Tag: جنگ عظیم اول

  • ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    ’کوما گاتا مارو‘ کے 376 مسافروں پر کیا بیتی؟ تاریخ کے فراموش کردہ اوراق

    اپریل 1914 میں بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ نے ہندوستان کے ساحل سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اس جہاز پر 376 مسافر اپنے پیاروں کی جدائی کا کرب سہنے کے لیے خود کو کب کا آمادہ کرچکے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تیرتا نم جب جب کم ہوتا تو ان سے وہ خواب جھلکنے لگتا جس کی تکمیل کے لیے وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر سات سمندر پار جارہے تھے۔

    یہ مسافر خوش حال اور آسودہ زندگی کی خاطر ایک نئی سرزمین پر بسنے کا خواب آنکھوں میں‌ سجائے وطن سے دور جارہے تھے۔

    برطانوی راج میں پنجاب سے روانہ ہونے والے ان مسافروں میں 337 سکھ، 27 مسلمان اور 12 ہندو شامل تھے۔ ان میں سے 24 کو کینیڈا کی سرزمین پر قدم رکھنے کی اجازت دے دی گئی تھی، لیکن 325 مسافروں کی مراد پوری نہ ہوسکی اور انھیں ہندوستان لوٹنے پر مجبور کردیا گیا جہاں ایک حادثہ ان کا منتظر تھا۔

    ان نامراد مسافروں میں 20 ایسے بھی تھے جنھیں واپسی پر زندگی سے محروم ہونا پڑا۔

    اس زمانے میں سلطنتِ برطانیہ کی جانب سے سفر پر کوئی پابندی یا کسی قسم کی قید نہ تھی۔ طویل سفر کے بعد جب بحری جہاز ’کوما گاتا مارو‘ کینیڈا کے ساحل سے قریب تھا تو اسے بندر گاہ سے تین میل دور پانی میں روک لیا گیا۔ معلوم ہوا کہ انھیں کینیڈا میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پر بحری جہاز کے کپتان نے قانونی مدد لینے کا فیصلہ کیا اور صلاح مشورے کے بعد ایک وکیل کے ذریعے حکام کے خلاف مقدمہ کردیا گیا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب آج کے ترقّی یافتہ اور مہذّب معاشروں میں نسلی امتیاز اور ہر قسم کی تفریق عام تھی۔ خاص طور پر کینیڈا میں اس وقت ’وائٹ کینیڈا‘ نامی تحریک زوروں پر تھی اور کہا رہا تھاکہ کینیڈا صرف گوروں کا وطن ہے، اس وقت نسل پرستوں کی جانب سے ان سیکڑوں ہندوستانیوں سے سخت نفرت کا اظہار کیا جا رہا تھا۔

    ہندوستانیوں کے وکیل کو بھی نسل پرستوں کی جانب سے دھمکیاں دی جانے لگیں۔ تاہم مقدمہ دائر ہوچکا تھا جو طول پکڑتا گیا اور کوما گاتا مارو کے مسافروں کی مشکل اور ان کی بے چینی بھی بڑھتی گئی۔ جہاز پر ذخیرہ شدہ خوراک اور غذائی اجناس ختم ہوجانے کے بعد نوبت فاقے تک آگئی اور مسافر بیمار پڑ گئے۔

    مسافر زیادہ دن تک اس مشکل کا مقابلہ نہیں کرسکے اور لوٹ جانے میں عافیت جانی۔ یوں یہ جہاز ہندوستان کی جانب روانہ ہوا، جہاں اس کے مسافروں پر ایک نئی افتاد ٹوٹ پڑی۔

    یہ بحری جہاز 27 ستمبر کو ہندوستان میں کولکتہ کے ساحل کے قریب پہنچا تو اسے وہاں مسلح نگرانوں نے روک لیا اور مسافروں کو پنجاب کے مفرور اور باغی سمجھ کر اُن پر گولیاں برسا دیں۔ بیس مسافر جان سے گئے۔ اس وقت کے حکام کا خیال تھا کہ یہ لوگ ’غدر پارٹی‘ کے باغی ہیں جو اُن دنوں شمالی امریکا میں سرگرمِ عمل تھی۔

    یہ واقعہ کینیڈا جیسے جمہوریت پسند اور انسانی حقوق و مساوات کے علم بردار ملک میں اس وقت جاری نسلی امتیاز اور تعصّب کے ایک بدترین دور کی یاد دلاتا ہے۔

    مغربی بنگال میں ’کوما گاتا مارو‘ اور اس کے بدقسمت مسافروں کی ایک یادگار بھی موجود ہے جسے 1952 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح اس وقت کے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔

  • زخمی فوجیوں کو ان کا چہرہ لوٹانے والی باکمال خاتون

    زخمی فوجیوں کو ان کا چہرہ لوٹانے والی باکمال خاتون

    دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ، جنگ عظیم اول 1 کروڑ 60 لاکھ افراد کی جانیں لے گئی تھی۔ ان کے علاوہ لاکھوں افراد ایسے بھی تھے جو اس جنگ میں معذور ہوگئے۔

    اس جنگ میں 20 ہزار کے قریب افراد ایسے بھی تھے جو گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد اپنے چہرے کی خوبصورتی سے محروم ہوگئے اور ان کا چہرہ بدنما ہوگیا۔

    یہ زیادہ تر فوجی تھے جو گولیوں یا گولوں کا نشانہ بننے سے بری طرح زخمی ہوگئے۔ گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ان کا چہرہ بگڑ گیا اور جب جنگ ختم ہوئی تو ان کے پریشان کن چہرے نے انہیں معمول کی زندگی گزارنے سے روک دیا۔

    اس وقت پلاسٹک سرجری اس قدر جدید نہیں تھی کہ ان فوجیوں کو ان کا چہرہ کسی حد تک واپس لوٹا سکتی، ایسے میں ایک خاتون اینا کولمین لیڈ نے گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ان فوجیوں کو نئی زندگی دی۔

    اینا ایک مجسمہ ساز تھی جس نے ایک فزیشن نے شادی کی تھی۔ جنگ کے دوران جب اسے ان فوجیوں کے بارے میں پتہ چلا تو اس نے ان کے لیے خصوصی ماسک تیار کرنے کی تجویز پیش کی جو ان کے چہرے کی بدنمائی کو کسی حد تک چھپا دے۔

    جنگ کے بعد اینا نے ریڈ کراس کے تعاون سے پیرس میں ایک اسٹوڈیو قائم کیا جہاں اس نے ان فوجیوں کے لیے ماسک بنانا شروع کردیے۔

    اینا پہلے فوجی کے چہرے کی مناسبت سے پلاسٹر کا ایک سانچہ سا تیار کرتی تھی، اس کے بعد وہ کاپر سے ایک اور سانچہ بناتی اور مذکورہ فوجی کی پرانی تصاویر کی مدد سے اس سانچے کو اس کے پرانے چہرے جیسا بناتی۔

    اس کے بعد اس ماسک پر مذکورہ فوجی کی اسکن ٹون جیسا رنگ کیا جاتا۔ ایک ماسک کی تیاری میں تقریباً 1 ماہ کا وقت لگا۔

    اینا کی یہ کاوش ان فوجیوں کے لیے نئی زندگی کی نوید تھی۔ وہ پھر سے جی اٹھے اور ایک بار پھر معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے لگے۔

    ایک انٹرویو میں اینا کے معاون نے بتایا کہ ان کے پاس آنے والا ایک فوجی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کئی عرصے تک اپنے گھر واپس نہیں گیا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں اس کا بدنما چہرہ دیکھے۔

    اسی طرح ایک فوجی نے اپنے چہرے کی بحالی کے بعد اینا کو خط لکھا جس میں اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے اپنی محبوبہ سے شادی کرلی ہے جو پہلے اس لیے شادی سے انکاری تھی کیونکہ وہ اس کے چہرے سے خوفزدہ تھی۔

    کچھ عرصے تک فوجیوں کے لیے ماسک بنانے کے بعد اینا واپس امریکا لوٹ گئی تھی جہاں اس نے مجسمہ سازی کا کام شروع کردیا تاہم فوجیوں کے لیے کیے جانے والے اس کے کام نے اسے ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔

  • جنگ عظیم اول کے 100 برس مکمل ہونے پر لندن میں تقریب، شاہی خاندان کی شرکت

    جنگ عظیم اول کے 100 برس مکمل ہونے پر لندن میں تقریب، شاہی خاندان کی شرکت

    لندن: جنگ عظیم اول کے 100 برس مکمل ہونے پر وسطی لندن میں تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شاہی خاندان کے افراد اور اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن، برطانوی وزیراعظم نے شرکت کی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جنگ عظیم اول کے 100 برس مکمل ہونے پر وسطی لندن میں تقریب کا انعقاد کیا گیا، ملکہ برطانیہ نے وائٹ ہال کی بالکونی سے تقریب دیکھی، پہلی عالمی جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں کی یاد میں 2 منت کی خاموشی اختیار کی گئی۔

    برطانوی وزیراعظم تھیرسامے نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں نے عظیم قربانیاں پیش کیں، پہلی جنگ عظیم 11 نومبر 1918 کو 11 بجے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

    دوسری جانب پیرس میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے امریکی صدر ٹرمپ فرانس پہنچ گئے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے مشترکہ یورپی فوج بنانے کی تجویز کو توہین آمیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپ کو پہلے نیٹو کے اخراجات میں اپنا مناسب حصہ ڈالنا چاہئے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق کسی ایک قوم پر جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی لیکن جرمنی وہ واحد ملک تھا جو براعظم یورپ کو اس جنگ سے بچا جاسکتا تھا۔

    جنگ شروع ہونے سے قبل جرمنی کا قدامت پسند اشرافیہ اس بات کا قائل ہوچکا تھا کہ دوسرے یورپی ممالک کی طرح نوآبادیاں قائم کرنے اور جرمنی کو عظیم سلطنت بنانے کے لیے یورپی جنگ ضروری ہے۔

    اگرجرمنی جولائی 2014 میں آسٹریا کو یہ کھلی چھٹی نہ دیتا کہ وہ سربیا پر چڑھائی کرے تو شاید جنگ سے بچا جاسکتا تھا۔