Tag: جولائی برسی

  • محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    محمد رفیع: سماعتیں آج بھی ان کی آواز کی اسیر ہیں

    فلم کے لیے گلوکار محمد رفیع کی آواز میں گیت ریکارڈ کرنے کا ایک مطلب یہ بھی لیا جاتا تھا کہ وہ فلم اپنے گانوں کی وجہ سے ضرور ہِٹ ہوگی۔ ایسا نہیں ہے کہ محمد رفیع کو میوزک ڈائریکٹر کی جانب سے شدید اعتراض یا ڈانٹ نہیں سننا پڑی۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا عروج بھی دیکھا اور پسِ پردہ گائیکی ان کے لیے چیلنج بھی ثابت ہوئی۔ مگر جب محمد رفیع کا انتقال ہوا تو وہ اپنے کیریئر کی بلندیوں پر تھے۔

    بطور پس پردہ گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے محمد رفیع اپنے احباب میں ایک پُرسکون اور شائستہ انداز کے مالک اور منکسر مزاج مشہور تھے۔ موسیقار امر ہلدی پور سجاتا دیو کی کتاب میں درج یہ واقعہ اس کی ایک جھلک دکھایا ہے:‌ ’1967-68 میں سی رام چندر رفیع صاحب کے ساتھ ایک گانا ریکارڈ کر رہے تھے۔ لیکن رفیع جی بار بار غلطیاں کر رہے تھے۔ ریکارڈنگ کئی بار کرنی پڑی۔ سی رام چندر ناراض ہو گئے اور بولے ’کیا ہو رہا ہے؟ کیا میں نے میوزک اسکول لیا ہے؟ وہ گانا یاد کر لو جو میں نے تمہیں دیا ہے۔‘

    وہ کہتے ہیں ’رفیع جی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہ: ’معذرت، یہ گانا میرے ذہن میں نہیں بیٹھ رہا، میں ابھی کرتا ہوں‘ انھوں نے اس وقت تک گایا جب تک کہ میوزک ڈائریکٹر مطمئن نہ ہو گئے۔ بعد میں وہ تمام فنکاروں کے پاس گئے اور معافی مانگی۔ اس عاجزی کی وجہ سے وہ سب کے پسندیدہ تھے۔‘

    دوسری طرف نرم گفتار اور منسکر مزاج محمد رفیع بھی برہم یا ناراض ہوجاتے تھے لیکن بہت کم اور بہت مختلف انداز میں وہ اس کا اظہار کرتے تھے۔ سینیئر موسیقار اومی نے اپنی کتاب ‘محمد رفیع – اے گولڈن وائس’ میں لکھا ہے: ’ایک بار رفیع مجھ سے ناراض ہو گئے جو کہ بہت کم ہوتا تھا۔ 1973 میں فلم ’دھرم‘ کی قوالی ’راز کی بات کہہ دوں سے۔۔۔‘ کی ریکارڈنگ ہوئی تھی۔ میں دوبارہ ریکارڈ کرنا چاہتا تھا۔ رفیع صاحب قدرے غصے میں آگئے اور بولے کیا کہہ رہے ہو۔ رفیع صاحب سے ایسی بات سننا غیر معمولی تھا۔ میں نے بھی تھوڑا سختی سے کہا پیک اپ۔ رفیع صاحب بنا کوئی بات کہے چلے گئے۔‘

    ’اگلی صبح چھ بجے گھر کی گھنٹی بجی۔۔ رفیع صاحب سامنے تھے، انھوں نے پنجابی میں کہا ’کیا میں نے آپ کو ناراض کیا ہے؟ چلو کل والی قوالی سنتے ہیں۔‘

    ’میں امریکہ سے اسپیکر لایا تھا انھی پر سنتے ہیں‘ انھیں سننے کے بعد رفیع جی نے شائستگی سے پوچھا کہ کیا دوبارہ ریکارڈ کرنا ہے؟

    ’میں نے انھیں گلے لگایا اور کہا خان اپنے اسپیکر لے جاؤ (میں انھیں خان کہتا تھا)۔ پھر کہا یہ اسپیکر آپ کے لیے ہیں۔ رفیع جی کی فیس تین ہزار روپے تھی اور اسپیکر کی قیمت بیس ہزار روپے تھی۔ ایسے تھے رفیع صاحب‘۔

    گلوکار محمد رفیع کو ہم سے بچھڑے ہوئے مدتیں گزر گئی ہیں، لیکن ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی سنے جاتے ہیں اور ہر مرتبہ ایک لطف اور سرشاری محسوس ہوتی ہے۔ ان کا نام برصغیر پاک و ہند میں فلمی موسیقی کے اُفق پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ وہ 31 جولائی 1980ء کو ممبئی میں انتقال کرگئے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے محمد رفیع کے گائے ہوئے گیتوں کی مقبولیت کو سرحد کی لکیر اور دوسری پابندیاں کبھی نہ روک پائیں۔ وہ ہر دو ملک کے عوام میں یکساں مقبول ہوئے اور انڈسٹری میں کوئی آج تک ان کی جگہ نہیں لے سکا۔ محمد رفیع کی آواز میں ایسا جادو تھا کہ سامع مسحور ہو جاتا۔ انھوں نے شوخ و چنچل، درد بھرے، رومانوی، اور کلاسیکی موسیقی کے ساتھ مغربی طرز کے گیت بھی بڑی مہارت کے ساتھ گائے۔ رفیع کے چند مقبول ترین گیتوں میں ’’بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے‘‘، ’’آ جا آ جا میں ہوں پیار تیرا‘‘ اور کئی سدا بہار گیت آج پرانی راہوں سے کوئی مجھے آواز نہ دے، چھلکائے جام آئیے آپ کی آنکھوں کے نام، یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں، مجھے دنیا والو شرابی نہ سمجھو، میں پیتا نہیں ہوں، آجا تجھ کو پکاریں میرے گیت رے، چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے، یہ ریشمی زلفیں یہ شربتی آنکھیں شامل ہیں۔

    اپنے زمانہ کے اس عظیم اور مقبول ترین گلوکار نے 24 دسمبر 1924ء کو بھارتی پنجاب کی ریاست کوٹلہ سلطان سنگھ میں آنکھ کھولی۔ 1935-36ء میں ان کے والد لاہور منتقل ہوگئے اور بھاٹی گیٹ میں رہائش اختیار کی۔ والد گانے بجانے کے خلاف تھے مگر رفیع کو سر اور آواز اپنی جانب کھینچتی تھی۔ وہ والد کی غیر موجودگی میں گنگناتے اور چھپ کر گاتے۔ محمد رفیع کی عمر ابھی 13 سال تھی جب ایک کنسرٹ میں پہلی بار گیت گانے کا موقع مل گیا۔ سب نے ان کی بڑی تعریف کی۔ مگر قسمت کی دیوی 1941ء میں محمد رفیع پر مہربان ہوئی۔ انھوں نے مشہور موسیقار شیام سندر کی موسیقی میں فلم ’’گل بلوچ‘‘ کا گیت ’’سوہنیے نی ہیریے نی‘‘ گایا اور پھر ہندوستان کے موسیقار اعظم کہلانے والے نوشاد نے اپنی فلم ’’شاہ جہاں‘‘ میں گیت گانے کی دعوت دی۔ اس فلم کے لیے رفیع کی آواز میں ’’میرے سپنوں کی رانی‘‘ اور ’’روہی روہی‘‘ جیسے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اب ان کا پس پردہ گائیکی کا سفر آگے‌ بڑھا اور اگلے سال ہدایت کار محبوب کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ اور ’’جگنو‘‘ کے گیت ریکارڈ کروائے۔ اس میں انھوں نے ملکہ ترنم نور جہاں کے ساتھ دوگانا گایا۔ ان میں ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘ اس دور کا سپر ہٹ گیت تھا۔

    رفیع کا شمار ان گلوکاروں میں ہوتا ہے جو راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرنے میں کام یاب رہے۔ رفیع نے فلم کی دنیا کے ممتاز موسیقاروں اور گلوکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    محمد رفیع کو فلم فیئر ایوارڈ، نیشنل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ ان گلوکاروں میں سے تھے جن کی آواز پر اپنے دور کے ہر بڑے ہیرو اور سپر ہٹ فلمی جوڑیوں نے پرفارم کیا۔ فلمی دنیا کے ریکارڈ کے مطابق ان کے گیتوں کی تعداد 28 ہزار کے قریب ہے جن میں ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے گیت بھی شامل ہیں۔

  • میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    میرزا ادیب: میرزا ادیب: جب اے حمید نے انھیں‌ بیوقوف بنایا

    کتنے ہی ادیب اور شاعر جو دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے نام بھی لوگوں کے حافظے سے محو ہوگئے۔ ان کی تصنیف کردہ درجنوں کتابیں موجود تو ہیں، لیکن کسی لائبریری کے ایک کونے میں پڑی ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج ہم ان لوگوں کے نام اور کام سے واقف نہیں جنھوں نے کبھی ہمارے بچپن اور نوجوانی میں ہمیں معیاری اور مفید سرگرمیوں میں مشغول رکھا اور ان کی تحریریں ہماری راہ نمائی اور تربیت کرتی رہیں۔

    آج میرزا ادیب کی برسی ہے۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں جو نسل بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے پڑھتی تھی، اس کے حافظے میں میرزا ادیب کا نام ضرور محفوظ ہوگا اور اس نام سے کئی یادیں جڑی ہوں گی۔ میرزا ادیب نے بچّوں کے لیے ہی ادب تخلیق نہیں کیا بلکہ ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگاری، تراجم کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین، سوانح اور سفر نامے بھی لکھے۔ اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں شاعری بھی کی لیکن ان کی وجہِ شہرت نثری ادب ہی ہے۔

    کہتے ہیں کہ بڑا اور کام یاب آدمی صرف بڑے گھر اور کسی اونچے خاندان میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذہانت، لیاقت، محنت اور لگن اسے بڑا اور اپنے شعبے میں کام یاب بناتی ہے۔ میرزا ادیب نے بھی کسی بڑے گھر میں‌ آنکھ نہیں‌ کھولی تھی، بلکہ ان کا بچپن مشکلات اور مصائب جھیلتے ہوئے گزار۔ انھوں نے کئی محرومیاں دیکھیں، مگر اپنی محنت، لگن اور تعلیم کو سہارا بنا کر ایک کام یاب زندگی گزاری اور ملک بھر میں عزت و شہرت پائی۔

    31 جولائی 1999ء کو میرزا ادیب لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید نے اپنی کتاب یادوں کے گلاب میں اپنی ایک شرارت کا تذکرہ کرتے ہوئے میرزا ادیب کو سادہ اور معصوم انسان، اور شریف النفس آدمی لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“ میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

    میرزا ادیب کا اصل نام دلاور علی تھا۔ وہ 4 اپریل 1914 کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ کالج، لاہور سے گریجویشن کیا، ادبی سفر کی ابتدا شاعری سے کی مگر جلد ہی نثر کی طرف مائل ہو گئے۔ ان کے بچپن اور حالاتِ زیست کے بارے میں انہی کی زبانی جانیے: ’’دلاور علی تو میرا وہ نام ہے جو میرے والدین نے رکھا اور ظاہر ہے کہ والدین ہی نام رکھا کرتے ہیں۔ میرزا ادیب میرا ادبی نام ہے۔ جو میں نے اس وقت اختیار کیا جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا اور اس طرح تریسٹھ برس سے میں میرزا ادیب ہی ہوں۔‘‘

    وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ ان کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے اور میرزا ادیب بتاتے ہیں کہ ایک بڑے صندوق میں ان کی کتابیں محفوظ تھیں۔ دادا کے بعد ان کے والد جو خیّاط تھے، کسی طرح‌ اس ورثہ کے اہل نہیں‌ تھے، بلکہ وہ ایک خاموش طبع، کچھ اکھڑ اور تند خُو انسان تھے اور میرزا ادیب کا بچپن بھی ان کی ڈانٹ اور مار پیٹ سہتے ہوئے گزر گیا۔ انھیں اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کی خواہش تھی نہ فکر۔ البتہ والدہ کی خواہش اور محنت کے نتیجے میں دو بھائی کچھ تعلیم پاسکے جب کہ ان کی بہنوں نے کبھی کتابوں کو ہاتھ نہ لگایا۔ میرزا ادیب نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا، ’’میں مغل خاندان سے تعلق رکھتا ہوں، دادا جان کے ’قلمی نسخے‘ میں لکھا تھا کہ ان کا خاندان افغانستان سے لاہور آیا تھا۔ میرے دادا اپنے زمانے کے عالم فاضل شخص تھے اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔‘‘

    ’’مٹی کا دیا‘‘ میرزا ادیب کی یادوں پر مشتمل کتاب ہے جس میں وہ اپنی محرومیوں کے بارے میں رقم طراز ہیں: ’’تایا جی اور ابا جی کو اپنے مغل ہونے پر فخر تھا۔ یہ فخر ایک ایسا اثاثہ بن گیا تھا جسے وہ محرومیوں کے لق و دق صحرا میں بھی اپنے سینوں سے چمٹائے ہوئے تھے۔‘‘

    ’’یہ تھی میری نسل جو آگے قدم نہیں اٹھا سکی تھی۔ یہ نسل ایک جگہ رُک گئی تھی جیسے ایک غار میں اُتر گئی ہو اور باہر نکلنے کا راستہ نہ جانتی ہو۔ یہ نسل میری نسل تھی، جو صرف جینا جانتی تھی اور یہ صرف اس وجہ سے کہ جینے پر مجبور تھی۔ میں اس جمود زدہ نسل کا ایک فرد تھا جس کی پیدائش محض ایک عام واقعہ تھی۔‘‘ میرزا ادیب کا یہ احساسِ محرومی تمام عمر ان کے ساتھ رہا اور ان کی تحریروں میں بھی اس کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔

    میرزا ادیب بچپن ہی میں شاعری کرنے لگے تھے اور اس کے ساتھ ان میں مطالعہ کا شوق بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اسکول میں چند اساتذہ ان پر مہربان رہے اور ان کی توجہ اور شفقت نے میرزا ادیب کو کتابوں کے قریب کر دیا۔ وہ ادبی جرائد خرید کر پڑھنے لگے اور اسی مطالعے نے انھیں کہانیاں‌ لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان کی ایک نظم کسی ہفت روزہ کی زینت بھی بن گئی اور یوں وہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ میں شاعر مشہور ہوگئے۔ میرزا ادیب نے علّامہ اقبال کا کلام بھی خوب پڑھا تھا اور اسی کے زیرِ اثر وہ اسلامی موضوعات پر نظمیں اور مسلمانوں کی حالتِ زار پر شاعری کرنے لگے تھے جس کا شہرہ ہوا تو ایک استاد نے ان کی ملاقات اختر شیرانی جیسے بڑے اور مشہور شاعر سے کروا دی۔ بعد میں وہ کالج میں‌ پہنچے اور ادبی تنظیموں سے وابستگی کے ساتھ بڑے لوگوں سے تعلقات استوار ہوتے چلے گئے جنھوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور یوں میرزا ادیب نے قلم ہی کو اپنی روزی روٹی کا وسیلہ بنائے رکھا۔ انھیں کسی طرح ادبِ لطیف میں مدیر کی حیثیت سے نوکری مل گئی تھی اور بعد میں وہ متعدد ادبی رسائل کے مدیر رہے یا ان کی تدوین اور آزادانہ تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ یہ وہ کام تھے جن سے میرزا ادیب کو معاشی آسودگی اور ایک بہتر زندگی نصیب نہ ہوسکی، لیکن یہی ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔

    میرزا ادیب کی تصانیف میں صحرا نورد کے خطوط کو بہت شہرت ملی جب کہ صحرا نورد کے رومان، دیواریں، جنگل، کمبل، متاعِ دل، کرنوں سے بندھے ہاتھ، آنسو اور ستارے، ناخن کا قرض میرزا ادیب کی وہ تصانیف ہیں‌ جو اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ ان کی خودنوشت سوانح بھی بہت مقبول ہے۔ میرزا ادیب نے بچّوں‌ کے لیے کئی کہانیاں لکھیں اور غیرملکی ادب سے تراجم بھی کیے اور یہ کہانیاں مختلف رسائل اور روزناموں میں شایع ہوتی رہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے 1981 میں میرزا ادیب کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ رائٹرز گلڈ اور گریجویٹ فلم ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی:‌ یکتائے روزگار ماہرِ لسانیات اور نقاد

    آج اردو زبان میں لسانی مباحث، املا اور انشا کے ساتھ نقد و نظر کا میدان کسی عالم فاضل اور نکتہ بیں کا متلاشی بھی ہے اور حکومتی سرپرستی کا متقاضی بھی، مگر بدقسمتی سے نہ تو علمی و تحقیقی کام کرنے والے جامعات سے فارغ التحصیل لوگ آگے آسکے ہیں اور نہ ہی اربابِ‌ اختیار اس جانب توجہ دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں جس قدر کام تقسیمِ ہند سے قبل اور بٹوارے کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران ہوا، آج اس کی ضرورت پھر محسوس کی جارہی ہے۔ اردو کا یہی نوحہ لکھتے ہوئے تھک جانے والے قلم آج کے روز ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی کو بھی یاد کرتے ہیں جنھوں نے اپنی قابلیت، علمی استعداد اور وسیع مطالعے سے زبان کی بڑی خدمت کی تھی۔

    یہ وہ کام ہے جس کے لیے لسانیات سے گہرا شغف اور تحقیق کا ذوق و شوق بھی چاہیے۔ اور اب ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی جیسے ذہین، محنتی اور لگن سے کام کرنے والے ہمارے درمیان نہیں رہے ہیں۔ اگر آج ہم انہی بلند پایہ محقّق، ماہرِ لسانیات اور علم الحروف میں یکتا ڈاکٹر صدیقی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اردو کے لیے کام کریں تو اس کی ترقی اور فروغ ممکن ہے۔ صدیقی صاحب 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی کام اور ان کی تنقیدی بصیرت انھیں اپنے معاصرین میں ممتاز کرتی ہے۔ اردو زبان پر ان کے مقالہ جات، تصانیف اور پُرمغر مضامین سے بھارت اور پاکستان میں بھی استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی ایک ایسے گوہرِ نایاب تھے جن کی کاوشوں نے تحقیق کو گویا ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔

    اردو ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ اردو کے ساتھ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی ہی نہیں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ان سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر شامل رہے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن میں جامعہ عثمانیہ اور بعد میں پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے کام انجام دیتے رہےتھے۔ اس دوران زبان و بیان سے متعلق باریکیوں اور دوسری باتوں کو سمجھنے کے لیے بابائے اردو بھی صدیقی صاحب سے رجوع کرتے تھے۔ مرحوم 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور اسی زمانہ میں اپنے ذوق و شوق کے سبب متعدد یورپی زبانیں سیکھیں۔ ان کا زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ سے متعلق علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    اس دور میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل کا خوب چرچا تھا اور مشاہیر ان سے ملاقات اور گفتگو کرنے کی خواہش کرتے تھے۔ ان کے مضامین اور مقالات کئی اردو جرائد میں شائع ہوئے جنھیں یکجا تو کیا گیا مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد بہت کم ہے اور وہ بھی کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ ہیں۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی کام میں مصروفیات تھیں اور وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے لیے بہم نہیں کرسکے اور پھر وہ محفوظ نہیں رہے۔

    عبدالستار صدیقی کا تعلق سندیلہ، ضلع ہردوئی سے تھا جہاں انھوں نے 26 دسمبر 1885ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپسی کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی رہے۔

    منتخاب اللغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) ان کی تحریر کردہ مستند اور جامع لغات ہیں۔

  • راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں: معروف مزاح نگار اور سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق کا تذکرہ

    راجہ مہدی علی خاں کا نام فن و ادب کے شیدائیوں کے لیے نیا نہیں اور وہ لوگ جو اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہیں، راجہ صاحب کے قلم کی روانی، اور جولانیِ طبع کے ضرور معترف ہوں گے، لیکن نئی نسل کے قارئین نے کم ہی بحیثیت ادیب اور شاعر راجہ مہدی علی خاں کو پڑھا ہوگا۔ بیسویں صدی کے معروف مزاح نگار، مقبول ترین ادیب اور کئی سدا بہار فلمی گیتوں کے خالق راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    راجہ صاحب کی شخصیت بھی بڑی دل چسپ اور ان کی زندگی ہنگامہ خیز تھی۔ وہ بھارت ہی نہیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں بھی اپنی ادبی تخلیقات اور طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بھی راجہ صاحب کی شہرت خوب تھی۔ اپنے دور کے تمام بڑے اخبار و جرائد میں ان کی تحریریں باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں اور اُن کے رشحاتِ قلم اردو داں طقبہ میں ان کی مقبولیت کا سبب تھے۔ راجہ صاحب کے قلم کی خوبی یہ تھی کہ وہ بیک وقت نثر اور نظم دونوں میدانوں میں رواں رہا اور ہر دو اصناف میں راجہ مہدی علی خاں نے خود کو منوایا۔ وہ ان قلم کاروں میں سے تھے جن کی تحریر پڑھنے کے لیے قاری ادبی پرچے خریدا کرتے تھے۔ انھیں ادبی مجالس اور حلقۂ یاراں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور ہم عصر ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہوتے۔

    راجہ مہدی علی خاں نے اداریے بھی لکھے اور طنز و مزاح پر مبنی تحریریں بھی جن کا بہت چرچا ہوا۔ ان کی ادبی چشمکیں اور معرکہ آرائیاں بھی خوب تھیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہے کہ راجہ صاحب کے ادبی جھگڑے بہت مشہور تھے۔

    راجہ مہدی علی خان غیر منقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد میں 1915 میں پیدا ہوئے۔ بعض ادبی تذکروں میں‌ لکھا ہے کہ ان کا تعلق وزیر آباد سے تھا جو بعد میں‌ پاکستان کا حصّہ بنا۔ وہ ایک زمین دار خاندان کے فرد تھے۔ وہ بہت چھوٹی عمر میں والد کے سایۂ شفقت سے محروم ہو گئے۔ والدہ علم و ادب سے وابستہ تھیں اور صاحبِ دیوان شاعرہ تھیں۔ ان کی بدولت راجہ مہدی علی خان بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور شاعری کا آغاز کیا۔ خالص علمی اور ادبی ماحول میں پرورش پانے والے راجہ صاحب صرف دس برس کے تھے جب انھوں نے والدہ کی ہمّت افزائی اور مدد سے بچّوں کا ایک رسالہ جاری کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل راجہ صاحب دہلی منتقل ہو گئے تھے۔ وہاں انھیں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت مل گئی۔ اسی زمانہ میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے رفاقت پروان چڑھی اور ان کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں نے بمبئی میں فلمی دنیا سے ناتا جوڑا۔

    راجہ صاحب کو جس پہلی فلم کے لیے بطور گیت نگار کام کرنے کا موقع ملا وہ ’’شہید‘‘ تھی۔ اس فلم کے نغمات بہت مقبول ہوئے اور یوں راجہ صاحب نے اپنی شاعری کا سکّہ سب پر جما دیا۔ فلم کا ایک مقبول نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی سدا بہار کہلایا۔ انھیں دوسری مرتبہ فلم ’’دو بھائی‘‘ کے لیے گیت نگاری کا موقع دیا گیا اور اس فلم کے بھی گیت بھی بے حد پسند کیے گئے۔ راجہ مہدی علی خاں کے مشہور فلمی گیتوں‌ میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ گیت شامل ہیں۔ یہ اس زمانہ کے وہ فلمی گیت ہیں جو آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں۔ ان فلمی گیتوں کی شاعری کے علاوہ موسیقی بھی بے مثال ہے۔ راجہ صاحب کا فلمی دنیا میں سفر بیس برس جاری رہا۔ اس عرصہ میں‌ انھوں نے 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ اپنے عہد کے مقبول ترین ادیب اور شاعر تھے جن کی تخلیقات نے ہر ذہن اور دل پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی۔ راجہ مہدی علی خاں نے مزاحیہ شاعری بھی کی اور بچوں کے لیے بھی نظمیں لکھیں۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری اور چند پیروڈیاں بہت مقبول ہوئیں۔ یہ نظمیں فرسودہ روایات اور اس چلن کا پوسٹمارٹم کرتی ہیں، جن سے اس وقت کا معاشرہ آلودہ ہورہا تھا اور بعض نظمیں منافقت اور تکلیف دہ انسانی رویوں پر چوٹ کرتی ہیں ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے راجہ صاحب نے بغرضِ اصلاح اپنی یہ نظمیں لوگوں تک پہنچائیں۔ راجہ صاحب کے دو شعری مجموعے ”مضراب‘‘ اور ”اندازِ بیاں اور‘‘ منظر عام پر آئے۔

    راجہ مہدی علی خاں بہترین مترجم بھی تھے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ متعدد کتب میں مثنوی قہرالبیان، راج کماری چمپا، ملکاؤں کے رومان، چاند کا گناہ بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے ممبئ میں وفات پائی۔

  • سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    سبطین فضلی:‌ مشہور فلم ساز اور باکمال ہدایت کار

    ہندوستان کے بٹوارے سے قبل کولکتہ، ممبئی، لاہور اور دوسرے شہروں کے فلمی مراکز میں ’’فضلی برادران‘‘ بہت مشہور تھے یہ دو بھائی تھے جنھوں نے بحیثیت فلم ساز اپنی پہچان بنائی اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں جن میں پاکستان میں بنائی گئی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ ان بھائیوں میں سے ایک سبطین فضلی اسی سپرہٹ فلم کے ہدایت کار تھے۔

    تقسیم کے بعد سبطین فضلی بہت کم کام کرسکے مگر انھیں پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 25 جولائی 1985ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    جس زمانہ میں کلکتہ فلم سازی کا مرکز تھا اور انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں شخصیات اپنے فن و کمال کی بدولت نام کما رہی تھیں، سبطین فضلی نے بھی اپنے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ مل کر فلم سازی کا آغاز کیا۔ دونوں بھائی اپنے کام کی وجہ سے کلکتہ ہی میں‌ پہچان کا سفر شروع کرچکے تھے۔ بعد میں‌ فلم انڈسٹری بمبئی منتقل ہوگئی اور پھر تقسیمِ ہند کے نتیجے میں فن اور فن کار بھی سرحدوں‌ کے اِدھر اُدھر جیسے بٹ کر رہ گیا۔ البتہ اس دور میں سرحد کے دونوں اطراف آنا جانا آسان تھا اور بھارت یا پاکستان کے فن کار بھی مل کر فلموں میں کام کرتے تھے۔بٹوارے کے بعد سبطین فضلی لاہور میں سکونت پذیر ہوئے اور وہاں فلم سازی کا آغاز کیا۔ لیکن وہ صرف تین ہی فلمیں بنا سکے۔ ان کی یہ فلمیں نہایت کام یاب ثابت ہوئیں اور سبطین فضلی کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔

    اخبارات کے فلمی صفحات اور مختلف جرائد میں فن کاروں پر جو مضامین لکھے جاتے تھے، ان میں سبطین فضلی کا اور ان کی فلموں کا حوالہ دیا جاتا تھا۔ وہ باغ و بہار شخصیت کے مالک خوش اخلاق اور خوش لباس بھی مشہور تھے۔ فضلی برادران اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

    9 جولائی 1914ء کو سبطین فضلی بہرائچ (اتر پردیش) کے ایک گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا فلمی کیریئر برطانوی راج کے دوران شروع ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد بطور ہدایت کار ان کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ نے بے مثال کام یابی حاصل کی۔ اسے کلاسک کا درجہ ملا۔ اس فلم کے بعد سبطین فضلی نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو بزنس کے اعتبار سے ناکام رہیں اور فلم بینوں کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں، لیکن فلمی ناقدین انھیں شان دار تخلیق مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ فلمیں سبطین فضلی کی محنت اور لگن کا ثمر ہی نہیں تھیں بلکہ بطور فلم ساز ان کی فنی مہارت کا عمدہ نمونہ ہیں‌۔

    سبطین فضلی کی وفات پر اس دور کے فلمی مبصرین اور قلم کاروں نے کہا کہ ان کی فلم دوپٹہ ہی ان کا نام زندہ رکھنے کو کافی ہے۔ اس فلم میں سبطین فضلی نے گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نئے چہرے کو اجے کمار کے نام سے پردے پر متعارف کروایا تھا۔ فلم کے ایک اداکار سدھیر بھی تھے۔ یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس اردو نغماتی فلم کو اداکار سدھیر کی پہلی بڑی فلم بھی کہا جاتا ہے جو بعد میں فلم انڈسٹری کی ضرورت بن گئے تھے اور بطور ہیرو لازوال کام یابیاں سمیٹی تھیں۔ سبطین فضلی کی فلم دوپٹہ کو بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا۔

    لاہور میں انتقال کرنے والے سبطین فضلی میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد:‌ ایک موسیقار کی کتھا جو فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئے تھے

    خلیل احمد کا شمار پاکستان کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنھیں مقبول ترین ملّی نغمات کی دھنیں‌ ہمیشہ زندہ رکھیں گی تاہم بطور فلمی موسیقار بھی ان کا کام یادگار ہے۔ خلیل احمد کی موسیقی میں ’وطن کی مٹی گواہ رہنا‘ اور ’ہمارا پرچم یہ پیارا پرچم‘ جیسے ملّی گیت آج بھی نہایت مقبول ہیں۔

    موسیقار خلیل احمد 1934ء میں یوپی کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام خلیل احمد خاں یوسف زئی تھا۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد خلیل احمد 1952ء میں پاکستان آگئے۔ وہ شروع ہی سے گیت اور موسیقی کا شوق رکھتے تھے۔ اس وقت کے متحدہ پاکستان میں ان کا قیام ڈھاکہ میں تھا، لیکن پھر کراچی چلے آئے اور یہاں ایک ملازمت اختیار کر لی مگر جلد ہی اسے بھی ترک کردیا اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ انھیں مہدی ظہیر کی شاگردی میں موسیقی کا فن باقاعدہ سیکھنے کا موقع ملا اور پھر وہ لاہور چلے گئے۔ انھوں نے فلمی دنیا سے بحیثیت موسیقار وابستگی اختیار کی تو کبھی معیار پر سمجھوتا نہیں کیا اور اسی لیے جلد ان کو فلمی دنیا چھوڑنا پڑ گئی۔ 1962 ء میں خلیل احمد نے فلم ’’آنچل‘‘ کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم کے گیت ہٹ ہوئے اور خلیل احمد پاکستانی فلم انڈسٹری کے کام یاب موسیقاروں میں سے ایک بن گئے۔ انھوں نے فلم دامن، خاموش رہو، کنیز، مجاہد، میرے محبوب، ایک مسافر ایک حسینہ، آنچ، داستان کے گیتوں کی موسیقی ترتیب دی۔ ایک نغمہ ’’ جب رات ڈھلی تم یاد آئے‘‘ پر انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا جسے احمد رشدی اور مالا نے گایا تھا۔ 1976ء میں فلم ’’ آج اور کل‘‘ میں ان کا کمپوز کردہ گیت ’’پیار کا وعدہ ایسا نبھائیں…‘‘ بے حد مقبول ہوا جسے مہدی حسن اور مہناز نے گایا تھا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے کیریئر کے دوران خلیل احمد نے 40 سے زائد فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ لیکن یہ وہ دور تھا جب اکثر فلم سازوں نے کام یابی کے لیے چربہ فلمیں اور انڈین موسیقاروں کی دھنیں چرانے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور خلیل احمد سے بھی اسی پر اصرار کیا جانے لگا۔ خلیل احمد محنت اور کام کرنے پر یقین رکھنے والے فن کاروں میں سے تھے اور ایک خود دار انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ انھوں نے فلم سازوں کی مرضی کے مطابق کام کرنے سے انکار کردیا اور فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ یہی وجہ تھی کہ اس موسیقار کی زندگی کے آخری کئی برس تقریباً گمنامی میں گزرے۔

    اسّی کی دہائی میں خلیل احمد ریڈیو اور پی ٹی وی پر موسیقی کے پروگراموں کا بھی حصّہ رہے۔ انھوں نے بچوں کے ایک مقبول پروگرام ’’آنگن آنگن تارے‘‘ کی میزبانی کی جو پی ٹی وی سے نشر ہوا۔ اسی زمانہ میں انھوں نے ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد نغمات کی موسیقی ترتیب دی جو مقبول ثابت ہوئے۔

    موسیقار خلیل احمد 21 جولائی 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    گیتا دت: وہ گلوکارہ جن کی ذاتی زندگی شک اور حسد کی نذر ہوگئی

    فلمی دنیا میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے گیتا دَت کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، جن کی آواز میں کئی فلمی نغمات آپ نے بھی سنے ہوں گے۔ ان گانوں پر اپنے زمانے کی مقبول ترین فلمی جوڑیوں نے پرفارمنس دی۔ گیتا دَت 1972ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔ ان کی شادی نام ور بھارتی فلم ساز اور ہدایت کار گُرو دت سے ہوئی تھی۔

    گلوکارہ گیتا دت 23 نومبر1930ء کو فرید پور، اس وقت کے مغربی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا خاندانی نام گیتا گھوش رائے چودھری تھا۔ والد ایک بڑے اور خوش حال زمین دار تھے۔ اس خاندان نے 40 کی دہائی میں کلکتہ اور پھر ممبئی کا رخ کیا اور وہاں گیتا دت کو فلم ’’دو بھائی‘‘ میں کام ملا۔ اس کے بعد فلم ’بازی‘‘ کے گانے ان کی آواز میں‌ ریکارڈ ہوئے اور یہی وہ فلم تھی جس کے دوران ان کی ملاقات نوجوان ہدایت کار گرو دت سے ہوئی۔ ان کے مابین بات چیت آگے بڑھی اور رومان کا سلسلہ شادی پر منتج ہوا۔ 1957ء میں گرو دت نے انھیں اپنی فلم ’’ گوری‘‘ میں بطور اداکارہ بھی متعارف کروایا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ دراصل 1953 میں شادی کے بعد جب وہ دو بیٹوں کے والدین بنے تو گیتا دت یہ محسوس ہوا کہ وہ فلمی دنیا میں ناکام ہورہی ہیں کیوں اس وقت لتا منگیشکر اور آشا بھوسلے کو اہمیت دی جانے لگی تھی۔ ادھر گیتا کے شوہر فلم سازی میں بے انتہا مصروف ہوگئے تھے اور دوسری طرف ان کے اداکاراؤں سے افیئرز کی باتیں بھی گیتا کو سننے کو مل رہی تھیں۔ ان کے درمیان دوریاں بڑھنے لگی تھیں اور اسی دور میں گرو دت کو اداکارہ وحیدہ رحمان سے عشق ہو گیا۔

    گیتا کے لیے یہ ناقابل برداشت تھا۔ بطور گلوکارہ تیزی سے زوال نے پہلے ہی گیتا کو توڑ کر رکھ دیا تھا اور پھر شوہر کی بے اعتنائی نے بھی گیتا کو مایوس کیا۔ انھوں نے شراب نوشی شروع کردی۔ ایک روز گرو دت کی اچانک موت نے فلم انڈسٹری کو حیران کردیا۔ قیاس آرائیاں کی جانے لگیں کہ انھوں نے وحیدہ رحمان کے شادی سے انکار کرنے پر خود کشی کی ہے۔ شوہر کی ناگہانی موت کے بعد گیتا دت مالی مسائل کا بھی شکار ہو گئیں۔ کہتے ہیں کہ وہ شکی اور حاسد طبیعت کی مالک تھیں۔ اسی عادت کی بنا پر فلمی دنیا میں گرو دت کے تعلقات کو سر پر سوار کرلیا تھا۔ دوسری طرف ایک اور بات ہوئی اور مشہور ہے کہ گیتا توہمات میں گھر کر بدروح یا جادو ٹونے پر یقین کرنے لگی تھیں۔ شوہر سے کشیدہ تعلقات کے دوران ہی وہ اپنے پالی ہل کے بنگلے میں شفٹ ہوئے تھے، جہاں مزید لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے نجانے کس کے کہنے پر گیتا نے بنگلے کو اپنے لیے منحوس سمجھنا شروع کردیا۔ لیکن وہ کچھ نہیں کرسکیں اور پھر گرو دت کی موت واقع ہوگئی۔

    گرو دت کی موت کے بعد گیتا دت نے دوبارہ گلوکاری کے میدان میں قدم جمانے کی کوشش کی۔ اسٹیج شوز میں بھی کام کیا۔ پھر 1967ء میں ایک بنگالی فلم میں مرکزی کردار نبھایا۔ انھوں نے 1971ء میں فلم ’’انوبھؤ‘‘ کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ گیتا دت نے ہندی ہی نہیں‌ بنگالی گیت بھی گائے۔ لیکن زندگی کا وہ پیار اور سکھ ان کو نصیب نہیں ہوا جس کا لطف انھوں نے اپنے فلمی کیریئر اور گرو دت سے شادی کے ابتدائی زمانہ میں لیا تھا۔

    سب مانتے ہیں کہ ان کی آواز بلاشبہ بہت دل کش تھی۔ کئی بڑے موسیقاروں اور گلوکاروں نے گیتا دت کی فنی عظمت کا اعتراف کیا ہے۔ بابو جی دھیرے چلنا….وہ گیت ہے جو آج بھی سدا بہار گیتوں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔ اسی طرح‌ فلم دو بھائی کا گیت، میرا سندر سپنا ٹوٹ گیا، دیو داس کا گانا آن ملو آن ملو، صاحب بی بی اور غلام کا گانا نہ جاؤ سیاں چھڑا کے بیاں اور دیگر گانے بھی گیتا دت کی یاد دلاتے ہیں۔

  • ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    ابنِ مقلہ کا تذکرہ جن کا شمار اسلامی دنیا کے تین بڑے خطّاطوں میں ہوتا ہے

    عالمِ اسلام میں‌ خوش نویسی بالخصوص قرآنی آیات کی خطّاطی کو ہر دور میں اہمیت دی گئی ہے۔ فنِ خطّاطی کو باعثِ برکت و اعزاز بھی سمجھا جاتا ہے اور خوش نویس اس سے روحانی مسرّت حاصل کرتے ہیں۔ عباسی دورِ خلافت میں اس فن میں ابنِ مقلہ نے بڑا کمال حاصل کیا اور نام ور ہوئے۔ ابنِ مقلہ نے اس فن کو قواعد و ضوابط دینے کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر بھی متعارف کروائے۔

    ابنِ مقلہ کے زمانہ میں بغداد کو اسلامی دنیا کے بڑے علمی و ثقافتی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ ابنِ مقلہ بغداد کے تین مشہور خطّاطوں میں سے ایک تھے جو 20 جولائی 940ء کو وفات پاگئے تھے۔ محققین نے استاد خطّاط ابنِ مقلہ کا سنہ پیدائش 886ء لکھا ہے۔ ان کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب کے ساتھ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت رکھتے تھے۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر بھی رہے۔ مؤرخین کے مطابق ان کا وہ اس عہد میں سیاسی امور میں‌ بھی عمل دخل رکھتے تھے۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ غیرمعروف اور ایک غریب شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ میں تین مرتبہ وزیر بنائے گئے۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر وہ ایک سازش کا شکار ہوئے اور انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔ یوں ظاہر ہے کہ ہر قسم کا مرتبہ اور عہدہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا، لیکن وقت گزرا تو حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ ان کی رسائی دربار تک ہوئی اور انھوں نے اپنا مقام و مرتبہ حاصل کرلیا۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں بڑا عروج حاصل ہوا۔ لیکن اس مرتبہ پھر وہ محلّاتی سازشوں کی وجہ سے درباری مراتب سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس بار قید و اذیت بھی جھیلنا پڑی۔ مؤرخین کا خیال ہے کہ ابنِ مقلہ کا انتقال دورانِ‌ قید ہی ہوگیا تھا۔

    ان سرکاری عہدوں اور اثر رسوخ کے علاوہ وہ بغداد میں فن خطّاطی کے ایک ماہر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے اور ہر خاص و عام میں‌ ان کی بہت عزّت تھی۔ ابنِ مقلہ کو مؤرخین نے عباسی دور کی ایک قابل اور معاملہ فہم شخصیت بھی لکھا ہے اور انہی خصوصیات کی وجہ سے انھیں دربار میں اہمیت دی جاتی تھی۔

    اکبر نامہ کے مصنّف اور مشہور مؤرخ ابوالفضل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

  • فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ:‌ وہ مصنّف جن کی پہلی کتاب ہی شاہکار ثابت ہوئی

    فرینک میکورٹ ایسے خوش نصیب قلم کار ہیں‌ جن کی پہلی تخلیقی کاوش ہی شاہکار قرار پائی۔ وہ صرف ’بیسٹ سیلر‘ نہیں ثابت ہوئی بلکہ اس پر فرینک میکورٹ کو پلٹزر انعام بھی دیا گیا۔

    ایک مصنّف کی حیثیت سے فرینک میکورٹ کا نام دنیا بھر میں ان کی کتاب ‘انجلاز ایشز’ (Angela’s Ashes) کی وجہ سے آج بھی لیا جاتا ہے جو دراصل ان کے بچپن کے واقعات اور یادوں پر مبنی ہے۔ میکورٹ کی یہ تصنیف امریکہ میں اشاعت کے بعد قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا مرکز بن گئی اور پھر اسے آئرلینڈ سے شایع کیا گیا اور وہاں بھی ان کی کتاب ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئی۔ اس زبردست پذیرائی نے نہ صرف میکورٹ کو شادمانی اور مسرت سے ہمکنار کیا بلکہ ان کی شہرت عالمی ادب میں ہونے لگی۔

    امریکی ریاست نیویارک کے شہر بروکلین میں فرینک میکورٹ نے 19 اگست 1930ء کو آنکھ کھولی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ شدید اقتصادی بحران سے دوچار تھا اور وہاں عوام کی زندگی شدید مشکلات سے دوچار تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میکورٹ کا خاندان آئرلینڈ منتقل ہوگیا۔ وہیں فرینک میکورٹ نے اپنی کتاب لکھی جس میں امریکہ کے اقتصادی بحران اور اپنی ہجرت کے واقعات کو دردمندی سے بیان کرتے ہوئے انھوں‌ نے ایک نئی سرزمین پر اپنی زندگی کا سفر شروع کرنے کے دنوں کو نہایت خوب صورتی سے رقم کیا ہے۔ فرینک میکورٹ 19 جولائی 2009ء کو چل بسے تھے۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    امریکہ چھوڑنے کے بعد فرینک کا خاندان آئرلینڈ کی ایک بستی لائمرک میں سکونت پذیر ہوا جہاں ان کے والدین کو غربت اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا پڑا۔ اپنے والدین کی زندگی اور جسم و روح کا تعلق برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے دیکھنے والے فرینک کو وہ دن خوب یاد رہے۔ انجلاز ایشز میں انہی دنوں کو اپنے ذہن کے پردے پر تازہ کرکے انھوں‌ نے ایک ایسی کہانی لکھی جو متاثر کن تھی۔ فرینک میکورٹ کو ان کی اس کاوش کی بدولت ایک قابل اور باصلاحیت رائٹر کے طور پر پہچان ملی اور پلٹزر پرائز کے ساتھ انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ فرینک میکورٹ نے ان دنوں کو ’غربت کا عہد‘ لکھا ہے۔ بعد میں‌ وہ نیویارک لوٹ آئے جہاں وہ 30 سال تک ایک اسکول میں بطور مدرس خدمات انجام دیتے رہے۔ اس وقت کوئی انھیں نہیں‌ جانتا تھا اور وہ ایک عام اسکول ٹیچر کے طور پر اپنے شب و روز بسر کررہے تھے۔ بعد میں ان کی کتاب شایع ہوئی اور لوگوں‌ نے ان کا ایک الگ روپ دیکھا۔

    آئرلینڈ میں میکورٹ کی اس کتاب کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ انھیں 1996ء میں پلٹزر پرائز دیا گیا۔ فرینک میکورٹ کے اس سوانحی ناول پر 1999ء میں ہالی وڈ نے فلم بھی بنائی تھی۔ اس تصنیف کو بعد میں آئرلینڈ کی سماجی تاریخ کا عکس بھی کہا گیا۔ اس مصنّف نے بعد میں ’ٹس اور ٹیچر مین‘ کے نام سے نیویارک میں اپنی زندگی کو بھی کتابی شکل میں‌ محفوظ کیا۔

    ادب کی دنیا کے اس خوش قسمت اور کام یاب رائٹر نے 78 سال کی عمر پائی۔

  • راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    راجیش کھنہ: بولی وڈ سپراسٹار جنھوں نے دلوں پر راج کیا

    ایک زمانہ تھا جب بولی وڈ پر راجیش کھنہ کا راج تھا۔ فلم بینوں اور مداحوں نے ان کے لیے جس دیوانگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم فن کاروں کا مقدر بنا ہے۔ عالم یہ تھا کہ مداح لڑکیاں‌ ان کی کار پر بوسے دیتیں، چہرے اور بازو پر آٹو گراف دینے کی فرمائش کی جاتی اور راجیش کھنہ کی ایک جھلک دیکھنے کو گھنٹوں ان کے مداح سڑک پر کھڑے رہتے۔ اس اداکار کو بولی وڈ کا پہلا سپر اسٹار کہا جاتا ہے 1960 سے 70 کے عشرے میں راجیش کھنہ نے جس فلم میں بھی کام کیا وہ باکس آفس پر ہٹ ہوگئی اور فلم ساز ان سے وقت لینے کے لیے گھر کے باہر کھڑے نظر آتے۔

    راجیش کھنہ سے پہلے بھی کئی نام مقبولیت کی بلندیوں‌ کو چھو رہے تھے جن میں دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کپور جیسے اداکار شامل تھے۔ لیکن مداحوں نے راجیش کھنہ کے لیے جس جنون اور وارفتگی کا مظاہرہ کیا وہ بہت کم دکھائی دیتا ہے۔

    اداکار راجیش کھنہ 29 دسمبر 1942ء کو غیر منقسم پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی پہلی فلم ’آخری خط‘ تھی۔ راجیش کھنہ کو شہرت جس فلم سے ملی وہ ارادھنا تھی۔ اس سے پہلے راجیش کھنہ 1966ء میں چیتن آنند کی فلم آخری خط میں‌ کام کرچکے تھے مگر ارادھنا نے انھیں شہرت کی جن بلندیوں پر پہنچایا وہ خود ان کے لیے ناقابل فراموش ثابت ہوا۔ فلم نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ فلم میں ان کا ڈبل رول تھا اور راجیش کھنہ کی نشیلی آنکھیں‌ اور سر کو جھٹکنے کا انداز شائقین کو بہت بھایا۔ اس کے بعد انھوں نے متواتر کئی ہٹ فلمیں انڈسٹری کو دیں۔

    راجیش کھنہ کی مشہور اور ہم فلموں میں ’دو راستے‘، ’خاموشی‘، ’آنند‘ اور ’سفر‘ شامل ہیں‌ جب کہ ’آپ کی قسم‘، ’دو راستے‘، ’دشمن، ’روٹی‘ اور ’سچا جھوٹا‘ سپر ہٹ فلمیں ثابت ہوئیں۔ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ کی مقبولیت کا یہ سلسلہ طویل نہیں تھا بلکہ جس تیزی سے انھوں نے شہرت کے ہفت افلاک طے کیے، اسی طرح ایک ٹھہراؤ بلکہ زوال کا آغاز بھی ہوا۔ راجیش کھنہ نے اپنے بنگلے کا نام آشیرواد رکھا تھا جس میں وہ فلم بابی کی ہیروئن ڈمپل کپاڈیہ کو بیاہ کر لائے تھے۔ وہ فلمی دنیا میں اور اپنے مداحوں کے درمیان بھی ’کاکا‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ان کی بیٹی ٹوئنکل کھنہ اور رنکی کھنہ ہیں۔ اداکار کئی عوارض کی وجہ سے جسمانی پیچیدگیوں کا سامنا کررہے تھے جس کے بعد ان کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور 18 جولائی 2012ء کو راجیش کھنہ انتقال کرگئے۔ غصہ کرنا اور شراب نوشی راجیش کھنہ کی وہ خراب عادات تھیں جس نے ان کی خانگی زندگی کو بھی نقصان پہنچایا اور ٹوئنکل کھنہ بہت جلد ان سے دور ہوگئیں۔ وہ وقت بھی آیا کہ انھوں نے اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہ گھر چھوڑ دیا جس میں وہ سپر اسٹار کی شریکِ سفر بن کر آئی تھیں۔

    راجیش کھنہ پر فلمائے گئے مقبول ترین گیتوں میں ’میرے سپنوں کی رانی‘، ’کورا کاغذ تھا یہ من میرا‘ اور ’روپ تیرا مستانہ‘، ’یہ جو محبت ہے‘، ’یہ شام مستانی‘ اور ’ہمیں تم سے پیار کتنا‘ شامل ہیں۔

    اداکار کی آخری کام یاب فلم نوّے کی دہائی میں ’سوّرگ‘ تھی۔ بعد میں انھوں نے ’آ اَب لوٹ چلیں‘، ‘کیا دل نے کہا‘ اور ’وفا‘ نامی فلموں میں بھی کام کیا مگر اب اُن کا دور ختم ہو چکا تھا۔ دلوں میں بسنے اور باہر کی دنیا میں ہر وقت سیکڑوں نگاہوں میں‌ رہنے والا یہ اداکار عمر کے آخری دنوں میں‌ تنہائی کا شکار رہا۔