Tag: جنگ آزادی

  • یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    یادِ رفتگاں: مجاہدِ آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی

    فضل حق خیر آبادی ہندوستان میں 1857ء کی جنگ آزادی کے روح رواں تھے جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا۔ فضل حق کا نام آج تاریخ کے صفحات تک محدود ہے جن کی عملی جدوجہد، سیرت و کردار کا اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہو اور اپنے اجداد پر فخر کرسکے۔ وہ ایک فلسفی، شاعر اور مذہبی عالم تھے، لیکن ان کی وجہِ شہرت انگریزوں کے ہندوستان پر قبضہ کے خلاف جہاد کا فتوٰی بنا۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1797ء میں علامہ فضل امام فاروق خیرآبادی صدر الصدور دہلی کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنے والد فضل امام اور حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی و حضرت عبد العزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔

    1809ء میں جب آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی اس وقت تک تمام علوم نقلیہ اور عقلیہ کی تکمیل کر لی۔ ایک مدت تک درس و تدریس میں مصروف رہے اور 1815ء میں سرکاری ملازمت سے وابستہ ہوگئے۔ نواب فیض محمد خاں والی جھجھر (ہریانہ) نے بعد میں انھیں‌ اپنے یہاں بلایا اور پانچ سو روپے نذرانہ پیش کرتے رہے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی جھجھر کے لیے روانہ ہورہے تھے، اس وقت بہادر شاہ ظفر نے اپنا دوشالہ اتار کر آپ کو اوڑھا دیا اور نم آنکھوں سے گویا ہوئے: "چوں کہ آپ جانے کو تیار ہیں، میرے لیے بجز اس کے کوئی چارۂ کار نہیں کہ میں بھی اس کو منظور کر لوں لیکن خدا جانتا ہے کہ لفظ وداع زبان پر لانا دشوار ہے۔”

    جھجھر کے بعد آپ مہاراجہ الور کی دعوت پر ریاست الور، پھر نواب ٹونک اس کے بعد نواب رام پور میں ملازمت کی، رام پور کے بعد لکھنؤ کے صدرالصدور اور "حضورتحصیل” کے مہتمم بنائے گئے۔ سہارن پور میں بھی دو سال تک کسی بڑے عہدے پر فائز رہے۔ ایک عرصہ تک دہلی کے سر رشتہ دار بھی رہے۔ مرزا غالب سے علامہ کے پرخلوص اور گہرے تعلقات تھے، کیوں کہ دونوں بالکل ہم سن تھے، دونوں 1797ء میں پیدا ہوئے تھے۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی 1857ء میں لکھ چھوڑ کر ریاست الور چلے گئے۔ اس دوران آپ نے انقلاب کی آہٹ محسوس کر لی تھی۔ مہاراجہ الورکو آپ نے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیابی نہیں مل سکی۔ علامہ، الور سے مئی 1857ء میں دہلی پہنچے۔ اسی وقت میرٹھ اور دوسری فوجی چھاؤنیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔ گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے ہندو مسلم فوج ناراض ہو گئی۔ چپاتی اور کمبل کی تقسیم کی خاص اسکیم کے تحت گاؤں گاؤں پہلے سے ہو ہی چکی تھی۔

    10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں اچانک فوجیوں نے بغاوت کر دی، باغی فوجیں 11/ مئی 1857ء کو دہلی پہنچ گئیں، بادشاہ دہلی سرگرمیوں کا مرکز بنے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی بھی شریک مشورہ رہے۔ آپ سے جنرل بخت خاں ملاقات کے لیے پہنچے۔ مشورہ کے بعد علامہ نے اپنے ترکش سے آخری تیر نکالا۔

    بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی) میں علماکے سامنے تقریر کی۔ استفتاء پیش کیا۔ مفتی صدر الدین خاں آزردہ صدر الصدور دہلی ، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ دہلوی ، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبر آبادی ، سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔ اس فتوی کے منظر عام پرآتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔ دہلی میں نوے ہزار سپاہی جمع ہو گئے تھے۔ بہادر شاہ نے جب مولوی صاحب کو حکم دیا کہ اپنی فوج کو لڑانے کے لیے لے جاؤ اور انگریزوں کے خلاف لڑائی کرو، تو انھوں نے کہا: "افسوس تو اسی بات کا ہے سپاہی ان کا کہا نہیں مانتے جو ان کی تنخواہ دینے کے ذمہ دار نہیں۔” (بحوالہ: غدر کی صبح شام، ص: 220)

    مولانا فضل حق خیرآبادی بہت بڑے سیاست داں مفکر اور مد بربھی تھے۔ بہادری اور شجاعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورما ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے ، لیکن مولانافضل حق خیر آبادی ان لوگوں میں تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیماں نہیں تھے۔ انھوں نے سوچ سمجھ کر اس میدان میں قدم رکھا تھا اوراپنے اقدام عمل کے نتائج بھگتنے کے لیے وہ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔ سراسیمگی، دہشت اور خوف جیسی چیزوں سے مولا نا بالکل ناواقف تھے۔

    بغاوت وسط مئی 1857ء میں شروع ہوئی ، جوں ہی اس کی اطلاع ملی علامہ اہلِ خانہ کو الور چھوڑ کر دہلی آ گئے اور سرگرمی سے بغاوت کی رہنمائی کی، ساتھ ہی حکومت کے دستور عمل کی ترتیب شروع کر دی۔ جولائی میں جنرل بخت خاں کے دہلی آنے پرفتوائے جہاد مرتب کر کے علماکے دستخط کرائے۔ اسی دوران راجہ الوربنے سنگھ کی خبر ارتحال پر الور چلے گئے۔ پھر ایک ماہ بعد واپس دہلی آ گئے۔

    15 دن دہلی میں قیام کر کے الور آئے اور اپنے اہل وعیال کو لے کر اوائل ستمبر میں دہلی آگئے۔ وسط ستمبر میں دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ ان کے تمام امرا و متعلقین بھی اپنے اہل و عیال کو لے کر گھروں میں مال و متاع چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان سب کے شہر چھوڑ کر چلے جانے سے شہریوں پر سراسیمگی طاری ہوگئی، وہ بھی مکان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر گئے۔ جب شہر خالی ہو گیا تو انگریز فوجیں ان کے مکانوں میں داخل ہوئیں اور جو بھی مال و متاع تھا لوٹ لیا۔ باغی سپاہی موقع غنیمت جان کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

    اس وقت دہلی میں مولوی عبدالحق اور ان کی والدہ وغیرہ موجود تھیں۔ وہ ان سے ملے، کوئی لشکر اور شہری باقی نہ رہا۔ انگریزوں کا پوری طرح شہر پر تسلط قائم ہو گیا۔ دشمنوں نے غلہ اور پانی پر قبضہ جما لیا تھا۔ پانچ روز تک اسی طرح بھوکے پیاسے گزار کر اپنی عزیز ترین متاع کتابیں، مال و اسباب چھوڑ کر اللہ پر بھروسہ کر کے اہل وعیال کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ علامہ اپنے وطن خیر آباد ، اودھ کی طرف چلے جا رہے تھے، راستہ خوف ناک اور دشوار تھا۔ انگریز اور اس کا لشکر دن رات علامہ کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ جاٹوں نے سارے ناکے بند کر دیے تھے۔ کسی گھاٹ پر کوئی کشتی نہ چھوڑی تھی۔ الله تعالی نے علامہ اور ان کے متعلقین کو محفوظ رکھ کر پل اور کشتی کی مدد کے بغیر دریاؤں کو عبور کرا دیا۔ اور اللہ کے بے پایاں رحم وکرم کے سائے میں وہ اپنے وطن میں احباب و رشتہ دار تک پہنچ گئے۔

    اودھ میں بیگم حضرت محل فرنگیوں کے خلاف نبرد آزما تھیں۔ ان کے لشکر کے ساتھ بھی علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ میں شریک ہوئے، لیکن قسمت فرنگیوں کے ساتھ تھی، پے در پے انھیں فتح نصیب ہوتی گئی۔ بیگم حضرت محل اس تباہی و بربادی کے بعد بچے ہوئے تھوڑے سے ساتھیوں کے ہمراہ پہاڑ کی چوٹیوں کو عبور کر کے نیپال کی سرحد میں داخل ہو گئیں۔

    علامہ فضل حق خیرآبادی مسافرت، غربت اور مصیبت کی زندگی گزار رہے تھے لیکن اپنے گھر، اہل وعیال تک پہنچنے کے لیے قدم بڑھتے چلے جارہے تھے کہ امن و امان کا وہ پروانہ جسے ملکہ وکٹوریہ نے جاری کیا تھا اور قسموں سے مؤکد کیا گیا تھا، نظر پڑا۔ اس پروانہ پر بھروسہ کر کے وہ اہل وطن میں پہنچ گئے۔ انھیں بالکل خیال نہ رہا کہ بے ایمان کے عہد و پیان پر بھروسہ اور بے دین کے قسم و یمین پر اعتماد کسی حالت میں درست نہیں۔ تھوڑے دن بعد ہی ایک انگریز حاکم علامہ کو مکان سے بلا کر قید کر دیا اور دارالسلطنت لکھنؤ بھیج دیا۔ ان کا معاملہ ایسے ظالم حاکم کے سپرد کیا جو مظلوم پر رحم کرنا ہی نہ جانتا تھا اور آپ کی چغلی ایسے دو مرتد افراد نے کھائی جو آپ سے قرآن کی محکم آیت میں مجادلہ کرتے تھے۔

    انگریزوں نے علامہ کو قید کرنے کے بعد ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنا شروع کیا۔ ان کا جوتا اتار لیا، لباس اتار کر موٹے اور سخت کپڑے پہنا دیے۔ زم اور بہتر بستر چھین کر خراب ، سخت اور تکلیف دہ بچھونا حوالہ کر دیا۔ نہ پلیٹ، نہ لوٹا اور نہ کوئی برتن ان کو دیا۔ ماش کی دال گرم پانی کے ساتھ کھلایا جاتا۔ اس طرح جزیرہ انڈمان کے کنارے ایک اونچے پہاڑ پر پہنچا دیا گیا، جہاں کی آب و ہوا ناموافق تھی۔ سورج ہمیشہ سر پر رہتا، پانی زہر ہلاہل۔

    علامہ متعدد سخت امراض میں مبتلا ہو گئے۔ صبح و شام اس طرح بسر ہوتی کہ تمام بدن زخموں سے چھلنی بن چکا تھا۔ اور 19 اگست 1861ء میں اس عظیم مجاہد آزادی کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو گئی۔

    علامہ کی قبر انڈمان کے ساؤتھ پوائنٹ (جسے عرف عام میں نمک بھٹہ کہتے ہیں) کی ایک بستی میں ہے جس کا ایک سمندری کنارہ Ross جزیرہ سے قریب ہے۔ یہ وہ جزیرہ ہے جہاں علما وغیرہ کو جہاز سے اتارا جاتا تھا۔

    (ماخوذ از: ذرا یاد کرو قربانی)

  • میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    میرٹھ کے باغی اور خفیہ میٹنگ

    ہندوستان کی سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں 1857ء ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی نے اس کو شورش قرار دیا تو کسی نے غدر اور فوجی بغاوت سے تعبیر کیا۔ ملک کی آزادی کے بعد سے 1857ء کو آزادی کی پہلی جنگ یا قومی تحریک کے عنوان سے پکارا جاتا ہے۔ غرض کہ ڈیڑھ سو سال قبل 9 مئی 1857ء کو جو فوجی بغاوت میرٹھ سے شروع ہوئی وہ انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگِ آزادی کی پہلی آواز تھا۔

    تاریخ اور ادب سے متعلق مزید تحریریں‌ پڑھیں

    ملکی اور غیر ملکی مؤرخ 1857ء کی بغاوت کی ماہیت کے بارے میں جتنی بھی بحث کریں لیکن ہندوستان کے عوام یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ میرٹھ کی یہ بغاوت ہماری قومی تحریک کا سر چشمہ ہے۔

    خود فیلڈ مارشل لارڈ رابرٹس نے تسلیم کیا ہے کہ ’’حکومتِ ہند کے سرکاری کاغذات میں مسٹر فارسٹ کی تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کارتوسوں کی تیاری میں جو روغنی محلول استعمال کیا گیا تھا، واقعی وہ قابلِ اعتراض اجزاء یعنی گائے اور سؤر کی چربی سے مرکب تھا اور ان کارتوسوں کی ساخت میں فوجیوں کے مذہبی تعصبات اور جذبات کی مطلق پروا نہیں کی گئی۔

    1857ء کے اس خونیں انقلاب میں میرٹھ کے 85 بہادر سپاہیوں نے پوری دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد، جذبۂ ایثار، مادرِ وطن کی خاطر مذہبی اتحاد اور رواداری کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ گائے کا گوشت کھانے والے اور گائے کی پوجا کرنے والے، لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ کا کلمہ پڑھنے والے مسلمان اور منتروں کا جاپ کرنے والے ہندوؤں نے مل کر بغاوت کی۔

    میرٹھ چھاؤنی سے جو بھی سپاہی ملک کے کسی حصہ کی طرف کوچ کرتا تھا وہ نعرہ لگاتا ہوا کہتا تھا کہ ’’ بھائیو! ہندو اور مسلمانو!! انگریزوں کو اپنے ملک سے باہر کرو۔‘‘ انقلابیوں کے اس حقارت آمیز نعرے میں تین الفاظ اہمیت کے حامل ہوا کرتے تھے یعنی ’’ہندو اور مسلمان ‘‘۔ ان تین الفاظ میں اس بات کی تلقین کی جا رہی تھی کہ ہندو اور مسلمان مل کر یہ قومی جنگ لڑیں کیونکہ اس کے بغیر غلامی سے نجات نہیں ہو سکتی۔ اس اعلان کے بعد پورے ہندوستان میں انقلاب کی لہر دوڑ گئی۔

    میرٹھ کے فوجیوں میں انقلاب کی روح پھونکنے والا شخص عبداللہ بیگ نام کا ایک بر طرف فوجی افسر تھا جس نے اپنے ہم وطن فوجی ساتھیوں سے کہا تھا کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جو کارتوس تمہیں دیے جا رہے ہیں ان میں سؤر اور گائے کی چربی لگی ہوئی ہے اور سرکار تمہاری ذات بگاڑنے کی خواہش مند ہے۔ میرٹھ فوج کے دو مسلم سپاہی شیخ پیر علی نائک اور قدرت علی نے سب سے پہلے 23 اپریل 1857ء کی رات کو ملٹری میس میں ایک خفیہ میٹنگ کی اور اسی وقت ہندو اور مسلم فوجیوں نے مقدس گنگا اور قرآن شریف کی قسمیں کھا کر حلف لیا کہ وہ اس کارتوس کا استعمال نہیں کریں گے۔ 24 اپریل 1857ء کو فوجی پریڈ گراؤنڈ پر نوے فوجیوں میں سے 85 فوجیوں نے جن میں سے اڑتالیس مسلمان اور37 ہندو تھے کمپنی کمانڈر کرنل اسمتھ (Smyth) کے سامنے اعلان کر دیا کہ وہ چربی والے کارتوس اس وقت تک استعمال نہیں کریں گے جب تک کہ وہ پوری طرح مطمئن نہیں ہو جاتے۔ چنانچہ ایک فوجی عدالت میں ان سپاہیوں کو پیش کیا گیا اور جابر فوجی عدالت نے تمام سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزا سنائی۔ سپاہیوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جو جنرل ہیوٹ (Hewitt) نے مسترد کر دی۔

    9 مئی 1857ء کو ہندوستانی رسالے کی پلٹن کو میدان میں آنے کا حکم دیا گیا۔ چاروں طرف توپ اور گورا فوج تیار کھڑی تھی۔ پچاسی سپاہیوں کو ننگے پاؤں پریڈ کراتے ہوئے میدان میں لایا گیا اور چار سپاہیوں کو وہیں گولی کا نشانہ بنا دیا گیا اور بقیہ اکیاسی سپاہیوں کی وردیاں پھاڑ کر اتار دی گئیں، فوجی میڈل نوچ لئے گئے اور وہاں پہلے سے موجود لوہاروں سے ان باغی سپاہیوں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔

    جو سپاہی پلٹن میدان سے واپس آ گئے تھے ان میں نفرت اور غصہ پھوٹ رہا تھا اور انہوں نے 10 مئی کو اتوار کے دن جب سبھی انگریز فوجی افسر گرجا گھر میں اتوار کی عبادت کے لئے جمع ہو رہے تھے کہ یکایک چند جوشیلے نوجوانوں نے مشتعل ہو کر ہندوستانی سپاہیوں کی بیرکوں میں آگ لگا کر آزادی کی جد و جہد کا اعلان کر دیا۔ کرنل فینس (Finnis) سب سے پہلے ان انقلابی سپاہیوں کی گولی کا نشانہ بنے۔ اس کے بعد نو اور انگریزوں کو قتل کر دیا گیا جن کی قبریں آج بھی میرٹھ۔ رڑکی روڈ پر واقع سینٹ جونس سیمٹری میں اس تاریخی واقعہ کی یاد دلاتی ہیں۔ حالانکہ بہت سے مؤرخین نے ہزاروں انگریزوں کے قتلِ عام کا حوالہ دیا ہے مگر میرٹھ کے قدیمی مسیحی قبرستان میں صرف دس قبریں ہیں جو دس مئی کے واقعہ کی خاموش گواہ ہیں۔

    ان انقلابی فوجیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنے میں میرٹھ کے صدر بازار کی چار طوائف صوفیہ، مہری، زینت اور گلاب کو بھی بہت دخل ہے۔ ان فوجیوں کو ان طوائفوں نے ہی وطن پرستی کے لئے للکارا تھا اور اس طرح 1806ء میں قائم میرٹھ کی فوجی چھاؤنی دیکھتے دیکھتے ہی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی۔

    ظہیر دہلوی لکھتے ہیں کہ ان عورتوں نے لعن و طعن و تشنیع سے پنکھا جھل جھل کر نارِ فتنہ و فساد کو بھڑکانا شروع کیا اور ان کی چرب زبانی آتشِ فساد پر روغن کا کام کر گئی۔ ان عورات نے مردوں کو طعنے دینے شروع کیے کہ تم لوگ مرد ہو اور سپاہی گری کا دعویٰ کرتے ہو مگر نہایت بزدل بے عزت اور بے شرم ہو۔ تم سے تو ہم عورتیں اچھی ہیں تم کو شرم نہیں کہ تمہارے سامنے افسروں کے ہتھکڑیاں، بیڑیاں پڑ گئیں مگر تم کھڑے دیکھا کئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا۔ یہ چوڑیاں تو تم پہن لو اور ہتھیار ہم کو دے دو ہم افسروں کو چھڑا کر لاتی ہیں۔ ان کلمات نے اشتعال طبع پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مردانگی کی آگ بھڑک اٹھی اور مرنے مارنے پر تیار ہو گئے۔ میرٹھ کے اس واقعہ نے عام بغاوت کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور آگ کی طرح یہ خبریں پھیل گئیں تھیں۔ میرٹھ چھاؤنی کی اس چنگاری نے دیکھتے ہی دیکھتے شعلۂ جوالہ بن کر پورے برِ صغیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    اسی دوران انقلابیوں نے میرٹھ سینٹرل جیل کے دروازے توڑ دیے، کھڑکیاں اکھاڑ پھینکیں اور ایک دن پہلے جیل میں قید اپنے ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ ان کے ساتھ تقریباً بارہ سو قیدی بھی جیل سے نکل بھاگے۔ بعض قیدی ہتھکڑی اور بیڑی لگے ہوئے وہاں سے چل دیے اور عبداللہ پور، بھاون پور، سیال، مبارک پور ہوتے ہوئے مان پور پہونچے جہاں کسی نے انگریزوں کے ڈر کی وجہ سے ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے کی ہمت نہیں کی۔ وہاں مان پور گاؤں کے ایک لوہار مہراب خاں نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قیدیوں کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹ ڈالیں اور ان ہتھکڑیوں اور بیڑیوں کو کنویں میں ڈال دیا۔

    میرٹھ کے عالم مولانا سید عالم علی اور ان کے بھائی سید شبیر علی جو صاحبِ کشف بزرگ تھے، دل کھول کر ان باغی سپاہیوں کی مدد کی۔ شاہ پیر دروازے سے نوچندی کے میدان تک ہزاروں جوان سر بکف آتشِ سوزاں بنے ہوئے نبرد آزما دکھائی دے رہے تھے۔ یکایک کپتان ڈریک اسلحہ سے لیس ایک فوجی دستہ لئے ہاپوڑ روڈ پر نمودار ہوا اور ہجوم پر فائرنگ کر دی۔ یہاں زبردست قتلِ عام ہوا۔ 11 مئی1857ء کو بائیس حریت پسندوں کو نوچندی کے میدان میں پھانسی دے دی گئی جن میں سید عالم اور سید شبیر علی صاحبان بھی شامل تھے۔ شہر کے باشندے یہ خبر سن کر بھڑک اٹھے اور اسی دن سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ انتظامیہ مفلوج ہو گئی۔ ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے اور دھوئیں سے آسمان نظر نہیں آ رہا تھا۔

    میرٹھ کے ممتاز شاعر مولانا اسمٰعیل میرٹھی جو خود اس ہنگامے کے عینی گواہ تھے ان کے بیٹے محمد اسلم سیفی اپنے والد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ دس مئی 1857ء کا واقعہ ہے۔ ماہ رمضان المبارک کی 14تاریخ اس دن تھی۔ پڑوس میں دعوت روزہ افطار کی تھی۔ مولانا اور دیگر اعزا اس میں شریک تھے۔ یکایک ہولناک شور و غل کی آوازیں بلند ہوئیں۔

    معلوم ہوا کہ جیل خانہ توڑ دیا گیا ہے اور قیدی بھاگ رہے ہیں۔ لوہار ان کی ہتھکڑیاں اور بیڑیاں کاٹنے میں مصروف ہیں۔ شہر کے لوگ سراسیمہ ہر طرف رواں دواں نظر آ رہے تھے۔ کثیر التعداد آدمی جیل خانہ کی سمت دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ مولانا کے قلب پر اس ہنگامہ کا بہت گہرا اثر ہوا۔ اس عظیم الشان ہنگامۂ دار و گیر کا تلاطم۔ دہلی کی تباہی کا نقشہ، اہلِ دہلی کا حالِ پریشان، ان باتوں نے مولانا کے دل و دماغ پر بچپن ہی میں ایسا گہرا اثر بٹھایا کہ آئندہ زندگی میں فلاح و بہبود و خلائق کے لئے بلا لحاظ دین و ملت یا ذات پات مصروفِ کار رہے۔‘‘ مولانا اسماعیل میرٹھی کے دل میں بھی آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی جس کا اظہار انہوں نے اس طرح کیا ہے۔

    ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر
    ہے وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر
    جو ٹوٹی ہوئی جھونپڑی بے ضرر ہو
    بھلی اس محل سے جہاں کچھ خطر ہو

    (برصغیر کی تاریخ پر مبنی تحقیقی کتاب "میرٹھ اور1857ء” سے اقتباس، تالیف و تدوین ڈاکٹر راحت ابرار)

  • ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    ہیموں کالانی: تحریکِ آزادی میں وادیٔ مہران کے لازوال کردار کا تذکرہ

    برصغیر میں آزادی کی خاطر انگریزوں فوج سے ٹکرانے والے ہیموں کالانی کا شمار تحریکِ آزادی کے سب سے کم عمر کارکنوں میں ہوتا ہے۔ ہمیوں کالانی کو انگریز سرکار نے پھانسی کی سزا دی تھی۔

    ہیموں کا پورا نام ہیمن داس کالانی تھا۔ پیسو مل کالانی کے گھر پیدا ہونے والے اس بچے کو پیار سے ’ہیموں‘ پکارا جاتا تھا۔ ان کے والد ٹھیکیدار تھے۔ ہیموں 11 مارچ 1923ء کو پیدا ہوئے اور سکھر میں ان کا جیون گزرا۔ ہیموں بچپن میں کھیلوں کے شوقین تھے اور باقاعدگی سے اکھاڑے میں جاتے تھے۔ تیراکی کا شوق بھی تھا۔ ساتھ ہی ہیموں مقامی سکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان کے چچا اس وقت سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ اور ان کا مقصد فرنگیوں کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ ہیموں بھی آزادی کا خواب دیکھتے اور کارکنوں کا جوش و جذبہ دیکھتے بڑا ہورہا تھا۔ سکھر یوں بھی سیاسی طور پر ایک بیدار شہر تھا۔ جنگ عظیم، ہندوستان چھوڑ دو تحریک، کرپس مشن اور اس جیسے کئی واقعات اور تحریکوں نے ہیموں کو بھی ایک جذبے سے سرشار کردیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں اطلاع ملی کہ اسلحے سے بھری فرنگیوں کی ایک ٹرین سکھر آرہی ہے۔ طے پایا کہ پٹڑی اکھاڑ دی جائے۔ اس کام کے لیے جب آزادی کے متوالوں کی طرف دیکھا گیا تو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والے ہیموں اور ان کے چند ساتھیوں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ لیکن کارروائی کرنے کے بعد باقی ساتھ فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے جب کہ ہیموں کو پکڑ لیا گیا۔

    ہیموں کو تاجِ برطانیہ کا باغی قرار دے کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن اس نے اپنے ساتھیوں کے نام نہیں‌ بتائے۔ اس کا مقدمہ اسپیشل ٹریبیونل میں چلایا گیا جہاں وکیلوں نے اپنی خدمات رضاکارانہ پیش کیں۔ مگر اسپیشل ٹریبیونل نے اسے بارہ سال کی سزا سنا دی اور بعد میں اسے سزائے موت میں بدل دیا گیا۔ ہیموں نے جان کی قربانی دے کر آزادی کے متوالوں کا جوش و ولولہ بڑھا دیا اور اس کی موت کے چار سال کے اندر اندر انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔

    21 جنوری کی صبح ہیموں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس نوجوان نے ابھی صرف میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہیموں کی موت کے بعد سندھ کے شہروں میں احتجاجی اجتماعات ہوئے۔ کراچی میں سوامی نارائن مندر میں سیاہ جھنڈے لہرائے گئے اور سادھو بیلو میں ہیموں کالانی کی تصویر لگائی گئی۔ تقسیم کے بعد ہیموں کالانی کا خاندان بھارت چلا گیا تھا۔

  • 1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    1857ء کی خونچکاں داستان غالب کے مکاتیب کی روشنی میں

    سر زمینِ ہند و پاک میں انگریزوں کی حکمرانی کا سنگِ بنیاد پلاسی کے میدان میں رکھا گیا۔ بعد ازاں قریباً نوے برس میں یہ اجنبی حکومت پورے ملک پر مسلط ہو گئی اور مزید سو برس تک عنان فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں رہی۔ اس عہد کا ایک نہایت اہم واقعہ 1857ء کا وہ ہنگامۂ خونین تھا جسے اہلِ وطن ابتدا ہی سے جنگِ آزادی قرار دیتے رہے۔ لیکن خود انگریزوں نے اسے ‘‘غدر‘‘ کا نام دیا۔ یہی نام مدّت تک تاریخ کی درسی کتابوں میں استعمال ہوتا رہا۔

    مرزا غالب نے اپنی فارسی اور اردو تصانیف نظم و نثر میں اس واقعے پر جو کچھ لکھا اگر اسے الگ کتاب کی شکل میں مرتب کیا جائے تو یقین ہے کہ ایک ضخیم جلد تیار ہو جائے۔ فارسی نثر کی ایک کتاب جس کا نام ‘‘دستنبو‘‘ ہے صرف اسی واقعہ سے متعلق ہے۔ لیکن میں آج جو نقشہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ محض مرزا کے مکاتیب سے جستہ جستہ اقتباسات لے کر تیار کیا ہے۔

    تمہید کے طور پر عرض کر دینا چاہئے کہ اس ہنگامے کا آغاز 11 / مئی 1857ء کو پیر کے دن ہوا تھا۔ چار مہینے اور چار دن انگریز شہر سے بے دخل رہے۔ 14/ ستمبر 1857ء کو وہ دوبارہ دہلی میں داخل ہوئے۔ 18/ ستمبر کو شہر مکمل طور پر ان کے قبضے میں آ گیا۔ مرزا اس پوری مدت میں ایک دن کے لیے بھی باہر نہ نکلے۔ ان کا مکان بلی ماراں میں تھا جہاں شریک خانی حکیموں کے مکانات تھے۔ اس خاندان کے بعض افراد سرکار پٹیالہ میں ملازم تھے۔ جب انگریزی فوج دوبارہ دہلی میں داخل ہوئی تو اہل شہر گھر بار چھوڑ کر دہلی دروازے ترکمان دروازے اور اجمیری دروازے سے باہر نکل گئے۔ بلی ماراں کے دروازے پر والیٔ پٹیالہ نے شریف خانی خاندان کی حفاظت کے لیے اپنا پہرہ بٹھا دیا تھا۔ اس طرح مرزا کی حفاظت کا بھی بندوبست ہو گیا اور انہیں گھر بار چھوڑ کر باہر نہ نکلنا پڑا۔

    مرزا کے مکاتیب میں اس واقعے کے متعلق سب سے پہلی تحریر نومبر 1857 ء کی ہے جب کہ انگریز شہر پر قابض ہو چکے تھے۔ حکیم غلام نجف کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میاں حقیقتِ حال اس سے زیادہ نہیں کہ اب تک جیتا ہوں۔ بھاگ نہیں گیا۔ نکالا نہیں گیا۔ کسی محکمے میں اب تک بلایا نہیں گیا۔ معرض باز پرس میں نہیں آیا۔ آئندہ دیکھئے کیا ہوتا ہے۔‘‘

    پھر 9/ جنوری 1857ء کو تحریر فرماتے ہیں :

    ‘‘جو دم ہے غنیمت ہے۔ اس وقت تک مع عیال و اطفال جیتا ہوں۔ بعد گھڑی بھر کے کیا ہو کچھ معلوم نہیں۔ قلم ہاتھ میں لئے بہت کچھ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر لکھ نہیں سکتا۔ اگر مل بیٹھنا قسمت میں ہے تو کہہ لیں گے ورنہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ‘‘

    یہ اگرچہ چند فقرے ہیں جن میں کچھ نہیں لکھا گیا۔ لیکن لفظ لفظ بتا رہا ہے کہ اس وقت حالات کتنے نازک تھے اور بے یقینی کس پیمانہ پر پہنچی ہوئی تھی۔

    یہ ہنگامہ درحقیقت ایک خوفناک زلزلہ تھا جس نے سب کچھ تہہ و بالا کر ڈالا۔ جس ماحول میں مرزا نے اپنی زندگی کے ساٹھ برس گزارے تھے اس کی بساط لپیٹی جاچکی تھی اور اس کی جگہ بالکل نیا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ مرزا کے دل پر اس وسیع اور ہمہ گیر انقلاب کا اتنا گہرا اثر تھا کہ وہ 1857ء کے پیشتر کے دور اور بعد دور کو دو الگ الگ عالم سمجھنے لگے تھے۔ یا کہنا چاہئے کہ ہندوؤں کے طریق تعبیر کے مطابق ان کے نزدیک ایک جنم ختم ہو گیا تھا، اور دوسرا جنم وجود میں آ گیا تھا۔ اپنے عزیز ہندو شاگرد ہر گوپال تفتہ کو تحریر فرماتے ہیں:

    ‘‘صاحب۔ تم جانتے ہو کہ یہ کیا معاملہ ہے اور کیا واقعہ ہوا۔ وہ ایک جنم تھا جس میں ہم تم باہم دوست تھے، اور طرح طرح کے ہم میں تم میں معاملات مہر و محبت در پیش آئے۔ شعر کہے۔ دیوان لکھے اس زمانے میں ایک بزرگ تھے اور ہمارے تمہارے دلی دوست تھے۔ منشی نبی بخش ان کا نام اور حقیر ان کا تخلص۔ نہ وہ زمانہ رہا نہ وہ اشخاص۔ نہ وہ معاملات نہ وہ اختلاط نہ و انبساط۔ بعد چند مدّت کے پھر دوسرا جنم ہم کو ملا۔ اگرچہ صورت اس جنم کی بعینہ مثل پہلے جنم کے ہے۔ یعنی ایک خط میں نے منشی صاحب کو بھیجا۔ اس کا جواب آیا۔ ایک خط تمہارا کہ تم بھی موسوم بہ منشی ہر گوپال و متخلص بہ تفتہ ہو، آیا اور میں جس شہر میں رہتا ہوں اس کا نام دلّی اور اس محلّے کا نام بلی ماراں کا محلّہ۔ لیکن ایک دوست اس جنم کے دوستوں سے نہیں پایا جاتا۔‘‘

    میں عرض کر چکا ہوں کہ انگریزی فوج کے داخلے کے ساتھ ہی اہل شہر باہر نکل گئے تھے۔ اور پورا شہر بے چراغ ہو چکا تھا۔ انگریزوں نے اس کے بعد عام دار و گیر کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزا فرماتے ہیں: ‘‘مبالغہ نہ جاننا امیر غریب سب نکل گئے جو رہ گئے وہ نکالے گئے۔ جاگیردار پنشن دار، دولت مند، اہلِ حرفہ کوئی بھی نہیں۔ مفصل لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ملازمانِ قلعہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دار و لیر میں مبتلا ہیں۔‘‘

    ‘‘اپنے مکان میں بیٹھا ہوں۔ دروازے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ سوار ہونا اور کہیں جانا تو بڑی بات ہے۔ رہا یہ کہ کوئی میرے پاس آوے۔ شہر میں ہے کون جو آوے ؟ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں۔ مجرم سیاست پائے جاتے ہیں۔ جرنیلی بندوبست (یعنی مارشل لا) یاز دہم مئی سے آج تک یعنی پنجشنبہ پنجم دسمبر 1857ء تک بدستور ہے۔ کچھ نیک و بد کا حال مجھ کو نہیں معلوم۔ ‘‘

    مرزا کے ایک شاگرد، منشی شیو نارائن آرامؔ نے آگرے سے ایک اخبار نکالا تھا۔ مرزا سے استدعا کی کہ اس کے لیے خریدار بہم پہنچائیے۔ جواب میں فرماتے ہیں:

    ‘‘یہاں آدمی کہاں ہیں کہ اخبار کے خریدار ہوں۔ مہاجن لوگ جو یہاں بستے ہیں وہ یہ ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ گیہوں کہاں سستے ہیں۔ بہت سخی ہو گئے تو جنس پوری دے دیں گے۔ کاغذ (یعنی اخبار) روپیہ مہینے کا کیوں مول لیں گے۔ ‘‘

    میر مہدی مجروح نے اسی زمانے میں ایک غزل بھیجی اس کے مقطع کا آخری مصرع یہ تھا:

    ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے ‘‘

    اس مصرع نے مرزا کے سازِ درد کا ہر تار ہلا دیا۔ فرماتے ہیں:

    ‘‘اے میر مہدی۔ تجھے شرم نہیں آتی ‘‘میاں یہ اہلِ دہلی کی زبان ہے۔ ‘‘

    ‘‘اے، اب اہل دہلی ہند ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں۔ خاکی ہیں یا پنجابی ہیں یا گورے ہیں ان میں سے تو کسی کی تعریف کرتا ہے۔ ۔ ۔ اے بندۂ خدا اردو بازار نہ رہا۔ اردو کہاں ؟ دلّی کہاں واللہ اب شہر نہیں ہے، کیمپ ہے۔ چھاؤنی ہے نہ قلعہ نہ شہر نہ بازار نہ نہر۔ ‘‘

    نواب علاؤ الدین خان کو لکھتے ہیں :

    ‘‘میری جان۔ یہ وہ دلّی نہیں جس میں تم پیدا ہوئے۔ ایک کیمپ ہے۔ مسلمان اہلِ حرفہ یا حکام کے شاگرد پیشہ، باقی سراسر ہنود۔ ‘‘

    جنگِ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں نے یکساں حصہ لیا تھا لیکن انگریزوں کی نظروں میں اصل مجرم صرف مسلمان تھے۔ چنانچہ وہی زیادہ تر دار و گیر کے ہدف بنے۔ انہیں کو بالعموم پھانسیاں ملیں۔ انہیں کی جائیدادیں ضبط ہوئیں۔ شہر سے باہر نکلنے میں بھی ہندو اور مسلمان برابر تھے۔ لیکن ہندوؤں کو بہت جلد گھروں میں آباد ہونے کی اجازت مل گئی۔ مسلمان بدستور باہر پڑے رہے۔ یا جن کو کسی دوسرے شہر میں ٹھکانا نظر آیا، وہاں چلے گئے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘واللہ ڈھونڈھے کو مسلمان اس شہر میں نہیں ملتا۔ کیا امیر، کیا غریب کیا اہل حرفہ، اگر کچھ ہیں تو باہر کے ہیں۔ ہندو البتہ کچھ کچھ آباد ہو گئے ہیں۔

    ایک اور خط میں لکھتے ہیں۔

    ‘‘ابھی دیکھا چاہئے مسلمانوں کی آبادی کا حکم ہوتا ہے یا نہیں۔ ‘‘

    مدت تک مسلمانوں کو شہر میں آباد ہونے کا حکم نہ ملا۔ تو ان میں سے بعض نے شہر کے باہر ہی جگہ جگہ عارضی مکان بنانے شروع کر دیے۔ اس پر حکم ہوا کہ سب مکان ڈھا دیے جائیں اور اعلان کر دیا جائے کہ آئندہ کوئی مکان نہ بنائے۔ مرزا لکھتے ہیں :

    ‘‘کل سے یہ حکم نکلا ہے کہ یہ لوگ شہر سے باہر مکان وکان کیوں بناتے ہیں۔ جو مکان بن چکے ہیں انہیں گروا دو۔ آئندہ کو ممانعت کا حکم سنا دو۔ آج تک یہ صورت ہے دیکھیے۔ شہر کے بسنے کی کون سی مہورت ہے۔ جو رہتے ہیں وہ بھی خارج کئے جاتے ہیں یا جو باہر پڑے ہیں وہ شہر میں آتے ہیں۔ الملک للہ والحکم للہ۔ ‘‘

    مرزا نے ایک عجیب عبرت افزا واقعہ لکھا ہے۔ جن مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط ہوئی تھیں ان میں ایک حافظ محمد بخش تھے جن کا عرف ‘‘مموں‘‘ تھا۔ بعد میں وہ بے قصور ثابت ہوئے اور جائیداد کی بحالی کا حکم مل گیا۔ انہوں نے کچہری میں درخواست دی کہ میری جائیداد پر قبضہ دلایا جائے۔ انگریز حاکم نے نام پوچھا۔ عرض کیا محمد بخش۔ چونکہ درخواست میں عرف بھی درج تھا اس لیے حاکم نے پوچھا ‘‘مموں ‘‘ کون ہے؟ عرض کیا کہ نام میرا محمد بخش ہے۔ لوگ مجھے ‘‘مموں، مموں ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ صاحب نے سن کر فرمایا:

    ‘‘یہ کچھ بات نہیں۔ حافظ محمد بخش بھی تم۔ حافظ مموں بھی تم۔ سارا جہاں بھی تم جو دنیا میں ہے وہ بھی تم۔ ہم مکان کس کو دیں ؟ مسل داخل دفتر ہوئی۔ میاں اپنے گھر چلے آئے۔‘‘

  • انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    انگریز، شاہ ولی اللہ اور ان کی تحریک

    اس تحریک کی ابتدا غدر سے کافی قبل ہوتی ہے۔ فروری 1707ء میں بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے ہی مغلیہ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ ملک کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ نتیجتاً تخریبی عناصر سَر اٹھاتے ہیں۔ یورپ کی سفید فام طاقتیں جن کو اوررنگ زیب کے آبا و اجداد نے مہربانیوں اور عنایتوں سے نوازا تھا، جن کو شاہ جہاں نے اپنے غیظ و غضب کا شکار بھی بنایا تھا، اب ان کو تجارت کی آزادی مل چکی تھی۔ لیکن رفتہ رفتہ تجارت کے ساتھ اب ان کا عمل دخل ملک کے سیاسی معاملات میں بھی ہونے لگا۔

    صوبوں کے گورنر خود مختار ہونے لگے۔ مرہٹوں کی طاقت روز بروز بڑھنے لگی۔ دہلی کے شمال میں روہیلوں کی حکومتیں قائم ہونے لگیں۔ مغرب میں جاٹوں نے اپنے اثرات پھیلائے، سب کے سب آپس میں لڑتے مرتے رہتے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے۔ ایسے حالات میں 1739ء میں نادر شاہ کا حملہ ہوا جس نے دہلی میں قتل و خون کا بازار گرم کر دیا۔ اس کے بعد 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کے حملے شروع ہوئے اور دو ماہ تک اس قدر لوٹ مار مچائی کہ اس کے آگے نادر شاہ کے حملے بھی بھلا دیے گئے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملے کے دس سال بعد 1757ء میں بنارس کی مشہور لڑائی ہوئی۔ اس کے بعد کئی حملے احمد شاہ ابدالی کے اور ہوئے۔ جس نے دن بدن مرکز کی حکومت کو اور کمزور کر دیا۔ دربار لُٹا۔ خزانے لوٹے گئے۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد سے پچاس سال کی میعاد میں متعدد بادشاہ تخت پر بٹھائے گئے اور اتارے گئے۔ ملک کے ان سیاسی حالات نے اقتصادی اور معاشی حالات پر بہت اثر ڈالا۔ ہندستان ہچکولے کھانے لگا۔ چند ہی برسوں میں اس کی حالت گر گئی۔ مذہب کی اہمیت گھٹتی چلی گئی۔ مذہبی اعتبار سے جب قوم اپنی پستی و زوال کے انتہا پر پہنچ جاتی ہے، تو اس کے سنبھالنے کے لیے خدا ایک قوم پرور شخصیت اس زمین پر اتارتا ہے۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کے خیال کے مطابق: "جب حالات اس حد تک پہنچ جاتے ہیں تو سنّتِ الہٰی کے مطابق کسی مصلح کا ظہور ہوتا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ کی ذات روشنی کی اس کرن کی طرح تھی جو انتہائی تاریکی میں نمودار ہوئی ہو۔”

    شاہ ولی اللہ صاحب ٹھیک اسی دور (1762ء۔ 1702ء ) کے پیداوار تھے۔ انھوں نے یہ تمام زوال اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ وطن کو اُجڑتے دیکھا، قوم کو بکھرتے دیکھا، مذہبی انتشار دیکھا اور مذہب کے دشمنوں کا بڑھتا ہوا اقتدار بھی دیکھا۔ خدا نے ایک درد مند دل اور سنجیدگی سے سوچنے والا دماغ دے رکھا تھا۔ بس اٹھ کھڑے ہوئے اور قوم کی مذہبی، اخلاقی، سیاسی اور اخلاقی اصلاح کا سنجیدگی سے منصوبہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستان کی قوموں میں مذہب سے متعلق سچا جذبہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔ جب کہ مذہبی جذبہ ہی انسان کو انسان بناتا ہے۔ اور یہی جذبہ اپنے ملک اور قوم کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اقتصادی اور معاشی توازن بخشنے میں بھی یہی جذبہ کام کرتا ہے۔ اور مذہبی جذبہ جبھی ختم ہوتا ہے جب اس کے ماننے والے معاشی و اقتصادی بحران کا شکار ہوں گے۔ شاہ صاحب نے مسلمانوں کو مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے پستے دیکھا، جس کے سو فیصد ذمہ دار انگریز تھے۔ لہٰذا سات سمندر پار سے آئی ہوئی اس غیر ملکی حکومت کو شاہ صاحب سخت ناپسند کرتے تھے۔ انگریزوں نے سب سے زیادہ اثر مسلم تجاّر پر ہی ڈالا۔ شاہ صاحب کو اس طبقہ کی تباہی کا سخت افسوس تھا کیونکہ معیشت کا انحصار اسی طبقہ پر ہوتا ہے۔

    اسی درمیان آپ نے 1728ء میں حجاز کا سفر فرمایا۔ وہاں دو سال قیام کے بعد یورپ اور ایشیا میں رہ کر تفصیلی معلومات حاصل کیں، وہاں کے حالات کو پڑھا۔ غور کیا۔ تمام عرب ممالک میں مسلمانوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ وہاں سے واپسی پر آپ ایک نیا ذہن، نئی بیداری اور نئے خیالات لے کر آئے۔

    واپس آتے ہی انھوں نے اقتصادی اور سیاسی اصول مرتب کیے، جس کا اظہار عوامی طبقہ پر تھا۔ ان لوگوں کے حق میں تھا جو محنت کرتے ہیں۔ پسینہ بہاتے ہیں۔ اس حکومت اور اس سماج کی بے حد برائی کی جو مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، انھوں نے اسے قوم کا دشمن قرار دیا۔ علمی اصلاح کے لیے قرآن عظیم کی حکمت عملی کو اس کا معجزہ ثابت کرنے کا عنوان بنایا اور دولت کے تمام اخلاقی اور عملی مقاصد کا مرجع اور مدار اقتصادی عدم توازن کو قرار دیا۔

    شاہ صاحب کے یہ خیالات تیزی سے پھیلے اور رفتہ رفتہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔1762ء میں شاہ ولی اللہ کا انتقال ہو گیا۔ لیکن وہ اپنی ذات والا صفات سے ہندستان میں ایک تحریک کی بنیاد ڈال گئے۔ مولانا عبیداللہ سندھی، جو شاہ ولی اللہ کے پیرو تھے، انھوں نے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقتاً شاہ صاحب نے ایک مجاہدانہ زندگی گزاری۔ قوم کی اصلاح کے سلسلے میں ایک تحریک کی بنیاد ڈالی، جو ان کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے جاری رکھی۔ شاہ ولی اللہ کے بعد یہ ذمہ داری ان کے بیٹے شاہ عبد العزیز صاحب نے سنبھالی۔ شاہ عبدالعزیز کے ذمہ داری سنبھالتے سنبھالتے ملک کے حالات اور بدل چکے تھے۔ مغل تخت جاٹوں، مرہٹوں اور سکھوں کے بیچ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ خود دربار کے لوگ آپس میں خون بہا رہے تھے۔ اسی درمیان 1756ء کو عالمگیر دوم کا قتل کر دیا گیا۔ انگریزی اقتدار اور تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ انگریزی حکومت کے دشمنوں کے حسرت ناک انجام ہو رہے تھے۔
    مسلمانوں کی تمام طاقتیں انگریزوں کے آگے سر جھکا چکی تھیں۔ حکومت اور مذہب دونوں پر انگریزوں کا دور دورہ ہو گیا۔ 1765ء میں جب پٹنہ اور بکسر میں بھی انگریزوں کو کامیابی مل گئی تب دہلی پر قبضہ کرنا زیادہ مشکل کام نہ تھا اور رفتہ رفتہ انگریز اپنا جال بچھاتے ہوئے 1802ء میں دہلی پر قابض ہو گئے۔

    (ماخذ: عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار)

  • جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    جب دورانِ جلسہ ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا!

    ایک بار لاہور میں‌ انجمنِ حمایتِ اسلام کے جلسے میں اپنے وقت کی نہایت عالم فاضل شخصیات اکٹھی ہوئیں۔ ان میں سیاست سے ادب تک اپنے نظریات اور فن و تخلیق کی بدولت ہندوستان بھر میں مقام و مرتبہ پانے والے شامل تھے۔ اس موقع پر ایک جذباتی منظر بھی دیکھنے میں آیا۔ اس واقعے کو جیّد صحافی، شاعر اور افسانہ نگار عبدالمجید سالک نے اپنی خود نوشت سوانح "سرگزشت” میں یوں بیان کیا ہے۔

    اس اجلاس میں ایک بہت دل چسپ واقعہ ہوا، جو مجھے اب تک یاد ہے۔ خواجہ دل محمد صاحب ان دنوں کوئی انیس بیس سال کے نوجوان تھے اور اسی سال انہوں نے ریاضی میں ایم – اے کر کے برادرانِ وطن کے اس طعنے کا مؤثر جواب مہیا کیا تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا۔ خواجہ صاحب کی ایک خصوصیت خاص طور پر حیرت انگیز تھی کہ وہ ریاضی جیسے خشک مضمون کے ساتھ ہی ساتھ بحرِ شاعری کے بھی شناور تھے۔ اس سال انہوں نے ایک پاکیزہ مسدس "کلک گہر بار” کے نام سے پڑھی جس پر بہت پُرشور داد ملی اور انجمن کو چندہ بھی خوب ملا۔

    اس اجلاس میں شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد بھی دہلی سے آئے ہوئے تھے، سر پر چوگوشیہ ٹوپی، چہرے پر تعبّس، سفید ڈاڑھی، لمبا سیاہ چغہ جو غالباً ایل ایل ڈی کا گاؤن تھا۔ آپ نے تقریر شروع کی تو دل آویز اندازِ بیان کی وجہ سے سارا جلسہ ہمہ تن گوش ہوگیا۔

    آپ نے فرمایا، خواجہ دل محمد بہت ذہین اور لائق نوجوان ہیں اور شاعری فی نفسہ بُری چیز نہیں۔ حضرت حسان بن ثابت رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ وسلم کے شاعر تھے لیکن میں کہتا ہوں کہ جو دماغ زیادہ عملی علوم کے لیے موزوں ہے اسے شعر کے شغل میں کیوں ضائع کیا جائے۔ اِس پر حاجی شمس الدّین اٹھے اور کہا کہ شعر چونکہ مسلّمہ طور پر نثر سے زیادہ قلوب پر اثر کرتا ہے اس لیے یہ بھی مقاصدِ قومی کے حصول کے لیے مفید ہے۔ چنانچہ خواجہ صاحب کی نظم پر انجمن کو اتنے ہزار روپیہ چندہ وصول ہوا جو دوسری صورت میں شاید نہ ہوتا۔

    اس پر مولانا نذیر احمد کسی قدر تاؤ کھا گئے اور کہنے لگے۔ حاجی صاحب چندہ جمع کرنا کوئی بڑی بات نہیں، جو شخص خدمت میں ثابت قدم رہتا ہے اس کی بات قوم پر ضرور اثر کرتی ہے۔ یہ کہا اور عجیب دردناک انداز سے اپنی چوگوشیہ ٹوپی اتاری اور فرمایا کہ یہ ٹوپی جو حضور نظام خلد اللہ ملکہ کے سامنے بھی نہیں اتری، محض اس غرض سے اتارے دیتا ہوں کہ اس کو کاسہٴ گدائی بنا کر قوم سے انجمن کے لیے چندہ جمع کیا جائے۔ فقیر آپ کے سامنے موجود ہے، کشکول اس کے ہاتھ میں ہے، دے دو بابا، تمھارا بھلا ہوگا۔

    بس پھر کیا تھا، جلسے میں بے نظیر جوش پیدا ہو گیا۔ مولانا کی ٹوپی مولانا کے سَر پر رکھی گئی اور ہر طرف سے روپیہ برسنے لگا۔ یہاں تک کہ حاجی شمس الدّین کی آواز اعلان کرتے کرتے بیٹھ گئی اور جب ذرا جوش کم ہوا تو مولانا نے پھر تقریر شروع کی اور ہنس کر حاجی صاحب سے کہا۔ اس نظم کے بعد ہماری نثر بھی آپ نے سُنی۔”

    یہ واقعہ بتاتا ہے کہ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے لیے اس زمانے کے اکابرین کس قدر پرخلوص اور دردمندانہ طریقے سے اجتماعات اور چندہ اکٹھا کرنے کی مہمّات میں‌ شریک رہتے تھے۔ اس موقع پر اختلافِ رائے، کسی راہ نما یا کارکن کے اقدام اور فیصلے پر ناراضی اور مؤقف سے بیزاری کا اظہار بھی دراصل ان کے از حد خلوص اور بے نہایت دردمندی کا مظہر تھا۔ یہ ذاتی رنجش، بغض اور انفرادی فائدے یا اپنی انا کی تسکین کے لیے ہرگز نہ ہوتا تھا۔

  • دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    دلّی کا شاہی خاندان اور ماہِ صّیام

    جب دہلی زندہ تھی اور ہندوستان کا دل کہلانے کا حق رکھتی تھی، لال قلعہ پر تیموریوں کا آخری نشان لہرا رہا تھا۔

    انہی دنوں کا ذکر ہے کہ مرزا سلیم بہادر (جو ابو ظفر بہادر شاہ کے بھائی تھے اور غدر سے پہلے ایک اتفاقی قصور کے سبب قید ہو کر الہ آباد چلے گئے تھے) اپنے مردانہ مکان میں بیٹھے ہوئے دوستوں سے بے تکلفانہ باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں زنان خانہ سے ایک لونڈی باہر آئی اور ادب سے عرض کیا کہ حضور بیگم صاحبہ یاد فرماتی ہیں۔ مرزا سلیم فوراً محل میں چلے گئے اور تھوڑی دیر میں مغموم واپس آئے۔ ایک بے تکلف ندیم نے عرض کیا، ’’خیر باشد۔ مزاج عالی مکدّر پاتا ہوں۔‘‘

    مرزا نے مسکرا کر جواب دیا، ’’نہیں کچھ نہیں۔ بعض اوقات امّاں حضرت خواہ مخواہ ناراض ہو جاتی ہیں۔ کل شام کو افطاری کے وقت نتھن خان گویّا گا رہا تھا اور میرا دل بہلا رہا تھا۔ اس وقت اماں حضرت قرآن شریف پڑھا کرتی ہیں۔ ان کو یہ شور و غل ناگوار معلوم ہوا۔ آج ارشاد ہوا ہے کہ رمضان بھر گانے بجانے کی محفلیں بند کر دی جائیں۔ بھلا میں اس تفریحی عادت کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہوں۔ ادب کے لحاظ سے قبول تو کر لیا مگر اس پابندی سے جی الجھتا ہے۔ حیران ہوں کہ یہ سولہ دن کیوں کر بسر ہوں گے۔‘‘

    مصاحب نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا، ’’حضور یہ بھی کوئی پریشان ہونے کی بات ہے۔ شام کو افطاری سے پہلے جامع مسجد تشریف لے چلا کیجیے۔ عجب بہار ہوتی ہے۔ رنگ برنگ کے آدمی طرح طرح کے جمگھٹے دیکھنے میں آئیں گے۔ خدا کے دن ہیں۔ خدا والوں کی بہار بھی دیکھیے۔‘‘ مرزا نے اس صلاح کو پسند کیا اور دوسرے دن مصاحبوں کو لے کر جامع مسجد پہنچے۔ وہاں جاکر عجب عالم دیکھا۔ جگہ جگہ حلقہ بنائے لوگ بیٹھے ہیں۔ کہیں مسائل دین پر گفتگو ہورہی ہے۔ دو عالم کسی فقہی مسئلہ پر بحث کرتے ہیں اور بیسیوں آدمی گرد میں بیٹھے مزے سے سن ر ہے ہیں۔ کسی جگہ توجہ اور مراقبہ کا حلقہ ہے۔ کہیں کوئی صاحب وظائف میں مشغول ہیں۔ الغرض مسجد میں چاروں طرف اللہ والوں کا ہجوم ہے۔

    کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذ۔ مرزا کو یہ نظارہ نہایت پسند آیا اور وقت بہت لطف سے کٹ گیا۔ اتنے میں افطار کا وقت قریب آیا۔ سیکڑوں خوان افطاری کے آنے لگے اور لوگوں میں افطاریاں تقسیم ہونے لگیں۔ خاص محل سلطانی سے متعدد خوان مکلّف چیزوں سے آراستہ روزانہ جامع مسجد میں بھیجے جاتے تھے تاکہ روزہ داروں میں افطاری تقسیم کی جائے۔ اس کے علاوہ قلعہ کی تمام بیگمات اور شہر کے سب امراء علیحدہ افطاری کے سامان بھیجتے تھے، اس لیے ان خوانوں کی گنتی سیکڑوں تک پہنچ جاتی تھی۔ چونکہ ہر امیر کوشش کرتا تھا کہ اس کا سامان افطاری دوسروں سے بڑھ کر رہے، اس لیے ریشمی رنگ برنگ کے خوان پوش اور ان پر مقیشی جھالریں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر ہوتی تھیں اور مسجد میں ان کی عجب آرائش ہو جاتی تھی۔

    میرزا کے دل پر اس دینی چرچے اور شان و شوکت نے بڑا اثر ڈالا اور اب وہ برابر روزانہ مسجد میں آنے لگے۔ گھر گھر میں وہ دیکھتے کہ سیکڑوں فقراء کو سحری اور اوّلِ شب کا کھانا روزانہ شہر کی خانقاہوں اور مسجدوں میں بھجوایا جاتا تھا اور باوجود رات دن کے لہو و لعب کے یہ دن ان کے گھر میں بڑی برکت اور چہل پہل کے معلوم ہوتے تھے۔

    مرزا سلیم کے ایک بھانجے مرزا شہ زور نوعمری کے سبب اکثر ماموں کی صحبت میں بے تکلف شریک ہوا کرتے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک تو وہ وقت تھا جو آج خواب و خیال کی طرح یاد آتا ہے اور ایک وہ وقت آیا کہ دہلی زیر و زبر ہو گئی۔ قلعہ برباد کر دیا گیا۔ امیروں کو پھانسیاں مل گئیں۔ ان کے گھر اکھڑ گئے۔ ان کی بیگمات ماما گیری کرنے لگیں اور مسلمانوں کی سب شان و شوکت تاراج ہوگئی۔ اس کے بعد ایک دفعہ رمضان شریف کے مہینے میں جامع مسجد جانے کا اتفاق ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ جگہ جگہ چولھے بنے ہوئے ہیں۔ سپاہی روٹیاں پکا رہے ہیں۔ گھوڑوں کے دانے دلے جا رہے ہیں۔ گھاس کے انبار لگے ہوئے ہیں اور شاہجہاں کی خوبصورت اور بے مثل مسجد اصطبل نظر آتی ہے اور پھر جب مسجد وا گزاشت ہوگئی اور سرکار نے اس کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا تو رمضان ہی کے مہینے میں پھر جانا ہوا۔

    دیکھا چند مسلمان میلے کچیلے پیوند لگے کپڑے پہنے بیٹھے ہیں۔ وہ چار قرآن شریف کا دور کر رہے ہیں اور کچھ اسی پریشان حالی میں بیٹھے وظیفہ پڑھ رہے ہیں۔ افطاری کے وقت چند آدمیوں نے کھجوریں اور دال سیو بانٹ دیے۔ کسی نے ترکاری کے قتلے تقسیم کر دیے۔ نہ وہ اگلا سا سماں، نہ وہ اگلی سی چہل پہل، نہ وہ پہلی سی شان و شوکت۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ بیچارے فلک کے مارے چند لوگ جمع ہوگئے ہیں۔ اس کے بعد آج کل کا زمانہ بھی دیکھا جب کہ مسلمان چاروں طرف سے دب گئے ہیں۔ انگریزی تعلیم یافتہ مسلمان تو مسجد میں نظر ہی کم آتے ہیں۔ غریب غرباء آئے تو ان سے رونق کیا خاک ہو سکتی ہے۔ پھر بھی غنیمت ہے کہ مسجد آباد ہے۔ اگر مسلمانوں کے افلاس کا یہی عالم رہا تو آئندہ خبر نہیں کیا نوبت آئے۔

    مرزا شہ زور کی باتوں میں بڑا درد اور اثر تھا۔ ایک دن میں نے ان سے غدر کا قصہ اور تباہی کا افسانہ سننا چاہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور اس کے بیان کرنے میں عذر مجبوری ظاہر کرنے لگے لیکن جب میں نے زیادہ اصرار کیا تو اپنی درد ناک کہانی اس طرح سنائی۔

    القصہ بہ ہزار دقت و دشواری گرتے پڑتے گاؤں میں پہنچے۔ یہ گاؤں مسلمان میواتیوں کا تھا۔ انہوں نے ہماری خاطر کی اور اپنی چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرا دیا۔

    کچھ روز تو ان مسلمان گنواروں نے ہمارے کھانے پینے کی خبر رکھی اور چوپاڑ میں ہم کو ٹھہرائے رکھا، لیکن کب تک یہ بار اٹھا سکتے تھے۔

    گاؤں والوں سے بھی مانگتے ہوئے لحاظ آتا تھا۔ وہ بھی ہماری طرح اس مصیبت میں گرفتار تھے۔ تاہم بچارے گاؤں کے چودھری کو خود ہی خیال ہوا اور اس نے قطب صاحب سے ایک روپے کا آٹا منگوا دیا۔ وہ آٹا نصف کے قریب خرچ ہوا ہوگا کہ رمضان شریف کا چاند نظر آیا۔ والدہ صاحبہ کا دل بہت نازک تھا۔ وہ ہر وقت گذشتہ زمانے کو یاد کیا کرتی تھیں۔ رمضان کا چاند دیکھ کر انہوں نے ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور چپ ہوگئیں۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو پچھلا زمانہ یاد آ رہا ہے۔ تسلی کی باتیں کرنے لگا، جس سے ان کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔

    اس غوطہ اور ناتوانی کی حالت میں سحری کا وقت آ گیا۔ والدہ صاحبہ اٹھیں اور تہجد کی نماز کے بعد جن درد ناک الفاظ میں انہوں نے دعا مانگی، ان کا نقل کرنا محال ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ ، ’’ہم نے ایسا کیا قصور کیا ہے جس کی سزا یہ مل رہی ہے۔ رمضان کے مہینے میں ہمارے گھر سے سیکڑوں محتاجوں کو کھانا ملتا تھا اورآج ہم خود دانے دانے کو محتاج ہیں اور روزہ پر روزہ رکھ رہے ہیں۔ خداوندا! اگر ہم سے قصور ہوا ہے تو اس معصوم بچی نے کیا خطا کی جس کے منہ میں کل سے ایک کھیل اڑ کر نہیں گئی۔‘‘

    دوسرا دن بھی یونہی گذر گیا اور فاقہ میں روزہ در روزہ رکھا۔ شام کے قریب چودھری کا آدمی دودھ اور میٹھے چاول لایا اور بولا، ’’آج ہمارے ہاں نیاز تھی۔ یہ اس کا کھانا ہے اور یہ پانچ روپیہ زکوٰۃ کے ہیں۔ ہر سال بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری دیا کرتے ہیں، مگر اب کے نقد دے دیا ہے۔‘‘ یہ کھانا اور روپے مجھ کو ایسی نعمت معلوم ہوئے گویا بادشاہت مل گئی۔ خوشی خوشی والدہ کے آگے سارا قصہ کہا۔ کہتا جاتا تھا اور خدا کا شکرانہ بھیجتا جاتا تھا مگر یہ خبر نہ تھی کہ گردشِ فلک نے مرد کے خیال پر تو اثر ڈال دیا، لیکن عورت ذات جوں کی توں اپنی قدیمی غیرت داری پر قائم ہے۔

    چنانچہ میں نے دیکھا کہ والدہ کا رنگ متغیر ہوگیا۔ باوجود فاقہ کی ناتوانی کے انہوں نے تیور بدل کر کہا، ’’تف ہے تیری غیرت پر۔ خیرات اور زکوٰۃ لے کر آیا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ارے اس سے مرجانا بہتر تھا۔ اگرچہ ہم مٹ گئے مگر ہماری حرارت نہیں مٹی۔ میدان میں نکل کر مر جانا، مار ڈالنا، تلوار کے زور سے روٹی لینا ہمارا کام ہے۔ صدقہ خوری ہمارا شیوہ نہیں ہے۔‘‘

    والدہ کی ان باتوں سے مجھے پسینہ آگیا اور شرم کے مارے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ چاہا کہ اٹھ کر یہ چیزیں واپس کر آؤں مگر والدہ نے روکا اور کہا، ’’خدا ہی کو یہ منظور ہے تو ہم کیا کریں۔ سب کچھ سہنا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر کھانا رکھ لیا اور روزہ کھولنے کے بعد ہم سب نے مل کر کھا لیا۔ پانچ روپیہ کا آٹا منگوایا گیا۔ جس سے رمضان خیر و خوبی سے بسر ہو گیا۔

  • بخت خاں، ایک بہادر اور نڈر سپاہی

    بخت خاں، ایک بہادر اور نڈر سپاہی

    1857 میں جب ہندوستانیوں کے دلوں میں پکتا ہوا لاوا شعلۂ جوالا بن کر پھوٹا تو ہر شخص سر پر کفن باندھ کر اس لڑائی میں حصّہ لینے کے لیے کود پڑا۔

    اس لڑائی کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں بادشاہ، علما، بوڑھے، جوان، مرد و عورت سبھی انگریزوں سے آر پار کی جنگ کرنے کو اٹھ کھڑے ہوئے اور شجاعت اور بہادری کی وہ مثالیں پیش کیں جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی میں جن لوگوں نے قیادت کی ذمے داریاں سنبھالیں ان میں بخت خاں کا نام منارۂ نور کی حیثیت رکھتا ہے۔

    بخت خاں کو جنگ آزادی میں شمولیت کی ترغیب مولانا سرفراز علی گورکھپوری نے دی جو گورکھپور کے سوداگر محلے کے رہنے والے تھے۔ سرفراز علی جنگ آزادی کے نمائندہ قائدین میں سے تھے۔ بخت خاں پہلے انگریزوں کی فوج میں صوبیدار تھے۔ بریلی سے بخت خاں تحریک میں حصّہ لینے کے لیے جب دہلی پہنچے تو ان کے ساتھ سو علما بھی تھے جن کی رہنمائی سرفراز علی گورکھپوری کر رہے تھے۔ مراد آباد کی پلٹن نمبر29 بھی ان کے ساتھ تھی۔ ان کا دہلی آنا بہادر شاہ کے لیے نیک شگون ثابت ہوا۔ بہادر شاہ نے انھیں انقلابی فوجوں کی کمان سونپ دی۔

    جس وقت وہ دہلی پہنچے تو بہادر شاہ نے ان کے استقبال کے لیے احمد قلی خاں کو بھیجا۔ ان کے ہمراہ حکیم احسن اللہ خاں، ابراہیم خاں جنرل صمد خاں، غلام علی خاں اور چند افسر بھی موجود تھے۔ بخت خاں نے دہلی آنے کے بعد تحریک میں تیزی لانے کے لیے ایک فتویٰ جہاد مرتب کرایا۔ ساتھ ہی انھوں نے ایک حلف نامہ بھی تقسیم کرایا جن پر سات آٹھ ہزار سپاہیوں سے عہد لیا گیا کہ وہ آخر دم تک انگریزوں سے لڑیں گے۔ وہ اپنے ساتھ چار لاکھ خزانہ بھی لائے تھے اور جو فوج ان کے ہمراہ آئی تھی اس کو وہ چھ ماہ کی تنخواہ پیشگی دے چکے تھے۔

    بخت خاں نے قیادت کی کمان سنبھالنے کی بعد بہت سے اہم فیصلے کیے، شہر میں امن و امان کی فضا بحال کرنے کی کوشش کی، کوتوال کو یہ واضح کردیا کہ بد امنی اور لاقانونیت کو کسی طرح برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر انھوں نے لاپروائی کی تو وہ بھی سزا کے حق دار ہوں گے۔ لوٹ مار میں ملوث شہزادوں اور مہاجنوں پر قدغن لگائی۔ شکر اور نمک کے محصول کو معاف کرایا۔ کیونکہ ان سے عام انسانی زندگی متاثر ہوتی تھی، فوج کو نئے سرے سے درست کیا۔ بچھڑا پلٹن کے نام سے ایک نئی پلٹن کی تشکیل کی جس نے کئی مورچوں پر انگریزوں سے سخت مقابلہ کر کے انھیں مشکل میں ڈال دیا۔

    بخت خاں ایک بہادر اور نڈر سپاہی تھے۔ انھوں نے اپنی آخری سانس تک دہلی کو بچائے رکھنے کی کوشش کی مختلف مورچوں پر شریک ہوئے اور وہاں کامیابی کے جھنڈے گاڑے جس کی تصدیق اس عہد کے بیشتر وقائع نگاروں نے کی ہے۔

    بخت خاں مورچے میں مصروف تھے کہ انھیں خبر ملی بہادر شاہ نے قلعہ چھوڑ کر ہمایوں کے مقبرے میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس خبر نے انھیں بے چین کر دیا۔ وہ اسی رات بہادر شاہ کے پاس گئے اور کہا کہ حالات بے شک نازک ہیں، انگریز شہر پر قابض ہو گئے ہیں، انھوں نے قلعہ بھی لے لیا ہے لیکن ابھی پورا ملک ہماری طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے اور آپ کے نام سے جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔ آپ ہمارے ساتھ چلیں، ہم محفوظ مقامات سے انگریزوں سے جنگ جاری رکھیں گے، آدمی رسد اور ہتھیار فراہم کرنے کی ذمے داری ہماری ہوگی۔ بخت خاں کی تقریر کا بہادر شاہ پر اثر بھی ہوا۔

    اس دوران انگریزوں کا جاسوس اور ایجنٹ الٰہی بخش جو بہادر شاہ کا سمدھی بھی تھا، بہادر شاہ کو شیشے میں اتار چکا تھا۔ بہادر شاہ نے اپنی صحت اور ضعیف العمری کا حوالہ دے کر بخت خاں سے معذرت کر لی اور کہا کہ اب مجھے میرے حال پر چھوڑ دو اور تم خود ہندوستان کی لاج رکھ لو اور اپنے فرض کو انجام دو۔ لیکن بعد میں حالات بدلتے چلے گئے اور بادشاہ کی گرفتاری اورانگریزوں کے قبضے کے بعد بخت خاں نیپال کی طرف چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک معرکے میں مارے گئے اور یہ بھی راویت ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن بنیر ضلع سوات زخمی حالت میں پہنچ گئے تھے اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔ لیکن اس بات میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ انگریز اپنے ازلی دشمن کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ ہندوستان کی تحریک آزادی کے رہنماؤں میں بخت خاں کا مرتبہ بہت بلند ہے۔

    (تاریخی کتب سے اقتباسات)

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔

  • 3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہاں مالک و مختار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ متحدہ ہندوستان (برٹش انڈیا) کا آخری وائسرائے تھا جسے آنے والے دنوں میں یہاں کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا جس کے ساتھ ہی ہندوستان سے برطانیہ کا اقتدار بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔

    ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے بات چیت اور مذاکرات کیے جب مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اور خودمختار و آزاد ریاست کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور کسی قیمت پر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور متحدہ ہندوستان میں حکومت کرنے کا کوئی فارمولا اور آئینی راستہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

    ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے نوآبادیات کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، بالخصوص ہندوستان میں آزادی کے لیے مزاحمت، سیاسی دباؤ اور نوآبادیات میں‌ انتشار اور افراتفری نے برطانوی حکومت کی پریشانیاں بڑھا دی تھیں جس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے بات چیت میں ناکامی کے بعد تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔

    اس موقع پر ایک مرتبہ پھر انگریزوں کی مکّاری اور مسلمان دشمنی کے ساتھ ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کے باب میں جو جو زیادتیاں اور نا انصافیاں کیں، وہ ایک اور نہایت دردناک داستان ہے۔

    مسلمانانِ برصغیر کی آزادی اور خود مختاری انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کا الحاق انڈین یونین سے کیا جائے گا جب کہ ایک اجلاس میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ریاستوں کی آزاد حیثیت بحال ہوجائے گی، لیکن حیدرآباد دکن، جودھ پور، جونا گڑھ، بھوپال، بیکانیر اور میسور کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک علیحدہ دل خراش داستان ہے۔ اضلاع اور سرحد کی تقسیم میں ناانصافیوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھمکیوں اور دباؤ کے شرم ناک اور اوچھے ہتھکنڈے اسی ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔

    3 جون 1947ء ہندوستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز موقع پر ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا مسئلہ آئینی طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے جتنی بھی کوششیں کی تھیں، وہ ناکام ہوگئی تھیں۔ اس دن طے پایا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بانٹ دیا جائے گا مگر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور کھلی سازش اور زبردستی سے کئی علاقے بھارت کو دے دیے گئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

    ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر کون سا علاقہ ہندوستان میں اور کون سا پاکستان میں شامل ہو گا، یہ طے کرنے کا کام برطانوی وکیل ریڈ کلف کا تھا اور وہ تقسیم کی لیکر کھینچ بھی چکے تھے، لیکن وائسرائے کی جانب سے بلاوا آیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد راتوں رات فیروز پور جیسے متعدد علاقے جو اصولی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے، ہندوستان کو دے دیے گئے۔

    14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست ضرور ابھری، لیکن اس وقت تک چالاک اور جانب دار ماؤنٹ بیٹن اپنے سازشی فیصلوں کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو مشکل میں ڈال چکا تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔