Tag: جنگلی حیات

  • 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سینگیں مارنے والی بھیڑ

    20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سینگیں مارنے والی بھیڑ

    کیا آپ نے بگ ہارن بھیڑ کے بارے میں سنا ہے؟

    شمالی امریکہ کے مغربی پہاڑوں میں پائی جانے والی جسیم جنگلی بھیڑ اپنے انوکھے سینگوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ خم دار سینگ رکھنے والی اس بھیڑ کا نام بھی اس کے سینگوں کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔

    اس بھیڑ کے سینگوں کا وزن 14 کلو گرام کے قریب ہوتا ہے جبکہ خود اس کا وزن 140 کلو گرام ہوتا ہے۔

    جب یہ بھیڑیں آپس میں لڑتی ہیں تو اپنے وزنی سینگ آپس میں بھڑاتی ہیں۔ یہ بھیڑ 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مقابل کو اپنے سینگ مارتی ہیں اور اگر اس کے مقابلے میں انسان ہو تو فوری طور پر اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

    اس رفتار پر نر بھیڑ گھنٹوں تک لڑتے رہتے ہیں جس کی زیادہ تر وجہ مادائیں ہوتی ہیں۔

    ان بھیڑوں کے سر کے ڈھانچے میں ہڈیوں کی دوہری تہہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ سینگوں کے زور دار جھٹکے کو باآسانی سہہ جاتے ہیں۔

    آپس میں لڑنے والے بھیڑوں کی عمریں 7 سے 8 برس ہوتی ہیں کیونکہ اس عمر تک ان کے سینگ طاقتور اور سر ان جھٹکوں کو سہنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس سے کم عمر بھیڑ ایسی جان لیوا لڑائیوں کے قابل نہیں ہوتے۔

  • ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    ننھے کچھوؤں کی بقا کی جدوجہد آپ کو حیران کردے گی

    کیا آپ جانتے ہیں مادہ کچھوا ایک وقت میں 60 سے 100 انڈے دیتی ہے تاہم ان انڈوں میں سے نکلنے والا صرف ایک بچہ ہی زندہ رہ پاتا ہے اور طویل عمر پاتا ہے؟

    ان ننھے بچوں کو انڈوں سے نکلنے کے بعد اپنی بقا کی جدوجہد خود ہی کرنی ہوتی ہے جس میں اکثر یہ اپنی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔

    مادہ کچھوا ساحل پر ایک گڑھے میں انڈے دینے کے بعد اس گڑھے کو ڈھانپ کر چلی جاتی ہے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آتی، وقت پورا کرنے کے بعد انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں، اب ان بچوں کو سمندر تک پہنچنا ہوتا ہے اور یہ ان کے لیے خطرناک چیلنج ہوتا ہے۔

    سمندر تک پہنچنے کے راستے میں ساحل پر موجود مختلف جانور اور پرندے ان بچوں کی تاک میں ہوتے ہیں۔ ساحل پر پھرتے آوارہ کتے اور کوے باآسانی ان ننھے بچوں کو پکڑ لیتے ہیں اور انہیں کھا جاتے ہیں۔

    اسی طرح ساحل پر موجود کیکڑے بھی گو کہ جسامت میں ننھے کچھوؤں سے چھوٹے ہی ہوتے ہیں تاہم یہ نومولود بچوں کے مقابلے میں طاقتور ہوتے ہیں اور آرام سے انہیں کھینچ کر اپنے بل میں لے جاسکتے ہیں۔

    ننھے کچھوے ان کیکڑوں سے جان چھڑا کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کھینچا تانی میں کبھی وہ ناکام ہوجاتے ہیں اور کبھی کامیاب۔

    ایسے موقع پر اگر ساحل پر کچھ لوگ موجود ہوں تو اکثر لوگ ان ننھے کچھوؤں کو پکڑ کر بازار میں بیچ دیتے ہیں یا پالنے کے لیے گھر لے آتے ہیں، جہاں یہ چند دن جینے کے بعد بالآخر مر جاتے ہیں۔

    سمندر تک پہنچنے کے بعد بھی کم گہرے پانی میں کوئی چیل غوطہ لگا کر انہیں اپنے پنجوں میں دبا کر لے جاتی ہے۔ اپنے انڈے سے نکلنے کے بعد جب یہ کچھوے سمندر تک پہنچتے ہیں تو ان کی تعداد بہ مشکل ایک یا دو ہوتی ہے۔

    ننھے کچھوؤں کی اس ساری جدوجہد کو آپ بی بی سی کی اس ویڈیو میں دیکھ سکتے ہیں۔

    کچھوؤں کو لاحق خطرات کے بارے میں تفصیل سے پڑھیں

  • کچھوؤں کا عالمی دن

    کچھوؤں کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں کچھوے کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے کچھوے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    کچھوا زمین پر پائے جانے والے سب سے قدیم ترین رینگنے والے جانداروں میں سے ایک ہے۔ یہ اس زمین پر آج سے لگ بھگ 21 کروڑ سال قبل وجود میں آیا تھا۔

    اس کی اوسط عمر بھی بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    کچھوا دنیا کے تمام براعظموں پر پایا جاتا ہے سوائے براعظم انٹار کٹیکا کے۔ اس کی وجہ یہاں کا سرد ترین اور منجمد کردینے والا موسم ہے جو کچھوؤں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    بدقسمتی سے اس وقت کچھوؤں کی زیادہ تر اقسام معدومی کے خطرے سے دو چار ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق دنیا بھر میں کچھوؤں کی 300 میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ یہ اقسام معمولی یا شدید قسم کے خطرات سے دو چار ہیں۔

    کچھوؤں کی ممکنہ معدومی اور ان کی آبادی میں کمی کی وجوہات ان کا بے دریغ شکار، غیر قانونی تجارت، اور ان پناہ گاہوں میں کمی واقع ہونا ہے۔

    مزید پڑھیں: کچھوے کے بارے میں حیران کن اور دلچسپ حقائق

  • درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    درخت کترنے والے ہدہد سے ملیں

    کیا آپ ننھے سے پرندے ہدہد کے بارے میں جانتے ہیں؟ درخت کترنے کے لیے مشہور اس پرندے کا نام قرآن کریم میں بھی موجود ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کو یمن کی ملکی سبا کے بارے میں اطلاع دیتا ہے۔

    اس پرندے کی اہم خاصیت درخت کے تنے کو کترنا ہے۔ ہدہد کو عموماً ہم 80 کی دہائی کے مقبول کارٹون سیریز ووڈی ووڈ پیکر کے ذریعے جانتے ہیں جس نے اسے ہر خاص و عام میں مقبول بنا دیا۔

    ہدہد براعظم انٹار کٹیکا کے علاوہ ہر براعظم پر پایا جاتا ہے۔ یہ عمودی طور پر بھی درخت پر چڑھ سکتے ہیں، لکڑی کو کترتے ہوئے یہ اسے مضبوطی سے اپنے پنجوں سے پکڑ لیتے ہیں اس کے بعد کترنے کا عمل شروع کرتے ہیں۔

    ہدہد کے لکڑی کترنے کی 3 وجوہات ہیں۔ لکڑی کترنا ان کا آپس میں گفتگو کا ذریعہ بھی ہے، لکڑی کترتے ہوئے یہ مخصوص آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنے پیغامات پہنچاتے ہیں۔

    علاوہ ازیں اس عمل کے ذریعے یہ تنوں میں رہنے والے کیڑوں تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنی خوارک کا حصہ بناتے ہیں، جبکہ انڈے دینے کے لیے بھی یہ درخت کے تنوں میں سوراخ بناتے ہیں۔

    ہدہد کی ایک قسم ان سوراخوں میں سردیوں کے لیے خوراک بھی محفوظ کرتی ہے۔

    درخت کترتے ہوئے ان ننھے منے پرندوں کے سر کو زوردار جھٹکا لگتا ہے جیسا کہ آپ اوپر دیکھ سکتے ہیں تاہم اس قدر سخت تنے کھودنے کے بعد بھی یہ بالکل چاک و چوبند اور تندرست رہتے ہیں اور ان کے سر کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

    دراصل ان پرندوں کے سر میں نرم ٹشوز اور ایئر پاکٹس ہوتے ہیں جس کے باعث ہدہد کسی بھی نقصان سے محفوظ رہتے ہیں۔

  • راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    راستہ بھول کر صحرا میں آجانے والے کچھوے کی خوش قسمتی

    اپنے گھر جاتے ہوئے راستہ بھول جانا نہایت پریشان کن ہوسکتا ہے، خصوصاً اگر کوئی راستہ بھول کر صحرا میں نکل پڑے تو نہایت خوفناک صورتحال ہوسکتی ہے جہاں نہ کھانے کو کچھ ملے گا اور نہ پانی۔

    ایسا ہی کچھ ایک کچھوے کے ساتھ بھی ہوا جو اپنے گھر کا راستہ بھول کر صحرا میں آگیا۔

    صحرا میں 80 ڈگر سینٹی گریڈ درجہ حرارت نے اس کچھوے کو پیاس سے نڈھال کردیا، لیکن اس کچھوے کی خوش قسمتی کہ یہ بارشوں کا موسم تھا۔ بادل آئے اور تھوڑی ہی دیر میں صحرا میں جل تھل ایک ہوگیا۔

    برازیل کے اس صحرا میں بارش کے بعد پانی کے ذخائر جمع ہوجاتے ہیں جو خلا سے بھی دکھائی دیتے ہیں، یہ ذخائر اس کچھوے کے لیے زندگی کی امید ثابت ہوئے۔

    کچھوے نے اس جوہڑ میں چھلانگ لگائی اور ٹھنڈے پانی کا لطف اٹھانے لگا۔

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • 140 برس بعد بھیڑیوں کی واپسی

    140 برس بعد بھیڑیوں کی واپسی

    یورپی ملک نیدر لینڈز میں 140 برس بعد بھیڑیے دیکھے گئے۔ بھیڑیوں کی آبادی میں تقریباً خاتمے کے بعد اب اسے بھیڑیوں کی واپسی کہا جارہا ہے۔

    ایک صدی قبل تک نیدر لینڈز میں بھیڑیوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا تھا، زیادہ تر بھیڑیوں کی ہلاکتیں کسانوں کے ہاتھوں ہوتی تھیں جو اپنے مویشیوں پر انہیں حملہ آور دیکھ کر انہیں مار دیتے تھے۔

    نتیجتاً نیدر لینڈز سے بھیڑیوں کی آبادی ختم ہوگئی تھی، تاہم اب سنہ 2005 سے اکا دکا بھیڑیے مختلف جگہوں پر دکھائی دے رہے تھے۔

    ماہرین ماحولیات نے جب اس حوالے سے جانچ پڑتال شروع کی تو انہوں نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے جرمنی اور فرانس سے آرہے تھے۔

    گزشتہ کچھ عرصے میں ماہرین نے کافی وقت تک 2 مادہ اور ایک نر بھیڑیے کو دیکھا، ان کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں پر 6 ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے اور ان کی یہیں پر موجودگی ثابت کرتی ہے کہ وہ اب یہاں مطمئن ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب مقامی چرواہے بھیڑیوں کی واپسی سے خوش نہیں ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ بھیڑیے، ان کی بھیڑوں اور بکریوں پر حملے کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں مال مویشی کے نقصان کے بعد انہیں حکومت کی جانب سے معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔

    نیدر لینڈز کی وزارت ماحولیات کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں بھیڑیے اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور دوسری جانب دیگر جانور بھی ان کے حملوں سے محفوظ رہیں۔ وہ ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں جن سے چرواہے بھی مطمئن رہیں جبکہ بھیڑیے بھی اپنے فطری ماحول میں افزائش پاسکیں۔

  • سانحہ کرائسٹ چرچ، جنگلی حیات کیلئے قائم ٹرسٹ کا شہید بچوں کو خراج تحسین

    سانحہ کرائسٹ چرچ، جنگلی حیات کیلئے قائم ٹرسٹ کا شہید بچوں کو خراج تحسین

    ولنگٹن : نیوزی لینڈ حکام نے کرائسٹ چرچ حملے میں شہید ہونے والے چھ نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے کیوی پرندوں کے نام بچوں سے منسوب کردئیے۔

    تفصیلات کے مطابق نیوزی لینڈ کے تیسرے برے شہر کرائسٹ چرچ میں گزشتہ ماہ سفید فام نسل پرست دہشت گرد برنٹین ٹیرنٹ نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 50 مسلمانوں کو شہید کردیا تھا جس کے بعد نیوزی لینڈ کی عوام کی جانب سے مسلسل مختلف انداز میں شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ میں جنگلی حیات کی بقا کے لیے قائم پیوکینی ویسٹرن ہلزفارسٹ ٹرسٹ نے افسوس ناک حملے میں شہید ہونے والے چھ نوجوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے چھ کیوی پرندوں لے نام ان سے منسوب کرکے انہیں جنگل میں آزاد کردیا۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ پیوکینی ویسٹرن ہلز فارسٹ ٹرسٹ نے کیوی پرندوں کے نام مذکورہ بچوں کے نام سے منسوب کیے ہیں۔

    ’24 سالہ طارق عمر، 21 سالہ طلحہٰ نعیم، 17 سالہ محمد مازق محمد ترمذی، 16 سالہ حمزہ مصطفیٰ، 14 سالہ سیّد ملنی، 3 سالہ ابراہیم‘

     

    پیوکینی ہلز فارسٹ ٹرسٹ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں نہیں پتہ کہ ہم نے کوئی بڑا کام کیا ہے یا نہیں، ہم بس متاثرہ بچوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے‘۔

    مزید پڑھیں : سانحہ کرائسٹ چرچ، عدالت نے دہشت گرد کے دماغی معائنے کا حکم دے دیا

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت نے سفید فام دہشت گرد برینٹن ٹیرنٹ پر 50 افراد کے قتل کی فرد جرم عائد کی تھی تاہم دہشت گرد پر دہشت گردی کا مقدمہ چلانے سے پہلے نیوزی لینڈ کی عدالت نے ملزم کے دماغی معائنے کا حکم دے دیا۔

    مزید پڑھیں : نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں فائرنگ‘ 49 افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گرد حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 49 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے تھے۔

    مرکزی حملہ آور کی شناخت 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے نام سے ہوئی ہے اور وہ آسٹریلوی شہری ہے جس کی تصدیق آسٹریلوی حکومت نے کردی۔

  • ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    ننھے شکاریوں کے تربیتی مراحل

    دنیا کے تیز ترین جانوروں میں سے ایک سمجھا جانے والا جانور چیتا شکار پر اپنی زندگی گزارتا ہے، نہایت چالاکی کے ساتھ خاموشی سے شکار کی طرف جانا اور بجلی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹنا اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔

    شکار چیتے کی فطرت ہے اور یہ خاصیت اس وقت بھی ان میں نظر آتی ہے جب وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اپنی ماں پر انحصار کرتے ہیں۔

    ننھے چیتے آپس میں ہی لڑتے، ایک دوسرے پر جھپٹتے اور ایک دوسرے کے کان کاٹتے دکھائی دیتے ہیں جیسے زیر نظر اس ویڈیو میں دکھائی دے رہا ہے۔

    گو کہ ان ننھے چیتوں کی رفتار اور طاقت کم ہے مگر ابھی وہ اپنی تربیت کے ابتدائی مرحلے میں ہیں، ایک مخصوص عمر تک پہنچنے کے بعد وہ گھاگ شکاریوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے۔

    سوسائٹی برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو سی ایس اور زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی ایک رپورٹ کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں گزشتہ 16 سال میں چیتوں کی آبادی میں 85 فیصد سے زائد کمی آچکی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی اس رپورٹ  میں تجویز کیا گیا تھا کہ چیتے کو عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی خطرے کا شکار جنگلی اقسام کی سرخ فہرست (ریڈ لسٹ) میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا جائے۔

    نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے جریدے میں چھپنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے، اور اس وقت دنیا بھر میں اس تعداد کا نو فیصد یعنی صرف 7 ہزار 100 چیتے موجود ہیں۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

  • درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    درد مند کسان پیاسے جانوروں کو بچانے کے لیے کوشاں

    آسٹریلیا میں پایا جانے والا گلہری کا ہم شکل جانور کوالا موسمیاتی تغیرات اور سخت گرمی کے باعث پیاس کے ہاتھوں بے حال ہے، ایسے میں ایک کسان ان معصوم جانوروں کی پیاس بجھانے کے لیے کوشاں ہے۔

    کوالا کو بھالو کی نسل سے سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک کیسہ دار (جھولی والا) جانور ہے اور کینگرو کی طرح اس کے پیٹ پر بھی ایک جھولی موجود ہوتی ہے جہاں اس کے نومولود بچے پرورش پاتے ہیں۔

    کوالا کی بنیادی خوراک یوکلپٹس (درخت) کے پتے ہیں جو ان کے جسم کو نہ صرف توانا رکھتا ہے بلکہ ان کے جسم کو درکار پانی کی بے تحاشہ ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ تاہم موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث یوکلپٹس کی پیداوار میں کمی آرہی ہے۔

    یوکلپٹس کے تازہ پتوں میں پرانے پتوں کی نسبت زیادہ نمی ہوتی ہے لہٰذا کوالا بہت شوق سے یوکلپٹس کے تازہ پتے کھاتے ہیں۔

    تاہم اس درخت کی پیداوار میں کمی سے ایک تو تازہ پتوں کی بھی کمی واقع ہورہی ہے، دوسری جانب کلائمٹ چینج کے اثرات کے باعث نئے یوکلپٹس کے پتے پہلے کی طرح ترو تازہ اور نمی سے بھرپور نہیں ہوتے جو کوالا کی پیاس بجھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کوالا کے لیے ایک سنگین صورتحال ہے جس کی وجہ سے یہ جانور پیاس کی شدت سے مر رہے ہیں۔ ان کے مطابق آسٹریلیا کے جنگلات میں اب 1 لاکھ سے بھی کم کوالا رہ گئے ہیں۔

    دوسری جانب موسم گرما کی شدت میں اضافہ اور ہیٹ ویوز بھی ان معصوم جانوروں کے لیے مزید زحمت ثابت ہوتا ہے اور اس موسم میں ان کی اموات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    ایک کسان روبرٹ نے ان جانوروں کے لیے پانی کے ذخائر بنانے شروع کردیے ہیں۔ اس کسان نے یونیورسٹی آف سڈنی کے اشتراک سے اسٹیل کے بڑے برتن میں پانی رکھنا شروع کیا ہے جس میں پانی کی فراہمی ایک الیکٹرک موٹر کے ذریعے رواں رہتی ہے۔

    وہ بتاتے ہیں کہ بعض اوقات کوالا اتنے پیاسے ہوتے ہیں کہ گھنٹوں تک پانی پیتے رہتے ہیں۔ پانی کے یہ ذخائر درختوں کے قریب نصب کیے جارہے ہیں۔

    دوسری جانب کوالا کے لیے پانی رکھنے کے حوالے سے آگاہی مہمات بھی چلائی جارہی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جارہا ہے، کہ ’اگر ان معصوم جانوروں کو پانی نہ ملا تو یہ پلک جھپکتے میں غائب (معدوم) ہوجائیں گے‘۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوالا کو لاحق ان خطرات کے باعث یہ معصوم جانور سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتا ہے۔