Tag: جنگ عظیم دوم

  • سطح سمندر پر اچانک قدیم تباہ شدہ 24 بحری جہاز نمودار، لوگ خوف زدہ ہو گئے

    سطح سمندر پر اچانک قدیم تباہ شدہ 24 بحری جہاز نمودار، لوگ خوف زدہ ہو گئے

    ٹوکیو: جاپان میں دوسری جنگ عظیم غرق شدہ 24 بحری جہاز اچانک سطح سمندر پر نمودار ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اگست میں جاپان میں زیر آب آتش فشاں پھٹنے سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ڈوبنے والے چوبیس بحری جہاز حیران کن طور پر سمندر کی سطح پر نمودار ہوگئے ہیں۔

    ان بحری جہازوں کو امریکی فوج نے دوسری جنگ عظیم میں نشانہ بنا کر ڈبویا تھا، تباہ ہونے کے بعد تب سے اب تک یہ سمندر کی تہ میں پڑے رہے تھے۔

    جاپان: سمندر میں ہلال کی شکل کا جزیرہ نمودار (ویڈیو)

    تاہم حال ہی میں جاپان کے جنوب میں زیر آب سوری باشی پہاڑ سے آتش فشاں پھٹنے سے راکھ اور بہتے لاوے کی وجہ سے سمندر کی تہ (بیڈ) بلند ہو گئی ہے، اور اس وجہ سے غرق شدہ بحری جہازوں کا ملبہ بھی اوپر آ گیا ہے۔

    سیٹلائٹ سے غرق شدہ بحری جہازوں کی تصاویر بھی حاصل کی گئی ہیں، جنھیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہازوں کا یہ ملبہ آتش فشاں کی راکھ کے اوپر موجود ہے۔

    1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا نے جاپانی جزیرے ایو جیما (سلفر آئی لینڈ) پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم امریکا نے 1968 میں یہ جزیرہ جاپان کو واپس کر دیا تھا جس کے بعد سے یہ جاپانی فوج کے زیر تسلط ہے۔

    یاد رہے کہ اگست ہی میں فوکوٹوکو اوکانوبا (Fukutoku-Okanoba) آتش فشاں پھٹنے سے بھی ایک ہلال نما جزیرہ نمودار ہوا تھا، یہ نیا جزیرہ ہلال کی مانند ہے، جسے نجیما (Niijima) کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب بھی نیا جزیرہ ہے، یہ قطر میں 0.6 میل ہے، اور سلفر آئی لینڈ سے محض 5 کلومیٹر دوری پر ہے۔

    دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

  • دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

    دوسری جنگ عظیم کا ایک سپاہی جو جنگ ختم ہونے کے بعد بھی برسوں لڑتا رہا

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جنگ عظیم دوم کی تاریخ کا ایک ورق ایک ایسے گوریلا فوجی کے نام ہے جس نے اپنے طرز عمل ایک عجیب و غریب اور ناقابل یقین کہانی کو جنم دیا، یہ فوجی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی 29 سال تک لڑتا رہا۔

    یہ کہانی کچھ یوں ہے کہ لیفٹننٹ ہیرو اوناڈا، جسے دوسری جنگ عظیم میں یہ تربیت دی گئی تھی کہ جنگلوں میں رہ کر گوریلا جنگ کیسے لڑنی ہے، کو ایک جنگل میں تعینات کیا گیا، یہ علاقہ اب فلپائن کی حدود میں ہے، وہ وہاں چار دیگر فوجیوں کے ساتھ تعینات رہا، جس وقت جنگ ختم ہوئی، اس وقت وہاں اس جنگل میں پانچ فوجی تعینات تھے، اور وہ وہیں چھپے ہوئے تھے، ان کے لیے اعلان بھی کیا گیا کہ آپ جہاں بھی چھپے ہیں، باہر آ جائیں، جنگ ختم ہو چکی ہے۔

    لیکن وہ فوجی باہر اس لیے نہیں آئے کہ انھیں لگا کہ یہ دشمن کی جنگی چال ہے، تاکہ ہمیں باہر نکلوا سکیں، لیکن ان کی وہاں موجودگی سے کچھ افسوس ناک واقعات بھی رونما ہوئے، وہاں جو بھی سیاح آتے تھے، وہ انھیں گولی مار دیتے تھے، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ ٹورسٹس کے روپ میں انھیں تلاش کرنے کے لیے دشمن کے فوجی آئے ہیں، یعنی وہ اس دوران لاعلمی میں معصوم لوگوں کی جانیں لیتے رہے۔

    فلپائن کی حکومت نے انھیں نکالنے کے لیے اپنی فوج کو جنگل کے اندر بھیجا، پولیس اہل کار بھیجے گئے، مختلف اداروں کے لوگ بھی گئے، کہ انھیں ڈھونڈ کر نکالا جا سکے کہ آئے دن وہ کسی نہ کسی کو گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے، ہیرو اوناڈا کے باقی ساتھی تو ان کوششوں کے نتیجے میں 1947-48 میں باہر آ گئے، پھر انھوں نے بھی واپس جا کر اس سے کہا کہ باہر نکلو، جنگ ختم ہو چکی ہے، لیکن وہ باہر نہیں آیا۔

    جاپان سے اس کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ جنگ بندی کے بعد بھی ملک کے لیے اکیلے 29 سال لڑتا رہا، آخر کار 1972 میں، پتا یہ چلا کہ جس کمانڈنگ افسر نے اسے وہاں تعینات کیا تھا، وہ اس وقت بھی جاپان کے کسی گاؤں میں زندہ تھا، تو انھیں ڈھونڈا گیا، اور پھر فلپائن لایا گیا، انھیں میگافون کے ساتھ اس جنگل میں بھیجا گیا، جنگل میں انھوں نے اعلان کیا کہ میں تمھیں تمھارا کمانڈنگ افسر ہوں اور تمھیں ڈیوٹی سے ریلیف دیتا ہوں۔

    یہ سن کر وہ گوریلا فوجی ایک درخت سے اترا اور اپنے کمانڈنگ افسر کو سیلوٹ کیا، پھر وہ واپس جاپان آیا، جہاں اسے بڑے بڑے اعزازات سے نوازا گیا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لوگوں کو اپنے ہی ملک جاپان سے ویسی محبت نہیں رہی، تو وہ دل برداشتہ ہو کر ملک چھوڑ کر چلا گیا۔ آج بھی جب جاپان میں حب الوطنی کی بات آتی ہے، تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔

    جنگ عظیم دوم کے اس شان دار کردار پر اے آر وائی نیوز کے مزاحیہ پروگرام ہوشیاریاں میں دل چسپ گفتگو ملاحظہ کریں۔

  • روس میں یکم سے 10 مئی تک عام تعطیل کا فیصلہ

    روس میں یکم سے 10 مئی تک عام تعطیل کا فیصلہ

    ماسکو: روس نے آئندہ ماہ ملک بھر میں دس روزہ عام تعطیل کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وبا پر قابو پانے، اور دوسری جنگ عظیم میں روس کی تاریخی فتح کا جشن منانے کے لیے روس میں آئندہ ماہ مئی میں 10 روزہ عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

    ماسکو میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ہیلتھ ایجنسی کے سربراہ کے ہمراہ انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ دس روزہ عام تعطیل پر عمل درآمد مئی کے مہینے میں کیا جائے گا، اگر روسی ہیلتھ ایجنسی نے تعطیل کی حمایت کی تو آرڈیننس جاری کر دیں گے۔

    ولادی میر پیوٹن نے وبا کے خاتمے کے لیے لوگوں کو کرونا ویکسین لگوانے کی ترغیب بھی دی، انھوں نے کہا کہ عوام بڑھ چڑھ کر ویکسین لگوائیں تاکہ اس عالمی وبا کا خاتمہ جلد سے جلد ممکن ہو سکے۔

    واضح رہے کہ روس کرونا کیسز کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے، جہاں اب تک 1 لاکھ 7 ہزار 900 اموات ہو چکی ہیں، جب کہ مجموعی کیسز کی تعداد 47 لاکھ 53 ہزار ہے۔

    تاہم روس میں اس وقت کرونا وائرس کی صورت حال قابو میں ہے، جس میں روس کی تیار کردہ کرونا ویکسینز کا کلیدی کردار بتایا جاتا ہے۔

  • جنگِ عظیم دوم اور برلن کی دیوار

    جنگِ عظیم دوم اور برلن کی دیوار

    جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر شکست سے دوچار جرمنی کو چار اتحادی فاتح ملکوں یعنی امریکا، برطانیہ، فرانس اور روس نے ایک معاہدے کے تحت چار حصوں میں بانٹ لیا تھا۔

    برلن جو جرمنی کا دارالخلافہ تھا، اسے بھی چار سیکٹروں میں بانٹ دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے بعد دو سال کے اندر اتحادی بکھر گئے اور ان کی قوت پارہ پارہ ہو گئی جب کہ روس اپنا حصہ لے کر علیحدہ ہو گیا۔

    اِدھر امریکا، برطانیہ، فرانس اور قریبی ہالینڈ، بیلجیئم اور لکسمبرگ نے ایک منصوبے کے ذریعے باقی تین حصوں کو ملا کر مغربی جرمنی کی تشکیل کا راستہ ہموار کر دیا۔ مغربی برلن بھی اسی منصوبے کے تحت مغربی جرمنی کی حدود میں آ گیا۔

    مشرقی جرمنی کے تسلط سے آزادی پانے کے خواہش مند باشندوں نے موقع غنیمت جانا اور اور سرحد پار کر کے مغربی برلن میں داخل ہوگئے، جہاں سے بلا روک ٹوک وہ مغربی جرمنی جا سکتے تھے۔

    یہ صورت حال دیکھ کر روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور وہاں ہر قسم کی آمدورفت اور سامان کی رسد اور ترسیل کو روک دیا۔ اس پر مغربی طاقتوں نے اہلِ شہر کو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے برلن ائر لفٹ کا پروگرام بنایا اور یوں روسی بائیکاٹ بے معنی ہو گیا۔

    قدرتی وسائل، اسباب کی لوٹ مار، انسانی المیے اور جبر، طاقت کا بے دریغ اور وحشیانہ استعمال ہی نہیں دیوارِ برلن بھی جنگِ عظیم کے بعد بندر بانٹ اور اس وقت کی عالمی طاقتوں کے بالادستی کے جنون کی ایک مثال کہی جاسکتی ہے جسے بعد میں گرانا پڑا اور جرمنی متحد ہوا۔

    (جنگِ عظیم دوم اور مختلف خطوں پر اس کے اثرات سے ورق)

  • پیوٹن جنگ عظیم دوم کی غرق شدہ آب دوز دیکھنے سمندر میں اتر گئے

    پیوٹن جنگ عظیم دوم کی غرق شدہ آب دوز دیکھنے سمندر میں اتر گئے

    ماسکو: منفرد کارناموں کے لیے مشہور روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے ایک اور کارنامہ انجام دے دیا ہے، پیوٹن جنگ عظیم دوم کی غرق شدہ روسی آب دوز کو دیکھنے کے لیے سمندر میں اتر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق روسی صدر پیوٹن نے گزشتہ روز فن لینڈ کے قریب کی بندرگاہ کا دورہ کیا، جہاں وہ گہرائی ناپنے والی چھوٹی آب دوز میں بیٹھ کر زیر سمندر گئے۔

    روسی صدر نے جنگ عظیم دوم کی ڈوبی ہوئی آب دوز دیکھی، اس موقع پر ڈائیورز بھی ان کے ساتھ تھے، پیوٹن نے جنگ عظم دوم لڑنے والے روسی فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

    شوکا کلاس آب دوز کی مذکورہ روسی آب دوز اکتوبر 1942 میں روسی شہر پیٹرزبرگ کے مغرب میں گاگلینڈ جزیرے کے قریب ڈوبی تھی۔

    روسی صدر نے واپسی پر کہا کہ وہ ایک بھرپور تاثر لے کر لوٹے ہیں، اور یہ پہلی بار نہیں کہ میں پانی میں گیا ہوں، میں نے جو وہاں دیکھا، مجھ پر اس کا اثر مرتب ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  روس میں اپوزیشن کا احتجاج، 1 ہزار سے زائد افراد گرفتار

    خیال رہے کہ روسی صدر پیوٹن غرق شدہ آب دوز دیکھنے سمندر میں پچاس میٹر گہرائی میں گئے، جہاں انھوں نے ایک گھنٹا گزارا اور آب دوز کا بھرپور معائنہ کیا۔

    سمندر کے اندر گہرے پانی میں ایک تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا، اس دوران روشنیاں بھجائی گئیں اور روسی فوجیوں کی یاد میں ایک منٹ تک خاموشی اختیار کی گئی۔

    واضح رہے کہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں اپوزیشن سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، اپوزیشن کی ریلی پر پولیس ٹوٹ پڑی، ایک ہزار سے زاید مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

    مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بیلٹ پیپر سے اہم اپوزیشن رہنماؤں کے نام نکالنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔