Tag: جولائی اموات

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’شعلے‘‘ کے ’’گبر سنگھ‘‘ کو کون نہیں‌ جانتا۔ فلم کے اس کردار کا ایک مکالمہ ’سو جا بیٹے ورنہ گبر آجائے گا‘ آج بھی موقع کی مناسبت سے زبان پر آجاتا ہے۔ گبر سنگھ کا کردار امجد خان نے ادا کیا تھا جو ان کی وجہِ شہرت بنا اور یہ کردار اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ تفریحاً گبر سنگھ کے لب و لہجے اور انداز کی نقل کرنے لگے۔

    ’کتنے آدمی تھے؟،‘ ’تیرا کیا ہوگا کالیا؟،‘ بھی اسی فلم میں‌ گبر سنگھ کے وہ جملے تھے جو ہر کسی کی زبان پر رواں ہوگئے تھے۔

    امجد خان نے بالی وڈ کی فلم خون پسینہ، کالیہ، نصیب، مقدر کا سکندر، سہاگ، ستہ پہ ستہ میں منفی کردار اس خوبی سے نبھائے کہ لوگ ان سے پیار کرنے لگے۔

    ستیہ جیت رائے کی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ فلم تھی جس میں وہ اپنے سنجیدہ نوعیت کے کردار کی بنا پر چھا گئے۔ امجد خان نے منفی اور سنجیدہ نوعیت کے کرداروں کے علاوہ پھلکے مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور خوب شہرت پائی۔

    اس اداکار نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ امجد خان 12 نومبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی ہندوستانی فلموں میں‌ ولن کے کردار نبھانے کے لیے مشہور تھے۔بطور اداکار امجد خان نے اپنے کیریئر کا آغاز 1957ء میں فلم ’’اب دہلی دور نہیں‘‘ سے کیا۔ شعلے وہ فلم تھی جو 1975ء میں ریلیز ہوئی اور اس نے امجد خان کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ مشہور فلم قربانی میں انھیں شائقین نے انسپکٹر خان کے بہروپ میں بہت پسند کیا جب کہ فلم چمیلی کی شادی میں انھوں نے ایک ایڈووکیٹ کے بہروپ میں جان دار اداکاری کی اور بعد کے برسوں میں امجد خان بطور ہدایت کار بھی سامنے آئے۔

    1986ء میں بالی وڈ کے اس مشہور اداکار نے کار کے ایک حادثے میں موت کو تو شکست دے دی، لیکن طویل عرصہ زیرِ علاج رہنے اور ادویہّ کے مسلسل استعمال کے باعث ان کا جسم فربہی کی طرف مائل ہوگیا تھا اور یوں وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئے۔ اسی دوران وہ متعدد جسمانی پیچیدگیوں اور امراض کا شکار ہوئے اور زندگی سے دور ہوتے چلے گئے۔

    امجد خان کا فلمی سفر بیس سال جاری رہا جس میں انھوں‌ نے 132 فلموں‌ میں اپنے فنِ اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔

  • اردو کے ممتاز رومانوی شاعر عندلیب شادانی کی برسی

    اردو کے ممتاز رومانوی شاعر عندلیب شادانی کی برسی

    اردو کے نام وَر شاعر، ادیب، نقّاد، محقّق اور مترجم ڈاکٹر عندلیب شادانی 1969ء میں آج ہی دن وفات پاگئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔

    عندلیب شادانی کا شمار اردو کے ممتاز رومانی شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل بہت مقبول ہوئی جس کا یہ شعر آپ کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی محفوظ ہوگا۔

    دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
    آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو

    عندلیب شادانی نے شاعری کے علاوہ کہانیاں اور تنقیدی و سوانحی مضامین بھی لکھے۔

    وہ یکم مارچ 1904ء کو سنبھل ضلع مراد آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی سے فارسی ادبیات میں ایم اے کیا اور 1934ء میں لندن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ عرصے تک ہندو کالج دہلی میں اردو اور فارسی کے لیکچرر رہے اور اس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں لیکچرر مقرر ہوئے۔ وہیں ان کا انتقال ہوا اور ڈھاکہ میں ہی تدفین ہوئی۔

    ’نشاط رفتہ‘ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا جسے بہت پذیرائی ملی۔ دیگر تصانیف نقش بدیع، اردو غزل گوئی اور دورِ حاضر، سرودِ رفتہ، سچی کہانیاں، نوش و نیش تحقیق کی روشنی میں، جدید فارسی زبان پر فرانسیسی کے اثرات کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔

    عندلیب شادانی کا یہ شعر بھی زباں زدِ عام ہے۔

    جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
    اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو

  • زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کو ایک یگانہ روزگار، ہمہ جہت اور عالم فاضل شخصیت مانا جاتا ہے جنھوں‌ نے زبان و ادب کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد(بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جدید لسانیات کے ماہر، املا انشا، الفاظ کے مآخذ، تحقیق اور تاریخ کے عالم تھے اور متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔

    ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔ ہندوستان کی جیّد اور عالم فاضل شخصیات مختلف علمی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے ان سے رجوع کرتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی کا حصّہ رہے۔ ان کے مضامین اردو جرائد میں شائع ہوتے تھے، لیکن ان بہت کم کام کتابی شکل میں‌ منظرِ‌عام پر آسکا۔ کیوں کہ انھوں نے بہت کم لکھا اور زیادہ تر تحقیق اور مطالعے میں‌ وقت گزارا۔

    ان کی ایک قابلِ قدر تحقیقی کاوش ان کی وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابت رشیدی’ کی صورت میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس ان عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے داخل ہوئے۔ ان کی دو لغات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

    عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست دکن میں‌ ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور وہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں کو سیکھا، 1917ء میں انھیں عربی گرائمر پر تحقیق کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    وہ 1919ء میں ہندوستان واپس لوٹے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ بعد ازاں حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مدرس مقرر ہوگئے، اسی عرصے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کا سربراہ بنادیا گیا۔

  • یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    سلطنتِ عثمانیہ میں سلیم ثالث اپنے فہم و فراست اور سیاسی تدبّر کی وجہ سے قابلِ ذکر اور مثالی سلطانوں میں سرِفہرست ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ، لیکن وہ علم و ہنر کے قدر داں تھے جن میں سے ایک سلیم ثالث ہیں جو اس عظیم سلطنت کے 28 ویں سلطان تھے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہی جس کے حکم راں ترک مسلمان تھے۔ اس سلطنت میں 1789ء سے 1807ء تک سلیم ثالث کا دورِ حکم رانی رہا جنھیں معزول کر کے قتل کردیا گیا۔

    سلیم ثالث 1761ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1808ء میں‌ آج ہی کے دن روح نے ان کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ 46 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوئے۔

    سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا بیش تَر حصّہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کے صوبہ جات اور باج گزار علاقے الگ تھے۔

    سلیم ثالث کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال روکنے اور اسے ترقّی دینے کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔ وہ علم و ادب کا رسیا، فنونِ لطیفہ کا شائق و شیدا تھا اور مذہب پسند بھی جس نے اپنے دور میں تعلیم عام کرتے ہوئے جدید علوم کی سرپرستی کی۔ اس عہد میں فنِ‌ حرب کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ سلیم ثالث نے عسکری معاملات پر توجہ دیتے ہوئے افواج کو نئے سرے سے منظّم کیا اور جدید خطوط پر ترقّی دی۔

    سلیم ثالث نے ملک میں اصلاحات پر زور دیا اور جاگیر داری نظام کو اس راہ میں بڑی رکاوٹ پاکر اس حکم راں نے مخالفت کے باوجود جاگیر داری نظام کو ختم کیا، لیکن یہی کوششیں‌ اس کے خلاف گئیں سلیم کو ان اصلاحات کے باوجود خاص کام یابی نہ مل سکی۔ سماج اور مختلف اداروں بالخصوص فوج کو جدید خطوط پر منظّم کرتے ہوئے طاقت وَر بنانے کے لیے اس کے بعض اقدامات کو کفّار کی تقلید یا ان سے مشابہت قرار دے کر جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس حکم راں کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کردیا گیا۔

  • اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر 28 جولائی 2007ء کو راہیِ ملک عدم ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل کا یہ شعر آپ نے ضرور سنا ہو گا۔

    جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
    سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں‌ اٹھا رکھا ہے

    غزل کی اسی لڑی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے۔

    پتھرو! آج میرے سَر پر برستے کیوں ہو
    میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

    1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کا اصل نام محمد ناصر تھا۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آ گئے تھے جہاں اپنا مطب کھولا اور اسے یافت کا ذریعہ بنایا۔ ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔ حکیم ناصر نے مطب کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ شاعری جاری رکھی جو روایت و جدّت کا حسین امتزاج تھی۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، لیکن اسے ایک منفرد اور نئے آہنگ سے اشعار میں‌ سمویا۔ ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔

    یہاں ہم حکیم ناصر کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
    تُو نے کیا مجھ کو محبّت میں بنا رکھا ہے

    آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
    لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی

    ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
    کسی کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد

    تمہارے بعد اجالے ہی ہو گئے رخصت
    ہمارے شہر کا منظر بھی گائوں جیسا ہے

  • یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    یومِ وفات: حلیم بروہی رومن اسکرپٹ میں سندھی لکھنے کے حامی تھے

    سندھی زبان کے ناول نگار اور مقبول مصنّف حلیم بروہی 28 جولا‎ئی 2010ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حلیم بروہی نے 5 اگست 1935ء کو حیدر آباد، سندھ میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد محکمہ پولیس میں ملازم تھے۔ حلیم بروہی نے ابتدائی تعلیم کے بعد ایل ایل بی کیا اور پھر وکالت شروع کردی۔ تاہم جلد ہی سندھ یونیورسٹی جامشورو میں ملازمت اختیار کرلی اور ریٹائرمنٹ تک اسی تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔

    حلیم بروہی انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ ان کے کالم انگریزی اخبار دی فرنٹیئر پوسٹ میں شایع ہوتے تھے۔ سندھی اور انگریزی میں ان کی کُل دس کتابیں شایع ہوئیں جن میں سندھی کی کتاب ’حلیم شو‘ مقبول ترین تھی۔ 1975ء میں ان کا ناول ’اوڑاھ‘ کے نام سے شایع ہوا جو نوجوان قارئین میں خاصا مقبول ہوا۔ حلیم بروہی کے انگریزی کالموں کا انتخاب بھی شائع ہو چکا ہے۔

    حلیم بروہی سندھی زبان کے ایک منفرد قلم کار اور ایسے مصنّف تھے جو اپنے اصولوں اور ادبی نظریات کے سبب جہاں ہم عصروں میں ممتاز ہوئے، وہیں متنازع بھی رہے۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھاکہ میں‌ نے سندھی میں لکھ کر غلطی کی اور صرف انگریزی زبان میں لکھنا چاہیے تھا۔ سندھ اور سندھی زبان کے قلم کاروں میں حلیم بروہی کی مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ انھوں نے طویل عرصے تک سندھی کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کی تحریک چلائی۔

    حلیم بروہی کا خیال تھا کہ جیسی ادبی تقریبات منعقد ہورہی ہیں، وہ وقت کا زیاں ہیں۔ وہ ان قلم کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی کتابوں کی رونمائی یا اپنے اعزاز میں تقاریب کے انعقاد کی حوصلہ شکنی کی اور تخلیقی کام جاری رکھنے کو اہم قرار دیا۔

    حلیم بروہی نے عام روش سے ہٹ کر ایسے مصنّف کے طور پر خود کو پیش کیا جو نمائشی تقریبات اور پذیرائی سے بے نیاز تھا، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انھوں نے سندھ کے نوجوانوں میں مقبول ہونے کے باوجود کسی ادبی محفل کی صدارت نہیں‌ کی۔

  • فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور مزاحیہ اداکار ملک انوکھا کی برسی

    فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور مزاحیہ اداکار ملک انوکھا کی برسی

    آج پاکستانی فلم، ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کے مشہور اداکار ملک انوکھا کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 26 جولائی 2008ء کو حرکتِ قلب بند ہوجانے کے سبب وفات پاگئے تھے۔ ملک انوکھا کا فنی کیریئر 40 سال پر محیط ہے جس میں انھوں نے زیادہ تر مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    وہ 1960ء سے 1970ء کی دہائی تک فلم اور ڈراموں میں مختلف کرداروں میں رنگ بھرتے نظر آئے اور ناظرین نے ان کی اداکاری کو پسند کیا۔ ملک انوکھا نے سندھی زبان میں‌ بننے والی کئی فلموں میں اداکاری کی اور شائقین سے داد وصول کی۔ بعد میں وہ لاہور چلے گئے جہاں فلمی صنعت اور ڈراموں کے لیے کام کیا اور 1980ء میں کراچی آگئے جہاں انھیں ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملتا رہا۔

    انھوں نے اپنے وقت کے مشہور اور کام یاب ترین ڈراموں برزخ، کشکول، منڈی، امر بیل، فن کار گلی میں کام کیا تھا۔

    ملک انوکھا کا تعلق اندرونِ سندھ کے شہر میر پور خاص سے تھا۔ وہ اردو، پنجابی اور سندھی زبان پر عبور رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تینوں زبانوں میں بننے والی فلموں اور ڈراموں میں انھیں کردار سونپے گئے جنھیں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ملک انوکھا نے نہایت خوبی سے ادا کیا اور شہرت حاصل کی۔

    1970ء کی دہائی میں پی ٹی وی کا ڈرامہ ’دبئی چلو‘ ان کی وجہِ شہرت بنا۔ مزاحیہ سندھی ڈرامہ ہل پنھل ہل میں ان کے مخصوص انداز میں لوگوں نے ڈائیلاگ ’ہل پنھل‘ سنا تو عرصے تک اس سے محظوظ ہوتے رہے اور یہ ڈائیلاگ شائقین کی زبان پر رہا۔

  • اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    آج اردو زبان کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات ہے۔ خدیجہ مستور کا شمار اردو کی اُن ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی وفور اور شعور سے افسانہ اور ناول نگاری کے میدان میں نام و مقام بنایا اور ان اصنافِ ادب کا وقار بڑھایا۔ وہ 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔

    خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927ء کو بریلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942ء میں کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ بسا تھا۔ یہاں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے بھی منظرِ عام پر آئے جنھیں بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر آنگن کو بہترین ناول مانا گیا جس پر 1962ء میں خدیجہ مستور کو آدم جی انعام بھی دیا گیا تھا۔

    خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموما متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

    خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جب کہ ان کے بھائی خالد احمد کا نام جدید شاعری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

    خدیجہ مستور کو لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے، لیکن 26 جولائی ان کی تاریخِ پیدائش بھی ہے۔ ابنِ صفی اپنی 52 ویں سال گرہ کے دن 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ابنِ صفی 1928ء کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے قلمی نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان بنائی اور اردو زبان میں جاسوسی ادب کے اوّلین اور مقبول ترین قلم کار کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ابنِ صفی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ انھوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری کی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے تو طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952ء میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ہندوستان سے شایع ہوا۔ اسی سال ابنِ صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انھوں نے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے جاسوسی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، اس عنوان کے تحت ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں شائع ہوا۔ وہ جلد ہی کہانیوں اور ناولوں کے رسیا قارئین میں مقبول ہوگئے، انھوں نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کیے اور ان کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ان کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    عمران سیریز کی مقبولیت کے دنوں میں اکتوبر1957ء میں ابنِ‌ صفی نے یہاں جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو پاکستان میں ان کا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابنِ صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا۔ 1963ء میں ابنِ صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ان کے مستقل قارئین نے زبردست پذیرائی دی اور ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کہتے ہیں صرف ہفتے بھر میں ناشر کو اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ پاکستان کے اہم ادیبوں اور قلم کاروں ہی نے نہیں بلکہ ابنِ صفی کی تخلیقات کو نام وَر غیر ملکی ادیبوں اور نقّادوں نے بھی سراہا اور انھیں سرّی ادب کا بڑا قلم کار مانا ہے۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے ابنِ صفی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔