Tag: جولائی وفات

  • ابنِ مقلہ: ممتاز خطّاط اور ماہرِ کتابت و مراسلت

    ابنِ مقلہ: ممتاز خطّاط اور ماہرِ کتابت و مراسلت

    دنیائے عرب میں خوش نویسی ایک ایسا فن رہا ہے جس سے پاکیزگی اور روحانی مسرّت کا تصوّر جڑا ہوا ہے اور اسی فن کی ایک نہایت ممتاز اور معروف شکل خطّاطی کو عالمِ اسلام میں‌ باعثِ برکت و اعزاز سمجھا جاتا ہے ابنِ مقلہ عباسی دور کے ایک باکمال اور استاد خطّاط گزرے ہیں۔ وہ قدیم علمی و ثقافتی مرکز بغداد کے تین مشہور خطّاط میں سے ایک اور ایسے نادرِ روزگار ہیں جنھوں نے پہلی مرتبہ عرب دنیا میں‌ فنِ‌ خطّاطی کو قواعد و ضوابط کے ساتھ متعدد طرزِ تحریر دیے۔

    20 جولائی 940ء کو ابنِ مقلہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ محققین کے مطابق ان کا سنہ پیدائش 886ء ہے۔

    ابنِ مقلہ عباسی دربار میں‌ وزیر رہے اور سیاست میں‌ ان کا بڑا عمل دخل تھا۔ تاریخ‌ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ ابنِ مقلہ اپنے ابتدائی زمانہ میں‌ ایک غیر اہم اور کم آمدن شخص تھے۔ ابنِ کثیر جیسے جیّد نے ابنِ مقلہ کے بارے میں لکھا کہ ان کے حالات ناگفتہ بہ تھے، لیکن قسمت نے پلٹا کھایا تو خلافتِ عباسیہ کا تین بار وزیر بنا۔ اسی طرح خطّاطی کی تاریخ‌ سے متعلق کتاب میں‌ سیّد محمد سلیم لکھتے ہیں‌ کہ آغازِ کار میں ابنِ مقلہ دفترِ مال (دِیوانی) میں ملازم ہوا تھا۔ یہ ملازمت ایران کے کسی علاقے میں اُسے حاصل ہوئی تھی۔ بعد ازاں وہ ابی الحسن ابنِ فرات کا ملازم ہوا اور بغداد چلا آیا۔ بغداد میں اُس کی قابلیت کے جوہر کھلے اور یہاں اُس کی بیش بہاء قدر دانی بھی ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ روم و عرب کی جنگ کے بعد صلح نامہ اُس نے اپنے قلم سے لکھ کر روم بھیجا تھا جو وہاں فن (آرٹ) کے شاہکار کی حیثیت سے مدتوں شہنشاہِ روم کے خزانہ میں موجود رہا۔

    کہتے ہیں‌ کہ خلیفہ المقتدر باللہ نے 924ء میں ابنِ مقلہ کو وزیر مقرر کیا تھا۔ لیکن پھر ایک سازش کے نتیجے میں وہ روپوش ہونے پر مجبور ہوا اور یوں یہ عہدہ اس کے ہاتھ سے گیا، بعد میں‌ حالات بہتر ہوئے تو وہ دربار میں‌ پہنچا اور اسی منصب پر فائز ہوا۔ ابن مقلہ کو خلیفہ راضی باللہ کے زمانہ میں عروج حاصل ہوا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر محلّاتی سازشوں کا شکار ہوا اور اس مرتبہ قید کے ساتھ سخت جسمانی تکالیف بھی جھیلنا پڑیں۔

    قید خانے ہی کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے ہی ابنِ مقلہ کا انتقال ہوا تھا۔ ابنِ مقلہ کا مکمل نام ابوعلی محمد بن علی بن الحسین بن مقلہ تھا۔ انھیں ابنِ مقلہ شیرازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ماہرِ فنِ تحریر اور خطّاط ابنِ مقلہ نے علومِ متداولہ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ فقہ، قرأت، تفسیر اور عربی ادب میں ماہر تھے۔ انشاء اور کتابت و مراسلت پر زبردست گرفت تھی۔

    بغداد میں ابنِ مقلہ نے اپنی قابلیت اور فن کا مظاہرہ اس طرح‌ کیا کہ دربار سے عوام تک ان کی بڑی عزّت اور قدر کی گئی۔ دربارِ اکبری کے مشہور مؤرخ ابو الفضل نے اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ ابنِ مقلہ نے آٹھ خطوط ایجاد کیے جن کا رواج ایران، ہندوستان، بلادِ روم اور توران میں ہے۔

  • صاحبِ فضل و کمال مفتی صدر الدّین آزردہ کا تذکرہ

    صاحبِ فضل و کمال مفتی صدر الدّین آزردہ کا تذکرہ

    مفتی صدرالدّین آزردہ ہندوستان میں‌ انگریز دور میں ایک صاحبِ فضل و کمال تھے جنھیں جیّد عالم، دلّی کے منصف کے علاوہ شاعر کی حیثیت سے اردو ادب میں‌ بھی پہچانا جاتا ہے۔ آزردہ کا نام اُس زمانے کے سبھی تذکرہ نویسوں نے نہایت عزّت اور احترام سے لیا ہے۔ دلّی اور قرب و جوار کے اہلِ علم و ادب آزردہ سے ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔ مفتی آزردہ مرزا غالب کے دوست بھی تھے۔ آج آزردہ کا یومِ وفات ہے۔

    آزردہ کا نام محمد صدرالدّین تھا۔ ان کا سنہ پیدائش 1789ء اور وطن دہلی تھا۔ آزردہ نے اپنے وقت کے جیّد علما سے اسلامی علوم کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھیں انگریز دور میں مفتی کی حیثیت سے اس وقت کے ایک منصب صدرُالصّدور پر فائز کیا گیا تھا۔ آزردہ نے دہلی اور مضافات میں شرعی امور کے مطابق عدل و انصاف کے تقاضے پورے کیے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ تحریر و تقریر میں کمال کے ساتھ وہ متین، بامروّت اور احسان کرنے والے مشہور تھے۔ اس زمانے میں عالم فاضل شخصیات اور ادیب و شعرا بھی آزردہ کے گھر پر نشست کرتے اور مختلف علمی و ادبی موضوعات پر مباحث ہوتے تھے۔

    مفتی آزردہ اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شعر کہتے تھے۔ وہ شاہ نصیر کے شاگرد تھے۔ آزردہ اس دور میں منعقدہ مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے تھے۔ 1857ء کی جنگِ‌ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے پر انھیں گرفتار کر کے ان کی املاک ضبط کر لی گئی تھی۔ تاہم اس مقدمے میں‌ وہ اپنی حاضر دماغی کے سبب آزاد کر دیے گئے۔

    آزردہ کا کوئی دیوان موجود نہیں۔ لیکن ان کا جو کلام دست یاب ہے، وہ ان کی شاعرانہ حیثیت و مرتبہ متعین کرتے ہیں۔ آزردہ پر آخر عمر میں فالج کا حملہ ہوا تھا اور 1868ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    اپنے سرکاری فرائض کے علاوہ مفتی صاحب درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کے نام وَر شاگردوں میں سر سیّد احمد خاں، یوسف علی خاں ناظم (نواب رامپور)، مولانا ابوالکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدّین، نواب صدیق حسن خان (بھوپال) اور مولانا فیضُ الحسن خان جیسے لوگ شامل تھے۔

    آزردہ کے بارے میں‌ ایک تذکرے میں‌ لکھا ہے: ’’ان کی شخصیت مجموعۂ اوصاف ہی نہیں گوناں گوں محاسن کا گنجینہ تھی۔ عالم باعمل ہی نہیں بلکہ فقیہِ بے مثل بھی تھے۔ صرف و نحو، منطق و فلسفہ، ریاضت و اُقلیدس، معانی و بیانی، ادب و انشاء، فقہ و حدیث، تفسیر و اصول میں فردِ فرید اور نادرۂ عصر تھے۔ علماء کی مجلس میں صدر نشیں، شعراء کے جمگھٹے میں میرِ مجلس، حکام کے جلسوں میں مؤقر و ممتاز، طالبانِ علم و فن کے استاد ہی نہیں بلکہ سرپرست و مربی بھی تھے۔ ‘‘

    ایک واقعہ بہت مشہور ہے کہ آزردہ کے دوست مرزا غالب بہت مقروض ہو گئے، قرض خواہوں نے مقدمہ درج کرایا۔ آزردہ کی عدالت میں جب غالب کی پیشی ہوئی تو انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

    قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
    رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

    آزردہ نے اپنی جیب سے قرض کا روپیہ ادا کردیا۔ گلشنِ بیخار میں نواب مصطفیٰ خاں شیفتہ نے آزردہ سے متعلق لکھا:

    ’’جھگڑوں کے فیصلہ کرنے پر مامور ہیں جو منصبِ اعلٰی ہے جس کو اہلِ فرنگ کی اصطلاح میں صدر الصدور کہتے ہیں۔ فی زمانہ ان کی سلطنت میں اہلِ ہند کے لائق اس سے بڑا کوئی عہدہ نہیں ہے۔ مولانا نے اس دنیوی کسبِ معاش کے ذریعے کو دینی ثواب حاصل کرنے کا وسیلہ بنا رکھا ہے، کیونکہ ان کی تمام تر کوشش مخلوق کی حاجت روائی میں صرف ہوتی ہے۔ ان کے انصاف کی برکت ہر خاص و عام پر محیط ہے۔ ‘‘

    مفتی صدرالدّین آزردہ کے بہی خواہ تو بہت تھے، لیکن حاسد بھی اپنے حسد کی آگ میں‌ جلتے ہوئے ان پر معترض ہوتے اور ان کے خلاف باتیں‌ بناتے رہتے تھے۔ آزردہ انگریز سرکار سے تنخواہ اور مراعات پاتے تھے کہ ان کی ملازمت انگریز راج میں جاری تھی۔ لیکن وہ انگریزوں کے خلاف اور بہادر شاہ ظفر کے ہمدرد اور غم گسار بھی تھے۔ جہاد کے فتویٰ پر اُن کے دستخط کا معاملہ، ان کی گرفتاری اور پھر اپنی ذہانت سے رہائی پانے کا واقعہ تاریخِ ہندوستان سے متعلق کتب کے علاوہ اردو ادب میں بھی مشہور ہے، اور اس کا ذکر مرزا غالب نے کیا ہے۔

    دراصل غالب ان تمام واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔ اپنے خطوط میں غالب نے آزردہ کی سزا اور رہائی کا اپنے احباب سے تذکرہ کیا ہے۔ مرزا غالب نے حکیم سیّد احمد حسن مودودی کے نام خط میں لکھا ہے:

    ’’مولوی صدرُ الدّین صاحب بہت دن حوالات میں رہے۔ کورٹ میں مقدمہ پیش ہوا۔ روبکاریاں ہوئیں۔ آخر صاحبانِ کورٹ نے جاں بخشی کا حکم دیا۔ نوکری موقوف، جائیداد ضبط، ناچار خستہ و تباہ حال لاہور گئے۔ فنانشل کمشنر اور لیفٹنٹ گورنر نے از راہِ ترحّم نصف جائیداد وا گزاشت کی۔ اب نصف جائیداد پر قابض ہیں۔ اپنی حویلی میں رہتے ہیں۔ کرایہ پر معاش کا مدار ہے۔ اگرچہ بہ آمدنی ان کے گزارے کو یہ کافی ہے۔ کس واسطے کہ ایک آپ اور ایک بی بی۔ تیس چالیس روپے مہینہ کی آمدنی۔‘‘

  • ’’انوکھی‘‘ کی شیلا رامانی کا تذکرہ

    ’’انوکھی‘‘ کی شیلا رامانی کا تذکرہ

    وہ لوگ جو عمرِ عزیز کی پچاس سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اور سنیما کے شوقین رہے ہیں تو اُنھوں‌ نے شیلا رامانی کی وہ فلم ضرور دیکھی ہو گی، جس کا یہ گیت آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘

    ماضی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے والوں‌ میں‌ کئی ایسے چہرے بھی تھے جن کا تعلق بھارت یا دوسرے ممالک سے تھا۔ انھوں‌ نے ہر قسم کے کردار ادا کیے اور پاکستانی فلموں‌ میں ٹائٹل رول بھی نبھائے۔ اس ضمن میں پاکستانی فلم ’’انوکھی‘‘ کی بات کریں تو اس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ فلم کی ہیروئن کا نام ’’شیلا رامانی‘‘ تھا جو تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئی تھیں، اور بعد میں بھارت ہجرت کرگئیں جہاں انھوں نے ممبئی کی فلم نگری میں‌ خوب کام کیا۔

    فلم میں شیلا رامانی کے مدمقابل اداکار شاد تھے۔ فلم ’’انوکھی‘‘ کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے بلوایا گیا تھا۔ یہ فلم 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے اپنے کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان کی پرفارمنس یادگار رہی، جب کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے….‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ یہ گیت سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ نے 14 جولائی 2015ء کو وفات پائی۔ وہ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ چیتن آنند نے شیلا رامانی کو بالی وڈ میں متعارف کرایا تھا اور 1954ء میں جب اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی تو شائقین نے ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ شیلا رامانی شادی کے بعد امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کر کے شائقین سے اپنی شان دار اداکاری پر خوب داد سمیٹی۔

  • مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن: ایک عظیم موسیقار

    مدن موہن کو برصغیر میں ایک ایسے موسیقار کی حیثیت سے شہرت ملی جن کا ہر گیت یادگار ثابت ہوا اور انھوں نے اپنے فنی سفر میں‌ بڑا نام و مرتبہ پایا۔ وہ بالی وڈ کے عظیم موسیقار کہلائے۔ فلمی موسیقی کے حوالے سے آج بھی ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔ مدن موہن 1975ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    مدن موہن کا وطن عراق تھا جہاں انھوں نے 25 جون 1924ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد یہاں‌ سرکاری ملازمت کے سلسلے میں‌ مقیم تھے۔ وہ عراق میں‌ ایک محکمہ میں اکاؤنٹنٹ جنرل کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ ان کا نام رائے بہادر چنی لال کوہلی تھا۔ وہ اپنی ملازمت چھوڑ کر آبائی شہر چکوال آگئے جو اب پاکستان کا حصّہ ہے۔ چکوال کے موتی بازار میں مدن موہن کے دادا کا بڑا گھر تھا اور کہتے ہیں‌ کہ وہ اپنے وقت کے ایک جانے مانے حکیم تھے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر علاقے میں یوگ آشرم مشہور ہوگیا تھا۔ چنی لال آبائی علاقے میں لوٹنے کے کچھ عرصہ بعد کاروبار کی غرض سے ممبئی چلے گئےاور مدن موہن کو چکوال میں‌ ان کے دادا کے پاس چھوڑ دیا۔ مدن موہن نے لاہور میں‌ ابتدائی تعلیم حاصل کرتے ہوئے کلاسیکی موسیقی کی تھوڑی بہت تربیت بھی حاصل کی۔ لیکن باقاعدہ یہ فن کسی سے نہیں‌ سیکھا۔ پھر یہ گھرانا ممبئی منتقل ہوگیا اور وہاں‌ مدن موہن نے سینٹ میری اسکول میں داخلہ لیا۔ اس کے ساتھ وہ ریڈیو پر موسیقی اور بچّوں‌ کے پروگراموں میں‌ جانے لگے اور وہیں ان کا فنِ موسیقی کا شوق صحیح معنوں میں‌ پروان چڑھا۔ ممبئی شہر اپنی فلمی صنعت اور نگار خانوں کے لیے شہرت رکھتا تھا اور اس زمانے میں وہاں‌ فلم ساز، اداکار اور بڑے بڑے موسیقار مصروف نظر آتے تھے۔ ریڈیو پر بھی کئی بڑے گلوکار اور موسیقار اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ مدن موہن یہاں اپنا شوق پورا کرتے۔ انھیں برٹش آرمی میں کمیشن مل گیا لیکن دوسری جنگِ‌ عظیم کے بعد وہ نوکری چھوڑ کر ریڈیو سے پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر منسلک ہوگئے۔ وہ اپنے موسیقی کے شوق کی تکمیل اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں‌ کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مدن موہن کی والدہ شاعری اور موسیقی کا عمدہ ذوق رکھتی تھیں اور مدن موہن کو بھی انہی کو دیکھ کر یہ شوق ہوا تھا۔

    آل انڈیا ریڈیو پر ان کی شناسائی جن عظیم موسیقاروں اور بڑے گلوکاروں سے ہوئی ان میں استاد فیاض علی، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر، طلعت محمود کے نام شامل ہیں مدن موہن گلوکاری کے بڑے شوقین تھے اور چند مشہور شعرا کا کلام گانے کے بعد انھوں نے بطور موسیقار فلم انڈسٹری کے لیے کام شروع کردیا۔ 1948ء میں انھوں نے فلم شہید کے لیے گانا ریکارڈ کروایا جو بہت مقبول ہوا اور اس کے بعد ایک فلم بطور معاون موسیقار کی۔

    بالی وڈ میں‌ مدن موہن کو پہلی قابلِ ذکر کام یابی 1950ء میں ملی جب انھوں نے فلم "آنکھیں” کی موسیقی ترتیب دی۔ اس فلم نے انھیں انڈسٹری میں نام دیا۔ اس زمانے میں لتا اور محمد رفیع جیسے گلوکاروں کا ہر طرف شہرہ تھا اور مذکورہ فلم کا گیت "ہم عشق میں برباد رہیں گے” بہت مقبول ہوا جسے محمد رفیع نے گایا تھا۔ مدن موہن کی اگلی کام یاب فلم "ادا” تھی جس میں لتا منگیشکر نے ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر نغمات ریکارڈ کروائے۔

    فلم کے موسیقار کی حیثیت سے مدن موہن نے کئی یادگار دھنیں تخلیق کیں جنھیں آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ موسیقار مدن موہن چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور بعد از مرگ انھیں "آئیفا ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ پچاس کے اواخر میں‌ اپنی کام یابیوں کا آغاز کرنے والے مدن موہن نے اگلی تین دہائیوں میں بطور موسیقار اپنا عروج دیکھا۔

    یہ وہ چند یادگار فلمی گیت ہیں جن کی موسیقی مدن موہن نے ترتیب دی تھی۔

    نیناں برسیں رِم جھم رم جھم…
    آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل کے مجھے
    لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو…
    وہ بھولی داستاں لو پھر یاد آگئی
    یوں حسرتوں کے داغ جگر میں سمو لیے…

  • پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    پران: وہ ولن جس نے بڑے پردے پر راج کیا

    اداکار پران نے ہندی سنیما کو اپنی زندگی کے پورے چھے عشرے دیے۔ 1998ء میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد فلموں سے دور ہوجانے والے پران نے 12 جولائی 2013ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    پران کے بارے میں‌ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے بڑے پردے پر راج کیا اور ایک بولی وڈ کے ایسے ولن رہے جن کی مقبولیت کبھی کم نہیں ہوئی۔ بھارتی سنیما میں اگر امیتابھ بچن کو ‘ہیرو آف ملینیئم’ کے طور پر جانا گیا تو پران کو ‘ولن آف دی ملینیئم’ کہا جاتا ہے۔ 1969ء اور 1982ء کے دوران وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والے اداکار رہے ہیں۔ پران نے 350 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    بھارت کے اس مشہور فلمی اداکار کا پورا نام پران کرشن سکند تھا جو پرانی دہلی کے علاقے بلی ماراں میں 12 فروری 1920ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد سول انجینیئر تھے جن کا قیام سرکاری کاموں‌ کی غرض سے مختلف شہروں میں رہا۔ تعلیم کے شعبے میں پران نے بڑی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، وہ ریاضی کے مضمون میں طاق تھے اور اس مضمون میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ دہلی میں بطور پروفیشنل فوٹوگرافر کام کرنے لگے تھے۔ اور پھر ایک اسکرپٹ رائٹر کے کہنے پر فلم نگری میں‌ چلے آئے، لیکن یہ بات تقسیمِ ہند سے قبل کی ہے جہاں لاہور میں پران نے اداکاری کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے فلمی کیريئر کی ابتدا بہ طور ہیرو کی تھی اور 1940ء میں پہلی مرتبہ ’جٹ یملا‘ میں نظر آئے تھے۔ لیکن ان کی شکل و صورت، چال ڈھال اور انداز ایسا تھا کہ انھیں ہدایت کاروں نے ولن کے روپ میں‌ پردے پر آزمانا زیادہ بہتر سمجھا اور یوں پران نے اس سمت میں اڑان بھری۔ تقسیمِ ہند کا اعلان ہوا تو پران بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے اور جلد ہی جگہ بنالی، فلم بین واقعی ان کے منفی روپ سے نالاں اور بطور ولن ان کے عزائم اور ارادوں سے متنفر نظر آتے تھے۔ لیکن صفِ اوّل کے ولن پران نے اسی روپ میں‌ مزاحیہ اداکاری بھی اس طرح کی کہ ولن کے کیریکٹر کو ایک الگ پہچان ملی۔

    اداکار پران نے فلم ضدی، بڑی بہن، میرے محبوب، زنجیر کے علاوہ کئی سپرہٹ فلموں میں ولن کا رول ادا کیا اور امیتابھ بچن اور سپر اسٹار کا درجہ رکھنے والے کئی اداکاروں کے ساتھ کام کرکے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے ہندی سنیما کی دھوم مچا دینے والی فلم ڈان، امر اکبر انتھونی اور شرابی میں بھی کردار ادا کیے تھے۔ اسی طرح دلیپ کمار کی فلموں دیوداس، مدھومتی، دل دیا درد لیا، رام اور شیام اور آدمی میں بھی بطور ولن پران کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا۔

    آواز میں انفرادیت اور مکالمے ادا کرنے کا انداز بھی بطور ولن پران کی اس قدر مقبولیت کی ایک وجہ تھا۔ انھوں نے مار دھاڑ کرنے والے، ایک بدمعاش، قاتل اور چور اچکے کا ہی کردار نہیں نبھایا بلکہ ایک نیک سیرت اور رحم دل انسان کے طور پر بھی ناظرین کے سامنے آئے اور ان مضبوط کرداروں میں پران کی شان دار پرفارمنس نے شائقین کو ان کا مداح بنا دیا۔

    فلم اور شوبزنس انڈسٹری کے علاوہ سرکاری سطح پر بھی پران کو اعزازات سے نوازا گیا اور فنِ اداکاری میں ان کی بے مثال پرفارمنس کو تسلیم کیا گیا۔ سنہ 1997 میں انھیں لائف ٹائم ایوارڈ دیا گیا اور پھر وہ ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ سے نوازے گئے۔ اداکار پران نے 1945ء میں شکلا اہلووالیا سے شادی کی تھی اور وہ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے باپ تھے۔

  • آغا ناصر کا تذکرہ جو ’’جیتے جی مصروف رہے!‘‘

    آغا ناصر کا تذکرہ جو ’’جیتے جی مصروف رہے!‘‘

    ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ اور ’’الف نون‘‘ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہرے دور کے لازوال ڈرامے ہیں اور آج تک ان کی مقبولیت برقرار ہے۔ ان ڈراموں کے ہدایت کار آغا ناصر تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    آغا ناصر پاکستان میں پروڈیوسر اور ریڈیو اور ٹی وی کے ایسے ہدایت کار کے طور پر شہرت رکھتے ہیں جن کے تذکرے کے بغیر پی ٹی وی کی تاریخ مکمل نہیں‌ ہوسکتی۔ 12 جولائی 2016ء کو اسلام آباد میں‌ آغا ناصر انتقال کر گئے تھے۔

    9 فروری 1937ء میں آغا ناصر نے میرٹھ کے قصبے فرید نگر میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں‌ نے بی اے کا امتحان سندھ مسلم کالج سے پاس کیا اور پھر قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے، اور یہاں آنے کے بعد تاریخ کے مضمون میں جامعہ کراچی سے ایم اے کیا۔ آغا ناصر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1955ء میں ریڈیو پاکستان سے بحیثیت براڈ کاسٹر کیا تھا۔ بعد میں وہ اس ادارے میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ملک میں ٹیلی ویژن سینٹر کے قیام کے بعد آغا ناصر جیسے قابل اور باصلاحیت براڈ کاسٹر اور پروڈیوسر کو پی ٹی وی سے منسلک ہونے کا موقع ملا اور 1964ء میں انھوں نے نشریاتی ادارے میں اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی کام کیا جب کہ شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور نیف ڈیک کے سربراہ رہے۔

    آغا ناصر ایک علمی و ادبی شخصیت تھے جن کے بارے میں‌ کشور ناہید اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں، "وہ شخص جس نے ساری عمر میڈیا میں گزاری۔ فیض صاحب سے عشق کیا۔ ان کے شعروں اور نظموں کی ایسی تشریح کی کہ ہم جیسے لوگ جو فیض صاحب سے قربت کا دعویٰ کرتے تھے، وہ بھی کتاب پڑھ کر حیران رہ گئے۔ اس کو آپ سب اور ہم آغا ناصر کے نام سے پکارتے، جانتے اور پہچانتے تھے۔ اس نے ایک سال تک موت کو للکارا، صفیہ کی محبت اور بچوں کی خدمت کا امتحان لیا۔ جب اسے اطمینان ہوگیا کہ اب سب سوئے ہوئے ہیں۔ خاموشی سے نیند کے عالم میں اپنی محبتوں، دوستیوں اور کتابوں کو خدا حافظ کہا۔”

    1974 میں اسلامی ممالک کی کانفرنس کا سارا انتظام بھی آغا صاحب کے ذمہ تھا۔ اس سے قبل بھارت سے جنگ کے زمانے میں انھوں نے عالی جی اور دیگر شعرا سے قوم کا لہو گرمانے اور محاذ پر لڑنے والے اپنے فوجی بھائیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے نغمات لکھوائے اور انھیں پی ٹی وی سے نشر کیا گیا۔

    خواجہ معین الدّین کے سماجی طنز و مزاح پر مبنی ڈرامہ ’’تعلیمِ بالغاں‘‘ کو آغا ناصر نے بہ طور ہدایت کار پی ٹی وی پر پیش کیا تھا۔ 1966ء میں اس ڈرامے نے مقبولیت کی تمام حدیں گویا توڑ دی تھیں۔ اس سے قبل پی ٹی وی کے ناظرین ڈرامہ سیریز ’’الف نون‘‘ سے لطف اندوز ہوئے اور یہ بھی مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک تھا جس کے ہدایت کار آغا ناصر ہی تھے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ان کے پیش کردہ پروگراموں‌ میں ’’اسٹوڈیو نمبر 9 ‘‘ اور’’حامد میاں کے ہاں‘‘ بہت مشہور ہوئے۔

    ریڈیو اور پی ٹی وی کے اس باکمال اور ماہرِ نشریات نے ڈرامے لکھے اور ان کی خودنوشت سوانح آغا سے آغا ناصر بھی سامنے آئی۔ آغا ناصر نے اپنی یادوں، باتوں اور ملاقاتوں پر مبنی تذکرے، دورانِ ملازمت پیش آنے والے واقعات کو بھی رقم کیا اور اس خودنوشت کے علاوہ ان کی کتابیں ’گمشدہ لوگ‘، ’ گلشنِ یاد‘ اور’ہم، جیتے جی مصروف رہے‘ کے نام سے سامنے آئیں۔

    فنِ نشریات اور پیش کاری کے لیے آغا ناصر کی شان دار خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔ انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

  • احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں اور ان کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ ادبی دنیا میں‌ احمد ندیم قاسمی کی توجہ، حوصلہ افزائی اور شفقت کی بدولت کئی نام بطور ادیب، شاعر اور نقّاد آج پہچان رکھتے ہیں اور اکثر نے ادب اور فنونِ لطیفہ میں بڑا مقام و مرتبہ پایا۔ آج احمد ندیم قاسمی کا یومِ وفات ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ایک بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور کالم نویس تھے جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس زمانے میں‌ انھیں‌ دو مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا۔ اُن کا انتقال 10 جولائی 2006ء کو ہوا تھا۔ وہ ان شخصیات میں سے ایک تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:

    ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے فنون کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔

    پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر سے ممتاز علمی و ادبی شخصیات نے احمد ندیم قاسی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی پیغامات میں‌ کہا کہ فنون و ادب کی دنیا میں ان کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پُر نہیں‌ ہوسکے گا۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑ گئے، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

  • پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    ایک زمانہ تھا جب ملک میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے میڈیم نہ صرف معیاری تفریحی پروگراموں اور ڈراموں کی وجہ سے سامعین اور ناظرین میں‌ مقبول تھے بلکہ کنبے کا ہر فرد اُس دور کے فن کاروں سے مانوس ہوتا تھا۔ ذہین طاہرہ بھی پاکستان بھر میں‌ پہچانی جاتی تھیں اور ہر چھوٹا بڑا ان کا مداح تھا۔ آج ٹیلی ویژن کی منجھی ہوئی اور سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی ہے۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ کئی دہائیوں تک فنِ اداکاری سے منسلک رہیں‌ اور لگ بھگ سات سو ڈراموں‌ میں کام کیا۔ ذہین طاہرہ نے اپنے کیریئر کا آغاز 1960ء میں بطور اداکارہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے اسٹیج اور ریڈیو کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے کئی مقبول ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین سے داد وصول کی۔

    ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا ریکارڈ ساز ڈرامہ سمجھا جاتا ہے جس میں 1974 میں ذہین طاہرہ نے مرکزی کردار ادا کر کے شہرت حاصل کی تھی۔ یہ ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی کی کہانی پر مبنی تھا جسے پی ٹی وی کے سنہری دور میں‌ کلاسک کا درجہ حاصل ہوا۔ ذہین طاہرہ نے پاکستانی فلموں میں بھی اداکاری کی اور ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں منزل، مراد، آنگن ٹیڑھا، کرن کہانی، عروسہ، دستک، دیس پریس، وقت کا آسمان، شمع، وغیرہ شامل ہیں۔ ذہین طاہرہ کو 2013 میں تمغائے امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھیں جہاں طبیعت بگڑنے پر انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا، لیکن 9 جولائی 2019ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 1930ء میں آنکھ کھولی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے آنے والا ان کا کنبہ کراچی میں سکونت پذیر ہوا۔

    ان کے زیادہ تر ڈرامے سماجی ناہمواریوں، معاشرتی رویوں اور عام گھریلو کہانیوں سے متعلق تھے جن میں سے بیشتر میں ذہین طاہرہ کا کردار بہت طاقت ور تھا۔ ذہین طاہرہ نے ان کرداروں کو بخوبی نبھایا اور اپنے فنِ اداکاری سے ان میں‌ حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ ذہین طاہرہ گلوکاری کا بھی شوق رکھتی تھیں۔ انھوں نے کئی مواقع پر اپنے احباب کی فرمائش پر گیت گا کر انھیں محظوظ کیا۔

    حلقۂ احباب بالخصوص ساتھی فن کار ذہین طاہرہ کو انتہائی نفیس، شفیق اور شگفتہ مزاج خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اداکارہ کو ذاتی زندگی میں اپنی بیٹی کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہونے اور بہو کے انتقال کا دکھ جھیلنا پڑا تھا، لیکن انھوں نے ہمّت سے کام لیا۔ وہ نہایت بااخلاق اور اعلیٰ اقدار کی حامل خاتون تھیں جب کہ ساتھی فن کاروں‌ اور جونیئرز کے لیے خاص طور پر ایک ایسی سینئر اداکارہ تھیں‌ جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔

  • مشہور لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ

    مشہور لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ

    بیسویں صدی کے اواخر میں آنکھ کھولنے والی ایک نسل کی سماعتوں میں‌ آج بھی یہ گیت تازہ ہے جس کے بول تھے، ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ بلکہ ہر اُس فرد نے یہ گیت سنا جو گیت کی بولی سے ناواقف تھا، وہ بھی مائی بھاگی کی آواز کے سحر میں‌ گرفتار ہوا۔

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرّت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سماعتیں اس کی دیوانی ہوجاتی تھیں۔ آج مائی بھاگی کی برسی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں لگ بھگ 1920ء میں آنکھ کھولی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد اپنے شہر اور گرد و نواح میں شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے گاتے اور نوحے پڑھتے جو ان کی روزی روٹی کا وسیلہ تھا۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ ان تقریبات میں لے جانا شروع کر دیا تھا۔جہاں وہ ڈھول بجا کر اپنے باپ کا ساتھ دیتیں‌۔ کچھ وقت گزرا تو مائی بھاگی نے گانا بھی شروع کردیا۔ لوک گیتوں کو گانے کی تربیت ان کے والد نے کی تھی۔

    مائی بھاگی بڑی ہوئیں تو والدین کی اجازت سے اپنے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات اور خوشی و غم کے مواقع پر گانے کے لیے جانے لگیں۔ وہ اَن پڑھ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناواقف ضرور تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی کو غربت، اور دیہی زندگی کے مسائل نے حالات کا مقابلہ کرنا اور اعتماد سے جینا ضرور سکھا دیا تھا۔

    مائی بھاگی نے نہ صرف اپنی آواز اور اپنے فنِ گائیکی کے سبب ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی شوق سے سنی جاتی تھی، مائی بھاگی کا فن بھی وہاں‌ تک پہنچا اور انھیں‌ سراہا گیا۔ سادہ دل اور منکسرالمزاج مائی بھاگی نے لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پائی۔ انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کی شادی ہوتھی فقیر سے اس وقت ہوئی جب مائی بھاگی کی عمر سولہ سال تھی۔ ہوتھی فقیر بھی تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ سے تعلق رکھنے والے لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرتی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں میں گیت گائے۔ مائی بھاگی کو 1963 میں اس وقت بڑی کام یابی نصیب ہوئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں موجود تھیں جہاں‌ کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات نے ان کو سنا اور ان سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس میلے میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد مرکز سے وابستہ آرٹسٹ اور عملہ بھی موجود تھا جس نے مائی بھاگی کی آواز ریکارڈ کی اور بعد میں ریڈیو پر ان کا ٹیپ نشر کر دیا۔ یوں‌ مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ ریڈیو کے سامعین مائی بھاگی کے گیت سننے کی فرمائش کرنے لگے اور تب 1966 میں اس لوک گلوکارہ سے رابطہ کرکے ان کی آواز میں چند گیت ریڈیو پاکستان کے لیے ریکارڈ کیے گئے اور بعد میں مائی بھاگی ٹیلی ویژن پر بھی نظر آئیں۔

    صحرائے تھر کی اس گلوکارہ کو کراچی میں پی ٹی وی کے پروگرام میں‌ پہلی مرتبہ لوگوں نے دیکھا اور یوں ان کا سفر آگے بڑھتا رہا۔ مائی بھاگی نے ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت ریکارڈ کروائے اور ان کے انٹرویو بھی نشریات کا حصّہ بنے-

    9 جولائی 1986 میں مائی بھاگی کو فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجازِ مقدس روانہ ہونا تھا، مگر دستِ اجل نے انھیں مہلت نہ دی اور 7 جولائی کو مائی بھاگی سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئیں۔ لوک گلوکارہ کو حکومت نے تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • معروف شاعر، ادیب اور محقق خاطر غزنوی کا یومِ‌ وفات

    معروف شاعر، ادیب اور محقق خاطر غزنوی کا یومِ‌ وفات

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    باذوق افراد اردو شاعری سے لگاؤ رکھنے والوں کی اکثریت اس شعر کے خالق کے نام سے ضرور واقف ہوگی۔ خاطر غزنوی اردو اور ہندکو کے ممتاز شاعر تھے جن کی آج برسی ہے۔ خاطر غزنوی کی علمی اور ادبی تصانیف بھی ان کی پہچان ہیں۔

    7 جولائی 2008ء کو وفات پانے والے خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ انھوں نے 25 نومبر 1925ء کو پشاور کے ایک گھرانے میں جنم لیا۔ ریڈیو پاکستان کے پشاور مرکز سے خاطر غزنوی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ہندکو زبان میں بھی لکھا اور ہم عصروں‌ میں اپنی پہچان بنائی۔ وہ چینی زبان بھی جانتے تھے اور اس کی تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ جامعہ پشاور سے اردو زبان میں ایم اے کرنے کے بعد خاطر غزنوی باقاعدہ تدریس سے منسلک ہوئے۔ اس عرصے وہ ادبی جرائد میں کام کرنے کے ساتھ اپنا تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی جاری رکھے رہے۔ 1984ء میں خاطر غزنوی کو اکادمی ادبیات پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ سونپا گیا۔ انھوں نے بڑوں کے لیے ہی نہیں لکھا بلکہ بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔

    خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری شامل ہیں جب کہ علمی و ادبی نثر پر مشتمل ان کی کتابوں میں زندگی کے لیے، پھول اور پتّھر، چٹانیں اور رومان، سرحد کے رومان، پشتو متلونہ، دستار نامہ، پٹھان اور جذباتِ لطیف، خوش حال نامہ اور چین نامہ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے نظمیں بھی لکھیں۔ ہندکو اور پشتو ادب سے متعلق خاطر غزنوی کی متعدد کتب ان کی تصنیف اور تالیف کردہ ہیں۔ ان کی یہ کتب لوک داستانوں، اور مقامی ادب کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اصنافِ ادب اور تخلیق کاروں سے متعلق ہیں‌ جنھیں ان موضوعات پر سند و حوالہ سمجھا جاتا ہے۔ خاطر غزنوی کے اس علمی و تحقیقی کام کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    ادیب، شاعر اور محقق خاطر غزنوی پشاور کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک ہوئے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک ایک کرکے لوگ نکل آئے دھوپ میں
    جلنے لگے تھے جیسے سبھی گھر کی چھاؤں میں