Tag: جولائی وفات

  • پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    پی ٹی وی کے مقبول ڈراموں کے خالق حمید کاشمیری کی برسی

    6 جولائی 2003ء کو معروف ڈراما نویس اور افسانہ نگار حمید کاشمیری جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ پی ٹی وی کے لیے ان کے تحریر کردہ متعدد ڈرامے مقبول ہوئے۔

    حمید کاشمیری کا اصل نام عبدالحمید تھا۔ وہ یکم جون 1929ء کو مری، ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ حمید کاشمیری کا شمار فعال ادیبوں میں ہوتا تھا۔ وہ لکھنے لکھانے کے ساتھ فروغِ علم و ادب کے لیے بھی کوشاں رہے اور ایک کتب فروش کی حیثیت سے بھی جانے جاتے تھے۔ کراچی میں صدر کے علاقے میں ان کی دکان ہوا کرتی تھی جہاں اکثر بڑے بڑے ادیب اور نام وَر شخصیات اکٹھا ہوتی تھیں۔ حمید کاشمیری اپنی کتابوں کی دکان کے قریب ہی ایک عمارت میں رہائش پذیر تھے۔

    کئی افسانے تخلیق کرنے والے حمید کاشمیری نے پندرہ سے زیادہ ناول اور ٹیلی ویژن کے لیے 50 سے زائد ڈرامے لکھے۔ ان میں سیریلز اور ڈراما سیریز شامل ہیں جنھیں بے حد پسند کیا گیا اور ان کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے۔

    حمید کاشمیری کے ڈراموں میں ایمرجنسی وارڈ، روزنِ زنداں، شکستِ آرزو، اعتراف، کشکول، کافی ہائوس شامل ہیں۔

    پت جھڑ کے بعد حمید کاشمیری کا وہ ڈراما تھا جس پر 1973ء میں انھوں نے میونخ ڈراما فیسٹیول میں انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی حاصل کیا۔

    حمید کاشمیری کراچی کے میوہ شاہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    یومِ‌ وفات: شہرۂ آفاق ادیب موپساں کی درجنوں کہانیوں کو شاہ کار قرار دیا گیا

    آج انیسویں صدی کے مشہور مصنّف اور افسانہ نگار موپساں کا یومِ‌ وفات ہے۔ اسے جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گایے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں پیدا ہوا۔ اس نے زندگی کی فقط 42 بہاریں‌ دیکھیں‌ اور چھے جولائی 1893ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ وہ 11 سال کا تھا جب اس کے والدین میں‌ علیحدگی ہوگئی اور وہ اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ شعر و ادب کی دلدادہ خاتون تھی جس نے اپنے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھانے اور تربیت کی غرض سے
    فلابیئر کو سونپ دیا جو مشہور اور بلند پایہ ادیب تھا، اس کی صحبت نے موپساں کو بھی بڑا تخلیق کار بنا دیا۔

    موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اسے باکمال قرار دیا تھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا۔ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں میں وقت گزارتے ہوئے اس نے تخلیق اور مشاہدے کا سفر بھی طے کیا۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس نے ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے گریجویشن مکمل کی اور فلابیئر کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے ادب اور صحافت کے میدان میں کام یابیاں سمیٹیں۔ ناول اور افسانہ نویسی کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    اس کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے اور نام وری کے ساتھ اس نے دولت بھی کمائی۔ تاہم بدقسمتی سے جنسی بے راہ روی کے ہاتھوں بیماری کے بعد موت کے منہ میں‌ چلا گیا۔

    اس نے مختلف قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں اور کئی افسانوں کے مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے جب کہ اس کی 60 سے زائد کہانیوں کو شاہ کار تصوّر کیا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    یومِ وفات: پاکستانی فلموں کے مقبول ‘ولن’ ساون کے عروج اور زوال کی کہانی

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کا نام ایک بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر لیا جاتا تھا جنھوں نے کئی کام یاب فلمیں کیں۔ ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ بھرتی ہوئے اور فوج سے فارغ ہونے کے بعد کر روزی کمانے کے لیے تانگہ چلانا شروع کر دیا، لیکن قسمت نے یاوری کی اور انھیں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہونے کا موقع مل گیا۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے تھے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بالوں بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ کہتے ہیں کہ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون اپنے طرزِ زندگی سے مطمئن نہیں تھے۔ انھوں نے 1950ء میں کراچی جانے کا فیصلہ کیا جہاں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنا شروع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے کام، مزدوری بھی شروع کردی۔ ان کا مقصد پیسے کمانا تھا۔ اسی عرصے میں شہر کے ایک سنیما کے عملے سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان لوگوں نے ساون کو فلموں میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔ ساون نے فلم اسٹوڈیوز کے چکر لگانے شروع کر دیے اور آخر کار فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ایک کردار حاصل کرنے میں‌ کام یاب ہوگئے۔

    فلمی دنیا میں‌ قدم رکھنے والے ظفر احمد بٹ کو ساون کا نام دیا گیا۔ اسی زمانے میں کسی نے لاہور جاکر قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہ اپنی گرج دار آواز اور ڈیل ڈول کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون لاہور چلے گئے اور آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا گیا۔ ’’سولہ آنے‘‘ کے بعد وہ فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کاسٹ کر لیے گئے اور اس فلم نے انھیں مقبول اداکار بنا دیا۔

    ساون نے کئی پنجابی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ساون نے مقبولیت اور کام یابی کا زینہ طے کرتے ہوئے فلم سازوں سے بھاری معاوضے کا مطالبہ شروع کردیا تھا جس نے انھیں عروج سے زوال کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کہنے لگے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” کئی کام یاب فلمیں کرنے کے بعد ساون کو فلموں میں اہم کرداروں کی آفر کا سلسلہ بند ہوتا چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    یومِ‌ وفات: ماسٹر محمد صادق پاکستان کے واحد سازندے تھے جن کا ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ ریلیز ہوا تھا

    پاکستان کے مشہور موسیقار اور ہارمونیم نواز ماسٹر محمد صادق 5 جولائی 1987ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ماسٹر محمد صادق پنڈی والے کے نام سے معروف تھے۔

    ماسٹر محمد صادق 1923ء میں راولپنڈی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان فنِ‌ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھا۔ ان کے والد استاد نادر علی اور تایا استاد فیروز خاں نشی خاں والے اپنے زمانے کے معروف طبلہ نواز تھے۔ ماسٹر محمد صادق نے انہی سے طبلہ بجانا سیکھا اور گجرات کے میاں نبی بخش کالرے والے اور استاد کرم الٰہی ربابی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔

    اس زمانے میں ہارمونیم ایک مقبول ساز تھا اور موسیقی کی محافل میں‌ اس کا استعمال عام تھا۔ ماسٹر محمد صادق ہارمونیم بجانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وہ پاکستان کے واحد ہارمونیم نواز تھے جن کے ہارمونیم کا انسٹرومینٹل کیسٹ جاری ہوا تھا۔

    ان کے فن پر لوک ورثہ اور پاکستان ٹیلی وژن نے خصوصی ویڈیو فلمیں تیار کی تھیں۔ ماسٹر محمد صادق کے شاگردوں میں معروف گلوکارہ مالا اور ان کی بہن شمیم نازلی کے نام سرفہرست ہیں۔

    ماسٹر محمد صادق کو راولپنڈی میں قبرستان ڈھوک الٰہی بخش میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    ‘نقوش’ کے مدیر اور شخصیت و خاکہ نگار محمد طفیل کی برسی

    معروف ادیب اور مشہور ادبی جریدے ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے۔ انھوں‌ نے شخصیت اور تذکرہ نویسی کے علاوہ علمی و ادبی شخصیات سے خط و کتابت کو بھی اہمیت دی اور یہ خطوط اردو ادب میں معتبر و مستند ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انھیں محمد نقوش کا خطاب دیا تھا۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے وقت کے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی تھی۔ 1944ء میں انھوں نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ایک ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ لاہور سے شایع ہونے والے اس جریدے کے 18 شماروں کی اشاعت کے بعد محمد طفیل نے اس کی ادارت کی ذمہ داری خود سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کام یابی سے طباعت اور اشاعت کے مراحل طے کرتے ہوئے ہر لحاظ سے معیاری اور ممتاز جریدہ ثابت ہوا جس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام ور شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوئیں۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔

    محمد طفیل خاکہ نگار بھی تھے، ان کے خاکوں‌ کے مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کی خود نوشت بعد از وفات ناچیز کے عنوان سے نقوش کے محمد طفیل نمبر میں شایع کی گئی۔

    محمد طفیل کو حکومتِ پاکستان نے ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ میانی صاحب لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: مادام کیوری اپنی سائنسی دریافتوں کو قدرت کی خود پر مہربانی تصوّر کرتی تھیں

    یومِ وفات: مادام کیوری اپنی سائنسی دریافتوں کو قدرت کی خود پر مہربانی تصوّر کرتی تھیں

    میری کیوری جنھیں ہم مادام کیوری کے نام سے جانتے ہیں، 4 جولائی 1934ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئی تھیں۔ وہ نوبیل انعام یافتہ سائنس داں تھیں جنھوں نے تابکاری کے شعبے میں تحقیق اور اپنی دریافتوں کے سبب دنیا بھر میں‌ شہرت پائی۔ مادام کیوری طبیعیات اور کیمیا کے مضامین کی ماہر تھیں۔

    7 نومبر 1867ء کو پولینڈ میں‌ پیدا ہونے والی مادام کیوری کے والد ریاضی اور فزکس کے استاد تھے جب کہ والدہ لڑکیوں کے ایک بورڈنگ اسکول کی نگراں تھیں۔ مادام کیوری نے فرانس کی جامعہ سے اپنی تعلیم مکمل کی اور پھر اپنے شوہر کے ساتھ سائنسی تجربات اور تابکاری پر کام میں‌ مشغول ہوگئیں۔ انھوں نے ریڈیم دریافت کیا، لیکن اس دریافت سے پیسہ کمانے کے بجائے کہا کہ ’’ریڈیم مہربانی اور کرم ہے جو دنیا کی ملکیت ہے‘‘۔

    1934ء میں وہ خون کے خلیات کی ایک ایسی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوگئیں جو بہت زیادہ تابکاری اثرات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی برس ان کا انتقال ہوگیا۔

    عظیم سائنس داں آئن سٹائن نے مادام کیوری کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا: ’’ماری کیوری کی قوّت، اس کی قوّتِ ارادی، اس کی درویش صفتی، اس کی غیرجانب داری، اس کی لازوال منصف مزاجی … یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو شاذ و نادر ہی کسی ایک فرد میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اس کا عجز و انکسار حد سے بڑھا ہوا تھا۔‘‘

    تابکاری (radioactivity) کے شعبے کی بانی مادام کیوری نے دو مرتبہ نوبیل انعام حاصل کیا۔ انھوں نے طبیعیات کا نوبیل 1903ء میں جب کہ کیمیا کا یہ انعام انھیں 1911ء میں ملا جس کی وجہ ریڈیم اور پولونیم کی دریافتیں تھیں۔

  • مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    مشہور قوّال اور نام وَر کلاسیکی گلوکار منشی رضی الدّین کی برسی

    آج پاکستان کے نام وَر کلاسیکی گائیک اور قوّال منشی رضی الدّین کی برسی ہے۔ وہ 4 جولائی 2003ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    منشی رضی الدّین کا تعلق رام پور سے تھا جہاں انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے آبا و اجداد فنِ گائیکی اور قوّالی کے لیے مشہور تھے۔ یہ گھرانا امیر خسرو اور بہادر شاہ ظفر کے دور میں فنِ‌ موسیقی سے وابستہ تھا۔

    منشی رضی الدّین ابتدا میں نظام حیدر آباد(دکن) کے دربار سے وابستہ رہے اور بہت عزّت اور داد و انعام پایا۔ 1956ء میں وہ پاکستان آگئے اور اپنے رشتے کے بھائیوں کے ساتھ مل کر منشی رضی الدّین، منظور نیازی اور برادران کے نام سے قوّال گروپ تشکیل دیا۔

    1966ء سے انھوں نے اس فن میں اپنی الگ شناخت بنانے کا فیصلہ کیا جس میں ن کے بیٹے فرید ایاز اور ابو محمد بھی شامل تھے۔

    منشی رضی الدّین ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ علمِ موسیقی جانتے تھے اور مشہور ہے کہ وہ شعر کا مضمون بھانپ کر اپنی قوّالیوں میں اس کی تکرار کیا کرتے تھے جس سے ان کی گائیکی میں‌ سوز پیدا ہوتا اور ان کی گائیکی پُراثر ثابت ہوتی۔ وہ ریاض کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اپنے فن کے ساتھ مخلص تھے۔

    منشی رضی الدّین کا پسندیدہ ساز تان پورہ تھا اور ان کی قوالیوں میں تان پورے کا استعمال دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے قوّالی کے فن میں چار دہائیوں سے زائد عرصے کے طویل سفر میں کلاسیکی انداز کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ بخوبی اپنی آواز میں ڈھالتے رہے۔

    منشی رضی الدّین کو گائیکی اور قوّالی کے فن کے لیے خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

    کلاسیکی گائیکی کے اس نام ور فن کار کا مدفن لاہور میں ہے۔

  • معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    معروف لوک گلوکار الن فقیر کی برسی

    آج پاکستان کے نام ور لوک فن کار الن فقیر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 4 جولائی 2000ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    الن فقیرکا اصل نام علی بخش تھا۔ ان کا سنِ پیدائش 1932ء بتایا جاتا ہے۔ الن فقیر کا تعلق سندھ کے علاقے مانجھند، ضلع دادو سے تھا۔ ان کے والد دھمالی فقیر مشہور ساز شہنائی بجانے کے حوالے سے معروف تھے۔ یوں الن فقیر لوک گیت اور موسیقی سے شروع ہی سے مانوس ہوگئے۔ وہ سریلی آوازیں سنتے، مقامی سازوں کو دیکھتے اور انھیں‌ تھامنے اور بجانے کے فن کو سمجھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ اس ماحول نے ان کے اندر سوز و گداز پیدا کیا اور ایک وقت آیا کہ انھوں نے لوک فن کار کی حیثیت سے نام و مقام پیدا کیا۔

    الن فقیر کو سندھی شاعری کی مشہور صنف وائی گانے میں مہارت حاصل تھی۔ مقامی سطح پر اپنے فن کام مظاہرہ کرنے والے الن فقیر ریڈیو پاکستان اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب رہے اور یوں‌ انھیں ملک بھر میں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    وہ اپنی گائیکی کے مخصوص انداز کی وجہ سے ہر خاص و عام میں مقبول تھے۔ پرفارمنس کے دوران سندھ کے روایتی ملبوس کے ساتھ ان کا منفرد اور والہانہ انداز حاضرین و ناظرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔ گائیکی کے دوران الن فقیر کا مخصوص رقص، جھومنا اور مست و سرشاری کا عالم اپنی مثال آپ تھا۔

    سندھ کے عظیم شاعروں کا کلام گانے والے الن فقیر کا نام "تیرے عشق میں جو بھی ڈوب گیا، اسے دنیا کی لہروں سے ڈرنا کیا” اور "اتنے بڑے جیون ساگر میں تُو نے پاکستان دیا” جیسے گیتوں کی بدولت فن کی دنیا میں امر ہو گیا۔

    1987ء میں حکومتِ پاکستان نے الن فقیر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی جب کہ 1999ء میں پاکستان ٹیلی وژن نے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ عطا کیا تھا۔ الن فقیر جامشورو میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    یومِ وفات: ملک رحیم خان کو فلم نگری میں‌ سکّے دار کے نام سے پہچان ملی

    3 جولائی 2006ء کو ملک رحیم خان المعروف سکّے دار وفات پاگئے تھے۔ ان کی وجہِ شہرت فلم جبرو تھی جسے برطانوی راج پر ایک رجحان ساز فلم مانا جاتا ہے۔ اس فلم کے مکالمے اور منظر نامہ سکّے دار کا تحریر کردہ تھا۔

    ملک رحیم خان 1927ء کو لاہور کے قریب گاؤں نیاز بیگ میں پیدا ہوئے۔ انھوں‌ نے فلم نگری میں کہانی کار اور مکالمہ نویس کے طور پر نام بنایا اور اداکار و نغمہ نگار کے طور پر بھی کام یاب ہوئے۔ ایک فلم میں انھوں‌ نے ہندو بنیے کا کردار نبھا کر ناقدین سے خوب داد پائی۔ رحیم سکّے دار کو مکالموں‌ کی ادائیگی میں کمال حاصل تھا۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے اور فلموں کا اسکرپٹ جان دار ہوتا تھا۔

    رحیم سکّے دار چند کتابوں‌ کے مصنّف بھی تھے جو فلم نگری سے وابستہ شخصیات اور ان کے فن پر معلومات کا خزانہ ہیں۔ ان میں مشہور فلمی شاعر تنویر نقوی پر لکھی گئی کتاب بھی شامل ہے۔

    آج بہت کم لوگ رحیم سکّے دار کے نام اور ان کے کام سے واقف ہیں۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ لکھا۔ ان کا پنجابی شاعری پر مشتمل مجموعہ الاپ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    رحیم سکّے دار کی فلمیں‌ 60 اور 70 کی دہائی میں‌ خاصی مقبول ہوئیں۔

  • ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    ملّی نغمے ‘دل دل پاکستان’ کے خالق نثار ناسک کی برسی

    آج "دل دل پاکستان” جیسے مقبول ترین ملّی نغمے کے خالق نثار ناسک کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 3 جولائی 2019ء کو انتقال کرگئے تھے۔ نثار ناسک نے اردو اور پنجابی زبان میں شاعری کی۔

    سن 1943ء میں راولپنڈی میں پیدا ہونے والے نثار ناسک کی وجہِ شہرت ”دل دل پاکستان“ تھا جسے جنید جمشید نے گایا تھا۔ اس نغمے نے جنید جمشید کو راتوں رات شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    نثار ناسک کی دو کتابیں ”چھوٹی سمت کا مسافر“ اور ”دل دل پاکستان“ بھی شائع ہوچکی ہیں۔ انھیں پی ٹی وی کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا جب کہ ادبی خدمات کے اعتراف میں‌ انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی بھی دیا گیا۔

    نثار ناسک کے ملّی نغمے کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ بھی کہا گیا ہے۔