Tag: جنگلی حیات

  • تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: وائلڈ لائف ٹیم کا چھاپا، 4 نایاب ہرن برآمد

    تھرپارکر: اندرون سندھ گوشت کے لیے نایاب ہرن کے شکار کا سلسلہ بدستور جاری ہے، وائلڈ لائف ٹیم نے اسلام کوٹ کے قریب چھاپا مار کر 4 نایاب ہرن برآمد کر لیے۔

    تفصیلات کے مطابق تھرپارکر کے علاقے اسلام کوٹ میں محکمہ جنگلی حیات نے ایک اور چھاپے میں چار عدد نایاب ہرن بر آمد کر لیے ہیں۔

    وائلڈ لائف ذرایع کا کہنا ہے کہ تھرپارکر کے ایک ہوٹل پر ہرن کا گوشت فروخت کیا جا رہا تھا، ہوٹل انتظامیہ نے اس سلسلے میں کوئی لائسنس حاصل نہیں کیا تھا اور بغیر لائسنس ہرن رکھے ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ رواں ماہ 7 تاریخ کو عمر کوٹ میں بھی نایاب ہرن کی اسمگلنگ کی ایک کوشش ناکام بنائی گئی تھی، رینجرز نے ملزمان کی گاڑی ایک چیک پوسٹ پر روکی تو وہ گاڑی چھوڑ کر بھاگ گئے۔

    متعلقہ خبریں پڑھیں:  عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا تھا، بعد ازاں رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    یہ دردناک ویڈیو دیکھ کر آپ کو اپنے انسان ہونے پر شرم آئے گی

    ہم انسانوں نے اس زمین پر اس طرح ترقی کی ہے کہ ہم دوسرے جانداروں کی موجودگی بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ زمین کے وسائل کا بے دریغ استعمال اور چیزوں کو ایک بار استعمال کر کے بے دردی سے پھینک دینا ہماری عادت بن چکا ہے۔

    اس معمول میں ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری یہ عادتیں اس زمین پر بسنے والے دیگر جانداروں کو بے تحاشہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ ہمارے پھینکے گئے کچرے نے جانوروں اور پرندوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔

    سب سے زیادہ بے رحمانہ رویہ ہمارا پلاسٹک کی طرف ہے جسے ہم ایک بار استعال کر کے پھینک دیتے ہیں۔ پلاسٹک ہزاروں سال تک یونہی زمین پر رہنے والی چیز ہے اور اس کے بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے زمین اب ایک پلاسٹک کا کچرا گھر معلوم ہوتی ہے۔

    یہ پلاسٹک جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ اکثر سمندری و زمینی جانور اور پرندے انہیں کھانے کی اشیا سمجھ کر کھا لیتے ہیں جس کے بعد یہ اشیا ان کے جسم کے اندر پھنس جاتی ہیں۔

    اس کے بعد یہ زہریلا پلاسٹک آہستہ آہستہ اس جاندار کو اس طرح موت کے گھاٹ اتارتا ہے کہ وہ بھوک سے مرتے ہیں تاہم ان کا پیٹ پلاسٹک سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔

    زیر نظرویڈیو بھی ایک ایسی ہی ننھی سی معصوم چڑیا کی ہے جسے جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ افراد نے بغور دیکھا۔ یہ چڑیا بے چینی کا شکار تھی جبکہ کچھ کھا بھی نہیں پا رہی تھی۔

    جب اس ننھی چڑیا کے جسم کا ایکسرے کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے اندر پلاسٹک کی بے شمار اشیا موجود تھیں۔ اس کے بعد اس چڑیا کے جسم میں نلکی ڈال کر ابکائی کے ذریعے وہ اشیا باہر نکالی گئیں۔

    زیر نظر ویڈیو اسی پروسس کی ہے جو اتنی دردناک اور تکلیف دہ ہے جسے دیکھ کر ہر حساس شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ہمای خود غرضی نے ان معصوم بے زبانوں کو کس حال میں پہنچا دیا۔

  • سنہری بالوں والا معصوم بندر

    سنہری بالوں والا معصوم بندر

    کیا آپ سنہری بالوں والے بندر کے بارے میں جانتے ہیں؟

    چین کے جنوبی صوبے یونن میں پائے جانے والے بندر کی ایک قسم کو اپنی ناک اور خوبصورت بالوں کی وجہ سے نہایت منفرد سمجھا جاتا ہے۔ غیر معمولی ہیئت کی ناک کی وجہ سے اسے سنب نوزڈ منکی کہا جاتا ہے۔

    یہ بندر ماحول سے مطابقت کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں اور منفی درجہ حرارت میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ان بندروں کو اپنی پناہ گاہوں کے چھن جانے کی وجہ سے معدومی کا خطرہ ہے، اسی خطرے کو دیکھتے ہوئے چین میں ان بندروں کے ڈی این اے کا تجزیہ کیا جارہا ہے تاکہ ان کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

    1980 کی دہائی میں ان بندروں کا بے دریغ شکار کیا گیا تاہم اس کے بعد سے ان بندروں کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اب بھی ان کی تعداد مستحکم نہیں کہلائی جاسکتی۔

    چین اور میانمار کی سرحد پر رہنے والے ان جانداروں کے تحفظ کے لیے چینی حکومت بڑے پیمانے پر اقدامات کر رہی ہے۔

  • عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمرکوٹ: رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ ناکام بنا دی

    عمر کوٹ: سندھ کے ضلعے عمر کوٹ میں رینجرز نے نایاب نسل کے ہرن کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز نے عمر کوٹ میں دو نایاب نسل کے ہرنوں کی اسمگلنگ کی کوشش نا کام بنا دی، ملزمان گوسٹرو رینجرز چیک پوسٹ پر اہل کاروں کو دیکھ کر گاڑی چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

    دوران تلاشی گاڑی سے 2 نایاب نسل کے ہرن اور ایک ریپیٹر برآمد ہوا، رینجرز نے برآمد ہونے والے ہرن محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیے۔

    رینجرز ذرایع کا کہنا ہے کہ فرار ہونے والے ملزمان کا تعلق تھر کے گاؤں باڑان سے ہے۔ خیال رہے کہ تھر میں نایاب ہرنوں کا شکار اور اسمگلنگ ایک عرصے سے جاری ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا تھا، تھر میں ہرن ایک طرف بھوک پیاس کا شکار ہیں دوسری طرف شکاریوں کا بھی آسان ہدف بن گئے ہیں۔

    اس سلسلے میں ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی، جس میں تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرتے ہوئے دیکھا گیا، وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن کا کہنا تھا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    دنیا کا ہر جاندار اپنے اندر کوئی نہ کوئی ایسی جسمانی انفرادیت رکھتا ہے جو ایک طرف تو اسے دوسرے جانداروں سے ممتاز کرتی ہے تو دوسری طرف اسے مختلف خطرات سے بھی بچاتی ہے۔

    ہاتھی کی انفرادیت اس کی لمبی سونڈ ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہاتھی کی یہ ناک اپنے اندر کیا کیا خصوصیات رکھتی ہے؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    بظاہر یہ ہاتھی کی ناک ہے لیکن اگر آپ لیبارٹری میں کسی سونڈ کو کاٹ کر دیکھیں تو یہ ناک سے زیادہ انسانی زبان سے مشابہہ نظر آئے گی۔

    دراصل ہاتھی کی سونڈ، کسی دوسرے جانور کی زبان اور ہشت پا یعنی آکٹوپس کے بازو نہایت منفرد اعضا ہیں جنہیں ہائیڈرو اسٹیٹ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ مکمل طور پر مسلز سے بنے ہوئے ہیں تاہم سونڈ میں یہ مسلز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق ہاتھی کی سونڈ میں 40 ہزار مسلز ہوتے ہیں جبکہ پورے انسانی جسم میں صرف 650 مسلز ہوتے ہیں۔

    ان مسلز کو حرکت کرنے کے لیے ہڈیوں اور جوڑوں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ورزش کرتے ہوئے جب ہمارے مسلز حرکت کرتے ہیں تو یہ ہڈی اور جوڑ کی مدد سے اوپر اٹھتے ہیں۔

    لیکن ہاتھی کی سونڈ میں کوئی ہڈی یا جوڑ موجود نہیں ہوتا چنانچہ یہ مسلز خود ہی مکمل طور پر حرکت کرتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہاتھی کی سونڈ نہایت لچکدار اور ہر سمت میں حرکت کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

    سونڈ کے یہ مسلز نہایت طاقتور بھی ہوتے ہیں۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے بھاری بھرکم اشیا بھی اٹھا سکتا ہے اور ایک معمولی سا چپس بھی بغیر توڑے اٹھا لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کی سونڈ کی ساخت زبان جیسی ہوتی ہے جبکہ یہ ہاتھ کی طرح کام کرتی ہے تاہم پھر بھی یہ ناک ہی ہے اور نہایت غیر معمولی ناک ہے۔

    کسی بھی جانور کی سونگھنے کی صلاحیت اس کے خلیوں میں موجود اولفیکٹری ریسیپٹرز نامی نیورونز پر منحصر ہوتی ہے اور ہاتھی میں اس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہاتھی کی سونڈ میں تقریباً 2 ہزار ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں، اتنی بڑی تعداد کسی اور جاندار میں موجود نہیں۔ ریسیپٹرز کی سب سے زیادہ تعداد (ہاتھی سے کم) بلڈ ہاؤنڈ میں ہوتی ہے جو کہ 800 ہے، انسانوں میں سونگھنے کے لیے صرف 636 ریسیپٹرز موجود ہوتے ہیں۔

    ہاتھی بموں کو بھی سونگھ سکتے ہیں۔ افریقی ملک انگولا میں ایک تحقیق میں دیکھا گیا کہ ہاتھی زیر زمین بچھی بارودی سرنگوں سے بچ کر چلتے تھے کیونکہ وہ اس میں موجود بارودی اجزا کو سونگھ لیتے تھے۔

    اسی طرح ہاتھی اپنی سونڈ کو آنکھوں کی طرح بھی استعمال کرتے ہیں، یہ اپنی سونڈ سے پانی اور غذا ڈھونڈنے، شکاریوں سے بچنے اور دوسرے ہاتھیوں کی آس پاس موجودگی کا تعین کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔

    گہرے پانی میں سے گزرتے ہوئے ہاتھی سونڈ سے اسنارکلنگ بھی کرتے ہیں تاکہ ڈوبنے سے محفوظ رہیں، جبکہ غسل کرتے ہوئے اس سے فوارے کا کام لیتے ہیں۔ ہاتھی ایک دفعہ میں سونڈ میں 10 لیٹر پانی بھر کر اسے فضا میں اچھال سکتے ہیں۔

    اپنی اس ہمہ جہت اور شاندار سونڈ سے ہاتھی خود بھی واقف ہیں، ان کے سامنے اگر آئینہ رکھ دیا جائے تو یہ زیادہ تر وقت اپنی سونڈ کا معائنہ کرتے ہی گزارتے ہیں۔

    کیا آپ اس سے قبل ہاتھی کی سونڈ کی ان خصوصیات سے واقف تھے؟

  • ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    یوں تو اس زمین پر موجود تمام جانداروں کا وجود دوسرے جانداروں کے لیے بے حد ضروری ہے اور ہر جاندار دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے، تاہم حال ہی میں ایک ایسی دریافت سامنے آئی جس نے ماہرین کو بھی حیران کردیا۔

    میانمار کے جنگلوں میں تحقیق کرنے والے چند ماہرین نے دیکھا کہ وہاں موجود ہاتھی، جنگل کے مینڈکوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا سبب تھے۔ یہ پناہ گاہ ہاتھی کے پاؤں سے بننے والا گڑھا تھا جہاں مینڈکوں نے رہنا شروع کردیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا بارشوں میں جب پانی سے بھر جاتا ہے تو اس وقت یہ ننھے مینڈکوں کے لیے نہایت محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مادہ مینڈک یہاں پر انڈے دیتی ہیں اور انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد ننھے مینڈک طاقتور ہونے تک انہی تالاب نما گڑھوں میں رہتے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ہاتھی کے وزن کی وجہ سے اس کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا خاصا گہرا ہوتا ہے لہٰذا یہ خاصے وقت تک قائم رہتا ہے اور اس دوران دوسرے جانوروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    ایسی ہی صورتحال اس سے قبل افریقی ملک یوگنڈا مں بھی دیکھی گئی تھی جہاں ہاتھی کے پاؤں سے بننے والے گڑھوں میں ننھے مینڈک اور دیگر کیڑے مکوڑے بھی مقیم تھے۔

    ماہرین نے ہاتھیوں کی اس خاصیت کی وجہ سے انہیں ایکو سسٹم انجینئرز کا نام دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تتلیاں کچھوؤں کے آنسو پیتی ہیں

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی ایکو سسٹم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ بیجوں کے پھیلانے اور اس طرح کے عارضی تالاب تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جبکہ یہ اپنی خوراک کے لیے درختوں کی شاخوں کو توڑتے ہیں جس سے بعد ازاں دیگر جانور بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک تعلق اس بات کا ثبوت ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی ایک ایک کڑی اور ایک ایک رکن نہایت اہم ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے پورے سلسلے کی حفاظت کی جائے۔

  • ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    جانوروں میں ایک دوسرے سے محبت اور ان کی حفاظت کا جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے، اس کی ایک مثال افریقہ کے جنگلات میں بھی دیکھنے میں آئی جب ہاتھیوں نے اپنے زخمی بے ہوش ساتھی کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔

    زیر نظر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہاتھی ایک کسان کے پھینکے گئے تیر سے زخمی ہوگیا، زخمی ہاتھی کی مدد کے لیے ویٹ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور ان کی حفاظت کے لیے رینجرز کا ایک دستہ اس مقام پر پہنچا۔

    ان ڈاکٹرز نے زخمی ہاتھی کو گن سے ڈارٹ پھینک کر بے ہوش کیا تاہم اس کے ساتھ ہی کسی حد تک متوقع صورتحال بھی سامنے آگئی۔

    ہاتھیوں کا جھنڈ اپنے زخمی ساتھی کے گرد جمع ہوگیا۔ رینجرز نے ان ہاتھیوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی لیکن ہاتھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آخر کار کسی طرح ان ہاتھیوں کو ہٹایا گیا اور زخمی ہاتھی کے گوشت میں دھنسا تیر نکالا گیا۔

    ویٹ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ ہاتھی کسانوں کی فصل روند ڈالتے ہیں لہٰذا کسان انہیں ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، وہ ہاتھی کو اپنی فصل کے ارد گرد دیکھ کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں تاکہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے پھینکے گئے ہتھیار جیسے تیر وغیر ان ہاتھیوں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ہاتھی خود سے انہیں نہیں نکال سکتے۔ یہ ہتھیار ان کے جسم کے اندر رہ کر انفیکشن پیدا کرسکتے ہیں جس سے ہاتھی کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ایک ویٹ ڈاکٹر کا کہنا تھا، ’ہاتھیوں کو زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم ان سے ان کی جگہ چھین رہے ہیں، پھر ہم ان کی دخل اندازی پر انہیں نقصان بھی پہنچاتے ہیں‘۔

    مذکورہ واقعے میں صرف 45 منٹ کے اندر نہ صرف ہاتھی ہوش میں آ گیا بلکہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہوگیا۔

  • سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    سال کا طویل ترین دن زمین کے طویل القامت جانور کے نام

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جس کا گھر افریقہ کے جنگلات ہیں۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟ ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ نے زرافوں کو لڑتے دیکھا ہے؟

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔

    معدومی کی طرف گامزن

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

  • تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھر: بھوک پیاس کے مارے ہرنوں کا شکار، گوشت فروخت کیے جانے کا انکشاف

    تھرپارکر: سندھ کے ایک تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کو ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کرنے کا انکشاف ہوا ہے، تھر میں بھوک پیاس کے مارے ہرن شکاریوں کا آسان ہدف بن گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرایع کا کہنا ہے کہ تھر کے تعلقے ڈاہلی میں نایاب ہرنوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے، ایک جانب تھر میں غذا کے ذرایع کی کمی کے باعث جانور مر رہے ہیں، دوسری جانب مصیبت زدہ ہرنوں کو شکار کیا جانے لگا ہے۔

    تھرپارکر کے علاقے کرانگڑی کے شکاریوں کی ہرن ذبح کرنے کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہیں۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ سرحدی دیہات میں ہرن ذبح کر کے شہروں میں گوشت مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے، دوسری طرف افسوس ناک امر یہ ہے کہ وائلڈ لائف افسر اشفاق میمن نے اعتراف کیا ہے کہ نشان دہی ہونے اور ٹھوس ثبوت کے باوجود کارروائی نہیں کر سکتے۔

    نمایندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق نایاب ہرن کا گوشت کراچی، حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے امیر لوگ خریدتے ہیں جو ہرن کا گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ چند دن قبل تھرپارکر میں ہرن کا گوشت فروخت کرنے والے چند لوگوں کو پکڑا گیا تھا لیکن محکمہ وائلڈ لائف نے چند پیسوں کے عوض انھیں چھوڑ دیا۔

    تازہ خبریں پڑھیں: امریکی ساحل وہیل کے لیے قتل گاہ بن گئے

    وائرل ہونے والی ایک اور ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ تھر میں ایک نایاب ہرن کو گولی مار کر گرایا گیا۔

    اشفاق میمن نے یہ بھی بتایا کہ نایاب ہرنوں کے شکار کی خبریں زیادہ تر عمر کوٹ کے سرحدی علاقوں کی ہیں۔

    واضح رہے کہ تھر کی خوب صورتی میں اضافہ کرنے والے نایاب ہرن ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن اب یہ بہت کم تعداد میں نظر آنے لگے ہیں، جس کی وجہ عمر کوٹ کے صحرائے تھر سے لگنی والی بھارتی سرحد کی نزدیکی گوٹھوں میں اس کا بے دریغ شکار ہے جس پر محکمہ وائلڈ لائف نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

  • جائنٹ پانڈا روس پہنچ گیا

    جائنٹ پانڈا روس پہنچ گیا

    ماسکو: چین کی پانڈا ڈپلومیسی کے تحت جائنٹ پانڈا روس کے دارالحکومت ماسکو پہنچ گیا، معصوم پانڈا کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد امڈ آئی۔

    چینی صدر زی جن پنگ کے دورہ ماسکو کے موقع پر چین سے 2 جائنٹ پانڈا بھی ماسکو پہنچ گئے، چین کی جانب سے پانڈا ڈپلومیسی روس کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے۔

    چین سے لائے گئے پانڈا کی تعداد 2 ہے جن کی چڑیا گھر میں رونمائی کے موقع پر چینی صدر اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی موجود تھے۔

    یاد رہے کہ پانڈا صرف چین میں پایا جاتا ہے جہاں اس کی معدوم ہوتی نسل کو دیکھتے ہوئے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد اب پانڈا کی نسل مستحکم درجے پر آگئی ہے۔

    چین اب اسے امریکا سمیت دوسرے ممالک میں بھی بھیج رہا ہے جسے پانڈا ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔

    اس سے ایک طرف تو چین کے بین الاقوامی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، دوسری جانب پانڈا کی ختم ہوتی نسل کو بھی دیگر مقامات اور آب و ہوا سے متعارف کروایا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف موسموں سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی نسل میں اضافہ کریں۔