Tag: جنگل

  • دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    دعوت میں غیر متوقع طور پر شیر کی آمد

    کیپ ٹاؤن: جنوبی افریقہ میں ایک سفاری پارک میں پارٹی کرنے والوں کی اس وقت سانسیں تھم گئیں جب انہوں نے ایک ببر شیر کو اپنے کھانے کی میزوں کے گرد چکر لگاتے دیکھا۔

    جنوبی افریقہ کے جنگلات میں اس نجی گیم ریزرو کا عملہ پارٹی کی تیاری میں مصروف تھا جب انہوں نے ایک شیر کو اپنی طرف آتے دیکھا۔

    کھانے کی میز پر بھنا ہوا گوشت اور مختلف اقسام کے کھانے رکھے جارہے تھے اور یقیناً اسی کی خوشبو اس شیر کو کھینچ لائی تھی۔

    قریب آ کر اس شیر نے میز کے گرد چکر لگانے شروع کردیے، اس اثنا میں میزبان اور مہمان بھی کھانے کے لیے آ پہنچے جو ایک غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر دور رک گئے۔

    شیر نے اطمینان سے میزوں کے گرد چکر لگایا اس کے بعد کسی بھی چیز کو چکھے بغیر وہاں سے واپس روانہ ہوگیا۔

    دعوت کے میزبان کا کہنا تھا کہ ان کے گھر برطانیہ سے کچھ دوست آئے تھے جو ان کے گھر پر قیام پذیر تھے، یہ دعوت انہی کے لیے کی گئی تھی۔

    میزبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اکثر اوقات یہاں شیروں سمیت کئی جانوروں کو دیکھا ہے لیکن یہ پہلی بار ہے کہ شیر اتنا قریب آگیا تھا۔

    ان کے مطابق ان کے مہمان بھی اس نایاب نظارے سے بے حد حیران اور لطف اندوز ہوئے، یہ ان سب کی زندگی کا ایک یادگار لمحہ تھا۔

  • 50 سال قبل جنگل میں پڑی لاش کس کی تھی؟

    50 سال قبل جنگل میں پڑی لاش کس کی تھی؟

    امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کو اچانک 5 دہائیوں بعد یاد آیا کہ انہوں نے اپنے بچپن میں جنگل میں ایک چھوٹی بچی کی لاش دیکھی تھی۔

    الزبتھ بریو مین نامی ان خاتون نے پولیس سے رابطہ کیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ انہوں نے تقریباً 5 دہائی قبل جنگل میں ایک بچی کو دیکھا تھا اور اب انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ مردہ حالت میں تھی۔

    الزبتھ نے مذکورہ مقام اسٹونی پوائنٹ پر اپنا بچپن گزارا تھا، اب وہ مین ہٹن میں رہتی ہیں لیکن کبھی کبھار گرمیوں میں اپنے پرانے گھر واپس آتی ہیں۔

    انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس وقت اپنے گھر کے قریب جنگل میں چہل قدمی کر رہی تھیں جب انہوں نے پتوں میں آدھی چھپی ایک بچی کو وہاں لیٹے ہوئے دیکھا۔

    الزبتھ کا کہنا ہے کہ انہیں اس وقت بھی احساس تھا کہ انہوں نے کچھ غلط دیکھا ہے اور وہ کافی عرصے تک شعوری طور پر اس منظر کو اپنے ذہن سے نکالنے کی کوشش کرتی رہیں۔

    تاہم 90 کی دہائی میں انہوں نے ایک خاندان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اس خاندان کی ایک بچی جون مردہ حالت میں جنگل سے برآمد ہوئی تھی اور یہ سنہ 1973 کی بات ہے۔

    جیسا کہ بعد میں الزبتھ کو علم ہوا، وہ بچی ایسٹر کے موقع پر اپنے پڑوسی کے گھر کوکیز کا تحفہ لے کر گئی تھی لیکن پھر وہاں سے واپس نہیں آئی، 3دن بعد اس کی لاش جنگل سے برآمد ہوئی۔

    بچی کی ماں کے مطابق مذکورہ پڑوسی ایک ہائی اسکول میں ٹیچر تھا لہٰذا انہیں اس کے گھر اپنی بچی کو بھیجتے ہوئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی، تاہم بعد ازاں وہی پڑوسی بچی کے قتل میں ملوث نکلا۔

    اس نے بچی کو قتل کرنے سے قبل اس کے ساتھ زیادتی بھی کی اور بعد ازاں خوف کی وجہ سے بچی کو قتل کردیا۔

    گو کہ الزبتھ کو لگتا ہے کہ انہوں نے جس بچی کی لاش دیکھی تھی وہ جون ہی تھی، تاہم بچی کی ماں اسے ماننے سے انکاری ہے۔

    الزبتھ حتمی طور پر یاد کرنے سے قاصر ہے کہ اس نے کس سنہ میں وہ لاش دیکھی تھی، تاہم اسے یقین ہے کہ وہ 70 کی دہائی کا اوائل تھا۔ دوسری جانب جون کی ماں کا کہنا ہے کہ الزبتھ نے کسی اور بچی کی لاش دیکھی ان کی اپنی بچی کا قتل اس کے کچھ عرصے بعد ہوا۔

    پولیس نے الزبتھ کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے پرانی فائلیں کھنگالنی شروع کردی ہیں۔

  • دنیا کی چند زہریلی اور خطرناک مکڑیاں

    دنیا کی چند زہریلی اور خطرناک مکڑیاں

    مکڑی ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جس کی دنیا بھر میں بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں۔ جسامت میں مختلف اور لاتعداد رنگوں میں پایا جانے والا یہ کیڑا بے ضرر بھی ہوتا ہے مگر اس کی کئی اقسام نہایت زہریلی ہیں۔

    عام طور پر ہمارے گھروں میں یہ مکڑیاں دیواروں اور کونوں میں اپنا جالا بن کر اس میں رہتی ہیں۔ اپنا یہ گھر مکڑیاں لعابِ دہن سے تیار کرتی ہیں۔

    ماہرینِ حشرات کے مطابق اس کی ان گنت اقسام ہیں جو اپنی جسامت، ساخت  اور صلاحیتوں کے اعتبار سے الگ الگ ہیں۔ ان میں سے بعض مکمل طور پر ویرانوں میں رہنا پسند کرتی ہیں جب کہ اکثر مکڑیاں انسانوں کے درمیان اپنی جگہ پر رہنے کے ساتھ کسی بھی جنگل، ویران جگہ پر جالے بنا کر بھی رہتی ہیں۔

    مکڑی پر تحقیق کرنے کے بعد ماہرین نے لکھا ہے کہ ان کی بعض اقسام نہایت زہریلی ہیں۔ ان کے کاٹنے سے انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض مکڑیوں کے کاٹنے سے جسم پر شدید خارش، دھبے بننے کے علاوہ درد کا احساس ہو سکتا ہے جب کہ اس کی وجہ سے ہونے والے زخم میں مواد بھر جاتا ہے جس سے متاثر ہ جگہ سڑ سکتی ہے۔ جنگل میں پائی جانے والی مکڑی کی بعض اقسام کے کاٹنے سے بخار اور بے ہوشی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اسی طرح کسی بھی انسان کو زہریلی مکڑی کے کاٹنے کے بعد متلی، قے کی شکایت کے ساتھ جسم میں شدید درد کا احساس ہو سکتا ہے۔

    محققین اور جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق بلاج برنا، بنکا، مورتر، جالنی وغیرہ مکڑیوں کی وہ قسم ہیں جو نہایت زہریلی اور مہلک ہیں۔

  • ایمازون جنگل کی ہولناک آتشزدگی میں طویل ترین درخت کیسے محفوظ رہے؟

    ایمازون جنگل کی ہولناک آتشزدگی میں طویل ترین درخت کیسے محفوظ رہے؟

    زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے برازیل کے بارانی جنگلات ایمازون میں لگنے والی آگ نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا، تاہم حال ہی میں ایک نئی دریافت نے ماہرین میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔

    برازیلی اور برطانوی سائنسدانوں کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں سامنے آیا کہ ایمازون جنگل میں موجود طویل ترین درخت ہولناک آتشزدگی کے باوجود محفوظ رہے۔

    یہ درخت جنہیں ڈینیزیا ایکسیلا کہا جاتا ہے، 288 فٹ طویل ہوتے ہیں جبکہ ان کا قطر 5.50 میٹر ہوتا ہے۔

    ماہرین نے ان کی موجودگی ایریل سینسرز کے ذریعے کی جانے والی تحقیق کے دوران دریافت کی جو آتشزدگی کے بعد جنگلات کی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے کی جارہی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ آتشزدگی سے ہونے والے نقصانات کے بعد ان درختوں کی دریافت ایک خوش آئند بات ہے۔ یہ درخت جنگل کے اس حصے میں موجود تھے جو آگ کی پہنچ سے دور تھا۔

    اس وقت دنیا کے طویل ترین درخت امریکی ریاست کیلی فورنیا کے ریڈ ووڈز کو قرار دیا جاتا ہے جو 379 فٹ طویل ہوتے ہیں، تاہم ڈینیزیا ایکسیلا ایمازون میں پائے جانے والے طویل ترین درخت ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ برس برازیل کے جنگل میں 78 ہزار 383 مرتبہ آگ لگنے کے واقعات پیش آئے جو 2013 کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔

    اگست 2019 میں لگنے والی آگ 2 ہفتے تک جاری رہی، ابتدائی اندازوں کے مطابق صرف 2019 میں ہونے والی آتشزدگیوں سے ایمازون کے 906 ہزار ہیکٹر پر موجود درخت جل کر خا ک ہوگئے ہیں۔

  • خوفناک آگ نے ایمزون کے جنگل میں تباہی مچادی

    خوفناک آگ نے ایمزون کے جنگل میں تباہی مچادی

    براسیلیا :دنیا کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھنے والے دنیا کےسب سے بڑے برساتی جنگل ’’ ایمزون ‘‘ میں انتہائی خوفناک آگ بھڑک اٹھی ہے جو مسلسل پھیلتی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں، سائنسدانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر ایمزون میں ہونے والی آتشزدگی پر جلد قابو نہ پایا گیاتو موسمیاتی تبدیلیوں خلاف کی جانے والی کوششیں پر مضر اثرات مرتب ہوں گے۔

    برازیل کے نیشنل انستی ٹیوٹ آف اسپیس ریسرچ کی جاری کردہ تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہےرواں برس آتشزدگی کا تناسب ایمزون کے جنگلات میں بہت زیادہ حد تک بڑھ گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پیرو کے روز ایمزون کے جنگل ہولناک آگ بھڑکنے کے بعد 2700 کلومیٹر دور واقع شہر ساؤ پالو میں دھوئیں کے گھنے و کالے بادلوں کے باعث اندھیرا چھاگیاتھا تاہم ماہرین موسمیات کا کہنا تھا کہ دھوئیں کے مذکورہ بادل ایمزون ریجن سے نہیں بلکہ پیراگوئے میں لگنے والی آگ کے باعث آئے تھے جو ساؤ پالو کے نزدیک ہے۔

    ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ رواں برس ایمزون کے جنگل میں جنوری سے اگست تک 72 ہزار843 مرتبہ آگ بھڑک چکی ہےجو کہ گزشتہ سال کی نسبت 80 فیصد زیادہ ہے۔ جبکہ 2018 40 ہزار اور 2016 میں 68 ہزار مرتبہ لگی تھی۔

    ایمزون کے جنگلات دنیا کی فضا کو آکسیجن فراہم کرنے میں اپنا 20 فیصد حصہ ڈالتے ہیں اورانہیں دنیا کے پھیپھڑوں سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ ایمزون کا جنگل 30 لاکھ اقسام کے درختوں، پودوں ، جانوروں اور دس لاکھ مقامی باشندوں(جنگلی قبائل) کا گھر ہے۔

    سوشل میڈیا پر جاری تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگلات میں لگنے والی آگ کے سبب برازیل میں دھویں کے بادل چھائے ہوئے ہیں جنہوں نے کئی شہروں کو اندھیرے میں ڈبو دیا ہے۔

  • دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    دنیا کے نایاب ترین پرندے کی تعداد میں دگنا اضافہ

    رواں برس نیوزی لینڈ کے نایاب ترین پرندے پراکیٹ کی افزائش نسل میں حیران کن اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد ماہرین کی ان کو لاحق خطرات کے حوالے سے پریشانی کم ہوگئی۔

    نیوزی لینڈ میں پایا جانے والا یہ پرندہ جسے مقامی زبان میں کاکاریکی کاراکا کہا جاتا ہے، ہمارے یہاں موجود آسٹریلن چڑیاؤں سے ملتا جلتا ہے۔

    یہ پرندہ صرف نیوزی لینڈ میں پایا جاتا ہے اور کچھ عرصے قبل اسے پورے ملک میں دیکھا جاتا رہا، تاہم گزشتہ صدی کے دوران اس پرندے کی آبادی میں خطرناک کمی واقع ہوئی۔

    سنہ 1993 میں انہیں معدوم سمجھ لیا گیا تاہم اس کے بعد اکا دکا پرندے نظر آئے جس کے بعد اس پرندے کو بچانے کی کوششیں شروع کردی گئیں۔

    رواں برس اس پرندے کی افزائش نسل میں بے حد اضافہ دیکھنے میں آیا، ماہرین کے مطابق اس سیزن میں 150 نئے پرندوں نے جنم لیا اور اب کچھ عرصے بعد افزائش نسل کے قابل پرندوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔

    ماہرین نے جنگلات میں اس پرندے کے 31 نئے گھونسلے دیکھے اور یہ پچھلے ایک دو سال میں بنائے جانے والے گھونسلوں سے 3 گنا زیادہ ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پرندوں کو درختوں میں کمی کے ساتھ ساتھ دیگر شکاری جانوروں سے بھی خطرہ ہے۔ جنگلوں میں پھرتے چوہے اور جنگلی بلیاں ان پرندوں کو اپنی خوراک بنالیتی ہیں۔

    اب انہیں امید ہے کہ اگر ان پرندوں کی افزائش نسل کی شرح یہی رہی تو یہ خوبصورت پرندہ پھر سے پورے نیوزی لینڈ میں دیکھا جاسکے گا۔

  • معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    معدومی تیز رفتار چیتے کو پچھاڑنے کے قریب

    دنیا بھر میں آج چیتوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، تحفظ جنگلی حیات کے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دنیا بھر کے جنگلات میں اس وقت صرف 3 ہزار 900 چیتے موجود ہیں۔

    امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق بیسویں صدی کے آغاز میں دنیا بھر میں کم از کم 1 لاکھ چیتے موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں خطرناک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لندن کی زولوجیکل سوسائٹی کا کہنا ہے کہ چیتا اپنی جس تیز رفتاری کے باعث مشہور ہے، اسی تیز رفتاری سے یہ معدومی کی جانب بڑھ رہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق چیتوں کی معدومی کے خطرے کی وجوہات میں ان کی پناہ گاہوں (عموماً گھنے جنگلات) میں کمی کے ساتھ ساتھ ان کے شکار (دیگر جنگلی حیات) میں کمی اور ان کا اپنا شکار ہوجانا شامل ہے۔

    چیتے کا شکار ان کے جسمانی اعضا کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے، بعض اوقات ننھے چیتوں کو زندہ پکڑ کر ان کی غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے، یہ وہ تجارت ہے جس میں خطرناک جنگلی جانوروں کو گھروں میں پال کر ان کی جنگلی جبلت کو ختم کردیا جاتا ہے۔

    چیتوں کے لیے ایک اور خطرہ ان کے غیر قانونی فارمز بھی ہیں۔ یہ فارمز ایشیائی ممالک میں موجود ہیں جو چڑیا گھروں سے الگ قائم کیے جاتے ہیں اور بظاہر ان کا مقصد چیتوں کا تحفظ کرنا ہے۔ لیکن درحقیقت یہاں چیتوں کو ان کے جسمانی اعضا کی غیر قانونی تجارت کے لیے رکھا جاتا ہے جو ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ چیتوں کے جسمانی اعضا دواؤں میں استعمال ہوتے ہیں۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ایشیا میں تقریباً 200 چیتوں کے فارمز موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر چین، ویتنام اور تھائی لینڈ میں موجود ہیں۔ ان فارمز میں 8000 کے قریب چیتے موجود ہیں جو جنگلوں اور فطری ماحول میں رہنے والے چیتوں سے دگنی تعداد ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق ان فارمز میں انسانوں کی صحبت میں پلنے والے چیتے آرام دہ زندگی کے عادی ہوجاتے ہیں اور اگر انہیں جنگل میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ ان فارمز کو غیر قانونی قرار دے کر انہیں بند کرنے کا مطالبہ تو کیا جارہا ہے تاہم عالمی ادارے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ ان فارمز کی بندش سے پہلے چیتوں کی رہائش کے لیے متبادل جگہ قائم کی جائے۔

    اس وقت چیتوں کی سب سے زیادہ آبادی بھارت میں موجود ہے جہاں 2 ہزار 226 چیتے ہیں۔ چیتوں کی آبادی والے دیگر ممالک میں روس، انڈونیشیا، ملائیشیا، نیپال، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش، بھوٹان، چین، ویتنام، لاؤس اور میانمار شامل ہیں۔

  • ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ہاتھی اور مینڈک کے درمیان یہ انوکھا رشتہ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    یوں تو اس زمین پر موجود تمام جانداروں کا وجود دوسرے جانداروں کے لیے بے حد ضروری ہے اور ہر جاندار دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑا ہوا ہے، تاہم حال ہی میں ایک ایسی دریافت سامنے آئی جس نے ماہرین کو بھی حیران کردیا۔

    میانمار کے جنگلوں میں تحقیق کرنے والے چند ماہرین نے دیکھا کہ وہاں موجود ہاتھی، جنگل کے مینڈکوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا سبب تھے۔ یہ پناہ گاہ ہاتھی کے پاؤں سے بننے والا گڑھا تھا جہاں مینڈکوں نے رہنا شروع کردیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا بارشوں میں جب پانی سے بھر جاتا ہے تو اس وقت یہ ننھے مینڈکوں کے لیے نہایت محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مادہ مینڈک یہاں پر انڈے دیتی ہیں اور انڈوں سے بچے نکلنے کے بعد ننھے مینڈک طاقتور ہونے تک انہی تالاب نما گڑھوں میں رہتے تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ ہاتھی کے وزن کی وجہ سے اس کے پاؤں سے پڑنے والا گڑھا خاصا گہرا ہوتا ہے لہٰذا یہ خاصے وقت تک قائم رہتا ہے اور اس دوران دوسرے جانوروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    ایسی ہی صورتحال اس سے قبل افریقی ملک یوگنڈا مں بھی دیکھی گئی تھی جہاں ہاتھی کے پاؤں سے بننے والے گڑھوں میں ننھے مینڈک اور دیگر کیڑے مکوڑے بھی مقیم تھے۔

    ماہرین نے ہاتھیوں کی اس خاصیت کی وجہ سے انہیں ایکو سسٹم انجینئرز کا نام دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: تتلیاں کچھوؤں کے آنسو پیتی ہیں

    ان کا کہنا ہے کہ ہاتھی ایکو سسٹم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ بیجوں کے پھیلانے اور اس طرح کے عارضی تالاب تشکیل دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں جبکہ یہ اپنی خوراک کے لیے درختوں کی شاخوں کو توڑتے ہیں جس سے بعد ازاں دیگر جانور بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک تعلق اس بات کا ثبوت ہے کہ حیاتیاتی تنوع کی ایک ایک کڑی اور ایک ایک رکن نہایت اہم ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ حیاتیاتی تنوع کے پورے سلسلے کی حفاظت کی جائے۔

  • ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    جانوروں میں ایک دوسرے سے محبت اور ان کی حفاظت کا جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے، اس کی ایک مثال افریقہ کے جنگلات میں بھی دیکھنے میں آئی جب ہاتھیوں نے اپنے زخمی بے ہوش ساتھی کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔

    زیر نظر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہاتھی ایک کسان کے پھینکے گئے تیر سے زخمی ہوگیا، زخمی ہاتھی کی مدد کے لیے ویٹ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور ان کی حفاظت کے لیے رینجرز کا ایک دستہ اس مقام پر پہنچا۔

    ان ڈاکٹرز نے زخمی ہاتھی کو گن سے ڈارٹ پھینک کر بے ہوش کیا تاہم اس کے ساتھ ہی کسی حد تک متوقع صورتحال بھی سامنے آگئی۔

    ہاتھیوں کا جھنڈ اپنے زخمی ساتھی کے گرد جمع ہوگیا۔ رینجرز نے ان ہاتھیوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی لیکن ہاتھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آخر کار کسی طرح ان ہاتھیوں کو ہٹایا گیا اور زخمی ہاتھی کے گوشت میں دھنسا تیر نکالا گیا۔

    ویٹ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ ہاتھی کسانوں کی فصل روند ڈالتے ہیں لہٰذا کسان انہیں ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، وہ ہاتھی کو اپنی فصل کے ارد گرد دیکھ کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں تاکہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے پھینکے گئے ہتھیار جیسے تیر وغیر ان ہاتھیوں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ہاتھی خود سے انہیں نہیں نکال سکتے۔ یہ ہتھیار ان کے جسم کے اندر رہ کر انفیکشن پیدا کرسکتے ہیں جس سے ہاتھی کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ایک ویٹ ڈاکٹر کا کہنا تھا، ’ہاتھیوں کو زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم ان سے ان کی جگہ چھین رہے ہیں، پھر ہم ان کی دخل اندازی پر انہیں نقصان بھی پہنچاتے ہیں‘۔

    مذکورہ واقعے میں صرف 45 منٹ کے اندر نہ صرف ہاتھی ہوش میں آ گیا بلکہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہوگیا۔

  • درختوں کے زیر زمین نیٹ ورک کا نقشہ تیار

    درختوں کے زیر زمین نیٹ ورک کا نقشہ تیار

    آپ نے ڈبلیو ڈبلیو ڈبلیو یعنی ورلڈ وائیڈ ویب کے بارے میں تو ضرور سنا ہوگا، لیکن کیا آپ نے کبھی ووڈ وائیڈ ویب کا نام سنا ہے؟

    ووڈ وائیڈ ویب وہ نیٹ ورک ہے جو درختوں کو آپس میں جوڑے رکھتا ہے، یہ دراصل درختوں کی جڑوں کے درمیان اگی ہوئی فنجائی ہوتی ہے جو درختوں کے نیٹ ورک کی حیثیت رکھتی ہے۔

    یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔ اس نیٹ ورک کے ذریعے درخت ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ بھی کرتے ہیں۔

    اب ماہرین نے اس نیٹ ورک کا ایک مفصل نقشہ تیار کرلیا ہے۔ اسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کی جانب سے تیار کردہ اس نقشے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی حیثیت ویسی ہی ہے جسے دماغ کے ایم آر آئی اسکین کی۔

    جس طرح دماغ کا ایم آر آئی اسکین یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ دماغ کس طرح کام کرتا ہے، اسی طرح یہ نیٹ ورک بتاتا ہے کہ جنگلات کس طرح کام کرتے ہیں اور یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج پر کس طرح ردعمل دیں گے۔

    یہ نقشہ تیار کرنے کے لیے 70 ممالک کے 10 لاکھ سے زائد جنگلات کا مطالعہ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دنیا کے 60 فیصد درخت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ نقشہ بتاتا ہے کہ کس طرح کے ایکو سسٹم میں کس طرح کے درخت نشونما پاسکیں گے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں کی جانے والی شجر کاری مہمات کو مزید کامیاب بنایا جاسکے گا۔

    یہ نیٹ ورک کیا کام کرتا ہے؟

    زیر زمین درختوں کا نیٹ ورک خاصا اہمیت رکھتا ہے جو درختوں کے درمیان نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا کام کرتا ہے۔ درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔

    ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔

    اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔

    اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔

    بڑے درخت اس نیٹ ورک کے ذریعے ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔

    لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟

    اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔ اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔