جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگل میں ہمپ بیک وہیل مردہ پائی گئی جس نے ماہرین کو حیران کردیا۔
11 میٹر طویل اور 10 ٹن وزنی یہ وہیل ایمازون جنگلات کے درمیان ایک جزیرے میں پائی گئی جہاں تیمر کے جنگلات موجود ہیں۔
گو کہ سمندری حیات کا ساحل پر آجانا کوئی غیر معمولی بات نہیں تاہم ماہرین حیران ہیں کہ یہ وہیل جنگل کے اتنے اندر تک کیسے آگئی۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مقام پر پرندوں کے جھنڈ دیکھے جو وہیل کی لاش کھانے کے لیے وہاں اترے ہوئے تھے۔ پرندوں کو دیکھتے ہوئے انہیں کچھ غیر معمولی حالات کا احساس ہوا جس کے بعد وہ وہاں پہنچے۔
وہیل کی لاش کا معائنہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ لاش کئی دن پرانی ہے۔ رناتا ایمن نامی ایک وائلڈ لائف پروفیسر کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہیل ساحل تک آگئی ہو جس کے بعد کسی اونچی لہر نے اسے جنگل میں اٹھا پھینکا ہو۔
نہ صرف اس وہیل کے جنگل کے اس حصے تک پہنچنے، بلکہ اس علاقے میں وہیل کی موجودگی نے ہی ماہرین کو حیران کر رکھا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہمپ بیک وہیل عام طور پر اگست سے نومبر کے درمیان جنوبی برازیل کے ساحلوں پر ہوتی ہیں۔ ان کا اتنی دور ہزاروں کلومیٹر شمال تک سفر کر کے آنا وہ بھی اس موسم میں نہایت حیران کن ہے۔
تاحال وہیل کی موت کا سبب بھی اندھیرے میں ہے، مقامی حکام کے مطابق اس مقام تک پہنچنا اور پھر وہاں سے وہیل کی لاش کو اٹھانا نہایت مشکل عمل ہے کیونکہ یہ سارا علاقہ دلدلی ہے۔
سینٹیاگو: جنوبی امریکا میں واقع ملک چلی کے گھنے جنگل میں آتشزدگی کے باعث دو افراد ہلاک ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق جنگل میں آگ بھڑکنے سے دو افراد ہلاک ہوگئے جبکہ آگ وسیع علاقے تک پھیل گئی، کئی حصے جل کر خاک ہوگئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چلی کی مقامی حکومت کا کہنا ہے کہ گھنے جنگل میں لگنے والی آگ نے شدت اختیار کی تاہم ریسکیو عملے نے قابو پالیا۔
مقامی حکومت کے مطابق انتالیس ہزار ہیکٹر علاقہ آگ سے خاکستر ہوگیا، مقامی فائرفائٹرز نے تیس طیاروں اور ہیلی کوپٹروں کے ساتھ آگ بھجانے کے عمل میں ساتھ دیا۔
حکومتی اراکین نے قریبی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے امدادی کام جاری رکھا، علاوہ ازیں جنگل کے گرد رہائشیوں نے اپنی مدد آپ فرنیچر کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال نومبر میں کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث 71 افراد ہلاک جبکہ 7 ہزار سے زائد مکانات جل کر راکھ کا ڈھیر ہوگئے تھے۔
قبل ازیں جولائی 2018 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ سے دو فائر فائٹرز سمیت 5 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ 2012 سے کیلی فورنیا کے جنگلات میں آگ لگنے کا مسئلہ درپیش ہے، موسم گرما اور خشک سالی کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
جنوبی امریکا کے ملک برازیل میں واقع ایمازون کے جنگلات زمین کے پھیپھڑوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا برساتی جنگل ہے جو برازیل کے علاوہ پیرو، کولمبیا اور دیگر جنوبی امریکی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔
رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایمازون سمیت دنیا بھر کے رین فاریسٹ تیزی سے ختم ہو رہے ہیں جس سے دنیا بھر کے مون سون کے سائیکل پر منفی اثر پڑے گا۔
ایمازون جنگل مختلف اقسام کی جنگلی حیات کا مسکن بھی ہے۔
آج ہم آپ کو اس خوبصورت جنگل کی سیر کروا رہے ہیں۔ 360 ڈگری زاویے پر گھومتی یہ ویڈیو عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے بنائی گئی ہے۔
ویڈیو میں جنگل میں بہتی خوبصورت آبشاریں اور ندیاں بھی دکھائی دیں گی۔ اس ویڈیو کے ذریعے آپ کو یوں لگے گا جیسے آپ بذات خود ان خوبصورت جنگلات میں موجود ہیں۔
آپ نے درختوں کے زندہ ہونے اور ان کے سانس لینے کے بارے میں تو سنا ہوگا، لیکن کیا آپ جانتے ہیں درخت آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں؟
دراصل درختوں کی جڑیں جو زیر زمین دور دور تک پھیل جاتی ہیں ان درختوں کے لیے ایک نیٹ ورک کا کام کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ ایک دوسرے سے نمکیات اور کیمیائی اجزا کا تبادلہ کرتے ہیں۔
ان جڑوں کے ساتھ زیر زمین خودرو فنجائی بھی اگ آتی ہے جو ان درختوں کے درمیان رابطے کا کام کرتی ہے۔
یہ فنجائی مٹی سے نمکیات لے کر درختوں کو فراہم کرتی ہے جبکہ درخت غذا بنانے کے دوران جو شوگر بناتے ہیں انہیں یہ فنجائی مٹی میں جذب کردیتی ہے۔
درخت کسی بھی مشکل صورتحال میں اسی نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کو ہنگامی پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔
ان پیغامات میں درخت اپنے دیگر ساتھیوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ قریب آنے والے کسی خطرے جیسے بیماری، حشرات الارض یا قحط کے خلاف اپنا دفاع مضبوط کرلیں۔
اس نیٹ ورک کے ذریعے پھل دار اور جاندار درخت، ٹند منڈ اور سوکھے ہوئے درختوں کو نمکیات اور کاربن بھی فراہم کرتے ہیں۔
اسی طرح اگر کبھی کوئی چھوٹا درخت، قد آور ہرے بھرے درختوں کے درمیان اس طرح چھپ جائے کہ سورج کی روشنی اس تک نہ پہنچ پائے اور وہ اپنی غذا نہ بنا سکے تو دوسرے درخت اسے غذا بھی پہنچاتے ہیں۔
نمکیات اور خوراک کے تبادلے کا یہ کام پورے جنگل کے درختوں کے درمیان انجام پاتا ہے۔
بڑے درخت ان نو آموز درختوں کی نشونما میں بھی مدد کرتے ہیں جو ابھی پھلنا پھولنا شروع ہوئے ہوتے ہیں۔
لیکن کیا ہوگا جب درختوں کو کاٹ دیا جائے گا؟
اگر جنگل میں بڑے پیمانے پر درختوں کی کٹائی کردی جائے، یا موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج یا کسی قدرتی آفت کے باعث کسی مقام کا ایکو سسٹم متاثر ہوجائے تو زیر زمین قائم درختوں کا یہ پورا نیٹ ورک بھی متاثر ہوتا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی ایک تار کے کٹ جانے سے پورا مواصلاتی نظام منقطع ہوجائے۔
اس صورت میں بچ جانے والے درخت بھی زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے اور تھوڑے عرصے بعد خشک ہو کر گر جاتے ہیں۔
سڈنی : آسٹریلوی حکام نے نیو ساؤتھ ویلز کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ پر تبدیل شدہ مسافر بردار بوئنگ طیارے کی مدد سے قابو پالیا۔
تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کے دارالحکومت سڈنی سے 150 کلومیٹڑ شمال کی جانب سے پورٹ اسٹیفنس کے جنگلات میں ہونے والی ہولناک آتشزدگی کے باعث جنگل کی 15 سو ہیکٹر اراضی لپیٹ میں آچکی تھی جس کے بعد آگ رہائشی علاقے کی جانب بڑھ رہی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ فائر بریگیڈ حکام نے آگ پر قابو پانے کےلیے ترمیم شدہ بوئنگ 737 مسافر بردار طیارے کے ذریعے آگ بجھائی، جس میں 15 ہزار لیٹر کیمیکل ملا پانی موجود تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ مذکورہ بوئنگ طیارے کو مسافر بردار سے ائیر ٹینکر میں ایک کینیڈین کمپنی نے تبدیل کیا ہے مذکورہ ایئر ٹینکر میں 15 ہزار لیٹر (4 ہزار گیلن) پانی لے جانے کی صلاحیت ہے جبکہ آگ بجھانے والے کیمیکل اور 63 فائر فائٹرز کو بھی سامان کے ہمراہ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آسٹریلوی فائربریگیڈ عملے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ بوئنگ 737 بیک وقت کئی خصوصیات سے لیس ہے جس کی مدد سے بڑی تعداد میں پانی اور آگ بجھانے والا کیمیکل پھینکا جاسکتا ہے۔
ہنگامی خدمات انجام دینے والے ادارے کے سربراہ کریس گارلک کا کہنا تھا کہ کیوں کہ 737 ایک مسافر بردار طیارہ ہے اس لیے اس میں بیک وقت 63 فائر فائٹر بھی سوار ہوسکتے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا کے پاس ایسے 9 طیارے موجود ہیں جو جنگلات میں لگی آگ پر قابو پانے کے لیے استعمال کیے جاتےہیں جن میں ایک طیارے میں 45 ہزار لیٹر پانی لے جانے کی گنجائش موجود ہے۔
کراچی: صوبہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کر کے زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلات سندھ نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں جنگلات کی ایک لاکھ ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق لاکھوں ایکڑ جنگلات کی زمین با اثر سیاسی افراد کو الاٹ کردی گئی ہے جن کا تعلق سندھ کے مختلف شہروں سے ہے۔
محکمہ جنگلات نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے شہر دادو میں 27 ہزار ایکڑ جنگلات کی زمین پر بااثر افراد کا قبضہ ہے، سکھر رینج میں جنگلات کی 23 ہزار ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔
اسی طرح شکار پور، لاڑکانہ، کھپرو اور خیرپور میں بھی جنگلات کی زمینوں پر مافیا قابض ہیں۔
محکمہ جنگلات کے مطابق مافیا کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں صرف 15 ہزار 723 ایکڑ زمین واگزار کرائی جاسکی ہے۔
خیال رہے کہ سندھ میں جنگلات کی تباہی کی بڑی ذمہ دار بے لگام ٹمبر مافیا بھی ہے جس کے آگے حکام بے بس ہیں۔
یہ ٹمبر مافیا سندھ کے ساحلی علاقوں میں پائے جانے والے قیمتی ترین تیمر کے جنگلات کو نصف سے زیادہ کاٹ چکی ہے۔
سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز یا تیمر کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔
تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔
بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو ٹمبر مافیا کی من مانی کی وجہ سے اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔
یورپی ملک آئس لینڈ میں تحفظ جنگلی حیات کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی جانے والی شارٹ فلم پر سیاسی طور پر متنازعہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی، تاہم اس کے باوجود عام افراد کی جانب سے اسے پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔
شارٹ فلم ایک ننھی بچی اور بندر سے ملتے جلتے ایک جانور اورنگٹن پر مشتمل ہے۔ بچی اپنے کمرے میں اورنگٹن کو دیکھ کر پریشان ہے جو اس کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور اس کی چیزوں کو پھینک رہا ہے۔
دروازوں اور کھڑکیوں پر لٹکتے ہوئے اورنگٹن نے کمرے کی کئی قیمتی چیزیں بھی توڑ ڈالی ہیں۔ اس کے بعد جب وہ میز پر بیٹھتا ہے تو وہاں بچی کا شیمپو رکھا ہے جو پام (پھل) سے بنا ہے۔ اسے دیکھ کر اورنگٹن ایک ٹھنڈی آہ بھرتا ہے۔
ادھر بچی اورنگٹن کو دیکھ کر سخت پریشان ہے اور وہ اسے فوراً اپنے کمرے سے نکل جانے کو کہتی ہے، اورنگٹن دل گرفتہ ہو کر کمرے سے باہر جانے لگتا ہے جس کے بعد بچی اس سے پوچھتی ہے کہ وہ اس کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔
اورنگٹن اپنی داستان سناتا ہے کہ وہ جنگلات میں رہتا تھا۔ ایک دن وہاں انسان آگئے جن کے پاس بڑی بڑی مشینیں اور گاڑیاں تھیں۔ انہوں نے درخت کاٹ ڈالے اور جنگل کو جلا دیا تاکہ وہ اپنے کھانے اور شیمپو کے لیے وہاں پام اگا سکیں۔
’وہ انسان میری ماں کو بھی ساتھ لے گئے اور مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھے بھی نہ لے جائیں چنانچہ میں چھپ گیا‘۔
اورنگٹن کہتا ہے کہ انسانوں نے میرا پورا گھر جلا دیا، میں نہیں جانتا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے سو میں نے سوچا کہ میں تمہارے ساتھ رہ جاتا ہوں۔
اورنگٹن کی کہانی سن کر بچی اچھل پڑتی ہے اور وہ عزم کرتی ہے کہ وہ اس اورنگٹن کی کہانی ساری دنیا کو سنائے گی تاکہ پام کے لیے درختوں کے کٹائی کو روکا جاسکے اور اورنگٹن کی نسل کو بچایا جاسکے۔
اورنگٹن کی نسل کو کیوں خطرہ ہے؟
جنوب مشرقی ایشیائی جزیروں بورنو اور سماترا میں پایا جانے والا یہ جانور گھنے برساتی جنگلات میں رہتا ہے۔
تاہم ان جنگلات کو کاٹ کر اب زیادہ سے زیادہ پام کے درخت لگائے جارہے ہیں جو دنیا کی ایک بڑی صنعت کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔
پام کا پھل کاسمیٹک اشیا، مٹھائیوں اور دیگر اشیائے خوراک میں استعمال ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے تیل کی مانگ بھی بہت زیادہ ہے۔
اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کئی ایشیائی اور یورپی ممالک میں جنگلات کو آگ لگا دی جاتی ہے جس کے بعد وہاں پام کے درخت لگائے جاتے ہیں۔ آگ لگنے کے بعد وہاں موجود جنگلی حیات بے گھر ہوجاتی ہے اور ان کی موت کی شرح میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
اورنگٹن بھی انہی میں سے ایک ہے جو اپنی پناہ گاہوں کے تباہ ہونے کا باعث معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہے۔
دوسری جانب آئس لینڈ اب تک وہ پہلا ملک ہے جو مقامی برانڈز پر زور دے رہا ہے کہ وہ اپنی اشیا میں سے پام کا استعمال ختم کردیں۔
مذکورہ شارٹ فلم بھی آئس لینڈ میں موجود ماحولیاتی تنظیم گرین پیس کی جانب سے بنائی گئی ہے تاہم نشریاتی بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ چند نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
اس اینیمیٹڈ فلم کو سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ فلم کو ان 25 اورنگٹنز کے نام کیا گیا ہے جو ہر روز اپنی پناہ گاہیں کھونے کے بعد اپنی جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔
فلم کے آخر میں ننھی بچی اورنگٹن کو گلے لگاتے ہوئے کہتی ہے، ’مستقبل لکھا ہوا نہیں ہے، لیکن میں اسے یقینی بناؤں گی کہ وہ ہمارا ہو‘۔
کیا آپ نے ایسی بکریاں دیکھی ہیں جو درختوں پر چڑھ کر باآسانی اس کے اوپر پہنچ جاتی ہیں؟
ایسی بکریاں عموماً شمالی افریقی ملک مراکش میں پائی جاتی ہیں اور انہیں درختوں پر چڑھتے دیکھنا خاصا دلچسپ تجربہ ہوسکتا ہے۔
ایک عمومی خیال تھا کہ یہ بکریاں درختوں کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ یہ درختوں کے اوپر چڑھ کر ان کے پھل کھا لیتی ہیں جبکہ ان کے چڑھنے اترنے کے باعث ٹہنیوں اور شاخوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔
تاہم ماہرین نے جب غور سے ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا تو انہیں علم ہوا کہ یہ بکریاں دراصل جنگلات اور درختوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ بکریاں درختوں پر چڑھ کر مختلف پھل اور پھول کھاتی ہیں تو اس دوران ان کے بیج وہیں تھوک دیتی ہیں۔ یہ بیج زمین میں جا کر نئے پودے اگانے کا سبب بنتے ہیں۔
گویا ان بکریوں کی حیثیت بیجوں کو پھیلانے والوں کی سی ہے جو جنگلات، درختوں اور پودوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔
یہ کام بکریوں کے علاوہ پرندے اور مکھیاں بھی انجام دیتی ہیں۔
پرندے اور مکھیاں جب پودوں پر بیٹھتی ہیں تو پودوں کے پولی نیٹس ان کے پیروں سے چپک کر جا بجا پھیل جاتے ہیں اس کے بعد جس جگہ یہ گرتے ہیں وہاں نئے پودے اگ آتے ہیں اور یوں پودوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
ریاض/انقرہ : ترک تفتیش کاروں نے سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے جنگل میں جمال خاشقجی کے اعضاء کی تلاش بھی شروع کردی جبکہ قونصل خانے سے لیے گئے نمونوں کا بھی ٹیسٹ لیا جارہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق ترکی کی پولیس نے امریکی اخبار سے منسلک سعودی صحافی جمال خاشقجی کے مبینہ قتل کی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے خاشقجی کی لاش اور اعضاء کی استنبول میں سعودی قونصل خانے کے قریب واقع جنگل اور کھیتوں میں تلاش شروع کردی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کیس کی تفتیش کرنے والی تحقیقاتی ٹیم نے سعودی قونصل خانے اور قونصل خانے کے رہائشی علاقے سے لیے گئے نمونوں کا طبی معائنہ کررہے ہیں کہ آیا وہ سعودی صحافی کے ڈی این اے سے مماثلت رکھتے ہیں یا نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی کے ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت نے اے بی سی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خاشقجی کے مبینہ قتل کی آڈیو سنی تھی لیکن بعد میں انکار کردیا۔
واضح رہے کہ ترکی نے کہا تھا کہ معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ ثبوت کے طور پر موجود ہے لیکن ان آڈیو اور ویڈیو کو عام نہیں کیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ترکی میں سعودی صحافی کی گمشدگی اور مبینہ قتل سعودی عرب اور اس کے مغربی اتحادیوں درمیان کشیدگی کی وجہ کا بن سکتا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی وزیر خزانہ اسٹیون میونچن اور برطانوی وزیر برائے عالمی تجارت لائم فوکس آئندہ ہفتے ریاض میں سرمایہ کاری متعلق منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ریاض میں سرمایہ سے متعلق کانفرنس کا انعقاد اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو پروموشن کےلیے کیا ہے۔
یاد رہے کہ سعودی صحافی کی گمشدگی سے متعلق ترک تحقیقاتی ٹیم نے دعوی کیا ہے کہ سعودی صحافی کے قتل کی آڈیو حاصل کرلی ہے، جمال خاشقجی کو وحشیانہ طریقے سے قتل کیا گیا اور لاش کے ٹکڑے کر کے تیزاب میں ڈالے گئے۔
حکام نے دعوی کیا ہے خاشقجی کو قتل کرنے کیلئے پندرہ افراد ریاض سے استنبول پہنچے، جنہوں نے انوسٹیگشن کے نام پر سعودی صحافی کو قتل کیا۔
دوسری جانب سعودی حکام نے سعودی صحافی کے قتل کے الزام کو مسترد کردیا۔
امریکی صدر کا کہنا ہے ترکی کے پاس قتل کے ثبوت ہیں تو ہمیں فراہم کئے جائیں، آڈیومیں کیا ہے ہمیں بتایا جائے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی اخبار نے دعویٰ کیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کرکے لاش کے ٹکڑے کردئیے گئے، قتل میں سعودی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں۔
خیال رہے جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو سعودی عرب کے قونصل خانے کی عمارت کے اندر جاتے دیکھا گیا، جس کے بعد سے وہ لاپتہ ہیں، وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر شدید تنقید کرتے رہے تھے اور یمن میں جنگ کے بعد ان کی تنقید مزید شدید ہوگئی تھی۔
آج دنیا بھر میں تیمر یا مینگرووز کے جنگلات کے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ان قیمتی جنگلات کی اہمیت اور ان کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا ہے۔
تیمر کے جنگلات ساحلی علاقوں کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کی جڑیں نہایت مضبوطی سے زمین کو جکڑے رکھتی ہیں جس کے باعث سمندری کٹاؤ رونما نہیں ہوتا اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔
ساحلی پٹی پر موجود مینگروز سمندری طوفان کے ساحل سے ٹکرانے کی صورت میں نہ صرف اس کی شدت میں کمی کرتے ہیں، بلکہ سونامی جیسے بڑے خطرے کے آگے بھی حفاظتی دیوار کا کام کرتے ہیں۔
کراچی کے تیمر تباہی کی زد میں
پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔
تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔
سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔
تاہم ایک عرصے سے کراچی کو خوفناک سمندری طوفانوں اور سیلابوں سے بچائے رکھنے والا یہ تیمر اب تباہی کی زد میں ہے۔
سندھ کی بے لگام ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے تیمر کے ان جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے۔
بیسویں صدی کے شروع میں یہ مینگرووز 6 لاکھ ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب گھٹتے گھٹتے صرف 1 لاکھ 30 ہزار ایکڑ تک رہ گئے ہیں۔
ان مینگرووز کو تباہ کرنے والی وجوہات میں قریبی کارخانوں سے نکلنے والی آلودگی اور سندھ و پنجاب میں ناقص آبپاشی نظام کے باعث آنے والے سیلاب بھی ہیں۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ تیمر اب اپنی ڈھال کی حیثیت کھو چکا ہے، اور اب اگر کسی منہ زور طوفان یا سونامی نے کراچی کا رخ کیا، تو اس شہر کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ قیمتی جنگلات کس طرح خوفناک سمندری طوفانوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔