Tag: جوش ملیح آبادی

  • ”بس“ اور ”کافر“

    ”بس“ اور ”کافر“

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔

    وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں ان کے لباس تبدیل کر دیں۔ ان کی لَے اور رنگ بدل دیں، ان کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنا و اعلا ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    (مومن خاں مومنؔ)

    لفظ ”بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم جوشؔ ملیح آبادی)

  • الفاظ اور شاعر

    الفاظ اور شاعر

    صرف ادبیوں اور شاعروں کے یہ دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کُھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

    البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں اُن کے لباس تبدیل کر دیں۔ اُن کی لَے اور رنگ بدل دیں، اُن کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

    ؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
    ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
    مومن خاں مومنؔ

    لفظ ” بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

    ؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
    مذہبِ عشق اختیار کیا

    ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سَر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

    (از قلم: جوشؔ ملیح آبادی)

  • جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    جوش ملیح آبادی اور بچپن!

    کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوز و گداز کی ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔

    جوش ملیح آبادی نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوز و گداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:‘‘

    میرے رونے کا جس میں قصّہ ہے
    عمر کا بہترین حصّہ ہے

    بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا۔‘‘

    (ممتاز نقّاد، فکشن نگار اور شاعر شمس الرّحمٰن فاروقی کے افسانے لاہور کا ایک واقعہ سے اقتباس)

  • جوشؔ ملیح آبادی: شاعرِ‌‌ ‘آخرُالزّماں’ کا یومِ وفات

    جوشؔ ملیح آبادی: شاعرِ‌‌ ‘آخرُالزّماں’ کا یومِ وفات

    جوشؔ ملیح آبادی نے خود کو شاعرِ‌‌ آخرُ الزّماں قرار دیا تھا۔ بلاشبہ وہ قادرُالکلام اور ایسے نکتہ سنج تھے کہ شاعری کو ایک طرزِ سخن اور نثر کو وہ نیا پیمانہ دیا جس نے ہم عصروں میں انھیں ممتاز کیا اور شعروادب میں نئے آنے والے ان سے متأثر ہوئے۔

    کسی کا عہدِ جوانی میں پارسا ہونا
    قسم خدا کی یہ توہین ہے جوانی کی

    کسی نے کیا خوب بات کہی کہ جوشؔ نے یہ شعر کہہ کر درحقیقت اپنی سوانحِ حیات کا دیباچہ تحریر کر دیا۔ جوشؔ صاحب، جوانی میں صرف کوئے جاناں کے طواف کے قائل تھے اور حسن پرستی ان کا شعار رہا۔

    جوشؔ ملیح آبادی کو علم و ادب سے رغبت اور شعر و سخن کا مذاق کیوں نہ ہوتا کہ ان کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق اور والد بھی سخن وَر تھے۔ جوش صاحب کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں جب کہ ان کے خاندان کی دیگر خواتین بھی نہایت باذوق اور بعض ان میں‌ سے علمِ عروض سے بھی واقف تھیں۔ اسی ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں تھے جو شاعر ہوئے تو جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت پائی۔

    جوش نے کہا تھا:

    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

    آج جوشؔ ملیح آبادی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 22 فروری 1982ء کو یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ ان کا وطن ملیح آباد تھا، جہاں انھوں نے 1898 کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندان تعلیم یافتہ اور علم و ادب کا رسیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ ابتدائی عمر ہی سے انھیں‌ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح سخن لی۔ پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا۔ عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    جوش نوعمری میں شعر کہنے لگے تھے اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرتے ہوئے نثرنگاری بھی شروع کی۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ انھوں نے فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس لیے کہیں ٹکے نہیں۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج میں ٹیڑھ، کجی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکالے گئے۔

    جوش ملیح آبادی کی رندی و بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ اپنے خیالات کے اظہار میں اکثر نامعقول اور غیر مناسب رویہ اپناتے اور تنازع جنم دیتے رہتے۔ ایک زمانے میں وہ علامہ اقبال کے خلاف ہوگئے اور جب ان کی جانب سے اس کا تحریری اظہار کیا گیا تو فراق گورکھ پوری نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔

    اپنے ایک خط میں انھوں نے جوش کو سخت انداز میں مخاطب کیا ہے۔ فراق نے جوش کے نام الہ آباد سے 2 جنوری 1975 کو یہ خط تحریر کیا تھا جس کی چند سطور آپ کی توجہ اور دل چسپی کے لیے پیش ہیں۔

    ‘‘تمھارا جو ایک خفیہ انٹرویو تھا یعنی اسے تمھارے مرنے کے بعد شایع ہونا چاہیے تھا مگر تمھارے حاشیہ برداروں نے اس کو قبل از وقت شایع کر کے راز کو فاش کر دیا اور تمھارے اوپر عتاب نازل ہونے لگے۔ میرے نزدیک یہ تمھاری غلطی تھی۔

    صحیح بات تو یہ ہے کہ تم اقبال کو سمجھ بھی نہیں سکتے۔ کیوں کہ اقبال نے دینِ اسلام کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور اس کی افادیت میں اعلیٰ پیمانے کی گہر افشانی کی ہے۔ ان کا علم اس معاملے میں مکمل ہے۔ تم دین سے واقف ہی نہیں اور دین کی گہرائیوں کا مطالعہ کرنے کے لیے علم کم ہے اور اس پر طرفہ یہ کہ تم دہریے بھی ہو۔’’

    ‘‘تمھاری شاعری اس لیے نہیں مانی جا سکتی کہ اس میں تضاد ہے۔ میں نے جو اقبال پر اعتراضات کیے ہیں ان کی نوعیت الگ ہے۔ وہ ملت کی شاعری اگر نہ بھی کرتے تو بھی عظیم ترین شاعر ہوتے۔ لیکن ملت کی شاعری پر بھی میں تنقید نہیں کرسکتا کیوں کہ میں اسلامی مسائل سے نابلد ہوں اور اگر واقف ہوتا بھی تو بھی مجھے اس کا حق نہیں کہ کسی کے دینی معاملات میں دخل دوں۔ ملت کی شاعری کے علاوہ اقبال نے جو کہا ہے وہ بھی بہت کچھ ہے۔

    تمھاری تنقید اقبال پر ہر اعتبار سے غیر معتبر ہے۔ کیوں کہ تم اس تضاد کا شکار ہو کہ کبھی تم دہریے بن جاتے ہو اور کہیں پر مرثیے میں اپنے جوہر دینی طور پر دکھانے لگتے ہو۔ میں میر انیس، محسن کاکوروی، تلسی داس وغیرہ کو اس لیے نہیں مانتا کہ وہ مذہبی شاعر تھے بلکہ ان کی فن کارانہ صلاحیتیں ادبی دنیا کا عظیم ذخیرہ ہیں۔

    اقبال کی شاعری میں جو تضاد ہے وہ بھی عقل و دانش کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ تمھاری شاعری کا بنیادی تضاد مشقِ سخن پر دلالت کرتا ہے۔ مذہبی دائو پیچ، سیاسی جوڑ توڑ یہ سب شاعری میں ابھرنے کے لیے ہیں۔ تم اقبال کو برا کہہ کر اقبال سے بلند ہونے کی کوشش نہ کرو۔ کیوں کہ یہ گناہِ عظیم ہے۔ وقت کی کسوٹی نے جتنا کھرا تم کو مان لیا ہے اسے کھوٹا نہ کرو۔’’

    پاکستان آنے کے بعد جوش اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

    یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

    جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
    چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

    نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
    ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
    اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
    اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

  • جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    یہ تذکرہ ہے دو مشہور و معروف شخصیات کے مابین خط کتابت کا جن کا زمانہ تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ ایک تھے سر راس مسعود اور دوسرے جوش ملیح آبادی۔

    قابل، باصلاحیت شخصیات، علمی و ادبی کام کرنے والوں کی قدر اور عزّت افزائی کے ساتھ اس زمانے میں اخلاق و مروّت اور لوگوں‌ میں مدد اور تعاون کا جذبہ بہت تھا۔ اس دور کی یاد تازہ کرتا یہ پارہ مشفق خواجہ کی منتخب تحریروں پر مشتمل کتاب سن تو سہی سے لیا گیا ہے۔

    سَر راس مسعود کو ہندوستان میں ایک ماہر مدرّس اور منتظم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ سرسیّد احمد خان کے پوتے تھے۔ اس زمانے میں علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، ان میں سَر راس مسعود کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ نہایت قابل، فکر و نظریہ اور علم و فن کے رسیا تھے۔ دوسری طرف شاعرِ انقلاب کہلانے والے جوش صاحب تھے۔

    مشفق خواجہ لکھتے ہیں، "یہ قاعدہ تھا کہ ان(سر راس مسعود) کے نام شاعروں ادیبوں کے جو خطوط آتے تھے، وہ انہیں محفوظ رکھتے تھے۔ جواب میں جو کچھ لکھتے تھے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ راس مسعود کے ذاتی کاغذات کا بڑا حصہ جناب جلیل قدوائی کے پاس محفوظ ہے۔ ہماری درخواست پر قدوائی صاحب نے جوش صاحب کے اصل خطوط اور ان کے جوابات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

    اس مراسلت کا پس منظر یہ ہے کہ حیدرآباد دکن سے اخراج کے بعد جوش صاحب کے مالی حالات اچھے نہ رہے۔ سر راس مسعود اس زمانے میں ریاست بھوپال میں تھے، جوش صاحب نے انہیں مالی امداد کے لیے خط لکھا۔ راس مسعود نے اس خط کا حوصلہ افزا جواب دیا۔ جوش صاحب نے "جواب الجواب” 15 اکتوبر 1935ء کو لکھا، جب وہ مختصر قیام کے لیے ریاست دھول پور میں تشریف رکھتے تھے۔ اس خط میں جوش صاحب فرماتے ہیں:

    "آپ کے مکتوبِ گرامی نے میرے دل سے وہی سلوک کیا ہے، جو مرہم زخم سے اور ابرِ برشگال پیاسی زمین سے کرتا ہے۔ نتیجہ خواہ کچھ ہو کہ نہ ہو، آپ میری دست گیری کی سعی میں کام یاب ہوں یا ناکام، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ نے میری بات تو پوچھی، امداد پر آمادگی تو ظاہر ہوئی، مشفقانہ لہجے میں خط کا جواب تو دیا۔ کیا میرے تاحیات احسان مند رہنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟ اپنی حالت کیا عرض کروں، اگر تنہا ہوتا تو بڑی سے بڑی مصیبت کا حقارت آمیز تبسم سے خیر مقدم کرتا اور ہر عظیم سے عظیم بلا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضحکہ اڑاتا، مگر کیا کروں مجبور ہوں اہل و عیال سے۔ باپ نے، جب میں نو برس کا تھا، میرا نکاح کر دیا تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام دولت و ثروت ان کے گھر سے چلی جائے گی۔ مجھے آج تک اپنے سہرے کی لڑیوں کی خوشبو یاد ہے، کتنی دلفریب تھی، مگر آج وہی ذریعہ بنی ہوئی ہے میری پریشاں خاطریوں کا۔

    میرے محترم! مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ آبائی جائیداد تو پہلے ہی تلف ہو چکی تھی، اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، حیدرآباد میں جگہ مل گئی تھی، سو وہ بھی سازشوں کی نذر ہو گئی۔ اب میں ہوں اور بے کسی، میرے مریض اہل و عیال ہیں اور کسمپرسی۔ دھول پور میں اپنے ماموں کے وہاں پڑا ہوا ہوں۔ ماموں سوتیلے نہیں حقیقی ہیں۔ لیکن جس طرح جی رہا ہوں، اس سے موت بہتر ہے۔ واضح رہے کہ ماموں جان کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہوار ہے۔ کیا آ پ کو عبرت نہیں ہوگی؟ میں آپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتا، صرف اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ بھوپال وغیرہ سے میرے رسالے کے واسطے اتنی مدد کرا دیجیے کہ میں فراغت سے زندگی بسر کر سکوں۔ رسالے کے اخراجات پانچ سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہیں۔ سر لیاقت حیات خان وزیر پٹیالہ نے پٹیالے سے ایک مستقل ماہانہ امداد کا وعدہ فرما لیا ہے۔ پنڈت کیلاش نرائن صاحب ہاکسر بھی گوالیار سے امداد دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر بھوپال یا دو تین جگہیں اور ملا کر آپ ڈھائی سو روپے ماہوار کی مستقل ادبی امداد کا بندوبست کر دیں تو میرے مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟

    میں ایک بار اور عرض کروں کہ میرے تمام عمر احسان مند رہنے کے واسطے آپ کی پرسش ہی بہت کافی ہے۔ کیا ایک محبت کی نگاہ، تمام دنیا کے خزانوں پر بھاری نہیں، اور کیا ایک مخلصانہ تبسم، تمام عالم کے زر و گوہر سے زیادہ گراں قیمت نہیں؟ خدا کرے آپ اچھے ہوں، میں اور میرے متعلقین میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔”

    معتوبِ قدرت
    جوش۔

    سر راس مسعود نے 17 اکتوبر 1935ء کو اس خط کا جواب لکھا اور ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا تھا۔

  • ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    جوشؔ ملیح آبادی قادرُ الکلام شاعر ہی نہیں‌ نثر نگار بھی خوب تھے۔ انھیں‌ زبان پر مکمل عبور حاصل تھا۔ رواں اور مترنم الفاظ جہاں‌ جوشؔ کی شاعری کی سحر انگیزی بڑھاتے ہیں، وہیں‌ ان کے مضامینِ نثر کی زبان بھی نہایت دل کش اور جان دار ہے۔

    یہاں‌ ہم استاد شاعر راغب مراد کے نام جوش صاحب کا ایک خط نقل کر رہے ہیں‌ جو شاعرِ انقلاب نے 1975ء میں‌ لکھا تھا۔ اس خط میں جوش ملیح آبادی نے "عورت” کے عنوان سے اپنا مضمون داخل کیا ہے اور اس پر راغب مراد آبادی سے رائے دینے پر اصرار کیا ہے۔ خط ملاحظہ کیجیے:

    راغب جانی، ابھی ابھی ‘ذکر و فکر’ کے لیے ایک مضمون لکھا ہے، جی چاہا، اس کی نقل آپ کو بھیج دوں۔ ملاحظہ فرمائیے:

    "عورت”​
    میں، عوام، یعنی، دو پاؤں پر چلنے والے حیوانوں سے خطاب کرنے کے ننگ پر، اپنے آپ کو آمادہ نہیں کر سکتا۔ میرا تو روئے سخن ہے تمہاری طرف، اے تلواروں کی دھاروں کو موڑ دینے والے ساونتو۔ اور، تمام کائنات کو، پلکوں پر، تول لینے والے گمبھیر فلسفیو۔ کہ تمہارے آگے، موت کی آگ پانی بھرتی ہے، اور تمہاری نظروں کے لمس سے، اسرارِ مرگ و زیست کا لوہا پگھلنے لگتا ہے۔

    ہاں، تو میں تم سے، کانپتی ہوئی پنڈلیوں، اور اپنے بدن کے تمام کھڑے ہوئے رونگٹوں کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ‘عورت سے خبردار۔ ہاں عورت سے خبردار!!’​

    یہ عورت، وہ حسین بلائے بے درماں ہے کہ افلاطون کی پشت پر سوار ہو کر، اسے گھوڑا بنا، اور نپولینِ اعظم کی ناک چھید کر، اسے نتھنی پہنا چکی ہے۔

    سنو، سنو کہ عورت ہر روپ میں خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بے وفا ہو کہ وفادار، بہر رنگ ہے خوں خوار۔ وہ اگر، سراپا وفا ہے، تو عاشق کے دل میں وہ کیف بھر دیتی ہے کہ اس کو دین و دنیا دونوں سے بے خبر کر دیتی ہے۔ وہ، آدمی کو، فکرِ بیدار کی گلابی دھوپ سے اٹھاتی، اور خواب آور زلفوں کی مہکتی چھاؤں میں بٹھا دیتی ہے۔ اپنے، بوسہ طلب ہونٹوں کی مہک سے، یوں رجھاتی ہے کہ آدمی کی ہر سانس، اس کے گرد چکر لگاتی ہے۔ وہ کائنات کی تمام راگنیوں کا گلا گھونٹ کر، صرف اپنے کھنکتے بول سناتی ہے۔ وہ تشنگی کی آگ بھڑکانے کی خاطر، پیاس بجھاتی ہے۔ اور، انفس و آفاق کے تمام جلوؤں کو دھندلا کر، فقط اپنا دمکتا مکھڑا جھمکاتی ہے۔

    اور، آخرکار، انسان، اس کے بحرِ جمال میں، یوں بہہ جاتا ہے کہ معاشرے کا عضوِ معطل بن کر رہ جاتا ہے۔

    عشق نے غالب نکمّا کر دیا​….

    اور اگر، عورت نامہربان و جفا پیشہ ہوتی ہے تو، آدمی اس بے پایاں احساسِ کم تری میں گھر جاتا ہے کہ۔ اور تو اور، خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔

    ٹھکرایا ہوا عاشق، اپنے کو، اس قدر نا مطبوع و مکروہ سمجھنے لگتا ہے کہ اس کے دل سے، دوستوں کا تو کیا ذکر، خود اپنی ماں تک کی شفقت کا اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اور وہ بے چارہ اپنے کو اس حد کا حقیر و ذلیل سمجھنے لگتا ہے کہ جب وہ آئینہ اٹھاتا ہے، تو اپنا چہرہ ایسا نظر آتا ہے، گویا وہ ایک ایسا خارشتی ٹینی کتّا ہے جو، آسمان کی طرف تھوتھن اٹھا کر رو رہا ہے۔​

    سراپا کرم ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور، عورت خطرناک ہے

    یا اس طرح کہہ لیجیے کہ:​

    سراپا سَمَن ہے کہ سفّاک ہے​
    بہر طور عورت خطرناک ہے​

    کہو، پیارے کیسا مضمون ہے؟ مجھے تو اچھا لگا کہ میں نے لکھا ہے۔ خورشید علی خان کو بھی یہ مضمون دکھا دیجیے گا۔​

    افسوس کہ اب کی نسیم صاحب سے نہایت سرسری ملاقات رہی۔

    جوش​،
    اسلام آباد​
    ۹/۸/۷۵​

  • شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شاعرِ آخر الزّماں جوش ملیح آبادی کا یومِ‌ وفات

    شبیر حسن خاں کو جہانِ ادب میں جوشؔ ملیح آبادی کے نام سے شہرت حاصل ہے جن کے پَر دادا صاحبِ دیوان شاعر، دادا شعر و ادب کے شائق جب کہ والد بھی سخن وَر تھے۔ ان کی دادی مرزا غالب کے خاندان سے تھیں اور جوش کے خاندان کی خواتین بھی نہایت باذوق اور عروض بھی جانتی تھیں۔ اس ماحول کے پروردہ شبیر حسن خاں بھی شاعر ہوئے اور خوب نام پیدا کیا۔

    جوش نے کہا تھا،
    شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
    یہ مِرا فنِ خاندانی ہے

    ہندوستان کے ملیح آباد میں 1898 کوپیدا ہونے والے جوشؔ کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ لیکن انھوں نے نظم ہی نہیں نثر دونوں میں بھی کمال حاصل کیا۔ اردو ادب میں انھیں قادرُالکلام شاعر اور باکمال نثر نگارکہا جاتا ہے۔ 22 فروری 1982 جوش کی زندگی کا آخری سال تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ان کا تعلق تعلیم یافتہ اور علم و ادب کے رسیا گھرانے سے تھا، اسی لیے ابتدائی عمر ہی سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ جوش نے نوعمری میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور بعد میں مضامین کا اردو ترجمہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ فلم نگری سے وابستگی تک پھیل گیا۔ اس دوران فلموں کے لیے مکالمے بھی تحریرکیے اور گیت بھی لکھے، لیکن طبیعت میں ٹھیراؤ نہ تھا۔ اس نے انھیں کہیں ٹکنے نہ دیا۔ نظام حیدر آباد میر عثمان علی خاں نے دارالترجمہ میں رکھ لیا، لیکن مزاج کی کج روی اور متنازع باتوں کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔

    پاکستان میں اردو بورڈ سے منسلک ہوئے لیکن اختلافات کے بعد سبک دوش ہونا پڑا۔ اس عرصے میں شاعری کا تو خوب شہرہ ہوا، لیکن وہ اپنے خیالات اور رجحانات کی وجہ سے متنازع اور ناپسندیدہ بھی رہے۔ جوش نے غزل ہی نہیں نظموں اور رباعیات میں بھی کمال دکھایا۔ مرثیہ گوئی میں خود کو منوایا اور اس صنفِ سخن کا حق ادا کیا۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوئے جن میں نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط، جنون و حکمت، رامش و رنگ، سنبل وسلاسل، سیف و سبو شامل ہیں۔

    یادوں کی بارات جوش کی خود نوشت ہے جس کے متعدد ابواب تنازع و اختلاف کا سبب بنے۔ یہ کتاب ادبی، مذہبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بھی موضوعِ بحث بنی ۔ دیگر نثری کتب میں مقالات زریں، اوراق سحر اور ارشادات شامل ہیں۔

    جوشؔ کے چند اشعار پڑھیے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرا ہی جاتا ہے
    چلے کتنا ہی کوئی بچ کے ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے

    نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا لیکن
    ہجومِ کشمکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
    اے دوست دل میں گردِ کدورت نہ چاہیے
    اچھے تو کیا برے سے بھی نفرت نہ چاہیے

  • نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نویس ڈبلیو زیڈ احمد کی برسی

    نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نویس ڈبلیو زیڈ احمد کی برسی

    15 اپریل 2007ء کو پاکستان کے نام وَر فلم ساز، ہدایت کار اور کہانی نگار ڈبلیو زیڈ احمد طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔ ان کا اصل نام وحید الدّین ضیا تھا جنھیں‌ ڈبلیو زیڈ احمد کے نام سے شناخت کیا جاتا تھا۔

    20 دسمبر 1915ء کو گودھرا (موجودہ بھارت) میں پیدا ہونے والے وحید الدّین ضیا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ 1936ء میں انھوں نے فلم نگری میں قدم رکھا اور بطور مکالمہ نویس فلمی سفر شروع کیا۔

    1939ء میں انھوں نے پونا میں شالیمار اسٹوڈیوز کے نام سے ایک فلم اسٹوڈیو کی بنیاد رکھی اور پہلی فلم ‘ایک رات’ بنائی جو بے حد کام یاب رہی۔ اس کے بعد انھوں نے فلم پریم سنگیت، من کی جیت، غلامی نامی فلمیں بنائیں۔ من کی جیت وہ فلم تھی جس کے لیے برصغیر کے نام ور شاعر جوش ملیح آبادی نے پہلی مرتبہ نغمات تحریر کیے تھے اور یہ نغمات بے حد مقبول ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ڈبلیو زیڈ احمد نے لاہور ہجرت کی اور یہاں ڈبلیو زیڈ اسٹوڈیوز قائم کیا اور فلم کوآپریٹو لمیٹڈ کے نام سے ایک فلم ساز ادارہ بنایا۔ پاکستان میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کی پہلی فلم روحی تھی جو سنسر کی نذر ہوگئی۔ 1957ء میں ان کی ایک اور فلم وعدہ منظر عام پر آئی جس نے کام یابیوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔

    ڈبلیو زیڈ احمد نے مشہور اداکارہ نینا سے دوسری شادی کی تھی جو فلمی دنیا میں ’’پراسرار نینا‘‘ کے نام سے معروف تھیں۔ پاکستان کے اس باکمال اور مشہور فلم ساز کو بیدیاں روڈ، لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    اداکارہ کے دیدار سے محروم شاعر نے کیا کیا؟

    جوش ملیح آبادی کی خود نوشت "یادوں کی بارات” ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے زمانے کی کئی بلند پایہ اور مشہور شخصیات کی نجی زندگی کو گویا سب کے سامنے عریاں کر دیا، لیکن یہی نہیں انھوں نے خود اپنے بارے میں بھی وہ سب لکھا جس نے ان کی شخصیت کو متنازع بنا دیا تھا۔

    جوش ایک قادر الکلام شاعر تھے اور علم و ادب کی دنیا میں شہرت کے ساتھ ساتھ بہت بدنام بھی۔ ان کی حسن پرستی مشہور ہے۔ جوش صاحب رباعی کے بھی زبردست شاعر تھے۔ ان کی ایک رباعی پڑھیے جس کا پس منظر آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    کہتے ہیں بمبئی (ممبئی) میں جوش ملیح آبادی ایک ایسے مکان میں ٹھہرے جس میں اوپر کی منزل پر ایک اداکارہ رہتی تھی، لیکن مکان کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ اس کا دیدار نہ ہو سکتا تھا، ایک روز جوش نے اس پر یہ رباعی لکھی۔

    میرے کمرے کی چھت پہ اُس بُت کا مکان
    جلوے کا نہیں ہے پھر بھی کوئی امکان
    گویا اے جوش میں ہوں ایسا مزدور
    جو بھوک میں ہو سر پہ اُٹھائے ہوئے خوان

    (ادبی دنیا کے لطائف اور مختلف شخصیات کے تذکرے)

  • آدمی ہی سب میں بُرا ہے

    آدمی ہی سب میں بُرا ہے

    اردو زبان کا کوئی بڑا شاعر ایسا نہیں‌ جو جوشؔ ملیح آبادی سے متاثر نہ ہو۔ اپنے تخلیقی جوہر اور معنویت کے اعتبار سے جوشؔ صاحب کا کلام اردو شاعری کی تاریخ میں درخشاں باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اس قادرالکلام شاعر کے رفقا اور دیگر ملاقاتی بھی شاعری کے علاوہ مختلف موضوعات پر جوش صاحب سے گفتگو کرکے خوشی محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح‌ ہم عصروں اور رفتگاں کے کلام پر بھی ان کی رائے کو بہت اہم سمجھا جاتا تھا۔

    معروف ادیب، مورخ‌، محقق اور انشا پرداز اعجاز الحق قدوسی نے بھی جوش صاحب سے ایک سوال کیا تھا جس کی تفصیل انھوں‌ نے اپنی یادداشتوں‌ پر مبنی کتاب میں‌ یوں‌ بیان کی ہے۔

    جوش ملیح آبادی کی قوتِ مشاہدہ نہایت وسیع اور ہمہ گیر تھی۔

    ایک دن میں نے ان کی قوتِ مشاہدہ کی تعریف کی تو کہنے لگے۔

    قدوسی، شاید تمھیں یقین نہ آئے، مگر حقیقت یہ ہے کہ راہ میں ذرّات تک مجھے آواز دیتے ہیں کہ خدا کے لیے مجھے نظم کر جائیے۔

    ایک دن میں نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک اردو کا سب سے بڑا شاعر کون ہے۔ ذرا اس کی وضاحت کیجیے۔ وہ بولے۔

    نظیر اکبر آبادی کہ اس کی شاعری عوام کی ترجمان ہے اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔ اب دیکھیے وہ انسانیت کی حقیقت کو کس طرح اور کس دل کش انداز میں بیان کرتا ہے۔

    اور سب میں جو برا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

    پھر کہنے لگے۔ فارسی شاعری میں حافظ اور نظیری بھی اپنا جواب نہیں رکھتے۔