Tag: جولائی انتقال

  • موسیقار خلیل احمد کا تذکرہ جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوگئے تھے

    موسیقار خلیل احمد کا تذکرہ جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہونے پر مجبور ہوگئے تھے

    موسیقی کی دنیا میں خلیل احمد کا نام ان کے ملّی نغمات ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ کی وجہ سے ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان خوب صورت ملّی نغموں کے ساتھ خلیل احمد کی دھنوں میں کئی فلمی گیت بھی مقبول ہوئے۔

    موسیقار خلیل احمد 1934ء میں یوپی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام خلیل احمد خاں یوسف زئی تھا۔خلیل احمد نے آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور 1952 ء میں پاکستان آگئے۔ یہاں وہ موسیقی کے میدان میں مہدی ظہیر کے شاگرد ہوئے۔ بعد میں فلمی دنیا میں بحیثیت موسیقار قدم رکھا اور 1962 ء میں فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوگئے اور خلیل احمد کا شمار پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب موسیقاروں میں کیا جانے لگا۔ موسیقار خلیل احمد کی مشہور فلموں میں دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، ایک مسافر ایک حسینہ، آنچ، داستان، آج اور کل کے نام سرفہرست ہیں۔ خلیل احمد نے 40 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ لیکن اس دور میں اکثر فلم ساز انھیں چربہ اور دوسرے موسیقاروں کی دھنیں سرقہ کرنے پر اصرار کرنے لگے تو خلیل احمد نے فلم کی دنیا سے دور رہنے کو ترجیح دی اور کام چھوڑ دیا۔ وہ ایک حقیقی تخلیق کار تھے اور خود دار انسان بھی جس نے فلم سازوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے سے انکار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ خلیل احمد نے زندگی کے آخری کئی برس تقریباً گمنامی میں گزارے۔

    اسّی کی دہائی میں وہ ریڈیو اور پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کا بھی حصّہ رہے۔ انھوں نے بچوں کے ایک مقبول پروگرام ’’آنگن آنگن تارے‘‘ کی میزبانی بھی کی جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ خلیل احمد نے ٹیلی ویژن کے لیے متعدد نغمات کی موسیقی دی جو ان کے ملّی نغمات کی طرح بہت مقبول ہوئے۔

    21 جولائی 1997ء کو موسیقار خلیل احمد وفات پا گئے تھے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کو اپنے مقصد سے عشق تھا اور اس راستے میں‌ جتنے بھی سخت مقام آئے، وہ ان سے گزر گئے۔ ملک کے مظلوم طبقات، مختلف گروہوں کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والے معراج محمد خان 22 جولائی 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    معراج محمد خان پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے پیر و مرشد رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور جمہوریت کو پامال کر کے اپنی حاکمیت کا اعلان کرنے والے ہر آمر کو للکارا۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سڑکوں پر احتجاج کیا اور پولیس کا لاٹھی چارج سہا۔ مگر عوامی حکومت کے لیے اُن کی جدوجہد اور طبقاتی نظام کے خلاف اُن کی آواز کبھی مدھّم نہیں‌ پڑی۔ جاہ و منصب، مال و زر اور مراعات کی پیشکش معراج محمد خان کو اُن کے اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔

    اُن کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کی داستان طویل ہے جسے کئی صفحات پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کے لیے ”معراج بھائی“ تھے، اور اُن کے یہ متوالے اُن کی قیادت میں ظلم اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔

    معراج محمد خان نے ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی۔ ایک طرف تو لاٹھی چارج، جیل اور مقدمات انھیں اُن کے نظریات سے دستبردار نہیں کروا سکے اور دوسری طرف وزارت اور مراعات کی پیشکش بھی معراج محمد خان کو اُن کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹا سکی۔

    معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) سے منسلک رہے۔ معراج محمد خان لگ بھگ 10 سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنے زمانۂ طالبِ علمی سے سیاست تک لگ بھگ 13 سال جیلوں سے واسطہ پڑا۔

    مئی 1974 میں معراج محمد خان نے کراچی میں مزارِ قائد کے باہر خواتین اساتذہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی اور اس مظاہرے میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ سنہ 1983 میں معراج محمد خان کو پولیس نے ایم آر ڈی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے گھیر لیا تھا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں‌ میں‌ کئی سیاسی جلسوں میں معراج محمد خان کی گرجدار آواز میں تقریر اور ان کا پُرجوش انداز آمروں اور ان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں پر لرزہ طاری کرتا رہا۔ ایوب خان کی فوجی آمریت نے سر اٹھایا تو ہر طرف سکتہ طاری تھا۔ یہ معراج اور ان کے ساتھی ہی تھے جنھوں نے ماشل لاء ضوابط کو ٹھکراتے ہوئے سب سے پہلے اس آمریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ جب فوجی آمر ضیاءُ الحق نے بھٹو صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو پر عقوبتوں کے دروازے کھولے، تو معراج محمد خان اور ان کے صداقت شعار ساتھیوں نے اس کے خلاف شد و مد سے آواز بلند کی۔ معراج صاحب کے ولولہ انگیز خطبات آج بھی اس نظامِ کہنہ اور ہر آمر و جفا پیشہ کے لیے گویا تازیانہ ہیں۔

    وہ پیپلز پارٹی کے بانی قائدین اور ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور بعد میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریب بھی رہے، لیکن وہ جس مقصد کے لیے اتنی کٹھنائیاں جھیلتے رہے، اس کی تکمیل میں‌ کئی رکاوٹیں حائل تھیں، جس نے معراج صاحب کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ 1970ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔دسمبر 1971ء میں انھیں‌ وزیرِ محنت و افرادی قوّت بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند راہ نماؤں اور دانش وروں نے حصّہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ انھیں اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب سے سخت اختلافات کے باعث وہ پارٹی سے دور ہوگئے۔ یہ 1977ء کی بات ہے اور بعد میں معراج صاحب نے قومی محاذ آزادی بنائی، اور پھر وہ تحریک ِ انصاف سے جڑ گئے، لیکن اس پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ معراج محمد خان کی دلیری اور سچائی کا چرچا عام تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی قومی محاذ آزادی کی بہت جلد ملک بھر میں شاخیں پھیل گئیں۔ بائیں بازو کے نوجوانوں میں یہ پارٹی خاص طور پر بہت مقبول تھی، اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمراں طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، کیونکہ اس کا منشور دو ٹوک انداز میں نادار طبقوں کی حکمرانی پر اصرار کرتا تھا۔ لیکن پھر یہ باب بھی بند ہوگیا۔

    20 اکتوبر 1938ء کو معراج محمد خان نے برٹش انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے ایک برس بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں سیاسی اور عوامی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد شروع ہوئی۔ معراج محمد خان کے ایک بھائی قلمی نام دکھی پریم نگری کے نام سے بہت مشہور تھے، وہ فلمی گیت لکھا کرتے تھے، جب کہ ایک بھائی منہاج برنا صحافی تھے جو پی ایف یو جے اور ایپنک یونین کے صدر رہے اور ان اداروں کو بنانے کے لیے کام کیا اور صحافت کی آزادی کے لیے قربانیاں بھی دیں۔

  • فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    فطرتِ انسانی کا عکّاس انتون چیخوف

    روس کے افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی فنی کی عظمت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اس کی شاہ کار تخلیقات کے تراجم دیس دیس میں‌ پڑھے جاتے ہیں۔ آج چیخوف کا یومِ وفات ہے۔ روس کے اس عظیم قلم کار نے 1904ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    29 جنوری 1860ء میں چیخوف نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں‌‌ اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے پالا پوسا۔ چیخوف کی ماں اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ اسے تھیٹر کا شوق پیدا ہوا۔ انتون چیخوف نے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری بھی کی اور پھر اپنے تخلیقی صلاحیتوں کو پہچان کر قلم تھام لیا، اور اس کے افسانے شاہ کار قرار پائے۔ اپنے وقت کے کئی ادیبوں اور ماہر مترجمین نے چیخوف کی کہانیوں‌ کو اردو زبان میں‌ ڈھالا اور وہ قارئین میں مقبول ہوئیں۔

    چیخوف ابھی بچپن کی دہلیز پر تھا کہ مالی مسائل نے اس گھرانے کو جکڑ لیا اور اسے غربت اور اس سے جڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے لگا جن میں‌ پرندے پکڑ کر انھیں‌ فروخت کرنا بھی شامل تھا۔ اسی زمانہ میں چیخوف نے اسکیچ بنانا سیکھا اور پھر ایک اخبار کے لیے بامعاوضہ اپنی خدمات پیش کردیں۔

    وہ کہانیاں تو بچپن سے سنتا آرہا تھا، لیکن اب اس نے خود بھی ادب کا مطالعہ شروع کر دیا۔ چیخوف کا یہ مشکل دور کسی طرح کٹ ہی گیا جس میں وہ ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے خود لکھنے کے قابل ہوچکا تھا، اسے پڑھنے کا شوق تھا اور 1879ء میں چیخوف کو میڈیکل اسکول میں داخلہ مل گیا، لیکن اس کے لیے تعلیمی اخراجات پورا کرنا آسان نہ تھا، وہ زیادہ محنت کرنے لگا اور ہر وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا جس سے فوری آمدن ہوسکتی تھی تاکہ گھر کے اخراجات بھی پورے کرسکے۔

    تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چیخوف نے فن و ادب سے متعلق اپنی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں اور ایسے اسکیچز بناتا رہا، جو طنز و مزاح پر مبنی ہوتے اور اس معاشرے کے کسی مسئلے کی طرف قارئین کو متوجہ کرتے۔ چیخوف کو ان اسکیچز کی بدولت پہچان ملنے لگی اور وہ قارئین میں‌ مقبول ہونے لگے جس پر اخبار کے مالک نے اس کے ان خاکوں‌ کی یومیہ بنیاد پر اشاعت شروع کردی۔ چیخوف کو اچھی رقم ملنے لگی تھی اور پھر ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے بھی لگا تھا۔ چیخوف نے تھیٹر کے لیے ایک ڈرامہ تحریر کیا اور اس میدان میں‌ بھی کام یابی اس کا مقدر بنی۔ اس کا تحریر کردہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا جس کے بعد چیخوف نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کر دی۔

    ڈرامہ نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ چیخوف کی تعلیم مکمل ہوئی اور 1884ء میں وہ ڈاکٹر بن گیا۔ چیخوف ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج شروع کردیا۔ لیکن بعد کے برسوں میں اس نے یہ پیشہ ترک کردیا تھا اور مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ اس نے اپنی جگہ نہ صرف علمی و ادبی حلقوں‌ میں بنا لی تھی بلکہ اس کی بڑی کام یابی عام لوگوں میں اس کی تخلیقات کی پذیرائی تھی۔ سو، چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ روس کے مقبول ترین ادیبوں میں شمار کیا جانے لگا۔

    چیخوف کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ اس کا مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔ انتون چیخوف کی تاریخِ وفات 15 جولائی ہے۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلک اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    میکسم گورکی جیسا ادیب اسے روسی زبان کا معمار قرار دیتا ہے۔ وہ محض 44 برس تک زندہ رہ سکا۔ سعادت حسن منٹو نے کہا تھا کہ’’ چیخوف کا کام فطرتِ انسانی کی عکّاسی کرنا تھا۔‘‘

  • سخت گیر پادری کا بیٹا جسے سنیما کی تاریخ میں اہم شخصیت تسلیم کیا گیا

    سخت گیر پادری کا بیٹا جسے سنیما کی تاریخ میں اہم شخصیت تسلیم کیا گیا

    سنیما کی تاریخ کے چند بہترین ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ سوئیڈن کے اس عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار نے ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار تفریحی فلمیں تخلیق کیں‌ اور کئی دستاویزی فلموں‌ کے علاوہ اسٹیج اور ریڈیو کے لیے بھی ہدایت کار کی حیثیت سے منفرد کام کیا۔

    14 جولائی 1918 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے انگمار برگمین کے والد ایرک برگمین ایک سخت مزاج اور قدامت پرست شخص تھے اور شاہی دربار سے وابستہ پادری تھے۔ یوں گھر میں مذہبی تعلیمات کا اثر تھا۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کا خوف ایسا تھا کہ ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن انگمار نے اس ماحول اور والد کی خواہش کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

    برگمین کی بیش تر فلموں کا موضوع عام حالات اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، محرومیاں اور مذہب رہا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ اور ڈائریکشن برگمین نے دی تھی اور یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی تھی، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے اور وہ وقت آیا کہ 1937 میں انھیں اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کرا دیا گیا۔ تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع تھا۔ اسی زمانے میں‌ اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹس لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

    30 جولائی 2007 کو انگمار برگمین نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی اور تین بار ان کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہالی وڈ نے 1970ء ہی میں انگمار کو آسکر ایوارڈ دے کر سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت مان لیا تھا۔ اس کے علاوہ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ان کے حصّے میں‌ آئے۔ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • عبدالستار صدیقی: املا انشا اور الفاظ کے مآخذ کی تحقیق میں‌ ان کی سعیِ بلیغ قابلِ رشک ہے

    عبدالستار صدیقی: املا انشا اور الفاظ کے مآخذ کی تحقیق میں‌ ان کی سعیِ بلیغ قابلِ رشک ہے

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت نے انھیں اپنے معاصرین میں‌ ممتاز کیا۔ ان کی تصنیفات، وقیع علمی مقالات اور مضامین سے ہر دور میں‌ استفادہ کیا گیا ہے۔ آج اس یگانہ روزگار اور ہمہ جہت شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے اپنی کاوشوں سے تحقیق کو ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔ 28 جولائی 1972ء کو ڈاکٹر عبدالستار صدیقی الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر بھی شامل تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن اور پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے حوالے سے کاموں میں‌ مصروف تھے اور اس دوران انھیں دشواری پیش آتی اور زبان کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی تھی۔

    ڈاکٹر صاحب عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ وہ 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور متعدد یورپی زبانیں بھی سیکھیں۔ ان کا زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    ڈاکٹر صاحب کے مضامین کئی اردو جرائد میں شائع ہوا، اور افسوس کی بات ہے کہ ان کے مقالات اور مضامین کو بہت کم یکجا کیا جاسکا اور وہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ کیے گئے۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی مصروفیات تھیں جس کے سبب وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے بعد جمع یا محفوظ نہیں رکھ سکے۔

    عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اسی دوران وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی منتخب ہوئے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی دو لغات منتخاب الالغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) کو مصدقہ مانا جاتا ہے۔

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    فنِ مصوّری میں‌ اپنی پہچان بنانے والے پاکستان کے فائن آرٹسٹوں میں لیلیٰ شہزادہ ایک اہم نام ہے جنھوں نے بالخصوص سندھ کی تہذیب اور ثقافت کو اپنے فن میں‌ نمایاں کیا۔ لیلیٰ شہزادہ 1994 میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں‌۔ آج ان کی برسی ہے۔ اس مصورہ کو تجریدی آرٹ کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925 میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوری کے فن کی تعلیم اور تربیت مکمل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کو 1958 سے 1960 کے دوران معروف مصوّر اے ایس ناگی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہاں ان کا فن مزید نکھرا اور وہ مقامی فن و تہذیب سے آشنا ہوئیں۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960 میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں‌ کی بدولت جلد ہی آرٹ کے قدر دانوں اور ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور بعد میں پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرونِ ملک بھی ان کا کام نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔

    پاکستان میں‌ لیلیٰ شہزادہ کو ان کے فن اور آرٹ کے شعبے میں‌ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ 2006 میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ بھی جاری کیے تھے۔ اس مصورہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے فن پر داد سمیٹی مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • عالمی شہرت یافتہ جین آسٹن کے ناولوں کو کس نے اسلوب عطا کیا؟

    انگریزی ادب میں جین آسٹن کو عظیم ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے ناول پرائڈ اینڈ پریجوڈس کی وجہ سے دنیا بھر میں ممتاز ہوئیں۔ اس ناول کو دنیا کے دس عظیم ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ جین آسٹن 1817 میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    اس انگریز ناول نگار نے اپنی زندگی میں چھے ناول مکمل کیے تھے جن میں سے دو ان کی وفات کے بعد شائع ہوئے۔ چند سال قبل جین آسٹن کے ناول ایما کا پہلا منقش ایڈیشن بھی ریکارڈ قیمت پر نیلام ہوا تھا۔ یہ تین جلدوں پر مشتمل کتابیں‌ جین آسٹن کی معرفت این شارپ کے نام منقّش کی گئی تھیں۔ این شارپ، جین آسٹن کی دوست اور ان کی بھتیجی کی گورنس تھیں۔

    انگریزی زبان میں کلاسیکی ادب کے حوالے سے جین آسٹن کے فن اور اسلوب کو کئی اہم اور قابلِ ذکر نقادوں نے سراہا اور کہا کہ انھوں نے انسانی فطرت اور رشتوں کی باریکیوں کو سمجھا اور پھر نہایت خوب صورتی اور پُرتاثیر انداز میں اپنے ناولوں میں‌ پیش کیا۔ لیکن یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انگریزی زبان و ادب کی ایک پروفیسر نے اپنے تحقیقی مطالعے کے بعد جین آسٹن کے صاحبِ اسلوب ہونے کو مسترد کرتے ہوئے انھیں‌ ایک ایسی مصنّف کے طور پر پیش کیا ہے جو اختراع پسند اور تجربات کرنے والی تھیں، اور ان کے مطابق وہ گفتگو اور مکالمہ نویسی پر زبردست گرفت رکھتی تھیں۔

    جین آسٹن ایک برطانوی پادری کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے 1775ء میں‌ برطانیہ میں‌ آنکھ کھولی۔ ‘پرائڈ اینڈ پریجوڈیس’ ان کا وہ ناول ہے جسے دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اردو میں‌ اس کے متعدد تراجم سامنے آئے۔ اردو میں اس ناول کو فخر اور تعصّب کے نام سے پیش کیا گیا۔ جین آسٹن کے دیگر ناولوں میں‌ ‘مینز فیلڈ پارک’ اور ‘ایما’ بھی شامل ہیں۔ ایما پہلی بار 1816ء میں شائع ہوا تھا۔ سینس اینڈ سینسیبلٹی یعنی شعور و احساس اور نارتھینجر ایبے وہ ناول تھے جو بہت بعد میں شائع ہوئے۔

    مصنّفہ کے ناول کے کردار سماج اور اس کے اشراف ہیں۔ انھوں‌ نے اپنے ناولوں میں‌ روایات، رویوں پر طنز اور ہلکے پھلکے انداز میں‌ چوٹ کی اور آج بھی ان کے ناول اس دور کے برطانوی معاشرے اور وہاں‌ ہر خاص و عام کی اخلاقی حالت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

    جین آسٹن کی موت کے لگ بھگ دو صدی بعد آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھرین سودرلینڈ کی تحقیق میں دعویٰ یہ کیا گیا کہ اس معروف ناول نگار کا اسلوب ان کا اپنا نہیں بلکہ کسی مدیر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے جین آسٹن کی دستی تحریر پر مشتمل گیارہ سو صفحات کے مطالعے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا۔ یہ مصنفہ کے غیر مطبوعہ اوراق تھے اور سودرلینڈ کے مطابق ان مسودوں پر دھبے اور کاٹ چھانٹ کے ساتھ ’گرامر کے لحاظ سے تصحیح‘ کی گئی ہے جس سے انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا۔ ان کے مطابق ان مسودوں میں وہ سب نہیں‌ جو ایما جیسے ناول میں دکھائی دیتا ہے۔ سودر لینڈ کا خیال ہے کہ ادارت اور تصحیح کے لیے جین آسٹن کسی سے بھرپور مدد لیتی رہی ہوں‌ گی۔

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ وہ گیت تھا جسے تھر کی کوئل مائی بھاگی کی آواز میں ہر اس شخص نے بھی سنا جو معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اس زبان سے ناواقف تھا۔ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ آج مائی بھاگی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں 1920 کے لگ بھگ آنکھ کھولی تھی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد مقامی رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے اور نوحے گاتے اور اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ میلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں لے جانے لگے جہاں مائی بھاگی ان کے ساتھ ڈھول بجا لیتی تھیں اور پھر فنِ گلوکاری کی طرف مائل ہوئیں جس کی تربیت اور تعلیم بھی والدین سے حاصل کی۔

    وہ بڑی ہوئیں تو والد کی اجازت سے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات پر لوک گیت اور سہرے گانے کے لیے جانے لگیں۔ تھر کی مائی بھاگی ناخواندہ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناآشنا تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سے محبت کرنے اور اسے سمجھنے والے موجود ہیں، مائی بھاگی کو سنا اور سراہا گیا۔ وہ اپنی سادہ دلی اور انکساری کی وجہ سے بھی لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پاتی تھیں‌ اور انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوتھی فقیر سے ہوگئی تھی جو تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ کے مشہور لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی نے جلد ہی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں کے گیتوں کو اپنی آواز دی۔ مائی بھاگی نے تھر کے ایک اور مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ بھی سرائیکی، مارواڑی، سندھی زبانوں‌ کے لوک گیت گائے۔

    ان کی قسمت کا ستارہ 1963 میں اس وقت چمکا جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات کے درمیان اپنی آواز کا جادو جگایا اور تھر کی اس آواز نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سینٹر کی ٹیم بھی موجود تھی جس نے مائی بھاگی کی آواز کو ریکارڈ کرلیا اور بعد میں جب ریڈیو پر سامعین نے انھیں سنا تو مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ تب 1966 میں ریڈیو پاکستان کے لیے مائی بھاگی کی آواز میں چند لوک گیت ریکارڈ کروائے گئے اور وہ ملک گیر شہرت یافتہ گلوکاروں کی صف میں‌ آ کھڑی ہوئیں۔

    مائی بھاگی نے جب شاہ کار لوک گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے…..‘‘ گایا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں ریڈیو پر ان کے متعدد گیت نشر ہوئے اور جلد ہی صحرا کی یہ گلوکارہ کراچی میں پی ٹی وی پر نظر آئی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے مائی بھاگی کو اسکرین پر دیکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت گانے والی مائی بھاگی کو سندھ میں ہونے والی مختلف موسیقی کی محفلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا تھا اور وہ عام لوگوں‌ میں بھی خاصی مقبول تھیں-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز کو روانہ ہونے والی تھیں، مگر 7 جولائی کو ان کی سانسوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی اور انھیں دوسروں کے کاندھے پر اپنی آخری آرام گاہ کا سفر طے کرنا پڑا۔

    حکومتِ پاکستان نے مائی بھاگی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔