Tag: جنگ وطن

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جشنِ آزادی: جیوے، جیوے پاکستان اور جمیل الدّین عالی

    جیوے جیوے پاکستان ایک ایسا ملّی نغمہ ہے جسے پانچ سال کا بچّہ اور زندگی کی 70 دہائیاں دیکھ لینے والا کوئی بزرگ بھی جھومتے ہوئے، سرخوشی کے عالم میں اور احساسِ مسّرت میں ڈوب کر ایک ہی ردھم میں خوبی سے گنگنا سکتا ہے۔

    یہ لازوال نغمہ جمیل الدّین عالی کا لکھا ہوا ہے۔ آج جشنِ آزادی پر ہم ان کا یہ نغمہ ہی نہیں ’ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں، ہم مصطفوی، مصطفوی، مصطفوی ہیں، اے وطن کے سجیلے جوانو، جو نام وہی پہچان، پاکستان، پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا، بھی سن رہے ہیں اور عالی جی کو بھی یاد کررہے ہیں۔

    جیوے جیوے پاکستان کو دوسرا قومی ترانہ اس ملّی نغمے کی عوامی مقبولیت کے پیشِ نظر کہا جاتا ہے۔ عالی جی نے وطنِ عزیز کے لیے جو نغمات لکھے وہ لازوال ثابت ہوئے۔ ان کے نغمات کو الن فقیر نے مخصوص انداز میں گایا گیا اور نصرت فتح علی خان کی منفرد گائیکی میں بھی محبت امن ہے اور اس کا ہے پیغام پاکستان کو بھی بہت سنا اور پسند کیا گیا۔

    جمیل الدین عالی، جنھیں عالی جی کہا جاتا تھا، ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک عہد تھا جنھوں نے حبُ الوطنی، اپنی زبان اور ثقافت کی محبّت کو اپنے نغمات کے ذریعے ہمارے دلوں میں اتارا اور ایسی ملّی شاعری کی جو زبان زدِ عام ہو گئی۔

  • ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    ملّی نغمہ سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد اور مسرور انور

    جشنِ آزادی کے موقع پر وطنِ عزیز پاکستان کے طول و عرض میں وطن کی سلامتی و استحکام کے لیے اور آزادی کی نعمت کا شکر ادا کرتے ہوئے دعا کی صورت یہ ملّی نغمہ گونج رہا ہے،’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد۔‘‘

    پاکستانیوں کے دل کی آواز بننے والا یہ نغمہ ہر سماعت میں‌ محفوظ ہے اور آج آزادی کے جشن اور یادگار دن پر جھوم جھوم کر سنا اور گایا جارہا ہے۔

    اس ملّی نغمے کے خالق پاکستان کے نام وَر شاعر مسرور انور ہیں جنھوں نے فلمی گیت بھی لکھے اور اپنے وطن پاکستان کے لیے بھی ایسے نغمات تخلیق کیے جن کی مقبولیت آج ہی نہیں آنے والے وقتوں میں بھی برقرار رہے گی۔

    مسرور انور 1962ء سے 1990ء تک پاکستانی فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کرتے رہے اور ممتاز ترین نغمہ نگاروں میں شامل ہوئے۔ انھوں نے 1970ء کے اوائل میں جو ملّی نغمات لکھے انھیں بے حد مقبولیت ملی اور سوہنی دھرتی اللہ رکھے کے علاوہ سرفروشی اور وقت پڑنے پر جذبہ شہادت سے مغلوب ہوکر میدانِ جنگ میں اترنے والے قوم کے دلیر شیر جوانوں سے اس نغمے کے ذریعے مخاطب ہوئے اور کہا، اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں، قوم کے مردِ مجاہد تجھے کیا پیش کروں….!

    مسرور انور کا یہ ملّی نغمہ وطن کی مٹی گواہ رہنا بھی سبھی کی سماعتوں میں تازہ ہے۔ انھوں نے وطن کی خوب صورتی اور آزادی پر نثار ہوتے ہوئے یہ نغمہ بھی قوم کے لیے پیش کیا جو آج پھر ہمارے لبوں پر رقصاں ہے، جگ جگ جیے میرا پیارا وطن، لب پہ دعا ہے دل میں لگن۔

    سوہنی دھرتی اللہ رکھے وہ نغمہ تھا جو شہناز بیگم کی آواز میں پاکستان کی ثقافتی پہچان بن گیا۔

  • تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    تحریکِ آزادی: قائدِ اعظم کی زندگی کے پانچ ادوار، مختصر جائزہ

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے اور اس پلیٹ فارم سے مسلمانانِ کی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کرنے کے بعد ایک نہایت ہنگامہ خیز اور مصروف زندگی گزاری۔

    اگر ہم اپنے قائد و راہ بَر کے تعلیمی دور سے لے کر ان کی وفات تک زندگی پر نظر ڈالیں تو اسے پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جن سے بالخصوص نوجوان نسل کو واقف ہونا چاہیے۔

    محمد علی جناح کی زندگی کے پہلے دور کو 20 برسوں پر محیط کہا جاسکتا ہے۔ یہ زمانہ تھا 1876ء سے 1896ء تک کا، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔

    اس کے بعد اگلے دس سال یعنی 1896ء سے لے کر 1906ء تک کے عرصے میں انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے وکالت میں اپنی لیاقت کا لوہا منوایا۔

    مؤرخین اور سوانح و خاکہ نگار محمد علی جناح کے تیسرے دور کو 1906ء سے 1916ء تک دیکھتے ہیں، جب وہ زیادہ تر کانگریس کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی کے چوتھے دور کی بات کی جائے تو وہ 20 سال پر محیط ہے اور 1916ء سے 1936ء کا زمانہ ہے۔ اس دور میں وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔

    پانچواں دور 1937ء سے شروع ہوتا ہے اور یہ ان کی وفات تک یعنی 1948ء تک کا ہے۔ اس دور کے ابتدائی برسوں میں محمد علی جناح نے وکالت چھوڑ کر اپنی تمام تر توجہ مسلمانانِ ہند کے اتحاد اور تنظیم پر مرکوز کردی اور پاکستان کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیا تھا۔ بعد کے برسوں میں وہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں بے حد مصروف ہوگئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو وہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔

    قائدِاعظم کی زندگی کے ان ادوار کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو سامنے آئے گا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی مقصد اور نصبُ العین کے حصول کے لیے مصروفِ کار رہے۔

    قائداعظم سے 21 جون 1937ء کو شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے کہا تھا: ’’ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے، جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے راہ نمائی کی امید رکھے۔‘‘

    قائدِ اعظم قوم کے اس حق اور اپنے فرض کو بخوبی پہچان چکے تھے اور کانگریس سے تعلق توڑنے اور وکالت ترک کرنے کے بعد اپنی تمام زندگی حصول و قیامِ پاکستان کی جدوجہد کرتے ہوئے گزار دی۔

  • قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    قیامِ‌ پاکستان: سردار عبدالرّب نشتر اور ڈاک ٹکٹوں کا اجرا

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر و شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر ملک کے پہلے وزیرِ اعظم خان لیاقت علی خان کی کابینہ میں شامل رہے اور وطنِ عزیز کے استحکام اور ترقّی و خوش حالی کے لیے کام کیا۔

    74 ویں جشنِ آزادی کے موقع پر ہم پاکستان کے اسی قابل اور مخلص راہ نما کے ایک یادگار کام کا تذکرہ کررہے ہیں جو محکمہ ڈاک سے متعلق ہے۔

    پاکستان بننے کے بعد جہاں انتظامی اور ریاستی امور چلانے کے لیے مختلف ادارے اور شعبہ جات قائم کیے گئے، وہیں ڈاک کا نظام اور اس کے تحت ٹکٹوں کے اجرا کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔

    قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 9 جولائی 1948ء کو محکمہ ڈاک کے تحت سردار عبدالرّب نشتر کی راہ نمائی، ذاتی دل چسپی اور مسرت حسین زبیری کی کوششوں سے چار ٹکٹوں کا اجرا کیا۔

    یہ پاکستان کے اوّلین ڈاک ٹکٹوں کا سیٹ تھا جن کی مالیت ڈیڑھ، ڈھائی، تین آنہ اور ایک روپیہ تھی۔ ان میں سے تین ڈاک ٹکٹوں پر بالترتیب سندھ اسمبلی بلڈنگ، کراچی ایئر پورٹ اور شاہی قلعہ لاہور کی تصاویر بنی تھیں جب کہ آخرالذّکر چوتھا ٹکٹ مصوّری کا نمونہ تھا۔

    بعدازاں محکمہ ڈاک نے سردار عبدالرّب نشتر یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔

  • وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    وائسرائے ہند کی اہلیہ نے والدہ کے نام خط میں قائدِ‌اعظم کے حوالے سے کیا لکھا تھا؟

    مسلمانانِ ہند کے عظیم قائد اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضربُ المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی نفاست پسندی اور جامہ زیبی نے ہندوستان کے وائسرائے لارڈ چمسفورڈ اور لارڈ ہارڈنگ بھی متاثر تھے اور متعدد مواقع پر اس کا اعتراف بھی کیا۔ برطانوی دور کے ایک اور ہندوستانی حاکم لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے تو اپنی والدہ کے نام ایک خط میں لکھا: ’’بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے۔‘‘

    اگر بات کی جائے ہندوستان کے عام مسلمانوں کی تو وہ روایتی ملبوس اور اس دور کی قدروں کو اہمیت دیتے تھے اور کپڑے کی بنی ہوئی ٹوپی سے سَر ڈھانپتے تھے جسے شرافت اور تہذیب کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ جب سلطنتِ عثمانیہ اور تحریکِ خلافت کا شہرہ ہوا تو ان کی اکثریت نے مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد پر اپنے لباس میں ترکی ٹوپی بھی شامل کرلی تھی۔

    قائدِ اعظم نے ہمیشہ کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کیا، لیکن مسلم لیگ کے راہ نما اور تحریکِ آزادی کے قائد بعد میں اچکن اور تنگ پاجامہ، شیروانی جیسے روایتی ملبوس کے ساتھ ایک مخصوص ٹوپی پہن کر جلسوں اور مختلف اہم تقاریب میں‌ شریک ہونے لگے اور ان کے زیرِ استعمال قراقلی ٹوپی اتنی مشہور ہوئی کہ جناح کیپ کے نام سے مشہور ہوگئی۔

    یہ دراصل دنبے کی ایک خاص نسل قراقلی کی کھال سے تیّار کی جاتی ہے اور اسی سے موسوم ہے۔ اس جانور کی یہ مخصوص کھال افغانستان اور بیرونِ ملک سے منگوا کر متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں بھی اس سے قراقلی ٹوپی تیّار اور استعمال کی جاتی رہی، لیکن بدلتے ہوئے فیشن اور ملبوسات کے ساتھ اس کا رواج بھی ختم ہو چکا ہے۔

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح جب اپنے عمدہ اور خوب صورت ملبوس کے ساتھ یہ ٹوپی پہننے لگے تو لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور اسے جناح کیپ ہی کہنا شروع کردیا اور اکثریت نے اسے اپنے لباس کا حصّہ بنایا۔

  • قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    قائدِ‌اعظم کو کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کیوں حاصل کرنا پڑا؟ ایک یادگار واقعہ

    بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت و کردار کو ہندوستانی اور بعض انگریز مؤرخین نے بھی سراہا ہے اور ان کی زندگی کے مختلف ایسے واقعات کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے بااصول، صاف گو ہونے اور مضبوط و اجلے کردار کی غمّازی کرتے ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسے ہی واقعے کا تذکرہ کررہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے۔

    قانون کی تعلیم مکمل کرکے لندن سے ہندوستان لوٹنے والے محمد علی جناح نے جب ممبئی (بمبئی) میں پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کرنا چاہا تو انھیں کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت پڑی۔

    پریکٹس شروع کرنے کے خواہش مند کسی بھی وکیل کے لیے لازمی تھا کہ وہ یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرے۔ ایک روز محمد علی جناح صبح سویرے ایک انگریز مجسٹریٹ کے بنگلے پر پہنچ گئے اور نوکر کے ہاتھ ایک چٹ پر اپنا نام اور ڈگری لکھ کر ضروری کام سے ملاقات کا پیغام اندر بھجوا دیا۔ مجسٹریٹ نے انھیں اندر بلا لیا۔

    قائدِ اعظم نے اندر جاتے ہی سوال کیا:’’میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

    مجسٹریٹ نے جواب دیا: مجھے آپ بے حد شریف آدمی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر قائدِ اعظم نے اسی وقت ایک کاغذ آگے بڑھا دیا اور نہایت ادب اور شائستگی سے کہا: ’’جنابِ عالی، یہ الفاظ اس پر لکھ دیجیے۔ دراصل مجھے قانون کی پریکٹس شروع کرنے کے لیے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔‘‘

  • قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    قائدِاعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک نفیس و دل چسپ پہلو

    ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان کے حوالے سے طویل اور ناقابلِ فراموش جدوجہد میں نہ صرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کی بے لوث قیادت ایک اہم تاریخی موضوع ہے بلکہ آزادی کے متوالوں کے محبوب لیڈر محمد علی جناح کی سحر انگیز اور نفیس شخصیت سے بھی نئی نسل کو واقف کرانا ضروری ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ تعلیم و قابلیت، قیادت کی اہلیت کے ساتھ کون سے عوامل ہیں جن کی بنا پر ان کے قائد کو ایک باوقار، پُراعتماد اور ہمہ اوصاف شخصیت کہا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند کے عظیم سیاسی مدبّر، قابل وکیل اور مسلمانانِ ہند کے قائد خوش پوشاک اور نفیس انسان مشہور تھے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ قائدِ اعظم کی خوش پوشاکی ان کی شخصیت کا ایسا جزو تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس کا اعتراف ان کے سیاسی حریف اور مخالفین بھی کرتے ہیں۔

    قائد اعظم محمدعلی جناح کراچی میں پیدا ہوئے جو اس وقت بھی ساحلی شہر ہونے کی بنا پر اہم تجارتی مرکز تھا اور یہاں نہ صرف مختلف اقوام کے لوگ رہتے تھے بلکہ انگریز بھی آباد تھے۔ یہاں کی مخصوص مقامی آبادی انگریزی زبان و ثقافت سے کسی قدر واقف اور ان کے طور طریقوں اور لباس سے بھی مانوس ہوگئے تھے۔

    محمد علی جناح کے والد جناح پونجا تجارت پیشہ تھے اور اسی حوالے سے انگریزوں سے رابطہ اور واسطہ پڑتا رہتا تھا۔ اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان جانتے تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ اسی ماحول میں قائدِ اعظم بھی رہے اور شروع ہی سے انگریزی لباس زیبِ تن کیا۔ 1892ء میں وہ انگلستان چلے گئے اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے بیرسٹر بنے۔ لندن میں قیام کے دوران کوٹ، پتلون اور ٹائی کے استعمال کے ساتھ اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی آشنا ہوئے۔

    لندن سے واپس آکر بمبئی میں بہ طور پیشہ وکالت کا آغاز کیا۔ وہاں پارسیوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کی آبادی نہ صرف با اثر اور متمول تھی بلکہ انگریزوں سے قریبی روابط رکھتی تھی اور انگریزی لباس پہنتی تھی اور محمد علی جناح بھی یہی لباس پہنتے رہے۔

    آل انڈیا مسلم لیگ اور مسلمانوں کے راہ بر و قائد بننے اور 1937 کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کے اجلاسوں، کانفرنسوں اور عوامی اجتماعات میں اچکن اور تنگ پاجامہ پہن کر شرکت کرنا شروع کردی تھی، اور مؤرخین کے مطابق بعد میں شیروانی کا استعمال شروع کیا۔

    اگست 1947ء کے بعد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بانی پاکستان نے آزادی کی تقریبات میں شیروانی، شلوار اور جناح کیپ پہن کر شرکت کی تھی۔

  • تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ‌ اعظم کے رفیق مولانا ظہور الحسن کا نام تاریخ میں ایک باکردار، جرات مند، کھرے اور سچّے انسان کے طور پر درج ہے۔ وہ ایک عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف و مؤلف بھی تھے۔

    9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ظہور الحسن کے والد ایک نام ور عالمِ دین تھے۔ ان کی تربیت مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنے بزرگوں کے قائم کیے ہوئے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

    مولانا ظہور الحسن بھی عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر تھے۔ آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو پر دسترس رکھتے تھے۔

    ظہور الحسن درس بھی اپنے والد کی طرح عالمِ دین بننے کے بعد بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت و خطابت کرنے لگے۔

    بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِِِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر 1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت اسی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں پاک و ہند سے صفِ اوّل کے راہ نماؤں اور علما نے شرکت کی۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آکر ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔

    قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو نماز عید الفطر کا ایک عظیم الشّان اجتماع کراچی کی اسی عید گاہ میں منعقد ہوا، جس میں قائدِاعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی و دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرینِ ملت نے مولانا درس کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی۔

    مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور قبرستان مخدوم صاحب، کراچی آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یکم جولائی 1948ء: جب شاہانہ انداز میں بگھی میں سوار قائدِ اعظم ایک غیرمعمولی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے!

    یکم جولائی 1948ء: جب شاہانہ انداز میں بگھی میں سوار قائدِ اعظم ایک غیرمعمولی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے!

    29 جون 1948ء کو صبح، دس بجے کا وقت تھا جب قائدِ اعظم کا طیّارہ ماری پور کے ہوائی اڈّے پر اترا۔ وہ کوئٹہ سے جس مقصد کے لیے کراچی آئے تھے، وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔

    ہوائی اڈّے پر وزیرِ اعظم پاکستان، کابینہ کے وزرا سمیت اعلیٰ حکومتی عہدے داروں نے ان کا استقبال کیا۔ دراصل بانیِ پاکستان کو ایک افتتاحی تقریب میں‌ شرکت کرنا تھا۔ یہ تقریب ایک منتظم اور سربراہِ مملکت کی حیثیت سے پاکستان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے قائد کے منصوبے کی تکمیل کے لیے منعقد کی جارہی تھی۔

    یکم جولائی کو منعقدہ اس تقریب میں شرکت کے لیے قائدِ اعظم گورنر جنرل ہائوس سے ایک بگھی میں سوار ہوکر پہنچے تھے۔ اس بگھی کے آگے چھے گھوڑے جتے ہوئے تھے جن کے ساتھ شوخ سرخ رنگ کی وردیوں میں ملبوس محافظ دستہ اور مستعدینِ رکاب نظر آتے تھے۔

    قائدِ اعظم نہایت باوقار اور شاہانہ انداز میں اپنی منزل تک پہنچے۔ دنیا نے دیکھا کہ عزم و ہمّت کے پیکر، پختہ ارادے کے ارادے کے مالک محمد علی جناح کی مدبّرانہ قیادت، فہم و فراست اور دور اندیشی نے اس روز پاکستان کی آزاد معیشت کے خواب کو عملی شکل دی اور اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کیا۔

    قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائدِ اعظم اور حکومت نے جن بے شمار انتظامی مسائل سے نمٹنے کے لیے دن رات ایک کردیا تھا، ان میں ایک بڑا مسئلہ بینکاری بھی تھا۔ تاہم تقسیم کے فوراً بعد ہی قائدِاعظم کی ہدایت پر قومی مالیاتی ادارے کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کردی گئی تھی اور 10 مئی 1948ء کو قائدِ اعظم نے سربراہِ مملکت کے طور پر اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو افتتاح کے ساتھ ہی فعال و کار گزار بنانے کا حکم جاری کیا اور یکم جولائی کو نئی مملکت کی آزاد معیشت کی داغ بیل ڈال دی گئی۔

    اس عظیم الشّان اور اہم و یادگار تقریب کے موقع بانی پاکستان نے کراچی میں‌ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے تاریخی تقریر فرمائی، اس تقریب میں مسلم ممالک کے نمائندے، دولتِ مشترکہ کے ارکان، امریکا اور روس کے سفیر اور متعدد ممالک کے صنعت و تجارت سے وابستہ اراکین بھی موجود تھے۔

    قائدِ اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستانی معیشت کے لیے اسلامی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنے اور ایسے معاشرے کے قیام میں مددگار بننے پر زور دیا جو سب کے لیے سود مند ثابت ہو اور ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرے۔