Tag: جنگ وطن

  • 1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    1947ء: اسلامی دنیا کا قیامِ‌ پاکستان پر مسرّت کا اظہار، تہنیتی پیغامات

    تقسیمِ ہند سے قبل دنیا نے عالمی جنگیں بھی دیکھیں، ممالک نے مختلف تنازعات، سیاسی انتشار، ریاستی سطح پر عدم استحکام اور خانہ جنگی اور قدرتی آفات کا سامنا بھی کیا اور مختلف برسوں کے دوران عرب خطّہ، انڈونیشیا، فلسطین، مصر، افریقا کے ممالک، ترکی اور ایشیا میں آباد مسلمان بھی ایسے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے۔

    قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانانِ ہند کے سیاسی و سماجی راہ اور مذہبی قائدین دنیا کے کسی بھی خطّے سے بلند ہونے والی تحریک اور مصیبت میں ان کا ساتھ دیتے دیتے تھے۔ خصوصاً ہر اس تحریک پر ہندوستان سے حمایت میں ضرور آواز بلند کی جاتی تھی جس کا تعلق مسلمانوں کے حقوق سے ہوتا تھا۔

    تاریخی طور پر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ بانیانِ پاکستان نے نہ صرف برصغیر کے مسلمانوں بلکہ فلسطین، انڈونیشیا اور دنیا کے ہر کونے میں سامراج کی غلامی میں جکڑے ہوئے اور مظلوم طبقات کے حق کی بات کی اور ان کے لیے آواز بلند کی۔ یہی سبب تھا کہ قیامِ پاکستان کے اعلان کے بعد اسلامی دنیا کی جانب سے نہایت والہانہ انداز میں‌ خوشی اور مسّرت کا اظہار کیا گیا اور نہایت قریبی اور برادرانہ تعلقات کی بنیاد رکھی گئی۔

    نوزائیدہ مملکت کی قیادت اور عوام کے لیے بھی خیرمقدم کا یہ سلسلہ جہاں نہایت پُرمسرّت اور روح افزا تھا، وہیں سفارت کاری اور بین الاقوامی سطح پر تعلقات کے قیام و فروغ کے حوالے سے بھی مددگار ثابت ہوا۔

    یہاں ہم ایسے چند اسلامی ممالک اور ان کی قیادت کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے نہ صرف دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی نئی اسلامی ریاست کو سب سے پہلے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسے مضبوط شناخت دی۔

    1947ء میں جب آزاد اسلامی ریاست پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بین الاقوامی برادری بالخصوص اسلامی دنیا سے سربراہانِ مملکت اور عوام نے قائد اعظم محمد علی جناح اور عوام کے نام تہنیتی پیغامات بھیجے اور پاکستانی قیادت کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

    اسلامی دنیا کی طرف سے بانی پاکستان اور ملک کے عوام کو ہدیہ تبریک پیش کرنے والوں میں شاہِ ایران، شاہِ یمن، ترکی کی اعلیٰ قیادت اور عوام، شاہِ شرق اردن، لبنان کے صدر، تنزانیہ کی قیادت، انڈونیشیا کے وزیرِ اعظم، لیبیا، تیونس، مفتیِ اعظم فلسطین محمد امین الحسینی، سعودی عرب کے شہزادہ فیصل و شاہ عبد العزیز و دیگر شامل تھے۔

    قیام پاکستان پر اسلامی دنیا نے برصغیر میں اس نئی مسلم ریاست کا شایانِ‌ شان اور مثالی خیر مقدم کیا۔

    قیام پاکستان سے قبل سعودی عرب کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ مسلمانانِ ہند کا بیتُ اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی نسبت اس خطّے اور اس کے باشندوں سے ہمیشہ عقیدت اور محبّت کا رشتہ رہا ہے جو بعد میں مزید مضبوط ہوا اور سفارتی سطح پر اس تعلق کی بنیادیں استوار کی گئیں۔

    سعودی عرب، آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان کو تسلیم کرنے والے اوّلین ممالک میں شامل تھا۔

    اس وقت سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے نام پیغامِ تہنیت بھیجا اور عوام کو مبارک باد دی۔

    ہمارے ہمسایہ اسلامی جمہوریہ ایران نے آزادی کے اعلان کے فوراً بعد پاکستان کو بطور آزاد اور خودمختار ریاست سب سے پہلے تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔

    مسلمانانِ ہند اور ترکی کے عوام پاکستان کے قیام سے قبل خلافتِ عثمانیہ کی وجہ سے ایک دوسرے سے قلبی اور برادرانہ تعلق میں بندھے ہوئے تھے۔ تحریک پاکستان کے دوران ترکی کے اخبارات میں مسلمانانِ ہند کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تھی اور ان کی جدوجہد کو خاص طور پر نمایاں کیا جاتا تھا۔ ترکی نے بھی پاکستان کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

    قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک فیروز خان نون نے حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے ترکی، شام، شرقِ اردن، سعودی عرب، لبنان اور بحرین کا دورہ کیا تھا۔

  • 11 اگست: دستور ساز اسمبلی میں قائدِاعظم کی ایک راہ نما تقریر

    11 اگست: دستور ساز اسمبلی میں قائدِاعظم کی ایک راہ نما تقریر

    قیامِ پاکستان کے اعلان سے قبل بانی پاکستان کی ایک تقریر نہ صرف پاکستان کے لیے اہم اور یادگار ہے بلکہ اس تقریر کے ذریعے قائدِ اعظم محمد علی جناح دنیا کو بتایا کہ ان کا وطن مساوات، بھائی چارے، مذہبی یک رنگی اور امن کو اہمیت دیتا ہے اور یہی اسلامی تعلیمات بھی ہیں۔

    بانی پاکستان نے یہ تقریر یومِ آزادی سے چار روز قبل 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے پہلے صدر کی حیثیت سے کی تھی۔ قائدِاعظم کی اس تقریر کو پاکستان اور پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق سے متعلق راہ نما تقریر سمجھا جاتا ہے۔

    مسلمانانِ برصغیر نے قائدِاعظم کی ولولہ انگیز قیادت اور تحریکِ آزادی کے متوالوں کی لازوال قربانیوں کے بعد 14 اگست 1947ء کو دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ اسلامیانِ ہند ایک ایسے خطۂ زمین کے حصول میں‌ کام یاب ہوئے جہاں وہ اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کر سکتے تھے، لیکن ان کے ساتھ ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی اقلیتیں بھی شامل تھیں جن کا احترام اور ان کے حقوق کا تحفظ ضروری تھا۔

    قائداعظم محمد علی جناح نے اس تقریر میں کہاکہ ہم نے جن حالات اور جس پرامن طریقے سے پاکستان کو حاصل کیا ہے وہ انتہائی نایاب و بے مثال ہے اور اب ہمیں پاکستان کو دنیا کے لیے ایک مثالی مملکت بنانا ہے۔ تقریر کے اختتام سے قبل قائدِاعظم نے یہاں رہنے والی اقلیتوں سے اپیل کی کہ وہ ترکِ وطن نہ کریں اور پاکستان کو ہی اپنا وطن بنائیں۔ انھوں نے کہا کہ اب آپ آزاد ہیں، اس مملکتِ پاکستان میں آپ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، خواہ آپ کا تعلق کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا ہندو مسلمان کا فرق مٹتا جائے گا، سیاسی تمیز کے اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ اس سے مراد یہ تھی کہ سب ایک قوم کے فرد ہوں گے۔

    بانی پاکستان نے اس تقریر میں ایک اسلامی ریاست کے بنیادی فریضے یعنی مذہبی آزادی کا اعلان فرمایا تھا جو قرآنی احکامات کے عین مطابق ہے۔ قائداعظم کا یہ خطاب ان کی جمہوریت پسندی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ان کے زرّیں خیالات کا عکاس ہے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: مسلم لیگ کے لیے بے دریغ دولت خرچ کرنے والے راجا صاحب کا تذکرہ

    تحریکِ‌ آزادی: مسلم لیگ کے لیے بے دریغ دولت خرچ کرنے والے راجا صاحب کا تذکرہ

    راجا صاحب ہندوستان کی ریاست محمود آباد کے سلطان اور مسلمانوں کے ایسے خیرخواہ تھے جنھوں نے تحریکِ پاکستان اور آل انڈیا مسلم لیگ کے لیے گویا اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے اور خود کو قائدِ اعظم کا معتمد اور جاں نثار ثابت کیا۔

    راجا صاحب نے محمود آباد مہا راجا سَر محمد علی خان کے گھر آنکھ کھولی۔ وہ 1914ء کو پیدا ہوئے اور 14 اکتوبر 1973ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    راجا صاحب کا اصل نام امیر احمد خان تھا۔ ان کا شمار تحریکِ پاکستان کے ان نام ور راہ نمائوں میں ہوتا ہے جو آزادی کی تحریک میں‌ ہر محاذ پر پیش پیش رہے اور ہر طرح کی قربانی دی۔ مال و دولت کی فراوانی اور ہر قسم کی آسائش میسر ہونے کے سبب ان کی اچھی تعلیم و تربیت ہوئی اور انھوں نے انگریزی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کیا جب کہ اپنے عمدہ خصائل کی بدولت مسلمان قائدین میں ممتاز ہوئے اور محمد علی جناح کے رفیق و معتمد شمار کیے گئے۔

    والد کے انتقال کے بعد راجا صاحب ریاست کے والی بن گئے اور مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست میں فعال ہوئے۔ انھوں نے مسلم لیگ کو مضبوط کرنے کے لیے مالی امداد کی اور اپنے وسائل اور آمدن کو مسلمانوں اور ان کی تحریک کے راستے میں حائل مشکلات اور رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔

    راجا صاحب کو قائدِاعظم سے بڑی عقیدت تھی۔ آپ کے تعلق اور گہرے مراسم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ قائدِاعظم کو چچا اور محترمہ فاطمہ جناح کو پھوپھی کہا کرتے تھے۔

    آپ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے خازن منتخب ہوئے۔ قائداعظم نے آپ کو آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی صدارت کے لیے نام زد کیا اور آپ اسی سال آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر منتخب ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر صرف چوبیس سال کی تھی۔

    قائدِاعظم محمد علی جناح نے 1945ء میں مرکزی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اپنے حلقۂ انتخاب کا انچارج راجا صاحب کو بنایا۔ راجا صاحب بھی مرکزی اسمبلی کی نشست کے امیدوار تھے لیکن انھوں نے اپنا حلقۂ انتخاب چھوڑ کر قائدِاعظم کی انتخابی مہم چلائی۔

    1947ء میں راجا صاحب پاکستان چلے آئے اور یہاں کسی منصب اور رتبے کی تمنا کیے بغیر مسلمانوں کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔ عمر کے آخری حصے میں راجا صاحب برطانیہ منتقل ہوگئے تھے جہاں اسلامک ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہوئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

  • 10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    10 اگست 1947ء: کراچی میں پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس

    ہندوستان میں مسلمانوں کی تحریکِ آزادی کی طویل جدوجہد کے دوران کئی تاریخ ساز موڑ اور یادگار لمحات آئے جن کا تذکرہ عظیم اور لازوال قربانیوں کی یاد دلاتے ہوئے حصولِ پاکستان کی داستان کو مکمل کرتا ہے۔ آج ایک ایسا ہی تاریخی دن ہے جب 1947ء میں کراچی میں سندھ اسمبلی کی موجودہ عمارت میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا تھا۔

    اس تاریخی اجلاس کی صدارت وزیرِ قانون جوگندر ناتھ منڈل نے کی اور اجلاس کی کارروائی کا آغاز مولانا شبیر احمد عثمانی نے تلاوتِ قرآن کریم سے کیا تھا۔ 14 اگست 1947ء تک جاری رہنے والے اس اجلاس کی کارروائی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

    10 اگست سے شروع ہونے والے اجلاس میں مشرقی بنگال کے 44، پنجاب کے 17، سرحد کے 3، بلوچستان کے ایک اور صوبہ سندھ کے 4 نمائندے شریک تھے جنھوں نے قائدِاعظم محمد علی جناح کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیز الدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا۔

    اجلاس میں طے پایا کہ جب تک پاکستان کا مستقل آئین تیار نہیں ہوتا اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کو بعض ترامیم کے ساتھ پاکستان کے آئین کی شکل دی جائے۔

    پاکستان کی یہ پہلی دستور ساز اسمبلی 24 اکتوبر 1954ء تک قائم رہی۔

  • 1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    1906: نواب سلیم اللہ خان اور آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام

    ہندوستان میں جب مسلمان سیاسی و مذہبی راہ نماؤں علیحدہ وطن کے حصول کو ناگزیر اور اسلامیانِ ہند کی سیاسی میدان میں مؤثر اور منظّم طریقے سے ترجمانی کی ضرورت محسوس کی تو آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ تحریکِ‌ آزادی کے متوالے اسی مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھے ہوئے اور برصغیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔

    آل انڈیا مسلم لیگ كا قیام 1906ء میں ڈھاكہ میں عمل میں آیا تھا۔ محمڈن ایجوكیشنل كانفرنس كے سالانہ اجلاس كے اختتام پر برصغیر كے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مسلم عمائدین نے ڈھاكہ كے نواب سلیم اللہ خان كی دعوت پر خصوصی اجلاس میں شركت كی جس میں مسلمانوں كی سیاسی راہ نمائی كے لیے ایک جماعت تشكیل دینے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔

    بیسویں صدی كے آغاز سے كچھ ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے كہ مسلمان ایك سیاسی پلیٹ فارم بنانے كی ضرورت محسوس كرنے لگے۔ ڈھاكہ اجلاس كی صدارت نواب وقارُ الملك نے كی جس میں نواب محسن الملك٬ مولانا محمد علی جوہر٬ مولانا ظفر علی خاں٬ حكیم اجمل خاں اور نواب سلیم اللہ خان سمیت بہت سے اہم مسلم اكابرین موجود تھے۔

    سَر نواب سلیم اللہ خان جن کی رہائش گاہ پر اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی اور دیگر اکابرین نے اس بات کا اعلان کیا کہ مسلم لیگ کے ذریعے مسلمانوں کے لیے مذہب میں آزادی اور سیاسی و مالی حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے، مناسب تعلقات کو اہمیت دی جائے گی اور یہ واضح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لیے یہ جماعت تشکیل دی گئی ہے۔ مسلمانانِ ہند کا یہ اجتماع یا میٹنگ 30 دسمبر1906 ء کو ہوئی تھی جس کے ساتھ ہی ایک دو رکنی کمیٹی نواب وقار الملک اور نواب محسن الملک پر تشکیل دی گئی جنھیں مسلم لیگ کا آئین تیار کرنے کا کام سونپا گیا اور اس حوالے سے خدوخال اور وضاحت و تفصیل کو تحریری شکل دینے کے لیے بعد میں مزید اکابرین کو کام تفویض کیا گیا۔

    آل انڈیا مسلم لیگ کے عہدے داروں کا انتخاب مارچ 1908 ء میں لکھنؤ میں عمل میں آیا اور اس وقت تک مزید صلاح و مشورے اور تجاویز کی روشنی میں لیگ کو برطانوی ہند میں انگریز حکومت اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی، معاشی ترقی اور حقوق کے تحفظ کی مؤثر تنظیم کے طور پیش کیا گیا جو آگے چل کر تشکیل و قیامِ پاکستان کا ذریعہ بنی۔

    نواب سلیم اللہ خان عین عالمِ شباب میں 16 جنوری 1915ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ان کے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی شناخت اور مؤثر نمائندگی کے ضمن میں کردار کو اور مسلم لیگ کے لیے دیگر خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    جدوجہدِ آزادی: قائدِ اعظم کے معتمد اور مسلم لیگ کے راہ نما سردار عبدالرّب نشتر

    سردار عبدالرّب نشتر ایک اچھے شاعر، مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما تھے جنھوں نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد میں قائداعظم کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کے بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوئے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے اور جدید تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت دینی ماحول میں ہوئی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد انھوں نے ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس بھی حاصل کرلیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کردی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوان شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست کا شوق پیدا ہوا تو نوجوانی میں تحریکِ خلافت میں عملی شرکت سے سفر کا آغاز کیا اور مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے لگے۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرب نشتر بھی شامل تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات بھی رہے اور قیامِ پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی منصب پر کام کرتے رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان میں پنجاب میں پہلے مسلمان اور پاکستانی گورنر بھی رہے۔ وہ 14 فروری 1958ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    تحریکِ‌ آزادی: راغب احسن وہ شخصیت جن سے قائدِ اعظم اور علّامہ اقبال نے گھنٹوں مشاورت کی

    برطانوی ہندوستان میں اپنی سیاست کا آغاز تحریکِ خلافت سے کرنے والی شخصیات میں علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں جنھوں نے خلافت کمیٹی میں فعال و متحرک کردار ادا کیا اور اسی وجہ سے جیل بھی گئے۔

    بعد میں‌ اسی مردِ مجاہد نے تحریکِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے لیے محمد علی جناح کی قیادت میں اپنا کردار ادا کیا۔

    علّامہ کا تعلق صوبہ بہار سے تھا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں 1905ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کلکتہ میں محکمۂ ڈاک میں معمولی ملازم تھے۔ راغب احسن نے کلکتہ میں تعلیم پائی۔ خلافت کمیٹی میں شمولیت کے بعد جب ایک موقع پر جیل گئے تو انھیں کلکتہ کارپوریشن کے اس وقت کے میئر محمد عثمان سے ملاقات کا موقع ملا۔ وہاں ان دونوں نے عہد کیا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور انگریز کی ملازمت کرنے کے بجائے اس کے خلاف جہاد کریں گے اور رہائی کے بعد انھوں نے ایسا ہی کیا۔ ایم اے کی ڈگری لی اور اس کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔

    علّامہ راغب ” اسٹار آف انڈیا ” سے منسلک ہوگئے اور مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ” کامریڈ ” کے اعزازی مدیر بھی بن گئے۔ مولانا محمد علی جوہر کی صحبت نے علامہ راغب احسن میں ایسا زورِ قلم پیدا کیا کہ بعد از وفاتِ محمد علی جوہر انھیں صحافت اور قلم کی دنیا میں محمد علی ثانی کہا جانے لگا۔

    علّامہ راغب احسن نے 1931ء میں ” آل انڈیا یوتھ لیگ ” کی بنیاد رکھی اور اسی دوران ” میثاق فکر اسلامیت و استقلالِ ملّت ” کے نام سے ایک فکر انگیز دستاویز مسلمانوں کے حقوق کے لیے مرتب کی۔ 1936ء میں راغب احسن نے کلکتہ میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اس کی تنظیم سازی میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ جو مسئلہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان متنازع فیہ تسلیم کیا گیا وہ طرزِ انتخاب تھا۔ ہندوستان کے بڑے بڑے مسلم راہ نما مثلاً حکیم اجمل خاں، سر علی امام، حسن امام ، بیرسٹر مظہر الحق، محمد علی جناح، حسرت موہانی، ڈاکٹر انصاری، مولانا ظفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی جوہر وغیرہم متحدہ طرزِ انتخاب کو ہندوستان کے سیاسی نظام کے لیے بہتر سمجھتے تھے جب کہ مسلم کانفرنس کے اراکین و عہدے داران ہمیشہ جداگانہ طرزِ انتخاب کے حامی رہے۔ ان میں محمد شفیع، علامہ محمد اقبال کے ساتھ علّامہ راغب احسن بھی شامل ہیں۔

    جداگانہ طرزِ انتخاب پر علّامہ راغب احسن نے کئی تحاریر سپردِ قلم کیں اور مضامین کے انبار لگا دیے جن کا مقصد اس حوالے سے شعور بیدار کرنا اور اپنے مؤقف کو درست ثابت کرنا تھا۔

    علّامہ راغب احسن کا نام و مقام اور ان کے تحریکِ آزادی میں کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب قائد اعظم محمد علی جناح 1935ء میں برطانیہ سے ہندوستان تشریف لائے تو دلّی میں تین اہم شخصیات نے گھنٹوں ایک کمرے میں بیٹھ کر وطن اور مسلمانوں کے حالات اور مستقبل پر بات چیت کی تھی اور یہ تین قائدین محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال اور راغب احسن تھے۔

    راغب احسن نے علّامہ اقبال کی درخواست پر آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم میں بھر پور حصہ لیا اور اسے مستحکم بنایا۔

  • تحریکِ‌ آزادی:  آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    تحریکِ‌ آزادی: آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ اور قائدِ اعظم کے 14 نکات

    انگلستان سے وطن واپس آکر کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرنے والے محمد علی جناح خود مسلم ہندو اتحاد کے بڑے حامی تھے۔

    اپنے سیاسی سفر کے ابتدائی دور میں وہ مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلم علما اور اکابرین کو انگریزوں سے آزادی اور متحدہ ہندوستان کے قیام کے لیے قائل کرلیں، لیکن دوسری طرف ان پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ ہندو کسی بھی طرح مسلمانوں کو ان کا جائز حق، سیاسی اور مذہبی آزادی نہیں‌ دیں گے بلکہ انھیں اپنا محکوم و غلام بنانا چاہتے ہیں اور پھر انھوں نے کانگریس کو چھوڑنے کا اعلان کیا۔

    ملک میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا اور 1920ء کے بعد اس میں تیزی آئی جس نے ثابت کیا کہ اس سرزمین پر دو قوموں کا اکٹھے رہنا ممکن نہیں ہے اور ہندو قیادت اور تمام راہ نما ایسے واقعات میں ملوث انتہا پسندوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ اس سے قبل ہی 1916ء میں محمد علی جناح کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرلیا گیا اور جب انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دو قومی نظریہ اور اس کی بنیاد پر علیحدہ وطن کی جدوجہد تیز کرنا ہوگی، تو وہ اس پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔

    قائدِ اعظم کا تحریکِ آزادی کے قافلے کی قیادت سنبھالنا تھاکہ ایک کونے سے دوسرے کونے تک جوش و ولولے کی گویا ایک نئی لہر دوڑ گئی۔ اپنے قافلے میں شامل ساتھیوں کی مدد سے آپ نے نظریۂ پاکستان کی ترویج کی اور سیاسی میدان میں پاکستان کے حصول کا مقدمہ بھرپور طریقے سے لڑا۔

    دراصل اس وقت کی تحریکِ خلافت کے بعد ملک میں فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، ان سے واضح ہو گیا تھا کہ ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا جارہا ہے اور اسے محض جذباتی تقاریر اور امتداد زمانہ سے رفع نہیں کیا جاسکے گا۔ اسی دوران نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو دلبرداشتہ کردیا اور اس کے ردِعمل میں 1929ء میں مسلمانوں کی آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں منعقد ہوئی، جس میں قائدِاعظم نے 14 نکات پیش کیے، جن کو انتہا پسند ہندوؤں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ قائدِ اعظم پر مزید طعن و تشنیع کی گئی۔

    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنے پیش کردہ 14 نکات میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ مستقبل کے ہندوستان میں سیاست اور معاشی ترقی کے میدان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوگا اور برابری کی بنیاد پر سیاسی اور سماجی طور پر آزادی کا سفر شروع ہو گا۔

    بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے وہ نکات درج ذیل ہیں۔

    1- ہندوستان کا آئندہ دستور وفاقی طرز کا ہو گا۔

    2- تمام صوبوں کو برابری کی سطح پر مساوی خود مختاری حاصل ہو گی۔

    3- ملک کی تمام مجالسِ قانون ساز کو اس طرح تشکیل دیا جائے گا کہ ہر صوبے میں اقلیت کو مؤثر نمائندگی حاصل ہو اور کسی صوبے میں اکثریت کو اقلیت یا مساوی حیثیت میں تبدیل نہ کیا جائے۔

    4- مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کو ایک تہائی نمائندگی حاصل ہو۔

    5- ہر فرقے کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہو۔

    6- صوبوں میں آئندہ کوئی ایسی اسکیم عمل میں نہ لائی جائے، جس کے ذریعے صوبہ سرحد، صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال میں مسلم اکثریت متاثر ہو۔

    7- ہر قوم و ملّت کو اپنے مذہب، رسم و رواج، عبادات، تنظیم و اجتماع اور ضمیر کی آزادی حاصل ہو۔

    8- مجالسِ قانون ساز کو کسی ایسی تحریک یا تجویز منظور کرنے کا اختیار نہ ہو، جسے کسی قوم کے تین چوتھائی ارکان اپنے قومی مفادات کے حق میں قرار دیں۔

    9- سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے غیر مشروط طور پر الگ صوبہ بنایا جائے۔

    10- صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کی جائیں۔

    11- سرکاری ملازمتوں اور خود مختار اداروں میں مسلمانوں کو مناسب حصہ دیا جائے۔

    12- آئین میں مسلمانوں کی ثقافت، تعلیم، زبان، مذہب، قوانین اور ان کے فلاحی اداروں کے تحفظ کی ضمانت دی جائے۔

    13- کسی صوبے میں ایسی وزارت تشکیل نہ دی جائے، جس میں ایک تہائی وزیروں کی تعداد مسلمان نہ ہو۔

    14- ہندوستانی وفاق میں شامل ریاستوں اور صوبوں کی مرضی کے بغیر مرکزی حکومت آئین میں کوئی تبدیلی نہ کرے۔

  • تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    تقسیمِ‌ ہند: ’’مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا‘‘

    بیگم شائستہ اکرام اللہ معروف مصنف اور سفارت کار تھیں۔ انھوں نے تحریکِ پاکستان میں فعال حصّہ لیا۔

    ان کا وطن کوکلکتہ تھا جہاں وہ حسان سہروری کے گھر میں پیدا ہوئیں جو برطانوی وزیرِ ہند کے مشیر تھے۔ 1932ء میں ان کی شادی جناب اکرام اللہ سے ہوئی جو قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کے سیکریٹری خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لندن یونیورسٹی سے ناول نگاری کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے والی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں۔ وہ تقسیم سے قبل بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کی رکن رہیں جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن بھی رہیں۔

    انھوں نے تقسیمِ ہند کے واقعات اور اپنی اس زمانے کی یادوں کو بھی تحریری شکل دی تھی جن میں کئی حقائق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے جذباتی پہلوؤں کا احاطہ کیا ہے۔

    بیگم شائستہ اکرام اللہ لکھتی ہیں کہ جب برصغیر کی تقسیم یقینی نظر آنے لگی تھی تو اس وقت مجھ سمیت لاکھوں لوگوں کا خیال تھا کہ دلّی اور مسلم کلچر تو ایک ہی حقیقت ہیں۔ دلّی کے بغیر پاکستان ایسے ہوگا جیسے دل کے بغیر جسم۔

    انھوں نے کتاب میں‌ لکھا، ’’مسلم فنِ تعمیر سے بھرے پُرے شہر دلّی کو اس وقت کوئی بھی دیکھتا تو یہی کہتا کہ یہ تو مسلمانوں کا شہر ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ مسلم ثقافت اگرچہ دلّی کے چپے چپے سے چھلک رہی ہے، مگر آبادی کے لحاظ سے مسلمان یہاں اقلیت میں ہیں، لیکن ایسا ہرگز بھی نہیں تھا، مردم شماری بھی کرائی جاتی تو دلّی ہمارا تھا، مگر پنجاب کو تقسیم کر کے ہماری مجموعی اکثریت کو اقلیت میں بدلا گیا اور یوں ہم دلّی ہار گئے اور آج دلّی کی مسجدیں غرناطہ اور قرطبہ کی طرح یہ کہ رہی ہیں کہ جن عرب وارثوں نے ہمیں تخلیق کیا تھا ہم ان کی عظمتَ رفتہ کی یاد دلانے والی علامتیں ہیں۔‘‘

    (پروفیسر مشیر الحسن کی کتاب ’’منقسم قوم کی وراثت‘‘ سے خوشہ چینی)

  • 3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    3 جون 1947ء: تاریخ ساز دن اور ماؤنٹ بیٹن کی زیادتیاں

    تقسیمِ ہند سے قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو یہاں مالک و مختار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ متحدہ ہندوستان (برٹش انڈیا) کا آخری وائسرائے تھا جسے آنے والے دنوں میں یہاں کے باشندوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت کا تعین اور ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا تھا جس کے ساتھ ہی ہندوستان سے برطانیہ کا اقتدار بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتا۔

    ماؤنٹ بیٹن نے اس وقت کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت سے بات چیت اور مذاکرات کیے جب مسلمان محمد علی جناح کی قیادت میں علیحدہ وطن اور خودمختار و آزاد ریاست کے لیے اکٹھے ہوچکے تھے اور کسی قیمت پر اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹنے اور متحدہ ہندوستان میں حکومت کرنے کا کوئی فارمولا اور آئینی راستہ قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔

    ایک خیال یہ بھی ہے کہ جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے لیے نوآبادیات کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا، بالخصوص ہندوستان میں آزادی کے لیے مزاحمت، سیاسی دباؤ اور نوآبادیات میں‌ انتشار اور افراتفری نے برطانوی حکومت کی پریشانیاں بڑھا دی تھیں جس کی شدّت کو کم کرنے کے لیے ماؤنٹ بیٹن کو بھیجا گیا اور متحدہ ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے بات چیت میں ناکامی کے بعد تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔

    اس موقع پر ایک مرتبہ پھر انگریزوں کی مکّاری اور مسلمان دشمنی کے ساتھ ہندوؤں سے گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا اور انگریزوں نے مسلمانوں کے باب میں جو جو زیادتیاں اور نا انصافیاں کیں، وہ ایک اور نہایت دردناک داستان ہے۔

    مسلمانانِ برصغیر کی آزادی اور خود مختاری انھیں ایک آنکھ نہیں بھا رہی تھی۔ لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریس نے یہ تہیہ کر لیا تھا کہ آزاد اور خود مختار ریاستوں کا الحاق انڈین یونین سے کیا جائے گا جب کہ ایک اجلاس میں پارلیمنٹ میں اعلان کیا گیا تھا کہ برطانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ ریاستوں کی آزاد حیثیت بحال ہوجائے گی، لیکن حیدرآباد دکن، جودھ پور، جونا گڑھ، بھوپال، بیکانیر اور میسور کے ساتھ جو کچھ ہوا ایک علیحدہ دل خراش داستان ہے۔ اضلاع اور سرحد کی تقسیم میں ناانصافیوں کے ساتھ قتل و غارت گری، دھمکیوں اور دباؤ کے شرم ناک اور اوچھے ہتھکنڈے اسی ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کی ملی بھگت کا نتیجہ تھے۔

    3 جون 1947ء ہندوستان کی تاریخ میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اس تاریخ ساز موقع پر ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی دنیا میں ایک نئی اسلامی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تھا جسے پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس سے پہلے ہندوستان کا مسئلہ آئینی طریقے سے حل کرنے کے لیے حکومت ہند نے جتنی بھی کوششیں کی تھیں، وہ ناکام ہوگئی تھیں۔ اس دن طے پایا تھا کہ ہندوستان کو ہندو اکثریت اور مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بانٹ دیا جائے گا مگر ماؤنٹ بیٹن کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا اور کھلی سازش اور زبردستی سے کئی علاقے بھارت کو دے دیے گئے جنھیں پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا۔

    ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر کون سا علاقہ ہندوستان میں اور کون سا پاکستان میں شامل ہو گا، یہ طے کرنے کا کام برطانوی وکیل ریڈ کلف کا تھا اور وہ تقسیم کی لیکر کھینچ بھی چکے تھے، لیکن وائسرائے کی جانب سے بلاوا آیا اور ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے بعد راتوں رات فیروز پور جیسے متعدد علاقے جو اصولی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ تھے، ہندوستان کو دے دیے گئے۔

    14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر آزاد مسلم ریاست ضرور ابھری، لیکن اس وقت تک چالاک اور جانب دار ماؤنٹ بیٹن اپنے سازشی فیصلوں کی وجہ سے ہزاروں زندگیوں کو مشکل میں ڈال چکا تھا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔