Tag: جولائی انتقال

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کام یاب فلمیں کیں۔ ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ بھرتی ہوئے اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد کر روزی کمانے کے لیے تانگہ چلانا شروع کر دیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور انھیں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام، مزدوری بھی شروع کردی۔ ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ اسی عرصے میں شہر کے ایک سنیما کے عملے سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان لوگوں نے ساون کو فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ساون نے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے اور آخر کار فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ایک کردار حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوگئے۔

    فلمی دنیا میں‌ قدم رکھنے والے ظفر احمد بٹ کو ساون کا نام دیا گیا۔ اسی زمانے میں کسی نے لاہور جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی گرج دار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور چلے گئے اور آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ’’سولہ آنے‘‘ کے بعد وہ فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کاسٹ کر لیے گئے اور اس فلم نے انھیں مقبول اداکار بنا دیا۔

    ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ساون نے مقبولیت اور کام یابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کہنے لگے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” کئی کام یاب فلمیں کرنے کے بعد ساون کو فلموں میں اہم کرداروں کی آفر کا سلسلہ بند ہوتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    پاکستان کے مشہور موسیقار اور ہارمونیم نواز ماسٹر محمد صادق 5 جولائی 1987ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ماسٹر محمد صادق پنڈی والے کے نام سے معروف تھے۔

    ماسٹر محمد صادق 1923ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان فنِ‌ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھا۔ ان کے والد استاد نادر علی اور تایا استاد فیروز خاں نشی خاں والے اپنے زمانے کے معروف طبلہ نواز تھے۔ ماسٹر محمد صادق نے انہی سے طبلہ بجانا سیکھا اور گجرات کے میاں نبی بخش کالرے والے اور استاد کرم الٰہی ربابی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    اس زمانے میں ہارمونیم ایک مقبول ساز تھا اور موسیقی کی محافل میں‌ اس کا استعمال عام تھا۔ ماسٹر محمد صادق ہارمونیم بجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے واحد ہارمونیم نواز تھے جن کے ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ جاری ہوا تھا۔

    ان کے فن پر لوک ورثہ اور پاکستان ٹیلی وژن نے خصوصی ویڈیو فلمیں تیار کی تھیں۔ ماسٹر محمد صادق کے شاگردوں میں معروف گلوکارہ مالا اور ان کی بہن شمیم نازلی کے نام سرفہرست ہیں۔

    ماسٹر محمد صادق کو راولپنڈی میں قبرستان ڈھوک الٰہی بخش میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    معروف ادیب اور مشہور ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے۔ انھوں‌ نے شخصیت اور تذکرہ نویسی کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات سے خط و کتابت کو بھی اہمیت دی اور یہ خطوط اردو ادب میں معتبر و مستند ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انھیں محمد نقوش کا خطاب دیا تھا۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے وقت کے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی تھی۔ 1944ء میں انھوں نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ایک ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ لاہور سے شایع ہونے والے اس جریدے کے 18 شماروں کی اشاعت کے بعد محمد طفیل نے اس کی ادارت کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کام یابی سے طباعت اور اشاعت کے مراحل طے کرتے ہوئے ہر لحاظ سے معیاری اور ممتاز جریدہ ثابت ہوا جس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام ور شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوئیں۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔

    محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے، ان کے خاکوں‌ کے مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی خود نوشت بعد از وفات ناچیز کے عنوان سے نقوش کے محمد طفیل نمبر میں شایع کی گئی۔

    محمد طفیل کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ میانی صاحب لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی گائیک اور قوّال منشی رضی الدّین کی برسی ہے۔ وہ 4 جولائی 2003ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    منشی رضی الدّین کا تعلق رام پور سے تھا جہاں انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے آبا و اجداد فنِ گائیکی اور قوّالی کے لیے مشہور تھے۔ یہ گھرانا امیر خسرو اور بہادر شاہ ظفر کے دور میں فنِ‌ موسیقی سے وابستہ تھا۔

    منشی رضی الدّین ابتدا میں نظام حیدر آباد(دکن) کے دربار سے وابستہ رہے اور بہت عزّت اور داد و انعام پایا۔ 1956ء میں وہ پاکستان آگئے اور اپنے رشتے کے بھائیوں کے ساتھ مل کر منشی رضی الدّین، منظور نیازی اور برادران کے نام سے قوّال گروپ تشکیل دیا۔

    1966ء سے انھوں نے اس فن میں اپنی الگ شناخت بنانے کا فیصلہ کیا جس میں ن کے بیٹے فرید ایاز اور ابو محمد بھی شامل تھے۔

    منشی رضی الدّین ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ علمِ موسیقی جانتے تھے اور مشہور ہے کہ وہ شعر کا مضمون بھانپ کر اپنی قوّالیوں میں اس کی تکرار کیا کرتے تھے جس سے ان کی گائیکی میں‌ سوز پیدا ہوتا اور ان کی گائیکی پُراثر ثابت ہوتی۔ وہ ریاض کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اپنے فن کے ساتھ مخلص تھے۔

    منشی رضی الدّین کا پسندیدہ ساز تان پورہ تھا اور ان کی قوالیوں میں تان پورے کا استعمال دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے قوّالی کے فن میں چار دہائیوں سے زائد عرصے کے طویل سفر میں کلاسیکی انداز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بخوبی اپنی آواز میں ڈھالتے رہے۔

    منشی رضی الدّین کو گائیکی اور قوّالی کے فن کے لیے خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

    کلاسیکی گائیکی کے اس نام ور فن کار کا مدفن لاہور میں ہے۔

  • معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    آج پاکستان کے نام ور لوک فن کار الن فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 4 جولائی 2000ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    الن فقیرکا اصل نام علی بخش تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1932ء بتایا جاتا ہے۔ الن فقیر کا تعلق سندھ کے علاقے مانجھند، ضلع دادو سے تھا۔ ان کے والد دھمالی فقیر مشہور ساز شہنائی بجانے کے حوالے سے معروف تھے۔ یوں الن فقیر لوک گیت اور موسیقی سے شروع ہی سے مانوس ہوگئے۔ وہ سریلی آوازیں سنتے، مقامی سازوں کو دیکھتے اور انھیں‌ تھامنے اور بجانے کے فن کو سمجھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ اس ماحول نے ان کے اندر سوز و گداز پیدا کیا اور ایک وقت آیا کہ انھوں نے لوک فن کار کی حیثیت سے نام و مقام پیدا کیا۔

    الن فقیر کو سندھی شاعری کی مشہور صنف وائی گانے میں مہارت حاصل تھی۔ مقامی سطح پر اپنے فن کام مظاہرہ کرنے والے الن فقیر ریڈیو پاکستان اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب رہے اور یوں‌ انھیں ملک بھر میں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ اپنی گائیکی کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول تھے۔ پرفارمنس کے دوران سندھ کے روایتی ملبوس کے ساتھ ان کا منفرد اور والہانہ انداز حاضرین و ناظرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔ گائیکی کے دوران الن فقیر کا مخصوص رقص، جھومنا اور مست و سرشاری کا عالم اپنی مثال آپ تھا۔

    سندھ کے عظیم شاعروں کا کلام گانے والے الن فقیر کا نام "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا” اور "اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا” جیسے گیتوں کی بدولت فن کی دنیا میں امر ہو گیا۔

    1987ء میں حکومتِ پاکستان نے الن فقیر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی جب کہ 1999ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا تھا۔ الن فقیر جامشورو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    3 جولائی 2006ء کو ملک رحیم خان المعروف سکّے دار وفات پاگئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت فلم جبرو تھی جسے برطانوی راج پر ایک رجحان ساز فلم مانا جاتا ہے۔ اس فلم کے مکالمے اور منظر نامہ سکّے دار کا تحریر کردہ تھا۔

    ملک رحیم خان 1927ء کو لاہور کے قریب گاؤں نیاز بیگ میں پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے فلم نگری میں کہانی کار اور مکالمہ نویس کے طور پر نام بنایا اور اداکار و نغمہ نگار کے طور پر بھی کام یاب ہوئے۔ ایک فلم میں انھوں‌ نے ہندو بنیے کا کردار نبھا کر ناقدین سے خوب داد پائی۔ رحیم سکّے دار کو مکالموں‌ کی ادائیگی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے اور فلموں کا اسکرپٹ جان دار ہوتا تھا۔

    رحیم سکّے دار چند کتابوں‌ کے مصنّف بھی تھے جو فلم نگری سے وابستہ شخصیات اور ان کے فن پر معلومات کا خزانہ ہیں۔ ان میں مشہور فلمی شاعر تنویر نقوی پر لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔

    آج بہت کم لوگ رحیم سکّے دار کے نام اور ان کے کام سے واقف ہیں۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ لکھا۔ ان کا پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ الاپ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    رحیم سکّے دار کی فلمیں‌ 60 اور 70 کی دہائی میں‌ خاصی مقبول ہوئیں۔

  • یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    یومِ وفات: صلیبی افواج کے بعد سلطان بیبرس نے منگولوں‌ کا غرور بھی خاک میں‌ ملا دیا

    آج بیبرس کا یومِ وفات ہے۔ تاریخ کے اوراق میں انھیں مصر کا پہلا عظیم مملوک حکم راں لکھا گیا ہے، انھوں نے ایک کمانڈر کی حیثیت سے ساتویں‌ صلیبی جنگ میں مسلمانوں کے لشکر کی قیادت کی تھی۔ سلطان بیبرس یکم جولائی 1277ء کو وفات پاگئے تھے۔

    اس جری اور شیر دل سلطان کا نام رکن الدّین بیبرس بند قداری تھا جنھوں نے اپنے لیے الملکُ الظّاہر کا خطاب چنا۔ وہ نسلاً قپچاق ترک تھے، ان کا لقب ابوالفتح تھا۔

    بیبرس نے 19 جولائی 1223ء کو دشتِ قپچاق کے ایک خانہ بدوش قبیلے میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ مصر و شام کے غلاموں‌ کے مملوک خاندان کے فرد تھے۔ یہ خاندان دو شاخوں میں منقسم تھا اور بیبرس بحری مملوکوں میں سے تھے۔ وہ مصر کے چوتھے فرماں روا بنے جب کہ پہلے ایسے حکم راں تھے جنھیں ان کی فتوحات کی بدولت شہرت ملی۔ بیبرس نے 1260ء سے 1277ء تک حکم رانی کی۔

    بیبرس، ہلاکو خان اور دہلی کے غیاث الدین بلبن کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بیبرس کو غلام بنا کر فروخت کیا گیا تھا۔ وہ ساتویں صلیبی جنگ میں فرانس کے لوئس نہم اور جنگِ عین جالوت میں منگولوں کو شکست دینے والے لشکر کے کمانڈر تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بغداد کو خون ریزی اور آگ میں جھونک کر ہلاکو خان کی فوجیں مصر و شام کی طرف بڑھیں تو بیبرس اور ایک مملوک سردار نے مل کر عین جالوت کے مقام پر ان کا مقابلہ کیا اور بدترین شکست دی۔ یوں بیبرس نے مصر و شام کو منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچایا اور یہ ان کا بڑا کارنامہ تھا۔

    بیبرس کا ایک اور بڑا کارنامہ شام کے ساحلی علاقوں پر قابض یورپی حکومتوں کا زور توڑنا تھا۔ یہ حکومتیں پہلی صلیبی جنگ کے بعد سے وہاں قابض تھیں۔ سلطان بیبرس نے عین جالوت میں منگولوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کرنے پر 1268ء میں عیسائی سلطنت انطاکیہ کو اکھاڑ پھینکا۔ انہی جنگی فتوحات اور سلطنت کے مفاد میں‌ کارناموں کی وجہ سے بیبرس کا نام مصر و شام میں مشہور ہوا۔

    بیبرس نے رفاہِ عامّہ کے کام بھی کیے۔ انھوں نے شہروں میں نہریں، پُل اور مدارس تعمیر کرائے۔

    وفات کے بعد سلطان بیبرس کو الظّاہریہ کتب خانہ (دمشق) کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    نادر روزگار شخصیت محمد نجمُ الغنی خاں نجمی کی برسی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں رام پوری کا یومِ‌ وفات ہے۔ اس نادرِ‌ روزگار شخصیت نے یکم جولائی 1941ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ وہ برصغیر پاک و ہند کے نام وَر محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے شان دار علمی و ادبی سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    محمد نجم الغنی خاں ایک علمی و ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا اور لکھا جاتا ہے جب کہ نجمی ان کا تخلّص تھا۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں انھیں شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا جس نے انھیں بھی پڑھنے اور لکھنے لکھانے کی طرف راغب کیا۔

    والد نے رام پور سے نکل کر ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو یہیں نجم الغنی خاں کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا بھی آغاز ہوا۔ 23 برس کے ہوئے تو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے رام پور چلے آئے اور مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا۔ 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ سند پائی۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

    تاریخ سے انھیں خاص دل چسپی تھی۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخیں لکھیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتب اور مختصر رسالوں اور علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کا کلام دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علمی و ادبی کتب کے علاوہ انھوں نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اہمیت دی اور اس حوالے سے اپنی معلومات، تجربات اور مشاہدات کو کتابی شکل میں یکجا کرنا ضروری سمجھا جس سے بعد میں اس پیشے کو اپنانے والوں نے استفادہ کیا۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    ان کی دیگر علمی و تاریخی کتب میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض)، مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔