Tag: جنگلی حیات

  • کراچی میں قدیم مقامی جنگلی حیات سے متعلق منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار

    کراچی میں قدیم مقامی جنگلی حیات سے متعلق منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار

    کراچی: شہر قائد میں ایک منفرد وائلڈ لائف میوزیم تیار کر لیا گیا ہے، جس میں سندھ میں پائے جانے والے جنگلی حیات کو رکھا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ وائلڈ لائف میوزیم کراچی کو 28 سال بعد از سر نو بحال کیا گیا ہے، جہاں سندھ کے معدوم ہوتی نسل والے پرندوں اور سانپ سمیت دیگر رینگنے والے جانوروں کو رکھا گیا ہے۔

    صوبے کے نایاب جنگلی جانوروں کی ممی اور تصاویر کو میوزیم کی زینت بنایا گیا ہے، میوزیم میں 19 اور 20 ویں صدی کے پرندوں اور جانوروں کی تصاویر بھی ہیں۔

    تحفظ جنگلی حیات کے محکمے نے اس میوزیم میں پہاڑی توتے، تیتر، ہرن، شیر، نایاب بلی، چھپکلی، سانپ اور کئی اقسام کے پرندوں کے نمونے محفوظ کیے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  خیرپور میں وائلڈ لائف کی بروقت کارروائی، جنگلی ریچھ بازیاب

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق اس میوزیم میں سندھ میں پائے جانے والے 320 اقسام اور نسلوں کے پرندوں، 135 رینگنے والے جانوروں اور حشرات، جب کہ 82 دیگر جنگلی حیات کے نمونے اور ان کی تصاویر رکھی گئی ہیں۔

    محکمے کا کہنا ہے کہ یہ میوزیم رواں ماہ عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ سندھ کے ریگستانی، ساحلی اور پہاڑی علاقے صدیوں سے نایاب نسل کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اندرون سندھ کے علاقے تھرپارکر میں آج بھی گوشت کے لیے نایاب ہرن کا شکار جاری ہے، رواں سال مئی میں سندھ کے علاقے فیض آباد گنج سے اسمگلرز سے نایاب جنگلی ریچھ بھی بازیاب کرایا جا چکا ہے، جسے پکڑ کر کتوں سے لڑائی کے لیے اسمگل کیا جا رہا تھا۔

    گزشتہ سال محکمہ وائلڈ لائف سندھ نے ایک خفیہ اطلاع پر چھاپا مار کر کراچی کھڈا مارکیٹ سے 150 کلو گرام کچھوے کے خول اور 200 کلو گرام پین گولین کی کھالیں بھی برآمد کی تھیں۔

  • چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    چڑیا گھر میں سرخ پانڈا کے ننھے بچوں کا استقبال

    برطانیہ کے چڑیا گھر میں ایشیائی علاقوں میں پائے جانے والے جانور سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا جس سے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

    سرخ پانڈا، پانڈا کی ایک نایاب نسل ہے جو مغربی چین، بھارت، لاؤس، نیپال اور برما کے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے سرخ بھالو بلی بھی کہا جاتا ہے اور اس کی خوراک میں بانس کے علاوہ انڈے، پرندے اور کیڑے مکوڑے بھی شامل ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق سرخ پانڈا کو اپنی پناہ گاہوں یا رہائشی مقامات میں کمی کے باعث بقا کا خطرہ لاحق ہے۔

    گزشتہ 50 برس میں اس پانڈا کی آبادی میں 40 فیصد کمی آئی ہے جس کے بعد دنیا بھر میں اس پانڈا کی تعداد اب صرف 10 ہزار ہے۔ اسے اس کے نرم فر (بالوں) کی وجہ سے غیر قانونی طور پر شکار بھی کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ میں اس پانڈا کی افزائش نسل بھی کی جارہی ہے اور انہی اقدامات کے تحت انگلینڈ کے چیسٹر زو میں موجود سرخ پانڈا نے دو جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔

    ان بچوں کی پیدائش نے سرخ پانڈا کو لاحق خطرات پر متفکر ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

  • ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    زمین پر موجود تمام جاندار نسل انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہیں، کچھ جاندار انسانوں کی خطرناک بیماریوں کا علاج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہاتھی کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک سائنسی جریدے اوندرک میگزین میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہاتھی اور وہیل کو کبھی کینسر نہیں ہوتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کے جینوم میں ٹیومرز سے لڑنے والے جینز اضافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں، یہ ٹیومرز پھیل کر کینسر کا سبب بن سکتے ہیں تاہم ہاتھی کے جینز ان ٹیومرز کو طاقتور نہیں ہونے دیتے۔

    تاہم اب جبکہ ہاتھی کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، ماہرین ان کے اس انوکھے جینز کی معلومات حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    اوٹاوہ یونیورسٹی کے پروفیسر جوشوا شپمین کا کہنا ہے کہ انسان ذہین ہیں، لیکن فطرت ان سے بھی زیادہ ذہین ہے۔ فطرت کے لاکھوں کروڑوں سال کے تنوع میں میں ہماری، آج کے جدید دور کی بیماریوں کی علاج چھپا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہاتھیوں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس جانور کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    اس کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

  • انوکھا سیاہ پینگوئن

    انوکھا سیاہ پینگوئن

    آپ نے اب تک سیاہ و سفید معصوم سے پینگوئن دیکھے ہوں گے، لیکن کیا آپ نے مکمل طور پر سیاہ پینگوئن دیکھا ہے؟

    ماہرین نے پہلی بار مکمل طور پر ایک سیاہ پینگوئن دیکھا ہے جسے اپنی نوعیت کا نایاب ترین پینگوئن کہا جارہا ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن ایک نایاب جینیاتی بگاڑ میلینزم کا شکار ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ میلینزم کی وجہ سے پینگوئن کے پر تقریباً سیاہ ہوچکے ہیں۔

    یہ پہلی بار ہے جب ایک مکمل سیاہ پینگوئن کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا گیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے جانوروں کا منفرد رنگ انہیں اپنے ساتھیوں میں منفرد بنا دیتا ہے اور وہ شکاریوں کی نظر میں آسکتے ہیں۔ یہ پینگوئن خوش قسمت ہے جو شکاریوں سے بچ کر بلوغت کی عمر تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔

  • دنیا کی خطرناک ترین بلی

    دنیا کی خطرناک ترین بلی

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کی خطرناک ترین بلی کون سی ہے؟

    افریقہ کے کئی ممالک میں پائی جانے والی ایک چھوٹی سی بلی جسے گائرا یا سیاہ پاؤں والی (بلیک فوٹڈ کیٹ) کہا جاتا ہے، کو دنیا کی خطرناک ترین بلی مانا جاتا ہے۔

    یہ جسامت میں دنیا کی سب سے چھوٹی جنگلی بلی ہے، اس کے جسم پر سیاہ دھبے بھی موجود ہوتے ہیں۔

    یہ بلی اپنے شکار کی تلاش میں ایک رات میں 20 میل کا سفر طے کرسکتی ہے۔ ایک بار یہ اپنے شکار کو تاڑ لے تو شکار کا بچنا مشکل ہوتا ہے۔

    اس بلی کے 60 فیصد شکار کامیاب ہوتے ہیں اور نشانے کی اسی درستگی کی وجہ سے اسے دنیا کی خطرناک ترین بلی مانا جاتا ہے۔

    جسم پر سیاہ دھبوں والی اس بلی کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے اور اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

  • انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    انسانی قد کے برابر پینگوئن کی باقیات دریافت

    نیوزی لینڈ میں کچھ روز قبل انسانی قد کے نصف ایک طویل القامت طوطے کی باقیات دریافت کی گئی تھیں، اب وہیں سے ایک ایسے پینگوئن کی باقیات دریافت ہوئی ہیں جو انسان جتنا قد رکھتا تھا۔

    شمالی کنٹربری میں واقع ایک مقام سے دریافت ہونے والی ان باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قدیم پینگوئن کی قامت 1.6 میٹر یعنی 5 فٹ 3 انچ تھی جبکہ اس کا وزن 80 کلو گرام تک ہوتا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ پینگوئن ساڑھے 6 کروڑ سے ساڑھے 5 کروڑ سال قبل کے درمیانی عرصے میں زمین پر موجود تھے۔

    اس پرندے کو مونسٹر پینگوئن کا نام دیا گیا ہے اور اسے نیوزی لینڈ کے معدوم ہوجانے والے قوی الجثہ جانداروں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے جس میں پہلے سے ہی طوطے، عقاب، چمگادڑ اور کچھ اقسام کے پودے
    شامل ہیں۔

    کنٹربری میوزیم کے نیچرل ہسٹری شعبے کے سربراہ پال اسکو فیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پینگوئن اب تک معلوم تمام پینگوئن کی اقسام میں سب سے بڑے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق قدیم زمانوں میں پینگوئن کی جسامت عموماً بڑی ہوا کرتی تھی، موجودہ پینگوئن میں سب سے طویل القامت کنگ پینگوئن ہوتا ہے جس کی قامت 1.2 میٹر ہوتی ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ بڑے پینگوئن کیوں معدوم ہوئے، شاید آبی جانوروں کی تعداد میں اضافے سے ان کے لیے مسابقت بڑھ گئی تھی۔

    اس وقت جائنٹ کچھوے اور شارکس وغیرہ کا بھی ارتقا ہونا شروع ہوگیا تھا۔

    مونسٹر پینگوئن کی یہ باقیات گزشتہ سال دریافت کی گئی تھیں اور اس کی جانچ کی جارہی تھی۔

    یاد رہے کہ بڑھتے ہوئے موسمی تغیرات کے باعث پینگوئن کی نسل کو معدومی کے خطرات لاحق ہیں، ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ اپنے گھر کے چھن جانے کے باعث مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

  • 90 سالہ کچھوے سے ملیں

    90 سالہ کچھوے سے ملیں

    اپنی سست روی کے لیے مشہور کچھوا اپنی طویل العمری کی وجہ سے بھی مشہور ہے، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک طویل عمر پانے والے کچھوے سے ملوا رہے ہیں جس کی عمر 90 سال ہے۔

    امریکی ریاست ٹیکساس کے سان مارکوس دریا میں فلمبند کیا گیا یہ کچھوا پہلی نظر میں کوئی عجیب الخلقت سا جانور معلوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ اس کے جسم پر اگ آنے والی کائی ہے۔

    اسی کائی کی بنیاد پر لگائے گئے ماہرین کے اندازے کے مطابق اس کچھوے کی عمر لگ بھگ 90 سال ہے۔ کچھوے کو ایک طالبہ نے فلمبند کیا جو اپنے یونیورسٹی اسائنمنٹ کے سلسلے میں وہاں موجود تھی۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ ہماری زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    دراصل کچھوے سرد خون والے جاندار ہیں یعنی موسم کی مناسبت سے اپنے جسم کا درجہ حرارت تبدیل کرسکتے ہیں، تاہم انٹارکٹیکا کے برفیلے موسم سے مطابقت پیدا کرنا ان کے لیے ناممکن ہے۔

  • طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    طاقتور بننے کے لیے لومڑی کے ننھے بچوں کی لڑائی

    سرد علاقوں میں پائی جانے والی برفانی لومڑی کے ننھے منے بچے اپنے والدین کے زیر نگرانی اپنے بھٹ سے نکل آئے، ان بچوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو آپس میں لڑ کر اپنی طاقت میں اضاف کرنا ہوگا۔

    برفانی لومڑی آرکٹک، الاسکا، کینیڈا، گرین لینڈ، روس، اور اسکینڈے نیوین ممالک کے برفانی حصوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ سفید، بھورے اور سیاہ رنگ کی ہوتی ہیں۔

    یہ لومڑی اپنے نرم و ملائم فر کی وجہ سے بے حد مشہور ہے اور اکثر اوقات ان لومڑیوں کو فر کے حصول کے لیے شکار کیا جاتا ہے جس کی داستان نہایت لرزہ خیز ہے۔

    لومڑی کے ننھے بچوں کی جسامت بلی کے جتنی ہوتی ہے، یہ بچے آپس میں لڑنے کا کھیل کھیلتے ہیں جس سے ایک تو ان کی طاقت اور قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے، دوسرا یہ تعین کرتا ہے کہ کون زیادہ طاقتور ہے جو بڑا ہو کر غول کی سربراہی کرے گا۔

    اس دوران نر لومڑی ان کی نگرانی کرتا ہے جبکہ مادہ لومڑی خوراک کی تلاش میں نکلتی ہے، یہ زیادہ تر پہاڑوں کے آس پاس اڑنے والے پرندوں کا شکار کرتی ہے۔

    سردیوں کے موسم میں ان لومڑیوں کو شکار کے لیے خاصے مشکل مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، چونکہ ان لومڑیوں کی زندگی کا انحصار لڑائی بھڑائی اور شکار پر ہے لہٰذا ننھے بچے بچپن سے ہی اس کی تربیت پانا شروع کردیتے ہیں۔

  • معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    دنیا بھر میں آج چیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، تحفظ جنگلی حیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات میں اس وقت صرف 3 ہزار 900 چیتے موجود ہیں۔

    امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی اور ان کا اپنا شکار ہوجانا شامل ہے۔

    چیتے کا شکار ان کے جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے، بعض اوقات ننھے چیتوں کو زندہ پکڑ کر ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے، یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    چیتوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کے غیر قانونی فارمز بھی ہیں۔ یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان فارمز کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے تاہم عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • ننھے منے بلونگڑوں نے ماہرین کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی

    ننھے منے بلونگڑوں نے ماہرین کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی

    اسکاٹ لینڈ میں معدومی کے خطرے کا شکار جنگلی بلی کے ننھے منے بلونگڑوں نے اپنی نسل کے لیے امید کی نئی کرن جگا دی، یہ مخصوص جنگلی بلیاں اب تعداد میں صرف 35 رہ گئی ہیں۔

    اسکاٹ لینڈ سمیت برطانیہ کے مختلف علاقوں میں پائی جانے والی اس جنگلی بلی کو اسکاٹش وائلڈ کیٹ کہا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی نایاب ترین بلی ہے۔

    اسکاٹش بلی جنگلی بلیوں کے خاندان میں سب سے بڑی جسامت رکھنے والی بلی ہے، اس کی جسامت عام بلیوں سے دگنی ہوتی ہے۔

    کچھ عرصے قبل تک پورے برطانیہ میں ان بلیوں کی تعداد 1 سے 2 ہزار تھی تاہم ماہرین کے مطابق ان میں سے صرف 400 بلیاں ہی ایسی تھیں جو اس جینیاتی معیار پر پورا اترتی تھیں جو جنگلی بلی کے لیے مخصوص ہے۔

    گزشتہ کچھ عرصے میں ان بلیوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوچکی ہے، یہ بلیاں اب صرف شمالی اور مشرقی اسکاٹ لینڈ تک محدود ہوگئی ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد اب صرف 35 ہے۔

    اسکاٹ لینڈ میں اب ان کو ایک بریڈنگ سینٹر میں رکھا گیا ہے جہاں محفوظ ماحول میں ان کی افزائش نسل کی جارہی ہے۔

    ماہرین کا ارادہ ہے کہ اس بلی کی تعداد مستحکم ہونے کے بعد اسے واپس اس کے گھر یعنی جنگلوں میں چھوڑ دیا جائے گا۔