Tag: جنگ آزادی

  • چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    ہندوستان کے مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور تحریکِ پاکستان کے لیے دی گئی بے شمار قربانیوں کی بدولت اس سال ہم 74 واں جشنِ آزادی منائیں گے جس کے لیے تیّاریاں جاری ہیں۔

    14 اگست قریب ہے اور ہر سال کی طرح قومی پرچم اور بانی پاکستان و تحریکِ‌ آزادی کے مجاہدین کی تصاویر سے سرکاری و نجی اداروں کی بلند بالا عمارتیں، گھر اور شہروں کے مرکزی چوراہے اور نمایاں مقامات سجے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات علامت ہے کہ ہم زندہ قوموں کی طرح جہاں اپنی تہذ یب و ثقافت، معاشرت اور اقدار کے امین ہیں، یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔

    یہاں ہم جدوجہدِ آزادی کی عظیم شخصیات اور تحریکِ پاکستان سے متعلق چند قومی یادگاروں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آزادی کے ہیروز کی یاد ہی تازہ نہیں‌ کرتیں بلکہ فنِ معماری اور اپنے طرزِ تعمیر کی انفرادیت کے ساتھ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش ہیں۔ ان میں مزارِ قائد، مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ شامل ہیں۔

    مزارِ قائد
    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس سے قبل چار نقشے رد کر دیے گئے تھے اور1959ء میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر یحییٰ مرچنٹ نے یہ کام انجام دیا تھا۔

    یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1960ء میں ہوا تھا۔ 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا تھا- 31 مئی 1966ء میں مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔

    قائد اعظم کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اس عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین بنائے گئے کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن یعنی ہشت پہلو بنائی گئی ہے۔

    اس مزار کے احاطے میں بانی پاکستان کے سیاسی اور آزادی کے سفر میں شریک رفقا کی قبور بھی ہیں۔ ایک طرف لیاقت علی خان اور دوسری قبر سردار عبد الرّب نشتر اور تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے۔

    مزارِ اقبال
    ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور اور ماہر معمار صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے شاعرِ‌ مشرق کے مزار کا ڈیزائن تیّار کیا تھا۔

    اس مزار کی تعمیر کا کام بوجوہ چند سال تاخیر سے شروع ہوا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس وقت کی انتظامیہ سے 1946ء میں مزار کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔ اس کی تکمیل 1950ء میں ہوئی۔ نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا گیا اور انھوں نے علّامہ کی قبر اور محلِ وقوع کا جائزہ لینے کے بعد مزار کا ڈیزائن پیش کیا جس کی منظوری کے بعد چند سال میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔

    مینارِ پاکستان
    مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے۔ یہ عین اس جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی اور اس کے بعد مسلمانانِ برِصغیر کے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

    اس قومی یادگار کے معمار و مصوّر روسی نژاد پاکستانی نصیر الدّین مرات خان تھے۔

    مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس یادگار کے ساتھ ایک وسیع و عریض باغ یا سبزہ زار کے لیے بھی جگہ مخصوص کی گئی تھی۔

    پاکستان مونومنٹ
    پاکستان کے دارُالحکومت اسلام آباد کے مشہور مقام شکرپڑیاں کا مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان اُس عظیم جدوجہد اور تحریک کے لیے اپنی جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جن کی بدولت ہم ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

    اسلام آباد میں پہاڑیوں پر بنائی گئی یہ یادگار پاکستانی عوام کے اتّحاد کی علامت بھی ہے۔ اسے آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور یہ کام 2004ء میں شروع ہوا اور 23 مارچ 2007 ء میں مکمل کیا گیا۔

  • آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    تحریکِ پاکستان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مسلمان خواتین نے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور قربانیاں دیں جن کے تذکرے کے بغیر جدوجہِدِ آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان میں مسلم اکابرین اور زعما کے گھرانوں کی خواتین اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل ہیں جنھوں نے جلسے جلوس، احتجاجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور آزادی کی تحریک کے لیے گرفتاریاں دیں اور اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے اختتام پر ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔

  • تحریکِ آزادی ٔہند میں مسلمانوں کا کردار کیوں اہم ہے؟

    تحریکِ آزادی ٔہند میں مسلمانوں کا کردار کیوں اہم ہے؟

    تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار نہایت اہم اور نمایاں رہا ہے جنھوں نے انگریزوں کی غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دی۔

    تحریکِ آزادیِ ہند کے لیے جان و مال کی قربانی دینے کے علاوہ قائدین اور عام مسلمانوں نے قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، اپنے اہلِ خانہ سے دور ہوئے، ماں باپ، بیوی بچّے، عزیز رشتے دار، دوست احباب کو کھویا اور ان کی دوری برداشت کی، لیکن ثابت قدم رہے اور شہر شہر، بستی بستی آزادی کا پیغام عام کیا اور لوگوں کو انگریزوں کے خلاف متحد و بیدار کیا۔

    اس عظیم جدوجہد اور آزادی کی راہ میں ناقابلِ‌ فراموش قربانیوں کا ایک محرّک اور سبب یہ بھی تھاکہ انگریزوں نے مسلمانوں سے ان کا کئی سو سالہ اقتدار چھینا تھا اور غیروں اور بدخواہوں سے ساز باز اور ان کی ملی بھگت سے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرکے ہندوستان کے طول و عرض میں ان کی مسلم اور غیرمسلم رعایا کو بھی شدید رنج و غم اور تکلیف دی تھی۔ اس کا سب سے زیادہ درد مسلمانوں کو ہوا جو ایک مغل بادشاہت کے زیرِ سایہ آزاد اور خود مختار تھے۔

    انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام پر جب اپنا اثر رسوخ بڑھا لیا اور سازشی ٹولے بالخصوص مفاد پرستوں اور ہندو بنیے کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد تاجدارِ ہند کو تخت سے اتارا اور قید کرکے رنگون بھیجا تو بغاوت تیز ہوگئی اور ہر طرف جیسے آگ لگ گئی۔ غدر کے بعد حالات خراب ہوتے چلے گئے اور انگریزوں کے خلاف ساری لڑائی مسلمانوں کو لڑنا پڑی۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی کی سامراجی حکومت کے مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ اقدامات اور بعض فیصلوں نے ہندوستان کے عوام کو متحد و یکجا تو کردیا، لیکن جلد ہی مسلمانوں پر واضح ہوگیا کہ ہندو قیادت اور مفاد پرست ٹولہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر مسلمانوں کو محکوم و محتاج اور دست نگر بنانا چاہتا ہے اور حکومت و سماج میں مساوات، برابری اور اخوّت و بھائی چارے کا قائل نہیں تو انھوں نے بھی خود کو متحد و منظّم کرنا شروع کردیا اور کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہونے لگے اور اسی پلیٹ فارم سے تصوّرِ پاکستان کا قیامِ پاکستان تک وہ سفر طے ہوا جس کی دنیا کی تاریخ میں مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا خواب 14 اگست 1947ء کو پورا ہوا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک آزاد ملک کے طور پر ابھرا۔

    ساتھیو، یومِ آزادی قریب ہے اور 14 اگست کو جہاں جشن مناتے ہوئے محبّ وطن پاکستانی وطنِ عزیز کی ترقیّ و خوش حالی کے لیے خصوصی دعائیں کریں گے اور اپنے اپنے انداز میں آزادی کی نعمت پر خوشی و مسرّت کا اظہار کیا جائے گا، وہیں ضروری ہے کہ ہم سب بالخصوص نئی نسل تحریکِ پاکستان کے عظیم مجاہدوں، قائدین اور 20 ویں صدی کی اس منفرد اور ممتاز تحریک میں اس کے سپاہیوں کے کردار اور ان کی قربانیوں سے بھی آگاہی حاصل کرے۔

  • ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ہندوستان کے شاہی خاندان کا بدنصیب ماہِ عالم

    ماہِ عالم ایک شہزادے کا نام تھا، جو شاہِ عالم بادشاہِ دلّی کے نواسوں میں تھا اور غدر میں اس کی عمر گیارہ برس کی تھی۔

    شہزادہ ماہِ عالم کے باپ مرزا نو روز حیدر دیگر خاندانِ شاہی کی طرح بہادر شاہ کی سرکار سے سو روپے ماہوار تنخواہ پاتے تھے، مگر ان کی والدہ کے پاس قدیم زمانہ کا بہت سا اندوختہ تھا، اس لیے ان کو روپیہ کی چند اں پروا نہیں تھی اور وہ بڑی بڑی تنخواہوں کے شہزادوں کی طرح گزر اوقات کرتے تھے۔

    جب غدر پڑا تو ماہِ عالم کی والدہ بیمار تھیں۔ علاج ہورہا تھا، مگر مرض برابر ترقّی کرتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ عین اس روز جب کہ بہادر شاہ قلعہ سے نکلے اور شہر کی تمام رعایا پریشان ہو کر چاروں طرف بھاگنے لگی، ماہِ عالم کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔ ایسی گھبراہٹ کے موقع پر سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اس موت نے عجیب ہراس پیدا کر دیا۔

    اس وقت نہ کفن کا سامان ممکن تھا نہ دفن کا، نہ غسل دینے والی عورت میّسر آسکتی تھی، نہ کوئی مردے کے پاس بیٹھنے والا تھا۔ شہزادوں میں رسم ہوگئی تھی کہ وہ مردے کے پاس نہ جاتے۔ سب کام پیشہ وروں سے لیا جاتا تھا، جو اس وقت کے لیے ہمیشہ موجود تیار رہتے تھے۔

    غدر کی عالم گیر مصیبت کے سبب کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو تجہیز و تکفین کی خدمت میں انجام کو پہنچاتا۔ گھر میں دو لونڈیاں تھیں، لیکن وہ بھی مردے کو نہلانا نہ جانتی تھیں۔ خود مرزا نو روز حیدر اگر چہ پڑھے لکھے شخص تھے مگر چوں کہ ان کو ایسا کام پیش نہ آیا تھا، اس لیے اسلامی طریق پر غسل و کفن سے واقفیت نہ رکھتے تھے۔

    القصّہ ان لوگوں کو اسی حیرانی و پریشانی میں کئی گھنٹے گزر گئے۔ اتنے میں سنا کہ انگریزی لشکر شہر میں گھس آیا ہے اور اب عنقریب قلعہ میں آیا چاہتا ہے۔ اس خبر سے مرزا کے رہے سہے اوسان اور بھی جاتے رہے اور جلدی سے لاش کو چارپائی پر ہی کپڑے اتار کر نہلانا شروع کیا۔ نہلایا کیا، بس پانی کے لوٹے بھر بھر کر اوپر ڈال دیے۔ کفن کہاں سے ملتا، شہر تو بند تھا۔ پلنگ پر بچھانے کی دو اُجلی چادریں لیں اور ان میں لاش کو لپیٹ دیا۔

    اب یہ فکر ہوئی کہ دفن کہاں کریں۔ باہر لے جانے کا تو موقع نہیں۔ اسی سوچ میں تھے کہ گوروں اور سکھوں کی فوج کے چند سپاہی گھر میں آگئے اور آتے ہی مرزا اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کو گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد گھر کا سامان لوٹنے لگے۔ صندوق توڑ ڈالے۔ الماریوں کے کواڑا کھیڑ دیے۔ کتابوں کو آگ لگا دی۔

    دونوں لونڈیاں غسل خانے میں جا چھپی تھیں۔ ایک سپاہی کی ان پر نگاہ پڑ گئی جس نے دیکھتے ہی اندر گھس کر سر کے بال پکڑے اور بچاریوں کو گھسیٹتا ہوا باہر لے آیا۔ اگرچہ ان فوجیوں کو لاش کا حال معلوم ہو گیا تھا، مگر انہوں نے اس کی مطلق پروا نہ کی اور برابر لوٹ مار کرتے رہے۔ آخر قیمتی سامان کی گٹھریاں، لونڈیوں اور خود مرزا نو روز حیدر اور ان کے لڑکے ماہِ عالم کے سَر پر رکھیں اور بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے گھر سے باہر لے چلے۔ اس وقت مرزا نے اپنے لٹے ہوئے گھر کو آخری حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اپنی بیوی کی بے گور و کفن لاش کو اکیلا چارپائی پر چھوڑ کر سپاہیوں کے ساتھ کوچ کیا۔

    لونڈیوں کو تو بوجھ اٹھانے اور چلنے پھرنے کی عادت تھی۔ مرزا نو روز حیدر بھی قوی اور توانا تھے۔ بوجھ سَر پر اٹھائے بے تکان چل رہے تھے، مگر غریب ماہِ عالم کی بری حالت تھی۔ اوّل تو اس کے سَر پر بوجھ اس کی عمر اور بساط سے زیادہ تھا۔ اس کے علاوہ یہ شہزادہ قدرتی طور پر نہایت نازک اور کم زور واقع ہوا تھا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ ماں کے مرنے کا غم تھا۔ رات سے روتے روتے آنکھیں سوج گئی تھیں۔ خالی ہاتھ چلنے سے چکّر آتے تھے، کجا یہ نوبت کہ سَر پر بوجھ، پیچھے چمکتی ہوئی تلواریں اور جلدی چلنے کی قہر ناک تاکید۔ بچارے کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے۔ دَم چڑھ گیا تھا۔ بدن پسینہ پسینہ ہو گیا تھا۔

    آخر نہایت مجبوری کی حالت میں باپ سے کہا، ’’ابّا حضرت! مجھ سے تو چلا نہیں جاتا۔ گردن بوجھ کے مارے ٹوٹے جاتی ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آ رہا ہے۔ ایسا نہ ہو گر پڑوں۔‘‘

    باپ سے اپنے لاڈلے اکلوتے بچّے کی یہ مصیبت بھری باتیں سنی نہ گئیں۔ اس نے مڑ کر سپاہی سے کہا، ’’صاحب! اس بچّے کا اسباب بھی مجھ کو دے دو۔ یہ بیمار ہے گر پڑے گا۔‘‘ گورا مرزا کی زبان بالکل نہ سمجھا اور اس طرح ٹھہرنے اور بات کرنے کو گستاخی اور بد نیتی سمجھ کر دو تین مکّے کمر میں مارے اور آگے دھکا دیا۔

    مظلوم مرزا نے مار بھی کھائی، مگر مامتا کے مارے لڑکے کا بوجھ بغل میں لے لیا۔ گورے کو یہ حرکت بھی پسند نہ آئی اور اس نے جبراً مرزا سے گٹھری لے کر ماہِ عالم کے سَر پر رکھ دی اور ایک گھونسا اس بیکس و ناتواں کے بھی مارا۔ گھونسا کھا کر ماہِ عالم آہ کہہ کر گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔

    مرزا نو روز اپنے لختِ جگر کی حالت دیکھ جوش میں آگئے اور اسباب پھینک کر ایک مکّا گورے کے کلّے پر رسید کیا اور پھر فوراً ہی دوسرا گھونسا اس کی ناک پر مارا جس سے گورے کی ناک کا بانسہ پھٹ گیا اور خون کا فوّارہ چلنے لگا۔ سکھ سپاہی دوسری طرف چلے گئے تھے۔ اس وقت فقط دو گورے ان قیدیوں کے ساتھ تھے اور کیمپ کو لیے جا رہے تھے۔ دوسرے گورے نے اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر مرزا کے ایک سنگین ماری مگر خدا کی قدرت سنگین کا وار اوچھا پڑا اور وہ مرزا کی کمر کے پاس سے کھال چھیلتی ہوئی نکل گئی۔

    تیموری شہزادہ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور لپک کر ایک مکّا اس گورے کی ناک پر بھی مارا۔ یہ مکّا بھی ایسا کاری پڑا کہ ناک پچک گئی اور خون بہنے لگا۔ گورے یہ حالت دیکھ کر پستول و کرچ تو بھول گئے اور یک بارگی دونوں کے دونوں مرزا کو چمٹ گئے اور گھونسوں سے مارنے لگے۔

    لونڈیوں نے جو یہ حالت دیکھی تو اسباب پھینک رستہ کی خاک مٹھیوں میں بھر کر گوروں کی آنکھوں میں جھونک دی۔ اس ناگہانی آفت سے گورے تھوڑی دیر کے لیے بیکار ہوگئے اور ان کی کرچ مرزا کے ہاتھ آگئی۔ مرزا نے فوراً کرچ گھسیٹ لی۔ ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ کرچ نے شانہ سے سینے تک کاٹ ڈالا۔ اس کے بعد دوسرے گورے پر حملہ کیا اور اسے بھی ذبح کر دیا۔ ان دونوں کو ہلاک کر کے ماہِ عالم کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ بالکل بے ہوش تھا۔ باپ کے گود میں لیتے ہی آنکھیں کھول دیں اور باہیں گلے میں ڈال کر رونے لگا۔

    مرزا اسی حالت میں تھے کہ پیچھے سے دس بارہ گورے اور سکھ سپاہی آگئے اور انہوں نے اپنے دوساتھیوں کو خون میں نہایا دیکھ کر مرزا کو گھیر لیا اور لڑکے سے جدا کر کے حال پوچھا۔ مرزا نے سارا واقعہ سچ سچ کہہ دیا۔ سنتے ہی گوروں کی حالت غصّہ سے غیر ہوگئی۔ انہوں نے پستول کے چھے فائر ایک دم کر دیے، جن سے زخمی ہو کر مرزا گر پڑے اور آناً فاناً میں تڑپ کر مرگئے۔ مرزا نو روز کی لاش کو وہیں چھوڑ دیا گیا اور ماہِ عالم کو لونڈیوں سمیٹ پہاڑی کے کیمپ میں لے گئے۔

    جب دہلی کی فتح سے اطمینان ہو گیا تو لونڈیاں دو مسلمان پنجابی افسروں کو دے دی گئیں اور ماہِ عالم ایک انگریز افسر کی خدمت گاری پر مامور ہوئے۔ جب تک یہ انگریز دہلی میں رہے، ماہِ عالم کو زیادہ تکلیف نہ تھی، کیوں کہ صاحب کے پا س کئی خانساماں اور نوکر چاکر تھے۔ اس واسطے زیادہ کام کاج نہ کرنا پڑتا تھا لیکن چند روز کے بعد یہ صاحب رخصت لے کر ولایت چلے گئے اور ماہِ عالم کو ایک دوسرے افسر کے حوالے کر گئے، جو میرٹھ چھاؤنی میں تھے۔

    ان افسر کا مزاج تند تھا۔ بات بات پر ٹھوکریں مارتے تھے۔ ماہِ عالم اس مار دھاڑ کو برداشت نہ کر سکے اور ایک دن بھاگنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ پچھلی رات کو گھر سے نکلے۔ پہرے دار نے ٹوکا تو کہہ دیا فلاں صاحب کا نوکر ہوں اور ان کے کام کو فلاں گاؤں میں جاتا ہوں تاکہ سویرے ہی پہنچ جاؤں۔ اس حیلہ سے جان بچائی اور جنگل کا راستہ لیا۔

    چھوٹی عمر، راستہ سے بے خبر، پکڑے جانے کا خوف، عجب مایوسی کا عالم تھا۔ آخر بہ ہزار دقّت صبح ہوتے ہوتے میرٹھ سے تین چار کوس کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ سامنے گاؤں تھا۔ وہاں جاکر ایک مسجد میں ٹھہر گئے۔ مُلا صاحب نے سوالات شروع کیے، تُو کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ ماہِ عالم نے ان کو بھی باتوں میں ٹالا۔ یہاں ایک فقیر بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے جو ماہِ عالم کی شریفانہ صورت دیکھی تو محبت سے پاس بلایا اور رات کی بچی ہوئی روٹی سامنے رکھی۔ ماہِ عالم نے شاہ صاحب کو ہمدرد پا کر اپنی مصیبت کی داستان اوّل سے آخر تک سنائی۔ شاہ صاحب یہ کیفیت سن کر رونے لگے اور ماہِ عالم کو سینہ سے لگا کر بہت پیار کیا اور تسلّی کی باتیں کرنے لگے۔ اس کے بعد کہا اب تم فکر نہ کرو میرے ساتھ رہو۔ خدا حافظ و ناصر ہے۔

    چناں چہ انہوں نے ایک رنگین کُرتا ان کو پہنا دیا اور ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے۔ دو چار روز تو یہ حالت رہی کہ جہاں ماہِ عالم نے کہا، ’’حضرت! اب تو میں تھک گیا۔‘‘ تو کسی گاؤں میں ٹھہر جاتے، لیکن پھر ان کو بھی چلنے کی عادت ہو گئی اور پوری منزل چلنے لگے۔ مہینہ بھر میں اجمیر شریف پہنچے۔ یہاں ان صاحب کے پیر جو بغداد کے رہنے والے تھے، ملے۔ ان پیر صاحب کو جب ماہِ عالم کا حال معلوم ہوا تو وہ بھی مہربانی سے پیش آئے اور ان دونوں کو ساتھ لے کر بمبئی چلے گئے۔ بمبئی کے قریب باندرہ میں شاہ صاحب رہتے تھے۔ وہیں ان کو بھی رکھا اور کئی برس یہاں رہ کر ماہِ عالم نے قرآن شریف اور مسئلہ مسائل کی کتابیں پڑھیں اور نماز روزے سے خوب واقف ہوگئے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مضمون نگار خواجہ حسن نظامی کے قلم سے، انھوں‌ نے غدر 1857ء کے بعد شاہی خاندان کی شخصیات پر پڑنے والی افتاد کا تذکرہ نہایت درد ناک انداز میں‌ کیا ہے، یہ تحریر ان کے ایک مجموعہ مضامین سے منتخب کی گئی ہے)

  • سندھ میں جنگِ آزادی کے متوالے جنھیں‌ انگریزوں‌ نے باغی قرار دیا تھا

    سندھ میں جنگِ آزادی کے متوالے جنھیں‌ انگریزوں‌ نے باغی قرار دیا تھا

    1857ء میں برصغیر پر انگریز سامراج کے قبضے اور برطانوی راج کے خلاف جو مسلح کارروائیاں شروع ہوئی تھیں، وہ چند مسلح جھڑپوں کے بعد کئی شہروں میں‌ خوں ریز تصادم کا سبب بنیں اور حالات نے بدترین رُخ اختیار کرلیا۔

    ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی میں سندھ نے بھی بڑا کردار ادا کیا اور یہاں لوگوں نے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

    1843ء میں سندھ پر انگریز قابض ہوچکا تھا۔ کراچی سے جیکب آباد تک مختلف شہروں میں سندھ کے تالپور خاندان اور دیگر قبائلی سرداروں کی مزاحمت اپنی سرزمین کو اس قبضے سے نہیں‌ بچا سکی تھی۔

    مشہور ہے کہ ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر نے سندھ کے حکم راں میر شیر محمد تالپور کو انگریزوں‌ کے خلاف مدد کرنے کے لیے خط بھی لکھا تھا، لیکن انگریزوں کو اس کی خبر ہو گئی اور یوں اس پر عمل نہیں‌ ہوسکا۔

    مؤرخین کے مطابق سندھ میں جنگِ آزادی کا آغاز 1857ء کے ماہِ ستمبر میں ہوا تھا جب کراچی کی بندرگاہ پر ایشیا نامی جہاز لنگر انداز ہوا۔ باغیوں نے اس جہاز پر حملہ کیا جو ناکام رہا، لیکن اسی واقعے کے بعد سندھ بھر میں غم و غصّہ اور نفرت کی آگ بھڑک اٹھی۔

    برطانوی افسروں اور ان کے اہلِ خانہ کو محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا جب کہ رہائشی علاقوں کا محاصرہ، باغیوں کو جان سے مار دینے اور ان سے اسلحہ تحویل میں لینے کی کارروائیاں‌ تیز کردی گئیں۔ باغیوں کو پھانسی دینے اور مزاحمت پر قتل کرنے کے علاوہ سندھ میں بغاوت کا سر کچلنے کے لیے جنگجوؤں کو توپ دَم کردیا گیا۔

    ایک باغی صوبے دار رامے پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو توپ کے دہانے پر باندھ کر اڑا دیا گیا تھا۔ کئی افراد کو بغاوت کے مقدمے میں سزائے موت دے دی گئی۔ اس کے علاوہ بغاوت اور سرکار کے خلاف کارروائیوں میں کسی بھی طرح مدد دینے والے کئی لوگوں کو گولی مار دی گئی۔

    سندھ دھرتی کے ہوش محمد شیدی، رام دین پانڈے، روپلو کولہی، پیر صبغت اللہ شاہ اور کئی نام ایسے ہیں جنھوں‌ نے آخری دَم تک آزادی کی جنگ لڑی۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں اس وقت جو بھی تحریکیں چلائی گئیں، ان کا اثر سندھ میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر جیسے شہروں پر پڑتا تھا۔ اسی طرح جب 1857ء کی جنگِ آزادی شروع ہوئی تو صوبے کے بڑے شہروں کراچی، حیدرآباد، شکار پور، جیکب آباد میں‌ بھی باغیوں نے انگریزوں‌ کے خلاف کارروائیاں‌ شروع کردیں اور جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

  • سَر کرپس کے برطانیہ سے دلی آنے کی وجہ کیا تھی؟

    سَر کرپس کے برطانیہ سے دلی آنے کی وجہ کیا تھی؟

    مارچ 1942 کو برطانیہ سے سَر کرپس دلی پہنچے اور یہاں ہندوستانی راہ نماؤں سے طویل مذاکرات کیے جس کے بعد 30 مارچ کو وہ تجاویز سامنے آئیں جنھیں متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں کرپس تجاویز کہا جاتا ہے۔

    ہندوستان کے سیاسی اکابرین نے مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کی مخالفت کی اور کرپس تجاویز مسترد کر دیں۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں وفد کو ہندوستان کیوں بھیجا گیا تھا؟

    تاریخ بتاتی ہے کہ 1942 کے ابتدائی ایام میں جب برطانوی سرکار نے محسوس کیا کہ ایشیا میں اس کے مقبوضات ایک ایک کرکے ہاتھ سے نکلنے لگے ہیں تو اس نے ہندوستان کے عوام کو مطمئن کرنے اور جنگ میں ان کا تعاون حاصل کرنے کے لیے سَر اسٹیفورڈ کرپس کی سربراہی میں مشن ہندوستان بھیجا جس کا مقصد گفت و شنید سے ہندوستان کے آئینی مسائل کا حل تلاش کرنا تھا۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس نے قائداعظم محمد علی جناح، پنڈل جواہر لعل نہرو، مہاتما گاندھی، ابوالکلام آزاد اور متعدد راہ نمائوں سے ملاقاتیں کیں۔

    ان کی تجاویز میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ ہندوستان میں ایک نئی وفاقی مملکت قائم کرنا چاہتا ہے جسے دولتِ مشترکہ کے دوسرے رکن ممالک کے برابر ڈومینین کا درجہ حاصل ہوگا۔ یہ رسمآ تاج برطانیہ کا وفادار ہو گا، تاہم داخلی اور خارجی امور میں کسی کا زیر دست نہ ہوگا۔

    سَر اسٹیفورڈ کرپس کی ان تجاویز کو مسلم لیگ اور کانگریس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے مسترد کردیا اور وہ نامراد لوٹ گئے۔

    جنگِ عظیم کے باعث ہندوستان میں بھی کئی تبدیلیاں دیکھی گئیں اور جاپانیوں کی مسلسل کام یابیوں نے ہندوستان میں انگریزوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور ان کے قدم متزلزل ہونے لگے تھے۔

    ان حالات میں برطانیہ نے کرپس مشن کا سہارا لیا جس کی ناکامی کے بعد کانگریس کی جانب سے "ہندوستان چھوڑ دو” کا نعرہ بلند کیا گیا تھا، ساتھ ہی سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا بھی عندیہ دے دیا گیا جس پر برطانوی حکومت مشتعل ہو گئی اور راہ نماؤں کو پابند سلاسل کرنے کا آغاز کر دیا۔

  • پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    پاکستان بھر میں مشرقی پاکستان کی یاد میں آج سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے

    اسلام آباد: سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کے سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد میں آج پاکستان بھر میں یوم سقوط ڈھاکہ منایا جارہا ہے۔

    بنگلہ دیش کی جنگ آزادی، جسے بنگال میں مکتی جدھو اور پاکستان میں سقوط مشرقی پاکستان یا سقوط ڈھاکہ کہا جاتا ہے، پاکستان کے دو بازوؤں یعنی مشرقی و مغربی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی جنگ تھی جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ا بھرا۔

    تینتالیس برس قبل مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت نے ملک کو دولخت کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی مدد سے مکتی باہنی کے نام پر بھارت نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں داخل کی اور پھر حکومتِ وقت کیخلاف بغاوت کی فضا پیدا کرکے مغربی پاکستان پر بھی جنگ مسلط کر دی گئی۔

    جنگ کا آغاز 26 مارچ 1971ء کو حریت پسندوں، گوریلا گروہ اور تربیت یافتہ فوجیوں (جنہیں مجموعی طور پر مکتی باہنی کہا جاتا ہے) نے عسکری کاروائیاں شروع کیں اور پاکستان کی افواج اور وفاق پاکستان کے حکام اور وفادار اہلکاروں کا قتل عام شروع کیا۔

    مارچ سے لے کے سقوط ڈھاکہ تک تمام عرصے میں بھارت بھرپور انداز میں مکتی باہنی اور دیگر گروہوں کو عسکری، مالی اور سفارتی مدد فراہم کرتا رہا یہاں تک کے بالآخر دسمبر میں مشرقی پاکستان کی حدود میں گھس کر اس نے 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں افواج پاکستان کو محصور کردیا اور افواجِ پاکستان کو بھارت کے آگئے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا گیا۔

    بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے نتیجے میں پاکستان رقبے اور آبادی دونوں کے لحاظ سے بلاد اسلامیہ کی سب سے بڑی ریاست کے اعزاز سے محروم ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب جاننے کے لیے پاکستان میں اس کی حکومت نے ایک کمیشن تشکیل دیا جسے حمود الرحمٰن کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، کمیشن کی رپورٹ میں ان تمام وجوہات اور واقعات کو رپورٹ کا حصہ بنایا گیا جس کے باعث سقوط ڈھاکہ ہو ا تھا۔

    آج کے ہی دن جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا کے سامنے اپنا ریوالور رکھ کر پاک فوج کے ہتھیار پھینکنے کا باضابطہ اعلان کر دیا تھا۔ چار دہائیاں گزر جانے کے باوجود اہل وطن کے دلوں میں اس دن کی تکلیف اور اذیت زندہ ہے۔