Tag: جنگ

  • شمالی کوریا کےحوالے سےکشیدگی بڑھ رہی ہے‘چین

    شمالی کوریا کےحوالے سےکشیدگی بڑھ رہی ہے‘چین

    بیجنگ: چینی وزیرخارجہ کاکہناہےکہ شمالی کوریاکےحوالے سے کشیدگی بڑھ رہی ہے اور کسی بھی وقت لڑائی شروع ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق چینی وزیرخارجہ وانگ یی کاکہناہےکہ شمالی کوریاکے حوالے سے اگرجنگ شروع ہوئی تواس میں جیت کسی کی نہیں ہوسکتی۔

    چینی وزیرخارجہ کاکہناتھاکہ ہم فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے سے اجتناب کریں۔

    وانگ یی کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا کہ جب امریکہ میں شمالی کوریا کےجوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کےحوالے سے تشویش بڑھتی جارہی ہے۔

    شمالی کوریا کی حمایت کرنے والاواحد ملک ہے اور وہ اس بات سے فکرمند ہے کہ اگرجنگ سے شمالی کوریامیں کم جونگ کا اقتدار ختم ہوسکتاہے۔

    چین نےشمالی کوریا سے کوئلے کی درآمد پرپابندی لگادی ہے۔


    امریکہ کا خصوصی بحری بیڑہ شمالی کوریا کی طرف روانہ


    خیال رہےکہ گزشتہ دنوں شمالی کوریا کے میزائل پروگرام پر خدشات میں اضافے کے باعث امریکی فوج نے بحریہ کےاسٹرائیک گروپ کو کوریائی خطے کے جانب پیش رفت کا حکم جاری کیا تھا


    چین نےشمالی کوریاسےکوئلے کی درآمد معطل کردی


    یاد رہےکہ رواں سال فروری میں شمالی کوریا کےمیزائل ٹیسٹ کےبعد چین نےشمالی کوریا سے کوئلے کی درآمد پررواں سال کےآخر تک پابندی لگادی تھی۔


    ٹرمپ کا شمالی کوریا کے خلاف کارروائی کا عندیہ


    واضح رہےکہ رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام پر میزائل حملوں کے بعد شمالی کوریا کے خلاف بھی کارروائی کا عندیہ دے دیاتھا۔

  • پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا کے کھنڈرات میں موسیقی کی گونج

    پالمیرا: شام کے قدیم تاریخی شہر پالمیرا کے کھنڈرات میں محبت بھری موسیقی کی لہریں گونج اٹھیں جب کچھ گلوکاروں نے وہاں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔

    شام سے تعلق رکھنے والے نو عمر گلوکار اینجل دیوب نے مشہور نغمہ ’اے محبت! ہم واپس آرہے ہیں‘ گا کر کھنڈرات میں ایک بار پھر زندگی کی لہر دوڑا دی۔

    syria-2

    یاد رہے کہ گزشتہ برس داعش نے شام کے شہر پالمیرا پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ شہر 2 ہزار قبل مسیح سال قدیم ہے اور یہاں بے شمار تاریخی کھنڈرات موجود تھے جنہیں داعش نے بے دردی سے تباہ کر دیا۔

    مزید پڑھیں: پالمیرا کے کھنڈرات داعش سے قبل اور بعد میں

    دس ماہ تک قبضے کے دوران داعشی جنگجوؤں نے سینکڑوں قدیم عمارتوں کو مسمار اور مجسموں کو توڑ دیا تھا۔ بعد ازاں اتحادی فوجوں نے شہر کو داعش سے تو آزاد کروا لیا، لیکن تب تک شہر اپنا تاریخی ورثہ کھو چکا تھا۔

    شامی گلوکار دیوب اور اس کے ساتھیوں نے پالمیرا میں موجود قدیم تھیٹر کے کھنڈرات میں گلوکاری اور فن موسیقی کا مظاہرہ کیا۔ دیوب اور اس کے ساتھیوں نے عربی آلات موسیقی کی دھن پر محبت کا نغمہ گایا۔

    syria-3

    syria-5

    syria-4

    syria-6

    دیوب کا کہنا ہے، ’میں ہر اس جگہ جاؤں گا جہاں داعش نے تباہی و بربادی کی داستان چھوڑی ہے۔ میں وہاں جا کر محبت کا نغمہ گاؤں گا‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ ہر شخص جنگ سے تباہ حال شام کو اپنے طریقے سے سنوارنا اور پھر سے اس کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ ہم موسیقی کے ذریعے اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔ ’داعش اندھیرا ہے، موسیقی روشنی ہے‘۔

    دیوب اور اس جیسے کئی فنکار جنگ زدہ شام کے تاریخی، فنی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

  • شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    شام کے تباہ ہوتے ثقافتی ورثے کو بچانے کی کوشش میں سرگرداں فنکار

    دمشق: شام کی جنگ نے جہاں لاکھوں افراد کو موت سے ہمکنار کردیا، اور اس سے کہیں زیادہ تعداد کو بے گھر ہو کر دربدر پھرنے پر مجبور کردیا وہیں اس جنگ نے شام کی تاریخ و ثقافت کو بھی بے حد نقصان پہنچایا۔

    شام کے طول و عرض پر پھیلے کئی تاریخی مقامات فضائی و زمینی حملوں کے باعث تباہ و برباد ہوگئے۔ شام میں 6 مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔ اس میں پالمیرا کے کھنڈرات، حلب، اور دمشق وغیرہ شامل ہیں۔

    اپنے ملک کے ایسے تاریخی ورثے کی تباہی کو دیکھنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام سے تعلق رکھنے والے فنکار اس ورثے کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔

    یہ فنکار جنگ کو تو نہیں روک سکتے، تاہم وہ اس گم گشتہ ثقافت کی ایک جھلک کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور محفوط کر سکتے ہیں، اور وہ یہ کام بہت جذبے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

    اردن میں پناہ گزین ایسے ہی کچھ فنکار بھی اپنے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے اکٹھے ہوئے اور انہوں نے شام کے تباہ شدہ تاریخی مقامات کی نقل بنانی شروع کی۔

    8

    2

    اردن کے زاتاری کیپ میں پناہ گزین ان شامیوں نے اپنے پروجیکٹ کو ’آرٹ فرام زاتاری‘ کا نام دیا۔

    اس پروجیکٹ کے تحت انہوں نے شام کے قابل ذکر تاریخی مقامات کی مختصر شبیہیں بنانی شروع کیں۔ ان منی ایچر ماڈلز کو بنانے کے لیے ان فنکاروں نے چکنی مٹی اور سیخوں کا استعمال کیا۔

    6

    5

    4

    3

    ان فنکاروں نے دمشق کی مسجد امیہ، حلب کا قدیم قلعہ، نوریاز نامی کنویں کی قدیم رہٹ، پالمیرا کے کھنڈرات اور سلطان صلاح الدین ایوبی کا مجسمہ تخلیق کیا ہے۔

    ان فنکاروں میں سے ایک محمد حریری کہتے ہیں کہ یہ کام نہ صرف ان کی خوبصورت مگر برباد شدہ ثقافت کو کسی طرح حد تک محفوظ کر رہا ہے بلکہ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں بھی نکھار آرہا ہے۔

    7

    حریری کا کہنا ہے کہ ان کا یہ کام آئندہ آنے والی نسلوں کو بتائے گا کہ جنگ زدہ شام ایک زمانے میں نہایت خوبصورت اور تاریخی ثقافت سے مالا مال تھا۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ سے زائد شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    فرنیچر ساز کمپنی کا اسٹور شامی خانہ جنگی سے تباہ حال گھر میں تبدیل

    کیا ہوگا جب آپ اپنے گھر کی آرائش کے لیے یہ سوچتے ہوئے سامان خریدنے جائیں کہ وہاں کیا کیا نیا دستیاب ہوگا، جس سے آپ اپنے گھر کو نئے انداز سے سجا سکیں گے، لیکن دکان میں داخل ہو کر آپ کو شدید جھٹکا لگے کیونکہ دکان کسی تباہ حال جنگ زدہ مقام کا منظر پیش کر رہی ہو۔

    ایسا ہی کچھ جھٹکا معروف فرنیچر ساز کمپنی اکیا کے گاہکوں کو لگا جب وہ جدید اور خوبصورت انداز کا فرنیچر اور سامان آرائش خریدنے کے لیے دکان میں داخل ہوئے اور انہیں لگا کہ وہ شام یا عراق کے کسی جنگ زدہ علاقہ میں آگئے ہوں۔

    ikea-2

    ناروے میں اکیا کا ایک اسٹور شامی خانہ جنگی کا شکار ایسے گھر کی طرز پر بنایا گیا ہے جو جنگ میں تقریباً تباہ ہوچکا ہو۔

    ikea-4

    اس انداز میں اسٹور کو ترتیب دینے کا مقصد دراصل عیش و عشرت کی زندگی میں مگن عام افراد کو شامی افراد کی حالت زار کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اکیا نے یہ مہم نارویجیئن ریڈ کراس کی معاونت سے شروع کی ہے۔

    نارویجیئن ریڈ کراس کے مطابق دمشق میں امدادی کاموں کے دوران ان کا سامنا رعنا نامی ایک خاتون سے ہوا جو اپنے خاندان کے دیگر 9 افراد کے ساتھ جنگ زدہ علاقہ سے ہجرت کر کے آئی تھی اور کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہی تھی۔

    دس افراد پر مشتمل یہ خاندان 25 اسکوائر میٹر کے ایک خستہ حال کمرے میں رہ رہا ہے۔ ان کے علاقہ میں شدید خانہ جنگی شروع ہوگئی تھی جس کے بعد وہ بہ مشکل جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلے اور دمشق آگئے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    مزید پڑھیں: گہرے رنگوں سے سجے جنگی ہتھیار

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    رعنا کا کہنا تھا کہ افراتفری کے اس ماحول میں کوئی مکان ملنا تو ناممکن ہی تھا، لہٰذا وہ اس ادھ تعمیر شدہ کمرے میں رہنے لگے۔ رعنا اور ان کے اہل خانہ کو نہ ہی تو لباس میسر ہے اور نہ ہی سردی سے بچنے کے لیے کمبل، زمین پر بچھانے کے لیے گدے کی تمنا تو فقط عیاشی ہے۔

    اکیا کے اسٹور میں قائم یہ گھر اسی رعنا کے گھر کی ہو بہو نقل ہے۔

    اکیا کے دیگر اسٹورز کی طرح یہاں بھی دیوراوں پر پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں۔ فرق یہ ہے ان پر مشہور افراد کے اقوال یا خوبصورت مناظر کی جگہ شامی جنگ کا شکار خستہ حال بچوں کی کہانیاں درج ہیں۔

    ikea-5

    ikea-7

    اسی طرح اشیا کی قیمت کے ٹیگ پر خریداروں سے شامی مہاجرین کی مدد کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

    ikea-6

    ikea-3

    اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے 5 سال سے جاری شامی خانہ جنگی اب تک 4 لاکھ افراد کی جانیں لے چکی ہے۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    موت برسانے والے جنگی ہتھیار گہرے رنگوں میں رنگ گئے

    ایک جنگ زدہ مقام پر زندگی کیسی ہوسکتی ہے؟ خوف و دہشت اور بے یقینی سے بھرپور، بے رنگ، اور ایسی زندگی جس میں کوئی خوشی نہ ہو۔ لیکن جب یہ جنگ طویل ہوجائے تو آہستہ آہستہ زندگیوں کا حصہ بن جاتی ہے اور پھر یہ ایک معمول کی بات بن جاتی ہے۔

    انسانی فطرت حالات سے کسی نہ کسی طور مطابقت کرنا سیکھ ہی لیتی ہے۔ جب خوشی ملنے کا کوئی بیرونی ذریعہ نہ ہو تو پھر یہ خوشی کو تلاشنے کے لیے ایسی ایسی چیزیں تخلیق کر ڈالتا ہے جس کا عام حالات میں تصور بھی ممکن بھی نہ ہوں۔

    مزید پڑھیں: شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایسا ہی خوشیوں کا تخلیق کار ایک شامی فنکار بھی ہے جو موت لانے والے جنگی ہتھیاروں کو فن کے نمونوں میں بدل کر انہیں خوشی حاصل کرنے کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔

    اکرم ابو الفیض نامی یہ فنکار مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول کو آرٹ کے شاہکار میں بدل دیتا ہے۔

    shell-10

    shell-6

    شام کے جنگ زدہ صوبے رف دمشق کا یہ فنکار ایک عام سا فنکار تھا۔ سنہ 2011 میں جنگ شروع ہونے سے قبل وہ شیشوں پر روایتی نقش و نگاری کیا کرتا تھا۔ یہ شام کا ایک روایتی آرٹ ہے جو دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    لیکن پھر جنگ شروع ہوگئی۔ آسمان سے موت برسنے لگی اور فن و ثقافت، ادب، خوشی، سکون اور اطمینان جنگ کی دھول میں دفن ہوگیا۔

    اکرم کا کہنا ہے کہ جب اس کے صوبے میں جنگ شروع ہوئی تو ہر روز گھر سے باہر نکلنے پر اسے بڑی تعداد میں جابجا مارٹر گولوں اور راکٹ کے خول بکھرے ہوئے ملتے تھے۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    ابتدا میں وہ انہیں اپنے ہم وطنوں کی موت کو یاد رکھنے کے لیے نشانی کے طور پر گھر لے آتا۔ پھر جب جنگ ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئی، اور اپنوں کی موت کے زخم کچھ مندمل ہونے لگے تو اکرم کو اپنی بھولی بسری صلاحیت کا خیال آیا۔

    اس نے سوچا کہ اپنی مصوری کی خداداد صلاحیت کو کام میں لاتے ہوئے ان خولوں سے کچھ منفرد تخلیق کیا جائے۔

    اس نے دھول مٹی سے اٹا مصوری کا سامان نکالا اور ان خولوں کو گہرے رنگ میں رنگ دیا۔ ساتھ ہی ان پر منفرد نقش نگاری بھی کی۔

    shell-9

    shell-7

    shell-4

    اکرم ان خولوں پر نہایت گہرے رنگ کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح وہ ان پر سے خون کے ان نادیدہ چھینٹوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو ان کے گرنے کے بعد فضا میں پھیل گئے۔

    shell-5

    shell-8

    shell-2

    shell-3

    خوبصورت رنگوں سے سجے اور یہ منقش خول اس نے اپنے دوستوں اور خاندان کو تحفتاً بھی دیے لیکن زیادہ تر اس نے اپنے گھر پر ہی رکھے ہیں جنہیں اب دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں کوئی آرٹ کی نمائش ہورہی ہے۔

    اس کا کہنا ہے کہ اس قسم کے آرٹ سے وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ شامی اب جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور انہیں امن چاہیئے۔

    اکرم نے مصوری کی کوئی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اس کی یہ صلاحیت خداداد ہے۔ وہ بہت چھوٹی عمر سے ہی کاغذ پر رنگ بکھیرنے کا شوقین ہے۔

    واضح رہے کہ شام کے لوگ پچھلے 5 سال سے خانہ جنگی کا شکار ہیں اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں۔

    شام اور عراق کے جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد ہے اور دنیا نے اس سے قبل کبھی اتنی زیادہ تعداد میں مہاجرین کی میزبانی نہیں کی۔

  • شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    شامی بچوں کے لیے مسکراہٹ لانے والا ٹوائے اسمگلر

    ایک جنگ زدہ علاقہ میں، جہاں آسمان سے ہر وقت موت برستی ہو، کھانے کے لیے اپنوں کی جدائی کا جان لیوا غم اور پینے کے لیے صرف خون دل میسر ہو، وہاں بچوں کو کھیلنے کے لیے، اگر وہ جنگ کے ہولناک اثرات میں دماغی طور پر اس قابل رہ جائیں، بھلا تباہ شدہ عمارتوں کی مٹی اور پتھر کے علاوہ اور کیا میسر ہوگا؟

    جنگ زدہ علاقوں میں جہاں اولین ترجیح اپنی جان بچانا، اور دوسری ترجیح اپنے اور اپنے بچے کھچے خاندان کے پیٹ بھرنے کے لیے کسی شے کی تلاش ہو وہاں کس کو خیال آئے گا کہ بچوں کی معصومیت ابھی کچھ باقی ہے اور انہیں کھیلنے کے لیے کھلونے درکار ہیں۔

    یقیناً کسی کو بھی نہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین بچوں کے خواب

    تب مشرق کے سورج کی طرح ابھرتا دور سے آتا ’کھلونا اسمگلر‘ ہی ان بچوں کی خوشی کا واحد ذریعہ بن جاتا ہے جو سرحد پار سے ان کے لیے کھلونے ’اسمگل‘ کر کے لاتا ہے۔

    toy-2

    بچوں میں ’ٹوائے انکل‘ کے نام سے مشہور یہ اسمگلر دراصل 44 سالہ رامی ادھم ہے جو فن لینڈ کا رہائشی ہے لیکن اس کی جڑیں یہیں جنگ زدہ علاقوں میں مٹی کا ڈھیر بنی عمارتوں کے نیچے کہیں موجود ہیں، تب ہی تو یہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر خطرناک طریقے سے سرحد عبور کر کے ان بچوں کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کے لیے آتا ہے۔

    toy-6

    سنہ 1989 میں اچھے مستقبل کی تلاش کے لیے فن لینڈ کا سفر اختیار کرنے والے 44 سالہ رامی کا بچپن حلب کی ان ہی گلیوں میں گزرا جو اب اپنے اور بیگانوں کی وحشیانہ بمباری کا شکار ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’جب بچے مجھے آتا دیکھتے ہیں تو دور ہی سے ’ٹوائے انکل‘ کے نعرے لگانا شروع کردیتے ہیں۔ میری آمد کی خبر لمحوں میں یہاں سے وہاں تک پھیل جاتی ہے اور جب میں تباہ حال شہر کے مرکز میں پہنچتا ہوں تو سینکڑوں بچے چہروں پر اشتیاق سجائے میرا انتظار کر رہے ہوتے ہیں‘۔

    اس کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے سبز بیگ میں سے کھلونے نکال کر بچوں میں تقسیم کرتا ہے اس وقت ان بچوں کی خوشی ناقابل بیان ہوتی ہے۔

    toy-3

    رامی ان کھلونوں کے لیے فن لینڈ میں عطیات جمع کرتا ہے۔ وہ لوگوں سے ان کے بچوں کے پرانے کھلونے دینے کی بھی اپیل کرتا ہے۔ پچھلے 2 سال سے چونکہ شام کی سرحد کو بند کیا جاچکا ہے لہٰذا وہ قانونی طریقہ سے شام تک نہیں جاسکتا اور مجبوراً اسے اسمگلنگ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔

    لیکن یہ اسمگلنگ ایسی ہے جو غیر قانونی ہوتے ہوئے بھی غیر انسانی نہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اب تک زندہ سلامت ہے اور کامیابی سے اس اسمگلنگ کو  جاری رکھے ہوئے ہے۔ رامی کے مطابق فن لینڈ اور ترکی میں اس کے کچھ واقف کار ہیں جو اسے بحفاظت سرحد پار کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ اسے ’جوائے اسمگلر‘ یعنی خوشی کے اسمگلر کا نام دیتے ہیں۔

    toy-4

    پچھلے 5 سال سے جاری شام کی خانہ جنگی کے دوران رامی 28 مرتبہ بڑے بڑے تھیلوں میں بچوں کے لیے خوشی بھر کر لاتا ہے۔ اس دوران اسے 6 سے  7 گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کئی بار اس کے شام میں قیام کے دوران جھڑپیں شروع ہوجاتی ہیں جن کے دوران اسے گولیوں سے بچنے کے لیے ادھر ادھر بھاگنا اور چھپنا بھی پڑتا ہے۔

    رامی بتاتا ہے، ’شام کے لوگوں کا بیرونی دنیا سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ ان پر ٹوٹنے والے اس عذاب میں ساری دنیا شامل ہے۔ وہ اپنے انسان ہونے کی شناخت بھی بھول چکے ہیں‘۔

    رامی نے فن لینڈ میں ایک ’گو فنڈ می‘ نامی مہم بھی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ شام میں اسکول قائم کرنے کے لیے عطیات جمع کر رہا ہے۔ وہ یہ اسکول جنگ و جدل سے دور ترکی کی سرحد کے قریب بنانا چاہتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اپنے حالیہ دورے میں وہ ایک اسکول کا بنیادی ڈھانچہ قائم کرچکا ہے۔

    toy-5

    اس رقم سے وہ اب تک حلب کے 4 اسکولوں کی بھی امداد کر چکا ہے جو مختلف تباہ شدہ عمارتوں اور سڑکوں پر قائم ہیں۔

    شامی نژاد رامی خود بھی 6 بچوں کا باپ ہے اور اس کا عزم ہے کہ جب تک شامی بچوں کو اس کی ضرورت ہے وہ ان کے لیے یہاں آتا رہے گا۔ ’میں اپنے مشن سے کبھی نہیں رکوں گا، نہ کوئی مجھے روک سکتا ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خدارا شام کے مسئلہ کا کوئی حل نکالیں

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام کی 5 سالہ خانہ جنگی کے دوران اب تک 4 لاکھ شامی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 15 ہزار کے قریب بچے بھی شامل ہیں۔ شام اور عراق میں لاکھوں بچے ایسے ہیں جو جنگی علاقوں میں محصور ہیں اور تعلیم و صحت کے بنیادی حقوق سے محروم اور بچپن ہی سے نفسیاتی خوف کا شکار ہیں۔

  • ملک کےدفاع کےلیےقبائل حاضر ہیں،شازین بگٹی

    ملک کےدفاع کےلیےقبائل حاضر ہیں،شازین بگٹی

    کوئٹہ: جمہوری وطن پارٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ ملک کے دفاع کے لیے ہم اور ہمارے قبائل حاضر ہیں اگر جنگ ہوئی تو پاک فوج سے پہلے ہم بھارت سے لڑیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق کوئٹہ میں پارٹی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ زین بگٹی کا کہنا تھا کہ قبائلی عوام اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کےلیے تیار ہیں۔

    بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ نواب اکبر بگٹی نے بلوچستان کے الحاق کے سلسلے میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا تھا،ان کے نظریے کے مطابق ہم مکمل طور پر پاکستان کے ساتھ ہیں اور ضرورت پڑی تو ملک کے دفاع کے لیے ہم اور ہمارے قبائل حاضر ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماضی میں ملک کا دفاع افواج کے ساتھ قبائلیوں نے بھی کیا تھا لہذا اگر جنگ ہوئی تو پاک فوج سے پہلے ہم بھارت سے لڑیں گے جبکہ اس وقت بیان بازی کی نہیں یکجہتی کی ضرورت ہے۔

    مزیدپڑھیں: پاکستان کی مغربی سرحدوں کا تحفظ ہم خود کریں گے،قبائلی رہنما

    واضح رہے کہ دو روز قبل چمن میں بلوچستان کے قبائلی رہنماؤں نے بھارت کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں کا تحفظ ہم خود کریں گے۔

  • جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ یمن کا خوش قسمت گاؤں

    صنعا: مشرق وسطیٰ کے ملک یمن میں پچھلے 18 ماہ سے حکومت اور باغیوں کے درمیان لڑائی جاری ہے جس نے ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا۔

    اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک 3 ہزار 800 کے قریب افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ 76 لاکھ افراد ایسے ہیں جو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوچکے ہیں۔

    لیکن یمن میں ایک گاؤں ایسا بھی ہے جو جنگ کی تباہ کاریوں اور خوان خرابے سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔

    yemen-6

    yemen-5

    یہ خوش قسمت گاؤں یمن کے مغربی حصہ میں چند پہاڑیوں کی چوٹی پر واقع ہے۔ گاؤں والے جنگ کا شکار تباہ حال گھرانوں کو اپنے پاس پناہ بھی دے رہے ہیں لیکن حفاظت ان کا پہلا اصول ہے اور یہ زیادہ لوگوں کی نظروں میں نہیں آنا چاہتے کہ کہیں باغی ان پر بھی حملہ آور نہ ہوجائیں۔

    yemen-3

    yemen-4

    yemen-2

    یہ گاؤں بنیادی سہولتوں سے محروم ہے لیکن یہاں رہنے والے افراد خوش قسمت ہیں کہ کم از کم ان کی جانیں اور گھر تو محفوظ ہیں۔

    12

    یمنی صوبے رمیہ میں واقع اس گاؤں کے گھر پہاڑ کی چڑھائی پر بنے ہوئے ہیں۔ یہ گاؤں حملہ آوروں کی دست برد سے تو محفوظ ہے تاہم یہ صورتحال زیادہ باعث اطمینان بھی نہیں ہے کیونکہ گاؤں والوں کو اپنا سامان ضرورت نیچے اتر کر لانا پڑتا ہے۔ اس کے لیے یا تو وہ پیدل سفر کرتے ہیں یا پھر کیبل کار ان کا ذریعہ سفر ہوتا ہے۔

    yemen-8

    گاؤں والے پانی کے نلکوں اور بجلی جیسی سہولیات سے ناواقف ہیں۔ یہاں موجود زیادہ تر افراد کا زریعہ روزگار زراعت ہے۔ یہ علاقہ شہد کی مکھیوں کی افزائش کے لیے بھی مشہور ہے۔ یہاں ان مکھیوں سے شہد حاصل کیا جاتا ہے جو جنگ سے قبل ملک بھر میں فروخت کیا جاتا تھا۔

    14

    yemen-9

    یہاں موجود خواتین گھروں میں ہی نصب چکی پر آٹا پیستی ہیں۔ گاؤں میں موجود گھر پتھروں سے تعمیر کیے جاتے ہیں اور کچھ گھر ایسے بھی ہیں جو کئی سو سال پرانے ہیں۔

    15

    16

    17

    گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک عرصے سے یہاں رہ رہے ہیں اور زندگی کی تمام تکالیف اور مصائب کے باوجود خوش ہیں۔

  • افغان جنگ میں امریکی وزارت دفاع، وزارت خزانہ کی ریکارڈ کرپشن

    افغان جنگ میں امریکی وزارت دفاع، وزارت خزانہ کی ریکارڈ کرپشن

    واشنگٹن: افغان جنگ کے دوران امریکی حکومت کی جانب سے اربوں ڈالر کی بدعنوانی کا انکشاف ہوا ہے۔ کرپشن میں امریکا کے مختلف سرکاری ادارے اور حکام ملوث تھے۔

    افغان جنگ کے دوران امریکی اداروں اور حکام نے کروڑوں ڈالر کی کرپشن کی۔ امریکی سینٹ کی ایجنسی نے امریکیوں کا پول کھول دیا۔ مالی بے ضابطگیوں کی تحقیق کے لیے قائم سیگار ایجنسی نے انکشاف کیا ہے کہ 2001 سے 2004 تک جاری رہنے والی افغان جنگ میں اربوں ڈالر کی کرپشن کی گئی۔

    کرپشن میں امریکی وزارت دفاع، محکمہ خارجہ، وزارت خزانہ اور دیگرحکام ملوث تھے۔ افغانستان میں امریکی مشن بھی کرپشن میں پیچھے نہیں رہا۔

    امریکی مشن نے افغان حکومت کے خلاف طالبان کی مالی اور عسکری امداد میں بھی کرپشن کی۔ امریکا نے افغان طالبان کو اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری طور پر استعمال کیا۔

  • جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    جنگ زدہ عراق سے نیویارک فیشن ویک تک ۔ دربدری، تکلیف اور جدوجہد کی داستان

    نیویارک: امریکی شہر نیویارک میں جاری نیویارک فیشن ویک بڑے بڑے مشہور ڈیزائنرز کے ملبوسات سے سجا ایسا شو ہے جس میں شرکت کرنا ہر ڈیزائنر اپنا خواب سمجھتا ہے۔ ہر سال اس میں کئی نئے ڈیزائنرز بھی اپنا ڈیبیو کرتے ہیں۔

    اس شو میں شریک ہونے والے ڈیزائنرز بین الاقوامی شہرت کے مالک بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈیزائنر اوڈے شکار بھی ہیں جو عراقی نژاد ہیں۔

    اپنے فیشن ڈیزائننگ کے کیریئر کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کے لیے وہ انوکھے ڈیزائنز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں شریک ہوئے۔

    oday-2

    oday-3

    لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا۔ اس کے پیچھے دربدری، جدوجہد اور تکلیف کی ایک طویل داستان ہے۔

    شکار کے والدین صدام حسین کے دور میں بغداد سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اس وقت اوڈے شکار بہت کم عمر تھے۔

    گلف کی جنگ کے خاتمہ پر شکار کو ان کے 2 بھائیوں کے ساتھ واپس عراق بھیجا گیا تاکہ وہ اپنی ثقافت سے آشنا ہوسکیں۔

    اس دور کی یادیں آج بھی شکار کے ذہن میں تازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں تو مجھے دھویں اور بارود کی ایک نادیدہ مہک محسوس ہونے لگتی ہے‘۔

    سنہ 50 کی دہائی میں فیشن کیسا تھا؟ *

    انہوں نے اس وقت عراق میں جو خواتین دیکھیں وہ اب بھی ان کی یادوں میں موجود ہیں۔ یہ اس وقت بھی موجود ہوتی ہیں جب وہ کپڑے ڈیزائن کر رہے ہوتے ہیں۔

    وہ اپنے بچپن کی اس یاد کو یوں بیان کرتے ہیں، ’دلکش آئی لائنر سے سجی آنکھیں اور خوبصورت بال، وہ خواتین بہت فیشن زدہ تھیں باوجود اس کے، کہ وہ اس کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرتی تھیں۔ وہ کسی پرانے کپڑے کو بھی ایسے انداز میں پہنتی تھیں کہ وہ فیشن معلوم ہوتا تھا۔ وہ خواتین حجاب سے آزاد تھیں‘۔

    بالآخر 2 سال بغداد میں گزارنے کے بعد شکار اردن آگئے جہاں انہوں نے فائن آرٹس کی تعلیم حاصل کی۔

    oday-4

    بعد ازاں وہ امریکا آگئے۔ اس وقت شکار کی عمر 18 سال تھی۔ انہوں نے لاس اینجلس میں فیشن انسٹیٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ مرچنڈائزنگ میں داخلہ لیا۔ 2003 میں جب ان کا گریجویشن بھی مکمل نہیں ہوا تھا، انہیں ایک میوزک ویڈیو کے کپڑے ڈیزائن کرنے کا موقع مل گیا۔

    امریکا اور عراق کی جنگ شکار کے لیے مزید تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں، ’اس دور میں، میں عجیب الجھن کا شکار ہوگیا۔ آپس میں برسر پیکار دونوں ممالک میرے اپنے ہی تھے۔ ایک میرا آبائی وطن تھا، دوسرے نے مجھے زندگی میں آگے بڑھنے کا موقع دیا‘۔

    شکار کے مطابق، ’مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں کہاں کھڑا ہوں، اور مجھے کہاں ہونا چاہیئے۔ بعض دفعہ میں یہ بھی بھول جاتا کہ درحقیقت میں ہوں کون‘۔

    فیشن ڈیزائننگ میں مہارت حاصل کرنے کے بعد اوڈے شکار اپنا برانڈ شروع کرنے کا سوچ رہے تھے کہ اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ وہ تھائیرائیڈ کینسر میں مبتلا ہیں۔

    ریڈی ایشن تھراپی کے لیے انہیں کافی عرصہ اسپتال میں تقریباً معذوری کی حالت میں گزارنا پڑا۔

    وہ بتاتے ہیں، ’اسپتال میں گزارے گئے دن میرے لیے بہت تکلیف دہ تھے۔ میں اپنے ہاتھوں کو حرکت نہیں دے سکتا تھا اور یہ خیال ہی میرے لیے بہت خوفناک تھا کہ میں اپنے ہاتھوں کو کبھی حرکت نہیں دے سکتا، یعنی کچھ ڈیزائن نہیں کر سکتا‘۔

    بالآخر 2009 میں انہوں نے اپنا برانڈ لانچ کردیا اور اگلے ہی سال 2010 میں انہیں اس وقت بین الاقوامی شہرت مل گئی جب ہالی ووڈ اداکارہ سینڈرا بلاک نے ایم ٹی وی مووی ایوارڈز میں ان کا ڈیزائن کردہ لباس زیب تن کیا۔

    oday-1

    اوڈے اپنے ملبوسات کے لیے دو دنیاؤں کے امتزاج کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی مشرق وسطیٰ پر مغربی اثر۔ ان کے مطابق ان کے تیار کردہ ڈیزائنز اسلامی آرکیٹیکچر اور مغربی آرٹ کا امتزاج ہوتے ہیں۔

    رواں برس بھی وہ اپنے منفرد انداز کے ساتھ نیویارک فیشن ویک میں جلوہ گر ہوئے اور ناقدین نے ان کے ملبوسات کو پسندیدگی کی سند بخشی۔