Tag: جوزف لسٹر

  • ابنُ الخطیب جنھوں‌ نے طاعون کو مرض‌ قرار دیا

    ابنُ الخطیب جنھوں‌ نے طاعون کو مرض‌ قرار دیا

    شاید یہ جان کر آپ کو حیرت ہو کہ آج کے مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے بھی انیسویں صدی کے وسط تک جراثیم کی ہلاکت خیزی سے واقف نہیں‌ تھے اور عام آدمی تو دور کی بات خود معالجین بھی پانی سے ہاتھ دھونے، حتّٰی کہ طبی معائنے اور جراحی کے بعد خاص طور پر جسمانی صفائی کو اہمیت نہیں‌ دیتے تھے۔

    اس زمانے میں کسی بیمار سے صحّت مند انسان کو جراثیم کی منتقلی ایک مفروضے سے زیادہ اہمیت نہیں‌ رکھتی تھی، لیکن لوئس پاسچر وہ شخص تھا جس نے یورپ کو جراثیم اور خرد بینی جانداروں‌ سے خبردار کیا اور ایک انگریز جوزف لسٹر نے اسی کی تحقیق پر آگے بڑھتے ہوئے جراثیم کُش دوا تیّار کی۔

    لوئس پاسچر 1895ء میں‌ دنیا سے رخصت ہوا جب کہ جوزف لسٹر نے 1912ء میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی، لیکن جہانِ سائنس اور دنیائے طبّ کے ان نام وروں سے لگ بھگ پانچ صدی پہلے ایک مایہ ناز طبیب اور محقق لسانُ الدین ابن الخطیب بھی گزرے ہیں جنھوں نے جراثیم کے ذریعہ طاعون پھیلنے کا نظریہ پیش کیا تھا۔ انھوں نے امراض کی دو اقسام متعدی اور غیر متعدی بتائی تھیں۔

    لسانُ الدین ابن الخطیب نے متعدی امراض کے پھیلنے کا سبب نہایت باریک کیڑوں کو قرار دیا تھا اور بتایا تھاکہ کوئی انسان انھیں نہیں دیکھ سکتا۔

    چودھویں صدی میں یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ عیسائیت کے زیرِ اثر عوام النّاس اسے خدا کا عذاب مانتے اور لاعلاج تصور کرتے تھے۔ اس دور میں جب اندلس میں‌ طاعون کے سبب لوگ خوف زدہ تھے تو ابن الخطیب نے طاعون پر تحقیق کی اور اس دور کے دست یاب وسائل اور علم کے زور پر بتایا کہ ایسے مریض کے زیرِ استعمال رہنے والی اشیا کو صّحت مند انسان ہاتھ نہ لگائیں۔ انھوں نے اسے ایک متعدی بیماری کہا اور اصرار کیا کہ یہ خدا کا عذاب نہیں‌ ہے۔

    ابن الخطیب 1313 میں لوشہ (اسپین) میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پیدائش کے بعد ان کا خاندان غرناطہ منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے طب، فلسفہ، شریعت اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔ 28 سال کے تھے جب ان کے والد کو قتل کر دیا گیا۔ والد اس وقت کے سلطان کے دربار سے منسلک تھے جن کے قتل کے بعد ابن الخطیب کو والد کی جگہ مقرر کیا گیا اور بعد میں انھیں‌ وزارت بھی سونپی گئی۔

    ابن الخطیب کو ان کی تاریخ و جغرافیہ پر گرفت، شریعت اور سیاست کے علاوہ طب اور نباتات میں ان کی معلومات اور تحقیق کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کی متعدد تصانیف قابلِ ذکر ہیں، لیکن طاعون پر تحقیقی مقالہ خاص طور پر ان کی یاد دلاتا رہے گا جس میں جراثیم اور امراض کے متعدی اور غیر متعدی ہونے کی بحث کے ساتھ طاعون کی علامات اور اس سے بچاؤ کی تدابیر ہیں۔ ابن الخطیب نے موسمی امراض پر بھی تحقیق کی تھی اور اسے کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا تھا۔

    بدقسمتی سے سلاطینِ وقت اور امراء کے درمیان رہنے والا یہ عالم اور محقق سازشوں‌ کا شکار ہوا اور مشہور ہے کہ 1374 میں ایک روز پھانسی گھاٹ سے ان کی لاش ہی نکلی۔

  • لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    لسڑ، جس نے جراثیم کی "اہمیت” کو منوایا

    یہ جان کر آپ کو حیرت ہو گی کہ انیسویں صدی کے وسط تک طب و صحت کی دنیا میں جراثیم کی وجہ سے کسی زخم یا آلاتِ جراحی کے آلودہ ہو جانے سے بیماریاں‌ پھیلنے اور اس کے نقصان دہ ثابت ہونے کا تصور نہ تھا۔

    عام آدمی تو دور کی بات خود معالجین پانی سے ہاتھ دھونے اور خاص طور پر مرہم پٹی کے بعد کھانے پینے یا دوسرے کاموں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اچھی طرح‌ دھونے کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے بلکہ یہ عمل ایک فطری اور طبعی عادت سے زیادہ نہ تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر جراثیم یا خرد بینی جاندار ہیں‌ بھی تو پانی سے ہاتھ یا آلات کو دھونے سے ختم نہیں‌ ہوسکتے۔

    چوں‌ کہ جراثیم اور گندگی سے بچنے پر زور دینے کو اضافی یا غیرضروری یا وہم اور مفروضہ مانا جاتا تھا، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا صاف ستھرا رہنا، نہانا دھونا ایک فطری خواہش، جسمانی تقاضا اور عام بات تھی۔

    اگر کسی شخص کا زخم علاج کے باوجود پھیلتا اور ٹھیک نہ ہوتا تو آلودہ ہوا کو اس کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اس زمانے میں اسپتال میں داخل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ آپ کی بیماری یا جسمانی تکلیف بڑھ سکتی ہے اور جان بھی جاسکتی ہے۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ اسپتالوں میں صفائی ستھرائی کا فقدان تھا۔ خصوصاً وارڈ، مریض کا بیڈ، طبی آلات کو صاف کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔

    معالج اور سرجن بھی اپنے ہاتھ اور جراحی کے آلات نہیں دھوتے تھے۔ خون آلود ہاتھوں اور استعمال شدہ طبی آلات سے ایک کے بعد دوسرے مریض کا علاج یا آپریشن شروع کر دیا جاتا تھا۔ جراثیم کُش محلول تو ایک طرف معالجین میں‌ صابن جیسی کسی شے کے استعمال کا تصور تک نہ تھا۔

    طبی سائنس نے کچھ ترقی کی تو مریضوں کو بے ہوش کرنے کا طریقہ ایجاد ہوا اور ایک روز میڈیکل سائنس کے ایک طالبِ علم جوزف لسٹر نے دنیائے طب میں جراثیم کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ‘‘اینٹی سیپٹک’’ طریقہ متعارف کرایا۔

    1883 میں اس نے طبی سائنس اور ماہرین کی توجہ حاصل کی اور بعد میں جراثیم سے متعلق مستند تحقیق اور سرجری کے حوالے سے اس کا خوب شہرہ ہوا۔

    لسٹر نے زخموں کا سائنسی طرز پر مشاہدہ کیا اور لوئی پاسچر کے خرد بینی جانداروں کے مفروضے کا بغور مطالعہ کیا۔

    جوزف لسٹر نے لوئی پاسچر کے جراثیم سے متعلق تصور پر تحقیق کرتے ہوئے کہا کہ اگر زخموں‌ کو جراثیم خراب کرتے ہیں‌ تو ان کو کیمیائی طریقے سے مارا بھی جاسکتا ہے۔

    اس کے لیے لسٹر نے ایک تجربہ کیا اور کاربولک ایسڈ (فینول) استعمال کیا۔

    اسی دوران لسٹر کو ایک سات سالہ بچے کی شدید زخمی ٹانگ کا علاج کرنا پڑا اور اس نے زخم کی بدبُو، اسے مزید سڑنے اور پیپ وغیرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے تجربہ کیا جو کام یاب رہا۔ بچے کے زخم بھی جلد ہی مندمل ہو گئے۔

    یہ میڈیکل سائنس کی ایک زبردست اور نہایت مفید کام یابی تھی جس پر لسٹر نے باقاعدہ مقالہ لکھا اور یوں جراحی کی دنیا میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اب آپریشن تھیٹرز میں صفائی اور علاج کے دوران جراثیم کو مارنے اور دوسری گندگی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اقدامات شروع ہوئے۔ ان میں دستانے اور لیب کوٹ، آلات کو دھونا، آپریشن ٹیبل کی مخصوص محلول سے صفائی جیسے اقدامات شامل تھے۔

    جوزف لسٹر کو دنیائے طب کا ایک عظیم مسیحا اور انسانوں کا محسن کہا جاتا ہے۔ ان کا تعلق برطانیہ سے تھا، جہاں آج بھی ان کے نام پر کئی اسپتال اور میڈیکل کالجز قائم ہیں جب کہ دنیا بھر میں لسٹر کے مجسمے اور یادگاریں موجود ہیں اور طب کے شعبے کے متعدد ایوارڈ لسٹر سے منسوب ہیں۔