Tag: جولائی اموات

  • یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    یومِ‌ وفات: ’’دوپٹہ‘‘ وہ پاکستانی فلم تھی جس نے سبطین فضلی کو شہرتِ دوام بخشی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کار سبطین فضلی کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    سبطین فضلی بہت باغ و بہار قسم کے آدمی تھے۔ انتہائی خوش اخلاق، خوش گو اور خوش لباس۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے ہی سبطین فضلی اور ان کے بھائی حسنین فضلی نے کلکتہ سے فلم سازی میں نام و مقام بنالیا تھا۔ وہ ’’فضلی برادران‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ تاہم بٹوارے کے بعد سبطین فضلی جو لاہور میں مقیم تھے صرف تین ہی فلمیں بنائیں، لیکن ایسا کام کیا جو آج بھی یادگار ہے اور پاکستان کی فلمی صنعت میں اس کی مثالیں‌ دی جاتی ہیں۔

    سبطین فضلی 9 جولائی 1914ء کو بہرائچ (اتر پردیش) میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز اپنے بڑے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے فلم ’’دوپٹہ‘‘ کی ہدایات دیں جسے کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ اس فلم کے بعد انھوں نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو کام یاب نہیں ہوسکیں، مگر اس کام اور فنی مہارت میں ان کی محنت اور لگن کا ثبوت ہیں‌۔ فلم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ فلمی تاریخ میں سبطین فضلی کو زندہ رکھنے کے لیے ان کی فلم دوپٹہ ہی کافی ہے۔

    سبطین فضلی کی پہلی فلم ’’دوپٹہ‘‘ میں پاکستانی اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نیا ہیرو اجے کمار کے نام سے پردے پر سامنے آیا تھا۔ اس فلم میں‌ سدھیر نے بھی کام کیا تھا۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی اور بے حد کام یاب رہی تھی۔ اس زمانے میں آج کی طرح جدید سہولتیں اور وسائل نہ ہونے کے باوجود یہ بہت معیاری فلم تھی۔

    سبطین فضلی لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس داں اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی (Guglielmo Marconi) کے انتقال کی خبر ریڈیو پر سنی گئی جو انہی ہی کی ایجاد ہے۔ اسی نشریاتی میڈیم کی بدولت بعد میں‌ یہ افسوس ناک خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    مارکونی 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہوئے۔ نو عمری ہی میں انھوں نے وائرلیس ٹیلی گرافی، یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام ارسال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک سائنس داں کی تحریر سے متاثر ہو کر مارکونی کو وائرلیس ٹیلی گرافی کے لیے ریڈیو ویوز کے استعمال کا خیال آیا اور تب 20 سال کی عمر میں انھوں نے ریڈیو ویوز کے تجربات شروع کر دیے۔ ان کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں مارکونی نے اپنے تیار کردہ آلات سے کئی کلومیٹر کی دوری سے تار کے بغیر ریڈیو کمیونیکیشن کرنے کا مظاہرہ کیا جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دی۔ چند ایسے ہی تجربات کے بعد 1901ء میں وہ انگلستان سے کینیڈا وائر لیس پیغام بھیجنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

    مارکونی کی اس ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور گیتا دت 1972ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ گیتا دت نے بھارت کے نام ور فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے شادی کی تھی۔

    گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، بنگلہ دیش میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ ان کے والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور تب گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران وہ اس وقت کے نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ملیں اور یہ سلسلہ رومان سے شادی پر منتج ہوا۔ 1953 میں شادی کے بعد اس جوڑے کے گھر دو بیٹے پیدا ہوئے اور زندگی بڑی خوش گوار گزر رہی تھی، لیکن گرُو دت اداکارہ وحیدہ رحمان کو دل دے بیٹھے اور ان کی گھریلو زندگی میں طوفان آگیا۔

    1957ء میں گرو دت نے اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں گیتا دت کو مرکزی اداکارہ کے طور پر شامل کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ اسی عرصے میں گورو دت وحیدہ رحمان کے عشق میں گرفتار ہوئے تھے اور گیتا دت کو جب یہ معلوم ہوا تو انھیں سخت صدمہ پہنچا اور ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوتی چلی گئی۔ اس گلوکارہ نے مے نوشی شروع کردی اور ایک روز اچانک انڈسٹری میں گُرو دت کی موت کی خبر آئی جسے بعض لوگ خود کشی بھی قرار دیتے ہیں۔ شوہر کی ناگہانی موت نے گیتا دت کو ہلا کر رکھ دیا، وہ مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔

    اس غم کو جھیلتے ہوئے گیتا دت نے گلو کاری کے میدان میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1971ء میں فلم ’’انو بہو‘‘ کے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ ان کی آواز بلاشبہ بہت خوب صورت تھی۔

    کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جائو سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے گیتا دت کی یاد دلاتے رہیں گے۔

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    گزشتہ صدی میں 70 کے عشرے تک راجیش کھنہ جس فلم میں جلوہ گر ہوئے، باکس آفس پر ہٹ ہوئی۔ راجیش کھنہ ان اداکاروں میں‌ سے تھے جنھوں نے اپنے زمانہ عروج میں لگا تار پندرہ سپر ہٹ فلمیں دیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    راجیش کھنہ 1942ء میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1966ء میں انھوں‌ نے چیتن آنند کی فلم ’آخری خط‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور 1969ء میں ’آرادھنا‘ کی ریلیز کے بعد راتوں رات اسٹار بن گئے۔ اس فلم میں انھوں‌ نے باپ اور بیٹے کا ڈبل رول نبھایا تھا۔

    راجیش کھنہ نے اپنے سَر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنے، اپنی منفرد چال اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے شائقین بالخصوص لڑکیوں کی توجہ حاصل کی اور ان کے دلوں میں اتر گئے۔

    انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں شرمیلا ٹیگور اور ممتاز کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ ہٹ ہوئی۔ ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ جیسی فلموں سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کردار کی گہرائی میں بھی اترسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی نے ’آپ کی قسم‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں۔

    ہندی فلموں کے مشہور مصنّف سلیم خان کے مطابق راجیش کھنہ کے لیے لوگوں میں ایسی دیوانگی تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی شہرت کو سنبھال نہیں پائے اور خاصے مغرور ہوگئے تھے۔ وہ سیٹ پر آمد کے بعد جونیئر فن کاروں اور عملے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور خاموشی سے کام کرکے چلے جاتے تھے۔ راجیش کھنہ لیٹ لطیف بھی مشہور تھے اور بددماغ یا غرور بھی۔ تاہم بعض قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے ایسے تھے اور یہ کہنا درست نہیں‌ کہ فلم کی کام یابیوں نے انھیں ایسا بنا دیا تھا۔

    بالی وڈ میں‌ ان کی کام یابیوں کا سفر جاری تھا کہ امیتابھ بچن کا سورج چڑھنا شروع ہوا اور ستّر کی دہائی کے ساتھ ہی راجیش کھنہ کا عروج دم توڑنے لگا، ان کی فلمیں باکس آفس پر فلاپ ہونے لگی تھیں۔

    راجیش کھنہ نے اداکارہ ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی تھی اور ان کی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ان کی بیٹیاں ہیں۔ راجیش کھنہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔ فلمی دنیا میں انھیں ’کاکا‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔

  • یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    یومِ وفات: مشہور انگریزی ناول نگار جین آسٹن کا تذکرہ

    انگریزی زبان کی مشہور ناول نگار جین آسٹن نے 18 جولائی 1817ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ 41 برس کی عمر میں وفات پا جانے والی اس تخلیق کار نے چھے ناول لکھے جن میں انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو خوب صورتی سے سمویا گیا ہے۔

    وہ ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ 1775ء میں‌ جنم لینے والی جین آسٹن کی تخلیقات کو انگریزی کلاسیکی ادب کا حصّہ سمجھا جاتا ہے۔

    ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اسے اردو کے قالب میں ڈھالنے والوں نے فخر اور تعصّب کا نام دیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔ اس کا سبب اس دور کی عورتوں کے کام کرنے اور گھروں سے باہر نکلنے کے حوالے سے قدامت پسندانہ سوچ اور تعلیم و ادب کے حوالے سے انھیں اہمیت نہ دیا جانا تھا۔ اس لیے ان کے ناول لکھنے کے کافی عرصہ بعد چھپے اور وہ بھی فرضی نام سے۔

    مصنّفہ کے ناول سماج کے کرداروں اور اشراف کے اطراف گھومتے ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ سماج پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ بھی کی۔ مشہور ہے کہ وفات کے کئی برس بعد ان کی کہانیوں کو بہت زیادہ پڑھا اور سراہا گیا اور آج انھیں اس دور کی سماجی اور اخلاقی حالت کو سمجھنے اور بعض روایات کے تناظر میں‌ اہم خیال کیا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    آج مفتی صدراُلدّین آزردہ کا یومِ‌ وفات ہے جو ہندوستان کے ایک جیّد عالم، شاعر اور دلّی کے اہم منصب دار تھے۔

    آزردہ کا نام محمد صدراُلدّین تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی ہے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے جیّد علما سے دین اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور مفتی کی حیثیت سے انگریز دور میں صدرُالصّدور کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ مشہور ہے کہ تحریر و تقریر کی فضیلت اور متانت کے ساتھ وہ مروّت، اخلاق اور احسان کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ان کے درِ‌ دولت پر عالم و فاضل شخصیات ہی نہیں ادیب اور شعرا بھی محفل سجاتے۔

    آزردہ مرزا غالب کے گہرے دوست تھے۔ اس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے اور ان کی دینی اور علمی قابلیت کے ساتھ شاعری کو سراہا ہے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ وہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ 1857ء کی جنگ میں انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے گرفتار کیا اور املاک ضبط کر لی۔ تاہم حاضر دماغی اور ایک چال کے سبب جلد بری ہوگئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان دست یاب نہ ہونے کے باوجود مختلف تذکروں میں ان کے جو اشعار ملتے ہیں، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام میں فالج کا حملہ ہوا اور 1868ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

  • یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    یومِ وفات: شعر و ادب میں‌ ممتاز حمایت علی شاعر نے فلموں میں اداکاری بھی کی

    آج اردو کے ممتاز شاعر اور فلمی گیت نگار حمایت علی شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ تدریس اور ادارت سے وابستہ رہے اور ریڈیو، ٹیلی ویژن پر کام کرنے ساتھ فلموں میں‌ اداکاری بھی کی۔ حمایت علی شاعر 2019ء میں‌ آج ہی دن دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد، دکن میں‌ پیدا ہوئے، تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے اور سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے روزناموں میں کام کرنے کے ساتھ ریڈیو پاکستان سے وابستگی اختیار کر لی۔ شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم جیسی اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ فلموں کے لیے نغمات بھی لکھنے لگے۔ ان کے کئی گیت بہت مقبول ہوئے۔

    حمایت علی شاعر نے جہاں اردو ادب کو اپنے کلام کی شکل میں خوب صورت شاعری دی، وہیں ایک پختہ اور بلند فکر تخلیق کار کی‌ حیثیت سے انھوں نے شاعری میں ’’ثلاثی‘‘ جیسی صنف بھی متعارف کروائی جو تین مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ خوب صورت صنفِ سخن اگرچہ مقبول اصناف کے درمیان زیادہ توجہ حاصل نہیں کرپائی، لیکن کسی خیال کی بندش اور جذبات و احساسات کے اظہار کے لیے مؤثر اور لطیف ذریعہ ضرور ہے۔ حمایت علی شاعر نے اس صنف میں‌ اپنا کلام بھی پیش کیا جو ندرتِ خیال و وارفتہ جذبات کا نمونہ ہے۔

    وہ متعدد ادبی اور تحقیقی کتب کے مصنّف بھی تھے۔ ان کی تصانیف میں‌ ’آگ میں پھول‘، ’شکستِ آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دودِ چراغِ محفل‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘(نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام) شامل ہیں۔

    انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی جب کہ نغمہ نگاری پر فلمی دنیا کا معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ حمایت علی شاعر کینیڈا میں‌ مقیم تھے اور وفات کے بعد وہیں‌ ان کی تدفین کی گئی۔

    حمایت علی شاعر نے فلموں میں بھی کام کیا تھا جن میں جب سے دیکھا تمہیں، دل نے تجھے مان لیا، دامن، ایک تیرا سہارا، کنیز، میرے محبوب، تصویر اور کھلونا شامل ہیں۔

  • یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    یومِ وفات:‌ عظیم روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف کا تذکرہ

    نام وَر روسی ادیب اور کہانی کار انتون چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ اس کی تخلیقات کو نہ صرف روسی ادب کے قارئین نے سراہا بلکہ دنیا بھر میں اس کی کہانیوں کا چرچا ہوا اور چیخوف نے ناقدین سے داد پائی۔

    انتون چیخوف 29 جنوری 1860ء میں پیدا ہوا۔ چیخوف کا باپ سخت گیر آدمی تھا جب کہ ماں ایک اچھی قصّہ گو تھی اور بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سناتی تھی۔ اس ماحول میں بچپن گزارنے والے چیخوف کو بعد میں باپ کے مالی حالات بگڑ جانے پر غربت اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسے اپنی تعلیم کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے جن میں ٹیوشن پڑھانا، پرندے پکڑ کر بیچنا اور اخبارات کے لیے بامعاوضہ اسکیچ بنانا شامل ہے۔

    کام اور تعلیم کے حصول کے زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لیا اور زیادہ کام کرکے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے ساتھ ساتھ گھر کا خرچ بھی چلانے لگا۔ چیخوف نے یومیہ بنیاد پر اسکیچ بنانا شروع کردیا تھا جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔ وہ روزمرّہ روسی زندگی کی تصویر کشی بھی کرنے لگا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے اسے اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔ چیخوف نے جرائد کے لیے بھی لکھنا شروع کردیا اور جب تھیٹر کے لیے ڈرامے تحریر کیے تو گویا اس کی شہرت ساتویں‌ آسمان سے باتیں‌ کرنے لگی۔

    وہ 1884ء میں فزیشن بھی بن گیا، لیکن درد مند اور حسّاس چیخوف نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا اور ہمیشہ دوسروں کی مدد کرتا رہا۔ تاہم بعد میں‌ اس نے ادب تخلیق کرنے پر زیادہ توجہ دی۔ اس نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں بھی شایع کروایا۔ اس کے مجموعوں کو زبردست پذیرائی ملی اور چیخوف نے مقبول ترین روسی ادیب کا درجہ حاصل کیا۔

    ایک وقت آیا جب انتون چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا اور وہ لاغر ہوتا چلا گیا، اسی بیماری کے سبب ایک روز اس نے زندگی کی بازی ہار دی۔ وفات کے وقت وہ 44 برس کا تھا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے لوگوں کی حقیقی زندگی کو پیش کیا اور معاشرتی تضاد، منافقت اور سچ جھوٹ کے ساتھ عام زندگی کو قریب سے اور نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا۔

  • پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    پاکستانی فلم کا گیت ”گاڑی کو چلانا بابو….” کس بھارتی اداکارہ پر فلمایا گیا تھا؟

    وہ لوگ جو اب اپنی عمر کے ساتویں پیٹے میں‌ ہیں، شاید شیلا رامانی کا نام سن کر بے ساختہ یہ گیت گنگنانا شروع کردیں جس کے بول ہیں، "گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…”

    پاکستان میں نوجوان نسل بالخصوص نئے ہزاریے میں آنکھ کھولنے والوں نے ترنگ اور امنگ سے بھرپور یہ گانا تو شاید سنا ہو، لیکن شیلا رامانی سے واقف نہیں ہوں گے۔

    2015ء میں آج ہی کے دن وفات پا جانے والی شیلا بھارتی اداکارہ تھیں۔ یہ گانا انہی پر فلمایا گیا تھا۔ فلم کا نام تھا انوکھی جس کا یہ گیت بہت مقبول ہوا۔

    شیلا رامانی کا تعلق سندھ کے شہر نواب شاہ سے تھا جہاں انھوں نے 2 مارچ 1932ء میں آنکھ کھولی۔ چیتن آنند نے انھیں بالی وڈ میں متعارف کرایا تھا۔ 1954ء میں شیلا رامانی کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی اور ان کی وجہِ شہرت بنی۔ اس کے علاوہ سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے بھارت میں رہنے کا فیصلہ کیا اور یوں وہ ان سندھی فن کاروں میں شامل ہیں‌ جنھوں نے بالی وڈ میں‌ کام کیا۔ شادی کے بعد وہ امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ شیلا کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    ہندوستان میں ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار نامی فلموں میں کام کرنے والی شیلا رامانی کو ہدایت کار شاہنواز نے 1956ء میں اپنی فلم انوکھی کے لیے ہیروئن کا رول آفر کیا اور وہ شوٹنگ کے لیے پاکستان آئیں۔ یہ فلم تو بہت زیادہ کام یاب نہیں رہی، لیکن اس کا گیت مقبول ترین ثابت ہوا۔

    شیلا رامانی کے مدِّمقابل ہیرو کا کردار اداکار شاد نے نبھایا تھا۔ اس فلم میں شیلا نے زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کرواتے ہوئے ہندوستان لوٹ گئیں جہاں انھوں نے بالی وڈ میں جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کرکے شائقین و ناقدین کی توجہ حاصل کی۔