Tag: جولائی اموات

  • پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی نام وَر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    کئی دہائیوں تک ٹی وی ڈراموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی ذہین طاہرہ 2019ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ ان کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کی سینئر اور منجھی ہوئی اداکاراؤں میں‌ ہوتا ہے۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انھوں نے لگ بھگ 45 برس ٹیلی ویژن پر کام کیا اور اداکاری کے فن میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ذہین طاہرہ نے ریڈیو، اسٹیج پرفارمنس کے ساتھ چند فلموں میں بھی کردار نبھائے تھے۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ نے 700 سے زائد ڈراموں میں اداکاری کی۔ انھوں نے 1960ء میں ٹی وی پر اپنی داکاری کا آغاز کیا۔ ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا مقبول ترین ڈراما تھا جسے 1974ء میں دوبارہ اسکرین پر پیش کیا گیا اور ذہین طاہرہ نے اس میں مرکزی کردار نبھا کر شہرت حاصل کی۔

    چھوٹی اسکرین پر اداکارہ نے آنگن ٹیڑھا، خالہ خیرن، شمع، عروسہ، دیس پردیس، عجائب خانہ، ضرب تقسیم اور مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے تحت بننے والے ڈراموں میں‌ کام کیا جو نجی ٹیلی ویژن چینلوں پر نشر ہوئے۔

    ڈراموں میں اپنے فن کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے بڑی اسکرین پر بھی اپنی اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے 2013ء میں ’تمغہ امتیاز‘ سے نوازا تھا۔

  • ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر، فلمی نغمہ نگار اور نقّاد، بشر نواز 9 جولائی 1995ء کو وفات پاگئے تھے۔ بالی وڈ کی مشہور فلم بازار کے لیے ان کا لکھا ہوا ایک گیت ‘کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی’ بہت مقبول ہوا تھا۔

    ان کا اصل نام بشارت نواز خاں تھا جو دنیائے ادب میں بشر نواز کے نام سے جانے گئے۔ 18 اگست 1935ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد بھارت ہی میں قیام پذیر رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور دینی تھا۔ والد ناظمِ تعلیمات اور والدہ عالمہ تھیں۔ بشر نواز نے 1953ء میں شاعری کا آغاز کیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ پہچان بنانے میں کام یاب رہے اور بعد میں فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگار کی حیثیت سے شاعری کی۔

    انھیں حیدر آباد دکن کے ایک مشاعرے میں پہلی بار ممتاز ترقّی پسند شاعر مخدوم محی الدّین نے متعارف کروایا تھا۔ ان کے شعری مجموعے رائیگاں اور اجنبی سمندر کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ایک تنقیدی مجموعہ نیا ادب نئے مسائل کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔

    بشر نواز کی نظمیں بھی مشہور ہوئیں جب کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے جیسے نام ور گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ ہوئے اور فلم بینوں تک پہنچے۔

  • ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    ممتاز شاعر نقّاد اور مدرّس منظور حسین شور کی برسی

    آج اردو اور فارسی کے ممتاز شاعر، نقّاد اور ماہرِ تعلیم منظور حسین شور کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 8 جولائی 1994ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ان کا خاندانی نام منظور حسین اور تخلّص شور تھا۔ وہ 15 دسمبر 1916ء کو امراوتی (سی۔ پی) ہندوستان میں پید اہوئے۔ میٹرک اور ایم اے کرنے کے بعد قانون کی سند حاصل کی۔ وہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے فارغ التحصیل تھے۔

    تعلیمی مراحل طے کرنے بعد ناگپور کے شعبہ ادبیات فارسی اور اردو میں بطور ریڈر ملازم ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج، گجرات پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج، لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی منتقل ہوگئے جہاں جامعہ کراچی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔

    شور صاحب بنیادی طور پر نظم گو شاعر تھے، لیکن غزل بھی کہا کرتے تھے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ’’نبضِ دوراں‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے بعد کے مجموعے بالترتیب ’دیوارِ ابد‘، ’سوادِ نیم تناں‘، ’میرے معبود‘ ، ’صلیبِ انقلاب‘ ، ’ذہن و ضمیر‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کا تمام کلام رفعتِ خیال اور غزل و نظم کی تمام تر نزاکتوں اور لطافتون سے آراستہ ہے۔

    شور صاحب نے چار کتابیں ’حشرِ مرتب‘ ، ’انگشتِ نیل‘ ، ’افکار و اعصار‘ ،’اندر کا آدمی‘ مرتّب کیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
    میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے

  • قوم کو عبدالستار ایدھی کے سایۂ شفقت سے محروم ہوئے پانچ سال بیت گئے

    قوم کو عبدالستار ایدھی کے سایۂ شفقت سے محروم ہوئے پانچ سال بیت گئے

    پانچ برس قبل آج ہی کے دن عبدُالسّتار ایدھی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ پاکستان کا ایک روشن حوالہ، حقیقی پہچان اور پوری دنیا میں اپنی سماجی خدمات کے سبب مثال بننے والے ایدھی آج بھی ہمارے دلوں میں‌ زندہ ہیں۔

    عبدُالستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہوگیا اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    عبدالستار ایدھی نے چھوٹی عمر ہی میں مدد، تعاون، ایثار کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ ان آفاقی قدروں اور جذبوں کو اہمیت دیتے ہوئے بڑے ہوئے جن کی بدولت وہ دنیا میں‌ ممتاز ہوئے اور پاکستانیوں کو ایک مسیحا ملا۔ عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی کے 65 برس دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے گزارے۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کا قیام ان کا وہ عظیم کارنامہ ہے جس کے تحت آج بھی کتنے ہی بے گھر، لاوارث، نادار اور ضرورت مند افراد زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس عظیم سماجی راہ نما نے اپنی سماجی خدمات کا آغاز 1951ء میں ایک ڈسپنسری قائم کرکے کیا تھا۔ اپنے فلاح و بہبود کے پہلے مرکز کے قیام کے بعد نیک نیّتی، لگن اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالسّتار نے ایدھی ٹرسٹ کی بنیاد رکھی اور تادمِ مرگ پاکستانیوں کے دکھ درد اور تکالیف میں مسیحائی اور خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔

    ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے جو پاکستان کے ہر شہر میں لوگوں کی خدمت میں مصروف ہے۔ 1997ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اس سروس کو دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کے طور پر شامل کیا گیا۔

    اسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت پاگل خانے، یتیموں اور معذوروں کے لیے مراکز، بلڈ بینک اور اسکول بھی کھولے گئے۔ انھوں‌ نے پاکستان ہی نہیں دنیا کے متعدد دیگر ممالک میں بھی امن اور جنگ کے مواقع پر ضرورت پڑنے پر انسانیت کے لیے خدمات انجام دیں۔

    حکومتِ پاکستان نے اس مسیحا کو نشانِ امتیاز سے نوازا جب کہ پاک فوج نے شیلڈ آف آنر پیش کی اور حکومتِ سندھ نے عبدالستار ایدھی کو سوشل ورکر آف سب کونٹیننیٹ کا اعزاز دیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر عبدالستار ایدھی کو ان کی سماجی خدمات کے اعتراف میں رومن میگسے ایوارڈ اور پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔

    گردوں کے عارضے میں مبتلا عبدالستار ایدھی 2016ء میں کراچی میں وفات پاگئے۔ ان کی تدفین مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ کی گئی۔

  • یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جگدیپ گزشتہ سال 8 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے بالی وڈ کی مشہور اور کام یاب ترین فلم شعلے کے ایک کردار سورما بھوپالی کے سبب شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی۔

    جگدیپ کا اصل نام سّید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ وہ 29 مارچ 1939ء کو مدھیہ پردیش کے شہر داتیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ فلم افسانہ سے ہوا اور بعد میں‌ جگدیپ کے نام سے انھیں کئی فلموں میں اہم اور نمایاں کردار نبھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے چار سے سو زائد فلموں‌ میں کام کیا جن میں‌ سے اکثر سپرہٹ اور یادگار ثابت ہوئیں۔

    1957ء میں بمل رائے کی فلم دو بیگھا زمین نے ان کے کیریئر کو مہمیز دی اور یہاں سے وہ ایک کامیڈین کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں‌ نے 1975ء میں فلم شعلے میں جگدیپ نے سورما بھوپالی کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ لوگوں کے دلوں میں‌ اتر گئے۔ کہتے ہیں ان کے اس کردار نے گویا بھوپال کا کلچر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اپنے اس کردار میں انھوں نے اپنے اندازِ تخاطب سے جان ڈالی تھی اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنا رول نبھانے کے لیے جس قدر محنت کی تھی، اسی کی بدولت یہ کردار ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ سورما بھوپالی کا یہ کردار لکڑی کا ایک تاجر ہے جو بہت زیادہ پان کھاتا ہے اور مخصوص لب و لہجے میں‌ بات کرتا ہے۔

    جگدیپ کی یادگار فلموں میں شعلے کے علاوہ انداز اپنا اپنا، افسانہ، آر پار اور دیگر شامل ہیں۔ انھیں آخری بار 2017ء میں فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں دیکھا گیا تھا۔

    جگدیپ کے تین بیٹے جاوید جعفری، نوید جعفری اور حسین جعفری بھی بالی وڈ سے وابستہ ہیں۔ جاوید جعفری معروف کامیڈین، میزبان، اداکار اور ماہر ڈانسر ہیں۔

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کام یاب فلمیں کیں۔ ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ بھرتی ہوئے اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد کر روزی کمانے کے لیے تانگہ چلانا شروع کر دیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور انھیں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام، مزدوری بھی شروع کردی۔ ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ اسی عرصے میں شہر کے ایک سنیما کے عملے سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان لوگوں نے ساون کو فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ساون نے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے اور آخر کار فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ایک کردار حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوگئے۔

    فلمی دنیا میں‌ قدم رکھنے والے ظفر احمد بٹ کو ساون کا نام دیا گیا۔ اسی زمانے میں کسی نے لاہور جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی گرج دار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور چلے گئے اور آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ’’سولہ آنے‘‘ کے بعد وہ فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کاسٹ کر لیے گئے اور اس فلم نے انھیں مقبول اداکار بنا دیا۔

    ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ساون نے مقبولیت اور کام یابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کہنے لگے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” کئی کام یاب فلمیں کرنے کے بعد ساون کو فلموں میں اہم کرداروں کی آفر کا سلسلہ بند ہوتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • یومِ وفات: مادام کیوری اپنی سائنسی دریافتوں کو قدرت کی خود پر مہربانی تصوّر کرتی تھیں

    یومِ وفات: مادام کیوری اپنی سائنسی دریافتوں کو قدرت کی خود پر مہربانی تصوّر کرتی تھیں

    میری کیوری جنھیں ہم مادام کیوری کے نام سے جانتے ہیں، 4 جولائی 1934ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئی تھیں۔ وہ نوبیل انعام یافتہ سائنس داں تھیں جنھوں نے تابکاری کے شعبے میں تحقیق اور اپنی دریافتوں کے سبب دنیا بھر میں‌ شہرت پائی۔ مادام کیوری طبیعیات اور کیمیا کے مضامین کی ماہر تھیں۔

    7 نومبر 1867ء کو پولینڈ میں‌ پیدا ہونے والی مادام کیوری کے والد ریاضی اور فزکس کے استاد تھے جب کہ والدہ لڑکیوں کے ایک بورڈنگ اسکول کی نگراں تھیں۔ مادام کیوری نے فرانس کی جامعہ سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر اپنے شوہر کے ساتھ سائنسی تجربات اور تابکاری پر کام میں‌ مشغول ہوگئیں۔ انھوں نے ریڈیم دریافت کیا، لیکن اس دریافت سے پیسہ کمانے کے بجائے کہا کہ ’’ریڈیم مہربانی اور کرم ہے جو دنیا کی ملکیت ہے‘‘۔

    1934ء میں وہ خون کے خلیات کی ایک ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوگئیں جو بہت زیادہ تابکاری اثرات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی برس ان کا انتقال ہوگیا۔

    عظیم سائنس داں آئن سٹائن نے مادام کیوری کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا: ’’ماری کیوری کی قوّت، اس کی قوّتِ ارادی، اس کی درویش صفتی، اس کی غیرجانب داری، اس کی لازوال منصف مزاجی … یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی ایک فرد میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اس کا عجز و انکسار حد سے بڑھا ہوا تھا۔‘‘

    تابکاری (radioactivity) کے شعبے کی بانی مادام کیوری نے دو مرتبہ نوبیل انعام حاصل کیا۔ انھوں نے طبیعیات کا نوبیل 1903ء میں جب کہ کیمیا کا یہ انعام انھیں 1911ء میں ملا جس کی وجہ ریڈیم اور پولونیم کی دریافتیں تھیں۔

  • معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    آج پاکستان کے نام ور لوک فن کار الن فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 4 جولائی 2000ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    الن فقیرکا اصل نام علی بخش تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1932ء بتایا جاتا ہے۔ الن فقیر کا تعلق سندھ کے علاقے مانجھند، ضلع دادو سے تھا۔ ان کے والد دھمالی فقیر مشہور ساز شہنائی بجانے کے حوالے سے معروف تھے۔ یوں الن فقیر لوک گیت اور موسیقی سے شروع ہی سے مانوس ہوگئے۔ وہ سریلی آوازیں سنتے، مقامی سازوں کو دیکھتے اور انھیں‌ تھامنے اور بجانے کے فن کو سمجھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ اس ماحول نے ان کے اندر سوز و گداز پیدا کیا اور ایک وقت آیا کہ انھوں نے لوک فن کار کی حیثیت سے نام و مقام پیدا کیا۔

    الن فقیر کو سندھی شاعری کی مشہور صنف وائی گانے میں مہارت حاصل تھی۔ مقامی سطح پر اپنے فن کام مظاہرہ کرنے والے الن فقیر ریڈیو پاکستان اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب رہے اور یوں‌ انھیں ملک بھر میں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ اپنی گائیکی کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول تھے۔ پرفارمنس کے دوران سندھ کے روایتی ملبوس کے ساتھ ان کا منفرد اور والہانہ انداز حاضرین و ناظرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔ گائیکی کے دوران الن فقیر کا مخصوص رقص، جھومنا اور مست و سرشاری کا عالم اپنی مثال آپ تھا۔

    سندھ کے عظیم شاعروں کا کلام گانے والے الن فقیر کا نام "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا” اور "اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا” جیسے گیتوں کی بدولت فن کی دنیا میں امر ہو گیا۔

    1987ء میں حکومتِ پاکستان نے الن فقیر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی جب کہ 1999ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا تھا۔ الن فقیر جامشورو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    3 جولائی 2006ء کو ملک رحیم خان المعروف سکّے دار وفات پاگئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت فلم جبرو تھی جسے برطانوی راج پر ایک رجحان ساز فلم مانا جاتا ہے۔ اس فلم کے مکالمے اور منظر نامہ سکّے دار کا تحریر کردہ تھا۔

    ملک رحیم خان 1927ء کو لاہور کے قریب گاؤں نیاز بیگ میں پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے فلم نگری میں کہانی کار اور مکالمہ نویس کے طور پر نام بنایا اور اداکار و نغمہ نگار کے طور پر بھی کام یاب ہوئے۔ ایک فلم میں انھوں‌ نے ہندو بنیے کا کردار نبھا کر ناقدین سے خوب داد پائی۔ رحیم سکّے دار کو مکالموں‌ کی ادائیگی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے اور فلموں کا اسکرپٹ جان دار ہوتا تھا۔

    رحیم سکّے دار چند کتابوں‌ کے مصنّف بھی تھے جو فلم نگری سے وابستہ شخصیات اور ان کے فن پر معلومات کا خزانہ ہیں۔ ان میں مشہور فلمی شاعر تنویر نقوی پر لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔

    آج بہت کم لوگ رحیم سکّے دار کے نام اور ان کے کام سے واقف ہیں۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ لکھا۔ ان کا پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ الاپ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    رحیم سکّے دار کی فلمیں‌ 60 اور 70 کی دہائی میں‌ خاصی مقبول ہوئیں۔