Tag: جولائی انتقال

  • آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے، لیکن 26 جولائی ان کی تاریخِ پیدائش بھی ہے۔ ابنِ صفی اپنی 52 ویں سال گرہ کے دن 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ابنِ صفی 1928ء کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے قلمی نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان بنائی اور اردو زبان میں جاسوسی ادب کے اوّلین اور مقبول ترین قلم کار کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ابنِ صفی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ انھوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری کی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے تو طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952ء میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ہندوستان سے شایع ہوا۔ اسی سال ابنِ صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انھوں نے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے جاسوسی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، اس عنوان کے تحت ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں شائع ہوا۔ وہ جلد ہی کہانیوں اور ناولوں کے رسیا قارئین میں مقبول ہوگئے، انھوں نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کیے اور ان کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ان کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    عمران سیریز کی مقبولیت کے دنوں میں اکتوبر1957ء میں ابنِ‌ صفی نے یہاں جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو پاکستان میں ان کا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابنِ صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا۔ 1963ء میں ابنِ صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ان کے مستقل قارئین نے زبردست پذیرائی دی اور ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کہتے ہیں صرف ہفتے بھر میں ناشر کو اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ پاکستان کے اہم ادیبوں اور قلم کاروں ہی نے نہیں بلکہ ابنِ صفی کی تخلیقات کو نام وَر غیر ملکی ادیبوں اور نقّادوں نے بھی سراہا اور انھیں سرّی ادب کا بڑا قلم کار مانا ہے۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے ابنِ صفی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    نام وَر پاکستانی مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ کی برسی

    پاکستان کی نام وَر مصوّرہ لیلیٰ شہزادہ 1994ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ اپنے فن پاروں کی بدولت عالمی شہرت حاصل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا موضوع سندھ کی تہذیب اور ثقافت رہا۔ وہ تجریدی آرٹ کے حوالے سے پہچانی جاتی ہیں‌۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925ء میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ انھوں نے ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوّری کی تعلیم حاصل کی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھا۔ 1958ء سے 1960ء کے دوران وہ مشہور مصوّر اے ایس ناگی سے ملیں‌ اور ان سے مصوّری کی مزید تربیت حاصل کی۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960ء میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی جس نے انھیں یہاں قدر دانوں اور ناقدین میں متعارف کروایا، بعد کے برسو‌ں میں‌ ان کے فن پاروں‌ کو پاکستان کے مختلف شہروں کی آرٹ گیلریز میں سجایا گیا اور انھیں بہت پذیرائی ملی، اسی عرصے میں بیرونِ ملک بھی آرٹ گیلریوں تک ان کے فن پارے پہنچے اور وہاں‌ ان کی کام یاب نمائش کی گئی۔

    2006ء میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ کا اجرا کیا تھا جب کہ حکومتِ‌ پاکستان نے اس مصورہ کو تمغہ امتیاز اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ لیلیٰ شہزادہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے منفرد فن پاروں کی بدولت مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔

  • گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    گوگلیلمو مارکونی: ریڈیو کے موجد کے انتقال کی خبر انہی کی ایجاد نے دنیا تک پہنچائی

    20 جولائی 1937ء کو اٹلی کے شہر روم میں نوبل انعام یافتہ سائنس داں اور الیکٹریکل انجینئر گوگلیلمو مارکونی (Guglielmo Marconi) کے انتقال کی خبر ریڈیو پر سنی گئی جو انہی ہی کی ایجاد ہے۔ اسی نشریاتی میڈیم کی بدولت بعد میں‌ یہ افسوس ناک خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔

    مارکونی 25 اپریل 1874ء کو اٹلی کے مشہور شہر بولونیا میں پیدا ہوئے۔ نو عمری ہی میں انھوں نے وائرلیس ٹیلی گرافی، یعنی تار کے بغیر ٹیلی گراف پیغام ارسال کرنے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ ایک سائنس داں کی تحریر سے متاثر ہو کر مارکونی کو وائرلیس ٹیلی گرافی کے لیے ریڈیو ویوز کے استعمال کا خیال آیا اور تب 20 سال کی عمر میں انھوں نے ریڈیو ویوز کے تجربات شروع کر دیے۔ ان کی تحقیق اور تجربات سے ثابت ہوا کہ وائر لیس کمیونیکیشن بھی ممکن ہے۔

    انیسویں صدی کے اواخر میں مارکونی نے اپنے تیار کردہ آلات سے کئی کلومیٹر کی دوری سے تار کے بغیر ریڈیو کمیونیکیشن کرنے کا مظاہرہ کیا جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر شہرت دی۔ چند ایسے ہی تجربات کے بعد 1901ء میں وہ انگلستان سے کینیڈا وائر لیس پیغام بھیجنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔

    مارکونی کی اس ایجاد کی باقاعدہ شکل 1922ء میں سامنے آئی جب انگلینڈ میں ریڈیو براڈ کاسٹنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مارکونی کو 1915ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا۔

  • بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    بالی وڈ کی معروف گلوکارہ کا تذکرہ جس کی خوش گوار زندگی میں ’’محبّت‘‘ نے طوفان برپا کردیا

    ہندوستان کی فلمی صنعت میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے مشہور گیتا دت 1972ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت بہت مقبول ہوئے اور آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ گیتا دت نے بھارت کے نام ور فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے شادی کی تھی۔

    گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، بنگلہ دیش میں پیدا ہوئیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ ان کے والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور تب گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران وہ اس وقت کے نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ملیں اور یہ سلسلہ رومان سے شادی پر منتج ہوا۔ 1953 میں شادی کے بعد اس جوڑے کے گھر دو بیٹے پیدا ہوئے اور زندگی بڑی خوش گوار گزر رہی تھی، لیکن گرُو دت اداکارہ وحیدہ رحمان کو دل دے بیٹھے اور ان کی گھریلو زندگی میں طوفان آگیا۔

    1957ء میں گرو دت نے اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں گیتا دت کو مرکزی اداکارہ کے طور پر شامل کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ اسی عرصے میں گورو دت وحیدہ رحمان کے عشق میں گرفتار ہوئے تھے اور گیتا دت کو جب یہ معلوم ہوا تو انھیں سخت صدمہ پہنچا اور ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار کھڑی ہوتی چلی گئی۔ اس گلوکارہ نے مے نوشی شروع کردی اور ایک روز اچانک انڈسٹری میں گُرو دت کی موت کی خبر آئی جسے بعض لوگ خود کشی بھی قرار دیتے ہیں۔ شوہر کی ناگہانی موت نے گیتا دت کو ہلا کر رکھ دیا، وہ مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔

    اس غم کو جھیلتے ہوئے گیتا دت نے گلو کاری کے میدان میں دوبارہ قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1971ء میں فلم ’’انو بہو‘‘ کے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ ان کی آواز بلاشبہ بہت خوب صورت تھی۔

    کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جائو سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے گیتا دت کی یاد دلاتے رہیں گے۔

  • فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ کا تذکرہ جن کی وجہِ شہرت ‘انجلاز ایشز’ ہے!

    فرینک میکورٹ ان خوش نصیب قلم کاروں میں سے ایک ہیں جن کی اوّلین تصنیف ہی ’بیسٹ سیلر‘ قرار پائی اور انھیں‌ پلٹزر پرائز کا حق دار ٹھہرایا۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا فرینک میکورٹ 2009ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔

    فرینک میکورٹ کی کتاب کا نام تھا ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) جو دراصل ان کے بچپن کی یادداشتوں پر مشتمل تھی۔

    فرینک میکورٹ 19 اگست 1930ء کو امریکا کی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں پیدا ہوئے تھے۔ اس دور میں‌ امریکا شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا جس کے باعث بالخصوص عام لوگوں کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ تب اس خاندان نے امریکا سے ہجرت کی اور آئرلینڈ جا بسا۔ فرینک میکورٹ نے انہی دنوں کو اپنی کتاب میں‌ پیش کیا تھا۔

    فرینک کا خاندان آئر لینڈ کے شہر کی ایک چھوٹی سی بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں انتہائی غربت اور مشکل حالات سے لڑتے ہوئے ان کے والدین نے زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد شروع کی۔ مصنّف نے کئی برس بعد ان دنوں کو اپنے حافظے سے نکال کر لفظی منظر کشی کی اور اسے کتابی شکل میں‌ شایع کروایا جو دنیا بھر میں ان کی وجہِ شہرت بنی۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ امریکا منتقل ہوگئے، کتاب کی اشاعت سے پہلے فرینک میکورٹ 30 سال تک نیویارک کے ایک اسکول میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔

    آئرلینڈ میں ان کے بچپن کی یادوں پر مبنی کتاب انجلاز ایشز کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور 1996ء میں انھیں پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    اس کتاب پر 1999ء میں ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔ فرینک میکورٹ کی اس کتاب کو آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا جاتا ہے۔

    بعد میں‌ مصنّف نے ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں گزرے ہوئے ایّام کو محفوظ کیا تھا۔

    وفات کے وقت اس آئرش نژاد امریکی مصنّف کی عمر 78 سال تھی۔

  • ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    ساغر صدیقی: غمِ دوراں کا شاعر جس کے لیے زندگی جبرِ مسلسل تھی

    آج فقیر منش ساغر صدیقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اردو زبان کا یہ شاعر تلخیٔ ایّام اور زمانے کی ستم ظریفی کا شکار رہا۔ اسی لیے رنج و غم، درد و الم، ناامیدی، حسرت و یاس اور دوراں کا فریب ساغر صدیقی کے کلام میں نمایاں‌ ہے۔ ساغر نے 19 جولائی 1974ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا کو الوداع کہہ دیا تھا۔

    ساغر صدیقی کے تفصیلی اور مستند حالاتِ زندگی بہت کم دست یاب ہیں۔ انھوں نے 1928ء میں انبالہ میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا خاندانی نام محمد اختر تھا۔ غربت ان کے گھر پر گویا راج کرتی تھی۔ ان حالات میں باقاعدہ تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ اپنے محلّے کے ایک بزرگ سے کچھ لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ نوعمری میں امرتسر چلے گئے اور وہاں چھوٹے موٹے کام کرنے لگے، انھوں نے کنگھیاں بنانے کا فن سیکھا اور اسی عرصے میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہوا۔

    1944ء میں امرتسر میں آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں کسی نے ساغر کو بھی پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا، روانی تھی اور وہ مشاعرے میں کام یاب ہوگئے۔ اسی اوّلین مشاعرے نے انھیں‌ مشہور کردیا تھا۔ وہ لاہور اور امرتسر کے مشاعروں میں باقاعدہ موعو کیے جانے لگے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ساغر امرتسر سے لاہور چلے آئے۔ یہاں لطیف انور گورداسپوری کی صحبت میں‌ رہے اور بہت فیض پایا۔ ساغر کو ان کی شاعری اور مشاعروں میں‌ شرکت کے سبب کچھ آمدنی ہونے لگی تھی۔ ان کا کلام ہر بڑے روزنامے، ادبی جریدوں اور رسالوں میں شایع ہونے لگا۔ اسی مقبولیت کے زمانے میں‌ ساغر کو کچھ ایسے لوگ ملے جن کی خراب صحبت نے انھیں نشّے کی لت میں‌ مبتلا کردیا۔ انھوں نے بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ کا استعمال شروع کردیا اور مستی و بے حالی کے عالم میں‌ جہاں جگہ مل جاتی پڑ جاتے۔ مشقِ سخن تو جاری رہی، لیکن ساغر کا حلیہ، ان کی صحّت بگڑتی چلی گئی اور وہ اپنی جسمانی صفائی اور ہر بات سے بے پروا فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے لگے۔

    اس زمانے میں بھی لوگ انھیں کچھ ہوش میں پاتے تو مشاعروں میں لے جاتے جہاں ان کے کلام کو بڑی پذیرائی ملتی، لیکن وقت کے ساتھ ساغر اس سے بھی گئے۔ انھیں اکثر داتا دربار کے اطراف اور احاطے میں‌ دیکھا جانے لگا تھا اور وہیں‌ قریب ہی فٹ پاتھ پر ان کے شب و روز بسر ہورہے تھے۔

    کہتے ہیں ساغر نشّے کے لیے رقم دینے والوں کے لیے کلام لکھ کر دینے لگے تھے جو وہ اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔ ساغر صدیقی نے ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی اور ان کا کلام مقبول ہوا۔

    اس حالت کو پہنچنے سے پہلے ہی وہ امرتسر اور لاہور میں مشہور ہوچکے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا کلام بھی خاصی حد تک مجموعوں کی شکل میں محفوظ ہوگیا۔ ان کی تصانیف میں ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، شبِ آگہی‘، ’تیشۂ دل‘، ’لوحِ جنوں‘، ’سبز گنبد‘، ’مقتل گل‘ شامل ہیں۔

    ساغر فالج کا شکار ہوئے تو ان کا ایک ہاتھ‍ ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو گیا۔ ان کا جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا اور ایک روز فٹ پاتھ پر ہی ساغر نے دَم توڑ دیا۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ساغر صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
    پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

    بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
    تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے

    اب کہاں ایسی طبیعت والے
    چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں
    ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں

  • راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ: بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار جو مغرور اور لیٹ لطیف مشہور تھا

    راجیش کھنہ کو بالی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 2012ء میں آج ہی کے دن زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    گزشتہ صدی میں 70 کے عشرے تک راجیش کھنہ جس فلم میں جلوہ گر ہوئے، باکس آفس پر ہٹ ہوئی۔ راجیش کھنہ ان اداکاروں میں‌ سے تھے جنھوں نے اپنے زمانہ عروج میں لگا تار پندرہ سپر ہٹ فلمیں دیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    راجیش کھنہ 1942ء میں پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ 1966ء میں انھوں‌ نے چیتن آنند کی فلم ’آخری خط‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور 1969ء میں ’آرادھنا‘ کی ریلیز کے بعد راتوں رات اسٹار بن گئے۔ اس فلم میں انھوں‌ نے باپ اور بیٹے کا ڈبل رول نبھایا تھا۔

    راجیش کھنہ نے اپنے سَر کو ایک خاص انداز میں جھٹکنے، اپنی منفرد چال اور آنکھوں کے مخصوص اشارے سے شائقین بالخصوص لڑکیوں کی توجہ حاصل کی اور ان کے دلوں میں اتر گئے۔

    انھوں نے اپنے دور کی مقبول ترین اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا جن میں شرمیلا ٹیگور اور ممتاز کے ساتھ ان کی جوڑی سب سے زیادہ ہٹ ہوئی۔ ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ جیسی فلموں سے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ کردار کی گہرائی میں بھی اترسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ راجیش کھنہ اور ممتاز کی جوڑی نے ’آپ کی قسم‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ جیسی سپر ہٹ فلمیں دیں۔

    ہندی فلموں کے مشہور مصنّف سلیم خان کے مطابق راجیش کھنہ کے لیے لوگوں میں ایسی دیوانگی تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنی شہرت کو سنبھال نہیں پائے اور خاصے مغرور ہوگئے تھے۔ وہ سیٹ پر آمد کے بعد جونیئر فن کاروں اور عملے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور خاموشی سے کام کرکے چلے جاتے تھے۔ راجیش کھنہ لیٹ لطیف بھی مشہور تھے اور بددماغ یا غرور بھی۔ تاہم بعض قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ شروع ہی سے ایسے تھے اور یہ کہنا درست نہیں‌ کہ فلم کی کام یابیوں نے انھیں ایسا بنا دیا تھا۔

    بالی وڈ میں‌ ان کی کام یابیوں کا سفر جاری تھا کہ امیتابھ بچن کا سورج چڑھنا شروع ہوا اور ستّر کی دہائی کے ساتھ ہی راجیش کھنہ کا عروج دم توڑنے لگا، ان کی فلمیں باکس آفس پر فلاپ ہونے لگی تھیں۔

    راجیش کھنہ نے اداکارہ ڈمپل کپاڈیا سے شادی کی تھی اور ان کی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ان کی بیٹیاں ہیں۔ راجیش کھنہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھے۔ فلمی دنیا میں انھیں ’کاکا‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا تھا۔

  • یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    یومِ وفات: صدراُلدّین آزردہ بلند پایہ شاعر ہی نہیں‌ جیّد عالم اور مفتی بھی تھے

    آج مفتی صدراُلدّین آزردہ کا یومِ‌ وفات ہے جو ہندوستان کے ایک جیّد عالم، شاعر اور دلّی کے اہم منصب دار تھے۔

    آزردہ کا نام محمد صدراُلدّین تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی ہے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے جیّد علما سے دین اور اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی اور مفتی کی حیثیت سے انگریز دور میں صدرُالصّدور کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انھوں نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ مشہور ہے کہ تحریر و تقریر کی فضیلت اور متانت کے ساتھ وہ مروّت، اخلاق اور احسان کی خوبیوں سے مالا مال تھے۔ ان کے درِ‌ دولت پر عالم و فاضل شخصیات ہی نہیں ادیب اور شعرا بھی محفل سجاتے۔

    آزردہ مرزا غالب کے گہرے دوست تھے۔ اس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے ان کا نام نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے اور ان کی دینی اور علمی قابلیت کے ساتھ شاعری کو سراہا ہے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے اور شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ وہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ 1857ء کی جنگ میں انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس پر انگریزوں نے گرفتار کیا اور املاک ضبط کر لی۔ تاہم حاضر دماغی اور ایک چال کے سبب جلد بری ہوگئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان دست یاب نہ ہونے کے باوجود مختلف تذکروں میں ان کے جو اشعار ملتے ہیں، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔

    زندگی کے آخری ایّام میں فالج کا حملہ ہوا اور 1868ء میں آج ہی کے دن ان کا انتقال ہو گیا۔

  • بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    بالی وڈ کے مشہور اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے

    ہندی سنیما کے اداکار پران کو ’’ولن آف دی ملینیئم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کا شمار بالی وڈ کے منجھے ہوئے اداکاروں میں ہوتا ہے۔ پران فلموں میں اپنے منفی کرداروں کو اس خوبی سے نبھاتے کہ سنیما بین اُن سے نفرت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

    بالی وڈ کے اس مشہور ولن اور معاون اداکار نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ وفات کے وقت ان کی عمر 93 برس تھی۔

    پران کرشن سِکند پرانی دہلی کے محلّہ بلی ماراں میں پیدا ہوئے تھے۔ پران نے تقسیمِ ہند سے قبل لاہور میں فلمیں کیں اور بعد میں ممبٔی چلے گئے تھے۔

    پران نے اپنے فلمی کیريئر کی شروعات ایک ہیرو کے طور پر کی۔ ان کی پہلی فلم ’جٹ یملا‘ سن 1940 میں ریلیز ہوئی، لیکن بعد کے برسوں میں وہ اپنی شکل و صورت، چال ڈھال اور دیکھنے کے انداز کی وجہ سے فلم سازوں اور ہدایت کاروں کو ولن کے لیے زیادہ بہتر لگے اور یوں ان کے کیریئر کا آغاز مختلف انداز سے ہوا۔

    نصف صدی پر مشتمل اپنے کیریئر کے دوران پران نے لگ بھگ چار سو فلموں میں اداکاری کی اور ہندی سنیما میں صفِ اوّل کے ولن کہلائے۔

    پران نے منفی مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان دی۔

    ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر، اپكار کے علاوہ وہ کئی سپر ہٹ فلموں میں منفی کردار نبھاتے نظر آئے اور اپنے وقت کے سپراسٹارز کے ساتھ کام کیا۔ پران نے اپنے زمانۂ عروج میں مشہور ترین فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں کردار ادا کیے تھے۔

    پران کی آواز سب سے مختلف تھی اور ان کے ڈائیلاگ بولنے کا انداز بھی جداگانہ۔ انھوں نے ایک مار دھاڑ کرنے والے، بدمعاش، چور اچکے اور قاتل سے لے کر نیک یا رحم دل انسان کے کردار بھی نبھائے جنھیں شائقین نے بہت پسند کیا۔

  • یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    یومِ‌ وفات: سدا بہار نغمات کے خالق سیف الدّین سیف کے سفرِ زیست پر ایک نظر

    سیف الدین سیف بنیادی طور پر ایک شاعر تھے، لیکن فلم ساز، ہدایت کار اور مصنّف کے طور پر فلم کرتار سنگھ (1959ء) بنا کر انھوں نے خود کو باکمال فن کار ثابت کیا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ 12 جولائی 1993ء کو ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔

    سیف الدین سیف نے 20 مارچ 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گزرا اور ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول سے حاصل کی، ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہوئے تو اس وقت پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی کے لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نصیب ہوئی جس نے ان میں علمی و ادبی ذوق پیدا کیا۔

    انھوں نے فلمی مکالمے لکھنا ذریعہ معاش بنایا اور بعد میں‌ گیت نگار کے طور پر مشہور ہوئے۔ سیف کو شروع ہی سے شعروسخن سے دل چسپی تھی۔ انھوں نے غزل، رباعی، طویل و مختصر نظموں کے ساتھ گیت نگاری میں‌ نام کمایا۔ غزل ان کی محبوب صنفِ‌ سخن رہی۔

    سیف الدین سیف نے اپنے فلمی سفر کا آغاز بطور نغمہ نگار اردو فلم تیری یاد سے کیا تھا جسے پہلی پاکستانی فلم کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اس فلم کے لیے چار گیت لکھے تھے۔ ان کا پہلا گیت جو سپر ہٹ ثابت ہوا اس کے بول تھے، "پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے” جسے اقبال بانو نے گایا تھا۔ اس نغمہ نگار کے کئی گیت مقبول ہوئے اور فلموں کی کام یابی کا سبب بنے جن میں اردو فلم شمع اور پروانہ (1970) کا گیت "میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا اور "میں تیرے اجنبی شہر میں، ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے شامل ہیں۔ مشہورِ زمانہ امراؤ جان ادا کا یہ نغمہ "جو بچا تھا لٹانے کے لیے آئے ہیں” اسی شاعر کا تخلیق کردہ ہے۔

    پاکستان کے اس ممتاز شاعر اور کئی مقبول گیتوں کے خالق کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔