Tag: جولائی اموات

  • ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    آج "دل دل پاکستان” جیسے مقبول ترین ملّی نغمے کے خالق نثار ناسک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 3 جولائی 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ نثار ناسک نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کی۔

    سن 1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والے نثار ناسک کی وجہِ شہرت ”دل دل پاکستان“ تھا جسے جنید جمشید نے گایا تھا۔ اس نغمے نے جنید جمشید کو راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    نثار ناسک کی دو کتابیں ”چھوٹی سمت کا مسافر“ اور ”دل دل پاکستان“ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ انھیں پی ٹی وی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا جب کہ ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔

    نثار ناسک کے ملّی نغمے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بھی کہا گیا ہے۔

  • شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    شہرۂ آفاق کہانیوں کے خالق ارنسٹ ہیمنگوے کی زندگی اور دردناک انجام کی کہانی

    مشہور ہے کہ ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے خوشی اور مسرت کا اظہار کرنے کے لیے باقاعدہ بگل بجا کر اپنے بیٹے کی آمد کا چرچا کیا تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے والد کی موت طبعی نہ تھی بلکہ انھوں نے خود کُشی کی تھی اور 1961ء میں آج ہی کے دن ان کے بیٹے نے بھی اپنی زندگی کا ختم کرلی۔ خود کشی کے وقت وہ 61 برس کے تھے اور انھیں ایک ناول نگار، ادیب اور صحافی کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ پہچانا جاتا تھا

    ارنسٹ ہیمنگوے شہرۂ آفاق تخلیق کار تھا جو 21 جولائی 1899ء کو پیدا ہوا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماں گریس ہال ہیمنگوے گلوکار اور موسیقار تھی۔ ماں باپ دونوں ہی تعلیم یافتہ اور نہایت قابل تھے اور ان کا شمار اپنے علاقے کے معزّزین میں‌ کیا جاتا تھا۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے نواحی علاقے سکونت پذیر تھا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کے باپ کو سیر و سیّاحت کا بہت شوق تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی ساتھ لے جانے لگا۔ اس نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے باپ ہی سے سیکھا اور اس دوران فطرت کو بہت قریب سے دیکھا اور اس کا مشاہدہ کیا جس کا عکس ان کی تحریروں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

    طالبِ علمی کے زمانے میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو اسکول میگزین اور اخبار سنبھالنے کا موقع ملا اور اس کا یہ تجربہ گریجویشن کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کی ملازمت کے دوران بہت کام آیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے یہاں چند ماہ کے دوران اچھی تحریر اور مضمون نگاری کے سنہری اصول سیکھے۔ وہ ایک ایسا صحافی اور لکھاری تھا جو کھیل کود اور مہم جوئی کا بھی دل دادہ تھا اور مطالعے کے ساتھ اسے اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، ان کا اسے بہت فائدہ ہوا۔ اس نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضامین بھی لکھے۔ 1921ء میں شادی کے بعد وہ پیرس چلا گیا جہاں ادیبوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بزم آرائیوں نے اسے بھی ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    یہ ادیب اور شاعر اپنے وقت کی نادرِ روزگار اور باکمال شخصیات تھیں جن میں‌ ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس شامل ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی سے اس نے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور وہ شایع ہونے لگیں۔ 1926ء میں ارنسٹ ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آگیا جو اس کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا۔ اس نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر اور وہاں‌ قیام کیا اور اس دوران اپنے وسیع تجربات اور مشاہدات کو بروئے کار لاتے ہوئے انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیاں‌ دیں جن کی بنیاد پر اس نے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ دنیا کا سب سے معتبر نوبیل انعام بھی حاصل کیا۔

    اس کا ایک ناول فیئر ویل ٹو آرمز خود اس کے دو عاشقانہ قصّوں اور ایک جنگ کے پس منظر میں لکھا گیا ہے جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ وہ ناول ہیں جنھیں اردو زبان کے شائقین نے بہت سراہا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے محبتیں‌ بھی کیں، شادیاں بھی اور متعدد ممالک میں قیام بھی کیا۔ اس دوران اس نے جنگ میں‌ بھی حصّہ لیا، تخلیقی سفر بھی جاری رکھا، سیرو سیاحت کے ساتھ تمام مشاغل بھی پورے کیے۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کا شوق رکھتا تھا اور اسی کھیل سے متعلق اس کا ایک ناول بھی منظرِ عام پر آیا جو بہت مشہور ہوا۔

    فطرت کے دلدادہ اور جہانِ ادب میں نام ور ارنسٹ ہیمنگوے کو اس لحاظ سے بدقسمت کہا جاسکتا ہے کہ والد کی طرح خود اس نے ہی گولی مار کر اپنی زندگی ختم نہیں کی بلکہ اس کی بہنوں نے بھی خود کشی کی تھی۔

  • یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    یومِ وفات: کمپیوٹر ماؤس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے گی

    کمپیوٹر ایک انقلابی ایجاد ہے، جس کا وسیع اور مؤثر استعمال اس سے منسلک دیگر آلات یا ڈیوائسز کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ کمپیوٹر ماؤس ایک ایسا ہی آلہ ہے جو بجائے خود ایک بڑی اور اہم ایجاد ہے۔ اس کے موجد ڈگلس اینگلبرٹ تھے جو 2013ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    وہ امریکا سے تعلق رکھتے تھے جہاں 30 جنوری 1925ء کو پورٹ لینڈ، اوریگون کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ حصولِ تعلیم کے دوران اینگلبرٹ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دل چسپی لینے لگے۔ گریجویشن کے بعد 1950ء کی دہائی میں الیکٹریکل انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنسز میں ڈگری لی اور اسٹینفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہو گئے۔ وہاں انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر بہت سی ایسی نئی اختراعات پر کام کیا، جن کی بدولت کمپیوٹر میں‌ اہم اور مؤثر ترین تبدیلیاں ہوئیں اور اس کا استعمال سہل ہوتا چلا گیا۔

    اس حوالے سے ان کا نمایاں اور قابِل ذکر کام ای میل، ویڈیو کانفرنسنگ، ہائپر ٹیکسٹ لنکس اور انٹرنیٹ سے قبل تکمیل پانے والا نیٹ ورک ARPAnet ہے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کی اہم ترین ایجاد ماؤس ہے جس کے بغیر عام صارف کے لیے اس جادوئی مشین سے استفادہ کرنا محال ہو گا۔ 1970ء میں ‘پیٹنٹ’ کرائے گئے ماؤس کی ابتدائی شکل لکڑی کے ایک چھوٹے سے باکس جیسی تھی جس کے نیچے دو دھاتی پہیے نصب کیے گئے تھے۔

    ڈگلس اینگلبرٹ نے اپنی اس ایجاد کو عام کرنے سے دو برس قبل 1968ء میں سان فرانسسکو میں منعقدہ ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران اسے استعمال کیا تھا۔ یہ دنیا میں کمپیوٹر کانفرنسنگ کا بھی پہلا مظاہرہ تھا، جس میں انھوں نے 50 کلومیٹر فاصلے پر موجود اپنے ایک ساتھی سے ویڈیو پر براہِ راست بات چیت کی تھی۔

    اس مظاہرے کو ’مدر آف آل ڈیموز‘ کا نام دیا گیا تھا۔

    ماؤس کے علاوہ کمپیوٹر کا گرافیکل یوزر انٹرفیس (GUI) بھی ڈگلس اینگلبرٹ کا تیّار کردہ تھا جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں مزید انقلابی تبدیلیوں‌ کا سبب بنا۔ اس کی بدولت کمپیوٹر نے ’ڈسک آپریٹنگ سسٹم‘ جسے مختصراً DOS کہا جاتا تھا، سے نکل کر ونڈوز وغیرہ کی شکل میں جدّت پائی۔

    ڈگلس اینگلبرٹ کو سن 2000ء میں ٹیکنالوجی انڈسٹری کے سب سے بڑے ایوارڈ ’نیشنل میڈل آف ٹیکنالوجی‘ سے نوازا گیا تھا۔

    اس امریکی موجد کے تیّار کردہ ماؤس کا ڈیزائن معروف کمپیوٹر ساز کمپنی ایپل کو فروخت کیا گیا تھا، جس نے پہلی مرتبہ 1983ء میں اپنے کمپیوٹر کے ساتھ اس ماؤس بھی فروخت کے لیے پیش کیا تھا۔

    امریکی ریاست کیلیفورنیا میں وفات پانے والے ڈگلس اینگلبرٹ نے زندگی کی 88 بہاریں دیکھیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے حوالے سے ان کے نظریات اور ایجادات کو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں کے لیے نہایت اہمیت رکھتی ہیں۔

  • یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    یومِ وفات: آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو ’گاڈ فادر‘ مشہور ہوگئے تھے

    ہالی وڈ کی کئی فلموں میں یادگار کردار ادا کرنے والے مارلن برانڈو کو ایک لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے جو 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار مارلن برانڈو کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 3 اپریل 1924ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 80 سال کی عمر پائی اور وفات سے تین سال قبل تک فلمی پردے پر کام کرتے رہے۔

    برانڈو نے فلموں میں اداکاری کا آغاز 1950ء میں فلم ’دی مین‘ سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایک چھبیس سالہ مفلوج مریض کے بہروپ میں نظر آئے۔ کہتے ہیں انھوں نے اپنے پہلے کیریکٹر کو خوبی سے نبھانے کے لیے کئی دن مقامی اسپتال میں بستر پر گزارے۔

    برانڈو ان اداکاروں میں شامل ہیں‌ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسکرین پر نظر آئے اور خود کو اہم فن کار ثابت کیا۔ انھوں نے 40 سے زائد فلموں میں کردار نبھائے۔ ’دی وائلڈ ون‘ 1953ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی وہ فلم تھی جس میں برانڈو نے بدمعاش گروہ کے سرغنہ کا کردار ادا کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ تاہم 1972ء میں بننے والی ’دی گاڈ فادر‘ میں ان کا مافیا ڈان کا کردار ان کی وجہِ‌ شہرت بنا۔ یہ ہالی وڈ کی کلاسک فلموں میں سے ایک تھی جس پر برانڈو کو آسکر ایوارڈ دیا گیا۔ اس سے قبل ’اے اسٹریٹ کار نیمڈ ڈیزائر‘ وہ فلم تھی جس کے ایک کردار کے لیے وہ یکے بعد دیگرے چار مرتبہ آسکر کے لیے نام زد ہوئے، تاہم پہلا آسکر 1954ء میں بننے والی فلم ’آن دی واٹر فرنٹ‘ میں باکسر کا کردار ادا کرنے پر ملا۔ دوسرا آسکر ’دی گاڈ فادر‘ کے کردار پر دیا گیا۔

    ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ کے بعد برانڈو نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مارلن برانڈو اپنے فنی کیریئر کے دوران آٹھ مرتبہ فلمی دنیا کے سب سے معتبر ایوارڈ ’آسکر‘ کے لیے نام زد ہوئے اور دو مرتبہ اس کے حق دار قرار پائے۔

    ’دی وائلڈ ون‘ ’اسٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ برانڈو کی وہ فلمیں‌ تھیں جنھوں‌ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی اور دنیا بھر میں ان کی مقبولیت کا سبب بنیں۔

    2001ء میں اس فلمی ستارے نے ’دی اسکور‘ میں کام کیا۔ جرائم پر مبنی اس کہانی میں انگریزی فلموں کے شائقین اور مداحوں نے آخری مرتبہ مارلن برانڈو کو اسکرین پر دیکھا۔

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔