Tag: جنگلی حیات

  • زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    زمین پر موجود معمر ترین جانور سے ملیں

    ہماری زمین پر پائے جانے والے کئی جانور اپنی طویل العمری کے لیے مشہور ہیں، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک جاندار سے ملانے جارہے ہیں جسے زمین کا معمر ترین جانور قرار دیا جاتا ہے۔

    ساؤتھ انٹلانٹک میں موجود یہ جانور ایک کچھوا ہے جس کا نام جوناتھن اور عمر 187 سال ہے۔ یہ کچھوا سنہ 1832 میں پیدا ہوا۔

    کچھوؤں کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے۔ عام طور پر ایک کچھوے کی عمر 30 سے 50 سال تک ہوسکتی ہے۔ بعض کچھوے 100 سال کی عمر بھی پاتے ہیں۔ سمندری کچھوؤں میں سب سے طویل العمری کا ریکارڈ 152 سال کا ہے۔

    اس سے قبل تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحر الکاہل کے جزیرے ٹونگا میں پایا جاتا تھا جو اپنی موت کے وقت 188 سال کا تھا۔ اب جوناتھن اس ریکارڈ کو توڑنے والا ہے، تاہم اس وقت بھی وہ زمین کا سب سے معمر جانور ہے۔

    سینٹ ہیلینا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں موجود یہ کچھوا وہاں خاصا مشہور ہے، لوگ اس سے ملنے آتے ہیں اور اس کے لیے تازہ سبزیاں لاتے ہیں۔ اس کی تصویر قصبے کی مقامی کرنسی میں 5 پینس کے سکے پر بھی موجود ہے۔

    کچھ عرصے قبل جوناتھن بیمار ہوگیا تھا اور اس کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی جس کے بعد اس کا علاج کیا گیا اور خصوصی سپلیمنٹس دیے گئے۔ اس کے نگرانوں کا کہنا ہے کہ اب جوناتھن بالکل صحت مند اور فٹ ہے اور پرسکون زندگی گزار رہا ہے۔

  • کیا آپ نے یہ خوبصورت سی جنگلی بلی دیکھی ہے؟

    کیا آپ نے یہ خوبصورت سی جنگلی بلی دیکھی ہے؟

    کیا آپ نے کبھی مٹیالے رنگ کی جنگلی بلی دیکھی ہے؟ صحراؤں میں رہنے والی اس بلی کو سینڈ کیٹ کہا جاتا ہے۔

    بلیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم پینتھرا نے حال ہی میں اس بلی کو عکسبند کیا اور یہ ان بلیوں کی پہلی عکسبندی ہے۔

    مراکش کے صحرا میں ملنے والے ان بلونگڑوں کی عمریں 6 سے 8 ہفتے تھی جبکہ یہ جھاڑی سے ملتے جلتے رنگ کی وجہ سے بہت مشکل سے دکھائی دیتے تھے۔

    سینڈ کیٹ صحرا میں رہنے والی بلی کی واحد قسم ہے اور یہ شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ، اور وسطی ایشیا کے صحراؤں میں پائی جاتی ہے۔

    یہ بلی سخت سرد اور گرم موسم کی عادی ہوتی ہے جبکہ یہ طویل وقت تک پیاسی بھی رہ سکتی ہے۔

    سنہ 2002 میں اس کی آبادی میں کمی کو دیکھتے ہوئے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔

  • برف پر چلنا سیکھتے اور گرتے پھسلتے ننھے برفانی بھالو

    برف پر چلنا سیکھتے اور گرتے پھسلتے ننھے برفانی بھالو

    برفانی بھالو یوں تو برف میں رہنے والا جانور ہے اور برف ہی اس کی بقا کی ضمانت ہے، تاہم ننھے بھالوؤں کو برف پر چلنا سیکھنا پڑتا ہے اور اس دوران وہ نہایت دلچسپ انداز میں گرتے اور پھسلتے رہتے ہیں۔

    بی بی سی ارتھ کی ایسی ہی ایک ویڈیو میں برفانی بھالوؤں کی برف پر چلنے کی کشمکش کو فلمبند کیا گیا ہے۔ مادہ بھالو سات ماہ ہائبرنیشن (سونے) کا وقت گزارنے کے بعد تازہ برف سے لطف اندوز ہورہی ہے۔

    دوسری جانب اس کے ننھے بچے برف پر گر اور پھسل رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی زندگی میں پہلی بار برف پر چلنا پڑ رہا ہے۔

    کچھ وقت تک برف پر پھسلنے کے بعد آہستہ آہستہ وہ اس پر چلنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں اور پھر کھیلنا شروع کردیتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت 20 سے 25 ہزار برفانی بھالو موجود ہیں۔ یہ قطب شمالی دائرے (آرکٹک سرکل) میں پائے جاتے ہیں۔ اس دائرے میں کینیڈا، روس اور امریکا کے برفانی علاقے جبکہ گرین لینڈ کا وسیع علاقہ شامل ہے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔

    برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

  • طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    افریقی ملک کینیا میں طویل ترین دانت رکھنے والی 60 سالہ ہتھنی کی آخری تصاویر نے لوگوں کو دم بخود کردیا۔

    کینیا کے میدانوں میں گھومتی یہ ہتھنی جسے ’ایف_ایم یو 1‘ کا نام دیا گیا، اس قدر بڑے دانت رکھتی تھی کہ یہ زمین کو چھوتے تھے، اور جب یہ چلتی تھی تو اس کے دانت زمین کو کھرچتے ہوئے آگے بڑھتے تھے۔

    برطانوی فوٹو گرافر ول بررڈ لوکس نے اس کی مرنے سے قبل آخری تصاویر کھینچیں جنہوں نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    ول کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم جانور کو نہ دیکھتے تو کبھی اس کے وجود پر یقین نہ کرتے۔ ’اگر ہاتھیوں کی کوئی ملکہ ہوتی، تو یقیناً وہ یہی ہتھنی ہوتی‘۔

    اس طرح کے بڑے اور مکمل دانت رکھنے والے ہاتھی افریقہ میں چند ہی پائے جاتے ہیں جنہیں ’سپر ٹسکرز‘ کہا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اکثر ہاتھی شکاریوں کے ہاتھوں اپنے دانتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

    اس ہتھنی کی موت کے بعد اب افریقہ میں بڑے دانتوں والے صرف 30 ہاتھی رہ گئے ہیں، تاہم یہ بھی شکاریوں کی نظر میں ہیں۔

    ول کا کہنا ہے کہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ ہتھنی کسی شکاری پھندے، گولی یا زہریلے تیر کا شکار نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت مرگئی۔ اب سے 2 سال قبل ایسے ہی ایک 50 سالہ سپر ٹسکر ہاتھی کو شکاریوں نے زہریلے تیر کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    خیال رہے کہ کچھ دن قبل کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات بشمول ہاتھی کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا کے مطابق اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

  • کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا گیا۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا نے اعلان کیا ہے کہ جنگلی حیات کا شکار کرنے پر موجودہ سزائیں ناکافی ہیں اور اب جلد شکار کرنے پر سزائے موت کا قانون بنا دیا جائے گا۔

    نجیب بلالا کا کہنا تھا کہ اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    کینیا کے اس اقدام کے بعد اسے اقوام متحدہ میں مخالفت اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک میں کسی بھی جرم پر سزائے موت کی سخت مخالف ہے۔

    خیال رہے کہ کینیا میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں شیر، زرافے، زیبرا، شتر مرغ، گینڈے اور دریائی گھوڑے شامل ہیں۔ یہ جانور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک کی سیاحت کا بڑا سبب ہیں۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

    حکام کو امید ہے کہ سزائے موت کے بعد اب ان جانوروں کے شکار میں مزید کمی آتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ شکار بند ہوجائے گا۔

  • برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی بھالوؤں کا عالمی دن

    برفانی علاقوں میں رہنے والے سفید برفانی بھالو کا آج عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد برفانی ریچھوں کی نسل کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

    عالمی درجہ حرارت میں تیز رفتار اضافے اور تبدیلیوں یعنی گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں موجود برفانی علاقوں کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ برفانی بھالو چونکہ برف کے علاوہ کہیں اور زندہ نہیں رہ سکتا لہٰذا ماہرین کو ڈر ہے کہ برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ اس جانور کی نسل میں بھی تیزی سے کمی واقع ہونی شروع ہوجائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ برفانی ریچھوں کی نسل معدوم ہوجائے گی۔

    اس وقت دنیا بھر میں 20 سے 25 ہزار برفانی بھالو موجود ہیں۔ یہ قطب شمالی دائرے (آرکٹک سرکل) میں پائے جاتے ہیں۔ اس دائرے میں کینیڈا، روس اور امریکا کے برفانی علاقے جبکہ گرین لینڈ کا وسیع علاقہ شامل ہے۔

    مئی 2008 میں جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے برفانی بھالوؤں کو خطرے کا شکار جانور قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق اگر موسموں میں تبدیلی اور برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو ہم بہت جلد برفانی بھالوؤں سے محروم ہوجائیں گے۔

    برف پگھلنے کے علاوہ ان بھالوؤں کو ایک اور خطرہ برفانی سمندروں کے ساحلوں پر انسانوں کی نقل و حرکت اور شور شرابے سے بھی ہے جو انہیں منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل ماہرین نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں ان ریچھوں کو لاحق ایک اور خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق ان ریچھوں کو وہیل اور شارک مچھلیوں کے جان لیوا حملوں کا خطرہ ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ برفانی علاقوں کی برف پگھلنے سے سمندر میں موجود وہیل اور شارک مچھلیاں ان جگہوں پر آجائیں گی جہاں ان ریچھوں کی رہائش ہے۔

    مزید پڑھیں: اپنے گھر کی حفاظت کرنے والا بھالو گولی کا نشانہ بن گیا

    علاوہ ازیں ریچھوں کو اپنی خوراک کا بندوبست کرنے یعنی چھوٹی مچھلیوں کو شکار کرنے کے لیے مزید گہرے سمندر میں جانا پڑے گا جہاں شارک مچھلیاں موجود ہوں گی یوں ان بڑی مچھلیوں کے لیے ان ریچھوں کا شکار آسان ہوجائے گا۔

    ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ایک شارک کے معدے میں برفانی ریچھ کے کچھ حصہ پائے گئے تھے جس کی بنیاد پر یہ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ ماہرین یہ تعین کرنے میں ناکام رہے کہ آیا اس شارک نے ریچھ کو شکار کیا، یا پہلے سے مردہ پڑے ہوئے کسی ریچھ کو اپنی خوراک بنایا۔

    اب تک یہ برفانی حیات ان شکاری مچھلیوں سے اس لیے محفوظ تھی کیونکہ برف کی ایک موٹی تہہ ان کے اور سمندر کے درمیان حائل تھی جو بڑی مچھلیوں کے اوپر آنے میں بھی مزاحم تھی۔

    شارک مچھلیاں اس برف سے زور آزمائی سے بھی گریز کرتی تھیں کیونکہ اس صورت میں وہ انہیں زخمی کر دیتی تھی، تاہم اب جس تیزی سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پگھل رہی ہے، اس سے یہاں بچھی ہوئی برف کمزور اور پتلی ہو رہی ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر برف پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو اگلے 15 سے 20 سالوں میں قطب شمالی سے برف کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا جس سے برفانی بھالوؤں سمیت دیگر برفانی جانوروں کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔

  • گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    گلوبل وارمنگ سے سمندروں کا رنگ تبدیل

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اور نقصان سامنے آگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سمندروں کا رنگ بھی تبدیل کررہا ہے۔

    گلوبل وارمنگ اور کلائمٹ چینج جہاں دنیا بھر میں نقصانات کی تاریخ رقم کر رہا ہے وہیں سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے نیلے سمندروں کا رنگ مزید نیلا جبکہ سبز سمندروں کا رنگ مزید سبز ہورہا ہے۔

    رنگوں کی یہ تبدیلی سمندروں کے ایکو سسٹم کو متاثر کر رہی ہے۔

    تحقیق کے مطابق سمندروں کو رنگ دینے کی ذمہ دار ایک خوردبینی الجی (کائی) ہے جسے فائٹو پلینکٹون کہا جاتا ہے۔

    یہ الجی سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہے اور آکسیجن پیدا کرتی ہے۔ جن سمندروں میں زیادہ فائٹو پلینکٹون موجود ہے وہ سبز جبکہ کم فائٹو پلینکٹون رکھنے والے سمندر نیلا رنگ رکھتے ہیں۔

    سورج کی روشنی میں اضافے کی وجہ سے زمین کے کچھ حصوں کے سمندر گہرے نیلے جبکہ کچھ گہرے سبز ہوتےجارہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں کی یہ تبدیلی فوڈ چین کو متاثر کرے گی۔ یہ جنگلی حیات اور ماہی گیری پر منفی اثرات مرتب کرے گی۔

  • کینیا میں سیاہ تیندوا منظر عام پر

    کینیا میں سیاہ تیندوا منظر عام پر

    آپ نے ہالی ووڈ کی ریکارڈ ساز سپر ہیرو فلم بلیک پینتھر تو ضرور دیکھی ہوگی، افریقی ملک کینیا میں بھی بلیک پینتھر کا نظارہ دیکھا گیا لیکن یہ بلیک پینتھر ہالی ووڈ کی فلم سے کہیں زیادہ شاندار اور قابل دید تھا۔

    افریقہ کے جنگلات میں عکس بند کیا جانے والا یہ سیاہ تیندوا، تیندوے کی نایاب ترین نسل ہے۔

    اس سے تقریباً 100 سال قبل ایک سیاہ تیندوا دیکھا گیا تھا اور اس کی موجودگی کے بارے میں صرف اندازے قائم تھے، تاہم اب اس خوبصورت جانور کی صاف تصاویر نے ماہرین کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کردیا ہے۔

    اس کی تصاویر کھینچنے والے وائلڈ لائف فوٹو گرافر ول لوکس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس علاقے میں اس خوبصورت جانور کی موجودگی کے بارے میں سنا تھا، تاہم انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اسے دیکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔

    یہ تیندوا اتنا انوکھا کیوں ہے؟

    اس بارے میں ماہر جنگلی حیات نکولس پلفولڈ کا کہنا ہے کہ یہ تیندوا ایک نایاب جینیاتی مرض میلینزم کا شکار ہے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں البانزم (یا برص) کا مرض موجود ہوتا ہے۔ یہ مرض انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی لاحق ہوجاتا ہے۔

    اس مرض میں جسم کو رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد جسم کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔

    اس مرض کا شکار انسان یا جانور سفید رنگت کے حامل ہوتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: البانزم کا شکار سفید بارہ سنگھا

    اس کے برعکس میلینزم میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں جس کے باعث یا تو جسم پر گہرے یا سیاہ رنگ کے دھبے پڑجاتے ہیں، یا پھر پورا جسم سیاہ ہوجاتا ہے۔

    البانزم کی نسبت میلینزم نایاب ترین مرض ہے اور اس کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ اس تیندوے کے والدین میں بھی یہ مرض موجود ہو، البتہ ان کی جینیات میں اس کا امکان ضرور ہوسکتا ہے جو ان کی آنے والی نسل میں ظاہر ہوتا ہے۔

  • صدر ٹرمپ کی دیوار بھی ماحول اور جنگلی حیات کے لیے دشمن

    صدر ٹرمپ کی دیوار بھی ماحول اور جنگلی حیات کے لیے دشمن

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیو اور امریکا کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کا عزم مصمم کیے ہوئے ہیں، دیوار کی تعمیر سے ایک طرف تو بے شمار مسائل کھڑے ہونے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف دونوں ممالک کی جنگلی حیات اور ماحول بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

    میکسیکو اور امریکا کے درمیان موجود سرحد 2 ہزار میل طویل ہے جس میں 3 پہاڑی سلسلے، شمالی امریکا کے 2 بڑے صحرا، وسیع مویشی خانے، اور ریو گرانڈے کا دریا موجود ہے۔

    یہ علاقے ماحولیاتی اعتبار سے نہایت زرخیز ہے اور بے شمار جنگلی حیات کا مسکن ہے۔

    ان علاقوں میں زیادہ انسانی آبادی موجود نہیں جس کی وجہ سے یہاں جنگلی حیات کی فراوانی ہوگئی، اس حصے میں 100 میل کا علاقہ ایسا بھی ہے جسے محفوظ قرار دے دیا گیا ہے۔

    یہاں پر دو نایاب اقسام کی بلیوں، پرندوں کی 400 اقسام، مختلف پودوں اور درختوں کی بے شمار اقسام جبکہ سینکڑوں اقسام کی تتلیوں سمیت کئی اقسام کی جنگلی حیات موجود ہے۔

    دیوار کی تعمیر سے ان کی نقل و حرکت محدود ہوجائے گی، جبکہ جنگلی حیات کے کئی مقامات تعمیر کے دوران تباہ بھی ہوجائیں گے۔ اسی طرح کئی اقسام کے درخت اور پودے بھی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنے کے لیے اکھاڑ دیے جائیں گے۔

    امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر مشن میں 100 ایکڑ پر مشتمل نیشنل بٹر فلائی سینٹر قائم ہے جہاں تتلیوں کی افزائش کی جاتی ہے۔

    دیوار کی تعمیر کے بعد یہ سینٹر 2 حصوں میں تقسیم ہوجائے گا جس کے بعد تتلیوں کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات متاثر ہوں گے۔

    اس سینٹر نے دیوار کے خلاف عدالت میں درخواست بھی دائر کر کھی ہے کہ ان کی ذاتی املاک کا حق پامال کیا جارہا ہے۔

    صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی ماحول دشمن اقدامات کر چکے ہیں جن میں سرفہرست دنیا کے کاربن اخراج میں کمی کے معاہدے سے دستبرداری ہے۔ یہ دستبرداری امریکیوں سمیت دنیا بھر کی عوام کے غم و غصے اور احتجاج کے باوجود عمل میں لائی گئی۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار صدر ٹرمپ عوام کے تحفظات کا ادراک کریں گے یا ہر بار کی طرح وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا۔

  • پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

    پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

     ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

    پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔

    مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

    شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

    مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔

    يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔

    پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔