Tag: جولائی وفات

  • ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    ‘شرلاک ہومز’ کے خالق جنھیں‌ ترکی کے سلطان نے اعزاز سے نوازا

    شرلاک ہومز نے 1887ء میں فکشن کی دنیا میں جنم لیا۔ اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے طفیل جاسوسی ادب کے قارئین کو ایک ذہین اور نہایت دل چسپ کردار ملا جو سراغ رساں اور ماہر جاسوس تھا۔ یہ کردار آرتھر کونن ڈوئل کے ذہن کی اختراع تھا جو 1930ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے۔

    اِس کردار نے اپنے برطانوی تخلیق کار کے چار ناولوں اور پچاس سے زائد افسانوں میں پیچیدہ، مشکل اور نہایت پُراسرار یا معمّا بن جانے والے کیسز کو اپنی ذہانت سے حل کیا اور خوب مقبول ہوا۔ کہانی کے کسی منظر میں جب شرلاک ہومز کو قارئین محدب عدسہ تھامے، جرم کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھانے کے دوران پائپ کے کش لگاتے اور اپنے ساتھی کو اشاروں میں ہدایات دیتے ہوئے پاتے تو یہ جاننے کے لیے بیتاب ہوجاتے کہ مجرم کون ہے اور کب اس کا راز سب پر کھلے گا؟

    شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔جب ڈویل کی کہانیاں بشمول اردو دنیا بھر میں‌ ترجمہ کی گئیں تو شرلاک ہومز کی شہرت اور مقبولیت بھی عروج پر پہنچ گئی۔ ہندوستان بھر میں اردو، ہندی زبانوں میں‌ ڈوئل کی کہانیوں کے تراجم شوق سے پڑھے گئے اور وہ سب کا پسندیدہ بن گیا۔

    مصنّف آرتھر ڈوئل کی یہ کہانیاں کتابی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں اور دنیا کی ہر بڑی زبان میں ان کے تراجم بھی خوب بِکے۔

    آرتھر کونن ڈوئل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کو برطانیہ میں سَر کا خطاب دیا گیا تھا وہ اسکاٹ لینڈ کے باشندے تھے جہاں انھوں نے 1859 میں آنکھ کھولی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک معالج کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی صلاحیت کے حامل ڈوئل پُراسرار واقعات اور جرم و سزا کی دنیا میں‌ دل چسپی لینے لگے اور بعد کے برسوں میں‌ ان کو جرم و سزا سے متعلق جدید افسانوں کا بانی مانا گیا۔ ڈوئل نے افسانوی اور غیر افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور ڈرامہ نگاری بھی کی۔ وہ شاعر بھی تھے۔

    ڈوئل نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1885ء میں طبّ کے مضمون میں سند حاصل کی اور پھر پریکٹس شروع کردی۔ اسی زمانے میں وہ مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے لگے تھے اور پھر شارٹ اسٹوریز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں کو شائع کروایا تو برطانیہ میں قارئین نے انھیں بہت پسند کیا جس کے بعد ڈوئل نے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا جس نے ہر چھوٹے بڑے کو جاسوسی ادب کا دیوانہ بنا دیا۔

    آرتھر ڈوئل وہ برطانوی مصنّف تھے جن کو ترکی کے سلطان کی جانب سے "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا۔ یہ اعزاز انھیں شرلاک ہومز جیسا کردار تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    سراغ رساں شرلاک ہومز کے دیوانے اور ڈوئل کے مداح آج بھی ان کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہر سال ان کی یاد تازہ کرتے ہوئے تقاریب اور ادبی مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے جب کہ مختلف شہروں‌ میں آرتھر ڈوئل کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔

    جارج ایڈورڈ چیلنجر جسے صرف پروفیسر چیلنجر پکارا جاتا تھا، اسی برطانوی مصنّف کا ایک افسانوی کردار تھا جس کی عادات اور مزاج شرلاک ہومز سے یکسر مختلف تھیں۔ آرتھر ڈوئل کا یہ شہرۂ آفاق کردار بردبار اور متحمل مزاج ہے جو اس کی شخصیت میں رنگ بھرتا ہے جب کہ پروفیسر چیلنجر کو مصنّف نے غصیلا اور اکھڑ مزاج دکھایا ہے جو اکثر دوسروں‌ پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔

    کہتے ہیں کہ مصنّف نے یہ دونوں کردار حقیقی زندگی سے لیے تھے۔ یہ لوگ آرتھر ڈوئل کے حلقۂ احباب میں‌ شامل تھے۔

  • ہدایت کار چیتن آنند کا فلمی سفر اور اداکارہ پریا سے بے نام تعلق

    ہدایت کار چیتن آنند کا فلمی سفر اور اداکارہ پریا سے بے نام تعلق

    مشہور ہدایت کار چیتن آنند کو ان کی فلم ’نیچا نگر‘ نے بین الاقوامی سطح پر پہچان دی۔ اس کاوش پر چیتن آنند نے کانز کے مشہورِ زمانہ فلمی میلے میں بہترین فلم کا ایوارڈ وصول کیا۔ یہ 1946ء کی بات ہے۔ چیتن آنند 1997ء میں آج ہی کے دن چل بسے تھے، لیکن فلم انڈسٹری کے اوّلین دور کے کام یاب فلم ساز اور رائٹر کے طور پر ان کی پہچان آج بھی قائم ہے۔

    1940ء کے اوائل میں جب چیتن آنند تاریخ کے مضمون کی تدریس سے منسلک تھے، تب انھوں نے ایک فلم کا اسکرپٹ لکھا تھا۔ بعد میں وہ ہدایت کاری کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    چیتن آنند کا آبائی شہر لاہور تھا جہاں انھوں نے 1915ء میں‌ آنکھ کھولی اور والد نے انھیں روایتی مذہبی اور مخصوص نظامِ تعلیم کے تحت پڑھنے کے لیے بھیج دیا، بعد میں چیتن آنند نے لاہور سے انگریزی کے مضمون میں‌ گریجویشن کی سند حاصل کی۔ اداکار دیو آنند ان کے بھائی تھے۔ نوجوانی میں‌ چیتن کو تھیٹر اور فلم میں دل چسپی پیدا ہوئی اور فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے بعد بطور ڈائریکٹر ان کی پہلی کاوش ان کی وجہِ شہرت بن گئی۔ ’نیچا نگر‘ بھارت میں رجحان ساز ثابت ہوئی۔ اس فلم کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے وہاں کے فلم ساز سماجی حقیقت نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور یہ سلسلہ چل نکلا۔ اس کے بعد چیتن آنند نے افسر، آندھیاں، ٹیکسی ڈرائیور، ارپن، حقیقت، آخری خط اور ہیر رانجھا جیسی فلمیں ریلیز کیں جو کام یاب ہوئیں۔ ان فلموں میں دیو آنند بھی اپنے بھائی کے معاون رہے۔ دراصل انھوں نے مل کر 1950ء کے اوائل میں فلم سازی کا فیصلہ کرکے ایک ادارہ بنام نوکتن فلمز شروع کیا تھا۔ چیتن آنند تو ہدایت کار اور فلمی مصنّف کے طور پر جانے گئے، لیکن ان کے چھوٹے بھائی دیو آنند نے بطور اداکار ہندی سنیما میں خوب نام کمایا وہ ہر قسم کے کردار خوبی سے نبھاتے ہوئے بھارتی فلم انڈسٹری کے سدا بہار فن کار مشہور ہوئے۔

    چیتن آنند نے اپنی ایک فلم میں‌ شملہ کی ایک لڑکی کو متعارف کروایا تھا جس کا نام پریا راج ونش (Priya Rajvansh) اور فلم کا نام حقیقت تھا۔ پریا راج ونش اور ہدایت کار چیتن آنند کی عمر میں‌ 20 برس کا فرق تھا۔ یہ فیچر فلم 1964ء میں ریلیز ہوئی جو پروڈیوسر اور ہدایت کار چیتن آنند کی ایک اور کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ اس فلن نے بھارت میں‌ نیشنل ایوارڈ اپنے نام کیا۔

    جس زمانے میں پریا سے ہدایت کار چیتن کی ملاقات ہوئی، وہ اپنی بیوی سے الگ ہوچکے تھے۔ ان کے دو بچّے بھی تھے، مگر چیتن آنند اس نوعمر لڑکی پریا جو فلم کی دنیا میں نوارد بھی تھی، پر فدا ہوگئے اور پریا نے بھی ان کی محبّت کو قبول کر لیا۔ ان دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور ایک جگہ رہے، مگر شادی نہیں‌ کی۔ چیتن کے فلمی سفر کے ساتھ اُن کا اپنی محبّت یعنی پریا سے تعلق برقرار رہا۔ پریا وہ اداکارہ تھی جس نے صرف چیتن آنند کی فلموں‌ میں کام کیا اور کبھی کسی اور بینر تلے نظر نہیں‌ آئی۔ نوکتن فلمز نے 1970ء میں فلم ہیر رانجھا ریلیز کی جس میں‌ مرکزی کردار (ہیر) پریا نے نبھایا اور لاجواب اداکاری کی۔

    چیتن آنند بطور ہدایت کار اپنی کام یابیوں اور خوشی و غم میں شریک پریا سے اپنے تعلق کو تاعمر کوئی نام نہیں دے سکے جس سے انھیں سماج میں عزّت اور اعتبار حاصل ہوتا، اور چیتن کی موت کے بعد وہ درد ناک انجام سے دوچار ہوئیں۔ 1937ء میں پیدا ہونے والی پریا راج ونش کو ممبئ میں قتل کر دیا گیا۔ یہ واقعہ 27 مارچ 2000ء کو پیش آیا۔ ابتدائی طور پر اسے حادثہ سمجھا گیا، لیکن پھر سامنے آیا کہ اس قتل میں چیتن کے دونوں بیٹے ملوث ہیں جنھیں گرفتار کرلیا گیا اور سزا ہوئی۔

    اس قتل کی وجہ وہ جائیداد اور دولت تھی جس کی مالک چیتن آنند کی وصیت کے مطابق پریا راج ونش تھیں۔

  • یومِ وفات:‌ شہرت اور دولت نے اداکار ساون کو مغرور اور بددماغ بنا دیا تھا!

    یومِ وفات:‌ شہرت اور دولت نے اداکار ساون کو مغرور اور بددماغ بنا دیا تھا!

    فلمی دنیا کی رنگینوں اور شوبزنس کی چکاچوند میں ہمیں فن کاروں‌ کے عروج و زوال کی ایسی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں جو عبرت ناک بھی ہیں اور سبق آموز بھی، لیکن ماہ و سال کی گردش کے دوران انھیں فراموش کر دیا گیا۔ آج اداکار ساون کی برسی منائی جارہی ہے جنھوں نے پاکستان کی فلمی صنعت میں حیرت انگیز کام یابیاں حاصل کیں۔ وہ ایک ایکسٹرا سے چوٹی کے ولن بنے اور پھر کیریکٹرایکٹر تک صفِ اوّل کے اداکاروں‌ میں ان کا شمار ہوا، اور پھر وہ بامِ عروج سے اتر کر آمادۂ زوال ہوئے۔

    دراز قد اور تنو مند ساون گرج دار آواز کے بھی مالک تھے اور ایک وقت تھا جب ان کے ڈیل ڈول اور شخصیت کو دیکھتے ہوئے اکثر فلموں کی کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ حالات نے پلٹا کھایا تو چوٹی کے اس ولن کو گزر بسر اور اخراجات کے لیے چھوٹے موٹے فلمی کردار بھی قبول کرنا پڑے۔ اداکار ساون 6 جولائی 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔

    60 اور 70 کے عشرے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں ساون کو بہترین اداکار اور مقبول ولن کے طور پر اردو اور پنجابی فلموں میں کاسٹ کیا جاتا تھا۔

    ساون کا اصل نام ظفر احمد بٹ تھا۔ وہ اپریل 1920ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں‌ برٹش آرمی میں‌ شمولیت اختیار کرلی تھی، فوج کی نوکری سے فارغ ہوئے تو روزی روٹی کمانے کے لیے تانگہ چلانے لگے، لیکن قسمت نے یاوری کی اور وہ پاکستانی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے جہاں شہرت اور دولت گویا ان کی منتظر تھی۔

    ساون کی شخصیت اور ان کا ڈیل ڈول کچھ ایسا تھا کہ وہ سب کے درمیان الگ ہی دکھائی دیتے۔ ان کے گھنے سیاہ اور گھنگھریالے بال بھی ان کی خاص پہچان تھے۔ گورے چٹے اور کسرتی جسم کے مالک ساون فلم نگری میں قدم رکھنے سے قبل 1950ء میں کراچی میں ایک معمار کی حیثیت سے کام کرنے پہنچے۔ اس کے علاوہ بھی وہ دوسرے چھوٹے موٹے کام اور ہر قسم کی مزدوری کر کے چار پیسے بنا لیتے تھے۔ اسی دوران شہر کے ایک سنیما کے ملازمین سے ان کی دوستی ہوگئی۔ ان کے کہنے پر ساون کو فلموں میں کام کرنے کا شوق ہوا۔ انھیں فلم اسٹوڈیوز کے چکر تو لگانے پڑے لیکن یہ ریاضت رائیگاں نہ گئی اور فلم ’’کارنامہ‘‘ میں ساون کو کردار نبھانے کا موقع مل ہی گیا۔ یہیں ان کو ساون کا نام دے دیا گیا اور پھر کسی نے لاہور جا کر قسمت آزمانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ اپنی شخصیت اور گرج دار آواز کی وجہ سے پنجابی فلموں میں زیادہ کام یاب ہو سکتے ہیں۔ ساون نے لاہور کا قصد کیا اور ایک روز وہاں آغا حسینی کی فلم ’’سولہ آنے‘‘ میں ایک چھوٹا سا کردار حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔ اس فلم کے بعد ساون کو فلم ’’سورج مکھی‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا جس نے انھیں ایک مقبول اداکار بنا دیا۔ اس کے بعد ساون کو بطور ولن کام ملنے لگا اور کام یابی ان کا مقدر بنتی رہی۔

    ساون نے کئی اردو فلموں کے علاوہ پنجابی فلموں میں بھی مرکزی کردار ادا کیے جن میں ’’بابا دینا، مالی، خزانچی، ذیلدار، ہاشو خان، خان چاچا، جگری یار، گونگا، پہلوان جی ان لندن‘‘ شامل ہیں۔ پنجابی زبان میں ان کی کام یاب فلموں‌ میں‌ ’’شیراں دے پتر شیر، جانی دشمن، ملنگی، ڈولی، چن مکھناں، سجن پیارا، بھریا میلہ، اور پنج دریا‘‘ کے نام سرفہرست ہیں۔

    ابتدائی فلموں کے بعد جب ساون نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کرلی تو انھیں‌ ولن کے طور پر کاسٹ کیا جانے لگا اور اس روپ میں انھیں خوب شہرت ملی۔ ساون کی فلمیں‌ کام یاب ثابت ہوئیں۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فلم ساز ان سے رابطہ کرنے لگے۔ انھیں اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا، لیکن اپنی مانگ اور ایسی پذیرائی نے اداکار ساون کو بددماغ بنا دیا۔ وہ کسی کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے اور اب فلم سازوں‌ سے بھاری معاوضے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ یہی لالچ انڈسٹری میں ان کے زوال کا سبب بنی۔ بعد میں اداکار ساون اکثر اپنے احباب سے بھی کہتے تھے کہ "میں بہت متکبر ہو گیا تھا اور انسان کو انسان نہیں سمجھ رہا تھا۔” اس دور میں‌ کئی کام یاب فلمیں‌ دینے والے ساون سے فلم ساز گریز کرنے لگے اور پھر انھیں‌ اہم کردار ملنا بند ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری ادوار میں ان کے پاس کوئی کام نہیں تھا اور وہ گھر تک محدود ہوگئے تھے۔

  • فکشن نگار اور صحافی مسعود اشعر کا تذکرہ

    فکشن نگار اور صحافی مسعود اشعر کا تذکرہ

    ستّر کی دہائی میں مسعود اشعر کی کہانیاں ادبی دنیا میں ان کی پہچان کا سبب بنی تھیں‌ اور ان کا یہ سفر افسانوں کے مجموعوں، تراجم اور کالم نویسی کے ساتھ 5 جولائی 2021ء کو تمام ہوگیا۔ افسانہ نگار، مترجم، اور کالم نگار مسعود اشعر کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز بھی دیا گیا تھا۔

    مسعود اشعر رام پور سے ہجرت کرکے آئے تو ملتان اور لاہور میں قیام کیا اور تخلیقی کاموں کے ساتھ ادبی سرگرمیوں اور صحافت میں‌ مشغول ہوگئے۔ مسعود اشعر لاہور اور ملتان میں روزنامہ احسان، زمین دار، آثار اور امروز سے وابستہ رہے۔ وہ ایک معروف علمی ادارے کے سربراہ بھی تھے۔ روزنامہ جنگ میں ان کا کالم ہفتہ وار شایع ہوتا تھا۔ شمیم حنفی نے ان کے بارے میں لکھا تھا، "ان میں ایک بھری پری دنیا آباد دکھائی دیتی ہے۔ مذہب، سیاست، ادب، آرٹ، علوم، ہم جیسے عام انسانوں کی زندگی کے ہر زاویے کو وہ ایک سی ہمدردی، سچائی، اور دل چسپی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ اور کیا خوب دکھاتے ہیں۔ کہیں کسی طرح کی بدمذاقی نہیں، بے جا طنز اور برہمی نہیں۔ مبالغہ نہیں، مصلحانہ جوش وخروش نہیں۔

    مسعود اشعر کی شخصیت، اپنی سادگی کے باوجود بہت پرکشش ہے۔ ماہ سال کی گرد نے بھی اس کی آب و تاب میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ لہٰذا اپنی سادگی میں بھی آراستہ نظر آتے ہیں۔ نکھرے اور سنورے ہوئے۔ یہی حال ان کے کالموں کا ہے۔ بہ ظاہر سیدھی سادی، شفاف نثر لکھتے ہیں۔ کہیں بیان کی پینترے بازی نہیں۔ ابہام اور تصنع نہیں۔ سجاوٹ اور تکلف نہیں۔ مگر جب بھی جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، کہہ جاتے ہیں۔ معاملہ ارباب اقتدار کا ہو، یا ادیبوں، عالموں اور عام انسانوں کا۔ مسعود اشعر سب کو ایک سی توجہ اور بے لوثی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ صحافتی احتیاط کے ساتھ ساتھ ان کی طبیعت میں تہہ داری کا اور زندگی کے ہر عمل، ہر شعبے کی اخلاقی جہت کے وجود کا احساس بھی نمایاں ہے۔ صحافت کی دنیا کے طویل تجربے اور اپنی فطرت کے تقاضوں سے مر بوط، یہی انداز و اوصاف مسعود اشعر کے افسانوں اور ان کی نثر میں بھی نظر آ تے ہیں۔”

    مسعود اشعر کو ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی ادبی حلقوں اور قارئین میں پہچان مل گئی تھی اور بعد میں‌ انھوں نے کئی موضوعات کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ’’اپنا گھر‘‘ مسعود اشعر کی وہ کتاب ہے جس کے اشاعت تک ان کے ہاں موضوعات میں ایک تنوع نظر آتا ہے۔

    رام پور، اتر پردیش میں 1930ء میں آنکھ کھولنے والے مسعود اشعر کا اصل نام مسعود احمد خان تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دو شہروں نے ان کو اپنی جانب کھینچا جن میں پہلا پڑاؤ تو ملتان میں تھا اور پھر وہ لاہور آگئے جہاں ان کے فکشن کو نئے موضوعات بھی ملے۔

    مسعود اشعر کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ ’’آنکھوں پر دونوں ہاتھ‘‘ کے بعد ان کی کتاب ’’سارے افسانے‘‘ اور’’اپنا گھر‘‘ افسانوی مجموعے تھے اور تین سال قبل ’’سوال کہانی‘‘ کی اشاعت ہوئی اور یہ بھی افسانوں کی کتاب تھی۔

  • نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    نوبیل انعام یافتہ ارنسٹ ہیمنگوے کا تذکرہ

    ارنسٹ ہیمنگوے کی پیدائش پر اس کے باپ نے باقاعدہ بگل بجا کر شادمانی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا بیٹا بڑا ہو کر کہانی کار بنا اور اسے دنیا بھر میں‌ شہرت ملی۔ وہ نوبیل انعام کا حق دار ٹھیرا لیکن اس کی زندگی کا انجام بڑا دردناک ہوا۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے خود کُشی کی تھی۔

    افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس ناول نگار کے والد ہی نہیں‌ دادا کی موت بھی طبعی نہ تھی۔ انھوں نے بھی اپنی زندگی ختم کر لی تھی۔ ارنسٹ ہیمنگوے نے 2 جولائی 1961ء کو خودکُشی کی جب وہ 61 برس کے تھے۔ وہ ایک ناول نگار اور صحافی کی حیثیت سے دنیا میں‌ مشہور تھے۔

    شہرۂ آفاق ادیب ارنسٹ ہیمنگوے 21 جولائی 1899ء کو امریکہ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معزّز اور تعلیم یافتہ خاندان کے فرد تھے۔ ان کا گھرانہ فنونِ لطیفہ کا شیدائی تھا۔ والد کلارنس ایڈمونڈس ہیمنگوے پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اور علم و فن کے قدر دان بھی۔ ہیمنگوے کی ماں گریس اپنے قصبے کی ایک مشہور گلوکار اور موسیقار تھی۔ یہ خاندان امریکا کے شہر شکاگو کے مضافات میں‌ سکونت پذیر تھا۔

    ہیمنگوے کے والد کو سیر و سیّاحت کے شوقین تھے۔ وہ اپنے بیٹے کو بھی اکثر پُرفضا مقامات کی سیر اور شکار کی غرض سے اپنے ساتھ لے جاتے۔ ہیمنگوے نے جنگل میں‌ کیمپ لگانا، چھوٹے جانوروں کا شکار کرنا اور دریا سے مچھلی پکڑنا اپنے والد ہی سے سیکھا۔ انھیں شروع ہی سے فطرت کو قریب سے دیکھنے اور جنگلی حیات کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور اس کی جھلک بعد میں‌ ان کی تحریروں میں نظر آئی۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو اپنی تخلیقی صلاحیت کی بدولت نہایت خوبی سے اپنی مختصر کہانیوں اور ناولوں‌ میں شامل کیا اور قارئین کو متأثر کرنے میں کام یاب رہے۔

    زمانۂ طالبِ علمی میں‌ ارنسٹ ہیمنگوے نے اسکول میگزین اور اخبار کے لیے کام کیا اور اس عرصہ میں جو کچھ سیکھا، اس کی بدولت انھیں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک اخبار میں رپورٹر کے طور پر ملازمت مل گئی۔ یہاں‌ ارنسٹ ہیمنگوے کو معیاری کام اور عمدہ تحریر کو سمجھنے اور لکھنے کے ساتھ مضمون نگاری کا موقع ملتا رہا۔ وہ ایک ایسے صحافی اور لکھاری تھے جو کھیل کود اور مہم جوئی کے دلدادہ تھے جس نے ان کی تحریروں کو دل چسپ اور قابلِ توجہ بنا دیا۔ انھیں‌ ادب کے مطالعے کے ساتھ اپنے مشاغل کے سبب جو تجربات اور مشاہدات ہوئے، اس کا پیشہ ورانہ سفر میں‌ بہت فائدہ ہوا۔ ہیمنگوے نے مختلف اخبارات میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا اور مضمون نویسی کرتے رہے جس نے انھیں‌ پہچان دی۔ 1921ء میں ان کی شادی ہوئی اور وہ پیرس منتقل ہوگئے جہاں ادیبوں سے ملاقات اور بزم آرائیوں نے ہیمنگوے کو ناول نگاری کی طرف راغب کیا۔

    پیرس میں‌ وہ اپنے وقت کے باکمال ادیبوں اور شعرا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے جن میں‌ شہرۂ آفاق ایذرا پاؤنڈ، جیمز جوائس بھی شامل ہیں۔ اس حلقۂ ادب میں رہتے ہوئے ہیمنگوے کو اپنی تحریروں پر داد پانے اور حوصلہ افزائی کے ساتھ بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ مختصر کہانیاں‌ لکھنے لگے جن کی اشاعت نے ہیمنگوے کو پیرس اور اپنے وطن امریکہ میں بھی کہانی کار کے طور پر پہچان دی۔ وہ 1926ء میں اپنا پہلا ناول دی سن آلسو رائزز منظرِ عام پر لائے جو ان کی مقبولیت کا سبب بنا۔ بعد میں‌ ہیمنگوے کا ایک اور ناول ڈیتھ ان آفٹر نون سامنے آیا اور قارئین نے انھیں‌ بہت سراہا۔ ہیمنگوے نے اسپین، فرانس اور دیگر ممالک کا سفر کیا اور وہاں‌ قیام کے دوران بھی انگریزی ادب کو شاہ کار کہانیوں سے سجاتے رہے۔ انھیں فکشن کا پلٹزر پرائز اور بعد میں‌ ایک ناول پر نوبیل انعام دیا گیا۔ ارنسٹ ہیمنگوے کا ناول فیئر ویل ٹو آرمز بھی بہت پسند کیا گیا۔ ان کے ناولوں کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔ سمندر اور بوڑھا اور وداعِ جنگ اردو زبان میں‌ ناول کے شائقین تک پہنچے اور انھیں‌ بہت سراہا گیا۔

    ارنسٹ کی زندگی بہت ہنگامہ خیز اور تیز رفتار رہی۔ انھوں نے ایک نہیں کئی لڑکیوں سے محبت کی، اور اسی طرح شادیاں بھی۔ ہیمنگوے نے ملکوں ملکوں‌ سیر کے علاوہ میدانِ جنگ میں‌ ایک فوجی کی حیثیت سے بھی حصّہ لیا۔ وہ بل فائٹنگ دیکھنے کے شوقین تھے اور اسی کھیل کو اپنے ایک ناول کا حصّہ بھی بنایا۔

    فطرت کے دلدادہ، مہم جوئی کے شوقین اور انگریزی ادب میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہونے والے ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ عام روش سے ہٹ کر جب وہ کچھ لکھنا چاہتے تو کھڑے ہوجاتے تھے۔ اگر آپ ادب اور فنونِ لطیفہ کے شائق ہیں تو یقینا مشہور تخلیق کاروں‌ کی بعض دل چسپ یا ناقابلِ فہم اور اکثر بری عادات، یا ان کے لکھنے اور مطالعہ کرنے کے انداز کے بارے میں‌ بھی کوئی تحریر ضرور نظر سے گزری ہوگی۔اسی طرح کسی تخلیقی کام کے دوران یہ ادیب اور شاعر کچھ خاص طور طریقے اپناتے تھے جن میں ارنسٹ ہیمنگوے کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنا ٹائپ رائٹر اور پڑھنے کے بورڈ کو اتنا اونچا رکھتے تھے کہ وہ ان کے سینے تک پہنچتا تھا۔ غالباً یہ ان کے لیے پُرسکون طریقہ اور یکسوئی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہوگا۔ تاہم بعض‌ تصاویر میں وہ کرسی پر اسی طرح بیٹھے ہوئے ٹائپ رائٹر پر کام کررہے ہیں جیسا کہ عام آدمی کرتا ہے۔

    ارنسٹ ہیمنگوے اچھے نشانہ باز تھے یا نہیں‌، مگر ان کی بندوق سے نکلنے والی گولی کئی جانوروں کو شکار کرچکی تھی، کون جانتا تھا کہ ہیمنگوے ایک روز اپنی ہی شاٹ گن سے اپنی زندگی ختم کرلیں گے۔

  • سخت گیر پادری کا بیٹا جسے سنیما کی تاریخ میں اہم شخصیت تسلیم کیا گیا

    سخت گیر پادری کا بیٹا جسے سنیما کی تاریخ میں اہم شخصیت تسلیم کیا گیا

    سنیما کی تاریخ کے چند بہترین ہدایت کاروں میں ایک نام انگمار برگمین کا بھی شامل ہے۔ سوئیڈن کے اس عالمی شہرت یافتہ ہدایت کار نے ’کرائم اینڈ وسپرز‘، ’دی سیونتھ سیل‘ اور ’وائلڈ سٹرابری‘ جیسی شاہ کار تفریحی فلمیں تخلیق کیں‌ اور کئی دستاویزی فلموں‌ کے علاوہ اسٹیج اور ریڈیو کے لیے بھی ہدایت کار کی حیثیت سے منفرد کام کیا۔

    14 جولائی 1918 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے انگمار برگمین کے والد ایرک برگمین ایک سخت مزاج اور قدامت پرست شخص تھے اور شاہی دربار سے وابستہ پادری تھے۔ یوں گھر میں مذہبی تعلیمات کا اثر تھا۔ والدہ پیشے کے اعتبار سے نرس تھیں۔ انگمار کے مطابق والد کا خوف ایسا تھا کہ ان کی حکم عدولی تو درکنار، ان کے کسی اصول کو توڑنا یا مزاج کے برعکس کچھ کرنے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن انگمار نے اس ماحول اور والد کی خواہش کے برخلاف الگ ہی راستہ چنا۔ وہ اپنی خود نوشت The Magic Lantern میں لکھتے ہیں: چرچ میں اُن (والد) کی مصروفیت کے دوران گھر میں کچھ گایا اور سُنا جاسکتا تھا۔

    برگمین کی بیش تر فلموں کا موضوع عام حالات اور ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز، محرومیاں اور مذہب رہا۔ یہاں Winter Light کا ذکر ضروری ہے، جو 1962 میں سنیما پر پیش کی گئی۔ اس کا اسکرپٹ اور ڈائریکشن برگمین نے دی تھی اور یہ دیہی علاقے کے ایک گرجا اور پادری کی کہانی تھی، جسے مذہب سے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ برگمین بھی نوعمری میں‌ من مانی مذہبی تشریح پر سوال اٹھانے لگے تھے اور وہ وقت آیا کہ 1937 میں انھیں اسٹاک ہوم یونیورسٹی میں آرٹ اور لٹریچر کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل کرا دیا گیا۔ تھیٹر اور فلم ان کا محبوب موضوع تھا۔ اسی زمانے میں‌ اسٹیج ڈراموں کے اسکرپٹس لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور 1942 انھیں تھیٹر اور بعد ازاں اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ اگلے برس، یعنی 1943 میں ان کی زندگی میں‌ ایلس میری فشر رفیقِ حیات بن کر شامل ہوئی مگر 1946 میں ان کے درمیان علیحدگی ہوگئی۔ برگمین نے پانچ شادیاں کیں جن میں‌ سے چار ناکام رہیں۔

    1944 میں برگمین کا پہلا اسکرین پلے Torment سامنے آیا۔ یہ انسان کے جنون اور ایک قتل کی کہانی تھی، جسے بعد میں امریکا اور لندن میں بھی مختلف ٹائٹل کے ساتھ پیش کیا گیا۔ بعد کے برسوں‌ میں‌ انھوں‌ نے درجنوں فلموں کے اسکرپٹ تحریر کرنے کے ساتھ ہدایت کاری بھی کی۔ 1955 میں Smiles of a Summer Night سامنے آئے جس کے وہ ہدایت کار تھے۔ یہ کامیڈی فلم کانز کے میلے تک پہنچی تھی۔ اس کے فوراً بعد سیونتھ سیل نے برگمین کو خصوصی انعام دلوایا اور ایک مرتبہ پھر وہ کانز کے میلے تک پہنچے۔

    1960 کی ابتدا میں برگمین نے اپنے اسکرپٹس میں مذہب کو موضوع بنانا شروع کردیا۔ اس ضمن میں تین فلموں کا تذکرہ کیا جاتا ہے، جن کے ہدایت کار برگمین ہی تھے۔ یہ فلمیں خدا، انسان کے کسی نادیدہ ہستی پر یقین اور اس حوالے سے شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔

    1976 میں انگمار برگمین نے ایک بدسلوکی پر بددل ہوکر سوئیڈن چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ انھیں ٹیکس فراڈ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا جو بعد میں‌ جھوٹا ثابت ہوا اور متعلقہ اداروں نے اسے غلطی قرار دے کر انگمار سے معذرت کی۔ لیکن انھوں‌ نے اپنا فلم اسٹوڈیو بند کیا اور خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی۔ وہ امریکا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1982 میں وہ فلم Fanny and Alexander کی ڈائریکشن کے لیے سوئیڈن آئے اور پھر آنا جانا لگا ہی رہا۔ اسے بہترین غیرملکی فلم کے زمرے میں آسکر سے نوازا گیا تھا۔

    30 جولائی 2007 کو انگمار برگمین نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ انفرادی طور پر نو مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زدگی اور تین بار ان کی فلموں کو اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہالی وڈ نے 1970ء ہی میں انگمار کو آسکر ایوارڈ دے کر سنیما کی تاریخ کی اہم ترین شخصیت مان لیا تھا۔ اس کے علاوہ برٹش اکیڈمی آف فلم اینڈ ٹیلی ویژن آرٹس، بافٹا ایوارڈ اور گولڈن گلوب ایوارڈ بھی ان کے حصّے میں‌ آئے۔ 1997ء میں کانز کے فلمی میلے میں برگمین کو ’پام آف دا پامز‘ ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • عبدالستار صدیقی: املا انشا اور الفاظ کے مآخذ کی تحقیق میں‌ ان کی سعیِ بلیغ قابلِ رشک ہے

    عبدالستار صدیقی: املا انشا اور الفاظ کے مآخذ کی تحقیق میں‌ ان کی سعیِ بلیغ قابلِ رشک ہے

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی تحقیقی اور تنقیدی بصیرت نے انھیں اپنے معاصرین میں‌ ممتاز کیا۔ ان کی تصنیفات، وقیع علمی مقالات اور مضامین سے ہر دور میں‌ استفادہ کیا گیا ہے۔ آج اس یگانہ روزگار اور ہمہ جہت شخصیت کا یومِ وفات ہے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے اپنی کاوشوں سے تحقیق کو ایک مستقل فن بنا دیا۔ وہ لسانی تحقیق میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ املا انشا، الفاظ کے مآخذ کی تحقیق اور تاریخ کے حوالے سے ان کی سعیِ بلیغ اور محنتِ شاقّہ قابلِ رشک ہے۔ 28 جولائی 1972ء کو ڈاکٹر عبدالستار صدیقی الہٰ آباد (بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    متعدد زبانوں پر عبور رکھنے والے ڈاکٹر عبدالستار صدیقی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ فیض اٹھانے والوں میں ہندوستان کی عالم فاضل شخصیات اور مشاہیر بھی شامل تھے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بھی ان کی راہ نمائی اور مدد حاصل رہی، کیوں کہ وہ حیدرآباد دکن اور پاکستان میں بھی اردو املا اور لغت نویسی کے حوالے سے کاموں میں‌ مصروف تھے اور اس دوران انھیں دشواری پیش آتی اور زبان کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی تھی۔

    ڈاکٹر صاحب عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ وہ 1912ء سے 1919ء تک یورپ خصوصاً جرمنی میں قیام پذیر رہے اور متعدد یورپی زبانیں بھی سیکھیں۔ ان کا زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔

    ڈاکٹر صاحب نے کئی اہم موضوعات کو اپنی تحقیق میں شامل کیا جو اس زمانے میں‌ کسی کے لیے بھی نہایت مشکل اور وقت طلب کام تھا۔ ان میں سے ایک تحقیقی کام وہ فارسی الفاظ تھے جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکی عربی کا حصّہ رہے۔ ان کی تحقیقی کاوش وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابتِ رشیدی’ کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس میں اُن عربی الفاظ پر مباحث شامل ہیں جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے آئے تھے۔

    ڈاکٹر صاحب کے مضامین کئی اردو جرائد میں شائع ہوا، اور افسوس کی بات ہے کہ ان کے مقالات اور مضامین کو بہت کم یکجا کیا جاسکا اور وہ کتابی شکل میں محفوظ نہیں‌ کیے گئے۔ اس کی ایک وجہ خود ڈاکٹر صاحب کی علمی و تحقیقی مصروفیات تھیں جس کے سبب وہ اپنے مضامین کو اشاعت کے بعد جمع یا محفوظ نہیں رکھ سکے۔

    عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اس زمانے کی مرفّہ الحال اور اردو زبان میں‌ علم و فنون کی سرپرستی کے لیے مشہور ریاست، حیدرآباد دکن میں‌ ملازم تھے، یوں ڈاکٹر صدیقی کی ابتدائی تعلیم دکن اور گلبرگہ میں ہوئی۔ بی اے اور ایم اے کی اسناد لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی چلے گئے جہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانیں سیکھنے کا موقع ملا۔ 1917ء میں عربی قواعد پر تحقیق کے لیے انھیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    1919ء میں ہندوستان واپس آنے کے بعد انھوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد ازاں حیدر آباد دکن کی عالمی شہرت یافتہ جامعہ عثمانیہ میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ اسی دوران وہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کے سربراہ بھی منتخب ہوئے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کی دو لغات منتخاب الالغت (عربی) اور فرہنگِ رشیدی (فارسی) کو مصدقہ مانا جاتا ہے۔

  • مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں  کا تذکرہ

    مقبول ترین فلمی نغمات کے خالق راجہ مہدی علی خاں کا تذکرہ

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں نغمہ نگار راجہ مہدی علی خاں کا نام ان کے معیاری کلام کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔ ان تحریر کردہ گیتوں نے لوگوں کے دلوں پر اپنی الگ ہی چھاپ چھوڑی ہے۔ راجہ مہدی علی خاں 1966ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    راجہ مہدی علی خاں طنز و مزاح کے لیے معروف اور متعدد مقبول گیتوں کے خالق تھے۔ وہ غیرمنقسم ہندوستان میں پنجاب کے صوبے کرم آباد کے ایک گاؤں کے زمین دار خاندان میں 22 ستمبر 1915ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ عالم فاضل اور صاحب دیوان شاعرہ تھیں۔ یوں راجہ مہدی علی خان کو شروع ہی سے اردو شاعری سے شغف ہوگیا۔ راجہ صاحب کی پرورش خالص علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ محض دس برس کے تھے جب بچّوں کے لیے ایک رسالے کا اجرا کیا۔ تقسیمِ ہند سے قبل وہ دہلی آگئے جہاں آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ اسی زمانے میں اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو سے ان کی دوستی گہری ہو گئی اور انہی کے کہنے پر راجہ مہدی علی خاں بمبئی چلے گئے جہاں فلمی دنیا سے وابستہ ہوئے۔

    راجہ صاحب نے اپنی پہلی فلم ’’شہید‘‘ کے ایک ہی گانے سے اپنی شاعری کا سکّہ جما دیا۔ یہ نغمہ تھا، ’’وطن کی راہ میں وطن کے نوجواں شہید ہوں‘‘ اور دوسرا گیت ’’آجا بے دردی بلما کوئی رو رو پُکارے‘‘ بھی بے حد مقبول ہوا اور سدا بہار فلمی نغمات میں شامل ہوئے۔ دوسری فلم ’’دو بھائی‘‘ کے سبھی گیت راجہ مہدی علی خاں نے لکھے تھے جو بے حد پسند کیے گئے۔

    راجہ مہدی علی خاں کے بے حد کام یاب فلمی نغموں میں ’’پوچھو ہمیں، ہم اُن کے لیے کیا کیا نذرانے لائے ہیں…‘‘، ’’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے…‘‘ ، ’’جو ہم نے داستاں اپنی سنائی…‘‘ ،’’اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو…‘‘ اور ’’تو جہاں جہاں رہے گا میرا سایہ ساتھ ہوگا…‘‘ جیسے گیت شامل ہیں جو آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

    انھوں نے اپنے بیس برس کے فلمی سفر میں تقریباً 75 فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ وہ بمبئی میں انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم اردو زبان کے اس خوب صورت شاعر کی پرندوں کی میوزک کانفرنس کے عنوان سے لکھی ہوئی ایک نظم پیش کررہے ہیں۔

    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے
    الّو جب مردنگ بجائے کوّا شور مچائے

    ککڑوں کوں کی تان لگا کے مرغا گائے خیال
    قمری اپنی ٹھمری گائے مرغی دیوے تال

    مور اپنی دم کو پھیلا کر کتھک ناچ دکھائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    چڑیا باجی سبھا میں ناچے خوشی سے چھم چھم چھم
    موٹی بطخ چونچ سے ڈھولک پیٹے دھم دھم دھم

    بیا بجائے منجیرے اور بھونرا بھجن اڑائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    بلبل گل کی یاد میں رو رو گائے دیپک راگ
    مست پپیہا دور سے نغموں کی بھڑکائے آگ

    کوئل پہن کے پائل ساری محفل میں اٹھلائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    رنگ برنگی چڑیاں اب چھیڑیں ایسی قوالی
    پتا پتا بوٹا بوٹا تال میں دیوے تالی

    پھوپھی چیل وجد میں آ کر اونچی تان لگائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

    انگلستان کا سارس آ کر ناچے راک این رول
    مرغابی سے بولے میڈم انگلش گانا بول

    دیکھو دیکھو کتنی پیاری محفل ہے یہ ہائے
    طوطا چھیڑے تھپ تھپ طبلہ مینا گیت سنائے

  • امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    امجد خان کا تذکرہ جنھیں "گبر سنگھ” نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا!

    بالی وڈ کی سپر ہٹ فلم ’’شعلے‘‘ کے ’’گبر سنگھ‘‘ کو کون نہیں‌ جانتا۔ فلم کے اس کردار کا ایک مکالمہ ’سو جا بیٹے ورنہ گبر آجائے گا‘ آج بھی موقع کی مناسبت سے زبان پر آجاتا ہے۔ گبر سنگھ کا کردار امجد خان نے ادا کیا تھا جو ان کی وجہِ شہرت بنا اور یہ کردار اس قدر مقبول ہوا کہ لوگ تفریحاً گبر سنگھ کے لب و لہجے اور انداز کی نقل کرنے لگے۔

    ’کتنے آدمی تھے؟،‘ ’تیرا کیا ہوگا کالیا؟،‘ بھی اسی فلم میں‌ گبر سنگھ کے وہ جملے تھے جو ہر کسی کی زبان پر رواں ہوگئے تھے۔

    امجد خان نے بالی وڈ کی فلم خون پسینہ، کالیہ، نصیب، مقدر کا سکندر، سہاگ، ستہ پہ ستہ میں منفی کردار اس خوبی سے نبھائے کہ لوگ ان سے پیار کرنے لگے۔

    ستیہ جیت رائے کی ’شطرنج کے کھلاڑی‘ وہ فلم تھی جس میں وہ اپنے سنجیدہ نوعیت کے کردار کی بنا پر چھا گئے۔ امجد خان نے منفی اور سنجیدہ نوعیت کے کرداروں کے علاوہ پھلکے مزاحیہ کردار بھی نبھائے اور خوب شہرت پائی۔

    اس اداکار نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ امجد خان 12 نومبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی ہندوستانی فلموں میں‌ ولن کے کردار نبھانے کے لیے مشہور تھے۔بطور اداکار امجد خان نے اپنے کیریئر کا آغاز 1957ء میں فلم ’’اب دہلی دور نہیں‘‘ سے کیا۔ شعلے وہ فلم تھی جو 1975ء میں ریلیز ہوئی اور اس نے امجد خان کو شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ مشہور فلم قربانی میں انھیں شائقین نے انسپکٹر خان کے بہروپ میں بہت پسند کیا جب کہ فلم چمیلی کی شادی میں انھوں نے ایک ایڈووکیٹ کے بہروپ میں جان دار اداکاری کی اور بعد کے برسوں میں امجد خان بطور ہدایت کار بھی سامنے آئے۔

    1986ء میں بالی وڈ کے اس مشہور اداکار نے کار کے ایک حادثے میں موت کو تو شکست دے دی، لیکن طویل عرصہ زیرِ علاج رہنے اور ادویہّ کے مسلسل استعمال کے باعث ان کا جسم فربہی کی طرف مائل ہوگیا تھا اور یوں وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئے۔ اسی دوران وہ متعدد جسمانی پیچیدگیوں اور امراض کا شکار ہوئے اور زندگی سے دور ہوتے چلے گئے۔

    امجد خان کا فلمی سفر بیس سال جاری رہا جس میں انھوں‌ نے 132 فلموں‌ میں اپنے فنِ اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا۔

  • رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    رنگوں‌ سے باتیں‌ کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کا تذکرہ

    فنِ مصوّری میں‌ اپنی پہچان بنانے والے پاکستان کے فائن آرٹسٹوں میں لیلیٰ شہزادہ ایک اہم نام ہے جنھوں نے بالخصوص سندھ کی تہذیب اور ثقافت کو اپنے فن میں‌ نمایاں کیا۔ لیلیٰ شہزادہ 1994 میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں‌۔ آج ان کی برسی ہے۔ اس مصورہ کو تجریدی آرٹ کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    لیلیٰ شہزادہ 1925 میں انگلستان میں لٹل ہیمپٹن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈرائنگ سوسائٹی، لندن سے مصوری کے فن کی تعلیم اور تربیت مکمل کرنے والی لیلیٰ شہزادہ کو 1958 سے 1960 کے دوران معروف مصوّر اے ایس ناگی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور یہاں ان کا فن مزید نکھرا اور وہ مقامی فن و تہذیب سے آشنا ہوئیں۔

    لیلیٰ شہزادہ نے 1960 میں کراچی میں اپنے فن پاروں‌ کی پہلی انفرادی نمائش منعقد کی۔ انھوں نے اپنے فن پاروں‌ کی بدولت جلد ہی آرٹ کے قدر دانوں اور ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کر لیا اور بعد میں پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرونِ ملک بھی ان کا کام نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔

    پاکستان میں‌ لیلیٰ شہزادہ کو ان کے فن اور آرٹ کے شعبے میں‌ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا جب کہ 2006 میں پاکستان پوسٹ نے‌ لیلیٰ شہزادہ یادگاری‌ ٹکٹ بھی جاری کیے تھے۔ اس مصورہ نے بیرونِ ملک بھی اپنے فن پر داد سمیٹی مختلف اعزازات اپنے نام کیے۔