Tag: جوش ملیح آبادی

  • جب جوشؔ نے غزل سن کر اُگال دان اٹھایا!

    جب جوشؔ نے غزل سن کر اُگال دان اٹھایا!

    اردو زبان و ادب کے سنجیدہ قارئین میں جوش ملیح آبادی جیسے قادرُالکلام شاعر اپنی شخصیت کے بعض پہلوؤں اور ادبی تنازعات کی وجہ سے بھی مشہور ہیں۔ تاہم اس دور کے نوجوان شعرا اور لکھاریوں کے لیے جوش سے ملاقات گویا سعادت اور ان کے سامنے اپنی کوئی تخلیق رکھنا یا غزل سنانا کسی اعزاز سے کم نہیں ہوتا تھا۔

    علی احمد قمر بھی آفتابِ سخن سے ملاقات کی خواہش شدید رکھتے تھے جو ایک روز پوری ہوئی اور خوش قسمتی سے انھیں اپنی غزل سنانے کا موقع بھی ملا۔ علی احمد قمر لکھتے ہیں۔

    ‘‘ممتاز محقق، نقاد اور شاعر پروفیسر مجتبیٰ حُسین مرحوم نے میری اور رسا چغتائی صاحب کے اولین شعری مجموعوں، ’زخم گل‘ اور ’ریختہ‘ کے دیباچے تحریر فرمائے تھے۔ میں 1976 میں کوئٹہ سینٹر میں نشریات کے شعبے سے وابستہ تھا اور پروفیسر صاحب بلوچستان یونیورسٹی، کوئٹہ میں شعبۂ اُردو کے صدر نشیں تھے۔ اسلام آباد واپس آیا تو جوش صاحب کے مشہور مصرع؛ وہ حبس ہے کہ لُو کی دُعا مانگتے ہیں لوگ، کی زمین میں ایک غزل کہہ کر پروفیسر صاحب کو کوئٹہ ارسال کی۔

    پروفیسر صاحب نے فون پر فرمایا کہ وہ اگلے روز کی پرواز سے اسلام آباد آرہے ہیں، میں انہیں شام چار بجے ایئر پورٹ سے لے لوں جہاں سے ہم جوش صاحب کے ہاں ملاقات کے لیے جائیں گے۔ اگلے روز ہم جوش صاحب کے ہاں جا پہنچے۔ کچھ اعلیٰ افسران اور شعرا، ادبا پہلے سے موجود تھے۔ پروفیسر صاحب نے موقع پاتے ہی جوش صاحب سے میرا تعارف کرایا اور جوش صاحب کی زمین میں کہی گئی غزل کی فرمائش کر دی۔

    جوش صاحب متوجہ ہوئے تو پروفیسر صاحب نے مجھے غزل سنانے کا اشارہ کیا۔ میں ان کے مزاج سے واقف تھا۔ ڈرتے ڈرتے غزل سُنا دی۔ حاضرین نے دو ایک اشعار پر داد دی، لیکن جوش صاحب حسبِ عادت خاموش رہے اور اُگال دان میں پیک تھوک دی۔

    پروفیسر صاحب نے مجھ سے کہا، بیٹا جوش نے اسی طرح پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ میں نے جوش صاحب کے پاؤں پکڑ لیے۔ مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں نے اتنے عظیم شاعر کی غزل کے مصرع پر اپنی غزل اُنہی کو سناکر کتنی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وہ غزل ضیاء الحق کے مارشل لا کے پس منظر میں کہی تھی۔ اس کے چند اشعار پیش ہیں۔
    دن میں سیاہ شب کی دعا مانگتے ہیں لوگ
    اپنے کیے کی خود ہی سزا مانگتے ہیں لوگ
    یہ سوچتے نہیں کہ شجر خشک کیوں ہوا
    لیکن اُسی سے سایہ گھنا مانگتے ہیں لوگ
    ہر شام انتظار سا رہتا ہے ابر کا
    محبوس بستیوں میں ہوا مانگتے ہیں لوگ
    تازہ ہوا کی یوں تو کبھی فکر بھی نہ کی
    بیمار ہیں تو کیسے شفا مانگتے ہیں لوگ
    قامت میں اپنی سوچ سے بڑھتے نہیں قمر
    سایہ پر اپنے قد سے بڑا مانگتے ہیں لوگ

  • اقبال کی شاعری پر تنقید: فراق گورکھ پوری نے جوش ملیح آبادی کو آئینہ دکھا دیا

    اقبال کی شاعری پر تنقید: فراق گورکھ پوری نے جوش ملیح آبادی کو آئینہ دکھا دیا

    اردو زبان کے قادر الکلام شاعر جوش ملیح آبادی کی رندی و بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں اکثر نامعقول اور غیر مناسب رویہ اپناتے اور تنازع جنم دیتے رہتے۔ ایک زمانے میں وہ علامہ اقبال کے خلاف ہوگئے اور جب ان کی جانب سے اس کا تحریری اظہار کیا گیا تو فراق گورکھ پوری نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔

    اپنے ایک خط میں انھوں نے جوش کو سخت انداز میں مخاطب کیا ہے۔ فراق نے جوش کے نام الہ آباد سے 2 جنوری 1975 کو یہ خط تحریر کیا تھا جس کی چند سطور آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘تمھارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا یعنی اسے تمھارے مرنے کے بعد شایع ہونا چاہیے تھا مگر تمھارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شایع کر کے راز کو فاش کر دیا اور تمھارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمھاری غلطی تھی۔

    صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبال کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ اقبال نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔’’

    ‘‘تمھاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ اس میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراضات کیے ہیں ان کی نوعیت الگ ہے۔ وہ ملت کی شاعری اگر نہ بھی کرتے تو بھی عظیم ترین شاعر ہوتے۔ لیکن ملت کی شاعری پر بھی میں تنقید نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں اور اگر واقف ہوتا بھی تو بھی مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ اقبال نے جو کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔

    تمھاری تنقید اقبال پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیوں کہ تم اس تضاد کا شکار ہو کہ کبھی تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فن کارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیرہ ہیں۔

    اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ تمھاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی دائو پیچ، سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ تم اقبال کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ یہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اسے کھوٹا نہ کرو۔’’