Tag: جوتے

  • امریکی ایئر پورٹس پر مسافروں کے جوتے اتروانے کی پالیسی کے حوالے سے بڑی خبر

    امریکی ایئر پورٹس پر مسافروں کے جوتے اتروانے کی پالیسی کے حوالے سے بڑی خبر

    ورجینیا: امریکی ایئر پورٹس پر مسافروں کے جوتے اتروانے کی پالیسی ختم کر دی گئی۔

    روئٹرز کے مطابق محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے منگل کو اعلان کرتے ہوئے امریکی ایئر پورٹس پر مسافروں سے جوتے اتروائے جانے کی غیر مقبول پالیسی کو ختم کر دیا۔

    ٹرانسپورٹیشن سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن اب مسافروں سے امریکی ہوائی اڈوں پر سیکیورٹی چیکنگ کے دوران جوتے نہیں اتروائے گی، ٹی ایس اے کی جانب سے مسافروں کی اسکریننگ کے دوران اس مطالبے پر تقریباً 20 برسوں سے عمل کیا جا رہا تھا۔

    اس نئی پالیسی کا منگل سے ملک بھر میں نفاذ شروع ہو گیا ہے، کرسٹی نوم نے کہا کہ توقع ہے کہ اس تبدیلی سے مسافروں کے انتظار کے اوقات میں کافی حد تک کمی ہو جائے گی، اور مسافروں کو بھی زیادہ خوش گوار تجربہ ملے گا۔


    ٹرمپ انتظامیہ کو ملازمین کی چھانٹیوں کی اجازت مل گئی


    یاد رہے کہ ٹی ایس اے نے اگست 2006 میں مسافروں کو جوتے اتار کر چیک کرانے کی پالیسی شروع کی تھی تاکہ جوتوں میں چھپے ہوئے دھماکا خیز مواد کی تلاشی لی جا سکے۔ یہ پالیسی 9/11 کے حملوں کے تقریباً 5 سال بعد اُس وقت نافذ کی گئی جب رچرڈ ریڈ، جسے ’’شوز بمبار‘‘ کہا جاتا ہے، نے پیرس سے میامی جانے والی پرواز میں اپنے جوتوں میں چھپے بارودی مواد کو ماچس کی مدد سے اڑانے کی کوشش کی تھی۔

    یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ٹرانسپورٹیشن کے مطابق مالی سال 2023 میں 10 ملین سے زیادہ پروازوں میں 1 ارب سے زیادہ مسافروں نے امریکی ہوائی اڈوں سے اڑان بھری۔

    نوم نے ورجینیا کے آرلنگٹن میں واقع رونالڈ ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس میں کہا: ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم امریکی مسافروں اور ہمارے ملک آنے والے دیگر افراد کو مہمان نوازی فراہم کرتے ہوئے مسافروں اور اپنے وطن کی سلامتی کے اسی معیار کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘‘

    کرسٹی نوم نے سیکیورٹی ٹیکنالوجی اور طریقۂ کار میں ہونے والی پیش رفت کو اس پالیسی کو ختم کرنے کی وجہ قرار دیا، لیکن یہ بھی کہا کہ بعض افراد سے اب بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے جوتے اُتاریں ’’اگر ہمیں لگے کہ مزید جانچ کی ضرورت ہے۔‘‘

    2013 میں ٹی ایس اے نے ’’پری چیک ٹرسٹڈ ٹریولر پروگرام‘‘ بھی شروع کیا تھا، جس میں خاص مسافروں کو اپنے جوتے اُتارنے کی شرط سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ 12 سال سے کم عمر کے بچے اور 75 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بزرگ بھی جوتے اُتارنے کی شرط سے مستثنیٰ ہیں۔

  • کھیڑی والی اور تلے والی جوتی کی شہرت سرحد پار بھی جا پہنچی ہے، ویڈیو رپورٹ

    کھیڑی والی اور تلے والی جوتی کی شہرت سرحد پار بھی جا پہنچی ہے، ویڈیو رپورٹ

    ویڈیو رپورٹ: محمد عرفان مغل

    ڈیرہ اسماعیل خان… ایک ایسا تاریخی شہر، جو اپنی ثقافت، روایات کے ساتھ ساتھ دستکاری کے انمول فن کا امین ہے، یہاں کے ہاتھ سے بنے جوتے اپنی بناوٹ، دل کشی اور پائیداری کے سبب ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ہاتھ سے بنے یہ جوتے فن اور مہارت کا وہ شاہکار ہیں جو صدیوں پرانی روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ مقامی طور پر ’’کھیڑی والی جوتی‘‘ اور ’’تلے والی جوتی‘‘ کے نام سے پہچانے جانے والے یہ جوتے اپنی مضبوطی، نفاست اور آرام دہ ساخت کے باعث پورے ملک میں مقبول ہیں، بلکہ ان کی شہرت سرحد پار بھی جا پہنچی ہے۔

    یہ جوتے محض فیشن کا حصہ نہیں بلکہ ہماری ثقافت کی پہچان ہیں، جو نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے، بدقسمتی سے مشینی دور نے اس نایاب ہنر کو محدود کر دیا ہے، اور اب صرف چند ماہر کاریگر ہی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ دیدہ زیب جوتے ہر عمر کے افراد میں یکساں مقبول ہیں۔ خواتین کے لیے خصوصی ڈیزائن بھی تیار کیے جاتے ہیں، جو ان کی شخصیت کو مزید جاذبِ نظر بنا دیتے ہیں۔


    قیدیوں کے ہاتھوں بنی مختلف ڈیزائنز کی مردانہ نوروزی چپل مارکیٹ میں فروخت


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • دبئی ایئرپورٹ: مسافر کے جوتے اور لیپ ٹاپ سے ہیروئن برآمد

    دبئی ایئرپورٹ: مسافر کے جوتے اور لیپ ٹاپ سے ہیروئن برآمد

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی کے ایئرپورٹ پر مسافر کے جوتے اور لیپ ٹاپ سے ہیروئن برآمد کرلی گئی۔

    اردو نیوز کے مطابق متحدہ عرب امارات میں دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ بلڈنگ 2 کے کسٹم انسپکٹرز نے 880 گرام ہیروئن کی اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنادی۔

    ہیروئن لیپ ٹاپ کے خفیہ خانوں اور جوتے کی ایڑی میں انتہائی مہارت سے چھپا کر اسمگل کی جارہی تھی۔

    پیسنجر آپریشن سیکشن کے انچارج ابراہیم الکمالی کا کہنا تھا کہ دبئی کسٹم اہلکار ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے سلسلے میں پرعزم ہیں، کسٹم اہلکار اعلیٰ تجربہ اور پیشہ ورانہ مہارت رکھتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ کسٹم انسپکٹرز 100 فیصد مقامی شہری ہیں، انہیں معائنے کے لیے جدید ترقی یافتہ آلات فراہم کیے گئے ہیں۔

    ابراہیم الکمالی کا مزید کہنا تھا کہ دبئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ آنے والے ایک مشتبہ مسافر کی تلاشی لی گئی تو اس کے لیپ ٹاپ کے خفیہ حصوں اور جوتے کی ایڑی سے ہیروئن برآمد ہوئی۔

  • مختلف قسم کے جوتے خواتین کی شخصیت کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟

    کہتے ہیں کہ کسی انسان کا لباس، اور لباس کا رنگ اس انسان کے مزاج اور اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

    مدھم اور ہلکے رنگ پہننے والے عادتاً خود بھی دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں اور سکون سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، لیکن شوخ رنگ پہننے والے زندگی میں مہم جوئی چاہتے ہیں اور خطرات سے کھیلنا چاہتے ہیں۔

    لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ صرف لباس ہی نہیں، جوتے بھی کسی انسان کی شخصیت کا علم دیتے ہیں۔

    جوتے پہنتے ہوئے عموماً کوشش کی جاتی ہے کہ وہ آرام دہ ہوں، بعض افراد جوتوں کا انتخاب لباس کی میچنگ یا فیشن کی مناسبت سے کرتے ہیں، اور یہیں جوتے ان کی شخصیت کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔

    چونکہ خواتین کے جوتے وسیع ورائٹی کے ساتھ دستیاب ہوتے ہیں، لہٰذا آج آپ کو بتایا جارہا ہے کہ مختلف قسم کے جوتے پہننے کی عادی خواتین کس مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔

    ہائی ہیلز

    ہائی ہیلز پسند کرنے اور اکثر انہیں پہننے والی خواتین قائدانہ صلاحیت کی حامل ہوتی ہیں اور کسی بھی مشکل صورتحال میں فوراً حالات اپنے ہاتھ میں کر کے انہیں قابو کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔

    ہائی ہیلز اعتماد کی نشانی ہیں لہٰذا انہیں پہننے والی خواتین نہایت پراعتماد اور کسی سے نہ متاثر ہونے والی ہوتی ہیں۔

    جوتے

    رننگ شوز یا جوتے پہننے کی عادی خواتین زندگی میں مقصدیت کی حامل ہوتی ہیں۔ یہ چیلنجز سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور ملٹی ٹاسکنگ کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

    جوتے پہننا دراصل اسی کی نشانی ہے کہ بھاگ دوڑ کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہو۔

    ایسی خواتین نہ صرف نظم و ضبط کی عادی ہوتی ہیں بلکہ لوگوں سے میل جول بھی بہت پسند کرتی ہیں۔

    فلیٹ چپل

    فلیٹ یا چپٹے جوتے / چپل پہننے والی خواتین پس منظر میں رہنا پسند کرتی ہیں، یہ بہت محنتی اور ذہین ہوتی ہیں لیکن یہ لائم لائٹ میں آنا پسند نہیں کرتیں۔

    یہ کسی بھی کام کو بہترین طریقے سے مکمل کرتی ہیں لیکن چاہتی ہیں کہ اس کا کریڈٹ انہیں نہ دیا جائے اور وہ سب کا موضوع گفتگو نہ بنیں۔

    فلپ فلاپ چپل

    فلپ فلاپ یا جسے دو پٹی والی چپل بھی کہا جاتا ہے، بے حد آرام دہ ہوتی ہیں اور انہیں پسند کرنے اور اکثر پہننے والی خواتین بھی آرام طلب ہوتی ہیں۔

    وہ زندگی میں ’جیسا چل رہا ہے چلنے دو‘ کے فلسفے پر عمل کرتی ہیں اور آنے والے کل کی فکر سے آزاد رہتی ہیں۔

    وہ معاشرے کے کسی بھی دباؤ یا فیشن ٹرینڈز کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں اور وہی پہننا پسند کرتی ہیں جس میں وہ آرام دہ محسوس کریں۔

    پمپ شوز

    پمپس پہننے والی خواتین حاکمانہ مزاج کی حامل ہوتی ہیں لیکن وہ سب کا خیال رکھتی ہیں، یہ خواتین کسی پر انحصار کرنا پسند نہیں کرتیں۔

    پمپ پہنے والی خواتین کو صحت مند مقابلے بازی اور بااختیار رہنا بے حد پسند ہوتا ہے۔

  • سعودی ولی عہد کے جوتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے

    سعودی ولی عہد کے جوتے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے

    ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک ملاقات میں پہنے ہوئے جوتے ٹویٹر صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئے، لوگوں نے ان کے اسٹائل اور پسند کو خوب سراہا۔

    اردو نیوز کے مطابق رواں ہفتے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے پہنے جانے والے گہرے بھورے آکسفورڈ کے جوتوں نے ٹویٹر پر فیشن کے دلدادہ افراد کو مبہوت کر دیا۔

    یہ جوتے جنہیں ہالام کہا جاتا ہے، جوتے بنانے والے برطانوی برانڈ کروکٹ اینڈ جونز کے تیار کردہ ہیں اور ان کی قیمت 560 ڈالر ہے۔

    ایک ٹویٹر صارف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی تصویر کے نیچے کمنٹ کیا، ہمیشہ کی طرح شاندار، جبکہ ایک اور صارف نے جوتوں کی قیمت پوچھ لی۔

    بعض صارفین کو یہ جوتے اتنے پسند آئے کہ وہ اس کے سستے متبادل تلاش کرتے رہے۔

    سعودی ولی عہد کے مداحوں کو امید ہے کہ جوتوں کا یہ ماڈل کچھ ہی دنوں میں فروخت ہو جائے گا۔

    ایک مداح نے ٹویٹ کی کہ صرف دو دنوں تک انتظار کریں، یہ (جوتے) دکانوں اور آن لائن پر دستیاب ہی نہیں ہوں گے۔

    بعض افراد کو امید ہے کہ ولی عہد کے یہ جوتے پہننے کے بعد برطانوی برانڈ اب ان کی قیمت بڑھا دے گا۔

    صرف ان کے جوتے ہی نہیں بلکہ کوٹ پر بھی مداحوں کی جانب سے تبصرے دیکھنے میں آئے، ایک صارف نے ٹویٹ کیا، کل ریاض میں ہر کوئی یہ کوٹ پہنے گا۔

    سعودی ولی عہد کا اسٹائل اس سے قبل بھی موضوع بحث بنتا رہا ہے اور لوگ اسے پسند کرتے رہے ہیں۔

  • وہ جوتے جو ایک سال کے اندر خود بخود تحلیل ہوجائیں گے

    وہ جوتے جو ایک سال کے اندر خود بخود تحلیل ہوجائیں گے

    سمندری آلودگی اس وقت ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس سے آبی حیات سخت خطرے میں ہے اور اس سے ہمارا فوڈ سائیکل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    پانی کے ذخائر کو آلودگی سے بچانے کے لیے امریکی سائنس دانوں نے ایسے ماحول دوست جوتے تیار کیے ہیں جن کی تیاری میں کسی بھی قسم کے پیٹرولیم سے بنے کیمیائی مادوں کے بجائے سمندری کائی سے کشید کردہ تیل استعمال کیا گیا ہے۔

    بلیو ویو کے نام سے پیش کیے گئے یہ ماحول دوست جوتے ایک سال کے اندر اندر تحلیل ہو کر ختم ہوجاتے ہیں۔

    ان جوتوں کو تیار کرنے والے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیو ویو جوتے سازی کی صنعت میں انقلابی پیش رفت کے حامل ہیں کیوں کہ ان میں پیٹرولیم پلاسٹک کے بجائے پودوں سے حاصل کی گئی پلاسٹک استعمال کی گئی ہے۔

    یہ جوتے بائیو ڈی گریڈ ایبل مادے سے تیار کیے گئے ہیں اور یہ پائیداری کے ساتھ ماحولیاتی ذمے داری بھی پوری کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ یہ جوتے ہمارے آبی ذخائر اور سمندوں سے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

    بلیو ویو کی تیاری کے بارے میں ماہرین نے بتایا کہ ان جوتوں کی تیاری کے لیے سمندری کائی سے کشید کردہ تیل کو ایک خاص کیمائی عمل سے گزارا گیا ہے، جس کی بدولت اس سے بننے والے تلوے ایک سال کے اندر اندر بے ضرر مادے میں تبدیل ہو کر خود بخود تحلیل ہوجاتے ہیں۔

    اس پلاسٹک میں موجود خردبینی جاندار سطح زمین پر ایک سال جبکہ زیر آب اس جوتے کو 6 ماہ میں تحلیل کرسکتے ہیں۔

    بلیو ویو کے اوپری حصے کو مکمل طور پر ماحول دوست کپاس کے ریشوں سے تیار کیا گیا ہے،

    بلیو ویو کو دو خوبصورت رنگوں ونٹیج بلیک اور سینڈ ڈیون میں 135 ڈالر (25 ہزار پاکستانی) کی قیمت پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں قیمت پر دستیاب ہیں۔

  • گندے اور پرانے جوتوں کو نیا بنانے کا آسان طریقہ

    گندے اور پرانے جوتوں کو نیا بنانے کا آسان طریقہ

    اگر آپ کے جوتے پرانے ہوگئے ہیں اور گندگی کی وجہ سے ان کا رنگ خراب ہوگیا ہے تو ایک آسان گھریلو نسخے سے اپنے پرانے جوتوں کو نیا اور پہلے جیسا چمکدار بنایا جاسکتا ہے۔

    سب سے پہلے اپنے پرانے جوتے کو پہلے پانی سے دھو لیں، پھر ایک چمچ کپڑے دھونے کے سوڈے میں ڈیڑھ چمچ میٹھا سوڈا ملا لیں اور اسے ٹوتھ برش کے ساتھ جوتوں پر رگڑیں۔

    چند منٹ بعد اسے پھر سے پانی کے ساتھ دھولیں اور پھر جوتوں کو واشنگ مشین میں ڈال دیں۔

    مشین میں دھلنے کے بعد جب جوتوں کو باہر نکالیں گے تو ان پر بے بی پاؤڈر کا چھڑکاؤ کریں اور سوکھنے کے لیے چھوڑ دیں، اس طرح چند منٹ بعد حیران کن نتیجہ آپ کے سامنے ہوگا اور پرانے جوتے پھر سے نئے نظر آئیں گے۔

    یہ طریقہ سوشل میڈیا پر اس وقت وائرل ہوا جب ٹیکسس کی رہائشی سارہ نامی لڑکی نے گھر پر اس کا تجربہ کیا اور اس کی تصاویر ٹویٹر پر ڈال دیں، اس آسان اور کم خرچ گھریلو ٹوٹکے کو سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی ہے۔

  • لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    کیا ہوگا اگر آپ ساحل سمندر پر تفریح کے لیے جائیں اور وہاں آپ کو ایک جوگر اس طرح دکھائی دے کہ اس کے اندر ایک انسانی پاؤں بھی موجود ہو؟ ایسی ہی کچھ خوفناک صورتحال کچھ عرصے سے امریکن اور کینیڈین شہریوں کے ساتھ پیش آرہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا اور کینیڈا میں بحیرہ سالیش کے ساحلی علاقوں میں 20 اگست 2007 سے کٹے ہوئے انسانی پیر لہروں کے ساتھ بہہ کر آرہے ہیں۔

    ویسے تو کسی بھی ساحل پر لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والے انسانی پیر دل ہلا دیتے ہیں مگر 2007 سے 2019 کے درمیان جوتوں کے ساتھ 21 پیروں کو اس ساحلی خطے میں دریافت کیا گیا۔

    جسم سے علیحدہ ہوجانے والے ان پیروں کو ساحل پر آنے والے افراد نے دریافت کیا اور اب تک معمہ بنا ہوا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، تاہم سائنسدانوں نے اب اس معمے کو حل کرلیا ہے یا کم از کم ان کا دعویٰ تو یہی ہے۔

    سب سے پہلے 20 اگست 2007 کو ایک 12 سالہ بچی نے ایک نیلے و سفید جوگر کو برٹش کولمبیا کے ایک جزیرے جڈیڈہا کے ساحل پر دیکھا، بچی نے جوتے کے اندر جھانکا تو اس میں ایک جراب تھی اور جب اس نے جراب کے اندر دیکھا تو اس میں ایک پیر موجود تھا۔

    6 دن بعد ایک قریبی جزیرے گبرولا میں ایک جوڑا سیر کررہا تھا جب اس نے ایک بلیک اینڈ وائٹ جوگر کو دیکھا اور اس کے اندر سڑتا ہوا پیر موجود تھا۔

    دونوں جوتوں کا سائز 12 تھا اور یہ دائیں پیر کے تھے یعنی یہ واضح تھا کہ یہ 2 مختلف افراد کے ہیں۔ اس معاملے نے پولیس کو دنگ کردیا اور مقامی حکام نے اس وقت میڈیا کو بتایا کہ دونوں پیر گل سڑ چکے تھے مگر ان پر گوشت موجود تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ اتنے کم وقت میں 2 پیروں کا ملنا کافی چونکا دینے والا ہے، اس طرح تو کسی ایک پیر کے ملنے کا امکان 10 لاکھ میں سے ایک فیصد ہوتا ہے، مگر 2 کی دریافت تو حیران کن ہے۔

    اگلے سال یعنی 2008 میں قریبی کینیڈین ساحلوں میں 5 مزید پیروں کو دریافت کیا گیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف پھیل گیا جبکہ میڈیا کے قیاسات بڑھنے لگے، جیسے کیا کوئی سیریل کلر آزاد گھوم رہا ہے جو پیروں کا دشمن ہے؟

    اگلے 12 برسوں میں کینیڈین ساحلوں پر مجموعی طور پر 15 جبکہ امریکی ساحلی علاقوں میں 6 پیروں کو جوتوں کے ساتھ دریافت کیا گیا۔

    جوگرز پہنے یہ پیر بہت زیادہ مشہور ہیں اور وکی پیڈیا پر ان کا اپنا ایک پیج بھی ہے، اس شہرت کے نتیجے میں افواہوں میں بھی اضافہ ہوا جبکہ کچھ لوگ جوتوں میں مرغیوں کی ہڈیاں بھر کر کینیڈین ساحلوں پر چھوڑنے لگے۔

    کچھ کا خیال تھا کہ یہ مافیا گروپس کا کارنامہ ہے جو لاشوں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے پولیس سے رابطہ کر کے ان پیروں کے حوالے سے متعدد خیالات ظاہر کیے گئے۔

    پولیس حکام کے مطابق ہمیں سیریل کلرز کے بارے میں کافی دلچسپ تفصیلات ملیں یا یہ بتایا گیا کہ تارکین وطن سے بھرے ہوئے کنٹینرز سمندر کی تہہ میں موجود ہیں۔ مگر اس طرح کے اسرار کے لیے پولیس کی بجائے سائنسی تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مختلف سوالات جیسے پورے جسم کی بجائے صرف پیر ہی کیوں ساحل پر بہہ کر آرہے ہیں اور وہ مخصوص ساحلی پٹی پر ہی کیوں دریافت ہورہے ہیں؟ کے جواب اب سائنسدانوں نے دے دیے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کسی نامعلوم سیریل کلر کا کام نہیں جو جوگرز سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس معمے کے پیچھے ایک سادہ وجہ ہے اور وہ ہے جوتوں کی صنعت میں آنے والی ایک تبدیلی۔

    اس تبدیلی سے پہلے چند اہم نکات جان لیں تاکہ سائنسدانوں کی وضاحت زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں۔

    جب کوئی فرد حادثاتی یا خودکشی کے باعث سمندر میں مرتا ہے تو لاش یا تو تیرتی ہے یا ڈوب جاتی ہے۔

    اگر وہ تیرتی ہے تو ہوا کا بہاؤ اسے سطح پر لے آتا ہے اور وہ جلد ساحل تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ڈوبنے کی صورت میں وہ ایک جگہ رہ سکتی ہے۔

    ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر پھیپھڑوں میں ہوا ہو تو جسم کے تیرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہوا سے خالی پھیپھڑے جیسے لاشوں کا ڈوبنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر ان کے جسموں پر بھاری ملبوسات یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جائے تو لاش ڈوب جاتی ہے اور تہہ میں پہنچ جاتی ہے۔

    کورنرز سروس کی محقق یازدجیان نے اس معمے پر کافی کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ گہرے پانیوں میں پانی کا شدید دباؤ لاشوں کو بہنے سے روکتا ہے۔

    وہاں ایک مختلف قسم کا جراثیمی عمل ہوتا ہے اور لاش کے ٹشوز کو ایک چربیلے مادے ایڈیپوسیرے میں بدل دیتا ہے جو کم آکسیجن والے ماحول میں برسوں بلکہ صدیوں تک رہ سکتا ہے۔

    بحیرہ سالیش میں دریافت ہونے والی پیروں میں یازدجیان نے ایسا ہی کچھ دیکھا اس پر ایڈیپوسیرے کو دیکھا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جسم کے ڈوبنے کے بعد وہ گلنے سڑنے کے دوران زیرآب رہا، جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ ڈوب گئے اور وہی پھنسے رہے، مگر پھر کیا پیروں کو بھی جسم کے ساتھ ہی نہیں جڑے رہنا چاہیئے؟

    اس بات کا جواب کورنرز سروس کے محقق بارب میکلنٹوک نے دیتے ہوئے بتایا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسے ہر کیس میں کیا ہوا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ سنہ 2016 میں جب مزید پیر ساحل پر بہہ کر آئے تو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ قتل کا نتیجہ ہیں بلکہ اس کی ایک متبادل اور قابل قبول وضاحت موجود ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سمندر میں ڈوب کر تہہ میں پہنچ جاتا ہے تو ان کی جانب مردار خور لپکتے ہیں۔

    مگر یہ مردار خور کافی سست رفتاری سے کھاتے ہیں اور جسم کے سخت کی بجائے نرم حصوں کو ترجیح دیتے ہیں اور انسانوں کے نرم حصوں میں ٹخنے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔

    ٹخنے نرم ٹشوز اور ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جب ان کو یہ مردار خور چبا لیتے ہیں تو پیر لاش کے زیادہ گلنے سے قبل ہی تیزی سے الگ ہوجاتے ہیں۔

    آسان الفاظ میں پورا جسم ڈوب جاتا ہے مگر پیروں کو مچھلیاں جسم سے الگ کردیتی ہیں جو تیر کر ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔

    مگر یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ 2007 سے قبل ایسا کیوں دیکھنے میں نہیں آتا تھا تو اس کی وجہ حالیہ برسوں میں جوگرز ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔

    اس طرح کے جوتے اب زیادہ نرم فوم سے بنتے ہیں جبکہ ان میں ایئر پاکٹس بھی موجود ہوتے ہیں۔

    بارب میکلنٹوک نے بتایا کہ ماضی میں ایسا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کبھی ایسے رننگ شوز موجود نہیں تھے جو اتنی اچھی طرح تیر سکتے ہیں، اسی لیے پہلے پیر بھی جسم کے ساتھ سمندر کی تہہ تک ہی محدود رہتے تھے۔

  • ایئرپورٹ پر مسافر کے جوتوں کے اندر سے کیا نکلا؟ حکام حیران

    ایئرپورٹ پر مسافر کے جوتوں کے اندر سے کیا نکلا؟ حکام حیران

    فلپائن میں ایئرپورٹ حکام نے جوتوں کے اندر چھپائی گئیں 119 زندہ مکڑیاں برآمد کرلیں، مذکورہ پارسل پولینڈ سے فلپائن میں مقیم کسی شخص کے لیے بھیجا گیا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق پولینڈ سے فلپائن کے شہر کیوٹ کے لیے آنے والے اس پارسل نے اپنی عجیب ساخت کی وجہ سے حکام کی توجہ حاصل کرلی۔

    کسٹم حکام نے جب اسے کھولا تو اس میں سے نایاب نسل کی 119 زندہ مکڑیاں برآمد ہوئیں۔ مکڑیوں کو پلاسٹک کو ٹیوبز میں بند کیا گیا تھا جو جوتے کے اندر اور اس کے ڈبے میں بھرے ہوئی تھیں۔

    فلپائن کے کسٹمز آف بیورو کے مطابق مکڑیوں کو فوری طور پر وائلڈ لائف ٹریفکنگ مانیٹرنگ یونٹ کے حوالے کردیا گیا۔

    حکام نے اس بارے میں تفتیش شروع کردی ہے ک یہ پارسل کسے بھیجا جارہا تھا۔

    مذکورہ نایاب نسل کی مکڑی کو، جسے ٹرنٹیولز کہا جاتا ہے، شوقین افراد گھر میں پالتے ہیں۔ فلپائن میں اسے خطرے کا شکار حشرات کی حیثیت حاصل ہے۔

    ساڑھے 4 سے 11 انچ تک کی جسامت رکھنے والی اس مکڑی کے جسم پر بال ہوتے ہیں، اس کا شمار زہریلی مکڑیوں میں نہیں ہوتا۔

  • پاپوش، جوتی یا جُتّی!

    پاپوش، جوتی یا جُتّی!

    کس کو مطلب ہے کہ اب اُن سے ملاقات کرے
    ایسے خود غرضوں سے پاپوش مری بات کرے

    اس شعر میں لفظ ’’پا پوش‘‘ سے مراد جوتا، جوتی، چپل یعنی پیروں کا مخصوص پہناوا ہے۔ اسی ’’پا پوش‘‘ کا اردو محاورے میں استعمال کچھ یوں ملتا ہے۔

    اونٹ برابر ڈیل بڑھایا، پاپوش برابر عقل نہ آئی!

    ان مثالوں نے آپ پر واضح کر دیا ہو گا کہ پا اور پوش اردو زبان میں الگ الگ معنی رکھتے ہیں، لیکن یہاں اس کا سادہ سا مطلب جوتے ہیں۔

    یہ تمہید باندھنے کا مقصد اُس پاپوش کا تذکرہ ہے جسے برصغیر کی مقامی بولیوں میں جوتی یا جُتّی بھی کہتے ہیں۔ پیر کا یہ پہناوا چمڑے سے تیار کیا جاتا ہے۔

    پنجاب اور دیگر علاقوں‌ کے اس خاص پاپوش کی خوب صورتی بڑھانے کے لیے اس پر نازک اور باریک کام کیا جاتا ہے۔ یہ کام سونے یا چاندی کے تاروں کا بھی ہوسکتا ہے۔

    ہندوستان میں ایک زمانے میں پنجابی جتّی بہت پسند کی جاتی تھی جن کو امرا تقاریب میں پہن کر جانے کے لیے خاص طور پر تیار کرواتے تھے۔ تاہم بدلتے دور کے ساتھ ربڑ سول اور دوسرے میٹیریل سے تیار کردہ جوتوں یا سینڈلوں کا استعمال ہونے لگا۔

    خالص چمڑے اور نہایت نفاست و مہارت سے کیے گئے کام والے پاپوش کے علاوہ اس قسم کی جوتی یا پنجابی جُتّی کو کم قیمت پر عام لوگوں کے لیے بھی تیار کیا جاتا ہے۔ یہ مخصوص دست کاری سے مزین ہوتی ہیں جن کے ہندوستان میں امرتسر اور پٹیالہ اہم مراکز رہے ہیں۔

    پنجابی جُتیاں مرد اور عورتوں دونوں کے لیے تیار کی جاتی ہیں اور ان کے ڈیزائن مقامی ثقافت اور لوگوں کی پسند کے مطابق ہوتے ہیں۔

    مردانہ اور زنانہ جُتّیوں کی شکل لگ بھگ ایک سی ہوتی ہے، لیکن ان میں فرق ضرور ہوتا ہے۔ مردوں کے پاپوش کا اگلا حصہ نکیلا یا قدرے بلند ہوتا ہے جب کہ زنانہ پہناوے میں نزاکت اور خوب صورتی کے ساتھ نقاشی یا دست کاری کی جاتی ہے۔

    شادی بیاہ کے علاوہ عام تقریبات میں پہننے کے لیے لوگ عموماً دست کاری سے سجے پاپوش خریدتے ہیں۔