Tag: جولائی برسی

  • ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    ملکہ زبیدہ کا تذکرہ جنھوں‌ نے فلاحی کاموں پر بے دریغ اپنی دولت خرچ کی

    اسلامی خلافتِ عباسیہ میں جہاں‌ ہارون الرشید کا نام علم و فنون کے دلدادہ حکم راں کے طور پر مشہور ہے، وہیں‌ ان کی نہایت مال دار اور باثروت شریکِ حیات زبیدہ بنتِ جعفر کو بھی اسلامی دنیا میں بہت عزّت اور احترام حاصل ہے۔ اس کی وجہ زبیدہ کے وہ فلاحی کام ہیں جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں‌ کی ترقی و خوش حالی سے تھا۔ ان میں نہرِ زبیدہ بھی شامل ہے جس نے مکّہ اور قرب و جوار میں حاجیوں‌ کو پانی کی قلت سے نجات دی۔

    زبیدہ کا اصل نام تو امۃ العزیز تھا مگر کہتے ہیں کہ انھیں ان کے دادا ’زبیدہ‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ یہی نام ان کی پہچان بنا۔ زبیدہ 762 عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئی تھیں اور 10 جولائی 831ء کو بغداد میں وفات پائی۔ انھیں مقبرہ خیزران میں سپرد خاک کیا گیا۔ آج ملکہ زبیدہ کی برسی ہے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ ایک خوش شکل، نرم مزاج اور رحم دل عورت تھیں۔ ان کے والد ایک مال دار شخص تھے جن کے کاروبار اور جائیداد بعد میں زبیدہ کو منتقل ہوئیں۔ ان کی شادی اپنے چچا زاد ہارون الرشید سے ہوئی اور وہ پانچویں عباسی خلیفہ بنے۔ زبیدہ نے اپنی جائیدادوں سے آمدن اور متعدد کاروباری منصوبوں کا سلسلہ شادی کے بعد بھی جاری رکھا۔ اس کے لیے انھوں نے تجربہ کار معاون رکھے۔ مصنّف ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’ہارون الرشید کی سب سے مشہور ملکہ، زبیدہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں جو تقریباً تیس سال تک دربار میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کام یاب رہیں۔‘

    السیوطی نے ’تاریخِ خلفا‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کو والد کی طرف سے قیمتی جائیدادیں، پیسہ، زمین اور ملازمائیں ملی تھیں۔

    زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور محتاجوں کی امداد کے لیے مشہور تھیں۔ انھوں نے خاص طور پر لوگوں کو خوراک اور رہائش فراہم کرنے کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اس کے علاوہ سلطنت میں کئی تعمیراتی منصوبوں اور فلاحی اداروں کے لیے اپنی دولت خرچ کی۔ اسی طرح وہ علم و فنون کی سرپرستی میں بھی پیش پیش رہیں۔ انھوں نے بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیرے کے لیے مشہور ’زبیدیہ لائبریری‘ کی تعمیر کے لیے مالی مدد کی۔ تاریخ داں کہتے ہیں کہ زبیدہ کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔

    فلاحی کاموں کی بات کی جائے تو زبیدہ نے عراق سے مکّہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنوائی، جسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ حاجیوں اور مسافروں کے لیے کئی سرائیں تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائے اور مساجد تعمیر کروائیں۔ ابنِ بطوطہ نے بھی ملکہ زبیدہ کے ان کاموں کا حوالہ دیا ہے جو لوگوں‌ کی زندگی آسان بنانے کے لیے کیے گئے۔ تبریز نامی شہر کی دوبارہ آباد کاری کے علاوہ مصر کے تاریخی شہر اسکندریہ کی ازسر نو تعمیر کے ساتھ کئی پل، نہریں وغیرہ انھوں نے خطیر رقم خرچ کرکے بنوائیں۔ وہ کئی یتیم خانوں اور اسپتالوں کی مالی سرپرستی کرتی رہیں۔

    مشہور ہے کہ ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں تو اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی قلت سے رنجیدہ ہوئیں اور ان کے حکم پر اس وقت کے ماہرین نے سخت مشکلات کے باوجود ایک نہر کھودی اور کہتے ہیں کہ اس موقع پر جب انجینئروں نے دشواریوں اور رکاوٹوں کا اظہار ان کے سامنے کیا تو ملکہ نے کہا کہ ہر قیمت پر نہر کھودی جائے گی۔ اس کام کے لیے جتنا بھی خرچ آئے پروا نہ کرو، حتّی کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو ادا کی جائے۔

  • عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    عمر شریف: ہالی وڈ میں‌ ’لارنس آف عریبیہ‘ کی دریافت

    ہالی وڈ کی فلموں میں اپنی بے مثال اداکاری سے عالمی شہرت پانے والے عمر شریف کی موت پر کہا گیا کہ دریائے نیل کا ایک گوہرِ نایاب پانی میں اتر گیا۔ اپنی فن کارانہ صلاحیتوں‌ سے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھر دینے والے عمر شریف نے مصری فلم انڈسٹری سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ 10 جولائی 2015ء کو اداکار عمر شریف دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    مصر کے مشہور شہر اسکندریہ میں 10 اپریل 1932ء کو عمر شریف نے ایک عیسائی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والدین کا تعلق شام اور لبنان سے تھا جو اسکندریہ میں آن بسے تھے۔ عمر شریف کی پرورش ایک کیتھولک مسیحی کے طور پر کی گئی۔ وہ اسکندریہ کے وکٹوریہ کالج سے فارغُ التحصیل ہوئے۔ بعدازاں قاہرہ یونیورسٹی سے ریاضی اور طبیعیات کی ڈگری حاصل لی۔ اسی زمانے میں عمر شریف کو اداکاری کا شوق ہوگیا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے مصر کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا۔ ’صراع فی الوادی‘ بطور اداکار ان کی پہلی فلم تھی۔ اسی فلم میں عمر شریف کے مدِ مقابل ہیروئن کا کردار فاتن حمامہ نے ادا کیا تھا۔ اس اداکارہ سے فلمی پردے کے توسط سے بننے والا تعلق محبّت میں تبدیل ہو گیا اور ان دونوں نے شادی کر لی۔ فاتن حمامہ سے شادی کے ساتھ ہی عمر شریف نے اسلام قبول کر لیا اور اپنا خاندانی نام تبدیل کرلیا۔

    وہ دراز قد، وجیہ اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے اپنے کام کی بدولت ہالی وڈ میں بھی نام و مقام بنایا۔ اس کا سلسلہ 1960 کی دہائی میں اس وقت شروع ہوا جب عمر شریف کو مشہورِ زمانہ فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ کا شریف علی نامی کردار آفر ہوا۔ بعد میں وہ متعدد فلموں‌ میں نظر آئے اور ہالی وڈ میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ ہالی وڈ میں پہلی فلم پر انھیں دو گولڈن گلوب ایوارڈ سے نوازا گیا تھا جب کہ شریف علی نامی مشہور کردار کے لیے ان کا نام آسکر ایوارڈ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اس کام یابی کے بعد عمر شریف کو ڈیوڈ لین کی ہدایات کاری میں بننے والی ایک اور فلم ’ڈاکٹر ژواگو‘ میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع دیا گیا۔ اس روپ میں بھی عمر شریف نے شان دار پرفارمنس دی اور گولڈن گلوب ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    عمر شریف کی مادری زبان عربی تھی، لیکن وہ انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اطالوی اور ہسپانوی زبانیں بھی روانی کے ساتھ بولتے تھے۔ اپنے کیریئر کے دوران انھوں نے کئی فیچر فلموں میں کام کیا اور ٹیلی وژن پر بھی اداکاری کی۔ 2003ء میں طویل وقفے کے بعد وہ موسیو ابراہیم‘ نامی فلم میں نظر آئے۔ فلم میں عمر شریف نے ایک مسلمان دکان دار کا کردار ادا کیا تھا، اور اس مرتبہ وہ وینس کے فلمی میلے کا ایوارڈ اپنے نام کرگئے۔ عمر شریف نے 2013ء میں آخری مرتبہ ایک فیچر فلم میں کام کیا تھا۔ وہ 83 برس تک زندہ رہے اور قاہرہ میں وفات کے بعد وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ قاسمی صاحب نے کئی قابل اور باصلاحیت اہلِ قلم کو ادبی دنیا میں‌ متعارف کروایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اردو دنیا میں قاسمی صاحب کو بطور ادیب، شاعر اور نقّاد بے حد پذیرائی ملی۔ انھیں عہد ساز شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ انھوں نے مقدمات کا سامنا بھی کیا اور دو مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ قاسمی صاحب 10 جولائی 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو ادب کے لیے ان کی خدمات نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہیں۔ آج بھی ان کی کہانیاں‌، افسانے اور شاعری ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب کو سرکاری سطح پر اور کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم اور والد کے انتقال کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ دیہاتی ماحول میں‌ پروان چڑھنے والے قاسمی صاحب کا اصل نام احمد شاہ تھا جو فطرت سے بے حد قریب رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں‌ اور فکشن میں‌ دیہات کی منظر کشی اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ قاسمی صاحب کا گہرا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے چچا کی سرپرستی میں نوعمری کے دن گزار رہے تھے کہ ان کا تبادلہ شیخو پورہ ہوگیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    1931ء میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر کے لندن میں انتقال کرجانے پر احمد ندیم قاسمی نے ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے پورے صفحے پر شائع کر دی۔ اس نظم کے طفیل قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا اور ان کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ قاسمی صاحب کو دیہات کی زندگی اور مسائل نے بہت کچھ سکھایا تھا۔ شاعری کے ساتھ رسائل اور ادبی جرائد کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے افسانے اور مضامین بھی خوب پڑھے اور پھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور مصنّف کی تعریف کی۔ بعد میں منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی۔ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں قاسمی صاحب کو مدعو کیا جاتا رہا جہاں‌ ان کے مداح انھیں سنتے اور سراہتے۔ وہ اردو کے ایک سفیر کی حیثیت سے ملکوں ملکوں‌ گھومے پھرے اور خوب لکھا۔ قاسمی صاحب نے سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوئے لیکن اسے بھی ترک کردیا۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے جہاں‌ اردو ادب کے کئی بڑے نام موجود تھے جو فلم یا اخبار و ادبی جرائد سے وابستہ تھے۔ قاسمی صاحب نے یہاں ایک ادبی جریدہ فنون کی بنیاد رکھی جو ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    فنون کی ادارت سنبھال کر قاسمی صاحب نے معیاری ادب کو فروغ دیا اور نئے لکھنے والوں کو سراہتے ہوئے ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔ ان کی پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابیں شایع ہوئیں۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ قاسمی صاحب نے تنقیدی مضامین اور تراجم بھی کیے۔ ان کی تصانیف میں افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا کےعلاوہ تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابیں‌ شامل ہیں۔ میرے ہم قدم ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ تھا۔ اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کے فکاہیہ کالم اور مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ قاسمی صاحب کے افسانوں اور کہانیوں کو ڈرامے کی شکل میں بھی پیش کیا گیا اور فلم کے لیے بھی کہانی اخذ کی گئی۔ 1947ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے قومی و ملّی نغمات کے علاوہ فیچر اور ڈرامے تحریر کیے جب کہ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کو انہی کا تحریر کردہ اوّلین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا۔

  • ساون: پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقبول ترین ولن

    ساون: پاکستانی فلم انڈسٹری کا مقبول ترین ولن

    فلمی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جن کی شہرت کو زوال آیا تو نہ صرف دوست احباب بلکہ مال و دولت بھی ان کے ہاتھ سے جاتی رہی اور وہ کسمپرسی کے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ یہ فن کار جن کی زندگی کبھی دوسروں کے لیے قابلِ رشک ہوتی تھی، عبرت کی مثال بن گئے۔ اداکار ساون بھی انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک ایکسٹرا کی حیثیت سے فلمی پردے پر نظر آئے تھے اور پھر انھیں پاکستانی فلموں کا چوٹی ولن تسلیم کیا گیا۔ وہ بطور معاون اداکار صفِ اوّل میں نظر آئے لیکن پھر ان کی زندگی کو گویا بدقسمتی کی دھوپ لگ گئی۔

    دراز قد اور تنو مند ساون گرج دار آواز کے مالک تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے اکثر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ حالات نے پلٹا کھایا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے فلمی کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ 60 اور 70 کے عشرے میں ساون کو بہترین فلمی اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں دیکھا گیا۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ ساون کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔

    ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں‌ ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں‌ کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بددماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں‌ سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں‌ کئی کام یاب فلمیں‌ دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں‌ اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • مسعود اشعر: ایک منفرد ادیب اور صحافی

    مسعود اشعر: ایک منفرد ادیب اور صحافی

    ستّر کی دہائی میں مسعود اشعر کی کہانیوں نے ادبی دنیا کو متوجہ کیا تھا۔ ان میں انسانی رشتوں کی الجھنیں، سماج اور لوگوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو مؤثر انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ ادبی حلقوں میں پہچان بنانے کے ساتھ مسعود اشعر جلد ہی قارئین میں بھی مقبول ہوگئے۔

    افسانہ نگار، مترجم اور صحافی مسعود اشعر 5 جولائی 2021ء کو انتقال کرگئے تھے۔ تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے مسعود اشعر لاہور میں‌ مقیم تھے۔

    تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو یہ وہ وقت تھا جب مسعود اشعر نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انھیں رام پور چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ملتان چلے آئے اور پھر لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔ وہ 1930ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ پاکستان میں علمی صحافت کا آغاز کرنے کے بعد مسعود اشعر تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لینے لگے۔ لاہور اور ملتان میں وہ روزنامہ احسان، زمیندار، آثار اور امروز سے منسلک رہے۔ کالم نگاری بھی مسعود اشعر کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ شمیم حنفی نے مسعود اشعر کے بارے میں لکھا ہے، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش و خروش نہیں۔ مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر نے صحافت کی دنیا میں ہمیشہ حق گوئی اور جرأت سے کام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور مسعود اشعر امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس سانحے کی خبر نہ بنائی جائے۔ مسعود اشعر اس کے لیے تیّار نہ ہوئے۔ اخبار میں خبر چھپی تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بے روزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادیٔ صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

    مسعود اشعر کے افسانے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ شایع ہونے کے بعد جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں‌ ان میں متنوع موضوعات شامل ہیں۔ ان کی ایک تصنیف ’’سارے افسانے‘‘ اور دوسری ’’اپنا گھر‘‘ کے عنوان سے اور چند برس قبل ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

  • آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    آرتھر کونن ڈوئل کا تذکرہ جنھیں شرلاک ہومز نے جاودانی عطا کی

    شرلاک ہومز کی کہانیاں کل کی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا تھا۔ کئی دہائیوں تک جاسوسی ناولوں تک محدود رہنے والے شرلاک ہومز کو بعد میں فلمی پردے پر متحرک بھی دیکھا گیا۔ ذہین اور سراغ رساں شرلاک ہومز کے خالق برطانوی مصنّف آرتھر کونن ڈوئل (arthur conan doyle) تھے جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور جاسوسی میں ماہر تھا۔ کونن ڈوئل کے اس خیالی کردار نے ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور دنیا بھر میں‌ مقبول ہوا۔ کہانی پڑھنے والے اسکیچز میں شرلاک ہومز کو محدب عدسہ تھامے، پائپ کا کش لگاتے اور سوچ میں ڈوبا ہوا دیکھتے اور بیتابی سے صفحات الٹتے تاکہ مجرم اور اس کے جرم کی وجہ جان سکیں۔

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔ جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔ مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    برطانوی حکومت نے آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو سَر کا خطاب دیا تھا۔ وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے۔ انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو اس سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    1885ء میں ڈوئل نے طبّ کے مضمون میں سند حاصل کرنے کے بعد پریکٹس شروع کی تھی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ بھر میں ان کو بہت سراہا گیا اور پھر انھوں نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس کے بعد ان کی شہرت سرحد پار دور دور تک پھیل گئی۔ ان کے اس خیالی کردار نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    سر آرتھر ڈوئل ایسے برطانوی مصنّف ہیں جنھیں ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔ انھیں یہ اعزاز شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا جو سبھی میں یکساں‌ مقبول تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کرتے ہیں‌ جہاں اس مصنّف کے فن اور تخلیقات پر اظہار خیال کیا جاتا ہے اور اسے نئے انداز سے سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین:‌ ’’اداس نسلیں‘‘ لکھنے والے کی کہانی

    عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پاکستان میں جہاں ادب کے قارئین میں مقبول ہوا، وہیں اس نے فکشن کے ناقدین کی توجہ بھی حاصل کی اور عبداللہ حسین کی شہرت اور پہچان کا سفر شروع ہوا۔

    اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق عبداللہ حسین 2015ء میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر تھے۔ عبداللہ حسین اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے جن کا نام محمد خان رکھا گیا۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور گریجویشن کے بعد نوکری کرنے لگے۔ عبداللہ حسین نے اپنی زندگی کے کئی سال انگلینڈ میں بھی گزارے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز مختلف جرائد میں کہانیاں لکھنے سے ہوا اور پھر قلمی نام عبداللہ حسین سے اپنی شہرت کا وہ سفر شروع کیا جس میں ان کے متعدد ناول، ناولٹ اور افسانے قارئین تک پہنچتے رہے۔ 1963ء میں ان کا مشہور ناول ’’اداس نسلیں‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد افسانوی مجموعہ اور ناول ’’باگھ‘‘ و دیگر کہانیاں کتابی شکل میں سامنے آتی رہیں۔ عبداللہ حسین کو ان کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔

    ناول نگار عبداللہ حسین کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے ان کے تعلق کی کہانی بھی ایک دل چسپ قصّہ ہے۔ یہ قصہ انہی کی زبانی سنتے ہیں:

    مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔

    یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔

    لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔

    میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔ یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔

    اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔ لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔

    اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔

  • ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    ارنسٹ ہیمنگوے: نوبیل انعام یافتہ ناول نگار

    نوبیل انعام یافتہ امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے نے ہی نہیں بلکہ اس کے والد اور دادا نے بھی خود کُشی کی تھی۔ اگرچہ یہ خوش حال اور علم و ادب کا شیدائی گھرانا تھا اور ان لوگوں کا یوں موت کو گلے لگانا تعجب خیز ہی ہے جب کہ وہ عام لوگوں کے مقابلے میں بہتر طریقے سے زندگی گزار رہے تھے۔

    ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے والد کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنے بیٹے کی آمد پر اس نے بگل بجا کر مسرت کا اظہار کیا۔ مشہور ہے کہ ہیمنگوے نے باپ نے اپنے گھر کی چھت پر چڑھ کر لوگوں کو متوجہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایک بیٹے کا باپ بن گیا ہے۔ یہی ہیمنگوے آگے چل کر نہ صرف ایک مقبول ناول نگار اور معروف صحافی بنا بلکہ متعدد معتبر ادبی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2 جولائی 1961ء کو ارنسٹ ہیمنگوے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکا کے ایک تعلیم یافتہ اور فنونِ لطیفہ کے شیدا گھرانے میں‌ پیدا ہوا۔ اس کے والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ اس ناول نگار کی ماں کا نام گریس تھا جو اپنے قصبے اور شہر بھر میں بطور گلوکارہ اور موسیقار مشہور تھیں۔ ان کا خاندان شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔ ہیمنگوے کے والد سیر و سیّاحت اور مہم جوئی کا شوق رکھتے تھے اور جب موقع ملتا اپنے بیٹے کے ساتھ پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جاتے۔ وہ اکثر شکار کیا کرتے تھے اور اس دوران ہیمنگوے نے اپنے والد سے جنگل میں‌ کیمپ لگانے کے علاوہ دریا سے مچھلی پکڑنے اور زمین پر چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا سیکھا۔ یوں ہیمنگوے نے فطرت کی گود میں ہمکتی مختلف نوع کی مخلوقات اور جنگلی حیات کو قریب سے دیکھا۔ اسی زمانے کے تجربات اور مشاہدات کو بعد میں اس نے اپنی کہانیوں میں بھی جگہ دی جو بہت مقبول ہوئیں۔ ہیمنگوے نے ناول اور شارٹ اسٹوریز لکھیں جن کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم بھی ہوئے۔

    اس کی تعلیم و تربیت کا دور بھی بہت خوش گوار رہا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا۔ اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا وہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اس کے کام آیا۔ وہ اس طرح کہ ہیمنگوے کو ایک اخبار میں بطور رپورٹر نوکری مل گئی تھی۔ یہیں‌ اس نے معیاری اور عمدہ تحریر کو سمجھنے کے ساتھ لکھنے کا آغاز بھی کیا۔ وہ ایک ایسا صحافی تھا جو فطرت اور مہم جوئی کا دلدادہ تھا اور وہ اپنی رپورٹوں اور مضامین کو دل چسپ بنانا جانتا تھا۔ ہیمنگوے کے مضامین پسند کیے گئے اور اس نے مختلف اخبارات کے لیے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا۔ 1921ء میں اس کی شادی ہوگئی اور ہیمنگوے پیرس منتقل ہوگیا۔ اس وقت تک وہ اپنے قلم کی بدولت امریکی قارئین میں مقبول ہوچکا تھا۔ پیرس میں اسے اپنے دور کے بڑے بڑے ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائی کا موقع ملا۔ اسی صحبت نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔ وہ شہرۂ آفاق ادیب ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس اور دیگر کے قریبی احباب میں شامل ہوگیا اور ان کی حوصلہ افزائی نے ہیمنگوے کی کہانیوں کا سلسلہ گویا دراز کردیا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگا اور بہت کم عرصہ میں پیرس میں بھی اپنے زورِ قلم سے مقبولیت حاصل کرلی۔

    1926ء میں ہیمنگوے کا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر آیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ بعد میں‌ اس نے ناول ڈیتھ ان آفٹر نون شایع کروایا اور قارئین نے اسے بھی بہت سراہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے انگریزی ادب کو وہ شاہ کار کہانیاں دیں جن پر اسے فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ادب کا نوبیل انعام بھی ملا۔ اس کے ناولوں کے اردو تراجم بھی ہندوستان بھر میں مقبول ہوئے۔ فیئر ویل ٹو آرمز کے علاوہ اردو میں سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ کے نام سے یہ ناول قارئین تک پہنچے ہیں۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ اس نے رومانس کیا اور ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی۔ اسی طرح شادیاں بھی متعدد کیں۔ ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ وہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی شریک ہوا۔ ہیمنگوے بل فائٹنگ دیکھنے کا شوقین تھا اور اس کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    ارنسٹ ہیمنگوے کی چند عجیب و غریب عادات بھی مشہور ہیں‌۔ کہتے ہیں اکثر وہ عام روش سے ہٹ کر کچھ لکھنے کی خواہش رکھتا یا اپنی تحریر سے متعلق بہت پُرجوش ہوجاتا تو کھڑے ہو کر لکھنے لگتا۔ اکثر وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتا تھا کہ وہ اس کے سینے تک پہنچتا تھا۔ ممکن ہے کہ وہ اس طرح لکھتے ہوئے خود کو یکسو پاتا ہو۔

    ہیمنگوے نے اپنی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔

  • یادِ رفتگاں:‌ نجم الغنی خاں نجمی

    یادِ رفتگاں:‌ نجم الغنی خاں نجمی

    آج محمد نجمُ الغنی خاں کا نام اب صرف ادبی تذکروں‌ میں ہی پڑھنے کو ملتا ہے۔ نئی نسل کے لیے وہ ایک نامانوس شخصیت بھی ہیں‌ اور شاید ہی کسی نے ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو، لیکن یادِ رفتگاں‌ کے ذیل میں اس نادرِ روزگار شخصیت کا مختصر تعارف ضروری ہے۔ نجم الغنی خان یکم جولائی 1941ء کو انتقال کر گئے تھے۔ وہ اپنے زمانے کے ممتاز محقّق، مؤرخ، مصنّف اور شاعر بھی تھے۔

    ان کی وجہِ شہرت علمی و ادبی کام ہی نہیں بلکہ وہ ماہرِ طبِ یونانی اور حاذق حکیم بھی تھے اور اسی لیے انھیں مولوی حکیم محمد نجم الغنی خاں بھی کہا جاتا ہے۔ نجمی ان کا تخلّص تھا اور تعلق رام پور سے تھا جس کے سبب وہ اپنے نام کے آگے رام پوری بھی لکھتے تھے۔

    مولوی نجم الغنی خاں 8 اکتوبر 1859ء کو ریاست رام پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد الغنی خاں اپنے دور کے سربر آوردہ علما میں سے ایک تھے۔ والد کا خاندان عربی، فارسی، فقہ، تصوّف اور منطق کے علوم میں شہرت رکھتا تھا۔ دادا مقامی عدالت میں مفتی کے منصب پر فائز تھے جب کہ پر دادا بھی منشی اور فارسی کے مشہور انشا پرداز تھے۔ یوں نجم الغنی خاں‌ کو شروع ہی سے وہ ماحول ملا جس میں وہ مطالعہ کے عادی بنے اور پھر لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    نجم الغنی خان کے والد جب رام پور سے نکلے اور ریاست اودے پور میں سکونت اختیار کی تو وہیں اپنے فرزند کی ابتدائی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ 23 برس کی عمر میں‌ نجم الغنی خاں اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کی غرض سے رام پور منتقل ہوگئے۔ وہاں مدرسہ عالیہ میں داخلہ لیا اور 1886ء میں فاضل درس نظامی میں اوّل درجہ میں‌ کیا۔ نجم الغنی خاں نے رام پور اور اودے پور میں مختلف ملازمتیں کیں۔ ان میں میونسپلٹی، یونانی شفا خانے کے نگراں، لائبریرین، رکاب دار، اسکول میں مدرس جیسی ملازمتیں شامل ہیں اور پھر ریاست حیدرآباد(دکن) بھی گئے جہاں بہت سا علمی و ادبی کام کیا۔

    محمد نجم الغنی خاں نجمی نے اخبارُ الصّنادید، تاریخِ راجگانِ ہند موسوم بہ وقائع راجستھان، تاریخِ اودھ سمیت تاریخ کے موضوع پر متعدد کتب اور علمِ عروض پر بحرُ الفصاحت نامی کتاب تحریر کی جو اس موضوع پر اہم ترین کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔ انھیں تاریخ سے خاص شغف تھا۔ رام پور اور راجپوتانہ کے علاوہ اودھ اور حیدر آباد دکن کی بھی تاریخ پر مبنی کتب تحریر کیں۔ نجم الغنی خاں کی ضخیم کتابوں اور مختصر رسالوں کے ساتھ علمی و تاریخی مضامین کی تعداد 30 سے زائد ہے۔ ان کی شاعری بھی دیوانِ نجمی کے نام محفوظ ہے۔

    علم و ادب کے علاوہ نجم الغنی خان نے حکمت اور طبابت کے پیشے کو بھی اپنائے رکھا اور اس میدان میں‌ اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں یکجا کیا تاکہ اس پیشے کو اپنانے والے استفادہ کرسکیں۔ ان کتابوں میں خواصُ الادوّیہ، خزانۃُ الادوّیہ شامل ہیں۔

    نجم الغنی خاں نجمی کی علمی و تاریخی موضوعات پر مبنی کتابوں میں تذکرۃُ السّلوک (تصوف)، معیارُ الافکار (منطق، فارسی)، میزانُ الافکار (منطق، فارسی)، نہج الادب (صرف و نحو، قواعدِ فارسی)، ( بحر الفصاحت کا انتخاب) شرح سراجی (علم فرائض) اور مختصر تاریخِ دکن شامل ہیں۔

  • راس مسعود: ممتاز ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف

    راس مسعود: ممتاز ماہرِ‌ تعلیم اور مصنّف

    سیّد راس مسعود کا نام اور ان کا تذکرہ ہمیشہ کیا جاتا رہے گا کہ وہ ہندوستان کی تاریخ اور مسلم تہذیب کا ایک معتبر حوالہ اور قد آور شخصیت ہیں، لیکن نوجوانوں کو بالخصوص ان کی علمی خدمات سے واقف ہونا چاہیے۔ متحدہ ہندوستان کی متعدد درس گاہوں اور جامعات کے لیے راس مسعود نے بحیثیت مدرس اور منتظم کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے انھیں ملک بھر میں بڑی عزّت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

    راس مسعود، مصلح قوم اور ماہرِ تعلیم سر سید احمد خاں کے خاندان کے گلِ سرسبد تھے۔ ان کے والد مشہور ماہر قانون جسٹس سید محمود تھے۔ راس مسعود ان کے اکلوتے بیٹے اور سر سیّد احمد خاں کے پوتے تھے۔ سر سیّد نے اپنے پوتے کی ابتدائی تعلیم کا خوب اہتمام کیا۔ 1899ء راس مسعود کے والد انتقال کرگئے۔ راس مسعود نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹرمیڈیٹ کا امتحان دیا نہیں تھا کہ حکومت ہند کی طرف سے ان کا تعلیمی وظیفہ لگ گیا۔وہ برطانیہ روانہ ہو گئے جہاں آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی۔ وہاں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے سابق پرنسپل تھیوڈور موریسن کا گھر ان کا مستقر ٹھہرا۔ یہ ان شخصیات میں سے تھے جو راس مسعود کے دادا کے شریکِ کار اور ان کی علمی خدمات کے بڑے معترف بھی تھے۔ آکسفورڈ میں داخلہ کے لیے لاطینی کا امتحان پاس کرنا لازمی تھا۔ جس کے لیے ای ایم فورسٹر ان کے اتالیق مقرر ہوئے۔ اس طرح مسعود اور فورسٹر میں رفاقت کا آغاز ہوا اور وہ اچھے دوست بھی بنے۔ راس مسعود نے 1907 کو نیو کالج آکسفورڈ میں تعلیم کا آغاز کیا۔ تین سال بعد 1910 میں بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر لنکنز اِن سے بیرسٹری کی سند لے کر 1912 میں ہندوستان واپس لوٹے۔ یہاں پٹنہ میں وکالت شروع کی۔ لیکن پھر اگلے سال ملازمت ملنے پر پٹنہ میں کالج کے پرنسپل کے طور پر ان کا تقرر ہوا۔ یہ تعلیم و تدریس کا شعبہ انھیں‌ بہت بھایا اور اپنی صلاحیتوں اور محنت و لگن کے ساتھ راس مسعود نے حیدرآباد دکن میں ڈائریکٹر ایجوکیشن، علی گڑھ میں وائس چانسلر اور بھوپال میں بطور وزیرِ تعلیم جو خدمات انجام دیں وہ ناقابلِ‌ فراموش ہیں۔ 1916 سے 1928 تک حیدر آباد دکن میں ان کا بڑا نام و مقام رہا۔ حضور نظام نے انھیں مسعود جنگ کے خطاب سے نوازا تھا۔راس مسعود پرائمری کی تعلیم کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ 1921 میں پوری ریاست میں تعلیم مفت قرار دی گئی۔ انھوں نے پوری ریاست میں تعلیمی اداروں کا گویا جال بچھا دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کتابوں‌ کی اشاعت اور ان کی ترویج کا بڑا کام کیا۔ جامعہ عثمانیہ کے قیام کے لیے نظامِ دکن نے خصوصی دل چسپی لیتے ہوئے دل کھول کر رقم خرچ کی اور کلیہ جامعہ عثمانیہ کے پرنسپل راس مسعود مقرر ہوئے۔ متعدد عہدوں پر کام کرتے ہوئے جب جامعہ کے دستور کی تیاری کا موقع آیا تو اس میں بھی راس مسعود نے بڑا ہاتھ بٹایا اور جامعہ کا آئین اور قواعد و ضوابط مرتب کیے۔

    وہ جب علی گڑھ میں وائس چانسلر کے عہدہ سے مستعفی ہوئے تو انگلستان چلے گئے اور واپس آنے پر نواب صاحب ریاست بھوپال نے ان کو وزیر تعلیم مقرر کیا۔ تادم آخر اس عہدہ پر فائز رہے اور خدمات انجام دیں۔ جس زمانہ میں وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے حکومت برطانیہ کی طرف سے ان کو نائٹ ہڈ کا خطاب عطا ہوا۔

    راس مسعود نے خرابی صحت کی بناء پر حیدر آباد کی ملازمت سے 1928 میں استعفیٰ دیا تھا اور بغرضِ‌ علاج انگلستان روانہ ہو گئے تھے۔ بعد میں‌ بہ سلسلۂ علاج جب وہ جرمنی میں مقیم تھے تو ان کو دو متضاد عہدوں کی پیش کش ہوئی۔ حیدر آباد میں پولیٹیکل سیکرٹری کا عہدہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وائس چانسلر کا۔ لیکن انھوں نے علی برادران کے کہنے پر علی گڑھ میں 1929 میں وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے تنِ مردہ میں راس مسعود نے دل سوزی اور دل جمعی سے نئی روح پھونک دی اور پانچ سالہ دور میں وہاں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

    سَر راس مسعود کے حالاتِ زندگی جاننے سے پہلے ان کے بارے میں‌ یہ تحریر پڑھیے جو اردو کے ایک صاحبِ طرز ادیب سیّد یوسف بخاری دہلوی کی کتاب ”یارانِ رفتہ“ سے لی گئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سر راس مسعود کی شخصیت اور اُن کی زندگی کے کارنامے جو جریدہ عالم پر ثبت ہیں اس وقت میرا موضوع سخن نہیں۔ اکتوبر 1935 میں اپنے عزیز دوست پروفیسر محمد اختر انصاری علیگ کے ہاں علی گڑھ میں مہمان تھا۔ اسی مہینے کے آخری ہفتہ میں مولانا حالی مرحوم کا صد سالہ جشن (سال گرہ) پانی پت میں ہونے والا تھا۔

    وہ جذبہ تھا یا صوتِ حالی، اسی خیالی رو میں اختر کے ہمراہ بہہ کر پانی پت میں جا نکلا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ رضا کار جلسہ گاہ کے قریب ایک بہت بڑے میدان میں خیموں کی ایک عارضی بستی میں لے گئے۔ باقی رات ہم نے ایک خیمے میں گزاری۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم نواب صاحب بھوپال کے استقبال کے لیے اسٹیشن چلے گئے۔

    میں گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ٹہل رہا تھا کہ ناگاہ میرے کانوں میں ”یوسف“ کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو میرے قریب میرے عم بزرگوار شمس العلما سید احمد، امام جامع مسجد دہلی کھڑے تھے۔ فرمایا ”تم بھی جلسے میں آئے ہو؟“

    ”جی ہاں“ میں نے جواباً عرض کیا۔ فرمانے لگے۔ ”سنو نواب حمید اللہ خاں کے ہمراہ راس مسعود بھی آرہے ہیں، میرے ساتھ رہنا، موقع پاکر تمہیں اُن سے بھی متعارف کرا دوں گا۔ یہ مسعود رشتے میں میرا بھتیجا ہے۔“

    یہ ہم رشتہ ہونے کی بات پہلے بھی میرے کانوں میں پڑچکی تھی۔ لیکن اُس کی کڑیاں آج تک پوری طرح نہیں ملیں۔ خیر میں تو اس لمحے کا پہلے ہی سے متمنی تھا۔ میں نے امام صاحب سے عرض کیا۔

    ”میں نواب سَر راس مسعود کو اپنی کتاب ’موتی‘ بھی پیش کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر میں نے اُن کو اپنا رومال دکھایا جس میں وہ کتاب لپٹی ہوئی تھی۔

    ”اچھا! تو تم اس لیے یہاں آئے ہو۔“ معاً گاڑی آگئی۔ والیِ بھوپال کے شان دار استقبال اور اُن کی روانگیِ جلسہ گاہ کے بعد امام صاحب نے راس مسعود سے میرا تعارف کرایا،

    ”مسعود! یہ میرے چھوٹے بھائی حامد کا بڑا لڑکا یُوسف ہے۔ یہ تمہیں اپنی کتاب پیش کرنا چاہتا ہے۔“ سَر راس مسعود نے یہ سُن کر میرا سلام لیا اور مسکراتے ہوئے فرمایا، ”ہاہا! میرے بھائی کا بچہ یوسف ثانی! آؤ جانی میرے گلے لگو۔“

    پھر کتاب لے کر فرمایا، ”میں اسے کلکتہ سے واپس آکر اطمینان سے پڑھوں گا۔ بھوپال پہنچ کر تمہیں اس کے متعلق کچھ لکھوں گا۔“

    اس کے بعد ہم دونوں جلسہ گاہ میں گئے۔ امام صاحب آگے آگے میں اُن کے پیچھے پیچھے، جب اسٹیج کے قریب آئے تو امام صاحب کو اسٹیج پر جگہ دی گئی۔ میں فرش پر پہلی قطار میں ایک خالی کرسی پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ سَر راس مسعود نے اپنی گردن کے اشارے سے مجھے اوپر بلایا۔ پھر اُنگلی سے دائیں طرف ایک کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ایاز قدرِ خود بہ شناس کے مصداق یہ جگہ تو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔

    اس ایک روزہ اجلاس کی تمام کارروائی مقررہ نظام کے مطابق انجام پذیر ہوئی۔ اس نشست میں ان آنکھوں کو ڈاکٹر اقبال کا پہلا اور آخری دیدار نصیب ہوا۔

    وہیں میرے کانوں میں وہ نوائے سروش بھی گونجی جس کی مجھے ایک مدّت سے تمنا تھی۔ وہ خطبہ حمیدیہ بھی سُنا جو والیِ بھوپال نے ارشاد فرمایا تھا اور وہ اعلان عطیہ بھی جو مرحوم راس مسعود نے والیِ بھوپال کے ایما پر کیا تھا۔

    جلسے کے اختتام سے قبل راس مسعود نے حاضرین اسٹیج میں سے بعض کو وہ رقعات بھی تقسیم کیے جو جلسے کے بعد ظہرانہ کے متعلق تھے۔ رقعات دیتے وقت جب وہ میرے قریب آئے تو بااندازِ سرگوشی فرمایا، ”یوسف! تم بھی جلسے کے بعد ہمارے ہی ساتھ کھانا کھانا۔“ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ کاش اُس دعوت کا وہ فوٹو مجھے حاصل ہوتا جس میں، میں امام صاحب کے پہلو میں اور اُسی صف میں یکے بعد دیگرے نواب صاحب بھوپال، سر راس مسعود اور ڈاکٹر اقبال جیسے اکابرِ وقت شریک طعام تھے۔

    سر راس مسعود 15 فروری 1889ء کو پیدا ہوئے تھے اور گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا، پانچ سال کے ہوئے تو اسکول جانے لگے۔ بعد میں ان کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا اور والد کی وفات کے بعد راس مسعود کی تعلیم و تربیت انھوں نے ہی کی۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ تحریکِ آزادی اور مسلمانوں کے حق کے لیے انھوں نے اپنی تعلیمی مصروفیات سے وقت نکال کر تحریر و تقریر سے خوب کام لیا، لیکن ان کی پہچان ایک سیاسی مدبر کی نہیں ہے۔ راس مسعود کی تصنیف و تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ 1933ء میں آپ افغانستان کے دورہ میں اقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے ان کی اچانک وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے نظم بھی لکھی تھی۔ راس مسعود 30 جولائی 1938ء کو وفات پاگئے تھے۔