Tag: جولائی انتقال

  • پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر اور ہدایت کار آغا ناصر کی برسی

    پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر اور ہدایت کار آغا ناصر کی برسی

    آج پاکستان کے معروف براڈ کاسٹر، ہدایت کار اور مصنّف آغا ناصر کا یومِ وفات ہے۔ وہ 12 جولائی 2016ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا ناصر 9 فروری 1937ء میں میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں پیدا ہوئے۔ بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور تقسیم کے بعد تاریخ میں ایم اے کی ڈگری جامعہ کراچی سے لی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا اور بعد میں ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1964ء میں آغا ناصر نے پی ٹی وی سے ناتا جوڑ لیا اور بہ طور ہدایت کار اور پروڈیوسر کام کیا۔ وہ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔

    ’’تعلیمِ بالغاں‘‘پی ٹی وی کا مقبول ترین اور لاجواب ڈرامہ تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر تھے۔ اس کے علاوہ ’’الف نون‘‘ بھی انہی کا یادگار ہے۔ انھوں نے چند فلموں کے لیے بھی ہدایات دیں۔ آغا ناصر نے ڈرامے بھی تحریر کیے، اور چند کتب کے مصنّف بھی ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘اور’’ حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    ان کی تصانیف میں آغا ناصر کے سات ڈرامے ’ گرہ نیم باز‘ اور دوسرے ڈرامے،’ گمشدہ لوگ‘ ،’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ شامل ہیں۔

    آغا ناصر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ اسلام آباد میں 79 برس کی عمر میں‌ انتقال کرجانے والے آغا ناصر کو مقامی قبرستان میں‌ سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    نادرِ روزگار اور ہمہ صفت زیڈ اے بخاری کی برسی

    ذوالفقار علی بخاری کو فن و ادب میں زیڈ اے بخاری کے نام سے بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ وہ اردو کے ممتاز شاعر، صدا کار، ماہرِ نشریات اور متعدد زبانوں سے واقف تھے۔ آج زیڈ اے بخاری کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 12 جولائی 1975ء کو وفات پاگئے تھے۔

    زیڈ اے بخاری 1904ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن ہی سے ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا۔ انھیں پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انار کلی‘‘ میں سلیم کا کردار نبھانے کا موقع ملا اور زیڈ اے بخاری نے اس بہروپ میں خوب داد و تحسین حاصل کی۔

    1936ء میں جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور 1938ء میں ریڈیو نشریات کے‌ حوالے سے تربیت حاصل کرنے لندن چلے گئے۔ 1940ء میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں بی بی سی سے اردو سروس کے لیے کام شروع کیا۔ لندن سے واپس آکر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد بخاری صاحب کو ریڈیو پاکستان کا پہلا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔

    نومبر 1967ء میں کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔ زیڈ اے بخاری کے بارے میں مشہور ہے کہ انھوں نے اردو زبان اور تلفظ کی درست ادائیگی کو یقینی بنایا اور کئی آرٹسٹوں کی تربیت کی۔

    انھیں شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے۔ یوں گھر کا علمی و ادبی ماحول اور ابتدا ہی سے اچّھے شاعروں کی صحبت نے انھیں بھی بہترین استاد بنا دیا تھا۔ وہ حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور وحشت کلکتوی جیسے نادرِ روزگار شخصیات کی صحبت میں رہے۔ عربی میں آپ نے مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔

    وہ ایک ماہرِ نشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صدا کار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے کئی کردار اپنائے جو سننے والوں کے دلوں پر نقش ہوگئے۔ ریڈیو کے ڈراموں میں انھوں نے صدا کار کی حیثیت سے خوب کام کیا۔

    زیڈ اے بخاری شاعر بھی تھے اور فنِ موسیقی سے بھی گہرا شغف اور اس کا بھی علم رکھتے تھے۔ وہ ہفت زبان یوں‌ کہلائے کہ انھیں فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    بخاری صاحب نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ انھوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی۔ ان کا کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ ان کا مدفن کراچی میں ہے۔

  • یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

    اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

    نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

    1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

    شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

    1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

    شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
    بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

    شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
    اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

    بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
    یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

  • کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور طرزِ گائیکی کی شان اور وقار بڑھانے والے استاد سلامت علی خان کی برسی

    پاکستان کے نام وَر کلاسیکی موسیقار اور گلوکار استاد سلامت علی خان 2001ء میں آج ہی کے دن اس دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ انھیں اپنے کمالِ فن کی بدولت کم عمری ہی میں ہندوستان گیر شہرت حاصل ہوئی۔

    استاد سلامت علی خان 12 دسمبر 1934ء کو شام چوراسی، ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان کے ساتھ اپنے والد استاد ولایت علی خان سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ ان کے فن اور اندازِ‌ گائیکی نے کم عمری میں‌ انھیں‌ ہندوستان بھر میں‌ پہچان عطا کردی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سلامت علی خان نے ملتان ہجرت کی اور بعد میں لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔

    استاد سلامت علی خان کا گھرانہ دھرپد گائیکی کے لیے مشہور تھا لیکن استاد سلامت علی خان نے خیال گائیکی میں اختصاص کیا۔ 1983ء میں ان کے بڑے بھائی استاد نزاکت علی خان وفات پاگئے اور استاد سلامت علی خان نے بھی گائیکی کے حوالے سے خود کو محدود کرلیا تھا۔ پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کی شان اور اس کا وقار بڑھانے والے سلامت علی خان کو پنج پٹیہ گلوکار کے لقب سے بھی نوازا گیا۔ استاد سلامت علی نے کلاسیکی گائیکی کی مختلف جہتوں میں کامیاب تجربات کرکے خود کو یکتا ثابت کر دیا

    پاکستان میں‌ فنِ موسیقی اور گائیکی میں باکمال اور استاد کا مرتبہ حاصل کرنے والے سلامت علی خان کو لاہور کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    حکومتِ‌ پاکستان کی جانب سے استاد سلامت علی خان کو دو مرتبہ صدارتی تمغہ برائے حسنِ‌ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا گیا۔

  • ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    ممتاز غزل گو شاعر اور مقبول ترین فلمی نغمہ نگار قتیل شفائی کی برسی

    جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
    جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

    قتیل شفائی کا یہ شعر ہر باذوق اور شعر و ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی بیاض میں‌ شامل رہا ہے۔

    چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی
    وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

    اس شعر کے خالق بھی قتیل ہیں۔ پاکستان کے اس نام وَر شاعر اور ممتاز و مقبول فلمی نغمہ نگار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔11 جولائی 2001ء کو قتیل شفائی اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ پاک و ہند کے نام اور معروف گلوکاروں نے ان کے کلام کو اپنی آواز دی اور ان کے گیت کئی فلموں کی کام یابی کی وجہ بنے۔

    قتیل برصغیر کے ان معدودے چند شعرا میں‌ سے ایک ہیں‌ جنھوں نے نہ صرف ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی بلکہ گیت نگاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

    24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ (خیبر پختون خوا) میں پیدا ہونے والے قتیلؔ شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا۔ انھوں نے قتیل تخلّص کیا اور اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفا پوری کی نسبت شفائی کا اضافہ کرکے قتیل شفائی کے نام سے پہچان بنائی۔

    وہ بنیادی طور پر ایک رومانوی شاعر تھے۔ ندرتِ خیال، سلاست، روانی، رچاؤ اور غنائیت اُن کے شعری اوصاف ہیں۔ قتیل شفائی نے غزل کو اپنے تخیل سے جگمگایا اور ان کے کمالِ سخن نے اسے لاجواب بنایا۔

    یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
    کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے

    قتیل شفائی کی شاعری کی ایک جہت اُن کی فلمی نغمہ نگاری ہے، جس نے انھیں بے پناہ شہرت اور مقبولیت دی۔ انھوں نے کئی گیت لکھے جو نہایت معیاری اور عام فہم بھی تھے۔ ان کی اسی خوبی نے بھارتی فلم سازوں کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان سے اپنی فلموں کے لیے گیت لکھوائیں۔

    ان کے لازوال اور یادگار گیتوں ‘زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں، اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے، کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنّا، یہ وادیاں، یہ پربتوں کی شہزادیاں، ہم سے بدل گیا وہ نگاہیں تو کیا ہوا، زندہ ہیں‌ کتنے لوگ محبّت کیے بغیر، پریشاں رات ساری ہے، ستارو تم تو سو جائو’ شامل ہیں۔

    قتیل شفائی کی شاعرانہ عظمت اور ان کے تخلیقی جوہر اور انفرادیت کا اعتراف اپنے وقت کے عظیم اور نام ور شعرا نے کیا ہے۔ ان میں فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، فراق گورکھ پوری اور دیگر شامل ہیں۔

    قتیل شفائی نے صدارتی ایوارڈ کے ساتھ ادبی تنظیموں کی جانب سے متعدد اعزازات حاصل کیے، جب کہ ان کا سب سے بڑا اعزاز عوام میں ان کی وہ شہرت اور مقبولیت تھی جو انھوں‌ نے اپنے تخلیقی وفور اور فن کی بدولت حاصل کی۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

    قتیل شفائی کے شعری مجموعے چھتنار، پیراہن، برگد، آموختہ، گفتگو، آوازوں کے سائے کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ان کی آپ بیتی بعد از مرگ ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئی۔

  • عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    عمر شریف: مصر کے اس باکمال اداکار کو دریائے نیل کا گوہرِ‌ نایاب بھی کہا جاتا ہے

    مصر سے تعلق رکھنے والے عالمی شہرت یافتہ اداکار عمر شریف کی وفات پر کہا گیا کہ مصری فلمی صنعت یتیم ہو گئی، دریائے نیل کا گوہرِ نایاب فن کے سمنر میں‌ اتر گیا۔ وہ 10 جولائی 2015ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    اداکار عمر شریف 10 اپریل 1932ء کو بحیرہٴ روم کے کنارے واقع مصر کے مشہور ترین شہر اسکندریہ میں پیدا ہوئے۔ والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا اور یہ خاندان عیسائیت کا پیروکار تھا۔ عمر شریف کی پرورش بھی کیتھولک مسیحی کے طور پر ہوئی۔

    اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل کی۔ اسی زمانے میں انھیں‌ فنِ اداکاری میں دل چسپی پیدا ہوگئی تھی اور پھر انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری میں‌ قدم رکھا۔

    ’صراع فی الوادی‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں ان کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا جن سے فلمی پردے پر ان کا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور انھوں نے شادی کر لی۔ عمر شریف نے فاتن سے شادی کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    مصر کا یہ دراز قد، وجیہہ اور پرکشش اداکار بعد میں ہالی وڈ میں نام و مقام بنانے میں کام یاب ہوا۔ 1960 کی دہائی میں انھیں شہرۂ آفاق فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار ملا اور انھوں نے ہالی وڈ میں اپنے فن کا لوہا منوایا۔ اس فلم کے لیے انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا جب کہ اسی کردار کے لیے عمر شریف کو آسکر ایوارڈ کے لیے بھی نام زد کیا گیا تھا۔

    اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار ادا دیا گیا اور اس بار بھی انھوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کرکے گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران عمر شریف نے کئی فیچر فلموں اور ٹیلی وژن کے لیے بھی اداکاری کی۔

    2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ اپنے مداحوں کے سامنے ’موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں تھے۔ اس فلم میں‌ انھوں نے ایک بزرگ مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، جس پر انھیں وینس فلمی میلے کا ایوارڈ دیا گیا۔ عمر شریف نے 2013ء میں زندگی کی آخری فیچر فلم میں کام کیا۔

    انھوں نے 83 برس کی عمر میں قاہرہ میں وفات پائی اور وہیں سپردِ خاک کیے گئے۔

  • ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر اور فلمی نغمہ نگار بشر نواز کی برسی

    ممتاز ترقّی پسند شاعر، اسکرپٹ رائٹر، فلمی نغمہ نگار اور نقّاد، بشر نواز 9 جولائی 1995ء کو وفات پاگئے تھے۔ بالی وڈ کی مشہور فلم بازار کے لیے ان کا لکھا ہوا ایک گیت ‘کرو گے یاد تو ہر بات یاد آئے گی’ بہت مقبول ہوا تھا۔

    ان کا اصل نام بشارت نواز خاں تھا جو دنیائے ادب میں بشر نواز کے نام سے جانے گئے۔ 18 اگست 1935ء کو اورنگ آباد، مہاراشٹر میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد بھارت ہی میں قیام پذیر رہے اور وہیں زندگی کا سفر تمام ہوا۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور دینی تھا۔ والد ناظمِ تعلیمات اور والدہ عالمہ تھیں۔ بشر نواز نے 1953ء میں شاعری کا آغاز کیا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ پہچان بنانے میں کام یاب رہے اور بعد میں فلم انڈسٹری کے لیے نغمہ نگار کی حیثیت سے شاعری کی۔

    انھیں حیدر آباد دکن کے ایک مشاعرے میں پہلی بار ممتاز ترقّی پسند شاعر مخدوم محی الدّین نے متعارف کروایا تھا۔ ان کے شعری مجموعے رائیگاں اور اجنبی سمندر کے نام سے شایع ہوئے جب کہ ایک تنقیدی مجموعہ نیا ادب نئے مسائل کے نام سے منظرِ عام پر آیا۔

    بشر نواز کی نظمیں بھی مشہور ہوئیں جب کہ ان کے لکھے ہوئے نغمات محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے جیسے نام ور گلوکاروں کی آواز میں ریکارڈ ہوئے اور فلم بینوں تک پہنچے۔

  • یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    یومِ‌ وفات: جگدیپ نے فلم ‘شعلے’ میں ‘سورما بھوپالی’ کا مزاحیہ کردار ادا کیا تھا

    بالی وڈ کے معروف مزاحیہ اداکار جگدیپ گزشتہ سال 8 جولائی کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے بالی وڈ کی مشہور اور کام یاب ترین فلم شعلے کے ایک کردار سورما بھوپالی کے سبب شہرت اور مقبولیت حاصل کی تھی۔

    جگدیپ کا اصل نام سّید اشتیاق احمد جعفری تھا۔ وہ 29 مارچ 1939ء کو مدھیہ پردیش کے شہر داتیا میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ فلم افسانہ سے ہوا اور بعد میں‌ جگدیپ کے نام سے انھیں کئی فلموں میں اہم اور نمایاں کردار نبھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے چار سے سو زائد فلموں‌ میں کام کیا جن میں‌ سے اکثر سپرہٹ اور یادگار ثابت ہوئیں۔

    1957ء میں بمل رائے کی فلم دو بیگھا زمین نے ان کے کیریئر کو مہمیز دی اور یہاں سے وہ ایک کامیڈین کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں‌ نے 1975ء میں فلم شعلے میں جگدیپ نے سورما بھوپالی کا کردار اس خوبی سے نبھایا کہ لوگوں کے دلوں میں‌ اتر گئے۔ کہتے ہیں ان کے اس کردار نے گویا بھوپال کا کلچر ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا۔ اپنے اس کردار میں انھوں نے اپنے اندازِ تخاطب سے جان ڈالی تھی اور ناقدین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنا رول نبھانے کے لیے جس قدر محنت کی تھی، اسی کی بدولت یہ کردار ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ سورما بھوپالی کا یہ کردار لکڑی کا ایک تاجر ہے جو بہت زیادہ پان کھاتا ہے اور مخصوص لب و لہجے میں‌ بات کرتا ہے۔

    جگدیپ کی یادگار فلموں میں شعلے کے علاوہ انداز اپنا اپنا، افسانہ، آر پار اور دیگر شامل ہیں۔ انھیں آخری بار 2017ء میں فلم ’مستی نہیں سستی‘ میں دیکھا گیا تھا۔

    جگدیپ کے تین بیٹے جاوید جعفری، نوید جعفری اور حسین جعفری بھی بالی وڈ سے وابستہ ہیں۔ جاوید جعفری معروف کامیڈین، میزبان، اداکار اور ماہر ڈانسر ہیں۔

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔

  • اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور مصنّف خاطر غزنوی کی برسی

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    یہ شعر آپ نے بھی پڑھا اور سنا ہو گا۔ اس کے خالق کا نام خاطر غزنوی ہے جن کی آج برسی ہے۔ وہ اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف تھے۔ خاطر غزنوی 7 جولائی 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انھوں نے 25 نومبر 1925ء کو پشاور کے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ ریڈیو پاکستان، پشاور سے عملی زندگی کا آغاز کرنے والے خاطر غزنوی نے اردو کے علاوہ ہندکو زبان میں لکھنا شروع کیا اور پہچان بناتے چلے گئے۔ انھوں نے چینی زبان سیکھی اور اس کی تعلیم بھی دی، پشاور کی جامعہ سے اردو زبان میں ایم اے کے بعد انھوں نے باقاعدہ تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ اس عرصے میں وہ ادبی جرائد سے بھی منسلک رہے اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔

    خاطر غزنوی 1984ء میں اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ ان کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثر پر مشتمل کتابوں میں زندگی کے لیے، پھول اور پتّھر، چٹانیں اور رومان، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوش حال نامہ اور چین نامہ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں جب کہ ہندکو اور پشتو ادب سے متعلق متعدد کتب کے مصنّف اور مؤلف بھی تھے۔ ان کی یہ کتب لوک کہانیوں، قصّوں اور مقامی ادب، اصناف اور تخلیق کاروں کا احاطہ کرتے ہوئے ان موضوعات پر سند و حوالہ ہیں۔ یہ ان کا علمی و تحقیقی کام تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    خاطر غزنوی پشاور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک ایک کرکے لوگ نکل آئے دھوپ میں
    جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں