Tag: جوبائیڈن

  • نینسی پلوسی کے شوہر پر ہتھوڑے سے حملہ، امریکی صدر کا رد عمل

    نینسی پلوسی کے شوہر پر ہتھوڑے سے حملہ، امریکی صدر کا رد عمل

    واشنگٹن: نینسی پلوسی کے شوہر پر ہتھوڑے سے حملے کے معاملے پر امریکی صدر نے کہا ہے کہ سیاست میں نفرت آمیز حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق صدر جو بائیڈن نے امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے شوہر پر حملے کی شدید مذمت کی ہے، انھوں نے کہا کہ سیاست میں نفرت آمیز حملے برداشت نہیں کیے جائیں گے۔

    سان فرانسسکو میں حملہ آور نے صبح کے وقت گھر میں گھس کر پال پلوسی پر ہتھوڑے سے حملہ کیا تھا، امریکی میڈیا کے مطابق 82 سالہ پال پلوسی کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

    حملے کی خبر آنے کے بعد نینسی پلوسی واشنگٹن سے سان فراننسکو پہنچ گئی ہیں، دوسری طرف حملہ آور پولیس کی حراست میں ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے۔

    اسپیکر امریکی ایوان نمائندگان نینسی پلوسی کے شوہر پر قاتلانہ حملہ

    بی بی سی کے مطابق اسپیکر نینسی پلوسی کے شوہر پال پلوسی حملے کے بعد سرجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں، ہتھوڑے سے مارے جانے کی وجہ سے ان کی کھوپڑی کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی، اور ان کے دائیں بازو اور ہاتھ پر شدید چوٹیں آئیں۔

    حملہ آور نے گھر میں گھسنے کے بعد نینسی پلوسی سے ملنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    صدر جو بائیڈن نے اس حملے کو سیاسی تناظر میں دیکھا اور اسے ’قابل نفرت‘ قرار دیا۔ حملے کے وقت نینسی پلوسی واشنگٹن ڈی سی میں تھیں، وہ اپنے شوہر کو اسپتال میں دیکھنے کے لیے واپس چلی گئیں۔

  • وائٹ ہاؤس نے جوبائیڈن کے بیان کو معمول کی بات قرار دے دیا

    وائٹ ہاؤس نے جوبائیڈن کے بیان کو معمول کی بات قرار دے دیا

    واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے جوبائیڈن کے بیان کو معمول کی بات قرار دے دیا، پریس سیکریٹری کرین ژاں پیئر نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے جوہری اثاثوں سے متعلق امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان پر وائٹ ہاؤس پریس سیکریٹری کا ردِ عمل سامنے آ گیا۔

    واشنگٹن میں بریفنگ کے دوران کرین ژاں پیئر نے صدر بائیڈن کے پاکستان سے متعلق بیان کے سوال پر کہا ’میرے سامنے ایسا کوئی بیان نہیں آیا، یہ بات نئی نہیں ہے، امریکی صدر پہلے بھی یہ تبصرہ کر چکے ہیں۔‘

    انھوں نے کہا امریکی صدر محفوظ اور خوش حال پاکستان چاہتے ہیں، محفوظ اور خوش حال پاکستان امریکا کے مفاد کے لیے اہم ہے۔

    پاکستان نے جوبائیڈن کے بیان پر امریکی سفیر سے وضاحت طلب کرلی

    واضح رہے کہ پاکستان نے امریکی صدر جو بائیڈن کے پاکستانی ایٹمی اثاثوں سے متعلق گمراہ کُن بیان پر پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے وضاحت طلب کر لی ہے، وزارت خارجہ نے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے جوبائیڈن کے بیان پر سخت الفاظ میں مذمت کی اور احتجاجی مراسلہ تھمایا۔

    امریکی صدر نے ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی میں خطاب کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے کیوں کہ اس کا ایٹمی پروگرام بے ترتیب ہے۔

  • ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، امریکی صدر

    ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، امریکی صدر

    جدہ: امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سعودی عرب کے دورے کے دوران امریکی صدر جوبائیڈن نے جدہ میں عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی سے ملاقات کی، جس میں امریکی صدر نے ایران، سعودی عرب مذاکرات کی میزبانی کی عراقی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے

    ملاقات کے بعد عراقی وزیراعظم مصطفی الکاظمی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ عراق میں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں، چاہتا ہوں آپ اور میڈیا یہ بات جان لیں کہ ہم مددگار بننا چاہتے ہیں۔

    دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن کی مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی ملاقات ہوئی، جس میں جوبائیڈن نے گزشتہ سال اسرائیل، حماس جنگ بندی میں مصر کے کردار پر شکریہ ادا کیا۔

    امریکی صدر نے کہا کہ مصر کے ساتھ تمام ایشو پر کام کرنے کیلئے تیار ہیں، ایران کو جوہری توانائی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ایران کی جوہری سرگرمیاں خطے کی امن وسلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

  • جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن کی ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں

    جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن کی ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں

    واشنگٹن: جو بائیڈن اور ولادی میر پیوٹن نے ایک دوسرے کو فون پر دھمکیاں دی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرین کے معاملے پر امریکا اور روس نے ایک دوسرے کو وارننگ دے دی ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب کو خبردار کیا کہ یوکرین پر کسی بھی حملے کی صورت میں سخت ردعمل سامنے آئے گا۔

    صدر ولادی میر پیوٹن نے امریکی صدر کو کہا کہ ماسکو کے خلاف کسی بھی قسم کی پابندیاں ایک سنگین غلطی ہوگی۔

    عالمی میڈیا کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی پر جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن میں ٹیلیفون پر پچاس منٹ تک بات ہوئی۔

    امریکی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بتایا کہ صدر بائیڈن نے روسی ہم منصب پر واضح کیا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ماسکو کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔

    جب کہ پیوٹن نے اپنے امریکی ہم منصب کو خبردار کیا کہ یوکرین کے معالے پر نئی پابندیاں عائد کرنے سے تعلقات میں مکمل خرابی پیدا ہو سکتی ہے۔

  • امریکا سے دوطرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے، ایرانی وزارت خارجہ

    امریکا سے دوطرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے، ایرانی وزارت خارجہ

    ویانا : آج سے آسٹریا میں ایران کے عالمی طاقتوں کیساتھ جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے تاہم ایران نے امریکا سے دوطرفہ مذاکرات کا امکان مسترد کردیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایران اور امریکا کے تعلقات مذاکرات کی میز پر بھی سرد مہری کا شکار ہیں، یورپی یونین کے رکن ملک آسٹریا میں آج 29 نومبر سے چھ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کیلئے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کا آغاز ہورہا ہے۔

    ان مذاکرات میں برطانیہ، روس، ایران، چین، فرانس اور جرمنی شامل ہوں گے جب کہ امریکا بالواسطہ مذاکرات کا حصّہ ہوگا۔

    مذاکرات سے متعلق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب نے واضح کیا ہے کہ جوہری معاہدے کےلیے ہونے والی ملاقات میں امریکی وفد کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوں گے۔

    خیال رہے کہ سخت گیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور حکومت میں ایران کیساتھ 2015 میں ہونے والا جوہری معاہدہ یک طرفہ طور پر 2018 میں منسوخ کرکے دوبارہ پابندیاں عائد کردی تھیں۔

    امریکا کی جانب سے معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران نے بھی معاہدے پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

  • بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن پر اس حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ انھوں‌ نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے 31 اگست تک فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے تیزی سے افغانستان کے صوبوں پر قبضہ کیا اور کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، جس پر ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیوں صدر بائیڈن نے گرائی گئی حکومت کی حفاظت کے لیے کابل میں 2500 فوجی نہیں چھوڑے؟

    فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب جو بائیڈن نے جنوری میں عہدہ سنبھالا تو افغانستان میں‌ اتنے ہی فوجی موجود تھے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تعداد 15 ہزار سے کم کی تھی۔

    بظاہر کابل میں 2500 فوجی اور 16 ہزار سویلین کنٹریکٹرز موجود تھے، 29 فروری 2020 کو سابق امریکی صدر کے طالبان سے انخلا کے معاہدے کے بعد یہ فوجی افغان حکومت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کافی تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف حملے نہیں ہوئے اور ایک بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

    ‘کابل میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہو سکتی ہے’

    ناقدین کے مطابق اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی کم تعداد بھی کابل کو طالبان کے خلاف مضبوط رکھ سکتی تھی، ریپبلکن سینیٹر میکونل کا کہنا ہے کہ ہمارے 2500 فوجی وہاں موجود تھے، افغانستان سے نکلنے کی بجائے جو بائیڈن افغان فوجوں کی مدد میں اضافہ کر سکتے تھے، اگر ہم طالبان کو افغانستان پر غالب آنے دیں اور القاعدہ واپس آئے تو عالمی سطح پر جہادی تحریک پر اس کا اثر ہوگا۔

    فوجی تاریخ دان میکس بوٹ نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ اگر امریکا 2500 فوجی چھوڑتا اور فضائی مدد افغان فوجیوں کو فراہم کرتا تو توازن برقرار رہتا، طالبان صرف دور دراز علاقوں میں پیش قدمی کرتے، اور حکومتی عمل داری قائم رہتی۔

  • امریکا میں سابق صدور کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟

    امریکا میں سابق صدور کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے؟

    یہ درست ہے کہ امریکا ہر لحاظ سے دنیا پر اپنی برتری ثابت کرنے کے جنون میں‌ مبتلا ہے۔

    امریکا دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا دعویٰ دار تو ہے ہی، لیکن خود کو جمہوریت کا ‘چیمپئن’ بھی سمجھتا ہے جسے اس کے مخالف ترقّی یافتہ اور طاقت وَر ممالک تسلیم نہیں کرتے، مگر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے جمہوری نظام اور طرزِ حکومت و سیاست میں چند ایسی خوبیاں بھی ہیں جو لائقِ توجّہ اور دنیا بالخصوص ترقّی پذیر ممالک کے لیے مثال ہیں۔

    پاکستان جیسے ممالک میں‌ ‘جمہوریت’ تو ہے، مگر ملکی تاریخ میں جمہوریت کے لطف و حُسن کا مظاہرہ اور اس کی مثال شاذ ہی ملتی ہے۔ یہ بات آپ کی دل چسپی اور توجّہ کا باعث بنے گی کہ امریکا میں سابق صدور کو نہ صرف سیاسی بصیرت کا حامل اور دانش مند تصوّر کیا جاتا ہے بلکہ ملکی سلامتی اور قوم کے وسیع تر مفاد میں‌ ان کے مشوروں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔

    ملکی اور عالمی سطح کے مختلف امور پر سابق صدور سے سیاسی مشاورت اور ان کے تجربے سے استفادہ کرنا امریکی جمہوریت کا حُسن ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں سابق صدور کو بھی قومی سلامتی کے امور پر باخبر رکھتے ہوئے اس ضمن میں‌ باقاعدہ بریفنگ دی جاتی ہے۔

    امریکا کے جمہوری کلچر میں ضرورت محسوس کرنے پر صدر کی جانب سے متعلقہ عملہ سابق صدر سے رابطہ کرکے کسی بھی اہم معاملے میں‌ مشاورت کرسکتا ہے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ملکی مفاد میں سابق صدر ضروری سمجھے تو امریکی صدر سے رابطہ اور ملاقات کرکے بھی اپنی رائے اور مشورہ اس تک پہنچا سکتا ہے۔

  • کرونا وائرس: امریکا نے بھارت پر اہم پابندی عائد کر دی

    کرونا وائرس: امریکا نے بھارت پر اہم پابندی عائد کر دی

    واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت پر سفری پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کر لیا، ترجمان وائٹ ہاؤس نے اس سلسلے میں جاری بیان میں کہا ہے کہ بھارت پر فوری سفری پابندی عائد کی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ بھارت پر سفری پابندی عائد کی جا رہی ہے، جس کا آغاز 4 مئی سے ہوگا، یہ فیصلہ سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کی ہدایت پر کیا گیا ہے۔

    ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق پابندی کا فیصلہ بھارت میں کرونا وبا کی شدت کے باعث کیا گیا ہے، واضح رہے کہ امریکا پہلے ہی بھارت کے لیے لیول 4 ٹریول ایڈوائزری جاری کر چکا ہے۔

    مودی کی غلط پالیسیاں: آکسیجن کے بعد ویکسین کی بھی قلت

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ بھارت سے امریکا آنے والی تمام پروازوں پر پابندی ہوگی، امریکی شہریوں اور مستقل رہائش کا اجازت نامہ رکھنے والوں کو 4 مئی تک کی مہلت ہوگی، اس کے بعد کسی کو بھارت سے امریکا آنے کی اجازت نہیں ہوگی، نہ ہی بھارت سے کوئی پرواز امریکا آنے دی جائے گی۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ 4 مئی تک بھارت سے آنے والے امریکیوں کو منفی کرونا ٹیسٹ رپورٹ دکھانا ہوگی۔

  • امریکی پابندیوں پر روس کا ردِ عمل

    امریکی پابندیوں پر روس کا ردِ عمل

    واشنگٹن: امریکا نے روس کے 32 افراد اور کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جب کہ 10 سفارت کاروں کو امریکا سے بے دخل کر دیا گیا ہے، روس نے ان اقدامات کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے روس پر پابندیوں کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کر دیا، بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر روس ہماری جمہوریت میں مداخلت سے نہ رکا تو مزید کارروائی کریں گے۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بطور صدر روس کے خلاف کارروائی ان کی ذمہ داری تھی، امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن نے رواں ہفتے روسی صدر کو ملاقات کی پیش کش بھی کی تھی۔

    دوسری طرف روسی وزارت خارجہ نے امریکی اقدامات کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کر دیا ہے، کریملن کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے بعد صدور کی ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی انتخابات میں مداخلت، ہیکنگ اور کریمیا پر ‏غیر قانونی تسلط کے الزامات پر امریکا نے روس پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی ہیں، امریکا نے گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں مداخلت اور وفاقی ایجنسیوں کی ہیکنگ کے لیے کریملن کو ‏جواب دہ اور قصور وار ٹھہرایا ہے۔

  • خادم حرمین شریفین اور جو بائیڈن کا پہلا رابطہ، اہم فیصلہ

    خادم حرمین شریفین اور جو بائیڈن کا پہلا رابطہ، اہم فیصلہ

    ریاض: خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان پہلا رابطہ ہوا ہے، جس میں دو طرفہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور شفاف بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کے شاہ سلمان اور امریکا کے صدر جو بائیڈن کے درمیان جمعرات کو پہلی مرتبہ ٹیلی فونک رابطہ ہوا، جس میں علاقائی اور عالمی استحکام پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    ٹیلی فونک رابطے میں دونوں رہنماؤں نے گہرے تاریخی تعلقات کے تناظر میں دونوں ملکوں کے درمیان پارٹنرشپ کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔

    سعودی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کی رپورٹ کے مطابق شاہ سلمان نے جو بائیڈن کو امریکا کے صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی، رہنماؤں نے بات چیت میں خطے کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا اور مشترکہ مفاد کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا۔

    جو بائیڈن نے یمن میں معاہدے اور جنگ بندی تک پہنچنے کے لیے اقوام متحدہ کی کوششوں کے لیے مملکت سعودی عربیہ کے حمایت کو سراہا۔

    شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب یمن میں جامع سیاسی حل تک پہنچنے کا آرزو مند تھا تاکہ یمنی عوام کو سلامتی اور ترقی حاصل ہو سکے۔

    ادھر وائٹ ہاؤس کے ایک بیان مں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر نے شاہ سلمان سے کہا کہ وہ جتنا ممکن ہو سکے دو طرفہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ مضبوط اور شفاف بنانے کے لیے کام کریں گے۔