Tag: جولائی وفات

  • پروفیسر عنایت علی خان: معروف مزاح گو شاعر

    پروفیسر عنایت علی خان: معروف مزاح گو شاعر

    پروفیسر عنایت علی خان کی وجہِ شہرت ان کی طنز و مزاح‌ پر مبنی شاعری ہے، اور یہ کلام انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہماری اصلاح اور ذہنی تربیت کرتا ہے۔ وہ ایک شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے۔

    پروفیسر صاحب نے اپنے کلام میں اخلاقی اور سماجی موضوعات کو سموتے ہوئے معاشرتی خامیوں اور لوگوں‌ کے مسائل کی نشان دہی کی اور اس کے لیے انھوں‌ نے شگفتہ پیرایۂ اظہار اپنایا۔ ان کا طنز شائستگی اور معیار سے آراستہ ہے۔

    پروفیسر عنایت علی خان 1935ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے شہر ٹونک میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد والدین کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان آئے اور سندھ کے شہر حیدرآباد میں آباد ہوئے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور کئی برسوں تک سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے بھی منسلک رہے۔ سندھ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1961ء میں اوّل پوزیشن کے ساتھ اردو ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں بی ایڈ کیا اور 1963ء میں مغربی پاکستان میں سرکاری ملازمت اختیار کی جس کے تحت پہلی پوسٹنگ خیر پور اور پھر حیدر آباد تبادلہ ہو گیا۔

    کرکٹ کے کھیل سے عنایت علی خان کو بڑا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بعد میں کیڈٹ کالج پٹارو میں ملازمت کی تو وہاں‌ اردو پڑھانے کے ساتھ کرکٹ کی کوچنگ بھی کی۔

    پروفیسر عنایت علی خان کو شاعری کا شوق ورثے میں‌ ملا تھا۔ ان کے والد ہدایت علی خان ٹونکی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔ ان کے نانا، دادا اور چچا جان بھی شاعر تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’ازراہِ عنایت، ’عنایتیں کیا کیا‘ اور ’کلیاتِ عنایت‘ شامل ہیں۔ پروفیسر عنایت علی خان نے بچّوں کے لیے کہانیاں بھی لکھیں اور ان کی نظموں کی دو کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ پروفیسر صاحب کی مزاحیہ نظم بول میری مچھلی کے متعدد قطعات زباں زدِ عام ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
    لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

    پروفیسر عنایت علی خان 26 جولائی 2020ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں اکبر ثانی بھی کہا جاتا تھا، کہ ان کا انداز اکبر الہ آبادی سے ملتا تھا۔ خود عنایت صاحب نے ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’میں اور میرے والد بھی اکبر الہ آ بادی سے بے حد متاثر ہیں۔ بلکہ میری شاعری میں اکبر الہ آبادی کا ہی رنگ نظر آتا ہے۔ اکبر الہ آبادی ایک ذہین اور بڑے شاعر تھے۔ انھوں نے سماجی مسائل پر اپنی شاعری کے ذریعہ بھرپور طنز کیا ہے، اور اپنی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے ذریعے اپنی قوم کو مسائل اور ان کے حل کرنے کا شعور دیا۔‘‘

    پروفیسر صاحب نے مختلف مدارج کے طلبا کے لیے اِسلامیات، اُردو اور تاریخ کی کئی نصابی کتابیں بھی مرتب کی تھیں۔

  • بروس لی: لازوال شہرت حاصل کرنے والا مارشل آرٹ کا ماہر

    بروس لی: لازوال شہرت حاصل کرنے والا مارشل آرٹ کا ماہر

    فلمی صنعت میں کسی اداکار کی شہرت اور مقبولیت کے ساتھ اوپر تلے کام یاب فلمیں بلاشبہ اسے ایک خوش قسمت اور مایہ ناز فن کار ثابت کرتی ہیں اور عالمی سنیما میں ایسے کئی نام گنوائے جاسکتے ہیں، مگر جب بروس لی کا تذکرہ ہوگا تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ان فن کاروں میں سے ایک تھا جس نے اپنی زندگی میں بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا اور اپنی موت کے کئی برس بعد بھی مداح اسے جنون کی حد تک چاہتے ہیں۔ سنجیدہ اور پُراعتماد بروس لی نے 70 کی دہائی میں عالمی سنیما میں تہلکہ مچا دیا تھا۔

    بروس لی کی پہلی فلم بگ باس نے ایشیائی ممالک میں زبردست بزنس کیا اور حیرت انگیز طور پر ہٹ فلم ثابت ہوئی جس سے بروس لی کو غیرمعمولی شہرت ملی۔ بروس لی نے ہانگ کانگ میں 32 سال کی عمر میں موت سے قبل صرف پانچ فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے صرف تین فلمیں ہی اس کی زندگی میں ریلیز ہو سکی تھیں۔ اس کے باوجود وہ ایک لازوال کردار اور اساطیر بنا۔

    اداکار بروس کی شادی لنڈا سے ہوئی تھی جو مارشل آرٹ میں اس کی شاگرد تھی۔ اس کے بطن سے شینن لی پیدا ہوئی جو اس جوڑے کی اکلوتی بیٹی تھی۔ شینن لی چار برس کی تھی جب اس کے والد اور مارشل آرٹ کے شہنشاہ بروس کی موت واقع ہوئی۔ 27 نومبر 1940ء کو پیدا ہونے والا بروس لی عین جوانی میں 20 جولائی 1973ء حادثاتی موت کا شکار ہوا۔ وہ ہانگ کانگ کا باسی تھا اور پھر امریکہ منتقل ہوگیا تھا جہاں اس نے ہانگ کانگ کا مارشل آرٹس بھی متعارف کروایا۔ بروس لی نے اداکاری ہی نہیں بلکہ بطور ہدایت کار اور مارشل آرٹ کے ماہر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ بروس لی نے فلم کی دنیا میں کنگ فو میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کر کے ایک نئی اور دل چسپ طرز پیدا کی۔

    بروس لی کو تعلیمی اعتبار سے ذہین نہیں سمجھا جاتا تھا اور اسے 18 سال کی عمر میں امریکہ بھیج دیا گیا۔ یونیورسٹی میں بروس لی چینی مارشل آرٹ سکھانے لگا اور شادی کے بعد وہ امریکی ریاست کیلیفورنیا منتقل ہو گیا جہاں اس نے پہلا ٹی وی سیريل ’دا گرین ہارنٹ‘ کیا۔ مارشل آرٹ کے ساتھ بروس لی کو اداکاری سے بھی عشق ہوگیا تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ ہالی وڈ کی کسی فلم میں مرکزی کردار حاصل کرے، لیکن متعدد کوششوں کے بعد اسے مایوسی ہوئی اور پھر اس نے ہانگ کانگ واپسی کا فیصلہ کرلیا۔

    1973ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”انٹر دی ڈریگن‘‘ میں کنگ فو لیجنڈ بروس لی کو آخری بار دیکھا گیا۔ اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔ اداکار کی دیگر بہترین فلموں میں ”وے آف دا ڈریگن‘‘ اور ”فسٹ آف فیوری‘‘ شامل ہیں۔

    نوجوانی میں بروس لی کی اچانک موت پر قیاس آرائیوں کا طوفان کھڑا ہوگیا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کی بے انتہا مقبولیت اور فلموں کی کام یابی سے حسد کرنے والے کسی شخص نے بروس لی کو زہر دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور باتیں کی گئیں اور بعد میں اس کی پراسرار موت سے متعلق تحقیق بھی کی جاتی رہی۔ تاہم تفتیش کے بعد جو رپورٹ سامنے آئی وہ بتاتی ہے کہ اداکار نے اس روز پانی پینے کے بعد سر درد کی شکایت کی تھی اور ایک درد کش دوا کھانے کے دو گھنٹے بعد وہ مردہ پایا گیا۔

  • احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی دنیائے ادب کے ایسے قد آور تھے جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور اس کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ آج اردو زبان کے بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور اپنے وقت کے مقبول کالم نویس احمد ندیم قاسمی کی برسی ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور دو مرتبہ انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ 10 جولائی 2006ء کو وفات پانے والے احمد ندیم قاسمی ان شخصیات میں سے تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے نقوش کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑا۔

  • مسعود اشعر:‌ افسانہ نگار، صحافی اور مترجم

    یہ ستّر کی دہائی تھی جب مسعود اشعر نے اپنی کہانیوں سے ادبی دنیا میں پہچان بنائی۔ انھوں نے اپنے قارئین کے سامنے انسانی رشتوں کی الجھنیں، سماج اور لوگوں کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں کو اپنے کرداروں اور مناظر کے ساتھ مؤثر انداز میں پیش کیا۔

    مسعود اشعر کو افسانہ نگار، مترجم اور صحافی کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 5 جولائی 2021ء کو مسعود اشعر انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا، تب وہ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکے تھے۔ انھیں رام پور چھوڑنا پڑا۔ وہ ہجرت کر کے پاکستان کے شہر ملتان چلے آئے اور پھر لاہور کو اپنا مستقر بنایا۔1930ء میں پیدا ہونے والے مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ پاکستان میں انھوں نے علمی صحافت کا آغاز کیا اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں‌ حصّہ لینے لگے۔ لاہور اور ملتان میں انھوں نے روزنامہ احسان، زمین دار، آثار اور امروز میں کام کیا۔ وہ ایک معروف علمی ادارے کے سربراہ بھی رہے۔ کالم نگاری بھی مسعود اشعر کا ایک حوالہ ہے۔ وہ روزنامہ جنگ کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ شمیم حنفی نے مسعود اشعر کے بارے میں لکھا ہے، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش و خروش نہیں۔ مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر نے صحافت کی دنیا میں ہمیشہ حق گوئی اور جرأت سے کام لیا۔ کہتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا زمانہ تھا اور مسعود اشعر امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ اس سانحے کی خبر نہ بنائی جائے۔ مسعود اشعر اس کے لیے تیّار نہ ہوئے۔ اخبار میں خبر چھپی تو ان کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔ فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ مسعود اشعر بے روزگار رہے اور جیل کاٹی مگر آزادیٔ صحافت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔

    مسعود اشعر کے افسانے ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی صورت میں شایع ہونے کے بعد جو کتابیں منظرِ عام پر آئیں‌ ان میں متنوع موضوعات پر مسعود اشعر نے اپنے تخلیقی وفور کا اظہار کیا ہے۔ ایک کتاب ’’سارے افسانے‘‘ اور دوسری ’’اپنا گھر‘‘ کے عنوان سے اور چند برس قبل ’’سوال کہانی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

  • حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    حسام قاضی: پی ٹی وی کے بے مثال اداکار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے فن کاروں کی کہکشاں میں شامل کئی چہرے اُس نسل کی یادوں کا حصّہ ہیں جس نے گزشتہ صدی کی آخری دہائیوں میں ہوش سنبھالا۔ انہی میں ایک فن کار حسام قاضی ہیں جو ٹی وی ڈراموں میں اپنے کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئے۔ 3 جولائی 2004ء کو اداکار حسام قاضی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    حسام قاضی نے 4 مارچ 1961ء کو کوئٹہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ زندگی نے انھیں بہت کم مہلت دی اور صرف 42 سال جیے۔ کراچی میں وفات پانے والے حسام قاضی کے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے ہوا تھا۔ یہ کوئٹہ سینٹر کی پیشکش تھی اور اس کے پروڈیوسر دوست محمد گشکوری تھے۔ اس دور میں‌ پی ٹی وی باکمال ہدایت کار کاظم پاشا کے ڈرامہ سیریل "چھاؤں” کے ایک کردار سے حسام قاضی کو ملک گیر شہرت ملی۔ زمانۂ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کرنے والے حسام قاضی کامرس کے مضمون میں ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ کوئٹہ کے ایک کالج میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کے ساتھ حسام قاضی نے اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ منفرد آواز انداز اور متاثر کن شخصیت کے ساتھ اپنے خوب صورت لب و لہجہ سے حسام قاضی نے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے قابلِ ذکر فن کاروں میں سے ایک تھے۔

    اداکار حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، چاکرِ اعظم، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیرِ تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔ سنہ 2000ء میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ اداکار نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن پر حسام قاضی نے اپنے وقت کے باکمال اور سینئر فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور ان کے درمیان اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہوئے۔ ماروی کو حسام قاضی کے کیریئر کا ایسا کھیل کہا جاسکتا ہے جسے زبردست مقبولیت حاصل ہوئی اور حسام قاضی کا کردار ناظرین کی توجہ کا مرکز رہا۔

  • مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    مالی آسودگی کی خواہش نے ناول نگار ماریو پوزو کے تخیل کو جرم کی دنیا میں پہنچا دیا!

    ادبی دنیا کے ناقدین کا خیال ہے کہ ماریو پوزو(Mario puzo) کا تذکرہ کیے بغیر گزشتہ دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں ہوسکتا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار اور شارٹ اسٹوری رائٹر ماریو پوزو کا جرم اور اس تاریک دنیا پر مبنی ایک ناول ‘دی گاڈ فادر’ بہت مقبول ہوا جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ماریو پوزو کے حالاتِ زندگی، ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بہترین ناول نگار ہی نہیں مختصر کہانی نویس اور اسکرین رائٹر بھی تھے اور باکمال ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ماریو پوزو کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ان کا تعلق جس کنبے سے تھا، وہ امریکہ میں مقیم تھا۔ یہاں نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو 15 اکتوبر 1920ء میں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معمولی گھرانے کے فرد تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور جب دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو انھوں‌ نے امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کر لی لیکن معلوم ہوا کہ ماریو پوزو کی نظر کمزور ہے۔ ان کے لیے شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں اسامی نکالی گئی اور وہاں تبادلہ کر دیا گیا۔ ماریو پوزو مطالعہ کا شوق رکھتے تھے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی شروع کرچکے تھے۔ یہ سلسلہ دورانِ ملازمت ان کے افسانوں اور کہانیوں‌ کی شکل میں جاری رہا اور رفتہ رفتہ ماریو پوزو قارئین اور ادبی دنیا میں پہچان بنانے لگے۔

    1950ء میں نوجوان ماریو پوزو کا پہلا افسانہ شایع ہوا۔ بعد کے برسوں‌ میں ماریو پوزو نے شارٹ اسٹوریز کے ساتھ ناول نگاری بھی شروع کردی اور پھر وہ جرائم پیشہ گروہوں اور مافیا پر اپنی کہانیوں‌ کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ماریو پوزو نے گیارہ ناول لکھے جن میں سب سے زیادہ مقبول ناول گاڈ فادر ہے۔ اسی ناول نے عالمی ادب میں ماریو پوزو کو شناخت دی۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مبنی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور مضمون نگار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ اس امریکی ادیب کے افسانوں اور ناولوں نے قارئین کو بہت متاثر کیا۔ خاص طور پر وہ جس طرح مافیا کے دھندوں اور تاریک دنیا کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، ان میں وہ اپنے تخیل اور قوّتِ مشاہدہ سے بڑا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ماریو پوزو کا نام آج بھی عالمی ادب میں ان کے قلم کے اسی وصف کی بدولت زندہ ہے۔

    ناول دی گاڈ فادر پر مبنی فلم کی بات کریں تو اس میں‌ مافیا کے سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) کو مصنّف نے ایک جہاں دیدہ شخص کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ نیویارک شہر کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے جس میں مافیا کے مختلف خاندان علاقہ اور غیرقانونی کاروبار کی دنیا میں اپنا راج برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ اس دوران گاڈ فادر یعنی کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف کا کمال یہ ہے کہ اس نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنے کرداروں کی ذہنی کشمکش اور ان کے رویے کو‌ بیان کیا ہے اور یہی تفصیل اس کہانی کو مؤثر اور دل چسپ بناتی ہے۔ ناول کے کردار دنیاوی فہم و فراست اور ذہانت سے مالا مال ہیں لیکن مصنّف کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنے کرداروں کو فلسفہ بگھارے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ مکالمہ کرتے ہوئے پیش کیا ہے۔ اس ناول پر مبنی فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس میں مارلن برانڈو نے بھی کردار ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے تھے۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک زمانہ میں ماریو پوزو مالی مسائل کا شکار تھے اور مقروض ہوچکے تھے، جب کہ ان کو اپنی تخلیقات کی اشاعت سے مالی نفع نہیں‌ مل رہا تھا۔ تب انھوں‌ نے گاڈ فادر لکھنا شروع کیا اور حیران کن طور پر اس نے ماریو پازو کو شہرت اور مالی آسودگی بھی دی۔ اس ناول کا متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

    ناول میں ماریو پوزو کے بیٹے کا ایک مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے۔ ان کے فرزند نے لکھا کہ والد کے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں 67 ہفتے تک شامل رکھا۔

  • ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو اور ‘گاڈ فادر’ کی مرعوب کُن کہانی

    ماریو پوزو دنیا کے ان ناول نگاروں‌ میں سے ایک ہیں جن کا ذکر کیے بغیر پچھلی دہائیوں کا ادبی منظر نامہ مکمل نہیں‌ ہوسکتا۔ دی گاڈ فادر اس امریکی ادیب کا ایک مشہور ناول ہے جس پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔

    ماریو پوزو(Mario puzo) کے حالاتِ زندگی اور ان کے تخلیقی سفر پر نظر ڈالتے ہوئے ہم اس فلم کی کہانی بھی بیان کریں‌ گے جو ان کے مشہور ناول پر مبنی ہے۔

    بہترین ناول نگار ہی نہیں ماریو پوزو مختصر کہانی نویسی اور اسکرین رائٹنگ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ ان کے آباء و اجداد کا تعلق اٹلی سے تھا، لیکن ماریو پوزو جس گھرانے کے فرد تھے، وہ امریکہ آن بسا تھا۔ نیویارک کے شہر مین ہٹن میں ماریو پوزو نے 15 اکتوبر 1920ء میں آنکھ کھولی۔ وہ ایک معمولی آمدنی والے کنبے کے فرد تھے۔ ماریو پوزو نے نیویارک ہی سے گریجویشن کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے موقع پر امریکی فضائیہ میں‌ شمولیت اختیار کرلی، لیکن نظر کمزور تھی، اس لیے ماریو پوزو کا تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں تبادلہ کردیا گیا۔ وہ مطالعہ اور لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ دورانِ ملازمت ان کے افسانے اور کہانیاں‌ شایع ہونے لگیں اور ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    ماریو پوزو کا پہلا افسانہ 1950ء میں شایع ہوا تھا۔ اس ناول نگار کی وجہِ شہرت مافیا پر لکھی گئی کہانیاں‌ بنیں۔ ماریو پوزو نے 11 ناول تحریر کیے، جن میں سب سے زیادہ مقبولیت گاڈ فادر کو ملی اور یہی عالمی ادب میں ماریو پوزو کی پہچان بنا۔ اس ناول پر بننے والی فلم کو تین اکیڈمی ایوارڈ بھی ملے۔ ماریو پوزو نے بعد میں‌ بحیثیت مدیر بھی کام کیا اور کہانیاں‌ لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری بھی کی۔ پوزو کے افسانوں اور ناولوں کا امریکی معاشرے میں ذہنوں‌ پر گہرا اثر ہوا۔ وہ جن مافیاز کی کہانیاں‌ لکھتے تھے، اس میں مصنّف کی قوّتِ مشاہدہ کے ساتھ ان کی محنت، مہارت اور ذہانت کا بڑا دخل نظر آتا ہے۔

    ماریو پوزو 2 جولائی 1999ء کو چل بسے تھے مگر آج بھی ان کا نام عالمی ادب میں بہترین ناول نگار کے طور پر زندہ ہے۔

    امریکہ میں‌ مافیا کے کرداروں پر ان کے مشہور ناول دی گاڈ فادر پر بننے والی فلم کی بات کریں‌ تو یہ ایسی کہانی ہے جس کا سربراہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نامی ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ یہ ناول نیویارک شہر میں مافیا کے مختلف خاندانوں‌ کی علاقے اور کاروبار کی دنیا میں ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے لڑائیوں کو بیان کرتا ہے۔ اس دوران کورلیون فیملی بحران کا شکار ہوجاتی ہے اور اس میں قیادت کی تبدیلی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ مصنّف نے اپنے ناول میں بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے کو‌ بیان کیا ہے جس نے اس کہانی کو مؤثر بنا دیا۔ اس ناول کی ایک خوبی دنیاوی فہم و فراست، ذہانت کے وہ باریک نکات ہیں‌ جس میں‌ ماریو پوزو نے اپنے کرداروں کو فلسفہ جھاڑے بغیر حکیمانہ انداز میں‌ گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ فلمی پردے پر شائقین کو یہ سسپنس سے بھرپور اور نت نئے موڑ لیتی کہانی معلوم ہوتی ہے اور یہ سب اس کا اشتیاق بڑھاتا ہے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر فرانسس فورڈ کپولا تھے اور اس کا ایک کردار عظیم فن کار مارلن برانڈو نے ادا کیا۔ ناول کے کئی فقرے بھی مشہور ہوئے اور فلم کو بھی زبردست پذیرائی ملی۔ یہ فلم 1972ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

    ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنّف مالی آسودگی کا آرزو مند تھا اور جب وہ اپنی ابتدائی تخلیقات پر اس معاملے میں زیادہ کام یاب نہ ہوئے تو انھوں نے گاڈ فادر لکھا جس کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا اور یہ ناول شاہکار ثابت ہوا۔

    مصنّف کے اس ناول کی ایک اشاعت میں اُن کے بیٹے کا مضمون بھی شامل ہے جو لائقِ مطالعہ ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس تصنیف کے پیچھے ماریو پوزو کا مقصد کیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ میرے والد کے لکھے دو ناول ناقدین نے تو پسند کیے مگر مالی فائدہ نہیں ملا۔ وہ مقروض تھے اور انہیں احساس تھا کہ کچھ بڑا کر کے دکھانا ہے۔ اسی جذبے کے تحت انھوں نے ناول گاڈ فادر لکھنا شروع کر دیا، جب بچّے شور کرتے تو ماریو پوزو کہتے، شور مت کرو، میں ایک شاہکار ناول لکھ رہا ہوں۔ اس پر بچّے ہنستے اور مزید شور کرنے لگتے۔ پھر سب نے دیکھا کہ گاڈ فادر واقعی بیسٹ سیلر ثابت ہوا۔ دو برسوں میں اس کی نوّے لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور ایک اہم بات یہ بھی کہ اسے نیویارک ٹائمز جیسے جریدے نے بیسٹ سیلر کتاب کی فہرست میں سرسٹھ ہفتے تک شامل رکھا۔

  • ڈاکٹر عبدالستار صدیقی: وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی: وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے

    اردو زبان میں لسانی مباحث، املا انشاء اور نقد و نظر کے ضمن میں جس قدر علمی و تحقیقی کام تقسیمِ ہند سے قبل اور بٹوارے کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران ہوا، آج بھی ہر چند کہ اس پر کام کرنے کی از حد ضرورت ہے، لیکن اس کے لیے بڑی قابلیت، علمی استعداد اور وسیع مطالعہ ہی نہیں لسانیات سے گہرا شغف اور تحقیق کا ذوق و شوق بھی چاہیے۔ اب ڈاکٹر عبدالستّار صدیقی جیسے بلند پایہ محقّق، ماہرِ لسانیات اور عالم فاضل لوگ ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کا علمی و تحقیقی کام اردو زبان و ادب میں ان کی امتیازی حیثیت اور مقام و مرتبہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کا تحقیقی کام اور ان کی تنقیدی بصیرت انھیں اپنے معاصرین سے ممتاز کرتی ہے۔ ان کے مقالہ جات، تصانیف اور پُرمغر مضامین سے ہر دور میں‌ استفادہ کیا جاتا رہا ہے۔ 28 جولائی 1972ء کو ڈاکٹر عبدالستار صدیقی الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے اپنی کاوشوں سے تحقیق کو ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔

    متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر بھی شامل تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن اور پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے حوالے سے کاموں میں‌ مصروف تھے اور اس دوران زبان و بیان سے متعلق باریکیوں کو سمجھنے کی ضرورت پیش آتی تھی۔

    عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ وہ 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور متعدد یورپی زبانیں بھی سیکھیں۔ زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ سے متعلق ان کا علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    ڈاکٹر صاحب کے مضامین کئی اردو جرائد میں شائع ہوا، اور افسوس کی بات ہے کہ ان کے مقالات اور مضامین کو بہت کم یکجا کیا جاسکا اور وہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ کیے گئے۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی مصروفیات تھیں جس کے سبب وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے بعد جمع یا محفوظ نہیں رکھ سکے۔

    سندیلہ، ضلع ہردوئی میں عبدالستار صدیقی نے 26 دسمبر 1885ء کو آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اسی دوران وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی منتخب ہوئے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی دو لغات منتخاب الالغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) کو مصدقہ مانا جاتا ہے۔

  • سبطین فضلی کا تذکرہ جن کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے

    سبطین فضلی کا تذکرہ جن کی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کلاسک کا درجہ رکھتی ہے

    بٹوارے سے قبل ہندوستان میں‌ بحیثیت فلم ساز دو بھائیوں کو ’’فضلی برادران‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ ان میں سے ایک سبطین فضلی تھے۔

    اُس دور میں کلکتہ فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہاں فلم کے مختلف شعبوں کی کئی شخصیات، آرٹسٹ اور تخلیق کار اپنے فن و کمال کی بدولت نام کما رہے تھے۔ سبطین فضلی نے اپنے بھائی حسنین فضلی کے ساتھ فلم سازی کے شعبے میں کلکتہ ہی سے نام و مقام بنایا تھا۔ بعد میں‌ فلم انڈسٹری بمبئی منتقل ہوگئی اور پھر تقسیمِ ہند کے نتیجے میں سبھی سرحدوں‌ کے اِدھر اُدھر رہ گئے۔ بٹوارے کے بعد لاہور میں مقیم سبطین فضلی نے صرف تین ہی فلمیں بنائی تھیں، لیکن یہ فلمیں شان دار اور سبطین فضلی کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔ یہ وہ فلمیں تھیں جن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار کا انتقال 25 جولائی 1985ء کو ہوا تھا اور یہ تحریر اُن کی برسی کی مناسبت سے شایع کی جارہی ہے۔ فلمی دنیا اور فن کاروں پر کتابوں اور اس دور کے معروف صحافیوں کے نوکِ قلم سے نکلے ہوئے مضامین کے مطابق سبطین فضلی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ خوش اخلاق بھی تھے اور خوش لباس بھی۔ سبطین فضلی اور ان کے بھائی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

    فلم ساز سبطین فضلی نے 9 جولائی 1914ء کو بہرائچ (اتر پردیش) کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا فلمی کیریئر متحدہ ہندوستان میں شروع ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں بننے والی فلم ’’دوپٹہ‘‘ کے ہدایت کار وہی تھے۔ یہ سبطین فضلی کی وہ کام یاب ترین فلم تھی جسے پاکستانی فلموں میں کلاسک کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سبطین فضلی نے ’’آنکھ کا نشہ‘‘ اور ’’دو تصویریں‘‘ نامی فلمیں بنائیں جو بزنس کے اعتبار سے ناکام شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل نہیں کرسکیں، لیکن بطور فلم ساز یہ سبطین صاحب کا شان دار کام ہے اور محنت اور لگن کے ساتھ سبطین فضلی کی فنی مہارت کا عمدہ نمونہ ہیں‌۔

    کہا جاتا ہے کہ فلمی دنیا میں سبطین فضلی کا نام زندہ رکھنے کو اُن کی فلم دوپٹہ ہی کافی ہے۔ سبطین فضلی نے ’’دوپٹہ‘‘ میں گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں کے ساتھ ایک نیا ہیرو اجے کمار کے نام سے پردے پر متعارف کروایا تھا۔ اس فلم میں‌ سدھیر نے بھی کام کیا تھا۔ 1952ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم بے حد کام یاب رہی۔ اُس دور میں آج کی طرح جدید کیمرے اور دوسری ٹیکنالوجی موجود نہیں‌ تھی، لیکن سبطین فضلی نے اپنی صلاحیتوں سے کام لے کر سنیما کو ایک معیاری فلم دی۔

    فلم ساز سبطین فضلی کو لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کا تذکرہ جن کے لہجے کی سچائی عوام کے دلوں میں آباد تھی

    معراج محمد خان کو اپنے مقصد سے عشق تھا اور اس راستے میں‌ جتنے بھی سخت مقام آئے، وہ ان سے گزر گئے۔ ملک کے مظلوم طبقات، مختلف گروہوں کے حقوق اور جمہوریت کے لیے لڑنے والے معراج محمد خان 22 جولائی 2016ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    معراج محمد خان پاکستان میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں کے پیر و مرشد رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر میں اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور جمہوریت کو پامال کر کے اپنی حاکمیت کا اعلان کرنے والے ہر آمر کو للکارا۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں، سڑکوں پر احتجاج کیا اور پولیس کا لاٹھی چارج سہا۔ مگر عوامی حکومت کے لیے اُن کی جدوجہد اور طبقاتی نظام کے خلاف اُن کی آواز کبھی مدھّم نہیں‌ پڑی۔ جاہ و منصب، مال و زر اور مراعات کی پیشکش معراج محمد خان کو اُن کے اپنے مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹا سکے۔

    اُن کے نظریات اور سیاسی جدوجہد کی داستان طویل ہے جسے کئی صفحات پر پھیلایا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں‌ کے لیے ”معراج بھائی“ تھے، اور اُن کے یہ متوالے اُن کی قیادت میں ظلم اور جبر کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔

    معراج محمد خان نے ساری زندگی اپنے نظریات پر کاربند رہتے ہوئے سنجیدہ سیاست کی۔ ایک طرف تو لاٹھی چارج، جیل اور مقدمات انھیں اُن کے نظریات سے دستبردار نہیں کروا سکے اور دوسری طرف وزارت اور مراعات کی پیشکش بھی معراج محمد خان کو اُن کے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹا سکی۔

    معراج محمد خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز طلبہ سیاست سے کیا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) سے منسلک رہے۔ معراج محمد خان لگ بھگ 10 سال تک این ایس ایف کی قیادت میں شامل رہے اور اپنے زمانۂ طالبِ علمی سے سیاست تک لگ بھگ 13 سال جیلوں سے واسطہ پڑا۔

    مئی 1974 میں معراج محمد خان نے کراچی میں مزارِ قائد کے باہر خواتین اساتذہ کی جانب سے کیے جانے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی اور اس مظاہرے میں وہ زخمی ہوئے تھے۔ سنہ 1983 میں معراج محمد خان کو پولیس نے ایم آر ڈی کے ایک اجلاس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے گھیر لیا تھا اور ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں‌ میں‌ کئی سیاسی جلسوں میں معراج محمد خان کی گرجدار آواز میں تقریر اور ان کا پُرجوش انداز آمروں اور ان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں پر لرزہ طاری کرتا رہا۔ ایوب خان کی فوجی آمریت نے سر اٹھایا تو ہر طرف سکتہ طاری تھا۔ یہ معراج اور ان کے ساتھی ہی تھے جنھوں نے ماشل لاء ضوابط کو ٹھکراتے ہوئے سب سے پہلے اس آمریت کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ جب فوجی آمر ضیاءُ الحق نے بھٹو صاحب کے خلاف گھیرا تنگ کیا، اور بعد میں اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو پر عقوبتوں کے دروازے کھولے، تو معراج محمد خان اور ان کے صداقت شعار ساتھیوں نے اس کے خلاف شد و مد سے آواز بلند کی۔ معراج صاحب کے ولولہ انگیز خطبات آج بھی اس نظامِ کہنہ اور ہر آمر و جفا پیشہ کے لیے گویا تازیانہ ہیں۔

    وہ پیپلز پارٹی کے بانی قائدین اور ذوالفقار علی بھٹو کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے اور بعد میں وہ بے نظیر بھٹو کے قریب بھی رہے، لیکن وہ جس مقصد کے لیے اتنی کٹھنائیاں جھیلتے رہے، اس کی تکمیل میں‌ کئی رکاوٹیں حائل تھیں، جس نے معراج صاحب کو اپنا راستہ بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ 1970ء کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے۔دسمبر 1971ء میں انھیں‌ وزیرِ محنت و افرادی قوّت بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی تشکیل اور اس کے منشور کی تدوین میں جن ترقی پسند راہ نماؤں اور دانش وروں نے حصّہ لیا ان میں معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ انھیں اپنا جانشین بھی قرار دیا تھا۔ بعد میں بھٹو صاحب سے سخت اختلافات کے باعث وہ پارٹی سے دور ہوگئے۔ یہ 1977ء کی بات ہے اور بعد میں معراج صاحب نے قومی محاذ آزادی بنائی، اور پھر وہ تحریک ِ انصاف سے جڑ گئے، لیکن اس پارٹی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام میں عملی سیاست سے کنارہ کش ہوچکے تھے۔ معراج محمد خان کی دلیری اور سچائی کا چرچا عام تھا اور یہی وجہ تھی کہ ان کی بنائی ہوئی قومی محاذ آزادی کی بہت جلد ملک بھر میں شاخیں پھیل گئیں۔ بائیں بازو کے نوجوانوں میں یہ پارٹی خاص طور پر بہت مقبول تھی، اور بے وسیلہ ہونے کے باوجود جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور حکمراں طبقات کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی، کیونکہ اس کا منشور دو ٹوک انداز میں نادار طبقوں کی حکمرانی پر اصرار کرتا تھا۔ لیکن پھر یہ باب بھی بند ہوگیا۔

    20 اکتوبر 1938ء کو معراج محمد خان نے برٹش انڈیا کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم گنج میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے ایک برس بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں سیاسی اور عوامی حقوق کے لیے ان کی جدوجہد شروع ہوئی۔ معراج محمد خان کے ایک بھائی قلمی نام دکھی پریم نگری کے نام سے بہت مشہور تھے، وہ فلمی گیت لکھا کرتے تھے، جب کہ ایک بھائی منہاج برنا صحافی تھے جو پی ایف یو جے اور ایپنک یونین کے صدر رہے اور ان اداروں کو بنانے کے لیے کام کیا اور صحافت کی آزادی کے لیے قربانیاں بھی دیں۔