Tag: جنگ

  • یوکرین جنگ کو ایک سال مکمل: امریکا کا مزید ہتھیاروں کی فراہمی کا اعلان

    یوکرین جنگ کو ایک سال مکمل: امریکا کا مزید ہتھیاروں کی فراہمی کا اعلان

    واشنگٹن: یوکرین پر روسی حملے کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد امریکا نے 2 ارب ڈالر کے ہتھیار دینے کا اعلان کیا ہے۔

    اردو نیوز کے مطابق امریکا نے یوکرین پر روسی حملے کا ایک سال پورا ہونے کے موقع پر متاثرہ اتحادی ملک کے لیے 2 ارب ڈالر کے ہتھیار دینے کا اعلان کیا جبکہ ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کی ہیں۔

    امریکی صدر جو بائیڈن نے روس پر نئی پابندیوں کی تفصیلات عام کی ہیں اور دوسری جانب دنیا کے امیر ترین ملکوں کے بلاک جی سیون کے رہنماؤں نے مزید امداد دینے کے لیے یوکرین کے صدر سے ملاقات کی۔

    امریکا کی نئی پابندیوں میں روس کی فوجی قیادت پر ویزا پابندیاں، ولادی میر پیوٹن کے اتحادیوں کے اثاثوں کو منجمد کرنا اور روس سے ایلومینیم کی درآمد کو مؤثر طریقے سے روکنا شامل ہے۔

    اس کے علاوہ روسی بینکوں، اسلحہ ساز فیکٹریوں کو کام سے روکنا اور روس کی سب سے بڑی موبائل فون بنانے والی کمپنی میگا فون کو تجارتی بلیک لسٹ میں شامل کرنا ہے۔

    امریکا میں روس کے سفیر اناطولی انتونوو نے کہا ہے کہ ان پابندیوں کے کسی قسم کے اثرات نہیں پڑیں گے۔

    امریکی حکام نے کہا ہے کہ دیگر پابندیاں آنے والے دنوں میں عائد کی جائیں گی۔

    بائیڈن انتظامیہ نے چین اور دیگر ملکوں کو بھی پیغام بھیجا ہے کہ وہ روس کی مدد کرنے سے گریز کریں تاکہ پابندیوں سے بچ سکیں۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ہم ان دیگر دفاعی پیداوار کی صنعتوں پر بھی پابندیاں عائد کریں گے جو روس کے اسلحہ ذخیرے کو بھرنے میں مدد کر رہے ہیں یا ایسی کمپنیاں جو روس کو پابندیوں کے اثرات سے بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

  • یمن جنگ: ہزاروں بچے ہلاک، بے شمار معذور ہوگئے

    یمن جنگ: ہزاروں بچے ہلاک، بے شمار معذور ہوگئے

    صنعا: یمن میں طویل عرصے سے جاری جنگ کے دوران 3 ہزار سے زائد بچے جاں بحق جبکہ 7 ہزار سے زائد معذور ہوئے۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے کہا ہے کہ یمن میں جاری جنگ کے دوران مارچ 2015 سے ستمبر 2022 کے درمیان کم از کم 3 ہزار 774 بچے ہلاک ہوئے ہیں۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ جنگ میں 7 ہزار 245 بچے معذور ہوئے۔

    یونیسف نے فوری طور پر جنگ بندی کے معاہدے کی تجدید کا مطالبہ کیا ہے جو اپریل سے اکتوبر تک نافذ العمل رہا۔

    ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ معاہدے کی تجدید انسانی امداد پہنچانے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔

    یونیسف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2015 سے ستمبر 2022 کے درمیان 3 ہزار 904 نوجوان لڑکوں کو جنگ میں لڑنے کی غرض سے بھرتی کیا گیا۔

    کیتھرین رسل کا کہنا ہے کہ اگر یمن کے بچوں کا اچھا مستقبل چاہتے ہیں تو پھر فریقین، عالمی برادری اور تمام با اثر عناصر کو بچوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی کروانی ہوگی۔

    اقوام متحدہ کے مطابق حوثیوں نے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگوں کا استعمال کیا جس سے جولائی اور ستمبر کے درمیان کم از کم 74 بچے ہلاک ہوئے۔

    اس سے قبل حوثی حکام جنگ میں لڑنے کے لیے 10 سال کی عمر کے لڑکوں بھرتی کرنے کا بھی اعتراف کر چکے ہیں۔

    گزشتہ ہفتے یونیسف نے دنیا بھر میں تنازعات اور آفات سے متاثرہ بچوں کی امداد کے لیے 10.3 ارب ڈالر کی اپیل کی تھی جن میں سے 484.5 ملین ڈالر یمن کے لیے مختص کیے جائیں گے۔

  • کیا جنگی ٹینک ختم ہوجائیں گے؟

    کیا جنگی ٹینک ختم ہوجائیں گے؟

    حال ہی میں یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے دوران ٹینک کی افادیت پر سوال کھڑے ہوگئے، عسکری ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی میں جدت کے بعد ٹینکوں کی افادیت گھٹ گئی ہے۔

    بڑی جنگوں اور تنازعات نے ہتھیاروں، فوجی ساز و سامان، حکمت عملیوں اور جنگی نظریات کو جانچنے کے لیے انتہائی اہم بنیادیں فراہم کی ہیں جہاں پرانے خیالات کی جگہ نئی حکمت عملیاں جگہ لیتی ہیں، تباہ شدہ اور لاوارث ٹینک کی تصویر کو یوکرین کے تنازعے کے ایک مستقل منظر کے طور پر آئندہ نسلوں کے لیے ریکارڈ کیا جائے گا۔

    فوجی اور جنگی اسکالرز اس تباہ کاری کو دیکھ کر مبہوت ہوگئے ہیں کہ کس طرح ٹینکوں اور متعلقہ پلیٹ فارمز جیسے بکتر بند جنگی گاڑیوں کو اس جنگ نے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

    24 فروری سے 12 مئی 2022 تک، تنازع میں تباہ شدہ ٹینکوں اور دیگر بکتر بند گاڑیوں کی کل تعداد 7 ہزار 106 تک پہنچ گئی۔

    اس وقت بھارت ارجن سمیت کم و بیش 5 ہزار ٹینک استعمال کررہا ہے جن میں مختلف ساخت کے ٹی 90 اور ٹی 72 ٹینک شامل ہیں۔

    روس کا دعویٰ ہے کہ اس نے یوکرین کے 2 ہزار 998 ٹینکوں اور دیگر بکتر بند گاڑیوں کو تباہ کیا ہے، دوسری جانب یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے 1 ہزار 204 روسی ٹینک اور 2 ہزار 904 بکتر بند لڑاکا گاڑیاں بے دخل کر دی ہیں۔

    آج کی ٹیکنو سنٹرک جنگ میں، سست رفتاری سے چلنے والے، بھاری اور لمبرنگ ٹینک راکٹ لانچرز، اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اور ڈرونز کے لیے تیزی سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں جن کی مدد سے سیٹلائٹ اور دوسرے ٹولز ہوتے ہیں جو دور سے ٹینک کی نقل و حرکت کا پتہ لگاتے ہیں۔

    یوکرین میں امریکی جیولین اے ٹی جی ایم روسی ٹینکوں کے خلاف انتخاب کا ہتھیار رہا ہے اور یوکرین کی لڑائی کی علامت بھی بن گیا ہے، یہ فائر اینڈ فارگیٹ ایک فرد کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے، جس سے یہ انتہائی موبائل اور ناقابل شناخت ہو جاتا ہے جبکہ آپریٹر فائرنگ کے فوراً بعد چھپ سکتا ہے یا آڑھ لے سکتا ہے۔

    میزائل کو یا تو براہ راست ہدف پر فائر کیا جا سکتا ہے یا پھر 160 میٹر تک اوپر کی طرف فائر کیا جا سکتا ہے جو پھر قریب کی عمودی رفتار میں ہدف کی سمت کا رخ کرتا ہے۔

    جیولن کے علاوہ یوکرین کو سویڈش، برطانوی اور ہسپانوی ٹینک شکن ہتھیار بھی ملے ہیں۔

    ہندوستان کے معاملے میں، مشرقی لداخ کے ساتھ جاری تعطل میں ٹینکوں کا چین کی پیوپلز لبریشن آرمی کے خلاف زیادہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ یہ معرکہ انتہائی پہاڑی اور سنگلاخ علاقے میں ہو رہا ہے۔

    ہندوستانی فوج کے ٹینکوں کا فائدہ کچھ حد تک چوشول یا دمچوک جیسے مقابلتاً میدانی علاقوں میں ہو رہا ہے، یہ پہلی جنگ عظیم تھی جس نے گھوڑے کے لیے موت کی گھنٹی بجا دی تھی جسے روایتی طور پر تیز رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے استعمال کیا جاتا تھا۔

    دوسری جنگ عظیم تک، گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار فوجی زیادہ تر غائب ہو چکے تھے جب کہ ایک اور فائٹنگ مشین یعنی ٹینک کی اہمیت اتنی بڑھ گئی کہ ہر ملک نے ٹینکوں کو جمع کرنا اور رجمنٹوں کو بڑھانا شروع کر دیا۔

    ٹینکوں نے بنیادی طور پر اس لیے سبقت لی کیونکہ وہ مشین گن کی مقررہ پوزیشنیں لے سکتے تھے اور پھر مخالف کے دفاع کو بلڈوز کر سکتے تھے، ہر وقت پیدل فوج کو آگے بڑھنے کے لیے کور اور مدد فراہم کرتے تھے۔

    لیکن ایسا لگتا ہے کہ یوکرین کے تنازع نے ایک جدید فوج کے ہتھیاروں کے حصے کے طور پر ٹینکوں کی افادیت پر سنجیدگی سے سوال اٹھایا ہے کیونکہ اب اقدام کرنے والی فوج کو ٹینکوں کے بجائے ٹکنالوجی سے کور مل جاتی ہے۔

    اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل کے میدان جنگ میں کیا ٹینک سرے سے ہی غائب ہوجائیں گے۔

  • روس و یوکرین کی جنگ پر چینی وزارت خارجہ کا اہم بیان

    روس و یوکرین کی جنگ پر چینی وزارت خارجہ کا اہم بیان

    بیجنگ: چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ترجمان چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ہم یوکرین کی جنگ کا حصہ نہیں، واشنگٹن کو یوکرین کے بحران کی اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرنا چاہیئے۔

    چینی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ امریکا جو ہتھیاروں کے پیکج کیف بھیج رہا ہے اس سے تنازعہ اور بڑھے گا۔

    ترجمان نے مزید کہا کہ واشنگٹن اپنے آپ سے پوچھے کہ یوکرین کو کس نے مقابلے کا میدان بنایا؟ واشنگٹن کا رویہ اس بحران سے فائدہ اٹھانے کی عکاسی کرتا ہے۔

  • وہ جنگ جو ایک بالٹی کی وجہ سے شروع ہوئی

    وہ جنگ جو ایک بالٹی کی وجہ سے شروع ہوئی

    جنگیں ہر طرح کی وجوہات کے لیے لڑی جاتی ہیں، معاشی سلامتی، طاقت، انتقام، سیاست، بین الاقوامی اتحاد، شخصیات کے مابین تنازعہ وغیرہ لیکن تاریخ میں ایک جنگ ایسی بھی ہوئی ہے جو لکڑی کی بالٹی کی وجہ سے شروع ہوئی۔

    لکڑی کی ایک عام سی بالٹی جو کنویں سے پانی بھرنے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اس عجیب و غریب بالٹی کی جنگ میں 2 ہزار لوگ مارے گئے۔

    یہ سنہ 1325 کی بات ہے جب اٹلی میں دو ریاستیں بلونہ اور موڈینا ایک دوسرے کی سخت مخالف تھیں، ان دونوں شہروں کی الگ الگ فوج تھی اور ان کی حکومت، افواج اور لوگوں کے درمیان اختلاف اس قدر شدید تھا کہ یہ ایک دوسرے کا نقصان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔

    ایک بار موڈینا شہر کے کچھ فوجی بلونہ میں داخل ہوگئے اور بلونہ شہر کے بیچ و بیچ بنے ایک کنویں میں پانی نکالنے کے لیے لکڑی کی بنی بالٹی کو چرا لیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔

    ویسے تو یہ ایک لکڑی کی عام سی بالٹی تھی لیکن یہ بالٹی اب اس شہر کی حکومت اور ان کی فوج کے لیے انا کا مسئلہ تھا۔ انہوں نے موڈینا کی حکومت سے بالٹی کی واپسی کا مطالبہ کیا جس کے انکار میں بلونہ نے موڈینا کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔

    بالٹی چرانے والے موڈینا کے پاس فوج اور گھوڑوں کی تعداد بلونہ سے تقریباً 3 سے 4 گنا کم تھی۔ 15 نومبر 1325 کو لکڑی کی بالٹی کی وجہ سے اس جنگ کا آغاز ہوا۔

    دونوں شہروں کے ہزاروں فوجی کئی گھنٹے ایک دوسرے سے لڑتے رہے جس کے نتیجے میں 2 ہزار کے قریب فوجی بالٹی کی لڑائی کے نام ہوگئے۔

    موڈینا کے 8 ہزار فوجی بلونہ کے 32 ہزار فوجیوں پر بھاری پڑگئے اور بلونہ کی فوج کو بالٹی لیے بغیر ہی واپس بھاگنا پڑا۔ اسی چڑھائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے موڈینا کی فوج بلونہ کے شہر میں گھس گئی اور ان کے کئی قلعے تباہ کردیے اور بہت سارا نقصان کر دیا۔

    بلونہ نے تعداد میں تین سے چار گنا ہونے کے باوجود اس جنگ میں منہ کی کھائی، موڈینا نے یہ بالٹی کبھی بھی واپس نہیں کی۔ یہ تاریخ کی چند عجیب ترین جنگوں میں سے ایک جنگ تھی جسے وار آف دا بکٹ کا نام دیا گیا۔

    یہ بالٹی اٹلی کے شہر موڈینا میں آج بھی محفوظ ہے۔

  • 200 سال قبل جنگ میں ہلاک سپاہیوں کی آخری رسومات ادا

    200 سال قبل جنگ میں ہلاک سپاہیوں کی آخری رسومات ادا

    ماسکو: ماضی کے معروف فرانسيسی جنرل نپولين کے دور ميں سنہ 1812 ميں لڑی گئی ايک جنگ کے دوران ہلاک ہونے والے فرانسيسی اور روسی فوجيوں کی آخری رسومات دوبارہ ماسکو میں ادا کی گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مغربی روس کے چھوٹے سے شہر ويازما ميں 13 فروری کے روز 126 افراد کی آخری رسومات ادا کی گئيں۔

    تابوتوں ميں 120 فرانسيسی اور روسی فوجیوں سميت 3 عورتوں اور 3 نوجوانوں کی باقيات تھيں، ماسکو سے لگ بھگ 200 کلو ميٹر مغرب کی طرف واقع اس شہر ميں منفی 15 ڈگری سينٹی گريڈ درجہ حرارت اور سخت برفباری ميں ملٹری بينڈ نے ترانہ بجايا اور فوجيوں نے پوری عقيدت اور احترام کے ساتھ مرنے والوں کو سپرد خاک کيا۔

    تفہن کے بعد انہیں توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔

    یہ افراد سنہ 1812 کی جنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے اور انيسويں صدی کے ان روسی اور فرانسيسی فوجيوں کو علامتی طور پر دوبارہ سپرد خاک کيا گيا ہے۔

    ان تمام افراد کی ہلاکت فرانسيسی فوجی کمانڈر نپولين بونا پارٹ کے ماسکو سے پسپائی کے بعد واپسی کے وقت، 3 نومبر سنہ 1812 کو جنگ ويازما ميں ہوئی تھی۔ يہ اس وقت کی بات ہے جب روس سے نپولين کی فوج کی پسپائی ابھی شروع ہی ہوئی تھی۔

    روسی اور فرانسيسی ماہرين آثار قديمہ کو جنگ ويازما ميں ہلاک ہونے والے ان فوجيوں کی باقيات سن 2019 ميں ايک اجتماعی قبر سے ملی تھيں۔ ان ميں سے 120 فوجی تھے، 3 عورتيں زخميوں کو طبی امداد فراہم کرنے والی کارکن تھیں اور 3 نوجوان ڈھول پيٹنے والے تھے۔

    ان سب کی دوبارہ تدفين کا مقصد محض علامتی تھا، تعميراتی کام کے دوران جب يہ قبر دريافت ہوئی، تو پہلے سمجھا گيا کہ يہ دوسری عالمی جنگ کے دور کی کوئی اجتماعی قبر ہے۔

    تاہم فوجيوں کی جسمانی باقيات اور ان کی وردیوں پر لگے بٹنوں سے پتا چلا کہ ان کا تعلق فرانسيسی فوج کی 30 ویں اور روسی فوج کی 55 ويں انفنٹری سے تھا اور وہ سب ويازما کی جنگ ميں مارے جانے والے افراد تھے۔

    مذکورہ تقریب میں پرنس يوآخم مورات بھی شریک ہوئے جن کا تعلق نپولين کے سب سے مشہور مارشل کے خاندان سے تھا۔

  • آذر بائیجان کے صدر کی جنگ بندی سے متعلق اہم پیشکش

    آذر بائیجان کے صدر کی جنگ بندی سے متعلق اہم پیشکش

    باکو: آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف کا کہنا ہے کہ نگورنو کارباخ سے متعلق ہم جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، اب مزید حالات آرمینیا پر منحصر ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ نگورنو کارباخ سے متعلق باکو جنگ بندی کے لیے کوآرڈینیٹ کے لیے آذر بائیجان تیار ہے۔

    آذر بائیجان کے صدر نے اپنی جانب سے پہل کرنے کے بعد کہا کہ اب مزید حالات آرمینیا پر منحصر ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم تیار ہیں، ہم نے متعدد بار عوامی سطح پر کہا کہ ہم جنگ بندی کے لیے تیار ہیں۔ تمام علاقائی ممالک جو ہمارے خلاف ہیں، انہیں براہ راست اس تنازعہ میں شامل ہونے سے دور رہنا چاہیئے۔

    صدر نے مزید کہا کہ ہم اس معاملے کو عالمی مدعا بنانے کے مکمل طور پر خلاف ہیں۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ آذر بائیجان اور آرمینیا نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیز فائر پر پھر اتفاق کر لیا ہے۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے سربراہان نے جنگ بندی معاہدے پر عمل پیرا ہونے پر اتفاق کیا ہے، اس معاہدے سے بہت سی جانیں بچ جائیں گی۔

    اس سے قبل روسی کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان 2 مرتبہ جنگ بندی ہو چکی ہے، تاہم دونوں دفعہ جنگ بندی برقرار نہ رہ سکی تھی۔

  • آذر بائیجان کی فوج کو آرمینیا کے ساتھ جنگ میں اہم کامیابی مل گئی

    آذر بائیجان کی فوج کو آرمینیا کے ساتھ جنگ میں اہم کامیابی مل گئی

    باکو: آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں، آذری فوج کے دفاعی محاذ پر آرمینیا نے شدید گولہ باری کی جس کا آذری فوج نے بھرپور جواب دیا اور مختلف مقامات پر اپنا کنٹرول سنبھال لیا۔

    مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق آذر بائیجان کی فوج اپنے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ آذری امور دفاع کے مطابق، گزشتہ رات آعدرہ، ہدروت، فضولی، جبرائل اور غوبادلی میں آپریشنز کا سلسلہ جاری رہا۔

    آذری فوج کے دفاعی محاذوں پر آرمینیا نے شدید گولہ باری کی جس کا آذری فوج نے بھرپور جواب دیا اور مختلف مقامات پر اپنا کنٹرول سنبھال لیا۔

    آذری بیان کے مطابق، تمام محاذوں پر آرمینی فوج کے بنیادی ڈھانچوں اور اس کے عسکری وسائل کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے جس کی وجہ سے اسے فوجی ساز و سامان، خوراک اور اسلحے کی قلت کا سامنا ہے۔

    علاوہ ازیں تمام محاذوں پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور صورتحال آذری فوج کے قابو میں ہے۔

    اس سے قبل آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد فریقین نے ایک دوسرے پر حملے روک دیے تھے۔

    جنگ بندی کا معاہدہ نسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا تھا، فریقین کا تقریباً 3 ہفتوں سے جاری جنگ کے بعد سیز فائر پر اتفاق ہوا ہے۔

    اس سے قبل نگورنو کاراباخ میں دونوں ممالک میں جھڑپوں میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

  • آرمینیا اور آذربائیجان مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے

    آرمینیا اور آذربائیجان مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے

    ماسکو: مسلم اکثریتی آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا دو ہفتوں کی شدید جھڑپوں کے بعد مذاکرات کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان روس کے دارالحکومت ماسکو میں مذاکرات میں شرکت کے لیے تیار ہو گئے ہیں، غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔

    ان مذاکرات کے لیے آرمینیا اور آذر بائیجان کے وزرائے خارجہ ماسکو آئیں گے، خیال رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ 2 ہفتے سے متنازع علاقے کاراباخ پر کشیدگی جاری ہے۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل اسلام آباد میں آذبائیجان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشنز سمیر گلئیوف نے کہا تھا کہ آرمینیا نے پہلے جنگ کا آغاز کیا جس کے بعد ہم نے جوابی کارروائی کی، آرمینیائی جارحیت سے اب تک 31 شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، ہم نے گزشتہ 10 روز میں 1 شہر سمیت 26 علاقوں کو فتح کیا۔

    آذربائیجان کے ہاتھوں آرمینیائی فوج کی پسپائی، 10 روز میں 26 علاقے فتح

    انھوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ آرمینیا نے بیرون ممالک سے آئے دہشت گردوں کو مسلح کر کہ محاذ پر بھیجنا شروع کر دیا ہے، جب کہ آذربائیجان صرف اپنی سالمیت کا دفاع کر رہا ہے۔

    ملٹری اتاشی نے کرنل مہمان نوروز نے بتایا کہ 5 اکتوبر کو آرمینیا نے سمرچ اور توچکا میزائل سے آذربائیجان کے علاقوں کو نشانہ بنایا، ہم اب بھی گولہ باری کرنے والی آرمینیائی افواج کی چوکیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں‘۔

    کرنل مہمان نوروز کا کہنا تھا کہ آرمینیا اپنی شکست دیکھ کر گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے، اُس نے جنگ میں پاکستان اور ترکی کے ملوث ہونے کی افواہ پھیلائی اور دعویٰ کیا کہ 30 ہزار فوجی آذربائیجان کے ساتھ جنگ میں شریک ہیں جب کہ یہ بھی کہا گیا کہ ترکی کا فضائیہ بھی جنگ میں شامل ہے۔

  • امریکا میں سیاہ فام مظاہرین، پولیس اور فوج سے ‘جنگ’ لڑنے کی تیاری کرنے والا گرفتار

    امریکا میں سیاہ فام مظاہرین، پولیس اور فوج سے ‘جنگ’ لڑنے کی تیاری کرنے والا گرفتار

    مسوری: امریکی ریاست مسوری میں سیاہ فام مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والی قوتوں کے خلاف جنگ کی تیاری کرنے والا گرفتار کر لیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ریاست مسوری کی سینٹ چارلز کاؤنٹی میں 25 سالہ شہری کیمرون سووبوڈا کو اس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے کہ وہ سیاہ فام مظاہرین، پولیس اور فوج کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا تھا۔

    سینٹ چارلز کاؤنٹی کے پراسیکیوٹنگ اٹارنی کے آفس نے 22 جون کو کیمرون پر تین فرد جرم عائد کیے، جن میں غیر قانونی ہتھیار رکھنے، اسے تیار کرنے، اس کی ترسیل کرنے یا فروخت شامل ہیں۔

    پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ کیمرون کے دوستوں نے سینٹ چارلز کاؤنٹی پولیس سے رابطہ کر کے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ وہ لوگوں کے بڑے مجمع پر حملہ کرنے جا رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ کیمرون ‘بلیک لائیو میٹرز’ مہم کے مظاہرین، مجرموں سے متعلق قانونی اصلاحات اور اقلیتوں سے نفرت کا اظہار کرتا رہا ہے۔

    دوستوں کا کہنا تھا کہ کیمرون کا خیال تھا کہ حکومت کرونا وائرس وبا کی وجہ سے مارشل لا لگانے جا رہی ہے، اس لیے مجھے فوج اور پولیس سے جنگ لڑنی پڑے گی۔

    جس کے بعد 22 جون کو اے ٹی ایف کے ایجنٹس اور سینٹ چارلز کاؤنٹی بم اسکواڈ نے کیمرون کے گھر پر چھاپا مارا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس کے گھر سے مختلف قسم کا دھماکا خیز مواد برآمد کر کے کیمرون کو گرفتار کر لیا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ کیمرون نے ایک اور مقام کی نشان دہی بھی کی جہاں اس نے اپنے بنائے ہوئے گرینیڈز اور دیگر اسلحہ چھپایا ہوا تھا، پولیس کو وہاں سے بارودی سرنگ بھی ملی۔

    قانونی دستاویز میں پولیس نے لکھا کہ مشتبہ شخص نے اپنے دوستوں سے کہا تھا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کو قتل کرنے میں بالکل نہیں ہچکچائے گا۔