Tag: جنگ وطن

  • تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ‌ پاکستان: علمائے کرام جو قائدِ اعظم کا دست و بازو بنے

    تحریکِ پاکستان کو کام یابی سے ہم کنار کرنے میں مشائخِ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ برِّصغیر کے علما اور مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخِ عظام نے قائدِاعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا اور ان کی کوششوں اور ان کے حقیقی کردار کی بدولت ہندوستان کے بطن سے ایک آزاد اور اسلامی ریاست نے جنم لیا۔

    مفکّرِ پاکستان، شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے جس آزاد اسلامی اور فلاحی ریاست کا خواب دیکھا تھا، اسے شرمندہ تعبیر کرنے کا سہرا بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناحؒ کے سَر ہے۔

    تحریکِ پاکستان میں لاکھوں مسلمانوں نے بے شمار اور ناقابلِ فراموش قربانیاں پیش کیں اور اس تحریک میں علمائے کرام کی خدمات بھی سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ یہ علما اور صوفی بانیِ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے دست و بازو تھے۔ یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والے چند علمائے کرام کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    پیر جماعت علی شاہ: آپ نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا اور قائداعظم محمد علی جناح سے رابطہ و مشاورت میں پیش پیش رہے۔ آپ مسلم لیگ اور قائدِاعظمؒ پر مکمل اعتماد کا اعلان کرتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے میں ہر طرح سے ممد و معاون ثابت ہوئے۔ وائسرائے ہند کے نام تار میں آپ نے فرمایا ’’مسلم لیگ‘‘ مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت ہے اور قائدِاعظم محمد علی جناح اسلامیانِ ہند کے واحد لیڈر ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کے مسلم ارکان کی نام زدگی مسلم لیگ اور قائدِاعظم کا کام ہے۔ طول و عرضِ ہندوستان میں میرے لاکھوں مرید مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔

    مولانا عبدالحق بدایونی: تحریک پاکستان کے ہراول دستے میں شامل مولانا صاحب نے لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تاریخ ساز اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کی بھرپور تائید کی اور اپنے رفقا سمیت قراردادِ پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا۔ برطانوی ہند میں انتخابات کے موقع پر آپ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ نے یو پی، بہار،اڑیسہ، بنگال، آسام، بمبئی، سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے دور افتادہ علاقے میں جا کر مسلمانوں کو مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں قائداعظم نے مسلم لیگ کے جس وفد کو بھیجا تھا اس میں مولانا بدایونی شامل تھے۔

    شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی: تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے والوں میں ایک نام شاہ صاحب کا بھی ہے جنھوں نے قائدِاعظم سے کئی ملاقاتیں کیں جس میں اسلامیانِ ہند کے لیے الگ ریاست اور مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے دنیا بھر میں اہم شخصیات اور بالخصوص مسلمانوں کی اس حوالے سے تائید اور حمایت حاصل کرنے کے لیے کوششوں پر مفید بات چیت ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ قائداعظم کے کہنے پر آپ نے اپنے بیرونِ ممالک اپنے دوروں میں عالمی راہ نماؤں کو پاکستان کے قیام کی کوششوں کی ضرورت اور اس کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا۔

    علّامہ سید احمد سعید کاظمی: ہندوستان کے علما میں ایک نام کاظمی صاحب کا ہے جنھوں نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس جس میں لاکھوں لوگ اور ہزاروں علمائے کرام شریک ہوئے تھے، اپنی شرکت یقینی بنائی اور کانفرنس میں تشریف لائے جس سے اس وقت ہند بھر میں ان کے ماننے والوں تک بھی تحریکِ پاکستان کا مقصد پہنچا اور اسے تقویت ملی۔ 27 اپریل 1946ء کو منعقدہ آل انڈیا سنی کانفرنس کو جدوجہدِ آزادی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

    مجاہدِ ملّت مولانا عبدالستار خان نیازی: مولانا نیازی نے علامہ محمد اقبال کے حکم پر ’’مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن‘‘ کی بنیاد رکھی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تحریک پاکستان کے لیے بہت کام کیا۔ آپ کی بانی پاکستان کے ساتھ خط و کتابت اور ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ قائدِاعظم نے آپ کے لیے فرمایا ’’جس قوم کے پاس نیازی جیسے نوجوان ہوں، اسے پاکستان بنانے سے کون روک سکتا ہے۔‘‘

    ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کے قافلے میں یوں تو مجاہدوں، قائداعظم کے جاں نثاروں، مسلم لیگ کے متوالوں اور آزادی کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والوں کی قربانیوں، شبانہ روز محنت، کاوشوں اور ان کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

    ہم نے یہاں فقط چند نام تحریر کیے ہیں جن کے کردار اور کارناموں کی تفصیل کئی ابواب کی متقاضی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس وقت ہر قسم کی مسلکی تفریق اور تمام تر اختلافات کو ایک طرف رکھ کر تمام مکاتبِ فکر کے علمائے کرام نے پاکستان کے قیام کو ایک مذہبی فریضہ قرار دیا اور قائدِ اعظم کی قیادت اور ان کی ہدایت پر علمائے کرام ملک کے طول و عرض میں اپنے ارادت مندوں کو تحریکِ پاکستان کی کام یابی کے لیے اکٹھا کرنے کے لیے پھیل گئے۔

    پیر جماعت علی شاہ، مولانا ابو الحسنات و دیگر، مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے رفقا، مولانا شفیع دیو بندی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا ظفراحمد عثمانی نے اپنے مکتبِ فکر کی قیادت کی، ان علمائے کرام نے عبادت گاہوں، خانقاہوں اور جلسے، جلوس کے دوران اور عام لوگوں سے ملاقاتیں کرکے ان میں آزادی کی اہمیت اجاگر کی جس نے تحریک کو کام یابی سے ہم کنار کیا۔

  • بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    بہادر یار جنگ: اقبال اور قائدِ اعظم کے شیدائی، مسلم لیگ کے عظیم مجاہد کا تذکرہ

    جب قائدِ اعظم نے انگلستان سے لوٹ آنے اور مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کی ذمے داری سنبھالنے کا فیصلہ کیا تو چند سر بَر آوردہ کارکن ان کی قیادت میں کام کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہوگئے۔ ان کارکنوں میں نواب بہادر یار جنگ ایک نمایاں حیثیت کے حامل تھے۔

    یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگاکہ نواب صاحب کی اندوہ ناک اور ناوقت موت تک وہ قائدِاعظم کے معتمد اور دستِ راست رہے۔ بہادر یار جنگ نے اپنے قائد کا اعتماد حاصل کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا تھا۔ مسلم عوام کو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع کرنے کی خاطر انھوں نے سارے ہندوستان کے دورے کیے اور اپنی بے مثال خطابت سے مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت بنانے کے سلسلے میں غیر معمولی خدمات انجام دیں۔

    بہادر یار جنگ بجا طورپر ان عظیم مجاہدین میں شمار کیے جا سکتے ہیں جنھوں نے قائدِاعظم کی قیادت میں حصولِ پاکستان کی جنگ لڑی۔

    محمد بہادر خان فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کی ولادت کے چند دن بعد ہی ان کی والدہ وفات پاگئیں۔ بہادر خان کی نانی نے جو ایک نہایت سمجھ دار اور مذہبی خاتون تھیں ان کی پرورش کی۔ اٹھارہ سال کے ہوئے تو والد کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔ والد کے انتقال کے وقت جاگیر قرضوں کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ نواب صاحب نے غیر معمولی تدبّر اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تھوڑی سی مدّت میں قرضوں سے نجات حاصل کرلی۔

    جاگیر کے حالات سنبھل گئے تو نواب صاحب نے حج بیتُ اﷲ کا عزم کیا۔ حج سے فارغ ہوکر مسلم ممالک کی سیاحت کی، سیّاحت سے واپسی کے بعد خاکسار تحریک سے وابستگی اختیار کرلی اور ساتھ ہی ریاست کی ایک سیاسی و مذہبی تنظیم مجلسِ اتحادُ المسلمین میں بھی شامل ہوگئے۔

    1944ء میں وہ خاکسار تحریک سے علیحدہ ہوگئے اور اپنی ساری توجہ مجلسِ اتحادُ المسلمین کی طرف مرکوز کردی۔ انھوں نے مجلس میں ایک رضاکار تنظیم قائم کی۔ بہادر یار جنگ کی قائدانہ صلاحیتوں نے مسلمانانِ حیدر آباد(دکن) میں ایک نیا قومی جذبہ پیدا کردیا۔

    بہادر یار جنگ بڑی ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ وہ بڑے ہی مذہبی اور معاملات میں انتہائی صداقت پسند اور کھرے انسان تھے۔ جس بات کو حق سمجھتے اس کو کہتے اور کر گزرنے میں کسی قسم کی پروا نہ کرتے، وہ دامے، درمے، سخنے ہر ایک کی مدد کے لیے ہر وقت مستعد رہتے۔ قدرت نے بہادر یار جنگ کو ماحول کی پیداوار نہیں بلکہ ماحول کا مصلح بنایا۔ بچپن ہی سے وہ اسلامی جذبے سے سرشار تھے۔ مسلمانوں کی خدمت ان کا نصبُ العین تھا۔ ملّت کی تنظیم ان کا مدعا تھا اور قومی اتحاد ان کا مطمحِ نظر تھا۔ اسی کے پیشِ نظر انھوں نے نوجوانی کے عالم میں میلاد کی محفلوں میں تقریریں شروع کیں۔ مساجد میں وعظ اور جلسوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دور میں علامہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہوئے۔

    علامہ اقبال کے جذبہ اسلامی کے وہ بڑے پرستار تھے۔ ان کے کلام اور اشعار بر محل پڑھتے تھے۔ اس لگاؤ نے انھیں اس بات پر آمادہ کیا کہ درسِ اقبالؒ کی محفلیں باقاعدہ منعقد کریں۔ چنانچہ وہ اپنے مکان بیتُ الّامت میں درسِ اقبال کی محفلیں منعقد کرتے تھے جس میں اقبال شناس شخصیتیں موجود ہوتی تھیں۔

    ایک طرف بہادر یار جنگ درسِ اقبال دیا کرتے تھے تو دوسری طرف درسِ قرآن۔ وہ جس طرح اقبال سے متاثر تھے اسی طرح مولانا رومیؒ کے زیر اثر بھی تھے۔ وہ علامہ اقبال ؒ اور مولانا رومیؒ کے تو مرید تھے۔

    بہادر یار جنگ میں دو خصوصیات بہت نمایاں تھیں۔ ان ہی خصوصیات نے انھیں اس مقام پر پہنچایا جو بہت سوں کے لیے باعثِ رشک تھا۔ ایک خصوصیت ان کا بے پناہ خلوص تھا، سیاست ان کے لیے پیشہ ہرگز نہ تھی اور نہ وہ اس کو اپنا ذریعہ بنانا چاہتے تھے۔

    مسلمانوں کے سیاسی عروج اور ان کے اتحاد کے لیے وہ پورے خلوص کے ساتھ زندگی بھر کام کرتے رہے۔ اگر دولت جاہ و منصب ان کی راہ میں رکاوٹ بنتے تو وہ بڑی خوشی کے ساتھ اور بغیر کسی تامل کے انھیں ٹھکرا دیتے اپنی ساری زندگی اور ساری توانائی انھوں نے بڑی ایمان داری اور جرأت کے ساتھ مسلم سیاست پر صرف کر دی۔ ان کا یہی نصبُ العین تھا اور یہی ان کی جد وجہد کی غرض وغایت۔ اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے وہ بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے تھے۔

    سیاست میں ان کا ہیرو قائدِ اعظم تھے جن کی زندگی سے انھوں نے عزم و ثبات کا سبق سیکھا تھا۔ ان میں قائدِاعظم کی سی اصول پرستی تھی اور وہی بے باکی اور صاف گوئی۔ وہ نڈر اور جری تھے۔ مجاہد کی طرح ہر محاذ پر ڈٹ جاتے اور غازی کی طرح کام یاب اور کام ران رہتے۔

    دوسری خصوصیت ان کی خطابت تھی۔ قدرت نے انھیں یہ نعمت بطورِ خاص عطا کی تھی اور اس کا استعمال بھی انھوں نے ہر موقع اور ہر محل پر صحیح کیا۔ بغیر کسی تیاری کے وہ ہر موضوع پر بے تکان بولتے تھے۔ الفاظ کا انتخاب، فقروں کی بندش اظہار خیال کی ندرت اور آواز کا اتار چڑھاؤ اس قدر متوازن ہوتا کہ مجموعی طورپر ان کی ہر تقریر ایک شہ پارہ ہوتی تھی۔ ہر تقریر سننے والوں کو پچھلی تقریر سے بہتر معلوم ہوتی ۔ اور وہ اس ذوق وشوق سے سنتے جیسے کہ کوئی نغمہ ہو۔ میلاد کی محفل ہو، کالج کی انجمن ہو یا سیاسی تحریک ہر جگہ ان کا طوطی بولتا نظر آتا تھا۔

    انھوں نے تحریکِ پاکستان کو فروغ دینے میں جس خلوص و تن دِہی سے حصہ لیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ اسلام کے بڑے شیدائی تھے۔ ان کی دلی تمنّا تھی کہ ایک ایسی مملکت برصغیر کے اندر بنائی جائے جہاں اسلامی آئین و قوانین نافذ ہوں۔ ایسی سلطنت کے قیام کا منصوبہ دیکھ کر انھوں نے غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔

    ’’میرے خیال میں پاکستان کے لیے ہر قسم کی سعی و کوشش حرام اگر پاکستان سے الٰہی اور قرآنی حکومت مراد نہیں جس میں قانون سازی کا بنیادی حق صرف خدائے قدوس کو حاصل ہو، ہمارے بنائے ہوئے قوانین اس کی توصیح و تشریح کریں۔‘‘ وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی اعلیٰ شخصیت، بے مثال خطابت کی یاد آج بھی ہمارے ذہنوں میں تازہ ہے۔

    بلا شبہ ان کی زندگی میں ہمارے لیے ایک ایسا قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے جسے بلا مبالغہ اقبالؒ کے مردِ مومن سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

    (پروفیسر خواجہ قطب الدّین نے چند سال قبل یہ مضمون بہادر یار جنگ کی برسی کے موقع پر سپردِ قلم کیا تھا)

  • تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کا کردار

    تحریکِ پاکستان کے حوالے سے اگر شاعروں اور ادیبوں کے کردار پر گفتگو کی جائے تو یہ کوئی آسان موضوع نہیں۔

    یہ موضوع تفصیل چاہتا ہے اور پھر ان تمام ناموں کا احاطہ کرنا بھی ناممکن جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے خونِ جگر سے حرف کی کھیتی سینچتے رہے اور لفظوں میں جان ڈال کر اس تحریک کو پاکستان نامی ملک پر منتج کیا۔ کیوں کہ 1857ء کی جنگِ آزادی کی ابتدا کے فوراً بعد ہی قیامِ پاکستان کی جدو جہد کا آغاز ہوچکا تھا اور اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں لیکن یہ اردو اور صرف اردو کی ہمہ گیریت اور مقبولیت ہی تھی جس نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔

    اس پورے تاریخ ساز عہد پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی بھی شخص یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گا کہ علّامہ اقبال ہی دراصل مفکرَ پاکستان کہلانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ علّامہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں مسلمانوں کی حالتِ زار کو بدلنے کے لیے ہمارے قومی رہنما اپنے اپنے طور پر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لارہے تھے۔

    مولانا الطاف حسین حالی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی ہوں یا سرسیّد احمد خاں سبھی ایک رخ ہوکر سوچ رہے تھے کہ مسلمانوں کو غلامی کے طوق سے کس طرح نکالیں، لیکن ان سب زعما میں سب سے زیادہ کلیدی کردار علّامہ کی فکرِ حریّت نے ادا کیا ہے۔ انھوں نے کہا:

    دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
    کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
    تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
    جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا

    علّامہ اقبال نے اگر ایک طرف اپنے اذکار سے لبریز شاعری کے ذریعے ملّتِ اسلامیہ کے قافلوں میں اتحاد و یگانگی کی نئی روح پھونکی تو دوسری جانب غیر منقسم ہندوستان کے گوشے گوشے میں گھوم گھوم کر تاریخی جلسوں کے تناظر میں دلوں کو تڑ پانے اور گرمانے کا جتن کیا۔

    جب ہم تحریکِ پاکستان کے اُس زمانے پر مرحلہ وار نظر ڈالتے ہیں تو کئی ایسے مراحل بھی سامنے آتے ہیں جہاں قائدِاعظم سے انتہائی عقیدت نے ہر چھوٹے بڑے شاعر سے ایسے نعرے لکھوائے یا ایسی نظمیں کہلوائیں جو بعد میں تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ نعروں میں ایک ایسا ہی نعرہ ’’لے کے رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔‘‘

    یہاں یہ کہنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ کے اُن ابواب کو ٹٹولیں اور اُن پر سے زمانے کی گرد کو صاف کریں تو شاید زنجیر کی کئی انمول ٹوٹی کڑیاں ہمیں مل جائیں اور تحریکِ پاکستان اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہمیں نظر آجائے۔

    خوش قسمتی سے مولانا حسرت موہانی جیسی با اصول، کھری اور ادبی شخصیت پر ہماری تاریخ خاموش نہیں ہے۔ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں جس قدر سادہ اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے، اُسی قدر سیاسی طور پر بھی وہ بلند و بالا اور سب سے الگ تھلگ نظر آتے تھے۔

    تحریکِ پاکستان میں ایسی پیاری و ہر دل عزیز شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی۔ وہ اگرچہ 1904ء میں کانگریس میں شامل ہوئے، لیکن جلد ہی بال گنگادھر تلک کی انتہا پسندی نے انھیں کانگریس چھوڑنے پر مجبور کر دیا جس کے بعد علی گڑھ سے ہی ایک ماہنامہ ’’اردوئے معلّٰی‘‘ شائع کیا۔ انھیں اپنے اصولوں سے انتہائی عشق تھا۔ ان کا پہلا امتحان اُس وقت ہوا جب ایک مصری اخبار میں عربی میں شائع شدہ مضمون کو انھوں نے اردو میں ترجمہ کرکے اپنے اخبار میں شائع کردیا۔

    یہ مضمون دراصل مصر میں قائم برطانوی حکومت کے خلاف تھا۔ انگریزی حکومت نے ان سے اس مضمون کے مصنّف کا نام دریافت کیا تو انھوں نے بتانے سے صاف انکار کردیا جس کے نتیجے میں انھیں دو سال قیدِ بامشقت اور جرمانے کی سزا دی گئی۔ ٕ

    یوں تو مولانا حسرتؔ موہانی کو اُن کی غزلیہ شاعری کی بدولت اُن کی حیات میں ہی ’’رئیس المتغزّلین‘‘ کا لقب دیا جاچکا تھا، لیکن ان کی شاعری نے اس عہد کی تحریک میں اس جادو کا کام دکھایا جو بڑی بڑی تقریریں کر نہ پائیں۔

    سرسیّد احمد خاں نے اسی عہد میں ایک اخبار’’ تہذیبُ الا خلاق‘‘ بھی شائع کیا جس نے مسلم گھرانوں میں بیداری اور کردار سازی کا کام انجام دیا۔ اس مختصر سی تحریر میں، اگر نواب بہادر یار جنگ کا ذکر نہ کروں تو یہ ادھوری لکھت بھی مزید نامکمل رہ جائے گی۔ اپنی علمی استعداد اور شعلہ بیانی کی صلاحیت کے پس منظر میں نواب صاحب بہت جلد ہی قائد اعظم کے دستِ راست بن گئے اور اکثر مقامات پر انھوں نے قائدِاعظم کی انگریزی تقریروں کا فی البدیہہ اردو ترجمہ عوام کی داد و تحسین کے شور میں پیش کیا۔ ان کے اصل نام محمد بہادر خان کے ساتھ نظامِ دکن کا دیا ہوا خطاب ’’بہادر یار جنگ‘‘ دراصل اس تاریخی تقریر کا نتیجہ ہے جو انھوں نے سیرت کے ایک جلسے میں فتح میدان میں کی تھی۔ وہ بنیادی طورپر ایک شاعر تھے اور اردو ادب سے ان کا لگائو قدرتی تھا۔ بہرحال بات ہورہی تھی ان کی تقریری صلاحیت کی جو اس دور میں مقبولیت حاصل کرسکی جس دور میں مولانا محمد علی جوہر، سید عطا اللہ بخاری، ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر نذیر احمد جیسی نابغہِ روز گار ہستیوں کا طوطی بول رہا تھا۔

    میں اپنی تجزیہ کو محدود وقت کے پیشِ نظر یہیں ختم کرتا ہوں، ورنہ تحریکِ پاکستان کی جدوجہد میں شریک ہونے والوں میں مولانا آزاد سبحانی، عبدالباری فرنگی محلی اور ظفر علی خان جیسے ادیبوں کی ایک طویل فہرست بھی ہنوز تشنہِ تحریر ہے۔

    (غالب عرفان کے طویل مضمون سے اقتباسات)

  • تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    تحریکِ پاکستان: کانگریس کی سیاست اور نہرو رپورٹ نے قائدِاعظم کو راستہ بدلنے پر مجبور کیا

    انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سی سیاسی و علمی تحاریک سامنے آئیں جنھوں نے ہندوستان میں بھی سیاست و سماج اور علم و ادب کے میدان میں نئے رجحانات اور تبدیلیوں کو جنم دیا۔

    انگلستان جو اس وقت بڑا علمی مرکز تھا، اس کی لبرل تحریک نے تقریباً تمام دنیا، خاص طور پر نوآبادیات میں اشرافیہ کو ضرور متاثر کیا تھا۔ برطانوی ہند( برٹش انڈیا) کے لوگ بالخصوص جب مغرب سے تعلیم حاصل کرکے واپس اپنے وطن آتے تو بہت سے نئے رجحان اور افکار بھی یہاں ان کے ذریعے پہنچتے تھے۔

    انڈین نیشنل کانگریس بھی انہی لبرل تصورات کی بنیاد پر سیاسی شعور کی مظہر ایک جماعت تھی۔ اس کی بنیاد ایک ریٹائرڈ برطانوی افسر اے او ہیوم نے 1885ء میں رکھی تھی۔ اس کی قومی وضع، انفرادی آزادی کے تصوّرات اور ہندوستان کے لیے اس پلیٹ فارم تلے جمع ہوکر کام کرنے کے عزم نے اشرافیہ اور مختلف گروہوں کے تعلیم یافتہ، باشعور اور ممتاز ہندوستانیوں کو اس میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا۔

    مغرب سے تعلیم یافتہ اور جدید و لبرل تصوّرات کے حامل محمد علی جناح نے بھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے معتمدین بدرالدین طیّب جی، دادا بھائی نارو جی، سر فیروز شاہ مہتا اور گوپال کرشنا گوکھلے کے بہت قریب تھے۔

    ہندوستان کے مسلمانوں کو انڈین نیشنل کانگریس پر کچھ تحفظات تھے اور وہ بہت کم اِس میں شامل ہوئے اور بعد میں جب تقسیمِ بنگال کا مسئلہ اٹھا تو انڈین نیشنل کانگریس نے ایسا سخت اور مسلم مخالف رویہ اپنایا کہ اس سے ایک ہندو نظریات کی پرچارک جماعت کا تاثر قائم ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم اشرافیہ اپنی ہندوستانی سیاست کے مستقبل پر الجھی ہوئی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی کوششیں بے سود نظر آرہی تھیں۔ دوسری جانب سیاسی میدان میں مسلمانوں کو اپنی نمائندگی اور حقوق پورے ہونے کی بھی فکر تھی اور لگتا تھاکہ ہندو انھیں‌ پیچھے رکھنا چاہتے ہیں، تب 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ۔

    ادھر محمد علی جناح مسلم لیگ کے قیام کے فوراً بعد اس میں شامل نہ ہوئے۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس سے بددل تو ہورہے تھے، لیکن اسے ایک بڑی اور ایسی پارٹی سمجھتے تھے جو برٹش انڈیا کی تمام جماعتوں کی نمائندہ تھی۔ لیکن جلد ہی انھیں احساس ہوگیا کہ مسلمانوں کے حقوق کے لیے کانگریس کے پلیٹ فارم سے نہیں لڑا جاسکتا اور انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد اس کی قیادت سنبھالی۔

    محمد علی جناح نے دیکھا کہ انڈین نیشنل کانگریس کے افکار و نظریات پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شخصیت اور سیاسی خیالات کا اثر گہرا ہورہا ہے انھوں نے 1920ء میں کانگریس کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ محمد علی جناح ایک قوم پرست ہندوستانی تھے اور کانگریس کو بلاامتیازِ رنگ و نسل اور مذہب عوام کی نمائندہ اور حقیقی جماعت سمجھتے تھے، لیکن متعصب اور انتہا پسند ہندو قائدین کے طرزِعمل اور پارٹی کے بعض فیصلوں نے ان کے خیالات تبدیل کردیے تھے۔

    ادھر مسلمانوں کی قیادت نے قائداعظم کو اس بات پر قائل اور آمادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی تھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی بقا اور حقوق کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب وہ مسلم لیگ جیسی جماعت کے جھنڈے تلے جمع ہوں اور بعد میں‌ ثابت ہوا کہ زعمائے وقت کا کہنا ٹھیک تھا۔ وہ وقت بھی آیا جب محمد علی جناح نے ’’گاندھی زدہ‘‘ کانگریس چھوڑ کر اس عظیم جدوجہد اور تحریک کے قائد بنے جس نے پاکستان کا خواب پورا کیا۔

    قائدِ اعظم نے جو کانگریس چھوڑی اس کی تنظیم اس منشور اور مقصد سے بالکل مختلف تھی جس کے لیے انھوں نے اس جماعت میں‌ شمولیت اختیار کی تھی۔

    1910ء کے عشرے میں قائدِ اعظم انڈین نیشنل کانگریس کی ایک معروف شخصیت تھے۔ 1908ء سے 1920ء تک وہ باقاعدگی سے انڈین نیشنل کانگریس کمیٹی کے رکن منتخب ہوتے رہے۔ انھوں نے کانگریس کے مختلف اجلاسوں میں کئی اہم قرادادیں پیش کیں یا ان کی تائید کی اور کانگریس کو کئی سال تک باقاعدگی سے ماہانہ فنڈ دیتے رہے۔

    کانگریس کو چھوڑ کر مسلم لیگ کو فعال کرنے والے محمد علی جناح نے 1929ء کی نہرو رپورٹ کے بعد اپنی سیاست کا رُخ مکمل طور پر مسلم قوم پرستی کی طرف موڑ لیا، وہ برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے واحد اور متفقہ قائد کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور ان کی سیاسی بصیرت نے مسلمانوں کی جدوجہد کو اگست 1947ء میں قیامِ پاکستان کی صورت میں منزل تک پہنچایا۔

  • چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    چند قومی یادگاریں جو تحریکِ‌ آزادی کا نقشِ جاوداں ہیں!

    ہندوستان کے مسلمانوں کی لازوال جدوجہد اور تحریکِ پاکستان کے لیے دی گئی بے شمار قربانیوں کی بدولت اس سال ہم 74 واں جشنِ آزادی منائیں گے جس کے لیے تیّاریاں جاری ہیں۔

    14 اگست قریب ہے اور ہر سال کی طرح قومی پرچم اور بانی پاکستان و تحریکِ‌ آزادی کے مجاہدین کی تصاویر سے سرکاری و نجی اداروں کی بلند بالا عمارتیں، گھر اور شہروں کے مرکزی چوراہے اور نمایاں مقامات سجے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات علامت ہے کہ ہم زندہ قوموں کی طرح جہاں اپنی تہذ یب و ثقافت، معاشرت اور اقدار کے امین ہیں، یہ اس امر کا اظہار بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو یاد رکھیں گے۔

    یہاں ہم جدوجہدِ آزادی کی عظیم شخصیات اور تحریکِ پاکستان سے متعلق چند قومی یادگاروں کے بارے میں بتارہے ہیں جو آزادی کے ہیروز کی یاد ہی تازہ نہیں‌ کرتیں بلکہ فنِ معماری اور اپنے طرزِ تعمیر کی انفرادیت کے ساتھ انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک کاوش ہیں۔ ان میں مزارِ قائد، مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان اور پاکستان مونومنٹ شامل ہیں۔

    مزارِ قائد
    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا مقبرہ معروف آرکیٹیکٹ یحیٰ مرچنٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس سے قبل چار نقشے رد کر دیے گئے تھے اور1959ء میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کی خواہش پر یحییٰ مرچنٹ نے یہ کام انجام دیا تھا۔

    یحییٰ مرچنٹ نے مزار کے ڈیزائن کا بنیادی کام 28 جنوری 1960ء کو مکمل کیا۔ تعمیر کا آغاز فروری 1960ء میں ہوا تھا۔ 31 جولائی 1960ء کو اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مزار کا سنگِ بنیاد رکھا تھا- 31 مئی 1966ء میں مزار کا بنیادی ڈھانچہ مکمل کرلیا گیا۔

    قائد اعظم کی آخری آرام گاہ پر مقبرہ تعمیر کرتے ہوئے اس عمارت کے ڈھانچے کو پائیلنگ (جس میں عمارت کے وزن کو زیرِ زمین بنائے گئے کنکریٹ کے ستونوں پر استوار کیا جاتا ہے) پر کھڑا کیا گیا ہے جو ہر قسم کے موسموں کا سامنا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مزار کی مرکزی عمارت بنیاد سے مربع شکل میں ہے جو کہ اندرونی طرف سے مثمن یعنی ہشت پہلو بنائی گئی ہے۔

    اس مزار کے احاطے میں بانی پاکستان کے سیاسی اور آزادی کے سفر میں شریک رفقا کی قبور بھی ہیں۔ ایک طرف لیاقت علی خان اور دوسری قبر سردار عبد الرّب نشتر اور تیسری قبر محترمہ فاطمہ جناح کی ہے۔

    مزارِ اقبال
    ہندوستان میں مسلمانوں کی عظیم ریاست حیدر آباد دکن کے مشہور اور ماہر معمار صاحبزادہ نواب زین یار جنگ بہادر نے شاعرِ‌ مشرق کے مزار کا ڈیزائن تیّار کیا تھا۔

    اس مزار کی تعمیر کا کام بوجوہ چند سال تاخیر سے شروع ہوا اور ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس وقت کی انتظامیہ سے 1946ء میں مزار کی تعمیر کی اجازت حاصل کی۔ اس کی تکمیل 1950ء میں ہوئی۔ نواب زین یار جنگ کو حیدر آباد سے لاہور بلوایا گیا اور انھوں نے علّامہ کی قبر اور محلِ وقوع کا جائزہ لینے کے بعد مزار کا ڈیزائن پیش کیا جس کی منظوری کے بعد چند سال میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔

    مینارِ پاکستان
    مینارِ پاکستان ایک قومی یادگار ہے۔ یہ عین اس جگہ واقع ہے جہاں 23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے قراردادِ پاکستان منظور کی تھی اور اس کے بعد مسلمانانِ برِصغیر کے لیے آزاد و خود مختار ریاست کے قیام کی جدوجہد شروع ہوئی تھی۔

    اس قومی یادگار کے معمار و مصوّر روسی نژاد پاکستانی نصیر الدّین مرات خان تھے۔

    مینارِ پاکستان کا سنگِ بنیاد 23 مارچ 1960ء کو رکھا گیا اور یہ تقریبا 8 سال کے عرصہ میں 21 اکتوبر 1968ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس یادگار کے ساتھ ایک وسیع و عریض باغ یا سبزہ زار کے لیے بھی جگہ مخصوص کی گئی تھی۔

    پاکستان مونومنٹ
    پاکستان کے دارُالحکومت اسلام آباد کے مشہور مقام شکرپڑیاں کا مونومنٹ یا یادگارِ پاکستان اُس عظیم جدوجہد اور تحریک کے لیے اپنی جان و مال اور ہر قسم کی قربانیاں دینے والوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جن کی بدولت ہم ایک آزاد وطن کی فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

    اسلام آباد میں پہاڑیوں پر بنائی گئی یہ یادگار پاکستانی عوام کے اتّحاد کی علامت بھی ہے۔ اسے آرکیٹیکٹ عارف مسعود نے ڈیزائن کیا تھا۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا اور یہ کام 2004ء میں شروع ہوا اور 23 مارچ 2007 ء میں مکمل کیا گیا۔

  • آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    آزادی اور تحریکِ پاکستان کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردینے والی خواتین

    تحریکِ پاکستان میں مردوں کے شانہ بہ شانہ مسلمان خواتین نے بھی ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا اور قربانیاں دیں جن کے تذکرے کے بغیر جدوجہِدِ آزادی کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی۔

    ان میں مسلم اکابرین اور زعما کے گھرانوں کی خواتین اور ہندوستان کے کونے کونے میں بسنے والی عام عورتیں شامل ہیں جنھوں نے جلسے جلوس، احتجاجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور آزادی کی تحریک کے لیے گرفتاریاں دیں اور اپنے جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔

    ہندوستان کی تاریخ کی عظیم تحریک جس کے اختتام پر ہم نے پاکستان حاصل کیا، محترمہ فاطمہ جناح، امجدی بانو بیگم، سلمیٰ تصدق حسین، بی اماں، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بیگم گیتی آراء، بیگم جہاں آرا شاہنواز اور بے شمار خواتین کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے۔

    ان خواتین کا لازوال کردار، عظمت و حوصلہ اور مسلمانوں کے لیےعلیحدہ ریاست حاصل کرنے کا جذبہ مردوں سے کسی طور کم نہ تھا، بلکہ ان میں سے اکثر ایسی خواتین تھیں جنھوں نے تحریکی ذمہ داریاں اور کام انجام دینے کے ساتھ اپنی گھریلو ذمہ داریاں بھی پوری کیں اور اپنے قول و عمل سے آزادی کے سفر اور تحریکِ پاکستان میں ایک نئی روح پھونک دی۔

    یہاں ہم تحریکِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی چند خواتین کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ علی جناح
    تحریکِ پاکستان میں اگر خواتین کے نمایاں اور فعال کردار کی بات کی جائے تو جہاں اپنے بھائی اور بانی پاکستان محمد علی جناح کی طرح مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے خود ایک سیاسی مدبّر اور قائد کی حیثیت سے صفِ اوّل میں مرد راہ نماؤں کے ساتھ نظر آئیں، وہیں ان کا ایک بڑا کارنامہ ہندوستان میں خواتین میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور بڑی تعداد کو مسلم لیگ کے پرچم تلے اکٹھا کرنا تھا۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی بے لوث اور انتھک جدوجہد ایک مثال ہے جس نے انھیں برصغیر کی تاریخ میں ممتاز کیا۔

    محترمہ فاطمہ علی جناح پیشے کے اعتبار سے دندان ساز تھیں جو برصغیر کے طول و عرض میں خواتین میں علیحدہ مسلم ریاست سے متعلق شعور بیدار کرنے اور مسلمانوں کو منظّم و متحرک کرنے کے لیے دن رات میدان عمل میں رہیں۔ تحریکِ پاکستان کے لیے ان کی خدمات ایک سنہرا اور روشن باب ہیں۔

    بی امّاں
    اس عظیم خاتون کا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا جنھوں نے اپنے عزیز از جان بیٹوں کو اسلام کا پرچم سربلند رکھنے اور آزادی کی خاطر گردن کٹوا لینے کا درس دیا اور خود بھی جدوجہدِ‌ آزادی کے حوالے سے میدانِ‌ عمل میں متحرک اور فعال رہیں۔ بی امّاں نے گھر گھر جاکر عورتوں میں سیاسی شعور اور انگریزوں سے آزادی کی جوت جگائی اور انھیں‌ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ و خبردار کیا۔

    بی امّاں کا اصل نام آبادی بانو تھا۔ وہ عظیم سیاسی راہ نما مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی جوہر کی والدہ تھیں جنھیں دنیا جوہر برادران کے نام سے جانتی ہے۔ مسلمانوں کی امارت اور خلافت کے یہ متوالے جیل کی قید اور صعوبتیں جھیلتے تو بی امّاں کی تلقین اور ان کا حکم یاد کرتے کہ بیٹا خلافت کے لیے جان دے دینا اور آزادی کا خواب دیکھنا مت ترک کرنا، چاہے گردن ہی تن سے جدا کیوں نہ کردی جائے۔

    تحریکِ پاکستان کے لیے ناقابل فراموش کردار ادا کرنے والی بی امّاں تعلیم یافتہ نہ تھیں لیکن ایک آزاد مملکت کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے جلسے جلوس سے لے کر چند کانفرنسوں کی صدارت بھی بخوبی کی۔ انھوں نے خواتین میں جذبہ حرّیت بیدار کرتے ہوئے انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے نمایاں کام کیا۔

    بیگم رعنا لیاقت علی خان
    بیگم رعنا لیاقت علی خان معاشیات کے مضمون میں ڈگری یافتہ تھیں اور انھوں نے تحریکِ پاکستان جناح کمیٹی میں بطور اقتصادی مشیر خدمات سرانجام دیں۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی رفیق حیات تھیں۔

    انھوں نے قرار دادِ پاکستان کے مسودے کی تیاری کے دوران چند کلیدی نکات بتائے تھے۔ انھیں تحریکِ پاکستان کی کارکن اور سندھ کی پہلی خاتون گورنر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

    بیگم جہاں آرا شاہنواز
    آزادی کی جدوجہد کا ایک نمایاں کردار بیگم جہاں آرا شاہنواز ہیں۔ آپ مسلمانوں کی نمائند ہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تجویز کرنے والے عظیم سیاسی راہ نما سر میاں محمد شفیع کی صاحبزادی تھیں۔ بیگم جہاں آرا شاہنواز کو اس جماعت کی پہلی خاتون رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور انھوں نے تینوں گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔

    بیگم زری سرفراز
    بیگم زری سرفراز نہ صرف تحریک پاکستان کی ایک سرگرم کارکن تھیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں‌ خواتین کی فلاح و بہبود اور بہتری کے لیے بھی کوشاں رہیں اور اس حوالے سے بہت کام کیا۔ بیگم زری سرفراز 1940ء کے تاریخ ساز جلسے میں شریک ہوئی تھیں۔ انھوں نے مردان میں مسلم لیگ خواتین کی داغ بیل ڈالی جب کہ 1945ء میں برصغیر کی مسلم لیگی خواتین کی کانفرنس منعقد کروانے کا سہرا بھی آپ ہی کے سَر ہے۔ انھوں نے 1947ء میں سول نافرمانی اور وائسرائے کے پشاور کے دورے کے موقع پر احتجاجی مظاہروں کی قیادت کی تھی۔