Tag: جولائی وفات

  • ساغر صدیقی: خوب صورت اشعار کا خالق جسے حالات نے ‘بدصورت’ بنا دیا

    ساغر صدیقی: خوب صورت اشعار کا خالق جسے حالات نے ‘بدصورت’ بنا دیا

    ساغر کو اس کے خلوص، سب سے پیار اور خیر خواہی کے بدلے میں‌ کچھ نہیں ملا، لیکن اس نے زمانے سے شکوہ نہیں کیا اور اشعار کے پھول برساتا رہا۔ اس کے اشعار زندگی کے بارے میں‌ بتاتے تھے، اور انسانی رویوں‌ کی گرہ کشائی کرتے تھے۔ اس نے اپنے وجدان کے سہارے زندگی کو سمجھا اور اپنی قوّتِ ادراک سے اسے گزارنے کا ڈھنگ سیکھا تھا۔ ساغر صدیقی جب تک زندہ رہا، اپنے اشعار کو زندگی کے تلخ و شیریں، تند و سبک لمحات کا آئینہ بناتا رہا۔

    اسے درویش صفت اور فقیر شاعر کہا جاتا ہے جس کی روح آج ہی کے دن اُس کے لاغر اور ناتواں جسم کا ساتھ چھوڑ گئی تھیا۔ یہ 1974ء کی بات ہے جب ایک صبح لاہور شہر کے فٹ پاتھ پر ساغر صدیقی مردہ حالت میں‌ پایا گیا۔ کچھ عرصہ قبل فالج کی وجہ سے اس کا دایاں ہاتھ بھی ہمیشہ کے لیے بیکار ہوگیا تھا۔

    اردو زبان کے اس بے مثال شاعر کا اصل نام محمد اختر تھا۔ وہ 1928ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اوائلِ عمری ہی میں‌ شعر و شاعری سے شغف تھا اور مصرع موزوں کرنے لگے۔ خود کو کسی قابل سمجھا تو ناصر حجازی تخلّص اختیار کیا اور غزلیں کہنے لگے۔ بعد میں‌ ساغر صدیقی کے نام سے شہرت پائی۔

    ساغر صدیقی زود گو شاعر تھے اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کی۔ کئی فلموں کے لیے نغمات بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے اور آج بھی ان کی یاد دلاتے ہیں۔

    ساغر صدیقی نے شروع ہی سے غربت دیکھی اور تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ وہ تیرہ، چودہ برس کی عمر میں امرتسر آ گئے اور کسبِ معاش کی صورت یہ نکالی کہ لکڑی کی کنگھیاں بنانے کا کام سیکھنے بیٹھ گئے۔ یہ ہنر سیکھنے کے ساتھ اپنی محنت اور وقت کے لیے کچھ اجرت بھی پانے لگے۔ اس عرصہ میں‌ شعر گوئی کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ دوستوں اور حلقۂ احباب میں اشعار سنانے لگے اور پھر شاعری ان کی وجہِ شہرت بن گئی اور یہی فن وسیلۂ روزگار بھی بنا۔

    ساغر کو لوگ بہت ملے، اور اپنی شاعری کے مداح بھی، لیکن مونس و ہمدم بہت کم نصیب ہوئے۔ یونس ادیب کی ایک کتاب میں ہمیں ساغر صدیقی کی زبانی اس کی زندگی کو پڑھنے کا ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ”گھٹنوں کے بل چلنے کا زمانہ سہارن پور اور انبالہ کی آغوش میں گزرا۔ انبالہ اردو اور پنجابی بولنے والے علاقے کا سنگم ہے۔ ماں کی مامتا، باپ کی شفقت، کہاں اور کیسے پیدا ہوا ہوں؟ یہ میرے لیے علی بابا چالیس چور کے پُرسرار غار کی کہانی ہے۔ میں نے دنیا میں خداوندِ رحیم و کریم سے بہن بھائی کا عطیہ بھی نہیں پایا۔ یہ معلوم نہیں خدا کو اس تنہائی سے یگانہ بنانا مقصود تھا یا بیگانہ؟

    بہرحال شاید میری تسکینِ قلبی کے لیے کسی کا نام بھائی رکھ دیا ہو۔ اسی طرح ایک وجود کا تذکرہ میرے بارے میں لکھنے والوں نے کیا ہے جو سراسر غلط ہے۔ دنیا کی چھ سمتوں پر نظر رکھنے والے صاحبِ فراست لاہور کی سڑکوں پر مجھے جب چاہیں ٹوٹا ہُوا بازو، کالی چادر میں چھپائے، احساس کے الٹے پاؤں سے چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی بہن ہوتا تو شاید یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے لوگوں سے اپنا نام محمد اختر سنا۔ البتہ ایک پُرشکوہ ماضی کی سرسراہٹ میں نے اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کی ہے۔

    1936ء میں جب ذرا سوجھ بوجھ کا زمانہ آیا تو ایک ویران مکان کی افسردہ دیواروں کے ساتھ لگے ہوئے لکڑی کے پرانے صندوقوں میں دیمک چاٹتی ہوئی کتابیں دیکھیں۔ شاید ان کے پڑھنے والے 1857ء کی گھٹاؤں میں ڈوب چکے تھے۔

    میں نے اردو اپنے گھر میں پڑھی۔ ایک چالیس پچاس سالہ بزرگ جن کا نام حبیب حسن تھا، بچوں کی تربیت و تعلیم کا بہت ذوق رکھتے تھے۔ یہیں مجھ میں شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ میری عمر سات یا آٹھ سال کی ہوگی کہ میں اردو میں اتنی مہارت حاصل کر چکا تھا کہ اکثر خط لکھوانے والے اپنی گزارشات کو میرے اندازِ بیان میں سن کر داد و تحسین سے نوازتے تھے۔ میں نے بچپن کا دور بھی غربت میں صبر و شکر سے گزارا ہے۔ جو کچھ ملتا اس پر بخوشی قناعت کرتا۔

    اس وقت کے تمام اردو روزناموں زمیندار، احسان، انقلاب کا مطالعہ میرا شغل تھا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شاید ہی میں نے آج تک اردو کا کوئی لفظ غلط پڑھا یا لکھا ہو۔ میں نے شروع میں ناصر حجازی تخلص رکھا، تقریباً دوماہ بعد مجھے یہ تخلص واضح دکھائی نہ دیا۔ تب میں نے اپنا تخلص ساغر صدیقی پسند کیا، جو اب تک موجود ہے۔ دس بارہ برس کی عمر میں، مَیں اپنے استاد حبیب حسن کے ساتھ امرتسر میں رہا کرتا تھا۔

    میری عمر سولہ سال کی تھی جب 1944ء میں امرتسر کی جامعہ السنّہ شرقیہ ہال بازار میں جو کہ علومِ شرقیہ کی بہترین درس گاہ تھی، ماہانہ طرحی مشاعرے ہوتے تھے، ان میں شرکت کرنا میرے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔

    1944ء ہی میں اردو مجلس کے نام سے ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور شمس العلماء تاجور نجیب آبادی کے زیرِ سایہ ایک بزم قائم ہوئی۔ اردو زبان کی ترویج و ترقی اس کے اغراض و مقاصد تھے۔ اس کے مشاعروں میں بھی باقاعدہ شریک ہوتا رہا ہوں۔

    امرتسر میں دوسری جنگِ عظیم کے باغی آزاد فوج کے تین جرنیلوں کے استقبال کے لیے جلیانوالہ باغ میں تقریبا تیس چالیس ہزار کے مجمع میں، مَیں نے زندگی میں پہلی بار اسٹیج پر آکر نظمیں پڑھیں۔ اس جلسہ میں پڑھی جانے والی نظم کا ایک شعر اور مصرع مجھے یاد ہے جو یوں تھا:

    ہو جس کا رخ ہوائے غلامی پہ گامزن
    اس کشتیِ حیات کے لنگر کو توڑ دو

    تہذیبِ نو کے شیشہ و ساغر کو توڑ دو

    تقسیمِ ہند کے وقت نوجوان ساغر صدیقی لاہور آگئے۔ یہاں فلم اور ادبی رسائل کے لیے کام شروع کیا، لیکن تقدیر نے اس کے ساتھ عجیب مذاق کیا۔ کہتے ہیں ایک اتفاق نے انھیں چرس، بھنگ اور مارفیا کے ٹیکے کا عادی بنا دیا۔ وہ دنیا اور مہذب طور طریقوں سے بیگانہ ہوتے چلے گئے۔ اسی نشے کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ساغر نے اپنی شاعری کو چند سکّوں‌ کے عوض دوسروں کے نام کرنے میں‌ دیر نہ کی۔ کیا اپنے اور کیا غیر، سبھی ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے، اور اپنے نام سے پڑھتے اور چھپواتے رہے۔ ساغر صدیقی کو اس نشے نے رہن سہن کے ڈھنگ سے غافل کیا تو ان کے بال بڑھتے، اور میل کچیل سے بھرنے لگے۔ اسی طرح ملبوس کا بھی حال بدتر ہوتا چلا گیا، ان کے ایک ہاتھ میں سگریٹ سلگتا رہتا تھا، الغرض وہی حال حلیہ ساغر کا تھا جو نشے کی لت کا شکار ہوجانے والوں کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے فلمی اور ادبی دنیا کے لوگ ان سے دور ہوگئے اور خود ساغر بھی ان کے دفاتر اور اسٹوڈیو آنے جانے سے کترانے لگے۔

    ساغر کا آخری وقت بہت مشکل میں گزرا۔ یونس ادیب نے ان الفاظ میں ساغر کے دنیا سے جانے کا احوال لکھا ہے: ”لاہور میں قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ یہ جولائی کے دوسرے ہفتے کی بات ہے۔ ایک دوپہر میں ریڈیو اسٹیشن سے نکل کر لوہاری دروازے پہنچا تو مسلم مسجد کے مینار کے نیچے مجھے ساغر کی ایک جھلک دکھائی دی۔ اس نے اپنے نحیف و نزار جسم سے سیاہ چادر اُتار دی تھی اور ڈھیلا ڈھالا سفید کرتا پہنے چھڑی کے سہار ے کھڑا تھا۔

    میں ٹریفک چیر کر اُس کی طرف بڑھا تو اُس نے دھونکی کی طرح چلتے ہوئے سانس کو روک کر مجھے دیکھا اور کہا، ’میں تمھیں ہی یاد کر رہا تھا کہ تم بھی نظارا کر لیتے اور ہاں تم ضرور پوچھو گے کہ فقیر نے سیاہ چادر کیوں اُتار دی ہے اور سفید کرتا کیوں پہن لیا ہے‘ اور چھڑی دکھا کر بولا سب کچھ بتاؤں گا پہلے میری صلیب دیکھو۔ یہ کہتے ہوئے پھر اُس کا دم اکھڑنے لگا اور اُس نے کھانس کر بلغم تھوکا تو دَم لے کر کفن نما سفید کرتے کو چُھو کر بولا، مقتل کی طرف جانے کی گھڑیاں آ گئی ہیں اور میں نے کفنی پہن لی ہے۔ میں نے جلدی سے پوچھا ’لیکن تم ہو کہاں؟‘ اُس نے اپنی بے نور ہوتی آنکھوں سے عینک اتار کر پرے پھینک دی اور بولا ’اب کچھ دیکھنے کو دل نہیں چاہتا اور جا بھی کہاں سکتا ہوں۔ صرف چولا بدلنے گیا تھا۔ اب تو میں نے سب تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔‘

    ٹریفک کے شور میں ساغر کی آواز ڈوب ڈوب جاتی تھی۔ پھر وہ میر ے آخری سوال کا جواب دیے بغیر لوہاری کے اندر اپنے لرزیدہ جسم کو کھینچ کر لے گیا۔

    رات کو مجھے دیر تک نیند نہ آئی اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے روشنی اپنے آپ کو سمیٹ رہی ہے۔ اُنہی دنوں طالب چشتی روتا ہوا ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا اور اُس نے گلوگیر آواز میں بتایا۔ بابا جی خون تھوک رہے ہیں اور پان گلی کے باہر منیر چھولیاں والے کے تھڑے کے نیچے پڑے ہیں۔

    میں کام جاری نہ رکھ سکا اور طالب کے ساتھ لوہاری پہنچا تو ساغر وہاں نہیں تھا۔ ہم نے انار کلی، ایبک روڈ، آبکاری روڈ، پیسہ اخبار، شاہ عالمی اور سوتر منڈی میں ہر جگہ اُسے تلاش کیا لیکن ساغر کا کوئی نشان نہ ملا۔ دوسر ے دن میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی بجائے صبح ہی صبح لوہاری چلا گیا اور اُسے مکتبہ جدید کے سامنے دیکھ کر میرا دَم گھٹنے لگا۔ راہگیر اُسے دیکھ کر آگے بڑھ جاتے تھے اور دکان دار اپنے اپنے گاہکوں میں مصروف تھے۔

    اس نے بند ہوتی ہوئی آواز میں کچھ کہنا چاہا تو اُس کے منہ سے خون نکل کر اُس کے ہونٹوں پر پھیل گیا، اُس نے سفید آستین سے پونچھ کر دوبارہ کچھ کہنے کی آرزو کی تو خون کی لکیریں اُس کی کفنی پر بہنے لگیں۔

    اپنے ہی خون میں شرابور ساغر صدیقی اس ہنستے بستے شہر میں کئی دنوں تک مقتل کا نظارا بنا رہا، اُس وقت ملک کی سب سے بڑی ادبی تنظیم رائٹرز گلڈ کے انتخابات پر پانی کی طرح روپیہ بہایا جا رہا تھا اور بہت سار ے خوش حال ادیب اور شاعر رائٹرز گلڈ سے معذوروں کا وظیفہ بھی پا رہے تھے لیکن ساغر جس نے عمر بھر صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر حُسن و پیار اور رحم کے گیت تراشے تھے، اپنے خون آلود کرتے میں لپٹا تیسر ے دن بے کسی کے ساتھ مر گیا تھا۔”

    ساغر صدیقی وہ شاعر تھا جسے ہر صبح ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا۔ پیسے اس کی سب سے بڑی ضرورت یعنی نشے کی طلب پوری کرسکتے تھے کیوں‌ کہ وہ اچھا کھانے پینے، پہننے کی ہر خواہش ترک کرچکے تھے۔ ناشر، فلم ساز اور ریڈیو کہیں سے یا تو بَروقت مشاہرہ یا معاوضہ نہ ملا یا پھر کسی نے طلب کرنے کے باوجود اسے مایوس لوٹ جانے پر مجبور کر دیا۔

    مدہوشی و مستی کی اتھاہ گہرائیوں‌ میں ڈوبے رہنے والے ساغر صدیقی کو لاہور میں‌ میانی صاحب کے قبرستان میں‌ ہمیشہ کے لیے تھوڑی سی جگہ مل گئی۔ وہ اپنی زندگی میں‌ بھی ایسے ہی تھوڑی سی جگہ گھیر کر پڑے رہتے تھے۔ شہر کی کسی سڑک کے ساتھ فٹ پاتھ پر، کسی دکان کے چھپرے تلے یا ایک مزار کے احاطے میں‌۔

    اردو زبان کے اس شاعر کی غزلیں مقبول اور کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے۔ یہ غزل دیکھیے۔

    ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں
    میرے نغمات کو اندازِ نوا یاد نہیں

    میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
    میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں

    میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
    مجھ سے کہتے ہیں وہی عہدِ وفا یاد نہیں

    کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں
    کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں

    زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
    جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

    ساغر صدیقی کا کلام ’زہرِ آرزو‘، ’غمِ بہار‘، ’تیشۂ دل‘، ’ ’سبز گنبد‘، ’مقتلِ گل‘ کے نام سے شعری مجموعوں‌ کی صورت میں‌ محفوظ ہے۔

  • شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    وہ لوگ جو عمرِ عزیز کی ستّر سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اگر سنیما کا شوق رکھتے تھے تو شیلا رامانی کی یہ فلم ضرور دیکھی ہو گی، جس کا ایک گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول ہیں، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘

    ماضی میں پاکستان میں‌ بننے والی کئی فلمیں‌ ایسی تھیں جن میں ٹائٹل رول نبھانے والے اداکاروں‌ کا تعلق بھارت یا دوسرے ممالک سے تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے بنائی گئی پاکستانی فلم ’’انوکھی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ اس فلم کی ہیروئن ’’شیلا رامانی‘‘ تھیں‌ جو تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں، لیکن بھارت جانے کے بعد وہاں‌ فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئی تھیں۔

    اس فلم میں ان کے مقابل ہیرو اداکار شاد تھے۔ فلم ’’انوکھی‘‘ کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے بلوایا گیا تھا۔ یہ فلم 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے اپنے کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان کی پرفارمنس یادگار رہی، جب کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے….‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ اس فلمی گیت کو سرحد پار بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ نے 2015ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہوئیں۔ چیتن آنند نے انھیں بولی وڈ میں متعارف کرایا اور 1954ء میں جب اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی تو شیلا رامانی کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہی فلم ان کی وجہِ شہرت بنی۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ وہ شادی کے بعد امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کر کے شائقین سے اپنی شان دار اداکاری پر خوب داد سمیٹی۔

  • شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    روسی ادب کے عظیم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی تخلیقات آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    روسی ادب کے اس عظیم افسانہ نگار نے 29 جنوری 1860ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے اسے پالا پوسا۔ وہ اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ تھیٹر کا شوقین اور کہانیوں کا رسیا بن گیا۔ اسے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری کا موقع بھی ملا اور پھر اس نے قلم تھام کر کئی شاہ کار افسانے تخلیق کیے۔

    چیخوف نے ابھی بچپن کی دہلیز پار نہیں کی تھی کہ اس گھرانے کے مالی حالات بگڑ گئے اور اس یوں اسے غربت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انتون چیخوف کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ پرندے پکڑ کر بیچنے لگا اور کسی طرح اسکیچ بنانا سیکھ کر اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام بھی شروع کردیا۔

    اس زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا اور تب اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت اور مختلف کام بھی کرنے پڑے۔ وہ اپنی آمدنی سے گھر کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔

    چیخوف جو اسکیچز بناتا تھا، وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ کسی مسئلے کی نشان دہی کرتے تھے۔ اس کے اسکیچز کو بہت پسند کیا جانے لگا تھا اور یوں وہ یومیہ بنیاد پر اخبار کی اشاعت کا حصّہ بننے لگے تھے۔ وہ ان میں اپنے معاشرے کی کوئی نہ کوئی تصویر پیش کرتا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے لگا اور تھیٹر کے لیے بھی ڈرامہ تحریر کیا۔ اس کا ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اور عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد اس نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کردی۔

    ڈرامہ اور افسانہ نگاری کے ساتھ چیخوف تعلیمی مدارج بھی طے کرتا رہا اور 1884ء میں فزیشن بن گیا۔ وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا۔ تاہم بعد میں‌ مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروایا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور وہ روس کا مقبول ترین ادیب بن گیا۔

    اس باکمال ادیب کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے سبب ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلکیاں اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

  • سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    سَر آرتھر کونن ڈویل کو "نشانِ مجیدی” سے کیوں‌ نوازا گیا تھا؟

    اے اسٹڈی اِن اسکارلٹ (A Study in Scarlet) وہ کہانی تھی جس کے ذریعے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کروایا گیا۔ 1887 میں‌ شایع ہونے والی اس کہانی کے مصنّف آرتھر کونن ڈویل تھے۔ اس مصنّف کا ‘تخلیق کردہ’ کردار آگے چل کر جاسوسی ادب کے شائقین میں‌ خوب مقبول ہوا۔ عام طور پر شرلاک ہومز کی کہانیوں کو جاسوسی ادب میں ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے۔

    جب ڈویل کی کہانیوں کے دنیا بھر میں‌ تراجم ہوئے تو اس کردار کو خوب شہرت اور مقبولیت ملی۔ ہندوستان میں بھی ڈویل کی کہانیوں کے اردو تراجم بہت شوق سے پڑھے گئے۔

    ڈویل نے شرلاک ہومز کے کردار پر مبنی تقریباً 50 کہانیاں تخلیق کیں جو سات کتابوں کی صورت میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئیں۔ مصنّف نے اس کردار کو اپنے چار ناولوں میں بھی شامل کیا تھا۔ آج سر آرتھر کونن ڈویل کا یومِ‌ وفات ہے۔

    سر آرتھر کونن ڈویل (Sir Arthur Ignatius Conan Doyle) کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے تھا۔ 1859 میں پیدا ہونے والے ڈویل مصنّف اور معالج کی حیثیت سے مشہور تھے۔ وہ جاسوسی ادب تخلیق کرنے والے ان ادیبوں میں‌ سے تھے جنھیں جرائم کے جدید افسانوں کا بانی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانوی ادب کے ساتھ تاریخی ناول اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا۔ ڈویل نے بہت سی نظمیں اور ڈرامے تحریر کیے تھے۔

    نو سال کی عمر میں اسکول جانے والے ڈویل نے تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے 1885 میں یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں انھوں نے طبی پریکٹس کا آغاز کیا اور مختلف موضوعات پر تحریریں اور مقالے لکھنے والے ڈویل نے اس دوران کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ شارٹ اسٹوریز کی اشاعت نے مصنّف کو شہرت دی اور ناشروں نے اس کی کتابیں طبع کرنا شروع کردیں۔ کہانیوں کے مجموعوں کے ساتھ سر آرتھر ڈویل کے ناول بھی پسند کیے گئے۔

    7 جولائی 1930 کو اس برطانوی مصنّف نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں ترک سلطان کی جانب سے شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر "نشانِ مجیدی” سے نوازا گیا تھا۔

    دنیا بھر میں آج بھی شرلاک ہومز کے مداح موجود ہیں اور ڈویل کی کہانیاں شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ برطانیہ کے مختلف شہروں‌ میں اس مصنّف کے مجسمے بھی نصب ہیں۔

  • لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    لوک گلوکارہ مائی بھاگی کا تذکرہ جنھیں‌ تھر کی کوئل بھی کہا جاتا ہے

    ’’کھڑی نیم کے نیچے…‘‘ وہ گیت تھا جسے تھر کی کوئل مائی بھاگی کی آواز میں ہر اس شخص نے بھی سنا جو معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اس زبان سے ناواقف تھا۔ مائی بھاگی کی آواز کا لوچ، ترنم اور گیت کے بولوں کے مطابق مسرت کی چہکار یا درد انگیزی ایسی ہوتی کہ سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ آج مائی بھاگی کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مائی بھاگی نے صحرائے تھر کے شہر ڈیپلو میں 1920 کے لگ بھگ آنکھ کھولی تھی۔ والدین نے بھاگ بھری نام رکھا۔ ان کے والد مقامی رسم و رواج کے مطابق شادی بیاہ، میلوں اور غم کی تقریبات میں‌ سہرے اور نوحے گاتے اور اس سے روزی روٹی کا بندوبست کرتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی کو آٹھ دس سال کی عمر ہی سے اپنے ساتھ میلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں لے جانے لگے جہاں مائی بھاگی ان کے ساتھ ڈھول بجا لیتی تھیں اور پھر فنِ گلوکاری کی طرف مائل ہوئیں جس کی تربیت اور تعلیم بھی والدین سے حاصل کی۔

    وہ بڑی ہوئیں تو والد کی اجازت سے گاؤں اور قریبی علاقوں میں‌ تقریبات پر لوک گیت اور سہرے گانے کے لیے جانے لگیں۔ تھر کی مائی بھاگی ناخواندہ اور شہری زندگی کے طور طریقوں سے ناآشنا تھیں، لیکن خداداد صلاحیتوں کی مالک مائی بھاگی نے نہ صرف ملک گیر شہرت حاصل کی بلکہ برصغیر میں‌ جہاں‌ جہاں‌ لوک موسیقی سے محبت کرنے اور اسے سمجھنے والے موجود ہیں، مائی بھاگی کو سنا اور سراہا گیا۔ وہ اپنی سادہ دلی اور انکساری کی وجہ سے بھی لوگوں‌ کے دلوں میں‌ جگہ پاتی تھیں‌ اور انھیں بہت عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ سولہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوتھی فقیر سے ہوگئی تھی جو تھرپارکر کے ضلع اسلام کوٹ کے مشہور لوک فن کار تھے۔

    مائی بھاگی نے جلد ہی اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھنیں بھی خود مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ انھوں نے ڈھاٹکی، مارواڑی اور سندھی زبانوں کے گیتوں کو اپنی آواز دی۔ مائی بھاگی نے تھر کے ایک اور مشہور گلوکار استاد مراد فقیر کے ساتھ بھی سرائیکی، مارواڑی، سندھی زبانوں‌ کے لوک گیت گائے۔

    ان کی قسمت کا ستارہ 1963 میں اس وقت چمکا جب انھوں نے اپنے والد کے ساتھ ماروی کے میلے میں کئی قابلِ ذکر اور بڑی شخصیات کے درمیان اپنی آواز کا جادو جگایا اور تھر کی اس آواز نے حاضرین کو مسحور کر دیا۔ وہاں ریڈیو پاکستان حیدرآباد سینٹر کی ٹیم بھی موجود تھی جس نے مائی بھاگی کی آواز کو ریکارڈ کرلیا اور بعد میں جب ریڈیو پر سامعین نے انھیں سنا تو مائی بھاگی کی شہرت ہر طرف پھیل گئی۔ تب 1966 میں ریڈیو پاکستان کے لیے مائی بھاگی کی آواز میں چند لوک گیت ریکارڈ کروائے گئے اور وہ ملک گیر شہرت یافتہ گلوکاروں کی صف میں‌ آ کھڑی ہوئیں۔

    مائی بھاگی نے جب شاہ کار لوک گیت ’’کھڑی نیم کے نیچے…..‘‘ گایا تو ہر طرف ان کی دھوم مچ گئی۔ بعد میں ریڈیو پر ان کے متعدد گیت نشر ہوئے اور جلد ہی صحرا کی یہ گلوکارہ کراچی میں پی ٹی وی پر نظر آئی۔ پہلی مرتبہ لوگوں نے مائی بھاگی کو اسکرین پر دیکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لیے درجنوں گیت گانے والی مائی بھاگی کو سندھ میں ہونے والی مختلف موسیقی کی محفلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی مدعو کیا جاتا تھا اور وہ عام لوگوں‌ میں بھی خاصی مقبول تھیں-

    9 جولائی 1986 کو مائی بھاگی فریضۂ حج کی ادائیگی کے لیے حجاز کو روانہ ہونے والی تھیں، مگر 7 جولائی کو ان کی سانسوں کی مالا ہی ٹوٹ گئی اور انھیں دوسروں کے کاندھے پر اپنی آخری آرام گاہ کا سفر طے کرنا پڑا۔

    حکومتِ پاکستان نے مائی بھاگی کو تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    شاہ کار کہانیوں کے خالق موپساں کے سفرِ زیست کی کہانی

    یہ فلابیئر تھا جس نے موپساں کو موپساں بنایا۔ 17 برس کے موپساں کو اس کی ماں نے بلند پایہ ادیب فلابیئر کے سپرد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس کے بیٹے کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور پھر موپساں نے ایک مصنّف اور افسانہ نگار کے طور پر دنیا بھر میں شہرت پائی۔ آج انیسویں صدی کے اسی مصنّف کا یومِ‌ وفات ہے۔ موپساں کو جدید مختصر افسانے کا باوا آدم بھی کہا جاتا ہے۔

    ہنری رینے گائے ڈی موپساں (Henri Rene Guy de Maupassant) 5 اگست 1850ء کو فرانس میں نارمنڈی میں‌ پیدا ہوا۔ اس نے فقط 42 سال کی عمر پائی اور 1893ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گیا۔ موپساں کے والدین اس وقت ہمیشہ کے لیے اپنے ازدواجی تعلق سے آزاد ہوگئے تھے جب ان کا بیٹا 11 سال کا تھا۔ موپساں اپنی ماں کے ساتھ رہنے لگا جو ایک آزاد خیال اور شعر و ادب کی دلدادہ عورت تھی۔ اس کا باپ اسٹاک بروکر تھا، لیکن وہ حسِ لطیف سے محروم اور ادبی مذاق کا حامل نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ جوڑا زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکا اور موپساں کی ماں نے طلاق لے لی۔

    نقّادوں کے مطابق موپساں نے جدید افسانے میں حقیقت نگاری اور نیچرل ازم کو متعارف کروایا۔ اس کی کہانیوں اور اسلوب کو اس کے خورد معاصرین نے بھی سراہا اور اپنایا۔ اس نے کہانی لکھنے کا فن فلابیئر سے سیکھا تھا جو ایک زبردست تخلیق کار تھا۔ اسلوب کی چاشنی، آغاز سے انجام تک ناول میں قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کا فن اور وہ سب جو کسی بھی تحریر یا کہانی کو انفرادیت بخش سکتا ہے، سب فلابیئر کی صحبت میں‌ ممکن ہوا تھا۔ اس نے فکری اور عملی طور پر اپنے شاگرد کی بہترین خطوط پر تربیت کی تھی اور فلابیئر کے ساتھ رہتے ہوئے موپساں کو اس زمانے کے کئی اہم اور قابلِ‌ ذکر ادیبوں اور شعرا سے ملنے اور ان کی گفتگو سننے کا موقع بھی ملتا تھا جس سے اس نے بہت کچھ سیکھا۔

    موپساں کا بچپن دیہاتی ماحول میں گزرا تھا۔ وہ جنگل، دریا اور خوب صورت نظّاروں کے درمیان وقت گزارتے ہوئے بڑا ہوا۔ اس ماحول نے موپساں کی طبعِ حساس کو باریک بیں بنا دیا اور مشاہدے کی قوّت عطا کی جس سے اس نے اپنے تخلیقی سفر میں بھی بہت مدد لی۔ وہ سمندر کا شناور بھی تھا، اسے کشتی رانی اور مچھلیوں کے شکار کا شوق تھا۔ اس کے ساتھ ادب کے مطالعے کا عادی بھی اور فلابیئر کی صحبت میں جب اس نے گریجویشن کیا تو اس وقت تک ادب اور صحافت کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز بھی کرچکا تھا۔ وہ ناول اور افسانہ نگاری کی طرف آیا تو 1880ء کی دہائی میں اس کا تخلیقی سفر عروج پر تھا۔

    موپساں کے ناول اور کہانیوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھا جنھوں نے اس زمانے میں شہرت اور نام ہی نہیں کمایا بلکہ دولت بھی ان کے حصّے میں آئی۔ بدقسمتی سے وہ جنسی بے راہ روی کا شکار تھا۔ ایک مرض لاحق ہونے کے بعد موپساں تیزی سے موت کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

    انیسویں صدی کے اس مشہور ادیب نے قلمی ناموں سے بھی کہانیاں لکھیں۔ موپساں کے افسانوں کے متعدد مجموعے اس کی زندگی ہی میں اشاعت پذیر ہوئے۔ اس کے ناولوں اور 60 سے زائد کہانیوں کو عالمی ادب میں شاہ کار کہا جاتا ہے۔

  • طلعت حسین کو ’’عالی جاہ‘‘ بنانے والے حمید کاشمیری کا تذکرہ

    طلعت حسین کو ’’عالی جاہ‘‘ بنانے والے حمید کاشمیری کا تذکرہ

    حمید کاشمیری پاکستان کے صفِ اوّل کے ادیب تھے جو افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ ٹیلی ویژن کے ان ڈرامہ نویسوں میں‌ سے ایک تھے جو بے حد مقبول ہوئے اور پی ٹی وی کے سنہرے دور کی یادگار ہیں۔

    یکم جون 1930ء کو بانسرہ گلی، مری میں پیدا ہونے والے حمید کاشمیری نے نوجوانی میں کراچی کا رخ کیا اور صدر کے علاقے میں ایک فلیٹ میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں انھوں نے زیبُ‌ النساء (الفسٹن اسٹریٹ) مارکیٹ میں ایک بک اسٹال کھول لیا۔ ان کا یہ بک اسٹال بعد میں کتابوں کا مرکز بن گیا اور پھر وہ وقت آیا جب حمید کاشمیری شہر بھر کے تخلیق کاروں اور فن کاروں میں‌ اپنی علم دوستی کے لیے مشہور ہوگئے۔ ان کی دکان پر فن و ادب سے وابستہ شخصیات محفل سجانے لگیں اور پاکستان بھر سے شعرا، ادیب اور فن کار کراچی آتے تو یہاں پہنچتے اور سب سے ملاقات کرتے تھے۔

    حمید کاشمیری اس وقت تک اپنا تخلیقی سفر شروع کرچکے تھے اور افسانہ اور ناول نگاری کے ساتھ ڈرامہ نویسی میں اپنا نام اور مقام بنا لیا تھا۔

    ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’دیواریں‘‘ 1965ء میں اور دوسرا 1993ء میں ’’سرحدیں‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ انھوں نے پندرہ سے زائد ناول لکھے۔ ’’ادھورے خواب‘‘، ’’کشکول‘‘، ’’پہلا آدمی‘‘ اور ’’رگِ گل‘‘ ان کے مشہور ناول ہیں۔ حمید کاشمیری نے اپنے بہت سے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اور ڈرامہ سیریل تحریر کیے۔ ’’کشکول‘‘ ان کا ایسا سیریل تھا، جس میں طلعت حسین ’’عالی جاہ‘‘ کا کردار نبھا کر خوب شہرت سمیٹی جب کہ شکستِ آرزو بھی وہ ڈرامہ تھا جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اس کے علاوہ اعتراف، پاداش، رنگِ حنا، گریز، ہفت آسماں، روزنِ زندان اور پت جھڑ کے بعد ان کے کام یاب ترین ڈرامے تھے۔

    حمید کاشمیری نے ریڈیو اور اسٹیج کے لیے بھی ڈرامے لکھے۔ 6 جولائی 2003ء کو انھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    وہ مختلف اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے جن حرّیت، مساوات، نصرت اور نگار شامل ہیں۔ ان کے کالم قارئین میں بے مقبول تھے۔ حمید کاشمیری کو 1973ء میں ان کے ڈرامے پت جھڑ کے بعد پر عالمی ڈرامہ فیسٹیول میں انعام دیا گیا۔ اس کے علاوہ پاکستان رائٹرز گلڈ، نگار اور 2002ء میں اے آر وائی گولڈ انعام بھی دیا گیا تھا۔

  • سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی زبان و ادب اور مرزا قلیچ بیگ

    سندھی ادب اور زبان کے ایک محسن اور بڑے خدمت گار مرزا قلیچ بیگ آج بہی کے دن 1929 کو وفات پاگئے تھے۔ مرزا قلیچ بیگ نے مختلف موضوعات پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ انھوں‌ نے ڈرامہ نویسی کے علاوہ ولیم شیکسپیئر سمیت مختلف غیر ملکی ادیبوں‌ کی کہانیوں‌ کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا اور علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام بنایا۔

    مرزا قلیچ بیگ کے تحریر کردہ ڈراموں کی تعداد 32 ہے جن میں‌ رومانوی، تاریخی، سماجی مسائل سمیت دیگر موضوعات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مرزا قلیچ بیگ نے 1880 میں پہلا ڈرامہ’’ لیلیٰ مجنوں‘‘ ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا تھا جب کہ ان کا آخری ڈرامہ’’موہنی‘‘ تھا جو 1924 میں ہندی سے سندھی زبان میں ترجمہ کیا۔

    پی ٹی وی پر مرزا قلیچ بیگ کے دو ناول جن میں زینت اور گلن واری چوکری (پھولوں والی لڑکی) شامل ہیں، کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ناظرین کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انھوں نے مزاحیہ انداز میں بھی ڈرامے لکھے۔

    مرزا قلچ بیگ کے آبا و اجداد کا تعلق جارجیا سے تھا، جو کسی زمانے میں سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ ان کے والد نومسلم تھے اور ایک غلام کی حیثیت سے سندھ لائے گئے تھے جہاں 4 اکتوبر 1853ء کو ان کے گھر مرزا قلیچ بیگ کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم خانگی تھی اور بعد میں‌ مکتب اور پھر ایک اسکول میں داخلہ لیا۔ انھوں نے سندھی زبان سمیت فارسی اور عربی بھی سیکھی۔ 1872ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے الفنسٹن کالج بمبئی میں داخلہ لے لیا۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ واپس لوٹے۔ اس عرصہ میں‌ وہ ترکی، انگریزی اور روسی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں‌ سیکھ چکے تھے۔

    1879 میں ریونیو محکمے میں ہونے والے امتحان میں شریک ہوئے اور کام یابی کے بعد ہیڈ منشی بھرتی ہوئے۔ 1891 میں ایک امتحان پاس کرکے سٹی مجسٹریٹ کے عہدے پر تقرری حاصل کی اور بعد میں سندھ کے کئی اضلاع میں ڈپٹی کلکٹر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران وہ اپنے علمی اور ادبی مشاغل اور تصنیف و ترجمہ کا شوق بھی پورا کرتے رہے۔

    مرزا قلیچ بیگ نے آٹھ مختلف زبانوں میں 457 کتابیں تصنیف و تالیف اور تراجم کیے۔ ان کی کتب تاریخ، لطیفیات، شاعری، بچوں کا ادب، تنقید، سائنس کے علاوہ دیگر موضوعات پر تھیں۔ انھوں نے’’ زینت‘ ‘کے عنوان سے ناول لکھا جو پہلا سندھی ناول کہلاتا ہے۔ انھوں نے سندھی ادب سے متعلق 385 کتابیں لکھیں اور خطاب و القاب سے نوازے گئے۔

  • لاہور کی نواحی بستی نیاز بیگ کے سکّے دار کا تذکرہ

    لاہور کی نواحی بستی نیاز بیگ کے سکّے دار کا تذکرہ

    "سِکّے دار کا نام جب ہم بچپن میں بطور کہانی نویس، اخبارات کے فِلمی اشتہاروں اور بڑے بڑے تشہیری بورڈوں پر پڑھا کرتے تھے تو نام کی انفرادیت متوجہ کرتی تھی۔ اسکول کے زمانے میں فلمیں دیکھنا شروع کیں تو معلومات میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ سکےّ دار نہ صرف ایک کام یاب فلمی مصنّف ہیں بلکہ ایک مشّاق اداکار بھی ہیں اور سر منڈے ہندو بنیے کا کردار تو گویا اُن کی گُھٹی میں پڑا ہوا تھا۔”

    معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار نے سکّے دار کی خود نوشت سوانح عمری ’ ہُوک‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ سطور رقم کی تھیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں: "جن لوگوں نے فلم ’جبرو‘ میں آتما رام اور فلم ’ ملنگی ‘ میں رُلیا رام‘ کے کردار دیکھے ہیں وہ سکےّ دار کی اداکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔”

    لاہور کی نواحی بستی نیاز بیگ میں تقسیمِ ہند سے کچھ وقت پہلے شروع ہونے والی سکےّ دار کی یہ آپ بیتی لاہور سے ہوتی ہوئی بمبئی تک پہنچتی ہے اور آخر میں ہمیں یورپ کی جھلک بھی دکھاتی ہے۔

    سکّے دار کا اصل نام ملک رحیم خان تھا، لیکن وہ دورانِ گفتگو اپنی بات کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کثرت سے ’سکے بند‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے اور یہی ان کے نام کا حصّہ بن گیا۔ وہ 1927 میں‌ پیدا ہوئے تھے اور 3 جولا‎ئی 2006 کو لاہور ہی میں‌ ہمیشہ کے لیے ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    سکّے دار نے فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا تو کہانیاں اور مکالمے ہی نہیں شاعری بھی کی۔ جبرو وہ فلم تھی جو برطانوی راج میں‌ ایک واقعے پر مبنی تھی اور اسے رجحان ساز فلم کہا جاتا ہے اور اس کی کہانی اور جان دار مکالمے سکّے دار کے قلم سے نکلے تھے۔ اس فلم کو 6 جولائی 1956ء کو نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔ سکّے دار نے چند فلموں کے لیے گیت نگاری بھی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت پنجابی فلموں‌ کی کہانیاں اور مکالمے تھے۔ ان کی میگا ہٹ فلم میں سے ایک فلم کا نام انورا جو 1970ء میں‌ نمائش پذیر ہوئی، اس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی منائی تھی۔ اس فلم میں‌ نغمہ، اعجاز، سلونی، سلطان راہی، منور ظریف جیسے مشہور اور باکمال اداکاروں‌ نے کام کیا تھا۔

    آج بہت کم لوگ رحیم سکّے دار کے نام اور ان کے کام سے واقف ہیں۔ انھوں نے اپنی آپ بیتی کے علاوہ مشہور فلمی شاعر تنویر نقوی کی شخصیت اور فن پر بھی کتاب لکھی تھی۔

  • آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    آج معروف اداکار حسام قاضی کی برسی ہے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار حسام قاضی 3 جولائی 2004 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں‌ دل کا دورہ پڑا تھا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ آج اس اداکار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    1961 میں‌ پیدا ہونے والے حسام قاضی کا تعلق کوئٹہ سے تھا۔ انھوں نے بیالیس سال کی عمر پائی۔ اپنے فنی کیریئر کا آغاز ڈراما "خالی ہاتھ” سے کرنے والے حسام قاضی کو کاظم پاشا کے ڈراما سیریل "چھاؤں” سے پاکستان بھر میں شہرت ملی۔

    حسام قاضی نے زمانہ طالبِ علمی میں‌ اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹر کرنے کے بعد کوئٹہ کے ایک کالج میں لیکچرار مقرر ہوئے اور تدریسی مصروفیات کے ساتھ اداکاری کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ حسام قاضی پی ٹی وی کوئٹہ مرکز کے ان اداکاروں میں سے ایک تھے جنھیں اپنے کرداروں کے سبب ملک گیر شناخت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔

    حسام قاضی کے مشہور ڈرامہ سیریلوں میں ماروی، ایمرجنسی وارڈ، کشکول شامل ہیں۔ ان کی آخری زیر تکمیل ڈرامہ سیریل ’’مٹی کی محبت‘‘ تھی۔

    سنہ 2000 میں‌ حسام قاضی کو دل کے عارضے کی تشخیص ہوئی تھی، تاہم ضروری علاج اور دیکھ بھال کے بعد وہ طبیعت میں‌ بتدریج بہتری محسوس کررہے تھے۔ انھوں نے آرام کی غرض سے کالج میں اپنی ذمہ داریوں‌ سے طویل رخصت لے رکھی تھی اور اپنے کنبے کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں‌ آخری سانس تک قیام پذیر رہے۔

    حسام قاضی نے ٹیلی ویژن پر اپنے وقت کے بڑے اور سینئر اداکاروں کے ساتھ کام کیا تھا۔ دھیما لہجہ، خوب صورت آواز اور عمدہ پرفارمنس ناظرین میں حسام قاضی کی مقبولیت کا سبب تھی۔ پی ٹی وی کے ناظرین نے خاص طور پر ڈرامہ ماروی میں‌ ان کی پرفارمنس کو بے حد پسند کیا تھا۔