Tag: جنیوا

  • جنیوا : امیر ترین بھارتی خاندان جیل میں کیسے پہنچا ؟

    جنیوا : امیر ترین بھارتی خاندان جیل میں کیسے پہنچا ؟

    جنیوا : سوئٹزر لینڈ کی عدالت نے برطانیہ کے امیر ترین بھارتی خاندان کو قید کی سزا سنادی، ملزمان پر الزام ثابت ہوا تھا کہ انہوں نے گھریلو ملازمین کا استحصال کیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 47 ارب ڈالر کی مالیت رکھنے والے خاندان کو انسانی اسمگلنگ کے مقدمے میں بری کر دیا گیا جبکہ دیگر جرائم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق مذکورہ امیر خاندان پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے آبائی ملک بھارت سے لوگوں کو بطور گھریلو ملازمین بلوایا اور سوئٹزرلینڈ پہنچنے پر ان کے پاسپورٹ ضبط کرلیے تھے۔

    india

    مجرمان میں میاں بیوی اور ان کے بیٹے اور بہو شامل ہیں۔ پرکاش ہندوجا اور ان کی اہلیہ کمال ہندوجا کو چار سال چھ ماہ قید کی سزا جبکہ ان کے بیٹے اجے اور اس کی اہلیہ نمریتا کو چار سال قید کی سزا دی گئی ہے۔

    وکیل استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ ہندوجا خاندان اپنے ملازمین کو انتہائی قلیل تنخواہ دیتا تھا اور انہیں گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

    ہندوجا فیملی نے الزامات عائد کرنے والے تین ملازمین کے ساتھ خفیہ طور پر تصفیہ کر لیا ہے، تاہم الزامات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پراسیکیوشن یعنی استغاثہ نے مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔

    پراسیکیوٹر یاویس برتوسا نے پراکاش اور کمال ہندوجا کے لیے ساڑھے پانچ سال سزا کی درخواست کی ہے۔ 78 سالہ پرکاش ہندوجا اور 75 سالہ کمال ہندوجا صحت کی خرابی کی بنیاد پر مقدمے کی سماعت کے دوران غیر حاضر رہے۔

    پراسیکیوٹر نے مذکورہ خاندان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوجا فیملی دنیا کے مصائب پر منافع کما رہی ہے انہوں نے پیسے بچانے کی غرض سے طاقتور آجر ہونے کے ناطے کمزور ملازمین کا فائدہ اٹھایا۔

    ملزمان پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ گھر میں کام کرنے والے عملے کو ماہانہ تنخواہ 220سے 400 فرینکس کے درمیان دی جاتی ہے جو سوئٹزر لینڈ کی کم سے کم اجرت سے بھی بہت زیادہ کم ہے۔

    دوسری جانب ہندوجا خاندان کے وکیل نکولاس نے عدالت کو بتایا کہ تینوں درخواست گزاروں کو ملازمت کے دوران کئی فوائد حاصل ہوئے، انہیں تنہائی میں نہیں رکھا گیا تھا اور انہیں گھر سے باہر جانے کی آزادی بھی حاصل تھی۔

    وکیل نکولاس نے بتایا کہ یہ معاملہ ’غلاموں کے ساتھ برے سلوک‘ کا نہیں ہے۔ ان کے ساتھی وکیل رابرٹ اسائل نے دلائل میں کہا کہ ملازمین ہندوجا خاندان کے شکرگزار ہیں کہ انہیں بہتر زندگی کا موقع دیا۔

  • سکھ کمیونٹی کا جنیوا میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرہ

    سکھ کمیونٹی کا جنیوا میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرہ

    جنیوا: سکھ کمیونٹی نے جنیوا میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سکھ کمیونٹی نے مودی سرکار کے بہیمانہ مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے جینوا میں عالمی برادری سے مدد کی اپیل کر دی ہے۔

    احتجاجی مظاہرہ جنیوا میں اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے کیا گیا، جس کا مقصد سیاسی قیدیوں کی رہائی تھا، واضح رہے کہ اس وقت جنیوا میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ہیڈکوارٹر میں اجلاس جاری ہے، جس میں دنیا بھر سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سفارت کار شریک ہیں۔

    احتجاج کے دوران مظاہرین نے مُودی حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی، شرکا کا کہنا تھا کہ بھارت میں خالصتان کا نام لینے والوں کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر قید کیا جاتا ہے، اور عدالتوں کی جانب سے دی جانی والی سزا کے بعد بھی قیدیوں کو رہا نہیں کیا جاتا۔

    سکھ کمیونٹی کا کہنا ہے کہ جنیوا کنونشن بین الاقوامی قوانین کے خلاف اور سراسر غیر آئینی غیر قانونی ہے، بھارت میں سکھوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ مظالم میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے، عالمی برادری بھارت میں سکھوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر نوٹس لے۔

    سکھ مظاہرین نے مودی حکومت کے خلاف پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، اور ان کا کہنا تھا کہ خالصتان کے قیام تک وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

  • سعودی عرب نے متعدد ایوارڈز جیت لیے

    سعودی عرب نے متعدد ایوارڈز جیت لیے

    ریاض: سعودی عرب نے جنیوا میں نئے منصوبوں کے لیے متعدد ایوارڈز جیت لیے ہیں۔

    عرب نیوز کے مطابق سعودی عرب نے جنیوا میں منعقد ہونے والے انفارمیشن سوسائٹی فورم کے عالمی سربراہی اجلاس میں اپنے نئے منصوبوں کے لیے متعدد ایوارڈز حاصل کیے ہیں۔

    سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مملکت نے ڈیجیٹل انوائرمنٹ اور الیکٹرانک سروسز کیٹیگری میں سمٹ پرائز اور عالمی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کی، جو عالمی سربراہی اجلاس میں ایک نیا عالمی اعزاز ہے۔

    ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ڈائریکٹر جنرل عبدالحمید العلیوی نے کہا کہ سعودی عرب کا ارلی وارننگ سسٹم ڈویلپمنٹ پروجیکٹ 3 کوالیفائنگ مراحل سے گزرا اور اس نے 109 سے زیادہ ممالک سے مقابلہ کیا۔

    سعودی عرب نے وزارت بلدیات اور دیہی امور بلادی پلیٹ فارم اور ڈیجیٹل سٹی پلیٹ فارم کے منصوبوں پر بھی سرٹیفکیٹ حاصل کیے۔

    مملکت نے سعودی ڈیٹا اینڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس اتھارٹی کے ذریعے نیشنل ڈیٹا بینک، یونیورسٹی آف حائل کا نیا ای لرننگ پلیٹ فارم اور نجی شعبے کی جانب سے پیش کردہ حبکہ پروجیکٹ حاصل کیا۔

    ان الگ الگ نئے منصوبوں میں سعودی عرب کی کامیابی نے مملکت کے مجموعی سرٹیفیکیٹس آف ایکسیلنس کی تعداد 35 تک پہنچا دی ہے۔

  • جنیوا میں اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف مشن چیف سے ملاقات ، پروگرام مکمل کرنے کے عزم کا اعادہ

    جنیوا : وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جینوا میں آئی ایم ایف مشن چیف سے ملاقات میں قرض پروگرام پر عملدرآمد کے عزم کو دہرایا۔

    تفصیلات کے مطابق جنیوا میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف مشن چیف ناتھن پورٹرسے ملاقات ہوئی۔

    ملاقات میں پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجوں پرتبادلہ خیال کیا گیا اور وزیرخزانہ نے قرض پروگرام مکمل کرنے کاعزم دہرایا۔

    وزارت خزانہ نے بتایا کہ اسحاق ڈار اور ناتھن پورٹرنے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظرعلاقائی معیشتوں کو درپیش چیلنجوں پر بات کی۔

    اس کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نےعالمی بینک کے نائب صدر مارٹین ریزر سے بھی ملاقات کی، جس میں اسحاق ڈارنے کہا عالمی بینک کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

    آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کو ڈالر کا ایکسچینج ریٹ فری فولٹ کرنا ہوگا اور ایکسچینج ریٹ پر مصنوعی پابندی ختم کرنا ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان نے اگر آئی ایم ایف کا یہ مطالبہ مان لیا تو ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 255 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو رواں سال 30 جون تک پٹرولیم لیوی 855 ارب روپے جمع کرانے کا پلان بھی دینا ہوگا اور ڈیزل پر عائد لیوی بھی 32.5 روپے سے بڑھا کر فوری طور پر 50 روپے لیٹر کرنا ہوگی۔

    ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان ملاقات میں گیس کے شعبے میں 1500 ارب روپے کا سرکلر ڈیٹ ختم کرنے پر بھی بات ہوگی اور سرکلر ڈیٹ کم کرنے کے لیے گیس کے ریٹ مرحلہ وار بڑھانا ہوں گے۔

    آئی ایم ایف ٹیکس آمدن میں 300 ارب روپے کے اضافے کا مطالبہ پہلے ہی کرچکا ہے جب کہ اب پاکستان کو بجلی کے نقصانات کم کرنے کے لیے بجلی کے ریٹ بھی بڑھانے ہوں گے کیونکہ آئی ایم ایف بجلی کا فی یونٹ ریٹ 3.5 روپے بڑھانے کا مطالبہ کرچکا ہے۔

  • پاکستان کا بیشتر حصہ تاحال سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے: بلاول بھٹو

    جنیوا: وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پاکستان کا بیشتر حصہ تاحال سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، ملک میں سیلاب سے تباہ کاریوں کا حجم بہت بڑا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنیوا میں منعقدہ ریزیلینٹ پاکستان کانفرنس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف اور بحالی کا کام جاری ہے، آج اقوام عالم تاریخی تباہی کا سامنا کرنے والے پاکستان سے یکجہتی کے لیے جمع ہوئے ہیں۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ متاثرہ لوگوں کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور یورپی یونین کے سامنے جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ آئندہ آنے والی قدرتی آفات سے بچنے کے لیے پاکستان نےفریم ورک بنایا ہے، سیلاب متاثرین کی بحالی کا آدھا کام پاکستان اپنے وسائل سے کرے گا۔ یہ کانفرنس عالمی برادری کے ساتھ طویل المدتی شراکت داری ہے۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پاکستان کا بیشتر حصہ تاحال سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، پاکستان میں سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، ملک میں ہر 7 میں سے ایک شخص سیلاب سے متاثر ہوا ہے، سیلاب سے تباہ کاریوں کا حجم بہت بڑا ہے۔

    خیال رہے کہ ریزیلینٹ پاکستان ڈونرز کانفرنس کی میزبانی پاکستان اور اقوام متحدہ کر رہے ہیں۔

    کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت مختلف ممالک کے سربراہان، وزرا، اعلیٰ نمائندے، عالمی مالیاتی ادارے، فاؤنڈیشنز، بین الاقوامی ترقیاتی تنظیمیں اور نجی شعبوں، سول سوسائٹی اور آئی این جی اوز کے نمائندے شریک ہیں۔

    ڈونرز کانفرنس کا مقصد پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو ہے، کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا جبکہ پاکستان تعمیر نو اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا فریم ورک پیش کرے گا۔

    کانفرنس میں بین الاقوامی تعاون اور طویل المدتی شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا جائے گا۔

  • سیلاب متاثرین کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھیں گے: وزیر اعظم جنیوا روانہ

    اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف پاکستان ریزیلینٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے جنیوا روانہ ہوگئے، وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں سیلاب زدگان کے نقصانات، بحالی اور تعمیر نو کا فریم ورک سامنے رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف اعلیٰ سطح کے وفد کے ہمراہ اسلام آباد سے جنیوا کے لیے روانہ ہوگئے، وفد میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب بھی شامل ہیں۔

    وزیر اعظم 9 جنوری کو جنیوا میں ڈونرز کانفرنس میں شرکت کریں گے، کانفرنس کی میزبانی پاکستان اور اقوام متحدہ کر رہے ہیں۔

    کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سمیت مختلف ممالک کے سربراہان، وزرا، اعلیٰ نمائندے، عالمی مالیاتی ادارے، فاؤنڈیشنز، بین الاقوامی ترقیاتی تنظیمیں اور نجی شعبوں، سول سوسائٹی اور آئی این جی اوز کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

    ڈونرز کانفرنس کا مقصد پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو ہے، کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں کا بھی جائزہ لیا جائے گا جبکہ پاکستان تعمیر نو اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی بحالی کا فریم ورک پیش کرے گا۔

    کانفرنس میں بین الاقوامی تعاون اور طویل المدتی شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا جائے گا۔

    کانفرنس میں افتتاحی اجلاس کے بعد تعمیر نو اور سیلاب متاثرین کی بحالی میں شراکت کی دستاویز کا آغاز ہوگا، پارٹنر سپورٹ کے اعلانات بھی کیے جائیں گے۔

    روانگی سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ریزیلینٹ پاکستان کانفرنس کے لیے جنیوا روانہ ہو رہا ہوں، سیلاب متاثرین کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان اقدامات پر بھی روشنی ڈالوں گا جو تعمیر نو اور بحالی کے لیے کیے گئے، سیلاب زدگان کے نقصانات، بحالی اور تعمیر نو کا فریم ورک سامنے رکھیں گے۔ فریم ورک کا مقصد سیلاب متاثرین سمیت معیشت کی بحالی کے لیے امداد حاصل کرنا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں انسانیت ایک نہج پر ہے، ہمارے آج کے اقدامات ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کی تشکیل کریں گے، بے مثال تباہی سے متاثر ہونے والے لاکھوں پاکستانی ہمدردی اور امداد کے منتظر ہیں۔

  • جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس، پاکستان امداد کی اپیل کرے گا

    جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنس، پاکستان امداد کی اپیل کرے گا

    اسلام آباد: پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مشترکہ میزبانی میں سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤ سے متعلق کانفرنس ہوگی جس میں پاکستان سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے امداد کی اپیل کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں 9 جنوری کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچاؤ سے متعلق کانفرنس ہوگی، سفارت ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف 9 جنوری کو کانفرنس کا آغاز کریں گے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کو سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے 16.3 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے، نصف رقم کا بندوبست پاکستان اپنے وسائل سے کرے گا جبکہ بقیہ نصف عالمی برادری سے درکار ہے۔

    سفارتی ذرائع کے مطابق جنیوا کی کانفرنس میں کم سے کم خرچ آئے گا، وزیر اعظم نے کم سے کم وفد لے جانے کی ہدایت کی ہے، کانفرنس کے لیے تیار فریم ورک میں رقم کے شفاف استعمال کا طریقہ موجود ہے۔

    کانفرنس میں سرکاری وفد کے سائز کو محدود رکھا گیا ہے۔

    سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ فرانسیسی صدر کانفرنس میں شریک ہوں گے، پاکستان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری مشترکہ میزبانی کر رہے ہیں، کانفرنس میں چاروں صوبوں سے نمائندگی ہوگی۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ سیلاب کے فوری بعد 800 ملین ڈالرز کی فوری اپیل پر ڈھائی ملین ڈالرز ملے تھے۔

  • فلسطین: تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں…

    فلسطین: تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں…

    انتظار حسین کے افسانے’’ شرمُ الحرم‘‘ کے مرکزی کردار کی نیند اُڑ گئی ہے۔ وہ آنکھیں بند کرتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے جیسے وہ بیتُ المقدس میں ہے اور لڑ رہا ہے۔

    انتظار حسین کا یہ کردار ہماری قوم کا ضمیر ہے۔ ہماری قوم جو گزشتہ نصف صدی سے بیتُ المقدس میں ہے اور لڑ رہی ہے، اقبال اس محاذ کے مجاہدِ اوّل تھے۔ وہ آزادیٔ فلسطین کے محاذ پر عربوں سے بھی پہلے پہنچے۔ اقبال نے اس جنگ کو اپنی قومی آزادی کی جنگ کا اٹوٹ سمجھا اور اس کی تہ در تہ معنویت کو آشکار کیا۔ ان کے نزدیک فلسطین کی آزادی اتنی اہمیت رکھتی تھی کہ دسمبر 1931ء میں وہ عالمِ اسلام کے نمائندوں کی کانفرنس میں شرکت کی خاطر لندن میں ہندی مسلمانوں کی آزادی کے مذاکرات کو ادھوڑا چھوڑ کر بیتُ المقدس جا پہنچے تھے۔

    اقبالؔ نے اقوامِ مشرق کو اس جہانِ پیر کی موت کی بشارت ہی نہ دی تھی جسے فرنگ نے قمار خانہ بنا رکھا تھا بلکہ آزادی کی منزل سَر کرتے ہوئے مشرق کو مغرب کے نو آبادیاتی اور سامراجی عزائم سے خبردار بھی کیا تھا۔ اقبال کی زندگی کا نصف آخر مشرق اور بالخصوص اسلامی مشرق کو مغرب کی تہذیبی اور سیاسی استعمار سے نجات کی راہیں سمجھانے اور اپنی خودی کی پرورش کی ترغیب دینے میں صرف ہوا۔ اپنی زندگی کے آخری چند برسوں میں اقبال کو تقسیمِ فلسطین کے تصوّر نے مسلسل بے چین رکھا۔

    اقبال نے اُس وقت سے ہی فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کردی تھیں جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال نے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز ہر دو سے کام لیا مگر برطانیہ اور دنیائے عرب میں رائے عامّہ کی بیداری اور کل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا اور بالآخر فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ نافذ ہو کے رہا۔ اقبال کے خیال میں یہ مسئلہ یہودیوں کے لیے وطن کی تلاش کی خاطر ایجاد نہیں کیا گیا بلکہ در حقیقت یہ مشرق کے دروازے پر مغربی سامراج کے فوجی اڈے کی تعمیر کا شاخسانہ ہے۔ وہ اسے عالمِ اسلام کے قلب میں ایک ناسور سے تعبیر کرتے ہیں:

    رندانِ فرانسیس کا مے خانہ سلامت
    پُر ہے مئے گلرنگ سے ہر شیشہ حلب کا
    ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
    ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا؟
    مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اور
    قصہ نہیں نارنج کا یا شہد و رَطَب کا!

    رائل کمیشن کی رپورٹ میں تقسیمِ فلسطین کی تجویز نے اقبال کو اس قدر مضطرب کیا کہ رپورٹ کے شائع ہوتے ہی اقبال نے لاہور کے موچی دروازے میں ایک احتجاجی جلسۂ عام کا اہتمام کروایا۔ اس اجتماع میں اقبال کا جو بیان پڑھا گیا وہ سیاسی بصیرت اور پیش بینی کی بدولت دنیائے اسلام کی جدید سیاسی فکر میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔ اس بیان میں اقبال نے مغربی سامراج کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام کو خود احتسابی کا درس بھی دیا ہے، وہ اس المیے کو دو بڑی عبرتوں کا آئینہ دار بتاتے ہیں۔ اوّل یہ کہ دنیائے اسلام کی سیاسی ہستی کی بقا کا راز عربوں اور ترکوں… عرب و عجم کے اتحاد میں مضمر ہے اور دوّم یہ کہ:

    ’’عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں کیونکہ بہ حالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔‘‘

    اقبال کا یہ بیان تحریکِ آزادیٔ فلسطین کو عرب بادشاہوں کی مسندِ اقتدار سے متصادم دیکھتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کو موجودہ عالمی اداروں سے برگشتہ کر کے بالآخر اپنی علیحدہ جمعیتِ اقوام کے قیام کے امکانات پر غور کرنے پر مجبور کر دے گا:

    تہران ہو اگر عالمِ مشرق کا جنیوا
    شاید کرۂ اَرض کی تقدیر سنور جائے

    اقبال نے عرب عوام کو عرب بادشاہوں سے بیزاری کا درس صرف اپنی سیاسی تحریروں میں ہی نہیں دیا بلکہ جمالِ فن سے بھی اس درس کو دل نشین بنایا ہے:

    یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
    گلیمِ بو ذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا

    پیرِ حرم تو حفظِ حرم کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال چکا ہے، اس لیے اب اقبال کی آخری امید عرب عوام ہیں جن سے اقبال یوں مخاطب ہیں:

    زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
    میں جانتا ہوں وہ آتش ترے وجود میں ہے
    تری دوا نہ جنیوا میں ہے نہ لندن میں
    فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے
    سنا ہے میں نے غلامی سے اُمتوں کی نجات
    خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے

    مگر اقبال کی آواز صدا بہ صحرا ثابت ہوئی اور ہماری طرح دنیائے عرب بھی اپنی خودی کی پرورش سے کہیں زیادہ غیر کے دست و بازو پر ناز کرتی رہی۔ نتیجہ یہ کہ فروری 1949ء کی پسپائی نے اسرائیل کو قدموں تلے روند ڈالنے اور صفحۂ ہستی سے مٹا کر دَم لینے کے نعروں کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ اس شکست نے مصر میں شہنشاہیت کے خلاف فوجی انقلاب کو ممکن بنایا اور صدر ناصر کی زیرِ قیادت تمام عرب دنیا میں انقلاب کی صدائیں گونجنے لگیں۔ برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ یلغار کے مقابلے میں مصر کی ثابت قدمی اور کامرانی نے غریب عوام کو وہ اعتمادِ ذات اور غرورِ نفس بخشا جو، ن م راشد کی نظم ’’دل مرے صحرا نوردِ پیر دل‘‘ میں جلوہ گر ہے۔ ریگِ صحرا میں تمناؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب بیٹھ کر راشد اپنے ہم نفسوں سے یوں مخاطب ہیں:

    سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو!
    شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
    ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے ’’شکوہ ہائے نے‘‘ سے وہ
    ریت کی تہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
    جاگ اٹھی ہے حرّیت کی لَے سے وہ
    ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
    ریگِ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
    دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ!
    ریگ ہر عیار غارت گر موت کی!
    ریگ استبدار کے طغیاں کے شور و شر کی موت
    ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
    ریگ کے نیزوں سے زخمی سب شہنشاہوں کے خواب
    ریگ، اے صحرا کی ریگ
    مجھ کو اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی
    نئی تعبیر دے

    سوئز کے بحران کے گرد و پیش عرب بیداری کی بلند لہر سے وابستہ توقعات کے پس منظر میں جون 67ء کی جنگ میں عربوں کی آناً فاناً شکست نے ہمارے تخلیقی فن کار کی انا کو شدید چوٹ لگائی اور وہ منظور عارف کا ہم زباں ہو کر چیخ اٹھا:

    میں نے دیکھا، نہیں محسوس کیا ہے
    پھر بھی اک درد کی شدت ہے میرے سینے میں
    شکل کیا دیکھوں کئی داغ ہیں آئینے میں (آئینے کے داغ)

    اپنے داغ داغ چہرے اور اپنی زخم زخم ہستی کا اندمال اُسے اسلام کی انقلابی روح کی بازیافت میں نظر آیا اور یوں اس کی انسان دوستی کا رخ نمایاں طور پر اسلامی ہوگیا۔ اس کے ذہن کی گہرائیوں میں ہلچل مچانے والے سوال کو ابنِ انشاؔ نے یوں لب گویا عطا کیا:

    ’’آدھی دُنیا سوشلسٹ ہوچکی ہے اور باقی آدھی آزاد اور خود مختار…اور یہ سب مل کر اقوامِ متحدہ کے ایوانوں پر حاوی۔ لیکن ان کی مجموعی مادّی اور اخلاقی قوّت اسرائیل کی جارحیت کے معاملے میں صرف ایک بڑے اور امیر ملک کے ویٹو اور دھونس کی وجہ سے بیکار ہو کر رہ گئی ہے۔ بیروت کے تل زعتر کیمپ سے خاک و خون میں لتھڑے ہوئی عرب کی فغاں اٹھ رہی ہے اور کوئی سننے اور دست گیری کرنے والا نہیں۔‘‘

    اس ظلم پر ضمیر عالم خاموش کیوں ہے؟ انسان دوستی اور امن پسندی کے علم بردار دانشور مسلمانوں کو انسان کیوں نہیں سمجھتے ہو؟ اور خود مسلمان ویت نامی حرّیت پسندوں کا طرزِ عمل کیوں نہیں اپناتے؟ بیچارگی، تنہائی اور بے عملی کے اس صحرا میں ہمارے ادب نے اسلامی تاریخ سے توانائی اخذ کرنے کی ٹھانی:

    رن سے آتے تھے تو باطبلِ ظفر آتے تھے
    ورنہ نیزوں پہ سجائے ہوئے سَر آتے تھے

    اور….
    ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
    راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصی تیرا
    (احمد ندیم قاسمی)

    فیض احمد فیض صحرائے سینا میں گرم معرکۂ کار زار میں خدا کا جلوہ دیکھتے ہیں اور حرّیت پسندوں کی سرفروشی اور جاں سپاری کو قرآنی اور صوفیانہ استعاروں میں بیان کرتے ہیں:

    پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا
    پھر رنگ پہ ہے شعلۂ رخسارِ حقیقت
    پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
    اے دیدۂ بینا
    اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
    اب قاتلِ جاں چارہ گرِ کلفتِ غم ہے!
    گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
    پندارِ جنوں
    حوصلہ راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے!
    پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیٔ سینا، اے دیدۂ بینا

    آزمائش و ابتلا کی اس گھڑی میں فیضؔ اہلِ ایمان کے پندارِ جنوں کو پکارتے ہیں:

    پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
    مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
    اب رسمِ ستم حکمتِ خاصانِ زمیں ہے
    تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیٔ دیں ہے
    اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
    لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے

    یہ رجائیت اُس رومانی انقلابیت سے پھوٹی ہے ، جس کی جڑیں حقیقت کی سرزمین میں زیادہ گہری نہیں ہیں اور جس پر مجھے فلسطینی شاعرہ فَدویٰ طوقان کی ڈائری کا ایک ورق یاد آتا ہے:

    ’’عرب رجعت پسندی روز بروز قوت پکڑ رہی ہے۔ اس کی وجہ وہ دولت ہے جو ریگ زاروں سے پھوٹ نکلی ہے … اور عرب ترقی پسندی ہنوزِ عالمِ طفلی میں ہے۔ اس کی عقل ابھی خام ہے لیکن اس کی زبان کافی دراز ہے۔‘‘

    عرب ترقی پسندی کے باب میں ہماری رومانی تصوریت کو حقیقت آشنا کرنے کا فریضہ تنقید، تراجم اور سفر ناموں نے سر انجام دیا ہے۔ جدید عربی اور ہم عصر فلسطینی ادب کے تنقید و تجزیہ اور ترجمہ و تعارف کا کام محمد کاظم نے جس دقّتِ نظر اور جس جرأتِ فکر کے ساتھ سر انجام دیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ محمد کاظم کے زیرِ اثر ادیبوں کا ایک پورا گروہ فلسطینی ادب کے تراجم میں مصروف ہے اور احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، محمود شام، منو بھائی، کشور ناہید اور اظہر سہیل وغیرہ کے تراجم نے اردو میں مزاحمتی ادب کا ایک نیا دبستان کھول دیا ہے۔ اس دبستان کی بدولت نغمۂ حرّیت کی لَے ہمارے دلوں کو گرما رہی ہے اور ہمارے ذہنوں کو فلسطینی طرزِ فکر و احساس سے آشنا کر رہی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا سفر نامہ’’ خانہ بدوش‘‘ اور مظہر الاسلام کا افسانہ ’’ زمین کا اغوا‘‘ پڑھنے کے بعد ابن انشا کا یہ سوال اور زیادہ شدت کے ساتھ ذہن کو تہہ و بالا کرنے لگتا ہے:

    اور….. اہل عرب
    جن کے اجداد نے
    شرق سے غرب تک
    شہسواری بھی کی، تاجداری بھی کی
    شہر و صحرا میں آواره و بے وطن ہیں
    حیفہ و جافہ و ناصره کے مکیں
    سالہا سال سے بے مکاں سَر فشاں
    دشت بھی غیر کا، شہر بھی غیر کا
    بحر بھی غیر کا
    اے خداوندِ افلاکیاں خاکیاں
    کیا عرب کو بھی آوارہ ہونا پڑے گا
    یعنی صدیوں تلک
    یوں ہی دیوارِ گریہ پہ رونا پڑے گا؟
    (دیوارِ گریہ)

    یہ تو ہے اس المیے کی انسانی سطح مگر اس بربادی کی ایک اس سے بھی برتر سطح ہے ۔ یہ سطح اس ظلم کی اسلامی معنویت سے عبارت ہے۔ اس معنویت کو انتظار حسین نے اپنی کہانیوں میں معجزۂ فن بنایا ہے۔

    (اقتباسات: فلسطین… اُردو ادب میں، از پروفیسر فتح محمد ملک)

  • مودی کا بھارت انسانی حقوق کے حوالے سے جہنم ہے: پاکستانی سفارت کار

    مودی کا بھارت انسانی حقوق کے حوالے سے جہنم ہے: پاکستانی سفارت کار

    جنیوا: سوئٹزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں بھارتی مندوب کے الزامات پر پاکستانی سفارت کار سمیر گل نے کرارا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مودی کا بھارت جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے حوالے سے جہنم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کا 47 واں اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں بھارتی مندوب کے الزامات پر پاکستانی سفارت کار سمیر گل نے کرارا جواب دیا۔

    سمیر گل کا کہنا تھا کہ مودی کا بھارت جمہوریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے حوالے سے جہنم ہے، مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔

    پاکستانی سفارت کار نے کہا کہ بھارت جھوٹ کا سہارا لے کر انسانی حقوق کی صورتحال سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے، مودی، امیت شاہ اور یوگی کے ہاتھ معصوموں کے خون سے رنگے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ گجرات سے دہلی تک معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا، یو این ہائی کمشنر بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔

  • بائیڈن اور ولادی میر کی پہلی ملاقات

    بائیڈن اور ولادی میر کی پہلی ملاقات

    واشنگٹن: امریکی اور روسی صدور کی پہلی ملاقات طے ہو گئی، وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ 16 جون کو سوئٹزرلینڈ میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن سربراہی اجلاس کے انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی، منگل کو وائٹ ہاؤس نے تصدیق کی کہ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس اور کریملن نے مل کر انتظامات طے کر لیے ہیں۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ دونوں صدور کی پہلی ملاقات 16 جون کو جنیوا میں ہوگی، دونوں رہنما اہم امور پر تبادلہ خیال کریں گے، نیز دونوں ممالک تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔

    وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنما تمام سلگتے مسائل پر بات چیت کریں گے، کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ امریکا اور روس کے تعلق میں استحکام اور شفافیت بحال ہو۔

    کریملن نے اپنے بیان میں کہا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ تزویراتی استحکام کی مشکلات، اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ایجنڈے پر موضوعاتی امور، بشمول کرونا وبا کے خلاف جنگ میں باہمی تعامل، اور علاقائی تنازعات کے حل کے سلسلے میں روسی امریکی تعلقات میں مزید بہتری کے امکانات پر گفتگو کی جائے۔

    یہ متوقع طویل ملاقات بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلے بین الاقوامی سفر کے اختتام پر ہوگی، حکام نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو رواں ہفتے اپنے روسی ہم منصب سے ملاقات کے لیے جنیوا بھیجا تھا، تاکہ ملاقات کے سلسلے میں تفصیلات کو حتمی شکل دی جا سکے۔

    جنیوا میں یہ ملاقات کس مقام پر ہوگی، اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا، ان کا کہنا تھا کہ جب تک تمام تر تفصیلات طے نہیں ہو جاتیں، وہ اس پر کچھ نہیں بتا سکتے۔