اور بزدلی کا طعنہ بھی دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریچھ کو چیتوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا چاہیے تھا۔

    تب ریچھ نے انھیں غور سے دیکھا اور سر جھکا کر بولا: میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کرسکتا تھا، اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا؟

    دوستو، جیسے میں ایک خرگوش اور ایک خرگوش ریچھ کی حیثیت سے جنگل سرکار سے تنخواہ لے رہا ہے بالکل اسی طرح کمیٹی میں شامل چیتے درحقیقت گدھے ہیں اور ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیتے ہیں تمام ضروری کاغذات اور دستاویز بھی موجود ہیں۔

    (عالمی ادب سے انتخاب)

  • دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    نیروبی: شمالی افریقی ملک کینیا میں دنیا کے 2 نہایت نایاب سفید زرافوں کا شکار کرلیا گیا، ان زرافوں کی تعداد دنیا بھر میں صرف 3 تھی اور ان دو زرافوں کی موت کے بعد اب اپنی نوعیت کا ایک ہی زرافہ واحد بچا ہے۔

    کینیا میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پولیس کو مادہ زرافے اور اس کے بچے کی باقیات شمالی مشرقی کینیا کی گریسا کاؤنٹی سے ملیں۔ یہ تلاش ماں اور بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔

    اب ان کے بعد اس نوعیت کا صرف ایک زرافہ بچا ہے جو تنزانیہ میں ہے اور دنیا بھر میں پایا جانے والا واحد سفید زرافہ ہے۔

    تنزانیہ میں بچنے والا دنیا کا واحد سفید زرافہ

    مقامی تنظیموں کے مطابق ان زرافوں کو سب سے پہلے 2017 میں دیکھا گیا تھا، علاوہ ازیں تنزانیہ میں موجود سفید زرافہ اس سے قبل 2016 میں دیکھا گیا تھا۔

    ان تنظیموں کے ساتھ مقامی اسحٰق بنی ہیرولا کمیونٹی بھی جانوروں کی رکھوالی اور حفاظت کے کام میں شریک تھی اور ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا دکھ بھرا دن ہے۔

    ان لوگوں کے مطابق ان کی کمیونٹی ان نایاب زرافوں کی رکھوالی کرنے والی دنیا کی واحد کمیونٹی ہے۔

    شکار ہونے والا زرافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نایاب زرافے ایک جینیاتی بگاڑ لیوک ازم کا شکار تھے۔ اس بیماری میں خلیوں میں موجود رنگ دینے والے پگمنٹس کم ہوجاتے ہیں۔

    یہ بیماری البانزم (یا برص) سے مختلف ہے، ایک مرض جسم کو جزوی طور پر سفید کرتا ہے جبکہ دوسرا جسم کو مکمل طور پر سفید کردیتا ہے۔ اس کی الٹ بیماری میلینزم کی ہے جس میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں اور جانور کا جسم مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔

    افریقہ کی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ 30 سال میں گوشت اور کھال کے لیے زرافوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا ہے جس سے زرافوں کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (آئی یو سی این) کے مطابق سنہ 1985 میں زرافوں کی آبادی 1 لاکھ 55 ہزار تھی جو سنہ 2015 تک گھٹ کر صرف 97 ہزار رہ گئی۔

  • جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    جب جان لیوا کرونا وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی کی امید بنا!

    دنیا بھر میں آج جنگلی حیات کا دن منایا جارہا ہے، اس وقت جب دنیا بھر میں جان لیوا کرونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں، وہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے زندگی اور امید کی کرن بھی ثابت ہوا ہے۔

    جنگلی حیات کا عالمی دن منانے کی قرارداد سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کی تھی، اقوام متحدہ کے زیر اہتمام منائے جانے والے اس دن کا مقصد خطرے کا شکار جنگلی حیات کے تحفظ کے سلسلے میں شعور بیدار کرنا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’زمین پر ہر نوع کی زندگی برقرار رکھنے کی کوشش‘ کے تحت منایا جارہا ہے۔

    جانوروں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    لیکن بدقسمتی سے ہماری زمین پر موجود جانور تیزی سے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان جانداروں کو سب سے بڑا خطرہ بدلتے ہوئے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے لاحق ہے۔ دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور یہ صورتحال جانوروں کے لیے نہایت تشویش ناک ہے جو صدیوں سے یکساں درجہ حرات میں افزائش پانے کے عادی ہیں۔

    اس کے علاوہ ان کو لاحق خطرات میں ان کی پناہ گاہوں کا خاتمہ، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، اور مختلف استعمالات کے لیے ان کا بے تحاشہ شکار شامل ہے۔

    ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    کرونا وائرس ۔ امید کی کرن

    گزشتہ برس کے اختتام پر سامنے آنے والے جان لیوا کرونا وائرس نے دنیا بھر کی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اب تک اس وائرس سے متاثر افراد کی تعداد 90 ہزار جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ وائرس چینی شہریوں کے ہر قسم کے گوشت کے بے تحاشہ غیر ذمہ دارانہ استعمال کے باعث سامنے آیا ہے اور یہیں یہ وائرس جنگلی حیات کے لیے امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔

    چین میں گوشت کی اس کھپت کو پورا کرنے کے لیے دنیا بھر میں مختلف جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اور پھر چین میں ان کی تجارت کی جاتی ہے کیونکہ چین اس حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔

    تاہم اب کرونا وائرس کے زبردست جھٹکے کے بعد چین اب جنگلی حیات کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیاں کر رہا ہے جس سے جنگلی جانوروں کی غیر قانونی تجارت اور شکار میں کمی آئے گی۔

    چین میں کرونا وائرس سے سب سے متاثرہ شہر ووہان میں جس پہلے شخص میں اس وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اس کا تعلق ایک ایسے علاقے سے تھا جہاں جنگلی جانوروں کی خرید و فروخت کی منڈی واقع ہے۔

    یہیں سے سائنسدانوں کی توجہ جانورں پر مرکوز ہوئی، پہلے سور اور پھر چمگادڑ کو اس وائرس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا بالآخر اب سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ کورونا نامی وائرس کے پھیلاؤ کی اہم وجہ پینگولین بنا۔

    چین میں اس وقت پینگولین کے علاوہ، چیتے اور رائنو سارس کی غیر قانونی تجارت عروج پر ہے، ان جانوروں کی کھالیں اور مختلف اعضا فر، ملبوسات، اور چینی دوائیں بنانے کے کام آتی ہیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین جنگلی حیات اور ماہرین ماحولیات پرامید ہیں کہ چین کی جانب سے جنگلی حیات سے متعلق قوانین میں تبدیلی ان جانوروں کی بقا میں اہم کردار ادا کرے گی۔

  • بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    بندہ کام میں‌ چیتا ہے!

    ہم جس حیوان کا ذکر یہاں کر رہے ہیں، اس کا تعلق بلی کے خاندان سے ہے۔ یہ جانور لمحوں میں شکار تک پہنچ کر اسے دبوچ لیتا ہے۔

    ہم پاکستانی اس کی تیز رفتاری سے اتنے متأثر ہیں کہ جب کسی شعبے کی شخصیت کے کام اور پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کرنا اور اس کی غیرمعمولی کارکردگی کی مثال دینا ہو تو اس درندے کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ جملہ اس حوالے سے یقینا آپ کی الجھن دور کر دے گا۔

    جناب، میں جو بندہ لایا ہوں اسے کمپنی میں ایک موقع ضرور دیں۔ تھوڑا گپ باز ہے سَر، مگر اپنے کام میں ‘‘چیتا’’ ہے!

    چیتے کی سب سے بڑی خوبی اس کی رفتاری ہے۔ آپ میں سے اکثر لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ چیتا شیر کی طرح دہاڑ نہیں پاتا بلکہ یہ جانور غراتا ہے اور بلیوں کی طرح آوازیں نکالتا ہے۔

    چیتے کو رات کے وقت دیکھنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ ماہرینِ جنگلی حیات کے مطابق چیتا زیادہ تر صبح کی روشنی میں یا دوپہر کے بعد شکار کرتے ہیں۔

    بلی کے خاندان سے تعلق رکھنے والا یہ جانور درختوں پر بھی آسانی سے نہیں چڑھ پاتا
    چیتے کا سَر اور پاؤں چھوٹے جب کہ ان کی کھال موٹی ہوتی ہے۔
    افریقی اور ایشیائی چیتوں کی جسمانی ساخت میں کچھ فرق ہوتا ہے جب کہ ان کی بعض عادات بھی مختلف ہیں۔
    افریقی چیتوں پر کئی سال پہلے ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آیا تھا کہ چیتے کے 100 بچوں میں سے صرف پانچ ہی بڑے ہونے تک زندہ رہتے ہیں۔
    جنگل کے دوسرے جانور جن میں ببون، لگڑ بگھے اور مختلف بڑے پرندے شامل ہیں، موقع پاتے ہی چیتے کے بچوں کا شکار کرلیتے ہیں۔
    ماہرین کے مطابق دوڑتے ہوئے یہ جانور سات میٹر تک لمبی چھلانگ لگا سکتا ہے۔ یعنی 23 فٹ لمبی چھلانگ جس میں اسے صرف تین سیکنڈ لگتے ہیں اور یہ حیرت انگیز ہے۔

  • کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کیا ہوا جب شیر نے کچھوے کا شکار کرنا چاہا؟

    کسی بھی انسان کی زندگی میں تیز رفتاری، اور عقلمندی دو ایسے عوامل ہیں جو اس کی بقا کے ضامن ثابت ہوتے ہیں۔ جب زندگی اور موت کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام کر گزرتا ہے جس کی عام حالات میں اس سے توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

    ایسا ہی کچھ احوال جانوروں کا بھی ہے جو اپنی محدود صلاحیت و عقل میں اپنی بقا کی راہ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ جانور انسانوں کی طرح اشرف المخلوقات نہیں لہٰذا قدرت نے انہیں فطری طور پر ایسے اعضا و صلاحیتیں دی ہوئی ہیں جو انہیں مشکل حالات سے بچا سکتی ہیں۔

    ایسا ہی ایک منظر اس وقت دیکھنے میں آیا جب ایک شیر نے اپنے سے کمزور کچھوے کو اپنا نوالہ بنانے کی کوشش کی۔ اپنی سست رفتاری کے لیے مشہور کچھوا بھاگ کر یا چھپ کر اپنی جان کیا بچاتا، ایسے میں خدا کا دیا ہوا ایک تحفہ اس کے کام آگیا۔

    کچھوے نے اپنی ڈھال یعنی سخت خول میں پناہ لے لی۔ شیر نے بہت کوشش کی کہ خول کے اندر سے کچھوے کا منہ پکڑ کر باہر نکالے لیکن سخت خول اس کی راہ کی رکاوٹ بنا رہا۔

    تھک ہار کر شیر نے کچھوے کو، جو اس کے لیے اب ایک پتھر جیسا تھا، پھینکا اور دوسرے شکار کی تلاش میں چل پڑا۔ کچھوے نے کچھ دیر بعد خول سے اپنا منہ اور بازو نکالا اور پھر سے اپنی منزل کی جانب رینگنے لگا۔

  • بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    بغیر دھاریوں والا انوکھا زیبرا

    دھاری دار جسم کا حامل زیبرا براعظم افریقہ میں پایا جاتا ہے، حال ہی میں ایک انوکھے زیبرا کو کیمرے نے عکسبند کیا جسے دیکھ کر ماہرین خوشگوار حیرت میں پڑ گئے۔

    کینیا کے ایک ریزرو میں دیکھا جانے والا یہ ننھا زیبرا اپنے خاندان کے دیگر زیبروں سے کچھ مختلف ہے۔ اس کے جسم پر سیاہ و سفید دھاریوں کے بجائے سفید دھبے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق زیبرے کے جسم کی یہ انفرادیت ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کی وجہ سے ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زیبرا اس بگاڑ کے باعث نہایت انفرادیت کا حامل ہے اور یہ اس طرح کا، اب تک دیکھا جانے والا واحد زیبرا ہے۔